At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ٱنفِرُوا۟ خِفَافًۭا وَثِقَالًۭا وَجَٰهِدُوا۟ بِأَمْوَٰلِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌۭ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾
“Go forth to war, whether it be easy or difficult [for you], and strive hard in God's cause with your possessions and your lives: this is for your own good -if you but knew it!”
مدینہ کے منافقین میں ایک طبقہ کم زور عقیدہ کے مسلمانوں كا تھا۔ انھوں نے اسلام کو حق سمجھ کر اس کا اقرار کیا تھا۔ وہ اسلام کی ان تعلیمات پر عمل کرتے تھے جو ان کی دنیوی مصلحتوں کے خلاف نہ ہوں ۔ مگر جب اسلام کا تقاضا ان کے دنیوی تقاضوں سے ٹکراتا تو ایسے موقع پر وہ اسلامی تقاضے کو چھوڑ کر اپنے دنیوی تقاضے کو پکڑ لیتے۔ مدینہ کے معاشرہ میں مومن اس شخص کانام تھا جو قربانی کی سطح پر اسلام کو اختیار كيے ہوئے ہو اور منافق وہ تھا جو اسلام کی خاطر قربانی کی حد تک جانے کے لیے تیار نہ ہو۔ تبوک کا معاملہ ایک علامتی تصویر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی نظر میں مومن کون ہوتاہے اور منافق کون۔ اس موقع پر روم جیسی بڑی اور منظم طاقت سے مقابلہ کے ليے نكلنا تھا۔ زمانه شديد گرمي كا تھا۔ فصل بالكل كاٹنے كے قريب پهنچ چكي تھي۔ هر قسم كي ناسازگاري كا مقابله كرتے ہوئے شام کی دوردراز سرحد پر پہنچناتھا۔ پھر مسلمانوں میں سامان والے تھے اور کچھ بے سامان والے۔ کچھ آزاد تھے اور کچھ اپنے حالات میں گھرے ہوئے تھے۔ مگر حکم ہوا کہ ہر حال میں نکلو، کسی بھی چیز کو اپنے ليے عذر نہ بناؤ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے یہاں اصل مسئلہ مقدار کا نہیں ہوتا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اس کو پیش کردے۔ یہی دراصل جنت کی قیمت ہے، خواہ وہ بظاہر دیکھنے والوں کے نزدیک کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ منافق کی خاص پہچان یہ ہے کہ اگر وہ دیکھتا ہے کہ بے مشقت سفر کرکے خدمت اسلام کا ایک بڑا کریڈٹ مل رہا ہے تو وہ فوراً ایسے سفر کے ليے تیار ہوجاتاہے۔ اس کے برعکس، اگر ایسا سفر درپیش ہوجس میں مشقتیں ہوں اور سب کچھ کرکے بھی بظاہر کوئی عزت اور کامیابی ملنے والی نہ ہو تو ایسی دینی مہم کے ليے اس کے اندر رغبت پیدا نہیں ہوتی۔ ایک حقیقی دینی مہم سامنے ہو اور آدمی عذرات پیش کرکے اس سے الگ رہنا چاہے تو یہ صاف طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے خدا کے دین کو اپنی زندگی میں سب سے اونچا مقام نہیں دیا ہے۔ عذر پیش کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ پیش نظر مقصد کے مقابلہ میں کوئی اور چیز آدمی کے نزدیک زیادہ اہمت رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا عذر کسی آدمی کو خدا کی نظر میں بے اعتبار ثابت کرنے والا ہے، نہ یہ کہ اس کی بنا پر اس کو مقبولین کی فہرست میں شامل کیاجائے۔ منافقت دراصل خدا سے بے پروا ہو کر بندوں کی پروا کرنا ہے۔ آدمی اگر خدا کی قدرت کو جان لے تو وہ کبھی ایسا نہ کرے۔