slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 47 من سورة سُورَةُ التَّوۡبَةِ

At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ لَوْ خَرَجُوا۟ فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًۭا وَلَأَوْضَعُوا۟ خِلَٰلَكُمْ يَبْغُونَكُمُ ٱلْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّٰعُونَ لَهُمْ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِٱلظَّٰلِمِينَ ﴾

“Had these [hypocrites] set out with_ you, [O believers,] they would have added nothing to you save the evil of corruption, and would surely have scurried to and fro in your midst, seeking to stir up discord among you, seeing that there are in your midst such as would have lent them ear: but God has full knowledge of the evildoers.”

📝 التفسير:

دین کو اختیار کرنا ایک مخلصانہ ہوتا ہے اور دوسرا منافقانہ۔ مخلصانہ طورپر دین کو اختیار کرنا یہ ہے کہ دین کے مسئلہ کو آدمی اپنی زندگی کا مسئلہ بنائے، اپنی زندگی اور اپنے مال پر وہ سب سے زیادہ دین کا حق سمجھے۔ اس کے برعکس، منافقانہ طورپر دین کو اختیار کرنا یہ ہے کہ دین سے بس رسمی اور ظاہری تعلق رکھا جائے۔ دین کو آدمی اپنی زندگی میں یہ مقام نہ دے کہ اس کے ليے وہ وقف ہوجائے اور ہر قسم کے نقصان کا خطرہ مول لے کر اس کی راہ میں آگے بڑھے۔ اپنی غلطی کو ماننا اپنے کو دوسرے کے مقابلہ میں کمتر تسلیم کرنا ہے اور اس قسم کا اعتراف کسی آدمی کے ليے مشکل ترین کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے موقف کو صحیح ثابت کردے۔ چنانچہ منافقانہ طورپر اسلام کو اختیار کرنے والے ہمیشہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی موقع ملے تو مخلص مومنوں کو مطعون کریں اور ان کے مقابلہ میں اپنے آپ کو زیادہ درست ثابت کرسکیں ۔ مدینہ کے منافقین مسلسل اس کوشش میں رہتے تھے۔ مثلاً غزوۂ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو مدینہ میں بیٹھ رہنے والے منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ ان کو معاملات جنگ کا تجربہ نہیں ہے۔ انھوں نے جو ش کے تحت اقدام کیا اور ہماری قوم کے جوانوں کو غلط مقام پر لے جاکر خواہ مخوا کٹوا دیا۔ انسانوں میں کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مسائل کا گہرا تجزیہ کرسکیں اور اس حقیقت کو جانیں کہ کسی بات کا قواعدِ زبان کے اعتبار سے صحیح الفاظ میں ڈھل جانااس کا كافي ثبوت نہیں ہے کہ وہ بات معنی کے اعتبار سے بھی صحیح ہوگی۔ بیشتر لوگ سادہ فکر کے ہوتے ہیں اور کوئی بات خوبصورت الفاظ میں کہی جائے تو وه بہت جلد اس سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ اس بنا پر کسی مسلم گروہ میں منافق قسم کے افراد کی موجودگی ہمیشہ اس گروہ کی کمزوری کا باعث ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں اکثر ایسا کرتے ہیں کہ باتوں کو غلط رخ دے کر ان کو اپنے مفید مطلب رنگ میں بیان کرتے ہیں ۔ اس سے سادہ فکر کے لوگ متاثر ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر غیر ضروری طور پر شبہ اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ منافقین کی مخالفانه کوششوں کے باوجود جب بدر کی فتح ہوئی تو عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے کہا: هَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّهَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4566)۔ یعنی یہ چیز تو اب چل نکلی۔ اسلام کا غلبہ ظاہر ہونے کے بعد انھیں اسلام کی صداقت پر یقین کرنا چاہيے تھا مگر اس وقت بھی انھوں نے اس سے حسد کی غذا لی۔