At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ لَقَدِ ٱبْتَغَوُا۟ ٱلْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُوا۟ لَكَ ٱلْأُمُورَ حَتَّىٰ جَآءَ ٱلْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ ٱللَّهِ وَهُمْ كَٰرِهُونَ ﴾
“Indeed, even before this time have they tried to stir up discord and devised all manner of plots against thee, [O Prophet,] until the truth was revealed and God's will became manifest, however hateful this may have been to them.”
دین کو اختیار کرنا ایک مخلصانہ ہوتا ہے اور دوسرا منافقانہ۔ مخلصانہ طورپر دین کو اختیار کرنا یہ ہے کہ دین کے مسئلہ کو آدمی اپنی زندگی کا مسئلہ بنائے، اپنی زندگی اور اپنے مال پر وہ سب سے زیادہ دین کا حق سمجھے۔ اس کے برعکس، منافقانہ طورپر دین کو اختیار کرنا یہ ہے کہ دین سے بس رسمی اور ظاہری تعلق رکھا جائے۔ دین کو آدمی اپنی زندگی میں یہ مقام نہ دے کہ اس کے ليے وہ وقف ہوجائے اور ہر قسم کے نقصان کا خطرہ مول لے کر اس کی راہ میں آگے بڑھے۔ اپنی غلطی کو ماننا اپنے کو دوسرے کے مقابلہ میں کمتر تسلیم کرنا ہے اور اس قسم کا اعتراف کسی آدمی کے ليے مشکل ترین کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے موقف کو صحیح ثابت کردے۔ چنانچہ منافقانہ طورپر اسلام کو اختیار کرنے والے ہمیشہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی موقع ملے تو مخلص مومنوں کو مطعون کریں اور ان کے مقابلہ میں اپنے آپ کو زیادہ درست ثابت کرسکیں ۔ مدینہ کے منافقین مسلسل اس کوشش میں رہتے تھے۔ مثلاً غزوۂ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو مدینہ میں بیٹھ رہنے والے منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ ان کو معاملات جنگ کا تجربہ نہیں ہے۔ انھوں نے جو ش کے تحت اقدام کیا اور ہماری قوم کے جوانوں کو غلط مقام پر لے جاکر خواہ مخوا کٹوا دیا۔ انسانوں میں کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مسائل کا گہرا تجزیہ کرسکیں اور اس حقیقت کو جانیں کہ کسی بات کا قواعدِ زبان کے اعتبار سے صحیح الفاظ میں ڈھل جانااس کا كافي ثبوت نہیں ہے کہ وہ بات معنی کے اعتبار سے بھی صحیح ہوگی۔ بیشتر لوگ سادہ فکر کے ہوتے ہیں اور کوئی بات خوبصورت الفاظ میں کہی جائے تو وه بہت جلد اس سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ اس بنا پر کسی مسلم گروہ میں منافق قسم کے افراد کی موجودگی ہمیشہ اس گروہ کی کمزوری کا باعث ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں اکثر ایسا کرتے ہیں کہ باتوں کو غلط رخ دے کر ان کو اپنے مفید مطلب رنگ میں بیان کرتے ہیں ۔ اس سے سادہ فکر کے لوگ متاثر ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر غیر ضروری طور پر شبہ اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ منافقین کی مخالفانه کوششوں کے باوجود جب بدر کی فتح ہوئی تو عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے کہا: هَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّهَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4566)۔ یعنی یہ چیز تو اب چل نکلی۔ اسلام کا غلبہ ظاہر ہونے کے بعد انھیں اسلام کی صداقت پر یقین کرنا چاہيے تھا مگر اس وقت بھی انھوں نے اس سے حسد کی غذا لی۔