At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَٰلُهُمْ وَلَآ أَوْلَٰدُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَٰفِرُونَ ﴾
“Let not, then, their worldly goods or [the happiness which they may derive from] their children excite thy admiration: God but wants to chastise them by these means in this worldly life, and [to cause] their souls to depart while they are [still] denying the truth.”
مدینہ میں یہ صورت پیش آئی کہ عمومی طورپر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان میں اکثریت مخلص اہل ایمان کی تھی تاہم ایک تعداد وہ تھی جس نے وقت کی فضا کا ساتھ دیتے ہوئے اگرچہ اسلام قبول کرلیا تھا لیکن اس کے اندر وہ سپردگی پیدا نہیں ہوئی تھی جو حقیقی ایمان اور سچے تعلق باللہ کا تقاضا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو منافقین کہاجاتا ہے۔ يه منافقین زیادہ تر مدینہ کے مال دار لوگ تھے اور یہی مال داری ان کے نفاق کا اصل سبب تھی۔ جس کے پاس کھونے کے ليے کچھ نہ ہو وہ زیادہ آسانی کے ساتھ اسلام کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے جس میں اپنا سب کچھ کھو دینا پڑے۔ مگر جن لوگوں کے پاس کھونے کے ليے ہو وہ عام طورپر مصلحت اندیشی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اسلام کے بے ضرر احکام کی تعمیل تو وہ کسی نہ کسی طرح کرلیتے ہیں ۔ مگر اسلام کے جن تقاضوں کو اختیار کرنے میں جان ومال کی محرومی دکھائی دے رہی ہو، جس میں قربانی کی سطح پر مومن بننے کا سوال ہو، ان کی طرف بڑھنے کے ليے وہ اپنے کو آمادہ نہیں کر پاتے۔ مگر قربانی والے اسلام سے پیچھے رہنا ان کے ’’نماز روزہ‘‘ کو بھی بے قیمت کردیتا ہے۔ مسجد کی عبادت کا بہت گہرا تعلق مسجدکے باہر کی عبادت سے ہے۔ اگر مسجد سے باہر آدمی کی زندگی حقیقی دین سے خالی ہو تو مسجد کے اندر بھی اس کی زندگی حقیقی دین سے خالی ہوگی اور ظاہر ہے کہ بے روح عمل کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ۔ خدا سچے عمل کو قبول کرتا ہے، نہ کہ جھوٹے عمل کو۔ کسی آدمی کے پاس دولت کی رونقیں ہوں اور آدمیوں کا جـتھا اس کے گردو پیش دكھائی دیتا ہو تو عام لوگ اس کو رشک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ سب سے زیادہ بدقسمت لوگ ہیں ۔ عام طور پر ان کا جو حال ہوتا ہے وہ یہ کہ مال وجاہ ان کے ليے ایسے بندھن بن جاتے ہیں کہ وہ خدا کے دین کی طرف بھر پور طور پر نہ بڑھ سکیں ۔ وہ خدا کو بھول کر ان میں مشغول رہیں یہاں تک کہ موت آجائے اور وه بے رحمی کے ساتھ ان کو ان کے مال و جاہ سے جدا کردے۔