At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا۟ مَآ ءَاتَىٰهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَقَالُوا۟ حَسْبُنَا ٱللَّهُ سَيُؤْتِينَا ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ وَرَسُولُهُۥٓ إِنَّآ إِلَى ٱللَّهِ رَٰغِبُونَ ﴾
“And yet, [it would be but for their own good] if they were to content themselves with what God has given them and [caused] His Apostle [to give them], and would say, "God is enough for us! God will give us [whatever He wills] out of His bounty, and [will cause] His Apostle [to give us, too]: verily, unto God alone do we turn with hope!"”
یہاں زکوٰۃ کے مصارف بتائے گئے ہیں ۔ یہ مصارف قرآن کی تصریح کے مطابق آٹھ ہیں : 1۔ فقراء جن کے پاس کچھ نہ ہو 2۔ مساکین جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو 3۔ عاملین جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات کی وصولی اور اس کے حساب کتاب پر مامور ہوں 4۔ مؤلفۃ القلوب تالیف قلب اسلام کاایک ابدی اصول ہے۔ یہ مکمل خیرخواہی کے ساتھ دل میں نرم گوشہ (soft corner)پیدا کرنے کی ایک پرامن تدبیر ہے۔ یعنی مدعو کے ساتھ اس نوعیت کا حسنِ سلوک جس سے مدعو کے دل میں اسلام کے لیے قربت پیدا ہو ، وہ معتدل ذہن کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرے، وہ کسی تعصب کے بغیر کھلے ذہن کے ساتھ اسلام کو سمجھے۔ تالیف قلب کی کوئی حد نہیں ، زکاۃ کے ذریعے مددکرنا بھی اسی نوعیت کا ایک طریقہ ہے۔ 5۔ رقاب غلاموں كو آزادي دلانے كے ليے يا اسيروں كا فديه دے كر انھيں رها كرنے كے ليے۔ 6۔ غارمین جو مقروض ہوگئے ہوں یا جن کے اوپر ضمانت کا بار ہو 7۔ سبيل اللہ وہ تمام طریقہ جو اللہ تک پہنچانے والا ہو۔ یعنی وہ تمام کوششیں جو اللہ کی اطاعت کے لیے ہوں ، اور ہر خیر کا راستہ (الطَّرِيقُ الْمُوَصِّلَةُ إِلَيْهِ تَعَالَى، فَيَدْخُل فِيهِ كُل سَعْيٍ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيل الْخَيْرِ) الموسوعة الفقهية الكويتية ، جلد 24 ، صفحہ 166- دوسرے الفاظ میں ، اسلام کی تعلیمات کو پرامن انداز میں انسانوں تک پہنچانا۔ 8۔ ابن السبیل مسافر جو حالت سفر میں ضرورت مند ہوجائے خواہ اپنے مقام پر وه مالدار ہو اجتماعی نظم کے تحت جب زکوٰۃ وصدقات کی تقسیم کی جائے تو ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو حق تلفی یا غیرمنصفانہ تقسیم کی شکایت ہوجاتی ہے۔ مگر ایسی شکایت اکثر خود شکایت کرنے والے کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ تقسیم کا ذمہ دار خواہ کتنا ہی پاکباز ہو، لوگوں کو حرص اور ان کا محدود طرز فکر بہر حال اس قسم کی شکایتیں نکال لے گا۔ مزید یہ کہ اس قسم کی شکایت سب سے زیادہ آدمی کے اپنے خلاف پڑتی ہے، وہ آدمی کے فکری امکانات کو بر روئے کار لانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ آدمی اگر شکایتی مزاج کو چھوڑ کر ایسا کرے کہ اس کو جو کچھ ملا ہے اس پر وہ راضی ہوجائے اور اپنی سب سوچ کا رخ اللہ کی طرف کرلے تو اس کے بعد یہ ہوگا کہ اس کے اندر نئی ہمت پیدا ہوگی۔ اس کے اندر چھپی ہوئی ایجابی صلاحیتیں جاگ اٹھیں گی۔ وہ ملی ہوئی رقم کو زیادہ کار آمد مصرف میں لگائے گا۔ عطیات پر انحصار کرنے کے بجائے اس کے اندر اپنے آپ پر اعتماد کرنے کا ذہن ابھرے گا۔ وہ خدا کے بھروسہ پر نئے اقتصادی مواقع کی تلاش کرنے لگے گا۔ دوسروں سے بیزاری کے بجائے دوسروں کو ساتھی بنا کر کام کرنے کا جذبہ اس کے اندر پیدا ہوگا، وغیرہ۔