slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 6 من سورة سُورَةُ التَّوۡبَةِ

At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَإِنْ أَحَدٌۭ مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ٱسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَٰمَ ٱللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُۥ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌۭ لَّا يَعْلَمُونَ ﴾

“And if any of those who ascribe divinity to aught beside God seeks thy protection, grant him protection, so that he might [be able to] hear the word of God [from thee]; and thereupon convey him to a place where he can feel secure: this, because they [may be] people who [sin only because they] do not know [the truth].”

📝 التفسير:

مہلت کے چار مہینے گزرنے کے بعد یہاں جس جنگ کا حکم دیاگیا وہ کوئی عام جنگ نہ تھی یہ خدا کے قانون کے مطابق وہ عذاب تھا جو پیغمبر کے انکار کے نتیجہ میں ان پر ظاہر کیاگیا۔ انھوں نے اتمام حجت کے باوجود خدا کے پیغمبر کا انکار کرکے اپنے کو اس کا مستحق بنا لیا تھا کہ ان کے ليے تلوار یا اسلام کے سوا کوئی اور صورت باقی نہ رکھی جائے۔ یہ خدا کا ایک خصوصی قانون ہے جس کا تعلق پیغمبر کے مخاطبین سے ہے، نہ کہ عام لوگوں سے۔ تاہم اتمام حجت کے بعد بھی اس حکم کا نفاذ اچانک نہیں کیا گیا بلکہ آخری مرحلہ میں پھر انھیں چار ماہ کی مہلت دی گئی۔ انتقام معاف کرنا نہیں جانتا۔ انتقامی جذبہ کے تحت جوکارروائی کی جائے اس کو صرف اس وقت تسکین ملتی ہے جب کہ وہ اپنے حریف کو ذلیل اور برباد ہوتے ہوئے دیکھ لے۔ مگر عرب کے مشرکین کے خلاف جو کارروائی کی گئی اس کا تعلق کسی قسم کے انتقام سے نہیں تھا بلکہ وہ سراسر حقیقت پسندانہ اصول پر مبنی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے شدید حکم کے باوجود ان کے ليے یہ گنجائش ہر وقت باقی تھی کہ وہ دین اسلام کو اختیار کرکے اپنے کو اس سزا سے بچالیں اور اسلامی برادری میں عزت کی زندگی حاصل کرلیں ۔ کسی کی توبہ کے قابل قبول ہونے کے لیے صرف دو عملی شرط کا پایا جانا کافی ہے— نماز اور زکوٰۃ۔ جنگ کے دوران میں دشمن کا کوئی فرد یہ کہے کہ میں اسلام کو سمجھنا چاہتا ہوں تو مسلمانوں کو حکم ہے کہ اس کو امان دے کر اپنے ماحول میں آنے کا موقع دیں اور اسلام کے پیغام کو اس کے دل میں اتارنے کی کوشش کریں ۔پھر بھی اگر وہ قبول نہ کرے تو اپنی حفاظت میں اس کو اس کے ٹھکانے تک پہنچا دیں ۔ عام حکم کے تحت اگرچہ وہ گردن زدنی ہے مگر ایسا نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے دین کی بات نہیں مانی ہے تو اس کو قتل کردیا جائے۔ جب کوئی شخص امان میں ہو تو امان کے دوران اس پر ہاتھ اٹھانا جائز نہیں ۔ جنگ کے زمانہ میں دشمن کو اس قسم کی رعایت دینا انتہائی نازک ہے۔ کیوں کہ عین ممکن ہے کہ دشمن کاکوئی جاسوس اس رعایت کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے اندر گھس آئے اور ان کے فوجی راز معلوم کرنے کی کوشش کرے۔ مگر اسلام کی نظر میں دعوت وتبلیغ کا مسئلہ اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس نازک خطرہ کے باوجو اس کا دروازہ بند نہیں کیا گیا۔ ایک شخص اگر بے خبری اور لاعلمی کی بنا پر ظلم کرے تو اس کا ظلم خواہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر اسی کے ساتھ ہر ممکن رعایت کی جائے گی تا وقتیکہ اس کی لاعلمی اور بے خبری ختم ہوجائے۔