At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَلَمْ يَعْلَمُوٓا۟ أَنَّهُۥ مَن يُحَادِدِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَأَنَّ لَهُۥ نَارَ جَهَنَّمَ خَٰلِدًۭا فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ ٱلْخِزْىُ ٱلْعَظِيمُ ﴾
“Do they not know that for him who sets himself against God and His Apostle there is in store the fire of hell, therein to abide -that most awesome disgrace?”
مدینہ کے منافقین اپنی نجی مجلسوں میں اسلامی شخصیتوں کا مذاق اڑاتے۔ مگر جب وہ مسلمانوں کے سامنے آتے تو قسم کھا کر یقین دلاتے کہ وہ اسلام کے وفادار ہیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان مدینہ میں طاقت ور تھے۔ وہ منافقین کو نقصان پہنچانے کی حیثیت میں تھے۔ اس ليے منافقین مسلمانوں سے ڈرتے تھے۔ اس سے منافق کے کردار کا اصل پہلو سامنے آتا ہے۔ منافق کی دین داری انسان کے ڈر سے ہوتی ہے، نہ کہ خدا کے ڈر سے۔ وہ ایسے مواقع پر اخلاق وانصاف والا بن جاتاہے جہاں انسان کا دباؤ ہو یا عوام کی طرف سے اندیشہ لاحق ہو۔ مگر جہاں اس قسم کا خطرہ نہ ہو اور صرف خدا کا ڈر ہی وہ چیز ہو جو آدمی کی زبان کو بند کرے اور اس کے ہاتھ پاؤں کو روکے تو وہاں وہ بالکل دوسرا انسان ہوتا ہے۔ اب وہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جس کو نہ با اخلاق بننے سے کوئی دل چسپی ہو اور نہ انصاف کا رویہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت۔ جو لوگ مصلحتوں میں گرفتار ہوتے ہیں اور اس بنا پر تحفظات سے اوپر اٹھ کر خدا کے دین کا ساتھ نہیں دے پاتے وہ عام طورپر معاشرہ کے صاحب حیثیت لوگ ہوتے ہیں ۔ اپنی حیثیت کو باقی رکھنے کے ليے وہ ان لوگوں کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو سچے اسلام کو لے کر اٹھے ہیں ۔ وہ ان کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کی مہم چلاتے ہیں ۔ ان کو طرح طرح سے بدنام کرنے کی تدبیريں کرتے ہیں ۔ ان کی باتوں میں بے بنیاد قسم کے اعتراضات نکالتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ بے حد سنگین بات ہے۔ یہ اہلِ ایمان کی مخالفت نہیں بلکہ خود خدا کی مخالفت ہے۔ یہ خدا کا حریف بن کر کھڑاہونا ہے۔ ایسے لوگ اگر اپنی معصومیت ثابت کرنے کے بجائے اپنی غلطی کا اقرار کرتے اور کم از کم دل سے اسلام کے داعیوں کے خیر خواہ بن جاتے تو شاید وہ قابلِ معافی ٹھہرتے۔ مگر ضد اور مخالفت کا طریقہ اختیار کرکے انھوں نے اپنے کو خدا کے دشمنوں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ اب رسوائی اور عذاب کے سوا ان کا کوئی ٹھکانا نہیں ۔ اللہ کا ڈر آدمی کے دل کو نرم کردیتاہے۔ وہ لوگوں کی بے بنیاد باتوں کو بھی خاموشی کے ساتھ سن لیتا ہے، یہاں تک کہ نادان لوگ کہنے لگیں کہ یہ تو سادہ لوح ہیں ، باتوں کی گہرائی کو سمجھتے ہی نہیں ۔