At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍۢ وَعَادٍۢ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَٰهِيمَ وَأَصْحَٰبِ مَدْيَنَ وَٱلْمُؤْتَفِكَٰتِ ۚ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَٰتِ ۖ فَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴾
“Have, then, the stories of those who preceded them never come within the ken of these [hypocrites and deniers of the truth]?-[the stories] of Noah's people, and of [the tribes of] `Ad and Thamud, and of Abraham's people, and of the folk of Madyan, and of the cities that were overthrown? To [all of] them their apostles had come with all evidence of the truth. [but they rejected them:] and so it was not God who wronged them [by His punishment], but it was they who wronged themselves.”
پہلے لوگوں کو خدا نے جاہ ومال دیا تو انھوں نے اس سے فخر اور گھمنڈ اور بے حسی کی غذا لی۔ تاہم بعد والوں نے ان کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ انھوں نے بھی دنیا کے سازوسامان سے اپنے ليے وہی حصہ پسند کیا جس کو ان کے پچھلوں نے پسند کیا تھا۔ یہی ہر دور میں عام آدمی کا حال رہاہے۔ وہ حق کے تقاضوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ مال واولاد کے تقاضے ہی اس کے نزدیک سب سے بڑی چیز ہوتے ہیں ۔ منافق کا حال بھی باعتبار حقیقت یہی ہوتاہے۔ وہ ظاہری طورپر تو مسلمانوں جیسا نظر آتا ہے مگر اس کے جینے كي سطح وہی ہوتی ہے جو عام دنیا داروں کی سطح ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بعض نمائشی اعمال کو چھوڑ کر حقیقی زندگی میں وہ ویسا ہی ہوتاہے جیسے عام دنیا دار ہوتے ہیں ۔ منافق کي قلبی دلچسپیاں دین دار کے مقابلہ میں دنیا داروں سے زیادہ وابستہ ہوتی ہیں ۔ آخرت کی مد میں خرچ کرنے سے اس کا دل تنگ ہوتا ہے مگر بے فائدہ دنیوی مشاغل میں خرچ کرنا ہو تو وہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتا ہے۔ حق کا فروغ اس کو پسند نہیں آتا البتہ ناحق کا فروغ ہو تو اس کو وہ شوق سے گوارا کرتاہے۔ ظاہری دین داری کے باوجود وہ خدا اور آخرت کو اس طرح بھولا رہتا ہے جیسے اس کے نزدیک خدا اور آخرت کی کوئی حقیقت نہیں ۔ ایسے لوگ اپنے ظاہری اسلام کی بناپر خداکی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔ دنیا میں ان کے لیے لعنت ہے اور آخرت میں ان کے ليے عذاب۔ دنیا میں بھی وہ خدا کی رحمتوں سے محروم رہیں گے اور آخرت میں بھی۔ خدا کے ساتھ کامل وابستگی ہی وہ چیز ہے جو آدمی کے عمل میں قیمت پیدا کرتی ہے۔ کامل وابستگی کے بغیر جو عمل کیا جائے، خواہ وہ بظاہر دینی عمل کیوں نہ ہو، وہ آخرت میں اسی طرح بے قیمت قرار پائے گا جیسے روح کے بغیر کوئی جسم، جو جسم سے ظاہری مشابہت کے باوجود عملاً بے قیمت ہوتا ہے۔