slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 72 من سورة سُورَةُ التَّوۡبَةِ

At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتِ جَنَّٰتٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا وَمَسَٰكِنَ طَيِّبَةًۭ فِى جَنَّٰتِ عَدْنٍۢ ۚ وَرِضْوَٰنٌۭ مِّنَ ٱللَّهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴾

“God has promised the believers, both men and women, gardens through which running waters flow, therein to abide, and goodly dwellings in gardens of perpetual bliss: but God's goodly acceptance is the greatest [bliss of all] -for this, this is the triumph supreme!”

📝 التفسير:

منافقانہ طورپر اسلام سے وابستہ رہنے والے لوگوں میں جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ ہیں آخرت سے غفلت، دنیوی ضرورتوں سے دل چسپی، بھلائی کے ساتھ تعاون سے دوری اور نمائشی کاموں کی طرف رغبت۔ ان مشترک خصوصیات کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے خوب ملے جلے رہتے ہیں ۔ یہ چیزیں ان کو مشترک دل چسپی کا موضوعِ گفتگو دیتی ہیں ۔ اس سے انھیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا میدان حاصل ہوتا ہے۔ یہ ان کے ليے باہمی تعلقات کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی معاملہ ایک اور شکل میں سچے اہل ایمان کاہوتاہے۔ ان کے دل میں خدا کی لگن لگی ہوئی ہوتی ہے۔ ان کو سب سے زیادہ آخرت کی فکر ہوتی ہے۔ وہ دنیا کی چیزوں سے بطور ضرورت تعلق رکھتے ہیں نہ کہ بطور مقصد، خدا کی پسند کا کام ہورہا ہو تو ان کا دل فوراً اس کی طرف کھینچ اٹھتا ہے۔ برائی کا کام ہو تو اس سے ان کی طبیعت اِبا کرتی ہے۔ ان کی زندگی اور ان کا اثاثہ سب سے زیادہ خدا کے ليے ہوتا ہے، نہ کہ اپنے ليے۔ وہ خدا کی یاد کرنے والے اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ اہل ایمان کے یہ مشترک اوصاف انھیں ایک دوسرے سے قریب کردیتے ہیں ۔ سب کی دوڑ خدا کی طرف ہوتی ہے۔ سب کی اطاعت کا مرکز خدا کا رسول ہوتا ہے۔ جب وہ ملتے ہیں تو یہی وہ باہمی دلچسپی کی چیزیں ہوتی ہیں جن پر وہ بات کریں ۔انھیں اوصاف کے ذریعہ وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں ۔ اسی کی بنیاد پر ان کے آپس کے تعلقات قائم ہوتے ہیں ۔ اسی سے انھیں وہ مقصد ہاتھ آتا ہے جس کے ليے وہ متحدہ کوشش کریں ۔ اسی سے ان کو وہ نشانہ ملتاہے، جس کی طرف سب مل کر آگے بڑھیں ۔ دنیا میں اہلِ ایمان کی زندگی ان کی آخرت کی زندگی کی تمثیل ہے۔ دنیا میں اہل ایمان اس طرح جیتے ہیں جیسے ایک باغ میں بہت سے شاداب درخت کھڑے ہوں ۔ ہر ایک دوسرے کے حسن میں اضافہ کررہا ہو۔ ان درختوں کو فیضانِ خداوندی سے نکلنے والے آنسو سیراب کررہے ہوں ۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا اس طرح خیرخواہ اور ساتھی ہو کہ پورا ماحول امن وسکون کا گہوارہ بن جائے۔ یہی ربانی زندگی آخرت میں جنتی زندگی میں تبدیل ہوجائے گی۔ وہاں آدمی نہ صرف اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹے گا بلکہ خدا کی خصوصی رحمت سے ایسے انعامات پائے گا جن کا اس سے پہلے اس نے تصور نہیں کیا تھا۔