At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا۟ عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا۟ فِيكُمْ إِلًّۭا وَلَا ذِمَّةًۭ ۚ يُرْضُونَكُم بِأَفْوَٰهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَٰسِقُونَ ﴾
“How [else could it be]? -since, if they [who are hostile to you] were to overcome you, they would not respect any tie [with you,] nor any obligation to protect [you]. They seek to please you with their mouths, the while their hearts remain averse [to you]; and most of them are iniquitous.”
مسلمانوں کو جب زور حاصل ہوگیا تو قریش نے ان سے معاہدے کرليے۔ تاہم وہ ان معاہدوں سے خوش نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنے ’’دشمن‘‘ سے یہ معاہدہ انھوں نے اپنی بربادی کی قیمت پر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت اس انتظار میں رہتے تھے کہ جہاں موقع ملے معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں یا کم ازکم انھیں بدنام کریں ۔ ظاہر ہے کہ جب ایک فریق کی طرف سے اس قسم کی خیانت کا مظاہرہ ہو تو دوسرے فریق کے ليے کسی معاہدہ کی پابندی ضروری نہیں رہتی۔ یہ قریش کا حال تھا ،جن کو مسلمانوں کے عروج میں اپنی قیادت چھنتی ہوئی نظرآتی تھی۔ تاہم کچھ دوسرے عرب قبائل (بنو کنانہ، بنو خزاعہ، بنو ضمرہ) جو اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا نہ تھے، انھوں نے مسلمانوں سے معاہدے كيے اور اپنے معاہدے پر قائم رہے۔ جب چار ماہ کی مہلت کا اعلان کیاگیا تو ان کے معاہدہ کی میعاد پوری ہونے میں تقریباً نومہینے باقی تھے۔ حکم ہوا کہ ان سے معاہدہ کو آخر وقت تک باقی رکھو، کیوں کہ تقویٰ کا تقاضا یہی ہے۔ مگر اس مدت کے ختم ہونے کے بعد پھر کسی سے اس قسم کا معاہدہ نہیں کیا گیا اور تمام مشرکین کے سامنے صرف دو صورتیں باقی رکھی گئیں یا اسلام لائیں یا جنگ کے ليے تیار ہوجائیں ۔ معاشرتی زندگی کی بنیاد ہمیشہ دو چیزوں پر ہوتی ہے— رشتہ داری یا قول وقرار۔ جن سے رحمی رشتے ہیں ان کے حقوق کا لحاظ آدمی رحمی رشتوں کی بنیاد پر کرتاہے۔ اور جن سے قول وقرار ہوچکا ہے ان سے قول وقرار کی بنا پر۔ مگر جب آدمی کے اوپر دنیا کے مفاد اور اس کی مصلحت کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ دونوں باتوں کو بھول جاتاہے۔ وہ اپنے حقیر فائدہ کی خاطر رحمی حقوق کو بھی بھول جاتا ہے اور قول وقرار کو بھی۔ ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں ۔ وہ خدا کی نظر میں مجرم ہیں ۔ دنیا میں اگر وہ چھوٹ گئے تو آخرت میں وہ خدا کی پکڑ سے بچ نہ سکیں گے۔ إلاّ یہ کہ وہ توبہ کریں اور سرکشی سے باز آئیں ۔ کوئی شخص ماضی میں خواہ کتنا ہی برارہا ہو مگر جب وہ اصلاح قبول کرلے تو وہ اسلامی برادری کا ایک معزز رکن بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔