At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٍۢ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًۭا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِۦٓ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَمَاتُوا۟ وَهُمْ فَٰسِقُونَ ﴾
“And never shalt thou pray over any of them that has died, and never shalt thou stand by his grave: for, behold, they were bent on denying God and His Apostle, and they died in this their iniquity.”
غزوۂ تبوک سخت گرمی کے موسم میں ہوا۔ مدینہ سے چل کر شام کی سرحد تک تین سو میل جانا تھا۔ منافق مسلمانوں نے کہا کہ ایسی تیز گرمی ميں اتنا لمبا سفر نہ کرو۔یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ خدا کی پکار سننے کے بعد کسی خطرہ کی بنا پر نہ نکلنا اپنے آپ کو شدید تر خطرہ میں مبتلا کرنا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دھوپ سے بھاگ کر آگ کے شعلوں کی پناہ لی جائے۔ جو لوگ خدا کے مقابلہ میں اپنے کو اور اپنے مال کو زیادہ محبوب رکھتے ہیں وہ جب اپنی خوبصورت تدبیروں سے اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ مسلمان بھی بنے رہیں اور اسی کے ساتھ ان کی زندگی اور ان کے مال کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے کو عقل مند سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کو بے وقوف کہتے ہیں جنھوں نے خدا کی رضا کی خاطر اپنے كو ہلکان کررکھا ہو۔ مگر یہ سراسر نادانی ہے۔ یہ ایسا ہنسنا ہے جس کا انجام رونے پر ختم ہونے والا ہے۔ کیوں کہ موت کے بعد آنے والی دنیا میں اس قسم کی ’’ہوشیاری‘‘ سب سے بڑی نادانی ہوگی۔ اس وقت آدمی افسوس کرے گا کہ وہ جنت کا طلب گار تھا مگر اس نے اپنے اثاثہ کی وہی چیز اس کے لیے نہ دی جو دراصل جنت کی واحد قیمت تھی۔ اس قسم کے منافق ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تحفظاتی پالیسی کی وجہ سے اپنے گرد مال وجاہ کے اسباب جمع کرلیتے ہیں اس بنا پر عام مسلمان ان سے مرعوب ہوجاتے ہیں ۔ ان کی شان دار زندگیاں اور ان کے خوب صورت باتیں لوگوں کی نظر میں ان کوعظیم بنادیتی ہیں ۔ یہ کسی اسلامی معاشرہ کے ليے ایک سخت امتحان ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایک حقیقی اسلامی معاشرہ میں ایسے لوگوں کو نظر انداز کیا جانا چاہیے، نہ یہ کہ ان کو عزت کا مقام دیا جانے لگے۔ جن لوگوں کے بارے میں پوری طرح معلوم ہوجائے کہ وہ بظاہر مسلمان بنے ہوئے ہیں مگر حقیقۃً وہ اپنے مفادات اور اپنی دنیوی مصلحتوں کے وفادار ہیں ان کو حقیقی اسلامی معاشرہ کبھی عزت کے مقام پر بٹھانے کے ليے راضی نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں کا انجام یہ ہے کہ وہ اسلامی تقریبات میں صرف پیچھے کی صفوں میں جگہ پائیں ۔ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں ان کا کوئی دخل نہ ہو۔ دینی مناصب کے ليے وہ نااہل قرار پائیں ۔ جس معاشرہ میں ایسے لوگوں کو عزت کا مقام ملاہوا ہو وہ کبھی خدا کا پسندیدہ معاشرہ نہیں ہوسکتا۔