At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَجَآءَ ٱلْمُعَذِّرُونَ مِنَ ٱلْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ ٱلَّذِينَ كَذَبُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ ۚ سَيُصِيبُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ ﴾
“AND THERE came [unto the Apostle] such of the bedouin as had some excuse to offer, [with the request] that they be granted exemption, whereas those who were bent on giving the lie to God and His Apostle [simply] remained at home. [And] grievous suffering is bound to befall such of them as are bent on denying the truth!”
دعوتِ دین کی جدوجہد جب لوگوں سے ان کی زندگی اور ان کے مال کا تقاضا کررہی ہو اس وقت صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود عذر کرکے بیٹھ رہنا بدترین جرم ہے۔ یہ دینی پکار کے معاملہ میں بے حسی کا ثبوت ہے۔ ایک مسلمان کے ليے اس قسم کا رویہ خدا اور رسول سے غداری کرنے کے ہم معنی ہے۔ ایسے لوگ خدا کی رحمتوں میں کوئی حصہ پانے کے حقدار نہیں ہیں ۔ ان کے پاس جو کچھ تھا اس کو جب انھوں نے خدا کے ليے پیش نہیں کیا تو خدا کے پاس جو کچھ ہے وہ کس ليے انھیں دے دے گا۔ قیمت ادا كيے بغیر کوئی چیز کسی کو نہیں مل سکتی۔ تاہم معذورین کے ليے خدا کے یہاں معافی ہے۔ جو شخص بیمار ہو، جس کے پاس خرچ کرنے کے ليے کچھ نہ ہو، جو اسباب سفر نہ رکھتاہو، ایسے لوگوں سے خدا در گزر فرمائے گا۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ نہ کرنے کے باوجود سب کچھ ان كے خانہ ميں لکھ دیا جائے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپس ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: مدینہ کچھ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم کوئی راستہ نہیں چلے اور تم نے کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ برابر تمھارے ساتھ رہے (إِنَّ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا، مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا، وَلاَ قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ )صحیح البخاری، حدیث نمبر 4423۔ یہ خوش قسمت لوگ کون ہیں جو نہ کرنے کے باوجود کرنے کا انعام پاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو معذور ہونے کے ساتھ تین باتوں کا ثبوت دیں — نصح، یعنی عملی شرکت نہ کرتے ہوئے بھی قلبی شرکت۔ احسان، یعنی عدم شرکت کے باوجود کم از کم زبان سے ان کے بس میں جو کچھ ہے اس کو پوری طرح کرتے رہنا۔ حزن، یعنی اپنی کوتاہی پر اتنا شدید رنج جو آنسوؤں کی صورت میں بہہ پڑے۔ کوئی آدمی جب اپنی عملی زندگی میں ایک چیز کو غیر اہم درجہ میں رکھے اور بار بار ایسا کرتا رہے تو اس کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ اس چیز کی اہمیت کا احساس اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ اس چیز کے تقاضے اس کے سامنے آتے هيں مگر دل کے اندر اس کے بارے میں تڑپ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کی طرف بڑھ نہیں پاتا۔ یہ وہی چیز ہے جس کو بے حسی کہاجاتا ہے اور اسی کو قرآن میں دلوں پر مہر کرنے سے تعبیر کیاگیا ہے۔