slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 94 من سورة سُورَةُ التَّوۡبَةِ

At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ ۚ قُل لَّا تَعْتَذِرُوا۟ لَن نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا ٱللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ ۚ وَسَيَرَى ٱللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُۥ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَٰلِمِ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾

“[And] they will [still] be offering excuses to you when you return to them, [from the campaign]! Say: "Do not offer [empty] excuses, [for] we shall not believe you: God has already enlightened us about you. And God will behold your [future] deeds, and [so will] His Apostle; and in the end you will be brought before Him who knows all that is beyond the reach of a created being's perception as well as all that can be witnessed by a creature's senses or mind, and then He will make you truly understand what you were doing [in life]."”

📝 التفسير:

’’تمھارے حالات ہم کو اللہ نے بتا ديے ہیں ‘‘ کا فقرہ ظاہر کرہا ہے کہ یہاں جن منافقین کا ذکر ہے ان سے مراد زمانہ نزول قرآن کے منافقین ہیں ۔ کیوں کہ براہِ راست وحی خداوندی کے ذریعہ آگاہ ہونے کا معاملہ صرف زمانۂ رسالت میں ہوا یا ہو سکتا تھا۔ بعد کے زمانہ میں ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق یہ کل بیاسی ( 82 )افراد تھے جن کے نفاق کے بارے میں اللہ نے بذریعہ وحی مطلع فرمایا تھا (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد2، صفحہ 125 )۔ تاہم اس علم کے باوجود صحابہ کرام کو ان کے ساتھ جس سلوک کی اجازت دی گئی، وہ تغافل اور اعراض تھا، نہ کہ ان کو ہلاک کرنا۔ ان کو سزا یا عذاب دینے کا معاملہ پھر بھی خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا۔ مدینہ کے منافقین کے ساتھ اگرچہ اتنی سختی کی گئی کہ انھوں عذرات پیش كيے تو ان کے عذرات قبول نہیں كيے گئے۔ حتی کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے منافقانہ روش اختیار کرنے کے بعد زکوٰۃ پیش کی تو ان کی زکوٰۃ لینے سے انکار کردیاگیا۔ تاہم ان میں سے کسی کو بھی آپ نے قتل نہیں کرایا۔ عبد اللہ بن ابی کے لڑکے عبد اللہ نے اپنے باپ کی منافقانہ حرکت پر سخت کارروائی کرنی چاہی تو آپ نے روک دیا اور فرمایا: انھیں چھوڑ دو، بخدا جب تک وہ ہمارے درمیان ہیں ہم ان کے ساتھ اچھا ہی سلوک کریں گے (دعہ فلعمری لنحسنن صحبتہ ما دام بین اظہرنا) الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد2، صفحہ 50۔ بعد کے زمانہ کے منافقین کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔ تاہم دونوں کے درمیان ایک فرق ہے۔ دور اول کے منافقین سے ان کی حالتِ قلبی کی بنیاد پر معاملہ کیا گیا، مگر بعد کے منافقین سے ان کی حالت ظاہری کی بنیاد پر معاملہ کیا جائے گا۔ان سے اعراض وتغافل کا سلوک صرف اس وقت جائز ہوگا جب کہ ان کے عمل سے ان کی منافقت کا خارجی ثبوت مل رہا ہو۔ ان کی نیت یا ان کی قلبی حالت کی بناپر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ بعد کے لوگ عذر پیش کریں تو ان کا عذر بھی قبول کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ان کے صدقات وغیرہ بھی۔ ان کے انجام کو اللہ کے حوالے کرتے ہوئے ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ظاہری قانون کے مطابق کسی کے ساتھ کیا جانا چاہيے۔ جنت کسی کو ذاتی عمل کی بنیاد پر ملتی ہے، نہ کہ مسلمانوں کی جماعت یا گروہ میں شامل ہونے کی بنیاد پر۔ منافقین سب کے سب مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے وہ ان کے ساتھ نماز روزہ کرتے تھے مگر اس کے باوجود ان کے جہنمی ہونے کا اعلان کیاگیا۔