slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 98 من سورة سُورَةُ التَّوۡبَةِ

At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَمِنَ ٱلْأَعْرَابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَمًۭا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ ٱلدَّوَآئِرَ ۚ عَلَيْهِمْ دَآئِرَةُ ٱلسَّوْءِ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌۭ ﴾

“And among the bedouin there are such as regard all that they might spend [in God's cause] as a loss, and wait for misfortune to encompass you, [O believers: but] it is they whom evil fortune shall encompass - for God is all-hearing, all-knowing.”

📝 التفسير:

حدیث میں آیا ہے کہ جس نے دیہات میں سکونت اختیار کی وہ سخت مزاج ہوجائے گا (مَنْ سَكَنَ البَادِيَةَ جَفَا) سنن الترمذی، حدیث نمبر 2256۔ شہر کے اندر علمی ماحول ہوتا ہے، تعلیمی ادارے قائم ہوتے ہیں ۔ وہاں علم وفن کا چرچا رہتا ہے۔ جب کہ دیہات میں لوگوں کو اس کے مواقع حاصل نہیں ہوتے۔ اسی کے ساتھ دیہات کے لوگوں کے رہن سہن کے طریقے اور ان کے معاشی ذرائع بھی نسبتاً معمولی ہوتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دیہات کے لوگوں کے اندر زیادہ گہرا شعور پیدا نہیں ہوتا۔ ان کی طبیعت میں سختی اور ان کے سوچنے کے انداز میں سطحیت پائی جاتی ہے۔ ان کے ليے مشکل ہوتا ہے کہ وہ دین کی نزاکتوں کو سمجھیں اور ان کو اپنے اندر اتاریں ۔ اللہ ہر بات کو جانتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ حکیم اور رحیم بھی ہے۔ وہ دیہات کے لوگوں ، بالفاظ دیگر عوام، کی اس کمزوری سے باخبر ہے اور اپنی حکمت ورحمت کی بنا پر انھیں اس کی پوری رعایت دیتاہے۔ چنانچہ ایسے لوگوں سے خدا کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ وہ گہری معرفت اور اعلیٰ دین داری کا ثبوت دیں ۔ وہ اگر نیک نیت ہوں تو خدا ان سے سادہ دین داری پر راضی ہوجائے گا۔ عوام کی دین داری یہ ہے کہ وہ سچے دل سے خدا کا اقرار کریں ۔ اپنے اندر اس احساس کو تازہ رکھیں کہ آخرت کا ایک دن آنے والا ہے۔ وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ خدا کی راہ میں دیں اور یہ سمجھیں کہ اس کے ذریعہ سے انھیں خدا کی قربت اور برکت حاصل ہوگی۔ وہ خدا کی نمائندگی کرنے والے پیغمبر کو خوش کرکے اس کی دعائیں لینے کے طالب ہوں ۔ یہ دین داری کی عوامی سطح ہے، اور اگر آدمی کی نیت میں بگاڑ نہ ہو تو اس کا خدا اس سے اسی سادہ دین داری کو قبول کرلے گا۔ لیکن اگر عوام ایسا کریں کہ وہ خدااور اس کے احکام سے بالکل غافل ہوجائیں ، ان کو دین سے اتنی بے تعلقی ہو کہ دین کی راہ میں کچھ خرچ کرنا ان کو جرمانہ معلوم ہونے لگے، اسلام کی ترقی سے انھیں وحشت ہوتی ہو تو بلاشبہ وہ ناقابل معافی ہیں ۔ عوام کی کم فہمی کی بنا پر ان کو یہ رعایت تو ضرور دی جاسکتی ہے کہ ان سے گہری دین داری کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ لیکن ان کی کم فہمی اگر سرکشی اور اسلام کے ساتھ بے وفائی کی صورت اختیار کرلے تو وہ کسی حال میں بخشے نہیں جاسکتے۔