🕋 تفسير سورة الرعد
(Ar-Rad) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ المر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ ۗ وَالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ
📘 مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ یعنی یہ واقعات تورات میں بھی ہیں اور قرآن انہی واقعات کی تصدیق کررہا ہے۔ حضرت یوسف کے قصے کے سلسلے میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے بہت عمدگی کے ساتھ تورات اور قرآن کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے ‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے حسن بیان اور اس کے حکیمانہ انداز کا معیار اس قدر بلند ہے کہ تورات میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل تورات تو گم ہوگئی تھی۔ بعد میں حافظے کی مدد سے جو تحریریں مرتب کی گئیں ان میں ظاہر ہے وہ معیار تو پیدا نہیں ہوسکتا تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تورات میں تھا۔وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ یعنی وہ علم جو اس دنیا میں انسان کے لیے ضروری ہے اور وہ راہنمائی جو دنیوی زندگی میں اسے درکار ہے سب کچھ اس قرآن میں موجود ہے۔
سَوَاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ
📘 آیت 10 سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ غیاب کی صورت ہو یا ظہور کا عالم ‘ اللہ کے علم کے سامنے سب برابر ہے۔ ہرچیز اور اس کی ہر کیفیت ہر آن اس کے سامنے حاضر و موجود ہے۔
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ
📘 آیت 11 لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ یہ مضمون اس سے پہلے ہم سورة الانعام آیت 61 میں بھی پڑھ چکے ہیں : وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے تمہارے اوپر محافظ بھیجتا ہے۔ اللہ کے مقرر کردہ یہ فرشتے اللہ کی مشیت کے مطابق ہر وقت انسان کی حفاظت کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اس کی موت کا وقت آ پہنچتا ہے۔اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ آپ اپنی باطنی کیفیت کو بدلیں گے ‘ اس کے لیے محنت کریں گے تو اللہ کی طرف سے بھی آپ کے معاملے میں تبدیلی کردی جائے گی۔ مولانا ظفر علی خان نے اس آیت کی ترجمانی ان خوبصورت الفاظ میں کی ہے : خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ
📘 آیت 12 هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّيُنْشِئُ السَّحَاب الثِّقَالَ گہرے بادلوں کی گرج چمک میں خوف کے سائے بھی ہوتے ہیں اور امید کی روشنی بھی کہ شاید اس بارش سے فصلیں لہلہا اٹھیں اور ہماری قحط سالی خوشحالی میں بدل جائے۔ یعنی ایسی صورت حال میں خوف ورجاء کی کیفیت ایک ساتھ دلوں پر طاری ہوتی ہے۔
وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَنْ يَشَاءُ وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ
📘 آیت 13 وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ مِنْ خِيْفَتِهٖ یہ گرج اور کڑک کی آواز دراصل اللہ کی تسبیح وتحمید ہی کا ایک انداز ہے۔
لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ
📘 آیت 14 لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ یعنی اللہ ہی ایک ہستی ہے جس کو پکارنا جس سے دعا کرنا برحق ہے کیونکہ ایک وہی ہے جو تمہاری پکار کو سنتا ہے تمہاری حاجت کو جانتا ہے تمہاری حاجت روائی کرنے پر قادر ہے اس لیے اس کو پکارنا حق بھی ہے اور سود مند بھی۔ اسے چھوڑ کر کسی اور کو پکارو گے چاہے وہ کوئی فرشتہ ہو ولی ہو یا نبی کوئی تمہاری پکار اور فریاد کو نہیں سنے گا اور جیسا کہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے تمہاری ہر ایسی پکار اکارت جائے گی۔ اس فقرے کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ ”اسی کی دعوت حق ہے“۔ یعنی جس چیز کی دعوت وہ دے رہا ہے جس راستے کی طرف وہ بلا رہا ہے وہی حق ہے۔ وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ لَهُمْ بِشَيْءٍ وہ ان کی کوئی بھی داد رسی نہیں کرسکتے۔اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ اِلَى الْمَاۗءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهٖ جیسے اپنے ہاتھ پھیلا کر پانی کو اپنے منہ کی طرف بلانا ایک کار عبث ہے ‘ اسی طرح کسی غیر اللہ کو پکارنا اس کے سامنے گڑ گڑانا اور اس سے داد رسی کی امید رکھنا بھی کار عبث ہے۔وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ یہ لوگ جو اللہ کے علاوہ کسی کو پکارتے ہیں ان کی یہ پکار لاحاصل ہے ایک تیر بےہدف اور صدا بہ صحرا ہے۔
وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ۩
📘 آیت 15 وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ صبح کے وقت جب سورج نکلتا ہے اور سائے زمین پر لمبے ہو کر پڑے ہوتے ہیں وہ اس حالت میں اللہ کو سجدہ کر رہے ہوتے ہیں اور اسی طرح شام کو غروب آفتاب کے وقت بھی یہ سائے حالت سجدہ میں ہوتے ہیں۔
قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
📘 اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ یعنی ان مشرکین کا معاملہ تو یوں لگتا ہے جیسے ان کے معبودوں نے بھی کچھ مخلوق پیدا کر رکھی ہے اور کچھ مخلوق اللہ کی ہے۔ اب وہ بےچارے اس شش و پنج میں پڑے ہوئے ہیں کہ کون سی مخلوق کو اللہ سے منسوب کریں اور کس کس کو اپنے ان معبودوں کی مخلوق مانیں ! جب ایسا نہیں ہے اور وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اس کا خالق اور مالک اللہ ہے تو پھر اللہ کو اکیلا اور واحد معبود ماننے میں وہ کیوں شکوک و شبہات کا شکار ہو رہے ہیں ؟
أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَابِيًا ۚ وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ۚ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ
📘 آیت 17 اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِيَةٌۢ بِقَدَرِهَاقرآن چونکہ حجاز میں نازل ہورہا تھا اس لیے اس میں زیادہ تر مثالیں بھی اسی سرزمین سے دی گئی ہیں۔ اس مثال میں بھی علاقہ حجاز کے پہاڑی سلسلوں اور وادیوں کا ذکر ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو ہر وادی میں اس کی وسعت کے مطابق سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ کسی وادی کا catchment area زیادہ ہے تو وہاں زیادہ زوردار سیلاب آجاتا ہے اور جس کا کم ہے وہاں تھوڑا سیلاب آجاتا ہے۔فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًاپانی جب زور سے بہتا ہے تو اس کے اوپر جھاگ سا بن جاتا ہے۔ لیکن اس جھاگ کی کوئی حقیقت اور وقعت نہیں ہوتی۔كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ اس کا دوسرا ترجمہ یوں ہوگا : ”اسی طرح اللہ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔“فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاۗءً جھاگ کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ہوتی اصل نتائج کے اعتبار سے اس کا ہونا یا نہ ہونا گویا برابر ہے۔وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ سیلاب کا پانی زمین میں جذب ہو کر فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جبکہ جھاگ ضائع ہوجاتا ہے اسی طرح پگھلی ہوئی دھات کے اوپر پھولا ہواجھاگ اور میل کچیل فضول چیز ہے اصل خالص دھات اس جھاگ کے نیچے کٹھالی کی تہہ میں موجود ہوتی ہے جس سے زیور یا کوئی دوسری قیمتی چیز بنائی جاتی ہے۔كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ یہ آیت کارل مارکس کے dialectical materialism کے فلسفے کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ اس فلسفے کا جتنا حصہ درست ہے وہ اس آیت میں موجود ہے۔ دور جدید کے یہ جتنے بھی نظریے theories ہیں ان میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ سچائی موجود ہے۔ ڈارون کا نظریۂ ارتقاء ہو یا فرائیڈ اور مارکس کے نظریات ان میں سے کوئی بھی سو فیصد غلط نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان نظریات میں غلط اور درست خیالات گڈ مڈ ہیں۔ جہاں تک مارکس کے نظریہ جدلیاتی مادیت dialectical materialism کا تعلق ہے اس کے مطابق کسی معاشرے میں ایک خیال یا نظریہ جنم لیتا ہے جس کو thesis کہا جاتا ہے۔ اس کے ردِّعمل کے طور پر اینٹی تھیسس antithesis وجود میں آتا ہے۔ پھر یہ تھیسس اور اینٹی تھیسس ٹکراتے ہیں اور ان کے ٹکرانے سے ایک نئی شکل پیدا ہوتی ہے جسے سِن تھیسس synthesis کہا جاتا ہے۔ یہ اگرچہ اس نظریہ کی بہتر شکل ہوتی ہے مگر یہ بھی اپنی جگہ کامل نہیں ہوتی اس کے اندر بھی نقائص موجود ہوتے ہیں۔ چناچہ اسی سن تھیسس کی کو کھ سے ایک اور اینٹی تھیسس جنم لیتا ہے۔ ان کا پھر آپس میں اسی طرح ٹکراؤ ہوتا ہے اور پھر ایک نیا سن تھیسس وجود میں آتا ہے۔ یہ عمل process اسی طرح بتدریج آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس تصادم میں جو چیز فضول غلط اور بیکار ہوتی ہے وہ ضائع ہوتی رہتی ہے مگر جو علم اور خیال معاشرے اور نسل انسانی کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے۔دور جدید کے بیشتر نظریے theories ایسے لوگوں کی تخلیق ہیں جن کے علم اور سوچ کا انحصار کلی طور پر مادے پر تھا۔ یہ لوگ روح اور اس کی حقیقت سے بالکل نابلد تھے۔ بنیادی طور پر یہی وجہ تھی کہ ان لوگوں کے اخذ کردہ نتائج اکثر و بیشتر غلط اور گمراہ کن تھے۔ بہرحال اس سارے عمل process میں غلط اور باطل خیالات و مفروضات خود بخود چھٹتے رہتے ہیں اور نسل انسانی کے لیے مفید علوم کی تطہیر purification ہوتی رہتی ہے۔ سورة الانبیاء کی آیت 18 میں یہ حقیقت اس طرح واضح کی گئی ہے : بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ ”ہم دے مارتے ہیں حق کو باطل پر ‘ تو وہ باطل کا بھیجا نکال دیتا ہے ‘ پھر وہ باطل غائب ہوجاتا ہے“۔ حق و باطل اور خیر و شر کی اس کش مکش کے ذریعے سے گویا نسل انسانی تدریجاً تمدن اور ارتقاء کے مراحل طے کرتے ہوئے رفتہ رفتہ بہتری کی طرف آرہی ہے۔ علامہ اقبال کے مطابق نسل انسانی کے لیے کامل بہتری یا حتمی کامیابی اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کی تعمیل میں پوشیدہ ہے جس کا کامل عملی نمونہ اس دنیا میں پندرہ سو سال پہلے نبی آخر الزماں نے پیش کیا تھا۔ ارتقاء فکر انسانی کے سفر کے نام پر انسانی تمدن کے چھوٹے بڑے تمام قافلے شعوری یا غیر شعوری طور پر اسی مینارۂ نور light house کی طرف رواں دواں ہیں۔ اگر کسی ماحول میں روشنی کی کوئی کرن اجالا بکھیرتی نظر آتی ہے تو وہ اسی منبع نور کی مرہون منت ہے۔ اور اگر کسی ماحول کے حصے کی تاریکیاں ابھی تک گہری ہیں تو جان لیجئے کہ وہ اپنی اس فطری اور حتمی منزل سے ہنوز دور ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کے اپنے الفاظ ملاحظہ ہوں :ہر کجا بینی جہان رنگ و بو زانکہ از خاکش بروید آرزو یاز نور مصطفٰے اور ابہاست یا ہنوز اندر تلاش مصطفے ٰ است
لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمِهَادُ
📘 اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ سُوْۗءُ الْحِسَابِ ڏ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ وَبِئْسَ الْمِهَادُ یعنی ان کے حساب کا جو نتیجہ نکلنے والا ہے وہ ان کے حق میں بہت برا ہوگا۔
۞ أَفَمَنْ يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
📘 اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ سُوْۗءُ الْحِسَابِ ڏ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ وَبِئْسَ الْمِهَادُ یعنی ان کے حساب کا جو نتیجہ نکلنے والا ہے وہ ان کے حق میں بہت برا ہوگا۔
اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
📘 آیت 2 اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَااس کائنات کے اندر جو بلندیاں ہیں انہیں ستونوں یا کسی طبعی سہارے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے باہمی کشش کا ایک عظیم الشان نظام وضع کیا گیا ہے جس کے تحت تمام کہکشائیں ستارے اور سیارے اپنے اپنے مقام پر رہ کر اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّىیعنی اس کائنات کی ہرچیز متحرک ہے چل رہی ہے یہاں پر سکون اور قیام کا کوئی تصور نہیں۔ دوسرا اہم نکتہ جو یہاں بیان ہوا وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر شے کی عمریا مہلت مقرر ہے۔ ہر ستارے ہر سیارے ہر نظام شمسی اور ہر کہکشاں کی مہلت زندگی مقرر و معینّ ہے۔
الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنْقُضُونَ الْمِيثَاقَ
📘 آیت 20 الَّذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ قبل ازیں سورة البقرۃ کی آیت 177 میں بھی ہم ان سے ملتے جلتے یہ الفاظ پڑ ھ آئے ہیں : وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوْا۔ اللہ کے ساتھ کیے گئے معاہدوں میں سے ایک تو وہ عہد الست ہے بحوالہ الاعراف : 172 جو ہم نے عالم ارواح میں اللہ کے ساتھ کیا ہے پھر ہر بندۂ مؤمن کا میثاق شریعت ہے کہ میں اللہ کے تمام احکامات کی تعمیل کروں گا۔ پھر اللہ کا مؤمن کے ساتھ کیا گیا وہ سودا بھی ایک عہد ہے جس کا ذکر سورة التوبہ۔ آیت 111 میں ہے اور جس کے مطابق اللہ نے مؤمنین کے جان و مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ آیت زیر نظر میں یہ ان خوش قسمت لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ کے ساتھ کیے گئے تمام عہد درجہ بدرجہ پورے کرتے ہیں۔
وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ
📘 آیت 21 وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَابِ وہ لوگ قرابت کے رشتوں کو جوڑتے ہیں یعنی صلۂ رحمی کرتے ہیں اور حساب آخرت کے نتائج کی برائی سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں کہ اس دن حساب کے نتائج منفی ہونے کی صورت میں کہیں ہماری شامت نہ آجائے۔
وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ
📘 وَّيَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ وہ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے بلکہ کوئی شخص اگر ان کے ساتھ برائی کرتا ہے تو وہ جواباً اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے ہیں تاکہ اس کے اندر اگر نیکی کا جذبہ موجود ہے تو وہ جاگ جائے۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ !
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ
📘 وَّيَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ وہ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے بلکہ کوئی شخص اگر ان کے ساتھ برائی کرتا ہے تو وہ جواباً اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے ہیں تاکہ اس کے اندر اگر نیکی کا جذبہ موجود ہے تو وہ جاگ جائے۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ !
سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
📘 آیت 24 سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ جنت میں اپنے آباء و اَجداد اور اہل و عیال میں سے صالح لوگوں کی معیت گویا اللہ کی طرف سے اپنے نیک بندوں کے لیے ایک اعزاز ہوگا اور اس کے لیے اگر ضرورت ہوئی تو ان کے ان رشتہ داروں کے درجات بھی بڑھا دیے جائیں گے۔ مگر یہاں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اہل جنت کے جو قرابت دار کفار اور مشرکین تھے ان کے لیے رعایت کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی بلکہ اس رعایت سے صرف وہ اہل ایمان مستفیض ہوں گے جو ”صالحین“ کی baseline پر پہنچ چکے ہوں گے۔ یعنی سورة النساء ‘ آیت 69 میں جو مدارج بیان ہوئے ہیں ان کے اعتبار سے جو مسلمان کم سے کم درجے کی جنت میں داخلے کا مستحق ہوچکا ہوگا اس کے مدارج اس کے کسی قرابت دار کی وجہ سے بڑھا دیے جائیں گے جو جنت میں اعلیٰ مراتب پر فائز ہوگا۔ مثلاً ایک شخص کو جنت میں بہت اعلیٰ مرتبہ عطا ہوا ہے اب اس کا باپ ایک صالح مسلمان کی baseline پر پہنچ کر جنت میں داخل ہونے کا مستحق تو ہوچکا ہے مگر جنت میں اس کا درجہ بہت نیچے ہے تو ایسے شخص کے مراتب بڑھا کر اسے اپنے بیٹے کے ساتھ اعلیٰ درجے کی جنت میں پہنچا دیاجائے گا۔
وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۙ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ
📘 آیت 25 وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ قبل ازیں سورة البقرۃ ‘ آیت 27 میں بھی ہم بعینہٖ یہ الفاظ پڑھ آئے ہیں : اَلَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وہاں اس حوالے سے کچھ وضاحت بھی ہوچکی ہے۔
اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ
📘 وَفَرِحُوْا بالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا مَتَاعٌجو لوگ اخروی زندگی کے انعامات کے امیدوار نہیں ہیں ان کی جہد و کوشش کی جولان گاہ یہی دنیوی زندگی ہے۔ ان کی تمام تر صلاحیتیں اسی زندگی کی آسائشوں کے حصول میں صرف ہوتی ہیں اور وہ اس کی زیب وزینت پر فریفتہ اور اس میں پوری طرح مگن ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے اس طرز عمل پر بہت خوش اور مطمئن ہوتے ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاع قلیل و حقیر کے سوا کچھ بھی نہیں۔
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۗ قُلْ إِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ
📘 آیت 27 وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ مشرکین مکہ کی ہٹ دھرمی ملاحظہ ہو بار بار ان کی اسی بات اور اسی دلیل کا ذکر ہو رہا ہے کہ محمد رسول اللہ پر کوئی حسی معجزہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ اَنَابَ جو لوگ خود ہدایت کے طالب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وہ انہیں نعمت ہدایت سے سرفراز فرماتا ہے۔
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
📘 آیت 28 اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ دل اور روح کے لیے تسکین کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ کا ذکر ہے اس لیے کہ انسان کی روح اس کے دل کی مکین ہے اور روح کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کی آیت 85 میں فرمایا گیا : وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ”اور اے نبی ! یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرمائیں کہ روح میرے پروردگار کے امر میں سے ہے“۔ لہٰذا جس طرح انسانی جسم کی حیات کا منبع source یہ زمین ہے اور جسم کی نشوونما اور تقویت کا سارا سامان زمین ہی سے مہیا ہوتا ہے اسی طرح انسانی روح کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے اور اس کی نشوونما اور تقویت کے لیے غذا کا سامان بھی وہیں سے آتا ہے۔ چناچہ روح امر اللہ ہے اور اس کی غذا ذکر اللہ اور کلام اللہ ہے۔اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ دنیوی مال ومتاع اور سامان عیش و آسائش کی بہتات سے نفس اور جسم کی تسکین کا سامان تو ہوسکتا ہے یہ چیزیں دل کے سکون و اطمینان کا باعث نہیں بن سکتیں۔ دل کو یہ دولت نصیب ہوگی تو اللہ کے ذکر سے ہوگی۔
الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ طُوبَىٰ لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ
📘 آیت 28 اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ دل اور روح کے لیے تسکین کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ کا ذکر ہے اس لیے کہ انسان کی روح اس کے دل کی مکین ہے اور روح کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کی آیت 85 میں فرمایا گیا : وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ”اور اے نبی ! یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرمائیں کہ روح میرے پروردگار کے امر میں سے ہے“۔ لہٰذا جس طرح انسانی جسم کی حیات کا منبع source یہ زمین ہے اور جسم کی نشوونما اور تقویت کا سارا سامان زمین ہی سے مہیا ہوتا ہے اسی طرح انسانی روح کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے اور اس کی نشوونما اور تقویت کے لیے غذا کا سامان بھی وہیں سے آتا ہے۔ چناچہ روح امر اللہ ہے اور اس کی غذا ذکر اللہ اور کلام اللہ ہے۔اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ دنیوی مال ومتاع اور سامان عیش و آسائش کی بہتات سے نفس اور جسم کی تسکین کا سامان تو ہوسکتا ہے یہ چیزیں دل کے سکون و اطمینان کا باعث نہیں بن سکتیں۔ دل کو یہ دولت نصیب ہوگی تو اللہ کے ذکر سے ہوگی۔
وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
📘 آیت 3 وَهُوَ الَّذِيْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْهٰرًااللہ تعالیٰ نے زمین کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اس پر پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ دیے ہیں اور پانی کی فراہمی کے لیے دریا اور ندیاں بہا دی ہیں۔وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِيْهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ جوڑے بنانے کے اس قانون کو اللہ تعالیٰ نے سورة الذاریات آیت 49 میں اس طرح بیان فرمایا ہے : وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ ”اور ہرچیز کے ہم نے جوڑے بنائے“ گویا یہ زوجین نر اور مادہ کی تخلیق اور ان کا قاعدہ و قانون اللہ تعالیٰ نے اس عالم خلق کے اندر ایک باقاعدہ نظام کے طور پر رکھا ہے۔ یہاں پر پھلوں کے حوالے سے اشارہ ہے کہ نباتات میں بھی نر اور مادہ کا باقاعدہ نظام موجود ہے۔ کہیں نر اور مادہ پھول الگ الگ ہوتے ہیں اور کہیں ایک ہی پھول کے اندر ایک حصہ نر اور ایک حصہ مادہ ہوتا ہے۔
كَذَٰلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَا أُمَمٌ لِتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَٰنِ ۚ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ
📘 آیت 30 كَذٰلِكَ اَرْسَلْنٰكَ فِيْٓ اُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَآ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَا۟ عَلَيْهِمُ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُوْنَ بالرَّحْمٰنِ اگرچہ اللہ تعالیٰ کا نام ”الرحمن“ عرب میں پہلے سے متعارف تھا مگر مشرکین مکہ ”اللہ“ ہی کو جانتے اور مانتے تھے اس لیے وہ اس نام سے بدکتے تھے اور عجیب انداز میں پوچھتے تھے کہ یہ رحمن کون ہے ؟ الفرقان : 60
وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ۗ بَلْ لِلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا ۗ أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا ۗ وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِنْ دَارِهِمْ حَتَّىٰ يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
📘 آیت 31 وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰىیہاں پھر حسی معجزوں کے بارے میں مشرکین کے مطالبے کا جواب دیا جا رہا ہے۔ سورة الانعام میں یہ مضمون تفصیل سے گزر چکا ہے۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر ہم نے کوئی ایسا قرآن اتارا ہوتا جس کی تاثیر سے طرح طرح کے حسی معجزات کا ظہور ہوتا تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ یہ قرآن ہر اس شخص کے لیے سراپا معجزہ ہے جو واقعی ہدایت کا خواہش مند ہے۔ یہ طالبانِ حق کے دلوں کو گداز کرتا ہے ان کی روح کو تازگی بخشتا ہے ان کے لاشعور کے اندر خوابیدہ ایمانی حقائق کو جگاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی ہدایت کا تمام سامان اس قرآن کے اندر موجود پاتے ہیں۔بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِيْعًا ۭاَفَلَمْ يَايْــــــَٔـسِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ لَّوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيْعًااہل ایمان کو تو یہ یقین ہے تاکہ اگر اللہ چاہتا تو دنیا کے تمام انسانوں کو ہدایت دے سکتا تھا اور اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو یہ ضرور اسی کی مشیت ہے۔ لہٰذا اس یقین سے ان کو تو دل جمعی اور اطمینان حاصل ہوجانا چاہیے۔اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ ان لوگوں کے کرتوتوں کی پاداش میں ان پر کوئی نہ کوئی آفت اور مصیبت نازل ہوتی رہے گی۔ وہ مسلسل خوف کی کیفیت میں مبتلا رہیں گے یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ پورا ہوجائے۔
وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ
📘 فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ذرا تصور کریں قوم نوح ‘ قوم ہود ، قوم صالح ‘ قوم لوط ‘ قوم شعیب اور آل فرعون کے انجام کا اور پھر سوچیں کہ ان نافرمان قوموں کی جب گرفت ہوئی تو وہ کس قدر عبرتناک تھی۔
أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظَاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
📘 آیت 33 اَفَمَنْ هُوَ قَاۗىِٕمٌ عَلٰي كُلِّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ اللہ تعالیٰ ہر آن ہر شخص کے ساتھ موجود ہے اور اس کی ایک ایک حرکت اور اس کے ایک ایک عمل پر نظر رکھتا ہے۔ کیا ایسی قدرت کسی اور کو حاصل ہے ؟وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ انہوں نے ایسی بصیر ‘ خبیر اور عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ہستی کے مقابلے میں کچھ معبود گھڑ لیے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔قُلْ سَمُّوْهُمْ ۭ اَمْ تُنَبِّــــــُٔـوْنَهٗ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْاَرْضِ یعنی اللہ جو اس قدر علیم اور بصیر ہستی ہے کہ اپنے ہر بندے کے ہر خیال اور ہر فعل سے واقف ہے تو تم لوگوں نے جو بھی معبود بنائے ہیں کیا ان کے پاس اللہ سے زیادہ علم ہے ؟ کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جس سے وہ ناواقف ہے ؟اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ یعنی یونہی جو منہ میں آتا ہے تم لوگ کہہ ڈالتے ہو اور ان شریکوں کے بارے میں تمہارے اپنے دعوے کھوکھلے ہیں۔ تمہارے ان دعو وں کی بنیادوں میں یقین کی پختگی نہیں ہے۔ ان کے بارے میں تمہاری ساری باتیں سطحی نوعیت کی ہیں عقلی اور منطقی طور پر تم خود بھی ان کے قائل نہیں ہو۔ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ اب گویا ان کے دل الٹ دیے گئے ہیں ان کے دلوں پر مہر کردی گئی ہے اور ان کے اعمال کو دیکھتے ہوئے اللہ نے ان کی گمراہی کے بارے میں آخری فیصلہ دے دیا ہے۔ اب ان کو کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا۔
لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ ۖ وَمَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ
📘 آیت 33 اَفَمَنْ هُوَ قَاۗىِٕمٌ عَلٰي كُلِّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ اللہ تعالیٰ ہر آن ہر شخص کے ساتھ موجود ہے اور اس کی ایک ایک حرکت اور اس کے ایک ایک عمل پر نظر رکھتا ہے۔ کیا ایسی قدرت کسی اور کو حاصل ہے ؟وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ انہوں نے ایسی بصیر ‘ خبیر اور عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ہستی کے مقابلے میں کچھ معبود گھڑ لیے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔قُلْ سَمُّوْهُمْ ۭ اَمْ تُنَبِّــــــُٔـوْنَهٗ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْاَرْضِ یعنی اللہ جو اس قدر علیم اور بصیر ہستی ہے کہ اپنے ہر بندے کے ہر خیال اور ہر فعل سے واقف ہے تو تم لوگوں نے جو بھی معبود بنائے ہیں کیا ان کے پاس اللہ سے زیادہ علم ہے ؟ کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جس سے وہ ناواقف ہے ؟اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ یعنی یونہی جو منہ میں آتا ہے تم لوگ کہہ ڈالتے ہو اور ان شریکوں کے بارے میں تمہارے اپنے دعوے کھوکھلے ہیں۔ تمہارے ان دعو وں کی بنیادوں میں یقین کی پختگی نہیں ہے۔ ان کے بارے میں تمہاری ساری باتیں سطحی نوعیت کی ہیں عقلی اور منطقی طور پر تم خود بھی ان کے قائل نہیں ہو۔ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ اب گویا ان کے دل الٹ دیے گئے ہیں ان کے دلوں پر مہر کردی گئی ہے اور ان کے اعمال کو دیکھتے ہوئے اللہ نے ان کی گمراہی کے بارے میں آخری فیصلہ دے دیا ہے۔ اب ان کو کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا۔
۞ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا ۚ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوْا ۖ وَعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ
📘 آیت 33 اَفَمَنْ هُوَ قَاۗىِٕمٌ عَلٰي كُلِّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ اللہ تعالیٰ ہر آن ہر شخص کے ساتھ موجود ہے اور اس کی ایک ایک حرکت اور اس کے ایک ایک عمل پر نظر رکھتا ہے۔ کیا ایسی قدرت کسی اور کو حاصل ہے ؟وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ انہوں نے ایسی بصیر ‘ خبیر اور عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ہستی کے مقابلے میں کچھ معبود گھڑ لیے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔قُلْ سَمُّوْهُمْ ۭ اَمْ تُنَبِّــــــُٔـوْنَهٗ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْاَرْضِ یعنی اللہ جو اس قدر علیم اور بصیر ہستی ہے کہ اپنے ہر بندے کے ہر خیال اور ہر فعل سے واقف ہے تو تم لوگوں نے جو بھی معبود بنائے ہیں کیا ان کے پاس اللہ سے زیادہ علم ہے ؟ کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جس سے وہ ناواقف ہے ؟اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ یعنی یونہی جو منہ میں آتا ہے تم لوگ کہہ ڈالتے ہو اور ان شریکوں کے بارے میں تمہارے اپنے دعوے کھوکھلے ہیں۔ تمہارے ان دعو وں کی بنیادوں میں یقین کی پختگی نہیں ہے۔ ان کے بارے میں تمہاری ساری باتیں سطحی نوعیت کی ہیں عقلی اور منطقی طور پر تم خود بھی ان کے قائل نہیں ہو۔ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ اب گویا ان کے دل الٹ دیے گئے ہیں ان کے دلوں پر مہر کردی گئی ہے اور ان کے اعمال کو دیکھتے ہوئے اللہ نے ان کی گمراہی کے بارے میں آخری فیصلہ دے دیا ہے۔ اب ان کو کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا۔
وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ ۖ وَمِنَ الْأَحْزَابِ مَنْ يُنْكِرُ بَعْضَهُ ۚ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ
📘 آیت 36 وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ یہ مدینہ کے اہل کتاب میں سے نیک سرشت لوگوں کا ذکر ہے۔ ان کو جب خبریں ملتی تھیں کہ مکہ میں آخری نبی کا ظہور ہوچکا ہے تو وہ ان خبروں سے خوش ہوتے تھے۔
وَكَذَٰلِكَ أَنْزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَمَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا وَاقٍ
📘 آیت 37 وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا”حکم“ بمعنی ”فیصلہ“ یعنی یہ قرآن عربی قول فیصل بن کر آیا ہے۔ جیسا کہ سورة الطارق میں فرمایا : اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّمَا ہُوَ بالْہَزْلِ ”یہ کلام حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہے اور کوئی بےہودہ بات نہیں ہے۔“
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ
📘 آیت 38 وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّيَّةً آپ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ہیں وہ سب عام انسانوں کی طرح پیدا ہوئے سوائے حضرت عیسیٰ کے پھر انہوں نے نکاح بھی کیے اور ان کی اولادیں بھی ہوئیں۔
يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ
📘 آیت 39 يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ښ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ اُمّ الکتاب یعنی اصل کتاب اللہ کے پاس ہے۔ سورة الزخرف میں اس کے متعلق یوں فرمایا گیا ہے : وَاِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ ”اور یہ اصل کتاب یعنی لوح محفوظ میں ہمارے پاس ہے جو بڑی فضیلت اور حکمت والی ہے۔“ آپ اسے لوح محفوظ کہیں ام الکتاب کہیں یا کتاب مکنون کہیں اصل قرآن اس کے اندر ہے۔ یہ قرآن جو ہمارے پاس ہے یہ اس کی مصدقہ نقل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایت اور مہربانی سے حضور کی وساطت سے ہمیں دنیا میں عطا کردیا ہے۔
وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
📘 وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ ایک ہی زمین میں ایک ہی جڑ سے کھجور کے دو درخت اگتے ہیں ‘ دونوں کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے لیکن دونوں کے پھلوں کا اپنا اپنا ذائقہ ہوتا ہے۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ یہ التذکیر بالآء اللّٰہ کا انداز ہے جس میں بار بار اللہ کی قدرتوں نشانیوں اور نعمتوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔
وَإِنْ مَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ
📘 آیت 40 وَاِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی زندگی ہی میں ان کو عذاب الٰہی میں سے کچھ حصہ مل جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی زندگی میں ان پر ایسا وقت نہ آئے بلکہ عذاب کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم آپ کو وفات دے دیں۔فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ آپ پر ہمارا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری تھی سو آپ نے یہ ذمہ داری احسن طریقہ سے ادا کردی۔ اب ان کو ہدایت دینا یا نہ دینا ان پر عذاب بھیجنا یا نہ بھیجنا اور ان کا حساب لینا یہ سب کچھ ہمارے ذمے ہے اور ہم یہ فیصلے اپنی مشیت کے مطابق کریں گے۔
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
📘 وَاللّٰهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ ۭ وَهُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ یہ مضمون سورة الانبیاء میں اس طرح بیان ہوا ہے : اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَاط اَفَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ”کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں تو کیا اب یہ غالب آنے والے ہیں ؟“ یہ اس دور کی طرف اشارہ ہے جب مشرکین مکہ نے مکہ کے اندر رسول اللہ اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کی بھٹی پورے زور شور سے دہکا رکھی تھی اور وہ لوگ اس میں اپنے سارے وسائل اس امید پر جھونکے جا رہے تھے کہ ایک دن محمد اور آپ کی اس تحریک کو نیچا دکھا کر رہیں گے۔ اس صورت حال میں انہیں مکہ کے مضافاتی علاقوں اُمّ القریٰ وَ مَنْ حَوْلَھَا کے معروضی حالات کے حوالے سے مستقبل کی ایک امکانی جھلک دکھائی جا رہی ہے کہ بیشک ابھی تک مکہ کے اندر تمہاری حکمت عملی کسی حد تک کامیاب ہے لیکن کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ مکہ کے آس پاس کے قبائل کے اندر اس دعوت کے اثر و نفوذ میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے مقابلے میں تمہارا حلقہ اثر روز بروز سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ جیسے قبیلہ بنی غفار کے ایک نوجوان ابوذر یہ دعوت قبول کر کے اپنے قبیلے میں ایک مبلغ کی حیثیت سے واپس گئے ہیں اور آپ کی وساطت سے یہ دعوت اس قبیلے میں بھی پہنچ گئی ہے۔ یہی حال اردگرد کے دوسرے قبائل کا ہے۔ ان حالات میں کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ یہ دعوت رفتہ رفتہ تمہارے چاروں طرف سے تمہارے گرد گھیرا تنگ کرتی چلی جا رہی ہے ؟ اب وہ وقت بہت قریب نظر آ رہا ہے جب تمہارے ارد گرد کا ماحول اسلام قبول کرلے گا اور تم لوگ اس کے دائرہ اثر کے اندر محصور ہو کر رہ جاؤ گے۔اس آیت میں جس صورت حال کا ذکر ہے اس کا عملی مظاہرہ ہجرت کے بعد بہت تیزی کے ساتھ سامنے آیا۔ حضور نے مدینہ تشریف لانے کے بعد ایک طرف قریش مکہ کے لیے ان کی تجارتی شاہراہوں کو مخدوش بنا دیا تو دوسری طرف مدینہ کے آس پاس کے قبائل کے ساتھ سیاسی معاہدات کر کے اس پورے علاقے سے قریش مکہ کے اثر و رسوخ کی بساط لپیٹ دی۔ مدینہ کے مضافات میں آباد بیشتر قبائل قریش مکہ کے حلیف تھے مگر اب ان میں سے اکثر یا تو مسلمانوں کے حلیف بن گئے یا انہوں نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کردیا۔ قریش مکہ کی معاشی ناکہ بندی economic blockade اور سیاسی انقطاع political isolation کے لیے رسول اللہ کے یہ اقدامات اس قدر مؤثر تھے کہ اس کے بعد انہیں اپنے اردگرد سے سکڑتی ہوئی زمین بہت واضح انداز میں دکھائی دینے لگی۔ دراصل فلسفہ سیرت کے اعتبار سے یہ بہت اہم موضوع ہے مگر بہت کم لوگوں نے اس پر توجہ دی ہے۔ میں نے اپنی کتاب ”منہج انقلاب نبوی“ میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔
وَقَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلِلَّهِ الْمَكْرُ جَمِيعًا ۖ يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ ۗ وَسَيَعْلَمُ الْكُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ
📘 آیت 42 وَقَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ اپنے اپنے دور میں منکرین حق نے انبیاء و رسل کی دعوت حق کو روکنے کے لیے سازشوں کے خوب جال پھیلائے تھے اور بڑی بڑی منصوبہ بندیاں کی تھیں۔فَلِلّٰهِ الْمَكْرُ جَمِيْعًااللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی تدبیروں اور سازشوں کا مکمل طور پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کی مشیت کے خلاف ان کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ ۭ وَسَيَعْلَمُ الْكُفّٰرُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ دارِآخرت کی بھلائی اور اس کا آرام کس کے لیے ہے انہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا۔
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ
📘 قُلْ كَفٰى باللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ اللہ جانتا ہے کہ میں اس کا رسول ہوں اور اس کا جاننا میرے لیے کافی ہے۔وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ میں اس کا رسول ہوں اور پھر ہر اس شخص کی گواہی جو کتاب آسمانی کا علم رکھتا ہے۔ اللہ تو جانتا ہی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور میرا معاملہ اسی کے ساتھ ہے۔ اس کے علاوہ یہ اہل کتاب بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اہل کتاب کے اس معاملے کو البقرۃ : 146 اور الانعام : 20 میں اس طرح واضح فرمایا گیا ہے : یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ہُمُ کہ یہ آپ کو بحیثیت رسول ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم
۞ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
📘 آیت 5 وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ یعنی کفار کا مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر تعجب کرنا ‘ بذات خود باعث تعجب ہے۔ جس اللہ نے پہلی مرتبہ تم لوگوں کو تخلیق کیا پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز پر حکمت طریقے سے بنائی اس کے لیے یہ تعجب کرنا کہ وہ ہمیں دوبارہ کیسے زندہ کرے گا یہ سوچ اور یہ نظریہ اپنی جگہ بہت ہی مضحکہ خیز اور باعث تعجب ہے۔اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ دوبارہ جی اٹھنے کے عقیدے سے ان کا یہ انکار دراصل اللہ کے وجود کا انکار ہے۔ اس کی قدرت اور اس کے عَلٰی کُلِّ شَیٌ قَدِیْر ہونے کا انکار ہے۔
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ
📘 آیت 6 وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ کفار مکہ حضور سے بڑی جسارت اور ڈھٹائی کے ساتھ بار بار مطالبہ کرتے تھے کہ لے آئیں ہم پر وہ عذاب جس کے بارے میں آپ ہمیں روز روز دھمکیاں دیتے ہیں۔وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ اللہ کے عذاب کی بہت سی عبرت ناک مثالیں گزشتہ اقوام کی تاریخ کی صورت میں ان کے سامنے ہیں۔وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِهِمْ یہ اس کی رحمت اور شان غفاری کا مظہر ہے کہ ان کے مطالبے کے باوجود اور ان کے شرک وظلم میں اس حد تک بڑھ جانے کے باوجود عذاب بھیجنے میں تاخیر فرما رہا ہے۔
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ
📘 آیت 7 وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ مشرکین مکہ بار بار اسی دلیل کو دہراتے تھے کہ اگر آپ رسول ہیں تو آپ کے رب کی طرف سے آپ کو کوئی حسی معجزہ کیوں نہیں دیا گیا ؟اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ جس طرح ہم نے ہر قوم کے لیے پیغمبر بھیجے ہیں اسی طرح آپ کو بھی ہم نے ان لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا ہے۔ آپ کے ذمہ ان کی تبشیر ‘ تنذیر اور تذکیر ہے۔ آپ اپنا یہ فرض ادا کرتے رہیں۔
اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثَىٰ وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۖ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ
📘 آیت 8 اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰىہر مادہ چاہے وہ انسان ہے یا حیوان ‘ اس کے رحم میں جو کچھ ہے اللہ کے علم میں ہے۔وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ جب حمل ٹھہر جاتا ہے تو رحم سکڑتا ہے اور جب بچہ بڑھتا ہے تو اس کے بڑھنے سے رحم پھیلتا ہے۔ ایک ایک مادہ کے اندر ہونے والی اس طرح کی ایک ایک تبدیلی کو اللہ خوب جانتا ہے۔وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ اس کائنات کا پورا نظام ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت چل رہا ہے جہاں ہرچیز کی مقدار اور ہر کام کے لیے قاعدہ اور قانون مقرر ہے۔
عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ
📘 آیت 8 اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰىہر مادہ چاہے وہ انسان ہے یا حیوان ‘ اس کے رحم میں جو کچھ ہے اللہ کے علم میں ہے۔وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ جب حمل ٹھہر جاتا ہے تو رحم سکڑتا ہے اور جب بچہ بڑھتا ہے تو اس کے بڑھنے سے رحم پھیلتا ہے۔ ایک ایک مادہ کے اندر ہونے والی اس طرح کی ایک ایک تبدیلی کو اللہ خوب جانتا ہے۔وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ اس کائنات کا پورا نظام ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت چل رہا ہے جہاں ہرچیز کی مقدار اور ہر کام کے لیے قاعدہ اور قانون مقرر ہے۔