slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة المؤمنون

(Al-Muminun) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ

📘 آیت 1 قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ”اس آیت کا یہ ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا ہے۔ مگر خود حضرت شیخ الہند رح کا کہنا ہے کہ انہوں نے ”موضح القرآن“ میں شاہ عبدالقاد ردہلوی کا ترجمہ ہی اختیار کیا ہے اور اس میں کہیں کہیں زبان کی تبدیلیوں کے علاوہ کوئی اور تبدیلی نہیں کی۔ گویا بنیادی طور پر یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی رح کا ہے اور میرے نزدیک لفظ فلح کی اصل روح کے قریب ترین ہے۔ ”فَلَاح“ کا ترجمہ بالعموم ”کامیابی“ سے کیا جاتا ہے ‘ لیکن اس کے مفہوم کو درست انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ لفظ ”فلاح“ کے حقیقی اور لغوی معنی کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔ اس مادہ کے لغوی معنی ہیں : ”پھاڑنا“۔ اسی معنی میں کسان کو عربی میں ”فلّاح“ کہا جاتا ہے ‘ اس لیے کہ وہ اپنے ہل کی نوک سے زمین کو پھاڑتا ہے۔ عربی کی ایک کہاوت ہے : اِنَّ الحَدِید بالحَدِید یفلَحُ یعنی لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ اس طرح فَلَح کا مفہوم گویا فلقَ کے قریب تر ہے۔ سورة الانعام کی آیت 95 میں لفظ ”فلق“ اسی مفہوم میں آیا ہے : اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ط ”یقیناً اللہ تعالیٰ گٹھلیوں اور بیجوں کو پھاڑنے والا ہے“۔ اس سے اگلی آیت میں یہی لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے نمود صبح کے حوالے سے اس طرح استعمال ہوا ہے : فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ج یعنی وہ تاریکی کا پردہ چاک کر کے صبح کو نمودار کرنے والا ہے۔ چونکہ فلح اور فلق دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں اور دونوں کے معنی پھاڑنا ہے اس لیے آیت زیر نظر میں فلح کا مفہوم سمجھنے کے لیے فٰلِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی کے حوالے سے گٹھلی کے پھٹنے اور اس کے اندر سے کو نپلیں برآمد ہونے کے عمل کو ذہن میں رکھیں۔ جس طرح گٹھلی کے اندر پورا پودا بالقوہّ potentially موجود ہے ‘ اسی طرح انسان کے اندر بھی اس کی انا یا روح اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ موجود ہے۔ اور جس طرح گٹھلی کے پھٹنے فلق سے دو کو نپلیں برآمد ہوتی ہیں اور پھر ان سے پورا درخت بنتا ہے اسی طرح جب انسانی وجود کے اندر موجود مادیت کے پردے چاک فلح ہوتے ہیں تو اس کی انا یا روح بےنقاب ہوتی ہے اور اس کی نشوونما سے اس کی معنوی شخصیت ترقی پاتی ہے۔ انسان کی اسی انا یا روح کو اقبال نے خودی کا نام دیا ہے اور اس کو اجاگر develop کرنے کے تصور پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے خصوصی طور پر آئیڈیل یا آدرش کے فلسفہ کے حوالے سے اس ضمن میں گزشتہ صفحات میں سورة الحج کی آیت 73 کی تشریح بھی مدنظر رہے اپنی معرکۃ الآراء کتاب The Idealogy of the Future میں اقبال کے فلسفہ خودی کی بہترین تعبیر کی ‘ ہے۔انسان بظاہر ایک مادی وجود کا نام ہے۔ اس وجود میں ہڈیاں ہیں ‘ گوشت ہے اور دیگر اعضاء ہیں۔ لیکن اس مادی وجود کے اندر اس کی انا اور روح بھی ہے جو اس کی اصل شخصیت ہے۔ انسان کہتا ہے میرا ہاتھ ‘ میرا پاؤں ‘ میری آنکھ ‘ میری ٹانگ ‘ میرا سر ‘ میرا جسم ! لیکن اس ”میرا“ اور ”میری“ کی تکرار میں ”میں“ کہاں ہے اور کون ہے ؟ یہ ”میں“ دراصل انسان کی انایا روح ہے۔ یعنی انسان کو حیوانوں کے مقابلے میں صرف عقل و شعور کی دولت سے ہی نہیں نوازا گیا بلکہ اسے روح ربانی کی نورانیت بھی عطا کی گئی ہے۔ بقول علامہ اقبال ؂دم چیست ؟ پیام است ! شنیدی نشنیدی ؟در خاک تو یک جلوۂ عام است ندیدی ؟دیدن دگر آموز ! شنیدن دگر آموز ! !انسانی جسم کے اندر اس کی روح مادی غلافوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ گویا یہ ایک مخفی خزانہ ہے جسے کھود کر نکالنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس خزانے کو کام میں لانا ہے تو ”فلّاحی“ کے عمل سے مادیت کے پردوں کو چاک کرنا ہوگا اور آیت زیر نظر میں قَدْ اَفْلَحَ کے الفاظ اسی مفہوم میں آئے ہیں کہ مؤمنین صادقین نے اپنی روحوں پر پڑے ہوئے مادیت کے پردوں کو چاک کر کے اصل خزانے یعنی روح کو بےنقاب کرنے اور اس کی نشوونما develop کرنے کا مشکل کام کر دکھایا ہے۔ جبکہ عام انسان کی تمام تر توجہ اپنے حیوانی وجود پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ نہ وہ اپنی روح کی خبر لیتا ہے اور نہ ہی اس کی غذا اور نشوونما کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے انسان کی روح سسک سسک کر مرجاتی ہے اور اس کا جسم اس کی روح کا مقبرہ بن جاتا ہے۔ بظاہر ایسے شخص کا شمار زندہ انسانوں میں ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ مردہ ہوتا ہے۔ مثلاً ابوجہل زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ تھا۔ وہ اندھا اور بہرا تھا ‘ اسی لیے نہ تو وہ محمد رسول اللہ ﷺ کو پہچان سکا اور نہ آپ ﷺ کی دعوت کو سن سکا۔ اس کے برعکس ایک بندۂ مؤمن ہے جو حقیقت میں زندہ ہے ‘ اس لیے کہ اس کی روح زندہ ہے۔ جیسے کہ سورة النحل کی آیت 97 میں ارشاد ہوا : فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ج ”تو ہم ضرور اسے عطا کریں گے ایک پاکیزہ زندگی“۔ چناچہ جو شخص بھی اپنی خودی کے ارتقاء development of self اور اپنے کردار کی تعمیر development of character کا مشکل کارنامہ سرانجام دے پائے گا وہی حقیقت میں کامیاب قرار پائے گا اور وہی آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے قَدْ اَفْلَحَ کا مصداق ٹھہرے گا۔ اور یہ کامیابی ہر انسان کی پہنچ میں ہے ‘ کیونکہ روح کی دولت تو ہر انسان کو عطا ہوئی ہے۔ ہندی شاعر بھیکؔ کے بقول : ع ”بھیکاؔ بھوکا کوئی نہیں ‘ سب کی گدڑی لال !“ یعنی بھوکا یا نادار کوئی بھی نہیں ہے ‘ ہر انسان کی گٹھڑی میں لعل موجود ہے ‘ بس اس گٹھڑی کی گرہ کھول کر اس ”لعل“ یا دولت کو دریافت کرنے اور اسے کام میں لانے کا فن اسے آنا چاہیے۔ یہی نکتہ اس خوبصورت فارسی شعر میں ایک دوسرے انداز میں پیش کیا گیا ہے : ؂ ستم است گر ہو ست کشد کہ بہ سیرسرو وسمن درآ تو زغنچہ کم نہ دمیدۂ درِدل کشا بہ چمن در آ !یعنی تمہارے اندر بھی ایک مہکتا ہوا چمن موجود ہے ‘ تم اپنے دل کے دروازے سے داخل ہو کر اس چمن کی سیر سے لطف اندوز ہوسکتے ہو۔ اسی حقیقت کو قرآن حکیم میں اس طرح واضح کیا گیا ہے : وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ الذّٰرٰیت یعنی خود تمہارے اندرمعرفت کا سامان موجود ہے مگر تم لوگ اس سے غافل ہو۔ اپنشد کے ایک جملے کا انگریزی ترجمہ اس طرح ہے :" Man in his ignorance identifies himself with the material sheeths which encompass his real self."یعنی انسان اپنی جہالت کے باعث ان مادی غلافوں ہی کو اپنی ذات سمجھ بیٹھتا ہے جو اس کی ذات انا یا روح کے گرداگرد لپٹے ہوئے ہیں۔ اور یوں وہ نہ خود کو پہچان پاتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت اسے حاصل ہوتی ہے۔ چناچہ اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات کی معرفت ضروری ہے ‘ جیسے کہ صوفیاء کا قول ہے : مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ”جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا“۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اپنی ”انا“ self سے غافل رہا وہ معرفت الٰہی سے بھی محروم رہا۔ یہی نکتہ ہے جو سورة الحشر کی آیت 19 میں اس طرح واضح فرمایا گیا ہے : وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْ ط ”ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا“۔ چناچہ لفظ فلحکا یہ مفہوم ذہن میں رکھ کر اس آیت کو پڑھیں تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ اپنی شخصیت اور ذات کے مادی غلافوں کو پھاڑ کر اپنی معنوی شخصیت اور روح کو اجاگر کرنے اور اس کے ذریعے سے عرفان ذات اور پھر معرفتِ الٰہی تک پہنچنے جیسے مشکل مراحل ‘ اہل ایمان کامیابی سے طے کرلیتے ہیں۔ اور وہ کون سے اہل ایمان ہیں :

أُولَٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ

📘 آیت 9 وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ”یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس مضمون کا آغاز بھی نماز کے ذکر سے کیا گیا تھا اور اس کا اختتام بھی نماز کے ذکر پر کیا جا رہا ہے۔ آیت 2 میں کامیاب و بامراد مؤمنین کی پہلی صفت یہ بتائی گئی تھی : الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ کہ وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔ یعنی اس مضمون کے آغاز میں نماز کی باطنی کیفیت کے حسن کا ذکر کیا گیا تھا ‘ جبکہ اختتام پر آیت زیر نظر میں نماز کے نظام کی بات کی گئی ہے کہ سچے اہل ایمان نماز پر مداومت کرتے ہیں اور اس کے تمام آداب و قوانین کوّ کماحقہ ملحوظ رکھتے ہیں۔

لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

📘 آیت 100 لَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا ط ”اے میرے پروردگار ! اب اگر تو مجھے واپس دنیا میں بھیج دے تو میں اپنے مال و اسباب کو تیرے راستے میں اور تیرے دین کی خدمت میں لٹا دوں گا !وَمِنْ وَّرَآءِہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ”موت کے بعد تو اب بعث بعد الموت تک ان کے لیے عالم برزخ کی زندگی ہے۔

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ

📘 آیت 101 فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَءِذٍ وَّلَا یَتَسَآءَ لُوْنَ ”اس دن ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہوگا اور کوئی کسی کاُ پر سان حال نہیں ہوگا : یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ عبس ”جس دن انسان بھاگے گا اپنے بھائی سے ‘ اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے ‘ اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔ جس دن ان میں سے ہر شخص کی ایسی حالت ہوگی جو اسے دوسروں سے بےپروا کر دے گی۔“

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

📘 آیت 102 فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ”یہ وہ خوش نصیب لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیوی زندگی میں واقعتا اپنی شخصیت کو اپنی روح کے فطری تقاضوں کے مطابق پروان چڑھایا تھا اور اپنی خودی اور سیرت کی تعمیر بھی انہی پاکیزہ بنیادوں پر کی تھی۔

وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ

📘 آیت 102 فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ”یہ وہ خوش نصیب لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیوی زندگی میں واقعتا اپنی شخصیت کو اپنی روح کے فطری تقاضوں کے مطابق پروان چڑھایا تھا اور اپنی خودی اور سیرت کی تعمیر بھی انہی پاکیزہ بنیادوں پر کی تھی۔

تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ

📘 آیت 104 تَلْفَحُ وُجُوْہَہُمُ النَّارُ وَہُمْ فِیْہَا کٰلِحُوْنَ ”چہروں کے جھلس جانے کے باعث ان کی شکلیں بگڑ جائیں گی۔

أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ

📘 آیت 104 تَلْفَحُ وُجُوْہَہُمُ النَّارُ وَہُمْ فِیْہَا کٰلِحُوْنَ ”چہروں کے جھلس جانے کے باعث ان کی شکلیں بگڑ جائیں گی۔

قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ

📘 آیت 104 تَلْفَحُ وُجُوْہَہُمُ النَّارُ وَہُمْ فِیْہَا کٰلِحُوْنَ ”چہروں کے جھلس جانے کے باعث ان کی شکلیں بگڑ جائیں گی۔

رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ

📘 آیت 104 تَلْفَحُ وُجُوْہَہُمُ النَّارُ وَہُمْ فِیْہَا کٰلِحُوْنَ ”چہروں کے جھلس جانے کے باعث ان کی شکلیں بگڑ جائیں گی۔

قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ

📘 آیت 104 تَلْفَحُ وُجُوْہَہُمُ النَّارُ وَہُمْ فِیْہَا کٰلِحُوْنَ ”چہروں کے جھلس جانے کے باعث ان کی شکلیں بگڑ جائیں گی۔

إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ

📘 آیت 104 تَلْفَحُ وُجُوْہَہُمُ النَّارُ وَہُمْ فِیْہَا کٰلِحُوْنَ ”چہروں کے جھلس جانے کے باعث ان کی شکلیں بگڑ جائیں گی۔

الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 آیت 9 وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ”یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس مضمون کا آغاز بھی نماز کے ذکر سے کیا گیا تھا اور اس کا اختتام بھی نماز کے ذکر پر کیا جا رہا ہے۔ آیت 2 میں کامیاب و بامراد مؤمنین کی پہلی صفت یہ بتائی گئی تھی : الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ کہ وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔ یعنی اس مضمون کے آغاز میں نماز کی باطنی کیفیت کے حسن کا ذکر کیا گیا تھا ‘ جبکہ اختتام پر آیت زیر نظر میں نماز کے نظام کی بات کی گئی ہے کہ سچے اہل ایمان نماز پر مداومت کرتے ہیں اور اس کے تمام آداب و قوانین کوّ کماحقہ ملحوظ رکھتے ہیں۔

فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا حَتَّىٰ أَنْسَوْكُمْ ذِكْرِي وَكُنْتُمْ مِنْهُمْ تَضْحَكُونَ

📘 آیت 110 فَاتَّخَذْتُمُوْہُمْ سِخْرِیًّا ”میرے وہ بندے جب مجھ سے گڑ گڑا کر دعا کرتے تھے تو تم ان پر ہنسا کرتے تھے۔وَکُنْتُمْ مِّنْہُمْ تَضْحَکُوْنَ ”تم لوگ میرے بندوں کی تضحیک کرنے اور ان کا مذاق اڑانے میں ایسے مگن رہے کہ میں تمہیں بالکل ہی یاد نہ رہا۔

إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ

📘 آیت 110 فَاتَّخَذْتُمُوْہُمْ سِخْرِیًّا ”میرے وہ بندے جب مجھ سے گڑ گڑا کر دعا کرتے تھے تو تم ان پر ہنسا کرتے تھے۔وَکُنْتُمْ مِّنْہُمْ تَضْحَکُوْنَ ”تم لوگ میرے بندوں کی تضحیک کرنے اور ان کا مذاق اڑانے میں ایسے مگن رہے کہ میں تمہیں بالکل ہی یاد نہ رہا۔

قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ

📘 آیت 110 فَاتَّخَذْتُمُوْہُمْ سِخْرِیًّا ”میرے وہ بندے جب مجھ سے گڑ گڑا کر دعا کرتے تھے تو تم ان پر ہنسا کرتے تھے۔وَکُنْتُمْ مِّنْہُمْ تَضْحَکُوْنَ ”تم لوگ میرے بندوں کی تضحیک کرنے اور ان کا مذاق اڑانے میں ایسے مگن رہے کہ میں تمہیں بالکل ہی یاد نہ رہا۔

قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ

📘 آیت 110 فَاتَّخَذْتُمُوْہُمْ سِخْرِیًّا ”میرے وہ بندے جب مجھ سے گڑ گڑا کر دعا کرتے تھے تو تم ان پر ہنسا کرتے تھے۔وَکُنْتُمْ مِّنْہُمْ تَضْحَکُوْنَ ”تم لوگ میرے بندوں کی تضحیک کرنے اور ان کا مذاق اڑانے میں ایسے مگن رہے کہ میں تمہیں بالکل ہی یاد نہ رہا۔

قَالَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 آیت 114 قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا لَّوْ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ”آیت 84 سے شروع ہونے والے سلسلۂ کلام میں یہ آخری چار آیات خصوصی طور پر بہت جامع اور پرجلال ہیں۔ جیسا کہ آیت 84 کے ضمن میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ سورت کے اس حصے کی تلاوت قاری محمد صدیق المنشاوی نے بہت پر تاثیر انداز میں کی ہے۔ ان کی یہ تلاوت سننے سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے سننے سے دل پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے :

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ

📘 آیت 115 اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ”گزشتہ آیات کے سیاق وسباق میں اس آیت کا ترجمہ صیغہ ماضی میں ہوگا اور اس مفہوم میں اس کے مخاطب وہی جہنمی لوگ ہوں گے جن کا ذکر پیچھے سے چلا آ رہا ہے۔ اور اگر اسے گزشتہ سلسلہ کلام سے علیحدہ پڑھا جائے تو اس کا ترجمہ صیغہ حال میں کیا جائے گا اور پھر اس کا مخاطب ہر پڑھنے سننے والا اور دنیا کے ہر زمانے کا ہر انسان ہوگا کہ اے لوگو ! کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہیں بےمقصد اور بیکار پیدا کیا ہے اور تمہیں ہمارے پاس واپس آکر اپنے ایک ایک عمل کا حساب نہیں دینا ہے ؟عقلی اور منطقی طور پر یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ آخرت کے تصور کے بغیر انسانی تخلیق کا مقصد سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اگر انسان عام حیوانات جیسا حیوان ہوتا تو پھر واقعی حیات بعد الممات اور آخرت کی کوئی ضرورت نہیں تھی ‘ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ حیوانات کے برعکس انسان کے اندر فطری طور پر اخلاقی حس اور نیکی و بدی کی تمیز moral sense پیدا کی گئی ہے۔ اس اخلاقی حس کے نتیجے میں انسانی سطح پر جو اخلاقی اقدار moral values وجود میں آئی ہیں وہ کسی قوم ‘ کسی علاقے یا زمانے تک محدود نہیں ‘ بلکہ مستقل permanent اور آفاقی universal ہیں۔ چناچہ ”گندم از گندم بروید جوز جو“ گندم سے گندم اگتی ہے اور جو سے جو کے اصول کے مطابق اچھائی کا نتیجہ اچھا نکلنا چاہیے اور برائی کا برا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ اور ہمیشہ لازمی طور پر ایسا نہیں ہوتا بلکہ عام طور پر اس کے برعکس ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ صورت حال منطقی طور پر تقاضا کرتی ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا وجود میں آئے ‘ جہاں ہر انسان کی موجودہ زندگی کے ایک ایک فعل اور ایک ایک عمل کا احتساب کر کے مصدقہ آفاقی اصولوں کے مطابق عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا اہتمام ہو۔ یہی نکتہ ہے جسے قرآن مجید مختلف مواقع پر ایمان بالآخرت کے لیے بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ بہر حال ایک ذی شعور انسان بالآخر اس منطقی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے اور بےاختیار پکار اٹھتا ہے : رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً ج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ آل عمران۔ ”اے ہمارے پروردگار ! تو نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا ‘ تو پاک ہے ‘ پس تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے !“

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ

📘 آیت 116 فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ ج ”اللہ اس کائنات کا حقیقی بادشاہ ہے۔ وہ کلی اختیارات کا مالک ہے اور اس کی یہ حیثیت بھی سزا و جزا کے نظام کا تقاضا کرتی ہے۔ دنیا کے بادشاہوں میں کوئی بادشاہ ایسا نہیں جو اپنے غداروں اور باغیوں کو سزا نہ دے اور وفاداروں کو انعام و اکرام اور خلعتوں سے نہ نوازے۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ بادشاہ حقیقی اپنے جاں نثاروں کی قدر افزائی نہ کرے ‘ ان کی قربانیوں کا انہیں کوئی صلہ نہ دے اور اپنے نافرمانوں اور باغیوں کو سزانہ دے ؟

وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ

📘 آیت 117 وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَلا ”یعنی اللہ کو بھی معبود مانتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ کسی اور کو بھی پکارتا ہے۔

وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ

📘 آیت 117 وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَلا ”یعنی اللہ کو بھی معبود مانتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ کسی اور کو بھی پکارتا ہے۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ

📘 اب جو مضمون آ رہا ہے وہ اس سے پہلے سورة الحج کی آیت 5 میں بھی آچکا ہے ‘ مگر وہاں اختصار کے ساتھ آیا تھا ‘ جبکہ یہاں زیادہ وضاحت اور جامعیت کے ساتھ آیا ہے۔ اس سے سورة الحج کے ساتھ اس سورت کی مشابہت کا پہلو بھی نظر آتا ہے۔آیت 12 وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ”تلوار کو نیام سے باہر کھینچنے کے عمل کو ”سَلَّ یَسُلُّ“ جبکہ نیام سے باہر نکلی ہوئی ننگی تلوار کو ”مَسْلُوْل“ کہا جاتا ہے۔ کسی بھی چیز کا اصل جوہر جو اس میں سے کشید کیا گیا ہو ”سُلَالَۃ“ کہلاتا ہے۔ چناچہ اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو براہ راست مٹی کے جوہر سے تخلیق کیا گیا اور پھر پوری نسل انسانی چونکہ ان کی اولاد تھی اس لیے اپنی تخلیق کے حوالے سے ہر انسان کو گویا اسی مادہ تخلیق یعنی مٹی سے نسبت ٹھہری۔ لیکن میرے نزدیک اس کی زیادہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ مرد کے جسم میں بننے والا نطفہ دراصل مٹی سے کشید کیا ہوا جوہر ہے۔ اس لیے کہ انسان کو خوراک تو مٹی ہی سے حاصل ہوتی ہے ‘ چاہے وہ معدنیات اور نباتات کی شکل میں اسے براہ راست زمین سے ملے یا نباتات پر پلنے والے جانوروں سے حاصل ہو۔ اس خوراک کی صورت میں گارے اور مٹی کے جوہر کشید ہو کر انسانی جسم میں جاتے ہیں اور اس سے وہ نطفہ بنتا ہے جس سے بالآخر بچے کی تخلیق ممکن ہوتی ہے۔

ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ

📘 آیت 13 ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ”رحم uterus کو ایک محفوظ ٹھکانہ قرار دیا گیا ہے ‘ جس کی دیوار بہت مضبوط ہوتی ہے۔ نطفہ رحم مادر میں پہنچتا ہے اور بیضۂ انثی کے ساتھ مل کر ovum fertilized رحم کی دیوار کے اندر embed ہوجاتا ہے ‘ گویا دفن ہوجاتا ہے جیسے بیج زمین کے اندر دفن ہوجاتا ہے۔

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ

📘 آیت 14 ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً ”عَلَقہ کا ترجمہ عام طور پر ”جما ہوا خون“ ہوتا آیا ہے جو کہ غلط ہے۔ لغوی اعتبار سے عربی مادہ علق ع ل ق سے معلق ‘ تعلق ‘ متعلق ‘ علاقہ وغیرہ الفاظ تو مشتق ہیں لیکن اس لفظ کا جمے ہوئے خون کے مفہوم و معانی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ دراصل جس زمانے میں یہ تراجم ہوئے ہیں اس میں نہ تو dissection کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی ابھی مائیکروسکوپ ایجاد ہوئی تھی ‘ لہٰذا علم الجنین کے بارے میں تمام تر معلومات کی بنیاد ظاہری مشاہدے پر تھی۔ اور چونکہ ابتدائی ایام کا حمل گرنے کی صورت میں رحم سے بظاہر خون کے لوتھڑے ہی برآمد ہوتے تھے ‘ اس لیے اس سے یہی سمجھا گیا کہ رحم مادر میں انسانی تخلیق کی ابتدائی شکل جمے ہوئے خون کے لوتھڑے کی سی ہوتی ہے۔ آج جب ہم جنینیات Embryology کے بارے میں جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں لفظ ”عَلَقہ“ پر غور کرتے ہیں تو اس کا مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ جدید سائنسی معلومات کے مطابق fertilized ovum ابتدائی مرحلے میں رحم کی دیوار کے اندر جما ہوا embeded ہوتا ہے ‘ جبکہ اگلے مرحلے میں وہ اس سے ابھر کر ‘ bulge out کر کے دیوار کے ساتھ جونک کی طرح لٹکنے لگ جاتا ہے۔ اور یہی دراصل ”علقہ“ ہے۔فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً ”پھر اگلے مرحلے میں یہ ”علقہ“ گوشت کے ایک نیم چبائے ہوئے لوتھڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ بلکہ ڈاکٹر کیتھ ایل مور موصوف دور حاضر میں علم الجنین پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا ذکر بیان القرآن کے حصہ اوّل ‘ تعارف قرآن کے باب پنجم میں بھی آچکا ہے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کی وضاحت کے لیے کچے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اور واقعتا اسے دانتوں سے چبا کر دکھایا کہ دانتوں کے نشان پڑجانے سے اس گوشت کے ٹکڑے کی جو شکل بنی ہے بعینہٖ وہی شکل اس مرحلے میں ”مُضغۃ“ کی ہوتی ہے۔ فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق ”اور اس کے بعد ”ثُمّ“ کے ساتھ چوتھے اور آخری دور کا ذکر ہے :ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط ”آیت کے اس حصے میں معنی کا ایک جہان آباد ہے ‘ مگر اسے بہت کم لوگوں نے سمجھا ہے۔ عام لوگ قرآن کی ایسی بہت سی آیات کو پڑھتے ہوئے بیخبر ی سے یوں آگے گزر جاتے ہیں جیسے ان میں کوئی خاص بات نہ ہو ‘ مگر جس پر حقیقت منکشف ہوتی ہے اسے کلام اللہ کے ایک ایک حرف کے اندر قیامت مضمر دکھائی دیتی ہے۔ کتنے ہی مفسرین ہیں جو سورة الحدید کی تیسری آیت ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج کی تفسیر کیے بغیر آگے گزر گئے ہیں ‘ لیکن امام رازی رح جب اسے پڑھتے ہیں تو ان کی نظر کسی اور ہی جہان کا نظارہ کرتی ہے ‘ اس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں : اِعْلَمْ اَنَّ ھٰذَا الْمَقَامَ مَقامٌ غَامِضٌ عَمِیْقٌ مُہِیبٌ جان لو کہ یہ مقام بہت مشکل ‘ بہت گہرا اور بہت پرہیبت ہے ! یہ قرآن کا معجزاتی پہلو ہے اور اس کا تعلق دیکھنے والی آنکھ سے ہے۔ بہر حال ان آیات کو پھر سے پڑھیے اور تخلیق کے مراحل میں ”فَ“ اور ”ثُمَّ“ کے نازک فرق کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ غور کیجیے ! یہاں ”ثُمَّ“ کا وقفہ ایک پورے دور کو ظاہر کرتا ہے ‘ جبکہ تخلیقی عمل کے اندرونی مراحل کے بیان کو ”فَ“ سے الگ کیا گیا ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ یعنی مٹی کے جوہر سے نطفے کی تخلیق ایک مکمل دور ہے۔ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ یہ دوسرا دور ہے۔ یعنی نطفے کا قرار مکین میں پہنچ کر ایک بیج کی حیثیت سے دفن ہوجانا۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً یہ تیسرے دور کا ذکر ہے اور اس دور کے اندر تین مراحل ہیں ‘ ہر مرحلے کے ذکر کے ساتھ ”فَ“ کا استعمال ہوا ہے : فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق۔ اس کے بعد ”ثُمَّ“ کے ساتھ چوتھے اور آخری دور کا ذکر ہے : ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط ”پھر ہم نے اسے ایک اور دوسری مخلوق بنا کھڑا کیا“۔ یعنی اب یہ ایک بالکل نئی مخلوق ہے۔ یہاں ”بالکل نئی مخلوق“ سے کیا مراد ہے ؟ اس کی تفصیل اس حدیث میں ملتی ہے جس کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود رض ہیں۔ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بایں الفاظ نقل ہوئی ہے : اِنَّ اَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا نُطْفَۃً ، ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ ، ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ ، ثُمَّ یُرْسَلُ اِلَیْہِ الْمَلَکُ فَیَنْفُخُ فِیْہِ الرُّوْحَ۔۔ 1”تم میں سے ہر ایک کی تخلیق یوں ہوتی ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک نطفہ کی صورت ‘ میں ‘ اس کے بعد اتنے ہی روز تک علقہ کی صورت میں ‘ اور اس کے بعد اتنے ہی روز گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں رہتا ہے۔ بعد ازاں اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے ‘ پس وہ اس میں روح پھونکتا ہے۔۔“یعنی چالیس دن تک نطفہ ‘ پھر چالیس دن تک علقہ اور اس کے بعد چالیس دن تک مضغۃ ‘ ایک سو بیس دن چار ماہ میں یہ تین مراحل مکمل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں۔ وہ کو لڈ سٹوریج عالم ارواح سے اس کی روح کو لا کر اس مادی جسم کے ساتھ ملا دیتا ہے اور یوں ایک نئی مخلوق وجود میں آجاتی ہے۔ یعنی اب تک وہ ایک حیوانی جسم تھا ‘ لیکن اس روح کے پھونکے جانے کے بعد وہ انسان بن گیا۔ البتہ اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے میں بھی لوگوں سے غلطی ہوئی ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا گیا ہے کہ ایک سو بیس دن کے بعد اس جسم میں جان ڈال دی جاتی ہے۔ یعنی روح کو ”جان“ life سمجھا گیا ہے۔ گویا چار ماہ تک تخلیقی مراحل سے گزرتا ہوا یہ وجود بےجان تھا ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی یا جان اس میں پہلے دن سے ہی موجود تھی۔ حتیٰ کہ باپ کے نطفے کا خلیہ spermatozoon اور ماں کا بیضہ ovum بھی اپنی اپنی جگہ پر زندہ وجود ہیں اور ان دونوں کے اختلاط سے وجود میں آنے والا جفتہ zygote بھی۔ بہر حال ایک سو بیس دن کے بعد اس جسد حیوانی میں ”روح“ پھونکی جاتی ہے ‘ جو ایک نورانی چیز ہے اور وہی اسے حیوان سے انسان بناتی ہے۔ اور اسی تبدیلی یا تخلیقی مرحلے کو آیت زیر نظر میں ”خَلْقًا اٰخَرَ“ ایک نئی تخلیق سے تعبیر کیا گیا ہے۔

ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ

📘 آیت 14 ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً ”عَلَقہ کا ترجمہ عام طور پر ”جما ہوا خون“ ہوتا آیا ہے جو کہ غلط ہے۔ لغوی اعتبار سے عربی مادہ علق ع ل ق سے معلق ‘ تعلق ‘ متعلق ‘ علاقہ وغیرہ الفاظ تو مشتق ہیں لیکن اس لفظ کا جمے ہوئے خون کے مفہوم و معانی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ دراصل جس زمانے میں یہ تراجم ہوئے ہیں اس میں نہ تو dissection کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی ابھی مائیکروسکوپ ایجاد ہوئی تھی ‘ لہٰذا علم الجنین کے بارے میں تمام تر معلومات کی بنیاد ظاہری مشاہدے پر تھی۔ اور چونکہ ابتدائی ایام کا حمل گرنے کی صورت میں رحم سے بظاہر خون کے لوتھڑے ہی برآمد ہوتے تھے ‘ اس لیے اس سے یہی سمجھا گیا کہ رحم مادر میں انسانی تخلیق کی ابتدائی شکل جمے ہوئے خون کے لوتھڑے کی سی ہوتی ہے۔ آج جب ہم جنینیات Embryology کے بارے میں جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں لفظ ”عَلَقہ“ پر غور کرتے ہیں تو اس کا مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ جدید سائنسی معلومات کے مطابق fertilized ovum ابتدائی مرحلے میں رحم کی دیوار کے اندر جما ہوا embeded ہوتا ہے ‘ جبکہ اگلے مرحلے میں وہ اس سے ابھر کر ‘ bulge out کر کے دیوار کے ساتھ جونک کی طرح لٹکنے لگ جاتا ہے۔ اور یہی دراصل ”علقہ“ ہے۔فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً ”پھر اگلے مرحلے میں یہ ”علقہ“ گوشت کے ایک نیم چبائے ہوئے لوتھڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ بلکہ ڈاکٹر کیتھ ایل مور موصوف دور حاضر میں علم الجنین پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا ذکر بیان القرآن کے حصہ اوّل ‘ تعارف قرآن کے باب پنجم میں بھی آچکا ہے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کی وضاحت کے لیے کچے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اور واقعتا اسے دانتوں سے چبا کر دکھایا کہ دانتوں کے نشان پڑجانے سے اس گوشت کے ٹکڑے کی جو شکل بنی ہے بعینہٖ وہی شکل اس مرحلے میں ”مُضغۃ“ کی ہوتی ہے۔ فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق ”اور اس کے بعد ”ثُمّ“ کے ساتھ چوتھے اور آخری دور کا ذکر ہے :ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط ”آیت کے اس حصے میں معنی کا ایک جہان آباد ہے ‘ مگر اسے بہت کم لوگوں نے سمجھا ہے۔ عام لوگ قرآن کی ایسی بہت سی آیات کو پڑھتے ہوئے بیخبر ی سے یوں آگے گزر جاتے ہیں جیسے ان میں کوئی خاص بات نہ ہو ‘ مگر جس پر حقیقت منکشف ہوتی ہے اسے کلام اللہ کے ایک ایک حرف کے اندر قیامت مضمر دکھائی دیتی ہے۔ کتنے ہی مفسرین ہیں جو سورة الحدید کی تیسری آیت ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج کی تفسیر کیے بغیر آگے گزر گئے ہیں ‘ لیکن امام رازی رح جب اسے پڑھتے ہیں تو ان کی نظر کسی اور ہی جہان کا نظارہ کرتی ہے ‘ اس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں : اِعْلَمْ اَنَّ ھٰذَا الْمَقَامَ مَقامٌ غَامِضٌ عَمِیْقٌ مُہِیبٌ جان لو کہ یہ مقام بہت مشکل ‘ بہت گہرا اور بہت پرہیبت ہے ! یہ قرآن کا معجزاتی پہلو ہے اور اس کا تعلق دیکھنے والی آنکھ سے ہے۔ بہر حال ان آیات کو پھر سے پڑھیے اور تخلیق کے مراحل میں ”فَ“ اور ”ثُمَّ“ کے نازک فرق کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ غور کیجیے ! یہاں ”ثُمَّ“ کا وقفہ ایک پورے دور کو ظاہر کرتا ہے ‘ جبکہ تخلیقی عمل کے اندرونی مراحل کے بیان کو ”فَ“ سے الگ کیا گیا ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ یعنی مٹی کے جوہر سے نطفے کی تخلیق ایک مکمل دور ہے۔ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ یہ دوسرا دور ہے۔ یعنی نطفے کا قرار مکین میں پہنچ کر ایک بیج کی حیثیت سے دفن ہوجانا۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً یہ تیسرے دور کا ذکر ہے اور اس دور کے اندر تین مراحل ہیں ‘ ہر مرحلے کے ذکر کے ساتھ ”فَ“ کا استعمال ہوا ہے : فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق۔ اس کے بعد ”ثُمَّ“ کے ساتھ چوتھے اور آخری دور کا ذکر ہے : ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط ”پھر ہم نے اسے ایک اور دوسری مخلوق بنا کھڑا کیا“۔ یعنی اب یہ ایک بالکل نئی مخلوق ہے۔ یہاں ”بالکل نئی مخلوق“ سے کیا مراد ہے ؟ اس کی تفصیل اس حدیث میں ملتی ہے جس کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود رض ہیں۔ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بایں الفاظ نقل ہوئی ہے : اِنَّ اَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا نُطْفَۃً ، ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ ، ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ ، ثُمَّ یُرْسَلُ اِلَیْہِ الْمَلَکُ فَیَنْفُخُ فِیْہِ الرُّوْحَ۔۔ 1”تم میں سے ہر ایک کی تخلیق یوں ہوتی ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک نطفہ کی صورت ‘ میں ‘ اس کے بعد اتنے ہی روز تک علقہ کی صورت میں ‘ اور اس کے بعد اتنے ہی روز گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں رہتا ہے۔ بعد ازاں اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے ‘ پس وہ اس میں روح پھونکتا ہے۔۔“یعنی چالیس دن تک نطفہ ‘ پھر چالیس دن تک علقہ اور اس کے بعد چالیس دن تک مضغۃ ‘ ایک سو بیس دن چار ماہ میں یہ تین مراحل مکمل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں۔ وہ کو لڈ سٹوریج عالم ارواح سے اس کی روح کو لا کر اس مادی جسم کے ساتھ ملا دیتا ہے اور یوں ایک نئی مخلوق وجود میں آجاتی ہے۔ یعنی اب تک وہ ایک حیوانی جسم تھا ‘ لیکن اس روح کے پھونکے جانے کے بعد وہ انسان بن گیا۔ البتہ اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے میں بھی لوگوں سے غلطی ہوئی ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا گیا ہے کہ ایک سو بیس دن کے بعد اس جسم میں جان ڈال دی جاتی ہے۔ یعنی روح کو ”جان“ life سمجھا گیا ہے۔ گویا چار ماہ تک تخلیقی مراحل سے گزرتا ہوا یہ وجود بےجان تھا ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی یا جان اس میں پہلے دن سے ہی موجود تھی۔ حتیٰ کہ باپ کے نطفے کا خلیہ spermatozoon اور ماں کا بیضہ ovum بھی اپنی اپنی جگہ پر زندہ وجود ہیں اور ان دونوں کے اختلاط سے وجود میں آنے والا جفتہ zygote بھی۔ بہر حال ایک سو بیس دن کے بعد اس جسد حیوانی میں ”روح“ پھونکی جاتی ہے ‘ جو ایک نورانی چیز ہے اور وہی اسے حیوان سے انسان بناتی ہے۔ اور اسی تبدیلی یا تخلیقی مرحلے کو آیت زیر نظر میں ”خَلْقًا اٰخَرَ“ ایک نئی تخلیق سے تعبیر کیا گیا ہے۔

ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ

📘 آیت 16 ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ ”یہ گویا حیات انسانی کے مختلف مراحل کا بہترین اور جامع ترین بیان ہے ‘ جو ان آیات میں ہوا ہے۔ اس موضوع پر یہ قرآن حکیم کا ذروۂ سنام climax ہے۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ

📘 آیت 17 وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعَ طَرَآءِقَق ”عام طور پر ”سَبْعَ طَرَآءِقَ“ سے سات آسمان مراد لیے جاتے ہیں۔ ”طرائق“ کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور طبقوں کے بھی۔ دوسرے معنی کے مطابق اس سے ”تہہ بر تہہ سات آسمان“ مراد ہیں۔ واللہ اعلم ! جب تک انسانی علم کی رسائی اس کی حقیقت تک نہ ہوجائے ‘ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لحاظ سے یہ آیت متشابہات میں سے ہوگی۔

وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ

📘 آیت 18 وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًم بِقَدَرٍ ”زمین پر پانی اسی مقدار میں رکھا گیا ہے جس قدر واقعتا یہاں اس کی ضروت ہے۔ اگر اس مقدار سے پانی زیادہ ہوجائے تو روئے زمین سیلاب میں ڈوب جائے اور پوری نوع انسانی اس میں غرق ہوجائے۔ اور اگر اس مقدار سے کم ہو تو زمین پر زندگی کا وجود ہی ممکن نہ رہے۔فَاَسْکَنّٰہُ فِی الْاَرْضِ ق وَاِنَّا عَلٰی ذَہَابٍمبِہٖ لَقٰدِرُوْنَ ”اگر ہم چاہیں تو روئے ارضی سے پانی کا وجود ختم کردیں اور یوں دنیا میں زندگی کی بنیاد ہی ختم ہوجائے۔

فَأَنْشَأْنَا لَكُمْ بِهِ جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ لَكُمْ فِيهَا فَوَاكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ

📘 لَکُمْ فِیْہَا فَوَاکِہُ کَثِیْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْکُلُوْنَ ”ان میں سے اکثر پھل تمہارے لیے غذا کا کام دیتے ہیں۔

الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ

📘 آیت 2 الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ ”کامیاب ‘ بامراد اور فائز المرام اہل ایمان وہ ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ان کی توجہ رکعتوں کی گنتی پوری کرنے پر ہی مرکوز نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی نمازوں میں عاجزی اور فروتنی اختیار کرتے ہیں۔ ان کی نمازیں حقیقی خشوع و خضوع کا منظر پیش کرتی ہیں۔

وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُورِ سَيْنَاءَ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِلْآكِلِينَ

📘 آیت 20 وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآءَ ”اس سے زیتون کا درخت مراد ہے جو عام طور پر جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑی علاقوں میں بکثرت پایا جاتا ہے۔م تَنْبُتُ بالدُّہْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰکِلِیْنَ ”ایک زمانے میں روئے زمین پر وسیع علاقے کی آبادی کا اپنی خوراک کے لیے بنیادی طور پر اسی زیتون پر ہی انحصار تھا اور عام لوگ روغن زیتون میں روٹی کو بھگو کر کھالیتے تھے۔

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ

📘 آیت 21 وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ط ”اگر تم سمجھنا چاہو تو ان میں تمہاری ہدایت کے لیے بہت واضح نشانیاں ہیں۔نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہَا ”سورۃ النحل میں اس عجوبۂ قدرت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے : وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْ نِہٖ مِنْم بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآءِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ ”اور یقیناً تمہارے لیے چوپایوں میں بھی عبرت ہے ‘ ہم پلاتے ہیں تمہیں اس میں سے جو ان کے پیٹوں میں ہوتا ہے ‘ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ ‘ پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار“۔ اگر ہم گائے یا بھینس کا پیٹ چاک کرکے دیکھیں تو اس کے اندر ہمیں گوبر اور خون ہی نظر آئے گا۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ انہی آلائشوں کے اندر سے صافّ شفاف دودھ پیدا ہوتا ہے جو انسانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور قدرت پر غور کریں تو بچوں کی نظم کے یہ اشعار بےاختیار زبان پر آجاتے ہیں : رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی اس خالق کو کیوں نہ پکاریں جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں وَلَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ کَثِیْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْکُلُوْنَ ”یہ چوپائے بہت سے کاموں میں تمہاری مدد کرتے ہیں۔ تمہارے سازو سامان کی نقل و حمل میں تمہارے کام آتے ہیں اور تم اپنی غذا میں پروٹین بھی انہی کے گوشت سے حاصل کرتے ہو۔

وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ

📘 آیت 22 وَعَلَیْہَا وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُوْنَ ”چنانچہ ان سب چیزوں اور نعمتوں میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ

📘 آیت 22 وَعَلَیْہَا وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُوْنَ ”چنانچہ ان سب چیزوں اور نعمتوں میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔

فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً مَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ

📘 آیت 24 فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا ہٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْلا ”حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے بڑے بڑے سرداروں نے اپنے عوام کو تسلی دینے کے لیے ان کے سامنے یہ دلیل اختیار کی کہ یہ نوح علیہ السلام بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہی تو ہے اور ایک انسان اللہ کا فرستادہ کیسے ہوسکتا ہے ؟یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ ط ”اس نے اقتدار و اختیار اور سرداری حاصل کرنے کے لیے نبوت و رسالت کا یہ ڈھونگ رچایا ہے۔وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَاَنْزَلَ مَلآءِکَۃً ج ”اگر اللہ نے اپنا رسول بھیجنا ہوتا تو وہ اپنے فرشتوں میں سے کسی کو بھیجتا۔ اس شخص میں کون سی ایسی خاص بات تھی کہ اللہ نے اسے اس کام کے لیے منتخب کیا ہے ؟مَّا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِیْٓ اٰبَآءِنَا الْاَوَّلِیْنَ ”اس کا یہ دعویٰ بالکل نیا ہے۔ ہم نے ایسی کوئی بات اپنے باپ دادا سے تو نہیں سنی کہ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے بھی کسی کو رسول مبعوث کرتا ہے۔

إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّىٰ حِينٍ

📘 آیت 24 فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا ہٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْلا ”حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے بڑے بڑے سرداروں نے اپنے عوام کو تسلی دینے کے لیے ان کے سامنے یہ دلیل اختیار کی کہ یہ نوح علیہ السلام بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہی تو ہے اور ایک انسان اللہ کا فرستادہ کیسے ہوسکتا ہے ؟یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ ط ”اس نے اقتدار و اختیار اور سرداری حاصل کرنے کے لیے نبوت و رسالت کا یہ ڈھونگ رچایا ہے۔وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَاَنْزَلَ مَلآءِکَۃً ج ”اگر اللہ نے اپنا رسول بھیجنا ہوتا تو وہ اپنے فرشتوں میں سے کسی کو بھیجتا۔ اس شخص میں کون سی ایسی خاص بات تھی کہ اللہ نے اسے اس کام کے لیے منتخب کیا ہے ؟مَّا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِیْٓ اٰبَآءِنَا الْاَوَّلِیْنَ ”اس کا یہ دعویٰ بالکل نیا ہے۔ ہم نے ایسی کوئی بات اپنے باپ دادا سے تو نہیں سنی کہ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے بھی کسی کو رسول مبعوث کرتا ہے۔

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ

📘 آیت 24 فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا ہٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْلا ”حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے بڑے بڑے سرداروں نے اپنے عوام کو تسلی دینے کے لیے ان کے سامنے یہ دلیل اختیار کی کہ یہ نوح علیہ السلام بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہی تو ہے اور ایک انسان اللہ کا فرستادہ کیسے ہوسکتا ہے ؟یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ ط ”اس نے اقتدار و اختیار اور سرداری حاصل کرنے کے لیے نبوت و رسالت کا یہ ڈھونگ رچایا ہے۔وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَاَنْزَلَ مَلآءِکَۃً ج ”اگر اللہ نے اپنا رسول بھیجنا ہوتا تو وہ اپنے فرشتوں میں سے کسی کو بھیجتا۔ اس شخص میں کون سی ایسی خاص بات تھی کہ اللہ نے اسے اس کام کے لیے منتخب کیا ہے ؟مَّا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِیْٓ اٰبَآءِنَا الْاَوَّلِیْنَ ”اس کا یہ دعویٰ بالکل نیا ہے۔ ہم نے ایسی کوئی بات اپنے باپ دادا سے تو نہیں سنی کہ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے بھی کسی کو رسول مبعوث کرتا ہے۔

فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ

📘 فَاسْلُکْ فِیْہَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ”ہر قسم کے جاندار ‘ حیوانات وغیرہ میں سے ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ کو بھی اس کشتی میں سوار کرلینا تاکہ ان کی نسل محفوظ رہ سکے۔وَاَہْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ مِنْہُمْ ج ”اس استثناء میں آپ علیہ السلام کی بیوی اور ایک بیٹا شامل تھے ‘ جن کے بارے میں پہلے ہی ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا تھا۔

فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنْتَ وَمَنْ مَعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

📘 فَاسْلُکْ فِیْہَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ”ہر قسم کے جاندار ‘ حیوانات وغیرہ میں سے ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ کو بھی اس کشتی میں سوار کرلینا تاکہ ان کی نسل محفوظ رہ سکے۔وَاَہْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ مِنْہُمْ ج ”اس استثناء میں آپ علیہ السلام کی بیوی اور ایک بیٹا شامل تھے ‘ جن کے بارے میں پہلے ہی ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا تھا۔

وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ

📘 آیت 29 وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَکًا ”پروردگار ! ہم تیری مہربانی اور تیرے حکم سے اس کشتی میں سوار ہوئے ہیں۔ ہمیں مستقبل کا کچھ علم نہیں۔ ہم نہیں جانتے اب یہ کشتی ہمیں لے کر کہاں کہاں جائے گی اور کہاں پر جا کر رکے گی۔ یہ معاملہ اب تیرے سپرد ہے۔ ہماری التجا ہے کہ اس کشتی سے ہمارے اترنے کو بھی بابرکت بنا دے۔

وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ

📘 آیت 3 وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ”یعنی ان کا دوسرا وصف ہے بےکار باتوں سے احتراز کرنا ‘ بچنا ‘ دامن بچائے رکھنا۔ لغو سے مراد گناہ یا معصیت کا کام نہیں ‘ بلکہ ہر ایسا عمل یا کام ہے جو بےفائدہ اور فضول ہو۔ جیسے لوگ محفل جما کر تاش کھیلتے ہیں اور وقت کو ایسے ضائع کرتے ہیں جیسے یہ کوئی بوجھ liability ہو اور اسے سر سے اتار پھینکنا ناگزیز ہو۔ انہیں احساس نہیں ہو تاکہ یہ وقت ہی تو انسان کا سب سے بڑا سرمایہ asset ہے۔ اس وقت سے فائدہ اٹھا کر ہی انسان اپنی عاقبت کو سنوار سکتا ہے اور جو اس وقت کو فضول میں ضائع کرتا ہے وہ گویا اپنی عاقبت کو ضائع کرتا ہے۔ اس آیت میں مؤمنین صادقین کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ مہلت زندگی کو اپنا قیمتی سرمایہ سمجھتے ہیں۔ انہیں زندگی میں ایک ایک لمحے کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ صرف ایک دفعہ ”سبحان اللہ“ کہنے سے اللہ کے ہاں ان کے درجات کس قدر بلند ہوجاتے ہیں۔ چناچہ وہ اپنا وقت فضول اور بےمقصد مصروفیات میں ضائع نہیں کرتے۔ وہ زندگی کے ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھا تے ہیں اور اسے اپنی شخصیت کی تعمیر اور آخرت کے اجر وثواب کے حصول کے لیے صرف کرتے ہیں۔

إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ وَإِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِينَ

📘 آیت 30 اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ وَّاِنْ کُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ ”اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے تحت دنیا میں مختلف لوگوں کو مختلف انداز میں آزماتے رہتے ہیں۔ اس اصول اور قانون کے بارے میں سورة الملک کے آغاز میں یوں ارشاد ہوا ہے : الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط آیت 2 ”وہی اللہ ہے جس نے موت اور حیات کو بنایا ہی اس لیے ہے کہ تمہیں پرکھے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے بہتر کون ہے !“

ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ

📘 آیت 31 ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْم بَعْدِہِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ ”اس سے مراد قوم عاد یا قوم ثمود ہے۔

فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ

📘 آیت 32 فَاَرْسَلْنَا فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ ”یہاں پر نام نہیں بتایا گیا لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ یہ حضرت ہود علیہ السلام کا تذکرہ ہے یا پھر حضرت صالح علیہ السلام کا۔

وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ

📘 وَاَتْرَفْنٰہُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَالا ” قوم نوح علیہ السلام کے سرداروں کی طرح اس قوم کے بڑے سرداروں نے بھی اپنے عوام کو اسی منطق سے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ :

وَلَئِنْ أَطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ

📘 آیت 34 وَلَءِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَکُمْلا اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ”ذرا ان سرداروں کی منطق اور دلیل ملاحظہ ہو۔ یعنی اگر تم لوگ ہماری اطاعت کرو تو درست اور بجا ‘ لیکن اس شخص کا کہنا مانو تو ناقابل قبول ! اس لیے کہ ہم پیدائشی سردار ہیں ‘ تمہارے حکمران ہیں ‘ ہمارا حکم تو تمہیں ماننا ہی ماننا ہے۔ ہماری اطاعت تو تم پر لازم ہے ہی ‘ مگر اس شخص کی اطاعت اس لیے نہیں ہوسکتی کہ یہ تمہاری طرح کا انسان ہے۔ یہ دلیل دیتے ہوئے وہ بھول گئے کہ وہ خود کوئی فرشتے نہیں بلکہ اپنے عوام جیسے ہی انسان ہیں اور انسان ہوتے ہوئے ہی وہ اپنے جیسے انسانوں سے اطاعت اور فرمانبرداری کی توقع رکھتے ہیں۔

أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُمْ مُخْرَجُونَ

📘 آیت 34 وَلَءِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَکُمْلا اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ”ذرا ان سرداروں کی منطق اور دلیل ملاحظہ ہو۔ یعنی اگر تم لوگ ہماری اطاعت کرو تو درست اور بجا ‘ لیکن اس شخص کا کہنا مانو تو ناقابل قبول ! اس لیے کہ ہم پیدائشی سردار ہیں ‘ تمہارے حکمران ہیں ‘ ہمارا حکم تو تمہیں ماننا ہی ماننا ہے۔ ہماری اطاعت تو تم پر لازم ہے ہی ‘ مگر اس شخص کی اطاعت اس لیے نہیں ہوسکتی کہ یہ تمہاری طرح کا انسان ہے۔ یہ دلیل دیتے ہوئے وہ بھول گئے کہ وہ خود کوئی فرشتے نہیں بلکہ اپنے عوام جیسے ہی انسان ہیں اور انسان ہوتے ہوئے ہی وہ اپنے جیسے انسانوں سے اطاعت اور فرمانبرداری کی توقع رکھتے ہیں۔

۞ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ

📘 آیت 34 وَلَءِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَکُمْلا اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ”ذرا ان سرداروں کی منطق اور دلیل ملاحظہ ہو۔ یعنی اگر تم لوگ ہماری اطاعت کرو تو درست اور بجا ‘ لیکن اس شخص کا کہنا مانو تو ناقابل قبول ! اس لیے کہ ہم پیدائشی سردار ہیں ‘ تمہارے حکمران ہیں ‘ ہمارا حکم تو تمہیں ماننا ہی ماننا ہے۔ ہماری اطاعت تو تم پر لازم ہے ہی ‘ مگر اس شخص کی اطاعت اس لیے نہیں ہوسکتی کہ یہ تمہاری طرح کا انسان ہے۔ یہ دلیل دیتے ہوئے وہ بھول گئے کہ وہ خود کوئی فرشتے نہیں بلکہ اپنے عوام جیسے ہی انسان ہیں اور انسان ہوتے ہوئے ہی وہ اپنے جیسے انسانوں سے اطاعت اور فرمانبرداری کی توقع رکھتے ہیں۔

إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ

📘 آیت 34 وَلَءِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَکُمْلا اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ”ذرا ان سرداروں کی منطق اور دلیل ملاحظہ ہو۔ یعنی اگر تم لوگ ہماری اطاعت کرو تو درست اور بجا ‘ لیکن اس شخص کا کہنا مانو تو ناقابل قبول ! اس لیے کہ ہم پیدائشی سردار ہیں ‘ تمہارے حکمران ہیں ‘ ہمارا حکم تو تمہیں ماننا ہی ماننا ہے۔ ہماری اطاعت تو تم پر لازم ہے ہی ‘ مگر اس شخص کی اطاعت اس لیے نہیں ہوسکتی کہ یہ تمہاری طرح کا انسان ہے۔ یہ دلیل دیتے ہوئے وہ بھول گئے کہ وہ خود کوئی فرشتے نہیں بلکہ اپنے عوام جیسے ہی انسان ہیں اور انسان ہوتے ہوئے ہی وہ اپنے جیسے انسانوں سے اطاعت اور فرمانبرداری کی توقع رکھتے ہیں۔

إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا وَمَا نَحْنُ لَهُ بِمُؤْمِنِينَ

📘 آیت 38 اِنْ ہُوَ اِلَّا رَجُلُنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ”اس نے اپنی نبوت و رسالت کے بارے میں جھوٹ گھڑ کر اللہ سے منسوب کردیا ہے۔

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ

📘 آیت 38 اِنْ ہُوَ اِلَّا رَجُلُنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ”اس نے اپنی نبوت و رسالت کے بارے میں جھوٹ گھڑ کر اللہ سے منسوب کردیا ہے۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ

📘 آیت 4 وَالَّذِیْنَ ہُمْ للزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ ”یہ کامیاب وبامراد اہل ایمان کا تیسرا وصف بیان ہوا۔ یہاں ”زکوٰۃ“ کا لفظ اصطلاحی معنی میں نہیں بلکہ اپنے لغوی معنی میں آیا ہے اور اس سے مراد تزکیۂ نفس ہے۔ اس لیے کہ یہ ابتدائی مکی دور کی سورت ہے اور اس وقت تک زکوٰۃ ادا کرنے کا ابھی کوئی تصور نہیں تھا۔ ویسے بھی قرآن حکیم میں زکوٰۃ کے ساتھ عموماً لفظ ”ایتاء“ آتا ہے۔ چناچہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے مؤمن بندے ہمہ وقت ‘ ہمہ تن اپنے نفس کے تزکیے کے لیے کوشاں اور اپنے دامن کے داغ دھبے دھونے کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔

قَالَ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نَادِمِينَ

📘 آیت 38 اِنْ ہُوَ اِلَّا رَجُلُنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ”اس نے اپنی نبوت و رسالت کے بارے میں جھوٹ گھڑ کر اللہ سے منسوب کردیا ہے۔

فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاهُمْ غُثَاءً ۚ فَبُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 41 فَاَخَذَتْہُمُ الصَّیْحَۃُ بالْحَقِّ فَجَعَلْنٰہُمْ غُثَآءً ج ”جیسے کھیت سے فصل کٹ جانے کے بعد پیچھے بھوسہ اور خس و خاشاک پڑے رہ جاتے ہیں اسی طرح انہیں جھاڑ جھنکاڑ اور کوڑے کرکٹ میں تبدیل کردیا گیا۔

ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قُرُونًا آخَرِينَ

📘 آیت 41 فَاَخَذَتْہُمُ الصَّیْحَۃُ بالْحَقِّ فَجَعَلْنٰہُمْ غُثَآءً ج ”جیسے کھیت سے فصل کٹ جانے کے بعد پیچھے بھوسہ اور خس و خاشاک پڑے رہ جاتے ہیں اسی طرح انہیں جھاڑ جھنکاڑ اور کوڑے کرکٹ میں تبدیل کردیا گیا۔

مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ

📘 آیت 41 فَاَخَذَتْہُمُ الصَّیْحَۃُ بالْحَقِّ فَجَعَلْنٰہُمْ غُثَآءً ج ”جیسے کھیت سے فصل کٹ جانے کے بعد پیچھے بھوسہ اور خس و خاشاک پڑے رہ جاتے ہیں اسی طرح انہیں جھاڑ جھنکاڑ اور کوڑے کرکٹ میں تبدیل کردیا گیا۔

ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَىٰ ۖ كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَسُولُهَا كَذَّبُوهُ ۚ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ ۚ فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 کُلَّمَا جَآءَ اُمَّۃً رَّسُوْلُہَاکَذَّبُوْہُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَہُمْ بَعْضًا ”ان کی تکذیب کے جواب میں ہم بھی ان قوموں کو یکے بعد دیگرے ہلاک کرتے چلے گئے۔ وَّجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِیْثَ ج ”ان قوموں کے نام اب دنیا میں کہانیوں اور داستانوں کی حد تک باقی رہ گئے ہیں کہ قوم مدین فلاں علاقے میں بستی تھی ‘ عامورہ اور سدوم کے شہر فلاں جگہ پر واقع تھے ‘ وغیرہ وغیرہ۔

ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ وَأَخَاهُ هَارُونَ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ

📘 کُلَّمَا جَآءَ اُمَّۃً رَّسُوْلُہَاکَذَّبُوْہُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَہُمْ بَعْضًا ”ان کی تکذیب کے جواب میں ہم بھی ان قوموں کو یکے بعد دیگرے ہلاک کرتے چلے گئے۔ وَّجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِیْثَ ج ”ان قوموں کے نام اب دنیا میں کہانیوں اور داستانوں کی حد تک باقی رہ گئے ہیں کہ قوم مدین فلاں علاقے میں بستی تھی ‘ عامورہ اور سدوم کے شہر فلاں جگہ پر واقع تھے ‘ وغیرہ وغیرہ۔

إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا عَالِينَ

📘 کُلَّمَا جَآءَ اُمَّۃً رَّسُوْلُہَاکَذَّبُوْہُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَہُمْ بَعْضًا ”ان کی تکذیب کے جواب میں ہم بھی ان قوموں کو یکے بعد دیگرے ہلاک کرتے چلے گئے۔ وَّجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِیْثَ ج ”ان قوموں کے نام اب دنیا میں کہانیوں اور داستانوں کی حد تک باقی رہ گئے ہیں کہ قوم مدین فلاں علاقے میں بستی تھی ‘ عامورہ اور سدوم کے شہر فلاں جگہ پر واقع تھے ‘ وغیرہ وغیرہ۔

فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ

📘 آیت 47 فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ”فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام پر ایک اعتراض تو وہی کیا جو حضرت نوح ‘ حضرت ہود اور حضرت صالح علیہ السلام کی قومیں اپنے رسولوں کے بارے میں کرچکی تھیں۔ یعنی یہ کہ وہ ہماری طرح کے انسان ہیں۔ لیکن یہاں ایک دوسرا مسئلہ بھی تھا اور وہ یہ کہ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کا تعلق فرعون کی محکوم قوم سے تھا۔ بنی اسرائیل مصر میں فرعون کے غلام تھے اور وہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ اس کی غلام قوم کے دو اشخاص اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے دو بدو بات کریں۔ سیاق وسباق کے حوالے سے یہاں پر لفظ ”عبادت“ کے اصل مفہوم کو بھی سمجھ لیں۔ ظاہر ہے کہ اس لفظ کا جو مفہوم آج ہمارے ذہنوں میں ہے بنی اسرائیل اس مفہوم میں فرعون یا اس کی قوم کی عبادت نہیں کرتے تھے ‘ یعنی وہ ان کی پرستش یا پوجا نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ وہ ان کی اطاعت کرتے تھے اور یہاں فرعون نے اسی اطاعت کو لفظ ”عبادت“ سے تعبیر کیا ہے۔ چناچہ فرعون کے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قوم ہماری غلام ہے ‘ ہماری اطاعت شعار ہے ‘ ہم ان پر مطلق اختیار رکھتے ہیں ‘ ہم جو چاہیں انہیں حکم دیں اور جیسا قانون ہم چاہیں ان پر لاگو کریں۔ ہم چاہیں تو ان کے لڑکوں کو قتل کرواتے رہیں اور چاہیں تو ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دیا کریں۔ یہ لوگ ہمارے غلام اور محکوم ہونے کے باعث ہمارے کسی حکم سے سرتابی کی جرأت نہیں کرسکتے۔

فَكَذَّبُوهُمَا فَكَانُوا مِنَ الْمُهْلَكِينَ

📘 آیت 47 فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ”فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام پر ایک اعتراض تو وہی کیا جو حضرت نوح ‘ حضرت ہود اور حضرت صالح علیہ السلام کی قومیں اپنے رسولوں کے بارے میں کرچکی تھیں۔ یعنی یہ کہ وہ ہماری طرح کے انسان ہیں۔ لیکن یہاں ایک دوسرا مسئلہ بھی تھا اور وہ یہ کہ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کا تعلق فرعون کی محکوم قوم سے تھا۔ بنی اسرائیل مصر میں فرعون کے غلام تھے اور وہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ اس کی غلام قوم کے دو اشخاص اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے دو بدو بات کریں۔ سیاق وسباق کے حوالے سے یہاں پر لفظ ”عبادت“ کے اصل مفہوم کو بھی سمجھ لیں۔ ظاہر ہے کہ اس لفظ کا جو مفہوم آج ہمارے ذہنوں میں ہے بنی اسرائیل اس مفہوم میں فرعون یا اس کی قوم کی عبادت نہیں کرتے تھے ‘ یعنی وہ ان کی پرستش یا پوجا نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ وہ ان کی اطاعت کرتے تھے اور یہاں فرعون نے اسی اطاعت کو لفظ ”عبادت“ سے تعبیر کیا ہے۔ چناچہ فرعون کے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قوم ہماری غلام ہے ‘ ہماری اطاعت شعار ہے ‘ ہم ان پر مطلق اختیار رکھتے ہیں ‘ ہم جو چاہیں انہیں حکم دیں اور جیسا قانون ہم چاہیں ان پر لاگو کریں۔ ہم چاہیں تو ان کے لڑکوں کو قتل کرواتے رہیں اور چاہیں تو ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دیا کریں۔ یہ لوگ ہمارے غلام اور محکوم ہونے کے باعث ہمارے کسی حکم سے سرتابی کی جرأت نہیں کرسکتے۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ

📘 آیت 47 فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ”فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام پر ایک اعتراض تو وہی کیا جو حضرت نوح ‘ حضرت ہود اور حضرت صالح علیہ السلام کی قومیں اپنے رسولوں کے بارے میں کرچکی تھیں۔ یعنی یہ کہ وہ ہماری طرح کے انسان ہیں۔ لیکن یہاں ایک دوسرا مسئلہ بھی تھا اور وہ یہ کہ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کا تعلق فرعون کی محکوم قوم سے تھا۔ بنی اسرائیل مصر میں فرعون کے غلام تھے اور وہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ اس کی غلام قوم کے دو اشخاص اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے دو بدو بات کریں۔ سیاق وسباق کے حوالے سے یہاں پر لفظ ”عبادت“ کے اصل مفہوم کو بھی سمجھ لیں۔ ظاہر ہے کہ اس لفظ کا جو مفہوم آج ہمارے ذہنوں میں ہے بنی اسرائیل اس مفہوم میں فرعون یا اس کی قوم کی عبادت نہیں کرتے تھے ‘ یعنی وہ ان کی پرستش یا پوجا نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ وہ ان کی اطاعت کرتے تھے اور یہاں فرعون نے اسی اطاعت کو لفظ ”عبادت“ سے تعبیر کیا ہے۔ چناچہ فرعون کے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قوم ہماری غلام ہے ‘ ہماری اطاعت شعار ہے ‘ ہم ان پر مطلق اختیار رکھتے ہیں ‘ ہم جو چاہیں انہیں حکم دیں اور جیسا قانون ہم چاہیں ان پر لاگو کریں۔ ہم چاہیں تو ان کے لڑکوں کو قتل کرواتے رہیں اور چاہیں تو ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دیا کریں۔ یہ لوگ ہمارے غلام اور محکوم ہونے کے باعث ہمارے کسی حکم سے سرتابی کی جرأت نہیں کرسکتے۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ

📘 آیت 4 وَالَّذِیْنَ ہُمْ للزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ ”یہ کامیاب وبامراد اہل ایمان کا تیسرا وصف بیان ہوا۔ یہاں ”زکوٰۃ“ کا لفظ اصطلاحی معنی میں نہیں بلکہ اپنے لغوی معنی میں آیا ہے اور اس سے مراد تزکیۂ نفس ہے۔ اس لیے کہ یہ ابتدائی مکی دور کی سورت ہے اور اس وقت تک زکوٰۃ ادا کرنے کا ابھی کوئی تصور نہیں تھا۔ ویسے بھی قرآن حکیم میں زکوٰۃ کے ساتھ عموماً لفظ ”ایتاء“ آتا ہے۔ چناچہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے مؤمن بندے ہمہ وقت ‘ ہمہ تن اپنے نفس کے تزکیے کے لیے کوشاں اور اپنے دامن کے داغ دھبے دھونے کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔

وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَىٰ رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ

📘 وَّاٰوَیْنٰہُمَآ اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ ”یہاں جس جگہ کا ذکر ہوا ہے اس کے مقام اور زمانے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اس سے مراد وہی ٹیلا ہے جہاں ایک کھجور کے سایے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی۔ شاید آپ علیہ السلام کی ولادت کے بعد ماں بیٹا کچھ عرصہ اسی جگہ پر قیام پذیر رہے ہوں۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کی رائے میں یہ کسی اور جگہ کا ذکر ہے۔ اس دوسری رائے کی بنیاد جن معلومات پر ہے ان کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت اس علاقے میں ہیرودیس بادشاہ کی حکومت تھی جو یہودی تھا۔ جس طرح برصغیر میں انگریزوں کی طرف سے راجوں اور نوابوں کو ان کے علاقوں میں حکمران بنا دیا جاتا تھا اسی طرح رومن شہنشاہ نے اس علاقے میں اس شخص کو بادشاہ مقرر کر رکھا تھا۔ اس کٹھ پتلی بادشاہ کو ایک خواب آیا تھا جس کی بنا پر نجومیوں نے اس کے دل میں یہ وہم ڈال دیا کہ تمہاری سلطنت میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو بڑا ہو کر تمہاری ہلاکت کا باعث بنے گا۔ چناچہ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ اس کی سلطنت میں جو لڑکا بھی پیدا ہو ‘ اسے قتل کردیا جائے۔ اِن حالات میں حضرت مریم ‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ٰ کو لے کر مصر چلی گئیں اور اس یہودی بادشاہ کے انتقال کے بعد اس وقت واپس آئیں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام ٰ دس بارہ سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ اس واقعہ کا ذکر بائبل میں بھی ہے۔ چناچہ جو لوگ اس روایت کو درست سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اپنی اس جلاوطنی کے دوران مصر میں جس جگہ پر انہوں نے قیام کیا تھا آیت زیر نظر میں اس جگہ کا ذکر کیا گیا ہے۔

يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ

📘 وَّاٰوَیْنٰہُمَآ اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ ”یہاں جس جگہ کا ذکر ہوا ہے اس کے مقام اور زمانے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اس سے مراد وہی ٹیلا ہے جہاں ایک کھجور کے سایے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی۔ شاید آپ علیہ السلام کی ولادت کے بعد ماں بیٹا کچھ عرصہ اسی جگہ پر قیام پذیر رہے ہوں۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کی رائے میں یہ کسی اور جگہ کا ذکر ہے۔ اس دوسری رائے کی بنیاد جن معلومات پر ہے ان کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت اس علاقے میں ہیرودیس بادشاہ کی حکومت تھی جو یہودی تھا۔ جس طرح برصغیر میں انگریزوں کی طرف سے راجوں اور نوابوں کو ان کے علاقوں میں حکمران بنا دیا جاتا تھا اسی طرح رومن شہنشاہ نے اس علاقے میں اس شخص کو بادشاہ مقرر کر رکھا تھا۔ اس کٹھ پتلی بادشاہ کو ایک خواب آیا تھا جس کی بنا پر نجومیوں نے اس کے دل میں یہ وہم ڈال دیا کہ تمہاری سلطنت میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو بڑا ہو کر تمہاری ہلاکت کا باعث بنے گا۔ چناچہ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ اس کی سلطنت میں جو لڑکا بھی پیدا ہو ‘ اسے قتل کردیا جائے۔ اِن حالات میں حضرت مریم ‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ٰ کو لے کر مصر چلی گئیں اور اس یہودی بادشاہ کے انتقال کے بعد اس وقت واپس آئیں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام ٰ دس بارہ سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ اس واقعہ کا ذکر بائبل میں بھی ہے۔ چناچہ جو لوگ اس روایت کو درست سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اپنی اس جلاوطنی کے دوران مصر میں جس جگہ پر انہوں نے قیام کیا تھا آیت زیر نظر میں اس جگہ کا ذکر کیا گیا ہے۔

وَإِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ

📘 آیت 52 وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ”تمام پیغمبروں کا تعلق ایک ہی امت یا جماعت سے ہے۔ بعض روایات کے مطابق انبیاء ورسل علیہ السلام کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ ان میں سے تین سو تیرہ رسول علیہ السلام ہیں اور باقی انبیاء علیہ السلام۔ ان انبیاء علیہ السلام ورسل علیہ السلام میں سے بعض کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے جبکہ اکثر کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ سورة النساء ‘ آیت 164 میں اس بارے میں یوں وضاحت فرمائی گئی ہے : وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْکَ ط ”اور بھیجے وہ رسول علیہ السلام جن کا ہم اس سے پہلے آپ ﷺ کے سامنے تذکرہ کرچکے ہیں ‘ اور ایسے رسول بھی جن کے حالات ہم نے آپ ﷺ کے سامنے بیان نہیں کیے۔“

فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ

📘 آیت 53 فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ زُبُرًا ط ”اَمر سے یہاں مراد ”دین“ ہے۔ یعنی انہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ‘ اور وہ یہودیت ‘ عیسائیت وغیرہ ناموں پر مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔

فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ حَتَّىٰ حِينٍ

📘 آیت 53 فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ زُبُرًا ط ”اَمر سے یہاں مراد ”دین“ ہے۔ یعنی انہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ‘ اور وہ یہودیت ‘ عیسائیت وغیرہ ناموں پر مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔

أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ

📘 آیت 53 فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ زُبُرًا ط ”اَمر سے یہاں مراد ”دین“ ہے۔ یعنی انہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ‘ اور وہ یہودیت ‘ عیسائیت وغیرہ ناموں پر مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔

نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ ۚ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ

📘 آیت 56 نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْْخَیْرٰتِط بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ ”ہماری طرف سے اپنے ان نافرمانوں کو مال و اولاد جیسی نعمتوں سے نوازتے چلے جانا ان کے ساتھ بھلائی کی علامت نہیں ہے بلکہ یہی چیزیں ان کے لیے موجب عذاب بن جائیں گی۔ سورة التوبہ میں یہ فلسفہ اس طرح بیان ہوا ہے : فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلآَ اَوْلاَدُہُمْط اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ ”تو اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو ان کے اموال اور ان کی اولاد سے تعجب نہ ہو ‘ اللہ تو چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعے سے انہیں دنیا کی زندگی میں عذاب دے ‘ اور ان کی جانیں نکلیں اسی کفر کی حالت میں“۔ اور سورة التوبہ ہی کی آیت 85 میں الفاظ کے بہت معمولی فرق کے ساتھ یہی مضمون پھر سے دہرایا گیا ہے۔آگے جو آیات آرہی ہیں ان کا انداز اس سورت کی ابتدائی آیات سے مشابہ ہے۔ سورت کے آغاز میں اکثر آیات اَلَّذِیْنَ یا والَّذِیْنَ سے شروع ہوتی ہیں اور ان آیات میں بھی اَلَّذِیْنَ اور والَّذِیْنَ کی تکرار ہے۔ گویا جو مضمون آغاز سورت میں بیان ہوا تھا یہ اس کی دوسری قسط ہے۔ وہاں پر بندۂ مؤمن کی سیرت کی تعمیر اور شخصیت کے ارتقاء کے لیے درکار بنیادی خصوصیات کا ذکر کیا گیا تھا جبکہ یہاں پر مطلوبہ شخصیت و کردار کی پختہ mature خصوصیات کی جھلکیاں دکھائی جا رہی ہیں ‘ جن میں زیادہ تر بندۂ مؤمن کی باطنی کیفیات کا تذکرہ ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ

📘 آیت 56 نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْْخَیْرٰتِط بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ ”ہماری طرف سے اپنے ان نافرمانوں کو مال و اولاد جیسی نعمتوں سے نوازتے چلے جانا ان کے ساتھ بھلائی کی علامت نہیں ہے بلکہ یہی چیزیں ان کے لیے موجب عذاب بن جائیں گی۔ سورة التوبہ میں یہ فلسفہ اس طرح بیان ہوا ہے : فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلآَ اَوْلاَدُہُمْط اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ ”تو اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو ان کے اموال اور ان کی اولاد سے تعجب نہ ہو ‘ اللہ تو چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعے سے انہیں دنیا کی زندگی میں عذاب دے ‘ اور ان کی جانیں نکلیں اسی کفر کی حالت میں“۔ اور سورة التوبہ ہی کی آیت 85 میں الفاظ کے بہت معمولی فرق کے ساتھ یہی مضمون پھر سے دہرایا گیا ہے۔آگے جو آیات آرہی ہیں ان کا انداز اس سورت کی ابتدائی آیات سے مشابہ ہے۔ سورت کے آغاز میں اکثر آیات اَلَّذِیْنَ یا والَّذِیْنَ سے شروع ہوتی ہیں اور ان آیات میں بھی اَلَّذِیْنَ اور والَّذِیْنَ کی تکرار ہے۔ گویا جو مضمون آغاز سورت میں بیان ہوا تھا یہ اس کی دوسری قسط ہے۔ وہاں پر بندۂ مؤمن کی سیرت کی تعمیر اور شخصیت کے ارتقاء کے لیے درکار بنیادی خصوصیات کا ذکر کیا گیا تھا جبکہ یہاں پر مطلوبہ شخصیت و کردار کی پختہ mature خصوصیات کی جھلکیاں دکھائی جا رہی ہیں ‘ جن میں زیادہ تر بندۂ مؤمن کی باطنی کیفیات کا تذکرہ ہے۔

وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 56 نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْْخَیْرٰتِط بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ ”ہماری طرف سے اپنے ان نافرمانوں کو مال و اولاد جیسی نعمتوں سے نوازتے چلے جانا ان کے ساتھ بھلائی کی علامت نہیں ہے بلکہ یہی چیزیں ان کے لیے موجب عذاب بن جائیں گی۔ سورة التوبہ میں یہ فلسفہ اس طرح بیان ہوا ہے : فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلآَ اَوْلاَدُہُمْط اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ ”تو اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو ان کے اموال اور ان کی اولاد سے تعجب نہ ہو ‘ اللہ تو چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعے سے انہیں دنیا کی زندگی میں عذاب دے ‘ اور ان کی جانیں نکلیں اسی کفر کی حالت میں“۔ اور سورة التوبہ ہی کی آیت 85 میں الفاظ کے بہت معمولی فرق کے ساتھ یہی مضمون پھر سے دہرایا گیا ہے۔آگے جو آیات آرہی ہیں ان کا انداز اس سورت کی ابتدائی آیات سے مشابہ ہے۔ سورت کے آغاز میں اکثر آیات اَلَّذِیْنَ یا والَّذِیْنَ سے شروع ہوتی ہیں اور ان آیات میں بھی اَلَّذِیْنَ اور والَّذِیْنَ کی تکرار ہے۔ گویا جو مضمون آغاز سورت میں بیان ہوا تھا یہ اس کی دوسری قسط ہے۔ وہاں پر بندۂ مؤمن کی سیرت کی تعمیر اور شخصیت کے ارتقاء کے لیے درکار بنیادی خصوصیات کا ذکر کیا گیا تھا جبکہ یہاں پر مطلوبہ شخصیت و کردار کی پختہ mature خصوصیات کی جھلکیاں دکھائی جا رہی ہیں ‘ جن میں زیادہ تر بندۂ مؤمن کی باطنی کیفیات کا تذکرہ ہے۔

وَالَّذِينَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ

📘 آیت 59 وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِرَبِّہِمْ لَا یُشْرِکُوْنَ ”شرک کے ردّ اور ابطال کے ضمن میں قرآن حکیم میں بہت تکرار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملے کو بار بار سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شرک کی اہم اور واضح صورتوں کے بارے میں تو سب جانتے ہیں اور اجتناب بھی کرتے ہیں ‘ لیکن اس کی بہت سی مخفی صورتیں بھی ہیں جو ہر دور میں ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا ایک بندۂ مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرک کی مہلک بیماری کے بارے میں اپنے اندر باریک بینی اور دقت نظری کی ایسی صلاحیت پیدا کرلے جس کا اظہار اس شعر میں کیا گیا ہے : ؂بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش من انداز قدت را می شناسم !تو جس انداز کا چاہے لباس زیب تن کرلے ‘ میں تجھے تمہارے قد کے انداز سے پہچان لیتا ہوں۔ یعنی شرک جب بھی اس کے سامنے آئے ‘ وہ جس روپ اور جس بھیس میں بھی ہو وہ اس کو پہچان لے۔

إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ

📘 آیت 6 اِلَّا عَلآی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ ”ان کا چوتھا وصف یہ بیان ہوا کہ وہ صرف جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش پوری کرتے ہیں اور اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ یعنی جنسی جذبہ فی نفسہُٖ برا نہیں ‘ بلکہ برائی اس کے غلط استعمال میں ہے۔ اسلام کے سوا دوسرے مذاہب میں تجرد کی زندگی بسر کرنا اور اپنے جنسی جذبہ کو ‘ جو فطرت اور جبلتّ میں ایک نہایت قوی جذبہ ہے ‘ کچلنا ایک اعلیٰ ترین روحانی قدر قرار دیا جاتا ہے ‘ جبکہ اسلام دین فطرت ہے ‘ چناچہ وہ اس فطری و جبلی جذبہ کو بالکلیہ کچلنے اور دبانے کو قطعاً پسند نہیں کرتا۔ اس کا منشا و مدعا یہ ہے کہ اس جذبہ کی تسکین کے لیے جائز اور حلال راہیں اختیار کی جائیں۔ نکاح کو اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے اپنی سنتوں میں سے ایک سنتّ قرار دیا ہے۔ چناچہ یہاں جنسی تسکین کے جائز راستوں کے لیے ”غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ“ کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔

وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ

📘 آیت 60 وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ ”یعنی اللہ کی راہ میں وہ حتی المقدور صدقہ و خیرات کرتے رہتے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں۔ دوسروں کی مدد کرتے ہوئے وہ انہیں کمتر اور خود کو برتر نہیں سمجھتے ‘ بلکہ انہیں یہ خدشہ اور اندیشہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں کسی کوتاہی ‘ غلطی یا خلوص کی کمی کے باعث ان کا یہ عمل اللہ کے ہاں رد نہ کردیا جائے۔

أُولَٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ

📘 آیت 61 اُولٰٓءِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْْخَیْرٰتِ وَہُمْ لَہَا سٰبِقُوْنَ ”زندگی میں ان کی بھاگ دوڑ نیکیوں اور بھلائیوں کے لیے ہوتی ہے اور اس میدان میں وہ ہمیشہ دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنْطِقُ بِالْحَقِّ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

📘 آیت 62 وَلَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا ”یہ مضمون قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ مثلاً سورة البقرۃ آیات : 233 اور 286 ‘ سورة الانعام آیت : 152 ‘ سورة الاعراف آیت : 42 ‘ اور سورة الطلاق آیت : 7 میں یہ مضمون ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ دہرایا گیا ہے۔وَلَدَیْنَا کِتٰبٌ یَّنْطِقُ بالْحَقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ”اس سے مراد ہر شخص کا اعمال نامہ اور اس کی زندگی بھر کے اعمال و افعال کی جزئیات و تفصیلات پر مشتمل ریکارڈ ہے۔ اس اعمال نامے کے مطابق انسان کی ایک ایک حرکت اور ایک ایک عمل کا اس کی استطاعت اور صلاحیتوں کے مطابق جائزہ لے کر اس کے لیے جزا اور سزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔ آج کمپیوٹر کے دور میں اس تصور کو سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ چناچہ یوں سمجھ لیں کہ انسان کے جینز genes کے بارے میں تمام معلومات جبلی صلاحیتوں اور اس کے ماحولیاتی عوامل کی تفصیلات اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک سپر کمپیوٹر میں موجود ہیں۔ ماحول اور صلاحیتوں کی عطا کلی طور پر اللہ کی دین ہے ‘ اس میں انسان کے اپنے اختیار و انتخاب کا کچھ دخل نہیں۔ جینز اور ماحولیاتی عوامل وغیرہ مل کر انسان کا ’ شاکلہ“ تشکیل دیتے ہیں۔ شاکلہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : بیان القرآن حصہ چہارم میں سورة بنی اسرائیل آیت 84 کی تشریح۔ اللہ تعالیٰ کا سپر کمپیوٹر ہر شخص کے اعمال کو اس کی شخصیت کے شاکلہ کے ساتھ منطبق کر کے بتائے گا کہ اس کے شاکلہ میں کس عمل کے لیے کتنی استطاعت اور گنجائش تھی اور اس نے کس حد تک اس کی کوشش کی۔ اس حساب کتاب evaluation کے بعد یہ کمپیوٹر نتائج کا اعلان کرے گا ‘ جس کے لیے یہاں ”یَنْطِقُ بالْحَقِّ“ کے الفاظ آئے ہیں۔ سورة الکہف میں اس کیفیت کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے : وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰہَاج وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاط وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا ”اور رکھ دیا جائے گا اعمال نامہ ‘ چناچہ تم دیکھو گے مجرموں کو ڈرے ہوئے اس سے جو کچھ اس میں ہوگا ‘ اور وہ کہیں گے : ہائے ہماری شامت ! یہ کیسا اعمال نامہ ہے ؟ اس نے تو نہ کسی چھوٹی چیز کو چھوڑا ہے اور نہ کسی بڑی کو ‘ مگر اس کو محفوظ کر کے رکھا ہے ‘ اور جو عمل بھی انہوں نے کیا ہوگا وہ اسے اپنے سامنے موجود پائیں گے ‘ اور آپ کا رب کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا۔“

بَلْ قُلُوبُهُمْ فِي غَمْرَةٍ مِنْ هَٰذَا وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِنْ دُونِ ذَٰلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ

📘 وَلَہُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِکَ ہُمْ لَہَا عٰمِلُوْنَ ”اوپر اہل ایمان کے جن اعمال کا تذکرہ کیا گیا ہے ‘ ان کے مشاغل اور سرگرمیاں ان سے یکسر مختلف ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس دین کی خدمت اور بھلائی کے کاموں کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ انہیں دن رات اپنی دنیا کمانے کی فکر ہے۔ وہ اپنے وقت کاُ کل سرمایہ اپنی ساری توانائیوں سمیت خود ساختہ جھوٹے معیارات کو برقرار رکھنے اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لیے کھپا رہے ہیں۔ اس آیت کے مضمون کی روشنی میں ہر شخص کو اپنی مصروفیات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس کی شبانہ روز تگ و دو اور بھاگ دوڑ کا کتنا حصہ دین کے لیے ہے اور کتنا حصہ دنیا کے لیے۔ اگر کسی شخص کی تمام تر کوشش اور ساری محنت ہے ہی دنیا کے لیے ‘ اس کا نصب العین بھی دنیا ہے اور اس نے منصوبہ بندی بھی صرف اسی کے لیے کر رکھی ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ آخرت کی تیاری کرنے کے لیے فرصت کے لمحات اسے کب اور کیسے میسر آئیں گے ؟

حَتَّىٰ إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِمْ بِالْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ

📘 وَلَہُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِکَ ہُمْ لَہَا عٰمِلُوْنَ ”اوپر اہل ایمان کے جن اعمال کا تذکرہ کیا گیا ہے ‘ ان کے مشاغل اور سرگرمیاں ان سے یکسر مختلف ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس دین کی خدمت اور بھلائی کے کاموں کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ انہیں دن رات اپنی دنیا کمانے کی فکر ہے۔ وہ اپنے وقت کاُ کل سرمایہ اپنی ساری توانائیوں سمیت خود ساختہ جھوٹے معیارات کو برقرار رکھنے اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لیے کھپا رہے ہیں۔ اس آیت کے مضمون کی روشنی میں ہر شخص کو اپنی مصروفیات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس کی شبانہ روز تگ و دو اور بھاگ دوڑ کا کتنا حصہ دین کے لیے ہے اور کتنا حصہ دنیا کے لیے۔ اگر کسی شخص کی تمام تر کوشش اور ساری محنت ہے ہی دنیا کے لیے ‘ اس کا نصب العین بھی دنیا ہے اور اس نے منصوبہ بندی بھی صرف اسی کے لیے کر رکھی ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ آخرت کی تیاری کرنے کے لیے فرصت کے لمحات اسے کب اور کیسے میسر آئیں گے ؟

لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّكُمْ مِنَّا لَا تُنْصَرُونَ

📘 آیت 65 لَا تَجْءَرُوا الْیَوْمَقف اِنَّکُمْ مِّنَّا لَا تُنْصَرُوْنَ ”آج تمہاری اس چیخ و پکار اور آہ و فریاد کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تمہاری فریاد سن کر آج کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا۔

قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُونَ

📘 آیت 65 لَا تَجْءَرُوا الْیَوْمَقف اِنَّکُمْ مِّنَّا لَا تُنْصَرُوْنَ ”آج تمہاری اس چیخ و پکار اور آہ و فریاد کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تمہاری فریاد سن کر آج کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا۔

مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ

📘 آیت 67 مُسْتَکْبِرِیْنَق بِہٖ سٰمِرًا تَہْجُرُوْنَ ”اس زمانے میں عربوں کے ہاں قصہ گوئی کا بہت رواج تھا۔ پیشہ ور قصہ گو راتوں کو مجمع جما کر قصے سنایا کرتے تھے۔ یہ عام لوگوں کے لیے تفریح کا ذریعہ تھا اور قصہ گو کے لیے کمائی کا وسیلہ۔ اسی طرح کے قصہ گو ہندوستان میں راجپوتوں کے ہاں بھی پائے جاتے تھے جو ان کے لیے راتوں کو محفلیں سجاتے تھے۔ چناچہ اس پس منظر میں مشرکین مکہ کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ کیا تم لوگوں نے ہمارے رسول ﷺ کو بھی قصہ گو سمجھ رکھا ہے کہ آپ ﷺ کی بات سننا یا نہ سننا تمہارے لیے برابر ہے ؟ اور تم سمجھتے ہو کہ آپ ﷺ کی بات ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ؟ تم لوگوں کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ یہ فیصلہ کن کلام ہے : وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَط وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ الاَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا بنی اسرائیل ”اور اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور یہ حق کے ساتھ ہی نازل ہوا ہے ‘ اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا“۔ آئندہ اسی کلام کے ترازو میں قوموں کی قسمتیں تولی جائیں گی ‘ اسی کے سہارے لوگ کامیاب و کامران ہوں گے اور اس کو چھوڑ کر ناکامیوں اور محرومیوں کے گڑھوں میں گریں گے۔ اس سلسلے میں نبی مکرم ﷺ کا یہ فرمان بہت واضح اور دوٹوک ہے : اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ 1 ”اللہ اسی کتاب کی بدولت قوموں کو اٹھائے گا اور اس کو چھوڑنے کے باعث قوموں کو گرائے گا۔“

أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُمْ مَا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ

📘 آیت 68 اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَ ہُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَ ہُمُ الْاَوَّلِیْنَ ”تو کیا وحی کا نازل ہونا اور رسول علیہ السلام کا من جانب اللہ مبعوث ہونا انہیں اس لیے عجیب لگ رہا ہے کہ ان کے باپ دادا یعنی بنو اسماعیل علیہ السلام پر اس سے پہلے کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ان کی طرف اس سے پہلے کوئی نبی علیہ السلام آیا تھا ؟

أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ

📘 آیت 68 اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَ ہُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَ ہُمُ الْاَوَّلِیْنَ ”تو کیا وحی کا نازل ہونا اور رسول علیہ السلام کا من جانب اللہ مبعوث ہونا انہیں اس لیے عجیب لگ رہا ہے کہ ان کے باپ دادا یعنی بنو اسماعیل علیہ السلام پر اس سے پہلے کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ان کی طرف اس سے پہلے کوئی نبی علیہ السلام آیا تھا ؟

فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ

📘 آیت 7 فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ ”اس سلسلے میں جو کوئی حلال اور جائز طریقے سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا وہ گناہ اور زیادتی کا مرتکب قرار پائے گا۔

أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ ۚ بَلْ جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ

📘 آیت 70 اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ ط ”کیا وہ سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺ پر آسیب کا اثر ہے یا آپ ﷺ کو جنون ہوگیا ہے۔

وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ

📘 آیت 71 وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَہْوَآءَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ ط ”اگر حق کہیں ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین و آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ حق ان لوگوں کی خواہشات کے مطابق نہیں ڈھل سکتا ‘ بلکہ انہیں خود کو حق کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور اس کی پیروی کرنا ہوگی۔

أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

📘 آیت 72 اَمْ تَسْءََلُہُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّکَ خَیْرٌق وَّہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ”دراصل یہاں ان الفاظ میں خطاب حضور ﷺ سے نہیں ہے بلکہ مشرکین مکہّ سے ہے کہ عقل کے اندھو ‘ ذرا سوچو تو ! تمہارے شاعر اور قصہ گو تو تم لوگوں سے اجر و انعام چاہتے ہیں۔ مگر تم نے محمد ﷺ کی زبان سے کبھی ایسی کوئی بات سنی ہے ؟ کبھی آپ ﷺ نے اپنی اس خدمت کے عوض تم سے کوئی اجرت طلب کی ہے ؟ ان کو تو ان کے رب کی طرف سے جو اجر و انعام ملنے والا ہے وہ پوری دنیا کے خزانوں سے بہتر ہے۔

وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 آیت 72 اَمْ تَسْءََلُہُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّکَ خَیْرٌق وَّہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ”دراصل یہاں ان الفاظ میں خطاب حضور ﷺ سے نہیں ہے بلکہ مشرکین مکہّ سے ہے کہ عقل کے اندھو ‘ ذرا سوچو تو ! تمہارے شاعر اور قصہ گو تو تم لوگوں سے اجر و انعام چاہتے ہیں۔ مگر تم نے محمد ﷺ کی زبان سے کبھی ایسی کوئی بات سنی ہے ؟ کبھی آپ ﷺ نے اپنی اس خدمت کے عوض تم سے کوئی اجرت طلب کی ہے ؟ ان کو تو ان کے رب کی طرف سے جو اجر و انعام ملنے والا ہے وہ پوری دنیا کے خزانوں سے بہتر ہے۔

وَإِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاكِبُونَ

📘 آیت 72 اَمْ تَسْءََلُہُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّکَ خَیْرٌق وَّہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ”دراصل یہاں ان الفاظ میں خطاب حضور ﷺ سے نہیں ہے بلکہ مشرکین مکہّ سے ہے کہ عقل کے اندھو ‘ ذرا سوچو تو ! تمہارے شاعر اور قصہ گو تو تم لوگوں سے اجر و انعام چاہتے ہیں۔ مگر تم نے محمد ﷺ کی زبان سے کبھی ایسی کوئی بات سنی ہے ؟ کبھی آپ ﷺ نے اپنی اس خدمت کے عوض تم سے کوئی اجرت طلب کی ہے ؟ ان کو تو ان کے رب کی طرف سے جو اجر و انعام ملنے والا ہے وہ پوری دنیا کے خزانوں سے بہتر ہے۔

۞ وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

📘 آیت 75 وَلَوْ رَحِمْنٰہُمْ وَکَشَفْنَا مَا بِہِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ ”ان الفاظ سے یوں لگتا ہے کہ اس سورت کے نزول کے زمانہ میں اہل مکہّ کسی مصیبت میں گرفتار تھے۔ سورة الانعام اور سورة الاعراف میں اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا ذکر گزر چکا ہے جس کے تحت ہر رسول کی بعثت کے بعد متعلقہ قوم پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے جاتے تھے اور انہیں مختلف قسم کی تکالیف میں مبتلا کیا جاتا تھا تاکہ وہ خواب غفلت سے جاگیں اور ان کے ذہن حق کی دعوت پر غور و فکر کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔

وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ

📘 آیت 76 وَلَقَدْ اَخَذْنٰہُمْ بالْعَذَابِ ”اس سے مراد شاید قحط اور خشک سالی کا وہ عذاب ہے جس میں اہل مکہ کئی سال تک مبتلا رہے اور جس کی وجہ سے ہر شخص کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔

حَتَّىٰ إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ

📘 آیت 76 وَلَقَدْ اَخَذْنٰہُمْ بالْعَذَابِ ”اس سے مراد شاید قحط اور خشک سالی کا وہ عذاب ہے جس میں اہل مکہ کئی سال تک مبتلا رہے اور جس کی وجہ سے ہر شخص کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔

وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ

📘 آیت 76 وَلَقَدْ اَخَذْنٰہُمْ بالْعَذَابِ ”اس سے مراد شاید قحط اور خشک سالی کا وہ عذاب ہے جس میں اہل مکہ کئی سال تک مبتلا رہے اور جس کی وجہ سے ہر شخص کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔

وَهُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

📘 آیت 76 وَلَقَدْ اَخَذْنٰہُمْ بالْعَذَابِ ”اس سے مراد شاید قحط اور خشک سالی کا وہ عذاب ہے جس میں اہل مکہ کئی سال تک مبتلا رہے اور جس کی وجہ سے ہر شخص کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ

📘 آیت 8 وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ ”اس آیت میں دو وصف بیان ہوئے ہیں۔ یعنی پانچواں وصف امانتوں کی پاسداری اور چھٹا وصف ایفائے عہد۔

وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَلَهُ اخْتِلَافُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

📘 آیت 76 وَلَقَدْ اَخَذْنٰہُمْ بالْعَذَابِ ”اس سے مراد شاید قحط اور خشک سالی کا وہ عذاب ہے جس میں اہل مکہ کئی سال تک مبتلا رہے اور جس کی وجہ سے ہر شخص کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔

بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ

📘 آیت 76 وَلَقَدْ اَخَذْنٰہُمْ بالْعَذَابِ ”اس سے مراد شاید قحط اور خشک سالی کا وہ عذاب ہے جس میں اہل مکہ کئی سال تک مبتلا رہے اور جس کی وجہ سے ہر شخص کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔

قَالُوا أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ

📘 آیت 76 وَلَقَدْ اَخَذْنٰہُمْ بالْعَذَابِ ”اس سے مراد شاید قحط اور خشک سالی کا وہ عذاب ہے جس میں اہل مکہ کئی سال تک مبتلا رہے اور جس کی وجہ سے ہر شخص کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔

لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَٰذَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

📘 آیت 76 وَلَقَدْ اَخَذْنٰہُمْ بالْعَذَابِ ”اس سے مراد شاید قحط اور خشک سالی کا وہ عذاب ہے جس میں اہل مکہ کئی سال تک مبتلا رہے اور جس کی وجہ سے ہر شخص کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔

قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 آیت 84 قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ”اس سورة مبارکہ کا یہ آخری حصہ بہت ہی پر جلال ہے۔ قاری محمد صدیق المنشاوی ان کا تعلق مصر سے ہے نے ان آیات کی تلاوت ایسے ُ پر سوز انداز میں کی ہے کہ اسے سنتے ہوئے آنسو ضبط کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

📘 آیت 84 قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ”اس سورة مبارکہ کا یہ آخری حصہ بہت ہی پر جلال ہے۔ قاری محمد صدیق المنشاوی ان کا تعلق مصر سے ہے نے ان آیات کی تلاوت ایسے ُ پر سوز انداز میں کی ہے کہ اسے سنتے ہوئے آنسو ضبط کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

📘 آیت 84 قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ”اس سورة مبارکہ کا یہ آخری حصہ بہت ہی پر جلال ہے۔ قاری محمد صدیق المنشاوی ان کا تعلق مصر سے ہے نے ان آیات کی تلاوت ایسے ُ پر سوز انداز میں کی ہے کہ اسے سنتے ہوئے آنسو ضبط کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ

📘 آیت 87 سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ط قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ”تم لوگ اللہ کو اس دنیا ومافیہا کا خالق بھی مانتے ہو اور اسے عرش و فرش کا مالک بھی تسلیم کرتے ہو ‘ لیکن اس کے ساتھ بتوں اور دیوی دیوتاؤں کو اس کا شریک بھی بناتے ہو ! کیا تمہیں یہ جسارت کرتے ہوئے ذرا بھی خوف محسوس نہیں ہوتا ؟

قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 آیت 87 سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ط قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ”تم لوگ اللہ کو اس دنیا ومافیہا کا خالق بھی مانتے ہو اور اسے عرش و فرش کا مالک بھی تسلیم کرتے ہو ‘ لیکن اس کے ساتھ بتوں اور دیوی دیوتاؤں کو اس کا شریک بھی بناتے ہو ! کیا تمہیں یہ جسارت کرتے ہوئے ذرا بھی خوف محسوس نہیں ہوتا ؟

سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ

📘 آیت 89 سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِط قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ ”یہ کون سا جادو اور فریب ہے جس کے اثر سے تم لوگ یہ سب کچھ تسلیم کر کے پھر شرک پر آمادہ ہوجاتے ہو ؟

وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ

📘 آیت 9 وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ”یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس مضمون کا آغاز بھی نماز کے ذکر سے کیا گیا تھا اور اس کا اختتام بھی نماز کے ذکر پر کیا جا رہا ہے۔ آیت 2 میں کامیاب و بامراد مؤمنین کی پہلی صفت یہ بتائی گئی تھی : الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ کہ وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔ یعنی اس مضمون کے آغاز میں نماز کی باطنی کیفیت کے حسن کا ذکر کیا گیا تھا ‘ جبکہ اختتام پر آیت زیر نظر میں نماز کے نظام کی بات کی گئی ہے کہ سچے اہل ایمان نماز پر مداومت کرتے ہیں اور اس کے تمام آداب و قوانین کوّ کماحقہ ملحوظ رکھتے ہیں۔

بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِالْحَقِّ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

📘 آیت 89 سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِط قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ ”یہ کون سا جادو اور فریب ہے جس کے اثر سے تم لوگ یہ سب کچھ تسلیم کر کے پھر شرک پر آمادہ ہوجاتے ہو ؟

مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَٰهٍ ۚ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ

📘 سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ”اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ لوگ جس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ ان سے پاک اور بہت ارفع و اعلیٰ ومنزہّ ہے۔

عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

📘 سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ”اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ لوگ جس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ ان سے پاک اور بہت ارفع و اعلیٰ ومنزہّ ہے۔

قُلْ رَبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ

📘 سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ”اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ لوگ جس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ ان سے پاک اور بہت ارفع و اعلیٰ ومنزہّ ہے۔

رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 94 رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِیْ فِی الْْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ”جس عذاب کی وعیدیں ان لوگوں کو دی جا رہی ہیں اگر وہ میری نگاہوں کے سامنے ان پر آگیا تو اے میرے پروردگار ! مجھے اس سے اپنی پناہ میں رکھنا۔ گویا ہر شخص کو اللہ کے ایسے عذاب سے پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ اس ضمن میں سورة الانفال کی اس آیت کا مضمون لرزا دینے والا ہے : وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃًج وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ”اور ڈرو اس عذاب سے کہ وہ جب آئے گا تو تم میں سے صرف گنہگاروں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا ‘ اور جان لو کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے“۔ پاکستان کے خصوصی حالات کے پیش نظر ہم سب کو ایسی تنبیہات کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند رہنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ چناچہ یہاں پر شریعت اسلامی کا عملی نفاذ ہم سب کیّ ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے جو مہلت عمل ہمیں دے رکھی ہے اسے غنیمت سمجھتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک کو اس سرزمین پر اقامت دین کی کوشش کے لیے کمر ہمت باندھ لینی چاہیے۔ اس فرض کی ادائیگی سے غفلت کی پاداش میں عذاب الٰہی کا ایک کوڑا ہم پر 1971 ء میں پڑچکا ہے۔ اب اس سے پہلے کہ ہماری مہلت عمل ختم ہوجائے اور ہم دوسرے کوڑے کی زد میں آجائیں ہمیں اپنے تن من اور دھن کو قربان کردینے کے جذبے کے ساتھ اس میدان میں نکلنا ہوگا۔ ہمارے لیے اللہ کی پکڑ سے بچنے اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کا یہی ایک راستہ ہے۔

وَإِنَّا عَلَىٰ أَنْ نُرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ

📘 آیت 94 رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِیْ فِی الْْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ”جس عذاب کی وعیدیں ان لوگوں کو دی جا رہی ہیں اگر وہ میری نگاہوں کے سامنے ان پر آگیا تو اے میرے پروردگار ! مجھے اس سے اپنی پناہ میں رکھنا۔ گویا ہر شخص کو اللہ کے ایسے عذاب سے پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ اس ضمن میں سورة الانفال کی اس آیت کا مضمون لرزا دینے والا ہے : وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃًج وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ”اور ڈرو اس عذاب سے کہ وہ جب آئے گا تو تم میں سے صرف گنہگاروں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا ‘ اور جان لو کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے“۔ پاکستان کے خصوصی حالات کے پیش نظر ہم سب کو ایسی تنبیہات کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند رہنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ چناچہ یہاں پر شریعت اسلامی کا عملی نفاذ ہم سب کیّ ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے جو مہلت عمل ہمیں دے رکھی ہے اسے غنیمت سمجھتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک کو اس سرزمین پر اقامت دین کی کوشش کے لیے کمر ہمت باندھ لینی چاہیے۔ اس فرض کی ادائیگی سے غفلت کی پاداش میں عذاب الٰہی کا ایک کوڑا ہم پر 1971 ء میں پڑچکا ہے۔ اب اس سے پہلے کہ ہماری مہلت عمل ختم ہوجائے اور ہم دوسرے کوڑے کی زد میں آجائیں ہمیں اپنے تن من اور دھن کو قربان کردینے کے جذبے کے ساتھ اس میدان میں نکلنا ہوگا۔ ہمارے لیے اللہ کی پکڑ سے بچنے اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کا یہی ایک راستہ ہے۔

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ

📘 آیت 96 اِدْفَعْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ السَّیِّءَۃَ ط ” آپ ﷺ ان کی شرارتوں سے خوبصورتی کے ساتھ درگزر کریں۔ ان لوگوں کا آپ ﷺ کے ساتھ جیسا بھی رویہ ہو مگر آپ ﷺ کو اس کا مقابلہ نیکی اور بھلائی سے ہی کرنا ہے۔ چناچہ آپ ﷺ ان کی گالیوں کے جواب میں انہیں دعا دیں اور ان کے برا بھلا کہنے کے باوجود آپ ﷺ اس کو اللہ کی طرف بلاتے رہیں۔نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ ”جو کچھ یہ ہرزہ سرائی کر رہے ہیں ہم اس سے خوب واقف ہیں۔

وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ

📘 آیت 96 اِدْفَعْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ السَّیِّءَۃَ ط ” آپ ﷺ ان کی شرارتوں سے خوبصورتی کے ساتھ درگزر کریں۔ ان لوگوں کا آپ ﷺ کے ساتھ جیسا بھی رویہ ہو مگر آپ ﷺ کو اس کا مقابلہ نیکی اور بھلائی سے ہی کرنا ہے۔ چناچہ آپ ﷺ ان کی گالیوں کے جواب میں انہیں دعا دیں اور ان کے برا بھلا کہنے کے باوجود آپ ﷺ اس کو اللہ کی طرف بلاتے رہیں۔نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ ”جو کچھ یہ ہرزہ سرائی کر رہے ہیں ہم اس سے خوب واقف ہیں۔

وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ

📘 آیت 98 وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ ”ایک داعی کے لیے شیطان کی چھوت اور اکساہٹ کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ اسے اپنی دعوتی کوششوں کے دوران اپنے مخاطبین پر غصہ آجائے اور وہ انہیں حق کی طرف مائل کرنے کے بجائے متنفر کر دے۔ سورة الاعراف کی آیت 200 میں بھی ایسی ہی صورت حال سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ

📘 آیت 98 وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ ”ایک داعی کے لیے شیطان کی چھوت اور اکساہٹ کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ اسے اپنی دعوتی کوششوں کے دوران اپنے مخاطبین پر غصہ آجائے اور وہ انہیں حق کی طرف مائل کرنے کے بجائے متنفر کر دے۔ سورة الاعراف کی آیت 200 میں بھی ایسی ہی صورت حال سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔