slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة العنكبوت

(Al-Ankabut) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الم

📘 آیت 88 وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ 7 لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَقف ”جیسے کہ پہلے بھی کئی بار اس نکتے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس نوعیت کے احکام میں اگرچہ صیغہ واحد میں خطاب بظاہر حضور ﷺ سے ہوتا ہے لیکن حقیقت میں آپ ﷺ کی وساطت سے تمام امت مخاطب ہوتی ہے۔کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ط ”کیا اللہ کا چہرہ بھی ہے ؟ اور اگر اس کے چہرے کو فنا نہیں ہے تو کیا اس کے کوئی اور اعضاء بھی ہیں جن کو فنا ہے ؟ معاذ اللہ ‘ ثم معاذ اللہ !یہ بہت اہم اور حساسّ مسئلہ ہے جس کے بارے میں پہلے بھی کئی بار بتایا جا چکا ہے۔ یہاں پھر ذہن نشین کرلیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ عالم برزخ ‘ عالم غیب اور عالم آخرت جیسے موضوعات کے بارے میں آیات سے جس قدر مفہوم سمجھ میں آجائے اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ ورنہ ایسے معاملات میں اگر انسان عقل اور منطق کے سہارے ایک ایک کر کے قدم آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا تو غلط راستے پر چل نکلے گا۔ حضرت ابوبکرصدیق رض کا قول ہے : العِجزُ عن درک الذّات ادراک کہ اللہ کی ذات کے بارے میں ادراک سے عجز ہی اصل ادراک ہے۔ یعنی جب انسان یہ سمجھ لے کہ میں اس کی ذات کو نہیں سمجھ سکتا تو بس یہی ادراک ہے اور یہی اللہ کی معرفت ہے۔ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے اپنے مکاتیب میں یہ الفاظ بار بار لکھے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ہے۔ اس بارے میں کوئی تصور بنانا انسانی ذہن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ وَجْہَہٗسے کئی لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور ہستی بھی مراد لی ہے ‘ جیسے ہمارے ہاں جب یہ کہا جاتا ہے کہ میں یہ کام فلاں کے منہ کو کر رہا ہوں تو اس اس کا معنی ہوتا ہے کہ اس کی رضا جوئی کے لیے کر رہا ہوں۔ یعنی اس سے شخص کی ذات مراد ہوتی ہے نہ کہ صرف اس کا منہ یا چہرہ۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ کی ذات کے علاوہ ہرچیز فانی ہے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِنْ جَاءَ نَصْرٌ مِنْ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ۚ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ

📘 آیت 10 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَاب اللّٰہِ ط ”یعنی لوگوں کی طرف سے ڈالی گئی آزمائش سے ایسے گھبرا جاتے ہیں جیسے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوگیا ہو۔ یہاں یہ نکتہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ آیت مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب اسلام میں منافقت کا شائبہ تک نہ تھا ‘ بلکہ یہ وہ وقت تھا جب کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے ہر شخص پر عرصۂ حیات تنگ کردیا جاتا تھا۔ ایسے ماحول میں جو کوئی بھی اسلام قبول کرتا تھا اس کے ایمان میں کسی شک و شبہ کا امکان نہیں تھا۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمّ ہے کہ سب لوگوں کی طبیعتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں اور جذبے ‘ بہادری ‘ استقامت وغیرہ میں سب انسان برابر نہیں ہوتے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اسی حوالے سے ایک ایسے کردار کا ذکر ہو رہا ہے جو ایمان تو پورے خلوص سے لایا ہے مگر اس راستے کی مشکلات اور آزمائشوں کو جھیلنے کا حوصلہ اس میں نہیں ہے۔لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ ط ”جب صورت حال تبدیل ہوجائے گی اور دین کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگادینے والوں کو اللہ تعالیٰ فتح و نصرت سے ہم کنارکرے گا تو اس کردار کے لوگ فتح کے ثمرات میں حصہ دار بننے کے لیے آموجود ہوں گے کہ ہم تو دل سے آپ ہی کے ساتھ تھے۔ گویا یہ وہی کردار ہے جس کا ذکر سورة البقرۃ کے آغاز میں بھی ہوا ہے اور سورة الحج کی اس آیت میں اس کی نفسیاتی کیفیت کو مزید واضح کردیا گیا ہے : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍج فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُ نِ اطْمَاَنَّ بِہٖج وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖج خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَط ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ الح ج ”اور لوگوں میں سے کوئی وہ بھی ہے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے کنارے پر رہ کر۔ پھر اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو اس کے ساتھ مطمئن رہے ‘ اور اگر اسے کوئی آزمائش آجائے تو منہ کے بل الٹا پھرجائے۔ وہ دنیا میں بھی خسارے میں رہا اور آخرت میں بھی۔ یہی ہے واضح خسارہ۔“

وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ

📘 آیت 11 وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ”یعنی ابھی اس مرض کی ابتدا ہے۔ اگر تم لوگ nip the evil in the bud کے مصداق ابھی سے اس کا علاج کرلو گے تو بچ جاؤ گے۔ منافقت کا مرض ٹی بی کے مرض کی طرح ہے جو انفیکشن سے شروع ہوتا ہے اور مختلف مراحل سے گزرتا ہوا لا علاج روگ بن جاتا ہے۔ چناچہ ابھی تم لوگوں کو اس مرض کی انفیکشن ہوئی ہے۔ اگر ابھی تم نے اس کے تدارک کی فکر نہ کی اور یہ روگ ابتدائی مرحلے سے آگے بڑھ گیا تو مہلک اور لا علاج مرض باقاعدہ منافقت کی شکل اختیار کر جائے گا۔ اس آیت کے حوالے سے ایک خصوصی نکتہ یاد رکھنے کا یہ ہے کہ مکی قرآن کا یہ واحد مقام ہے جہاں لفظ ”منافق“ آیا ہے۔ سورة الحج کی مذکورہ بالا آیت میں بھی منافقانہ کردار کا ذکر ہوا ہے ‘ لیکن ”منافق“ کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُمْ بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُمْ مِنْ شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

📘 آیت 12 وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ ط ”اس آیت میں مکہ کے ماحول میں ایمان لانے والے نوجوانوں کے تیسرے اہم مسئلے کی نشاندہی ملتی ہے۔ یعنی رشتوں کے کٹنے اور کہیں کہیں حوصلے کی کمزوری کے اظہار کے علاوہ ایک سنجیدہ مسئلہ یہ بھی تھا کہ قبیلے کے بڑے بوڑھے ناصحانہ انداز میں نوجوانوں کو سمجھانے بیٹھ جاتے تھے کہ دیکھو برخوردار ! تم نوجوان ہو ‘ باصلاحیت ہو ‘ خاندانی کاروبار کے وارث ہو ‘ ایک مثالی کیرئیر اور روشن مستقبل تمہارے سامنے ہے۔ مگر تم جذبات میں آکر ایک ایسا راستہ اپنانے جا رہے ہو جس میں مشکلات ‘ پریشانیوں اور افلاس کے سوا تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ ہماری طرف دیکھو ! ہم نے اس دنیا میں ایک عمر گزاری ہے ‘ ہم نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ‘ ہم زندگی کے نشیب و فراز اور نفع و نقصان کے تمام پہلوؤں کو خوب پہچانتے ہیں۔ اس نئے دین کی باتیں ہم نے بھی سنی ہیں ‘ مگر ہم ان کو سن کر جذباتی نہیں ہوئے۔ ہم نے پوری سمجھ بوجھ سے ان باتوں کا تجزیہ کیا ہے اور پھر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارا فائدہ اپنے پرانے طریقے اور اپنے باپ دادا کے دین کی پیروی میں ہی ہے۔ لہٰذا تم ہماری بات مانو اور اپنے پرانے طریقے پر واپس آجاؤ۔ رہی بات آخرت کے احتساب کی تو اس کی ذمہ داری تمہاری طرف سے ہم اٹھاتے ہیں۔ وہاں اگر کوئی سزا ہوئی تو وہ تمہاری جگہ ہم بھگت لیں گے۔

وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ

📘 آیت 13 وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَہُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْز ”یعنی آخرت میں یہ لوگ صرف اپنی گمراہی کی سزا ہی نہیں بھگت رہے ہوں گے بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کو گمراہ کرنے کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا ہوگا۔ لیکن اے اہل ایمان ! اگر تم میں سے کوئی خطا کرے گا تو اس کے لیے وہ خود ہی جوابدہ ہوگا۔ تمہاری کسی خطا کا بوجھ یہ لوگ نہیں اٹھا سکیں گے۔وَلَیُسْءَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ”اس آیت میں تاکید کا پھر وہی انداز ہے لام مفتوح اور نون مشدد جو اس سے پہلے آیات 3 ‘ 7 اور 11 میں آچکا ہے۔ یعنی قیامت کے دن دوسروں کی خطاؤں کا بوجھ اٹھانے کا یہ دعویٰ ان کا خود ساختہ جھوٹ ہے اور اس دن اپنی اس افترا پردازی کا بھی انہیں حساب دینا پڑے گا۔ اس سلسلے میں اللہ کا اٹل فیصلہ اور قانون بہر حال یہ ہے : وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط الاسراء : 15 کہ اس دن کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ اس سورت کی ابتدائی بارہ آیات پہلی آیت حروف مقطعات پر مشتمل ہے اپنے مضمون کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ چناچہ کسی بھی دینی انقلابی تحریک کے کارکنوں کو چاہیے کہ ان آیات کو حرز جان بنا لیں اور ان میں درج ہدایات و فرمودات کو اپنے قلوب و اذہان میں پتھر پر لکیر کی مانند کندہ کرلیں۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ

📘 یہاں سے سورت کے دوسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ حصہ تین رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس میں بنیادی طور پر انباء الرسل کا مضمون ہے ‘ لیکن وقفے وقفے سے بین السطور میں مکہ کے ماحول میں جاری کش مکش کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ اس کے بعد آخری تین رکوعوں پر مشتمل اس سورت کے آخری حصے میں مشرکین اور اہل ایمان سے خطاب ہے۔ یہ دو نوں موضوعات سورت کے آخری حصے میں یوں متوازی چلتے نظر آتے ہیں جیسے ایک رسی کی دو ڈوریاں آپس میں گندھی ہوئی ہوں۔ ان میں سے کبھی ایک ڈوری نمایاں ہوتی نظر آتی ہے تو کبھی دوسری۔ سورت کے اس حصے میں اہل ایمان سے خطاب کے دوران انہیں دس اہم ہدایات بھی دی گئی ہیں جو غلبۂ دین کی جدوجہد کرنے اور اس راستے میں مصائب و مشکلات برداشت کرنے والے مجاہدین کے لیے رہتی دنیا تک گویا مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔آیت 14 وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا ط ”یعنی حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کے درمیان ساڑھے نو سو سال تک رہے۔ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں متعدد بار آچکا ہے لیکن یہ بات اور کہیں نہیں کہی گئی کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال کا طویل عرصہ اپنی قوم کے ساتھ گزارا۔ اگر ہم مکہ کے ان حالات کا نقشہ ذہن میں رکھیں جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی تھی اور پہلے رکوع کا مضمون بھی مد نظرّ رکھیں تو حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت اور جدوجہد کے ساڑھے نو سو سال کے ذکر کی وجہ صاف نظر آجاتی ہے اور بین السطور میں یہاں جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ اقبال کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے : ؂یہ موج پریشاں خاطر کو پیغام لب ساحل نے دیا ہے دور وصال بحر ابھی ‘ تو دریا میں گھبرا بھی گئی !کہ اے مسلمانو ! تم لوگ چند برس میں ہی گھبرا گئے ہو۔ ذرا ہمارے بندے نوح علیہ السلام کی صدیوں پر محیط جاں گسل جدوجہد کا تصور کرو اور پھر ان کے صبر و استقامت کا اندازہ کرو ! چناچہ تم لوگوں کو اس راستے میں مزید امتحانات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے : ؂ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ! اقبالسورۃ الانعام میں اسی حوالے سے محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے یوں فرمایا گیا ہے : وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰٹہُمْ نَصْرُنَاج ولاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِج وَلَقدْ جَآءَ کَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ ”اور آپ ﷺ سے پہلے بھی رسولوں علیہ السلام کو جھٹلایا گیا ‘ تو انہوں نے اس تکذیب پر صبر کیا ‘ اور انہیں ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ان تک ہماری مدد پہنچ گئی۔ اور دیکھئے اے نبی ﷺ ! اللہ کے ان کلمات کو بدلنے والا کوئی نہیں ‘ اور آپ ﷺ کے پاس رسولوں علیہ السلام کی خبریں تو آ ہی چکی ہیں۔“

فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ

📘 یہاں سے سورت کے دوسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ حصہ تین رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس میں بنیادی طور پر انباء الرسل کا مضمون ہے ‘ لیکن وقفے وقفے سے بین السطور میں مکہ کے ماحول میں جاری کش مکش کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ اس کے بعد آخری تین رکوعوں پر مشتمل اس سورت کے آخری حصے میں مشرکین اور اہل ایمان سے خطاب ہے۔ یہ دو نوں موضوعات سورت کے آخری حصے میں یوں متوازی چلتے نظر آتے ہیں جیسے ایک رسی کی دو ڈوریاں آپس میں گندھی ہوئی ہوں۔ ان میں سے کبھی ایک ڈوری نمایاں ہوتی نظر آتی ہے تو کبھی دوسری۔ سورت کے اس حصے میں اہل ایمان سے خطاب کے دوران انہیں دس اہم ہدایات بھی دی گئی ہیں جو غلبۂ دین کی جدوجہد کرنے اور اس راستے میں مصائب و مشکلات برداشت کرنے والے مجاہدین کے لیے رہتی دنیا تک گویا مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔آیت 14 وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا ط ”یعنی حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کے درمیان ساڑھے نو سو سال تک رہے۔ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں متعدد بار آچکا ہے لیکن یہ بات اور کہیں نہیں کہی گئی کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال کا طویل عرصہ اپنی قوم کے ساتھ گزارا۔ اگر ہم مکہ کے ان حالات کا نقشہ ذہن میں رکھیں جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی تھی اور پہلے رکوع کا مضمون بھی مد نظرّ رکھیں تو حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت اور جدوجہد کے ساڑھے نو سو سال کے ذکر کی وجہ صاف نظر آجاتی ہے اور بین السطور میں یہاں جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ اقبال کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے : ؂یہ موج پریشاں خاطر کو پیغام لب ساحل نے دیا ہے دور وصال بحر ابھی ‘ تو دریا میں گھبرا بھی گئی !کہ اے مسلمانو ! تم لوگ چند برس میں ہی گھبرا گئے ہو۔ ذرا ہمارے بندے نوح علیہ السلام کی صدیوں پر محیط جاں گسل جدوجہد کا تصور کرو اور پھر ان کے صبر و استقامت کا اندازہ کرو ! چناچہ تم لوگوں کو اس راستے میں مزید امتحانات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے : ؂ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ! اقبالسورۃ الانعام میں اسی حوالے سے محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے یوں فرمایا گیا ہے : وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰٹہُمْ نَصْرُنَاج ولاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِج وَلَقدْ جَآءَ کَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ ”اور آپ ﷺ سے پہلے بھی رسولوں علیہ السلام کو جھٹلایا گیا ‘ تو انہوں نے اس تکذیب پر صبر کیا ‘ اور انہیں ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ان تک ہماری مدد پہنچ گئی۔ اور دیکھئے اے نبی ﷺ ! اللہ کے ان کلمات کو بدلنے والا کوئی نہیں ‘ اور آپ ﷺ کے پاس رسولوں علیہ السلام کی خبریں تو آ ہی چکی ہیں۔“

وَإِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ ۖ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 یہاں سے سورت کے دوسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ حصہ تین رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس میں بنیادی طور پر انباء الرسل کا مضمون ہے ‘ لیکن وقفے وقفے سے بین السطور میں مکہ کے ماحول میں جاری کش مکش کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ اس کے بعد آخری تین رکوعوں پر مشتمل اس سورت کے آخری حصے میں مشرکین اور اہل ایمان سے خطاب ہے۔ یہ دو نوں موضوعات سورت کے آخری حصے میں یوں متوازی چلتے نظر آتے ہیں جیسے ایک رسی کی دو ڈوریاں آپس میں گندھی ہوئی ہوں۔ ان میں سے کبھی ایک ڈوری نمایاں ہوتی نظر آتی ہے تو کبھی دوسری۔ سورت کے اس حصے میں اہل ایمان سے خطاب کے دوران انہیں دس اہم ہدایات بھی دی گئی ہیں جو غلبۂ دین کی جدوجہد کرنے اور اس راستے میں مصائب و مشکلات برداشت کرنے والے مجاہدین کے لیے رہتی دنیا تک گویا مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔آیت 14 وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا ط ”یعنی حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کے درمیان ساڑھے نو سو سال تک رہے۔ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں متعدد بار آچکا ہے لیکن یہ بات اور کہیں نہیں کہی گئی کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال کا طویل عرصہ اپنی قوم کے ساتھ گزارا۔ اگر ہم مکہ کے ان حالات کا نقشہ ذہن میں رکھیں جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی تھی اور پہلے رکوع کا مضمون بھی مد نظرّ رکھیں تو حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت اور جدوجہد کے ساڑھے نو سو سال کے ذکر کی وجہ صاف نظر آجاتی ہے اور بین السطور میں یہاں جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ اقبال کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے : ؂یہ موج پریشاں خاطر کو پیغام لب ساحل نے دیا ہے دور وصال بحر ابھی ‘ تو دریا میں گھبرا بھی گئی !کہ اے مسلمانو ! تم لوگ چند برس میں ہی گھبرا گئے ہو۔ ذرا ہمارے بندے نوح علیہ السلام کی صدیوں پر محیط جاں گسل جدوجہد کا تصور کرو اور پھر ان کے صبر و استقامت کا اندازہ کرو ! چناچہ تم لوگوں کو اس راستے میں مزید امتحانات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے : ؂ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ! اقبالسورۃ الانعام میں اسی حوالے سے محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے یوں فرمایا گیا ہے : وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰٹہُمْ نَصْرُنَاج ولاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِج وَلَقدْ جَآءَ کَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ ”اور آپ ﷺ سے پہلے بھی رسولوں علیہ السلام کو جھٹلایا گیا ‘ تو انہوں نے اس تکذیب پر صبر کیا ‘ اور انہیں ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ان تک ہماری مدد پہنچ گئی۔ اور دیکھئے اے نبی ﷺ ! اللہ کے ان کلمات کو بدلنے والا کوئی نہیں ‘ اور آپ ﷺ کے پاس رسولوں علیہ السلام کی خبریں تو آ ہی چکی ہیں۔“

إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

📘 آیت 17 اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْکًا ط ”یہ جو تم نے بت اور ان کے استھان بنائے ہوئے ہیں یہ محض تمہارا افترا ہے۔ اس سب کچھ کی کہیں کوئی سند نہیں ہے ‘ نہ عقلی طور پر اور نہ ہی اللہ کی نازل کردہ کسی کتاب میں !اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ ”اللہ ہی سے رزق مانگو ‘ اسی سے مشکل کشائی کی درخواست کرو اور اسی کو حاجت روائی کے لیے پکارو۔وَاعْبُدُوْہُ وَاشْکُرُوْا لَہٗط اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ”حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ ذکر ابھی مزید جاری رہے گا مگر یہاں درمیان میں اچانک ایک طویل جملہ معترضہ آگیا ہے جس کے تحت خطاب کا رخ پھر سے اس کش مکش کی طرف موڑا جا رہا ہے جو مکہ میں حضور ﷺ اور مشرکین کے درمیان جاری تھی۔ چناچہ اگلی آیت میں براہ راست مشرکین مکہ سے خطاب ہے :

وَإِنْ تُكَذِّبُوا فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِنْ قَبْلِكُمْ ۖ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

📘 آیت 17 اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْکًا ط ”یہ جو تم نے بت اور ان کے استھان بنائے ہوئے ہیں یہ محض تمہارا افترا ہے۔ اس سب کچھ کی کہیں کوئی سند نہیں ہے ‘ نہ عقلی طور پر اور نہ ہی اللہ کی نازل کردہ کسی کتاب میں !اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ ”اللہ ہی سے رزق مانگو ‘ اسی سے مشکل کشائی کی درخواست کرو اور اسی کو حاجت روائی کے لیے پکارو۔وَاعْبُدُوْہُ وَاشْکُرُوْا لَہٗط اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ”حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ ذکر ابھی مزید جاری رہے گا مگر یہاں درمیان میں اچانک ایک طویل جملہ معترضہ آگیا ہے جس کے تحت خطاب کا رخ پھر سے اس کش مکش کی طرف موڑا جا رہا ہے جو مکہ میں حضور ﷺ اور مشرکین کے درمیان جاری تھی۔ چناچہ اگلی آیت میں براہ راست مشرکین مکہ سے خطاب ہے :

أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ

📘 آیت 17 اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْکًا ط ”یہ جو تم نے بت اور ان کے استھان بنائے ہوئے ہیں یہ محض تمہارا افترا ہے۔ اس سب کچھ کی کہیں کوئی سند نہیں ہے ‘ نہ عقلی طور پر اور نہ ہی اللہ کی نازل کردہ کسی کتاب میں !اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ ”اللہ ہی سے رزق مانگو ‘ اسی سے مشکل کشائی کی درخواست کرو اور اسی کو حاجت روائی کے لیے پکارو۔وَاعْبُدُوْہُ وَاشْکُرُوْا لَہٗط اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ”حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ ذکر ابھی مزید جاری رہے گا مگر یہاں درمیان میں اچانک ایک طویل جملہ معترضہ آگیا ہے جس کے تحت خطاب کا رخ پھر سے اس کش مکش کی طرف موڑا جا رہا ہے جو مکہ میں حضور ﷺ اور مشرکین کے درمیان جاری تھی۔ چناچہ اگلی آیت میں براہ راست مشرکین مکہ سے خطاب ہے :

أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ

📘 آیت 2 اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ”تمہیدی کلمات میں بیان کی گئی حضرت خباب رض کی روایت کا مضمون ذہن میں رکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ آیت صحابہ کرام رض کی مذکورہ شکایت کا جواب ہے۔ اس میں خفگی کا بالکل وہی انداز پایا جاتا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی شکایت کے جواب میں اختیار فرمایا تھا۔ اہل ایمان کا ذکر عمومی انداز میں ”النَّاس“ کے لفظ سے فرمانا بھی ایک طرح سے عتاب اور ناراضی ہی کا ایک انداز ہے۔ بہر حال دین میں تحریکی و انقلابی جدوجہد کے حوالے سے یہ بہت اہم مضمون ہے جس کی مزید وضاحت مدنی سورتوں میں ملتی ہے۔ چناچہ سورة البقرۃ میں یہی مضمون مزید واضح انداز میں بیان ہوا ہے : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْط مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ ”کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تک تم پر وہ حالات و واقعات تو وارد ہوئے ہی نہیں جو تم سے پہلوں پر ہوئے تھے۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں مسلط کردی گئی تھیں ‘ اور وہ ہلا مارے گئے تھے ‘ یہاں تک کہ وقت کا رسول علیہ السلام اور اس کے ساتھی اہل ایمان پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد ! آگاہ رہو اللہ کی مدد قریب ہی ہے“۔ اس کے بعد سورة آل عمران میں یہی بات ایک دوسرے انداز میں فرمائی گئی ہے : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ ”کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں یونہی داخل ہوجاؤ گے ‘ حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو ظاہر کیا ہی نہیں کہ تم میں سے کون واقعتا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے والے ہیں“۔ اور پھر سورة التوبہ میں اس مضمون کی مزید وضاحت کی گئی ہے : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلاَ رَسُوْلِہٖ وَلاَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃًط وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنََ ”کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے ‘ حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو ظاہر کیا ہی نہیں کہ تم میں سے کون ہیں جو واقعی جہاد کرنے والے ہیں ‘ اور جو نہیں رکھتے اللہ ‘ اس کے رسول اور اہل ایمان کے علاوہ کسی کے ساتھ دلی راز داری کا کوئی تعلق ‘ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔“ مندرجہ بالا چاروں آیات میں یہ مضمون جس انداز میں بیان ہوا ہے اس کی مثال ایک خوبصورت پودے اور اس پر کھلنے والے خوبصورت پھول کی سی ہے۔ زیر مطالعہ مکی آیت اس پودے کی گویا جڑ ہے جبکہ مذکورہ بالا تینوں مدنی آیات اس پر کھلنے والے پھول کی تین پتیاں ہیں۔ یہاں پر جن تین آیات کا حوالہ دیا گیا ہے البقرۃ : 214 ‘ آل عمران : 142 اور التوبۃ : 16 ان میں یہ عجیب مماثلت قابل توجہ ہے کہ نہ صرف ان آیات کے الفاظ میں مشابہت پائی جاتی ہے بلکہ ان میں سے ہر آیت کے نمبر شمار کا حاصل جمع 7 ہے۔

قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ۚ ثُمَّ اللَّهُ يُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 آیت 20 قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰہُ یُنْشِئُ النَّشْاَۃَ الْاٰخِرَۃَ ط ”مخلوق کو دوبارہ پیدا کرنے کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت سے دنیا میں بھی چل رہا ہے۔ جیسے ایک فصل ختم ہوتی ہے تو دوسری پیدا ہوجاتی ہے اور وہ آخرت میں بھی انسانوں کو پھر سے زندہ کرے گا۔ یہ سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے۔

يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَيَرْحَمُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ

📘 آیت 20 قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰہُ یُنْشِئُ النَّشْاَۃَ الْاٰخِرَۃَ ط ”مخلوق کو دوبارہ پیدا کرنے کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت سے دنیا میں بھی چل رہا ہے۔ جیسے ایک فصل ختم ہوتی ہے تو دوسری پیدا ہوجاتی ہے اور وہ آخرت میں بھی انسانوں کو پھر سے زندہ کرے گا۔ یہ سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے۔

وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ ۖ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

📘 آیت 22 وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِز ”تم زمین یا آسمان میں کہیں بھی کسی بھی طریقے سے اس کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے۔وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ ”عربی میں دُوْنَ کا لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ عبارت کے سیاق وسباق سے پتا چلتا ہے کہ کس جگہ اس کے کون سے معنی مناسب ہیں۔ اس جگہ ”دُوْنِ اللّٰہ“ کا بہتر مفہوم یہی ہے کہ اللہ کے مقابلے میں تمہارا کوئی حمایتی اور مدد گار نہیں ہوگا۔آیت 18 سے شروع ہونے والا جملہ معترضہ یہاں پر ختم ہوا۔ اب اگلی آیات میں پھر سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے جس کا سلسلہ آیت 17 سے منقطع ہوگیا تھا۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَلِقَائِهِ أُولَٰئِكَ يَئِسُوا مِنْ رَحْمَتِي وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 22 وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِز ”تم زمین یا آسمان میں کہیں بھی کسی بھی طریقے سے اس کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے۔وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ ”عربی میں دُوْنَ کا لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ عبارت کے سیاق وسباق سے پتا چلتا ہے کہ کس جگہ اس کے کون سے معنی مناسب ہیں۔ اس جگہ ”دُوْنِ اللّٰہ“ کا بہتر مفہوم یہی ہے کہ اللہ کے مقابلے میں تمہارا کوئی حمایتی اور مدد گار نہیں ہوگا۔آیت 18 سے شروع ہونے والا جملہ معترضہ یہاں پر ختم ہوا۔ اب اگلی آیات میں پھر سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے جس کا سلسلہ آیت 17 سے منقطع ہوگیا تھا۔

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنْجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 22 وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِز ”تم زمین یا آسمان میں کہیں بھی کسی بھی طریقے سے اس کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے۔وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ ”عربی میں دُوْنَ کا لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ عبارت کے سیاق وسباق سے پتا چلتا ہے کہ کس جگہ اس کے کون سے معنی مناسب ہیں۔ اس جگہ ”دُوْنِ اللّٰہ“ کا بہتر مفہوم یہی ہے کہ اللہ کے مقابلے میں تمہارا کوئی حمایتی اور مدد گار نہیں ہوگا۔آیت 18 سے شروع ہونے والا جملہ معترضہ یہاں پر ختم ہوا۔ اب اگلی آیات میں پھر سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے جس کا سلسلہ آیت 17 سے منقطع ہوگیا تھا۔

وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِينَ

📘 آیت 25 وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًالا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج ”یہ بہت اہم بات ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہی تھی کہ میں تمہیں متنبہّ کرچکا ہوں کہ تم لوگ جن بتوں کو پوجتے ہو ان کی حقیقت کچھ نہیں ہے اور ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ میرے سمجھانے پر تم لوگ یہ بات سمجھ بھی چکے ہو ‘ اس سلسلے میں حق تم لوگوں پر پوری طرح منکشف بھی ہوچکا ہے اور تمہارے دل اس بارے میں حق کی گواہی بھی دے چکے ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی تم لوگ اگر بتوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہو اور گمراہی کا راستہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو ‘ تو اس کی اصل وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ تم لوگ آپس کے تعلقات ‘ آپس کی دوستیاں اور رشتہ داریاں نبھا رہے ہو۔ دراصل یہ وہ بنیادی عامل factor ہے جو ہر سطح پر لوگوں کے لیے حق کو قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ ایک معقول اور با شعور شخص کی تان بھی اکثر یہیں پر آکر ٹوٹتی ہے کہ جی ہاں بات تو درست ہے ‘ دل کو بھی لگتی ہے مگر کیا کریں مجبوری ہے ! دوسری طرف برادری ہے ‘ رشتہ داریاں ہیں ‘ دوستیاں ہیں اور کاروبار کی شراکت داریاں ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے چھوڑ دیں ؟ سب سے ناتا کیسے توڑ لیں ؟ زندہ رہنے کے لیے یہ سب کچھ ضروری ہے۔ انسان بھلا اکیلا کیسے زندگی گزار سکتا ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ عصبیت ہر جگہ اور ہر دور میں اپنا رنگ دکھاتی ہے ‘ حتیٰ کہ خالص دینی بنیادوں پر اٹھنے والی تحریکیں بھی اس کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ایسی صورت میں یہ سب کچھ یکدم نہیں ہوجاتا بلکہ منفی عصبیت کے خطرناک جراثیم آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے کسی تحریک کی صفوں میں داخل ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ آغاز میں ایک تحریک کا نظریہ بالکل خلوص پر مبنی تھا۔ اس کے کارکنوں کی وابستگی بھی خالصتاً حق شناسی کی بنیاد پر تھی اور ان میں جدو جہد کا جذبہ بھی قابل رشک تھا ‘ مگر پھر کسی موڑ پر کہیں کوئی غلطی ہوئی اور تحریک کسی غلط رخ پر مڑ گئی۔ عموماً ایسی غلطیوں کے نتائج فوری طور پر سامنے نہیں آتے ‘ بلکہ کچھ عرصے تک تو کارکنوں کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ان کی تحریک غلط موڑ مڑ چکی ہے۔ لیکن جب اس غلطی کے نتائج واضح طور پر سامنے آنے لگتے ہیں اور کارکنوں کو معلوم بھی ہوجاتا ہے کہ وہ غلط راستے پر جا رہے ہیں تو اس کے باوجود بھی ان کی اکثریت اس تحریک کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ ایسی صورت حال میں وہ لوگ محض ”عصبیت“ کی وجہ سے اس تحریک کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ غور سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ کسی بھی جماعت یا تنظیم کے اندر ‘ خواہ وہ خالص دینی بنیادوں پر ہی کیوں نہ اٹھی ہو ‘ کچھ دیر کے بعد شخصی تعلقات ‘ باہمی رشتہ داریاں اور مشترکہ مادی مفادات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گویا ”جماعتی عصبیت“ کے علاوہ چھوٹی چھوٹی دوسری عصبیتیں بھی اس کے حلقے کے اندر فعال ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ہر ایسی جماعت ایک فرقہ بن جاتی ہے۔ اس نکتے کو اس پہلو سے بھی سمجھنا چاہیے کہ اب نبوت ختم ہوگئی ہے اور قیامت تک دنیا میں کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے زمانے تک اس خلا کو پر کرنے کے لیے مندرجہ ذیل تین چیزوں کا اہتمام فرمایا ہے :1 قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری کا اہتمام۔ جبکہ اس سے پہلے کسی کتاب کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی گئی۔2 ہر صدی میں ایک مجدد اٹھا نے کا اہتمام۔ یہ مجدد دین کے بنیادی حقائق کو تازہ کیا کرے گا اور لوگوں کو دین کی ان حقیقی تعلیمات کی طرف متوجہ کیا کرے گا جنہیں وہ بھول چکے ہوں گے۔3 اس چیز کا اہتمام کہ ہر دور میں ایک جماعت ضرور حق پر قائم رہے گی۔ اس ضمن میں نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے : لَا تَزَالُ طَاءِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ قَاءِمَۃً بِاَمْرِ اللّٰہِ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ اَوْ خَالَفَھُمْ۔۔ 1 ”میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی۔ جو لوگ ان کو چھوڑ جائیں گے یا ان کی مخالفت کریں گے وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔۔“اب عملی طور پر کیا ہوتا ہے ؟ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے فرض کریں کہ ایک مجدد پیدا ہوا ‘ اس نے مختلف پہلوؤں سے جدوجہد کی ‘ دینی تعلیمات کی تطہیر کر کے اصل حقائق لوگوں پر واضح کردیے۔ حالات اور زمانے کی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق دین کے مطالبات کی تشریح کر کے لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی بھر پور کوشش کی۔ کچھ لوگ اس کی شخصیت سے متاثر ہو کر اس کے گرد جمع ہوئے۔ اعوان و انصار نے اپنا اپنا کردار ادا کیا اور ایک مضبوط جماعت قائم ہوگئی۔ ایسی کسی بھی جماعت کے ہراول دستے کے کارکن چونکہ علیٰ وجہ البصیرت اس میں شامل ہوتے ہیں اس لیے ان کی نظریاتی وابستگی خالص اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ البتہ وقت گزرنے کے کے ساتھ ساتھ اس جماعت میں عصبیت کا عنصر داخل ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب اس کے بہت سے کارکنوں کی نظریاتی وابستگی کمزور ہوتے ہوتے برائے نام رہ جاتی ہے ‘ لیکن وہ لوگ صرف اس لیے اس کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کا تعلق اس جماعت سے تھا۔ پھر تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے اس عصبیت کا دائرہ اور وسیع ہوجاتا ہے۔ اتنے عرصے میں جماعت کے اندر مضبوط شخصی تعلقات پروان چڑھ چکے ہوتے ہیں ‘ رشتہ داریاں بن چکی ہوتی ہیں ‘ کاروباری شراکت داریاں اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہوتی ہیں اور یوں یہ جماعت ایک معاشرتی حلقے یا فرقے کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ اب اس کے کارکن اپنی اپنی ترجیحات اور اپنے اپنے مفادات کے تحت اس جماعت یا فرقے کے ساتھ خود کو وابستہ کیے رکھتے ہیں۔ تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے ہر جماعت میں اس خرابی کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی حقیقت اور دلیل حضور ﷺ کا یہ فرمان ہے : خَیْرُ اُمَّتِیْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ 1 ”میری امت میں سب سے بہتر میرا دور ہے ‘ پھر اس کے بعد والوں کا ‘ پھر اس کے بعد والوں کا“۔ یعنی حضور ﷺ نے خیر کے حوالے سے درجہ بدرجہ تین نسلوں کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ ﷺ کا یہ فرمان اتنی بڑی حقیقت ہے کہ تین نسلوں کے بعد خود آپ ﷺ کی قائم کردہ جماعت کو بھی زوال آگیا۔ اور جب حضور ﷺ کی قائم کردہ جماعت بھی اس فطری عمل کے مطابق زوال کا شکار ہوگئی تو کوئی دوسری جماعت کیونکر اس کمزوری سے مبراّ ہوسکتی ہے ؟ چناچہ تیسری نسل ایک صدی کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھر کسی مجدد کو اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ از سر نو انہی بنیادوں پر جدوجہد کا آغاز کرتا ہے۔ اسی طرح یہ عمل قیامت تک کے زمانے تک تسلسل کے ساتھ چلتا رہے گا۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہر دور کے مخلص مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حق شناسی کے سلسلے میں خود کو ہر قسم کی عصبیت سے بالاتر رکھ کر پوری دیانت داری سے جائزہ لیتا رہے کہ اس کے دور میں اللہ نے دین کی سربلندی کا کام کس کے حوالے کیا ہے اور وہ کون سی جماعت یا شخصیت ہے جو درست انداز میں اس راہ میں جدوجہد کر رہی ہے۔ پھر جب وہ اس سلسلے میں کسی واضح اور ٹھوس نتیجے پر پہنچ جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے تعلقات و مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اس شخصیت یا اس جماعت کا ساتھ دے جس کی جد وجہد کا رخ اس کی سمجھ اور معلومات کے مطابق درست ہو۔وَّمَاْوٰٹکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ”تمہاری یہ دوستیاں بس دنیا تک ہی محدود ہیں اور تمہارے یہ گٹھ جوڑ صرف یہیں پر تمہارے لیے مفید ہوسکتے ہیں۔ کل قیامت کے دن تمہارے یہ دوست اور رشتہ دار تمہیں پہچاننے سے بھی انکار کردیں گے۔ اپنے انجام کو دیکھتے ہوئے تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہراؤ گے اور باہم ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجو گے۔ اس مشکل گھڑی میں تمہارا کوئیُ پرسان حال نہ ہوگا۔

۞ فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 آیت 26 فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ 7 ”حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔وَقَالَ اِنِّیْ مُہَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْط اِنَّہٗ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ”اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کو چھوڑ کر شام کی طرف ہجرت کر گئے۔ آپ علیہ السلام کے پیچھے آپ علیہ السلام کی قوم کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟ اس بارے میں قرآن سے ہمیں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ واللہ اعلم !

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ

📘 وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ ”نبوت اور کتاب کی یہ وراثت ایک طویل عرصے تک حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل میں رہی اور پھر آخری نبوت اور آخری کتاب کی سعادت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کے حصے میں آئی۔ اس حوالے سے ایک اہم نکتہ نوٹ کرلیجیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد دنیا میں کوئی نبی یا رسول آپ علیہ السلام کی نسل سے باہر نہیں آیا۔ لیکن آپ علیہ السلام کی نسل دنیا میں کہاں کہاں پھیلی ؟ اس بارے میں ہمیں قطعی معلومات حاصل نہیں ہیں۔ تورات نے تو حضرت اسحاق علیہ السلام کے صرف ایک بیٹے یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل بنی اسرائیل کے بارے میں معلومات کو محفوظ کیا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک جڑواں بھائی ”عیسو“ کا ذکر بھی تاریخ میں ملتا ہے لیکن ان کی نسل کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں کہ وہ کہاں کہاں آباد ہوئی۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تیسری بیوی ”قطورہ“ سے بھی آپ علیہ السلام کے بہت سے بیٹے تھے۔ ان میں سے آپ علیہ السلام کے صرف ایک بیٹے کا تاریخ میں تذکرہ ملتا ہے کہ وہ مدین میں آباد ہوئے تھے اور حضرت شعیب علیہ السلام کا تعلق ان ہی کی نسل سے تھا۔ لیکن ”بنی قطورہ“ میں سے باقی لوگ کدھر گئے کچھ معلوم نہیں۔اس حوالے سے میرا خیال ہے کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے عیسو کی اولاد میں سے کچھ لوگ ہندوستان میں آکر آباد ہوئے اور برہمن کہلوائے۔ میرے خیال میں یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ نسلی تعلق کی بنا پر خود کو ”براہم“ یا ”براہما“ کہلواتے تھے۔ بعد میں اسی براہم یا براہما کا لفظ ”برہمن“ بن گیا۔ واللہ اعلم ! بہر حال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل دنیا میں کہاں کہاں پھیلی اور کس کس علاقے میں آباد ہوئی ‘ یہ انسانی تاریخ کا ایک اہم لیکن گمنام باب ہے۔ آج ضرورت ہے کہ اعلیٰ پائے کا کوئی سکالر تحقیق کرکے اس موضوع کے گمنام گوشوں کو بےنقاب کرے۔

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ

📘 آیت 28 وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَز مَا سَبَقَکُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ”حضرت لوط علیہ السلام کو عامورہ اور سدوم کے شہروں کی طرف مبعوث کیا گیا تھا۔ ان شہروں کے لوگ آپ علیہ السلام کی قوم میں سے نہیں تھے ‘ چناچہ آیت زیر نظر میں انہیں مجازاً آپ علیہ السلام کی قوم قَوْمِہٖ کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہی رہا ہے کہ کسی بھی قوم کی طرف رسول ہمیشہ اس قوم کے اندر سے مبعوث کیا جاتا رہا ہے۔ اس قاعدے اور قانون میں حضرت لوط علیہ السلام کے حوالے سے یہ واحد استثناء ہے اور یہ استثناء بھی دراصل اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کا حصہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جو کوئی بھی پیغمبر ہوگا وہ آپ علیہ السلام کی قوم سے ہی ہوگا۔ یاد رہے کہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔

أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

📘 آیت 29 اَءِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ 5 ”یعنی فطرت نے اس مقصد کے لیے مرد اور عورت کے ملاپ کا جو طریقہ رکھا ہے اور اسے اولاد پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا ہے ‘ تم اس راہ کو کاٹ رہے ہو۔وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ ط ”ان کی بےحیائی اور ڈھٹائی کی انتہا یہ تھی کہ وہ اس گھناؤنے فعل کا ارتکاب کھلے عام اپنی مجالس کے اندر کیا کرتے تھے۔

وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ

📘 آیت 3 وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ”ہم ان سے پہلے بھی ایمان کے ہر دعویدار کو آزماتے رہے ہیں اور آزمائش کے بغیر ہم کسی کے ایمان کو تسلیم نہیں کرتے۔فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ”اگرچہ ان الفاظ کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ ”اللہ جان کر رہے گا“ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے علم قدیم سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے اور وہ انسانوں کی نیتوں اور دلوں کے حالات سے بخوبی واقف ہے ‘ اس لیے یہاں اللہ کے ”جان لینے“ کا مفہوم دراصل یہی ہے کہ اللہ ظاہر کر دے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے ! وہ ممیز کر دے گا کہ کون منافق ہے اور کون سچا مؤمن ! کون ضعیف الایمان ہے اور کون قوئ الایمان ! کون سچا جاں نثار ہے اور کون محض دودھ پینے والا مجنوں ہے !یہاں یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ گزشتہ دو آیات میں اگر خفگی کا اظہار ہے تو اگلی دو آیات میں اہل ایمان کی دلجوئی کا سامان بھی ہے۔ گویا ترہیب اور ترغیب ساتھ ساتھ ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شفیق استاد اپنے شاگرد کو ایک وقت میں ڈانٹ پلاتا ہے لیکن پھر اس کے بعد تھپکی دے کر اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ اس نکتے کو اس حدیث کے حوالے سے بھی سمجھنا چاہیے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے : اَلْخَلْقُ عَیَال اللّٰہِ 1 کہ تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ یعنی اللہ اپنی مخلوق اور خصوصاً اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے۔ چناچہ اس محبت اور شفقت کی جھلک اگلی آیت میں صاف نظر آرہی ہے :

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ

📘 آیت 29 اَءِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ 5 ”یعنی فطرت نے اس مقصد کے لیے مرد اور عورت کے ملاپ کا جو طریقہ رکھا ہے اور اسے اولاد پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا ہے ‘ تم اس راہ کو کاٹ رہے ہو۔وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ ط ”ان کی بےحیائی اور ڈھٹائی کی انتہا یہ تھی کہ وہ اس گھناؤنے فعل کا ارتکاب کھلے عام اپنی مجالس کے اندر کیا کرتے تھے۔

وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا إِنَّا مُهْلِكُو أَهْلِ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ ۖ إِنَّ أَهْلَهَا كَانُوا ظَالِمِينَ

📘 آیت 31 وَلَمَّا جَآءَ تْ رُسُلُنَآ اِبْرٰہِیْمَ بالْبُشْرٰیلا ” قوم لوط پر عذاب کی غرض سے جو فرشتے بھیجے گئے تھے وہ پہلے انسانی شکلوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس گئے۔ ان فرشتوں نے پہلے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی اور پھر اس کے بعد :

قَالَ إِنَّ فِيهَا لُوطًا ۚ قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَنْ فِيهَا ۖ لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ

📘 آیت 31 وَلَمَّا جَآءَ تْ رُسُلُنَآ اِبْرٰہِیْمَ بالْبُشْرٰیلا ” قوم لوط پر عذاب کی غرض سے جو فرشتے بھیجے گئے تھے وہ پہلے انسانی شکلوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس گئے۔ ان فرشتوں نے پہلے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی اور پھر اس کے بعد :

وَلَمَّا أَنْ جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالُوا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ ۖ إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهْلَكَ إِلَّا امْرَأَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ

📘 آیت 33 وَلَمَّآ اَنْ جَآءَ تْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعًا ”حضرت لوط علیہ السلام کی پریشانی کی اصل وجہ یہ تھی کہ فرشتے خوبصورت لڑکوں کے روپ میں وارد ہوئے تھے اور حضرت لوط علیہ السلام اپنی قوم کے اخلاق و کردار سے واقف تھے۔

إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلَىٰ أَهْلِ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

📘 آیت 33 وَلَمَّآ اَنْ جَآءَ تْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعًا ”حضرت لوط علیہ السلام کی پریشانی کی اصل وجہ یہ تھی کہ فرشتے خوبصورت لڑکوں کے روپ میں وارد ہوئے تھے اور حضرت لوط علیہ السلام اپنی قوم کے اخلاق و کردار سے واقف تھے۔

وَلَقَدْ تَرَكْنَا مِنْهَا آيَةً بَيِّنَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

📘 آیت 35 وَلَقَدْ تَّرَکْنَا مِنْہَآ اٰیَۃًَم بَیِّنَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ” قوم لوط کی بستی کے کھنڈرات قریش کی تجارتی شاہراہ پر موجود تھے ‘ لہٰذا قرآن میں اہل مکہ کو بار بار مخاطب کر کے یاد دلایا گیا ہے کہ تم لوگ ان عذاب زدہ بستیوں کے کھنڈرات پر سے گزرتے ہو اور پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے ہو ! اس کے علاوہ بحیرۂ مردار جسے بحر لوط بھی کہا جاتا ہے بھی قوم لوط کی بربادی کی کھلی نشانی ہے۔

وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ

📘 آیت 35 وَلَقَدْ تَّرَکْنَا مِنْہَآ اٰیَۃًَم بَیِّنَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ” قوم لوط کی بستی کے کھنڈرات قریش کی تجارتی شاہراہ پر موجود تھے ‘ لہٰذا قرآن میں اہل مکہ کو بار بار مخاطب کر کے یاد دلایا گیا ہے کہ تم لوگ ان عذاب زدہ بستیوں کے کھنڈرات پر سے گزرتے ہو اور پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے ہو ! اس کے علاوہ بحیرۂ مردار جسے بحر لوط بھی کہا جاتا ہے بھی قوم لوط کی بربادی کی کھلی نشانی ہے۔

فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ

📘 آیت 35 وَلَقَدْ تَّرَکْنَا مِنْہَآ اٰیَۃًَم بَیِّنَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ” قوم لوط کی بستی کے کھنڈرات قریش کی تجارتی شاہراہ پر موجود تھے ‘ لہٰذا قرآن میں اہل مکہ کو بار بار مخاطب کر کے یاد دلایا گیا ہے کہ تم لوگ ان عذاب زدہ بستیوں کے کھنڈرات پر سے گزرتے ہو اور پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے ہو ! اس کے علاوہ بحیرۂ مردار جسے بحر لوط بھی کہا جاتا ہے بھی قوم لوط کی بربادی کی کھلی نشانی ہے۔

وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ ۖ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ

📘 آیت 38 وَعَادًا وَّثَمُوْدَا وَقَدْ تَّبَیَّنَ لَکُمْ مِّنْ مَّسٰکِنِہِمْوقفۃ ”تمہیں سب معلوم ہے کہ یہ قومیں کس کس علاقے میں کہاں کہاں آباد تھیں۔وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ ”شیطان کے زیر اثر انہیں اپنے مشرکانہ افعال و اعمال بہت خوش نما لگتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ان ہی میں مگن رہتے تھے۔فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَکَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَ ”استبصار باب ”استفعال“ سے ہے۔ اس کے معنی بغور دیکھنا کے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ لوگ بڑے باریک بین تھے ‘ ہرچیز کا مشاہدہ بڑی احتیاط سے کرتے تھے ‘ بڑے ہوشیار اور دانشور قسم کے لوگ تھے ‘ مگر اس کے باوجود انہیں راہ راست سجھائی نہیں دیتی تھی۔ یہ تضاد اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سمجھدار انسان اپنی ناک کے نیچے کے پتھر سے ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ آج کے سائنسدانوں ہی کی مثال لے لیجیے۔ آج یہ لوگ کیسی کیسی ایجادات کر رہے ہیں۔ کائنات کے کیسے کیسے حقائق تک آج ان کی رسائی ہے۔ اربوں ‘ کھربوں نوری سالوں کی دوری پر نئے نئے ستاروں کو دریافت کر رہے ہیں۔ کیسے کیسے آلات کی مدد انہیں حاصل ہے اور ان آلات کے ذریعے کیسے کیسے مشاہدات ان کی نظروں سے گزرتے ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود ان کے ذہن خالق کائنات اور مدبر کائنات کی طرف منتقل نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ ایک مادی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں جبکہ ان کی دوسری روحانی آنکھ بالکل اندھی ہے۔ ایسے ہی سائنسدانوں اور دانشوروں کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا : ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا !یعنی یہ لوگ کائنات کے بڑے بڑے رازوں کی کھوج میں تو لگے ہوئے ہیں اور تحقیق کے اس میدان میں آئے روز نت نئی کامیابیوں کے جھنڈے بھی گاڑ رہے ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی اپنی ذات کے بارے میں جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ میں کون ہوں ؟ کہاں سے آیا ہوں ؟ مجھے کہاں جانا ہے ؟ میری اس زندگی کا مقصد و مآل کیا ہے ؟ ان کے نزدیک تو زندگی بھی جانوروں کی طرح پیدا ہونے ‘ کھانے پینے ‘ نسل بڑھانے اور مرجانے کا نام ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ موت پر انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اگر انسانی زندگی ان دانشوروں کے خیال میں یہی کچھ ہے تو پھر یہ واقعی ایک کھیل ہے۔ اور کھیل بھی بقول بہادر شاہ ؔ ظفربس چار دن کا ! عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے ‘ دو انتظار میں !اس ”دانشورانہ“ نقطہ نظر کے مطابق جائزہ لیں تو انسانی زندگی کی تہی دامانی اور بےبضاعتی پر ترس آتا ہے۔ ماہ و سال کے اس میزانیہ میں سے کچھ وقت تو بچپنے کے بھولپن میں بیت گیا ‘ کچھ لڑکپن کے کھیل کود اور شرارتوں میں۔ جوانی آئی تو سنجیدہ سوچ کی گویا بساط ہی الٹ گئی۔ جوانی کا خمار اترا اور ہوش سنبھالنے کی فرصت محسوس ہوئی تو بڑھاپے کی چاپ سنائی دینے لگی۔ اور اگر کوئی زیادہ سخت جان ثابت ہوا تو اسے ”ارذل العمر“ میں لِکَیْ لاَ یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْءًا کے نوشتہ تقدیر کا سامنا کرنا پڑا۔۔ تو کیا یہی ہے انسان کی اس ”انمول“ زندگی کی حقیقت ؟ کیا اسی کے بل پر انسان اشرف المخلوقات بنا تھا ؟ اور کیا اسی برتے پر یہ مسجود ملائک ٹھہرا تھا ؟ اور کیا : ع ”اِک ذرا ہوش میں آنے کے خطاکار ہیں ہم ؟“۔۔ نہیں ‘ نہیں ‘ ایسا ہرگز نہیں ! انسانی زندگی اتنی ارزاں کیونکر ہوسکتی ہے ؟ انسانی زندگی فقط پیدا ہونے ‘ کھانے پینے اور چند سال زندہ رہنے کے دورانیے تک ہرگز محدود نہیں ہوسکتی ! بلکہ یہ اس تصور سے بہت اعلیٰ اور بہت بالا ایک ابدی حقیقت ہے۔ بقول اقبالؔ :r؂ ُ تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی !دراصل جس ”دورانیے“ کو یہ لوگ زندگی سمجھے بیٹھے ہیں وہ تو اصل زندگی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ انسانی زندگی کا اصل اور بڑا حصہ تو وہ ہے جس کا آغاز انسان کی موت کے بعد ہونے والا ہے۔ اس دنیا کی زندگی تو انسان کے لیے محض ایک وقفہ امتحان ہے اور بس !

وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مُوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ

📘 آیت 38 وَعَادًا وَّثَمُوْدَا وَقَدْ تَّبَیَّنَ لَکُمْ مِّنْ مَّسٰکِنِہِمْوقفۃ ”تمہیں سب معلوم ہے کہ یہ قومیں کس کس علاقے میں کہاں کہاں آباد تھیں۔وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ ”شیطان کے زیر اثر انہیں اپنے مشرکانہ افعال و اعمال بہت خوش نما لگتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ان ہی میں مگن رہتے تھے۔فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَکَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَ ”استبصار باب ”استفعال“ سے ہے۔ اس کے معنی بغور دیکھنا کے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ لوگ بڑے باریک بین تھے ‘ ہرچیز کا مشاہدہ بڑی احتیاط سے کرتے تھے ‘ بڑے ہوشیار اور دانشور قسم کے لوگ تھے ‘ مگر اس کے باوجود انہیں راہ راست سجھائی نہیں دیتی تھی۔ یہ تضاد اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سمجھدار انسان اپنی ناک کے نیچے کے پتھر سے ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ آج کے سائنسدانوں ہی کی مثال لے لیجیے۔ آج یہ لوگ کیسی کیسی ایجادات کر رہے ہیں۔ کائنات کے کیسے کیسے حقائق تک آج ان کی رسائی ہے۔ اربوں ‘ کھربوں نوری سالوں کی دوری پر نئے نئے ستاروں کو دریافت کر رہے ہیں۔ کیسے کیسے آلات کی مدد انہیں حاصل ہے اور ان آلات کے ذریعے کیسے کیسے مشاہدات ان کی نظروں سے گزرتے ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود ان کے ذہن خالق کائنات اور مدبر کائنات کی طرف منتقل نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ ایک مادی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں جبکہ ان کی دوسری روحانی آنکھ بالکل اندھی ہے۔ ایسے ہی سائنسدانوں اور دانشوروں کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا : ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا !یعنی یہ لوگ کائنات کے بڑے بڑے رازوں کی کھوج میں تو لگے ہوئے ہیں اور تحقیق کے اس میدان میں آئے روز نت نئی کامیابیوں کے جھنڈے بھی گاڑ رہے ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی اپنی ذات کے بارے میں جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ میں کون ہوں ؟ کہاں سے آیا ہوں ؟ مجھے کہاں جانا ہے ؟ میری اس زندگی کا مقصد و مآل کیا ہے ؟ ان کے نزدیک تو زندگی بھی جانوروں کی طرح پیدا ہونے ‘ کھانے پینے ‘ نسل بڑھانے اور مرجانے کا نام ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ موت پر انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اگر انسانی زندگی ان دانشوروں کے خیال میں یہی کچھ ہے تو پھر یہ واقعی ایک کھیل ہے۔ اور کھیل بھی بقول بہادر شاہ ؔ ظفربس چار دن کا ! عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے ‘ دو انتظار میں !اس ”دانشورانہ“ نقطہ نظر کے مطابق جائزہ لیں تو انسانی زندگی کی تہی دامانی اور بےبضاعتی پر ترس آتا ہے۔ ماہ و سال کے اس میزانیہ میں سے کچھ وقت تو بچپنے کے بھولپن میں بیت گیا ‘ کچھ لڑکپن کے کھیل کود اور شرارتوں میں۔ جوانی آئی تو سنجیدہ سوچ کی گویا بساط ہی الٹ گئی۔ جوانی کا خمار اترا اور ہوش سنبھالنے کی فرصت محسوس ہوئی تو بڑھاپے کی چاپ سنائی دینے لگی۔ اور اگر کوئی زیادہ سخت جان ثابت ہوا تو اسے ”ارذل العمر“ میں لِکَیْ لاَ یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْءًا کے نوشتہ تقدیر کا سامنا کرنا پڑا۔۔ تو کیا یہی ہے انسان کی اس ”انمول“ زندگی کی حقیقت ؟ کیا اسی کے بل پر انسان اشرف المخلوقات بنا تھا ؟ اور کیا اسی برتے پر یہ مسجود ملائک ٹھہرا تھا ؟ اور کیا : ع ”اِک ذرا ہوش میں آنے کے خطاکار ہیں ہم ؟“۔۔ نہیں ‘ نہیں ‘ ایسا ہرگز نہیں ! انسانی زندگی اتنی ارزاں کیونکر ہوسکتی ہے ؟ انسانی زندگی فقط پیدا ہونے ‘ کھانے پینے اور چند سال زندہ رہنے کے دورانیے تک ہرگز محدود نہیں ہوسکتی ! بلکہ یہ اس تصور سے بہت اعلیٰ اور بہت بالا ایک ابدی حقیقت ہے۔ بقول اقبالؔ :r؂ ُ تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی !دراصل جس ”دورانیے“ کو یہ لوگ زندگی سمجھے بیٹھے ہیں وہ تو اصل زندگی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ انسانی زندگی کا اصل اور بڑا حصہ تو وہ ہے جس کا آغاز انسان کی موت کے بعد ہونے والا ہے۔ اس دنیا کی زندگی تو انسان کے لیے محض ایک وقفہ امتحان ہے اور بس !

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ أَنْ يَسْبِقُونَا ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ

📘 آیت 4 اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَاط سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ ”اس جملے کی روح کو سمجھنے کے لیے مکہ مکرمہ کے ماحول اور اس میں اہل ایمان کی دل دہلا دینے والی مظلومیت کے مناظر ایک دفعہ پھر اپنے تصور میں لائیے ‘ جہاں ابوجہل کو کھلی چھوٹ تھی کہ وہ حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رض کو جس طرح چاہے بربریت کا نشانہ بنائے۔ اُمیہ بن خلف مالک و مختار تھا حضرت بلال رض کی قسمت کا کہ ان کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرے۔ انہیں مار پیٹ کر لہو لہان کر دے اور گرم ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دے یا گلے میں رسیّ ڈال کر مردہ جانوروں کی طرح مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتا پھرے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو آیت زیر مطالعہ کے الفاظ کا مفہوم یوں ہوگا کہ کیا بربریت کا یہ بازار گرم کرنے والے درندوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ؟ کیا ابوجہل اور امیہ بن خلف کو خوش فہمی ہے کہ وہ ہماری گرفت سے بچ جائیں گے ؟ نہیں ‘ ایسا ہرگز نہیں ہوگا ! انہیں اس سب کچھ کا حساب دینا ہوگا۔ وہ وقت دور نہیں جب بہت جلد یہ پانسہ پلٹ جائے گا اور انہیں لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ چناچہ چند ہی سال بعد غزوۂ بدر میں کفر اور ظلم کے بڑے بڑے علم برداروں کا حساب چکا دیا گیا۔ میدان بدر میں ہی امیہ بن خلف کو بھی مکافات عمل کے بےرحم شکنجے میں جکڑ کر حضرت بلال رض کے قدموں میں ڈال دیا گیا۔ اس وقت اگرچہ حضرت عبدالرحمن رض بن عوف نے کوشش بھی کی کہ وہ امیہ کو قتل ہونے سے بچالیں اور اسے قیدی بنالیں لیکن حضرت بلال رض نے اسے جہنم رسید کر کے ہی چھوڑا : اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ البروج ”بلاشبہ آپ کے رب کی گرفت بہت سخت ہے !“ دراصل مکہ میں بارہ سال تک ایک خاص حکمت عملی کے تحت مسلمانوں کو ہاتھ باندھے رکھنے ‘ ہر طرح کا ظلم برداشت کرنے اور استطاعت کے باوجود بھی بدلہ نہ لینے کا حکم دیا گیا تھا۔ گویا تحریک کے اس مرحلے میں انہیں ظلم سہنے اور سخت سے سخت حالات میں عزم و استقلال کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی تربیت کے عمل سے گزارا جارہا تھا۔ اور ان خطوط پر مکمل تربیت اور تیاری سے قبل انہیں عملی طور پر تصادم کا میدان گرم کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ حکمت عملی دراصل تحریکی و انقلابی جدوجہد کے فلسفے کا ایک اہم اور لازمی اصول ہے۔ علامہ اقبال نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے : نالہ ہے بلبل شور یدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی !بعد میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق سورة الحج کی آیت 39 کے اس حکم کے تحت اہل ایمان کے بندھے ہوئے ہاتھ کھول دیے گئے : اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا ط ”اب اجازت دی جا رہی ہے قتال کی ان لوگوں کو جن پر جنگ مسلط کردی گئی ہے ‘ اس لیے کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔“

فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

📘 فَمِنْہُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا ج ”یہ آندھی قوم لوط علیہ السلام پر بھی آئی تھی جو زلزلے سے تلپٹ ہوجانے والی بستیوں پر پتھراؤ کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔ اس سے پہلے قوم عاد پر بھی آندھی کا عذاب آیا تھا ‘ جس کا ذکر سورة الحاقہ میں اس طرح آیا ہے : وَاَمَّا عَادٌ فَاُہْلِکُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَۃٍ۔ سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍلا حُسُوْمًا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْہَا صَرْعٰیلا کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ ”اور قوم عاد کے لوگ ہلاک کیے گئے تیز آندھی سے ‘ جو ان پر مسلط کردی گئی سات راتیں اور آٹھ دن تک ‘ برباد کردینے کے لیے ‘ پس تو دیکھتا ان لوگوں کو جو گری ہوئی کھجوروں کے تنوں کی طرح پچھڑے پڑے تھے“۔ روایات میں آتا ہے کہ اس ہوا میں کنکر اور پتھر بھی تھے جو گولیوں اور میزائلوں کی طرح انہیں نشانہ بناتے تھے اور وہ آندھی اتنی زور دار تھی کہ انسانوں کو پٹخ پٹخ کر زمین پر پھینکتی تھی۔وَمِنْہُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ ج ”اس سے قوم ثمود کے لوگ اور اہل مدین مراد ہیں۔ وَمِنْہُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ ج ”اس ضمن میں قارون کا ذکر سورة القصص میں گزر چکا ہے۔وَمِنْہُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ج ”غرق کیے جانے کا عذاب دو قوموں پر علیحدہ علیحدہ طریقے سے آیا تھا۔ قوم نوح علیہ السلام کو تو ان کے گھروں اور شہروں میں ہی غرق کردیا گیا تھا ‘ جبکہ فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو محلوں اور آبادیوں سے نکال کر سمندر میں لے جاکر غرق کیا گیا۔

مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 41 مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِج اِتَّخَذَتْ بَیْتًا ط ”اس تمثیل کے اعتبار سے یہ آیت سورت کے اس حصے کی بہت اہم آیت ہے۔ اس تمثیل میں اللہ کے سوا جن مددگاروں کا ذکر ہوا ہے وہ غیر مرئی بھی ہوسکتے ہیں ‘ جیسے کوئی کہے کہ مجھے فلاں دیوی کی کرپا چاہیے یا کوئی کسی ولی اللہ کی نظر کرم کے سہارے کی بات کرے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ظاہری و معنوی طاقت یا مادی وسائل کی بنیاد پر کوئی شخص کسی فرد ‘ قوم یا چیز پر ایسا بھروسا کرے کہ وہ اللہ کے اختیار اور اس کی قدرت کو بھلا بیٹھے۔ جیسے ہم امریکہ کو اپنا پشت پناہ سمجھ کر اس کی جھولی میں جا بیٹھتے ہیں۔ آیت زیر نظر میں ایسے تمام سہاروں کو مکڑی کے جالے سے تشبیہہ دے کر یہ حقیقت یاد دلائی گئی ہے کہ اصل اختیار اور قدرت و طاقت کا مالک اللہ ہے۔ اس کے سہارے اور اس کے توکلّ کو چھوڑ کر کسی اور کا سہارا ڈھونڈنا گویا مکڑی کے گھر میں پناہ لینے کے مترادف ہے۔

إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 آیت 41 مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِج اِتَّخَذَتْ بَیْتًا ط ”اس تمثیل کے اعتبار سے یہ آیت سورت کے اس حصے کی بہت اہم آیت ہے۔ اس تمثیل میں اللہ کے سوا جن مددگاروں کا ذکر ہوا ہے وہ غیر مرئی بھی ہوسکتے ہیں ‘ جیسے کوئی کہے کہ مجھے فلاں دیوی کی کرپا چاہیے یا کوئی کسی ولی اللہ کی نظر کرم کے سہارے کی بات کرے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ظاہری و معنوی طاقت یا مادی وسائل کی بنیاد پر کوئی شخص کسی فرد ‘ قوم یا چیز پر ایسا بھروسا کرے کہ وہ اللہ کے اختیار اور اس کی قدرت کو بھلا بیٹھے۔ جیسے ہم امریکہ کو اپنا پشت پناہ سمجھ کر اس کی جھولی میں جا بیٹھتے ہیں۔ آیت زیر نظر میں ایسے تمام سہاروں کو مکڑی کے جالے سے تشبیہہ دے کر یہ حقیقت یاد دلائی گئی ہے کہ اصل اختیار اور قدرت و طاقت کا مالک اللہ ہے۔ اس کے سہارے اور اس کے توکلّ کو چھوڑ کر کسی اور کا سہارا ڈھونڈنا گویا مکڑی کے گھر میں پناہ لینے کے مترادف ہے۔

وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ

📘 آیت 41 مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِج اِتَّخَذَتْ بَیْتًا ط ”اس تمثیل کے اعتبار سے یہ آیت سورت کے اس حصے کی بہت اہم آیت ہے۔ اس تمثیل میں اللہ کے سوا جن مددگاروں کا ذکر ہوا ہے وہ غیر مرئی بھی ہوسکتے ہیں ‘ جیسے کوئی کہے کہ مجھے فلاں دیوی کی کرپا چاہیے یا کوئی کسی ولی اللہ کی نظر کرم کے سہارے کی بات کرے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ظاہری و معنوی طاقت یا مادی وسائل کی بنیاد پر کوئی شخص کسی فرد ‘ قوم یا چیز پر ایسا بھروسا کرے کہ وہ اللہ کے اختیار اور اس کی قدرت کو بھلا بیٹھے۔ جیسے ہم امریکہ کو اپنا پشت پناہ سمجھ کر اس کی جھولی میں جا بیٹھتے ہیں۔ آیت زیر نظر میں ایسے تمام سہاروں کو مکڑی کے جالے سے تشبیہہ دے کر یہ حقیقت یاد دلائی گئی ہے کہ اصل اختیار اور قدرت و طاقت کا مالک اللہ ہے۔ اس کے سہارے اور اس کے توکلّ کو چھوڑ کر کسی اور کا سہارا ڈھونڈنا گویا مکڑی کے گھر میں پناہ لینے کے مترادف ہے۔

خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ

📘 آیت 41 مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِج اِتَّخَذَتْ بَیْتًا ط ”اس تمثیل کے اعتبار سے یہ آیت سورت کے اس حصے کی بہت اہم آیت ہے۔ اس تمثیل میں اللہ کے سوا جن مددگاروں کا ذکر ہوا ہے وہ غیر مرئی بھی ہوسکتے ہیں ‘ جیسے کوئی کہے کہ مجھے فلاں دیوی کی کرپا چاہیے یا کوئی کسی ولی اللہ کی نظر کرم کے سہارے کی بات کرے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ظاہری و معنوی طاقت یا مادی وسائل کی بنیاد پر کوئی شخص کسی فرد ‘ قوم یا چیز پر ایسا بھروسا کرے کہ وہ اللہ کے اختیار اور اس کی قدرت کو بھلا بیٹھے۔ جیسے ہم امریکہ کو اپنا پشت پناہ سمجھ کر اس کی جھولی میں جا بیٹھتے ہیں۔ آیت زیر نظر میں ایسے تمام سہاروں کو مکڑی کے جالے سے تشبیہہ دے کر یہ حقیقت یاد دلائی گئی ہے کہ اصل اختیار اور قدرت و طاقت کا مالک اللہ ہے۔ اس کے سہارے اور اس کے توکلّ کو چھوڑ کر کسی اور کا سہارا ڈھونڈنا گویا مکڑی کے گھر میں پناہ لینے کے مترادف ہے۔

اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ

📘 اب یہاں سے اس سورت کا آخری حصہ شروع ہو رہا ہے جو تین رکوعات پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ آغاز میں بتایا گیا ہے ‘ سورت کے اس حصے میں دو مضامین مشرکین مکہ اور اہل ایمان سے خطاب اس انداز میں متوازی چل رہے ہیں جیسے ایک رسی کی دو لڑیاں آپس میں گندھی ہوئی ہوں۔ قرآن کے اس اسلوب کے بارے میں پہلے بھی کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ مدنی سورتوں میں اہل ایمان سے خطاب کے لیے عام طور پر یٰاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا کا صیغہ آیا ہے ‘ جبکہ مکی سورتوں میں اہل ایمان کو براہ راست مخاطب کرنے کے بجائے عموماً رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے مخاطب کیا گیا ہے۔ البتہ اس سورت کی آیت 56 میں یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ میں مسلمانوں سے براہ راست خطاب بھی ہے۔ بہر حال آئندہ آیات میں اہل ایمان سے خطاب کے دوران ان لوگوں کو بہت اہم ہدایات دی گئی ہیں جو غلبۂ دین کی جدوجہد میں مصروف ہوں اور اس راستے میں مصائب و مشکلات کا سامنا کر رہے ہوں۔ ان ہدایات کی تعداد دس کے قریب ہے جن میں سے پہلی اور سو ہدایات کے برابر ایک ہدایت یہ ہے :آیت 45 اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ ”سورۃ الکہف کی آیت 27 میں بھی یہی ہدایت دی گئی ہے : وَاتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ ط ”اور اے نبی ﷺ ! آپ تلاوت کیجیے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے آپ کے رب کی کتاب میں سے“۔ تقرب الی اللہ کا سب سے بڑا ذریعہ قرآن حکیم ہے۔ چناچہ سورة آل عمران کی آیت 103 میں اہل ایمان کو قرآن سے چمٹ جانے کا حکم بایں الفاظ دیا گیا ہے : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْاص ”اور مضبوطی سے تھام لو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو !“ حضرت ابوسعید خدری رض کی روایت کردہ یہ حدیث اس مضمون کو مزید واضح کرتی ہے : کِتَاب اللّٰہِ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ 1”کتاب اللہ ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے۔“حضور ﷺ کے اس فرمان کے مطابق قرآن ہی ”حبل اللہ“ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران کی مذکورہ آیت میں مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ چناچہ قرآن کی تلاوت کرنے اور اس کی تعلیم و تفہیم میں مشغول رہنے سے بندۂ مؤمن کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور اللہ پر اس کے یقین اور توکل کی کیفیت میں پختگی آتی ہے۔ اسی سے ایک بندۂ مؤمن کو صبر و استقامت کی وہ دولت نصیب ہوتی ہے جو باطل کے مقابلے میں اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے : وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ الاَّ باللّٰہِ النحل : 127 ”اور اے نبی ﷺ ! آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر تو اللہ ہی کے سہارے پر ہے“۔ چناچہ راہ حق کے مسافروں کو یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلی ہدایت یہی دی گئی ہے کہ قرآن کی تلاوت کو اپنے شبانہ روز کے معمول میں شامل رکھو ! اس سے تمہارا تعلق مع اللہ مضبوط ہوگا اور پھر اسی تعلق کے سہارے حق و باطل کی کشا کش میں تمہیں استقامت نصیب ہوگی۔وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط ”اللہ تعالیٰ کے ہاں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر پہلی وحی میں ہی اس کی تاکید کردی گئی تھی : وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ طٰہٰ ”اور نماز قائم کرو میرے ذکر کے لیے۔“وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ ط ”یہ گویا اوپر دی گئی پہلی ہدایت کے بارے میں مزید وضاحت ہے۔ تلاوت قرآن اور نماز دونوں اللہ کے ذکر ہی کے ذرائع ہیں ‘ بلکہ قرآن کو تو خود اللہ تعالیٰ نے سورة الحجر میں ”الذکر“ کا نام دیا ہے : اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ”یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں“۔ جب کہ سورة طٰہٰ کی مذکورہ بالا آیت آیت 14 میں قیام نماز کا مقصد بھی یہی بتایا گیا ہے کہ نماز اللہ کے ذکر کے لیے قائم کرو۔ اس کے علاوہ ادعیہ ماثورہ بھی اللہ کے ذکر کا ذریعہ ہیں۔ حضور ﷺ نے ہمیں ہر عمل اور ہر موقع کی دعا سکھائی ہے۔ مثلاً گھر سے نکلنے کی دعا ‘ گھر میں داخل ہونے کی دعا ‘ بیت الخلاء میں جانے کی دعا ‘ باہر آنے کی دعا ‘ شیشہ دیکھنے کی دعا ‘ کپڑے بدلنے کی دعا۔ یعنی ان دعاؤں کو زندگی کا معمول بنا لینے سے ہر لحظہ ‘ ہر قدم اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کے ذہن اور دل کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ فرض نمازوں کے بعد تسبیح فاطمہ 33 بار سبحان اللہ ‘ 33 بار الحمدللہ اور 34 بار اللہ اکبر اور دوسرے اذکار کا بھی احادیث میں ذکر ملتا ہے۔ گویا یہ سب اللہ کے ذکر کی مختلف شکلیں ہیں ‘ لیکن سب سے بڑا اور سب سے اعلیٰ ذکر قرآن مجید کی تلاوت ہے۔وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ”اے مسلمانو ! یہ یقین اپنے دلوں میں پختہ کرلو کہ اللہ تمہاری ہر حرکت ‘ ہر عمل بلکہ تمہارے خیالات اور تمہاری نیتوں تک سے باخبر ہے۔۔ اس کے بعد دوسری ہدایت :

۞ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَٰهُنَا وَإِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

📘 آیت 46 وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُز ”ان کو دعوت دیتے ہوئے اچھے طریقے سے ان سے گفتگو کرو۔ تمہاری گفتگو میں نہ تو ان کی توہین کا انداز ہو اور نہ ہی ان کی عصبیت جاہلی کو بھڑکنے کا موقع ملتا ہو۔ بہر حال اپنا پیغام احسن طریقے سے ان تک پہنچا دو۔ اس کے بعد وہ اپنے نظریے اور عمل کے لیے اللہ کے ہاں خود ذمہ دار ہیں۔اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ ”اس استثناء کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں غیر منصفانہ طرز عمل دکھانے والے افراد سے مجادلہ کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ‘ اور دوسرے یہ کہ دوران گفتگو ایسے لوگوں کی ہٹ دھرمی کے سبب ان کے ساتھ کسی حد تک سخت رویہ اختیار کرنے کی بھی اجازت ہے۔ بہر حال اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو اس کے ساتھ بحث و تمحیص میں یہ دونوں صورتیں بھی پید اہو سکتی ہیں۔ یعنی اس کا غیر منصفانہ رویہ دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ کچھ سخت جملوں کے تبادلے کی نوبت بھی آسکتی ہے اور اس کے بعد مزید گفتگو کرنے سے اعراض بھی برتا جاسکتا ہے۔

وَكَذَٰلِكَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ ۚ فَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَمِنْ هَٰؤُلَاءِ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الْكَافِرُونَ

📘 فَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ج ”یعنی یہود و نصاریٰ میں سے بھی ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن کو اللہ کا کلام مانتے ہوئے اس پر ایمان لائیں گے۔ جیسا کہ قبل ازیں ہم سورة القصص کے چھٹے رکوع میں حبشہ سے مکہ آنے والے ان مسلمانوں کا ذکر پڑھ چکے ہیں جو پہلے عیسائی تھے ‘ پھر صحابہ کرام رض کی تبلیغ سے حضور ﷺ پر ایمان لے آئے اور یوں اللہ تعالیٰ کے ہاں دوہرے اجر کے مستحق ٹھہرے۔وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا الْکٰفِرُوْنَ ”یہاں سے آگے اب دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے جس میں روئے سخن مشرکین مکہ کی طرف ہے۔ ان لوگوں کے لیے یہاں نبی آخر الزماں ﷺ کی نبوت کی ایک اور دلیل بیان کی جا رہی ہے۔ سورت کے اس حصے میں ساتھ ساتھ چلنے والے دو موضوعات کو قبل ازیں رسی کی دو ڈوریوں سے تشبیہہ دی گئی تھی۔ اس ضمن میں یوں سمجھیں کہ اب کچھ دیر کے لیے دوسری ڈوری نمایاں ہورہی ہے۔

وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ

📘 آیت 48 وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ”قرآن نازل ہونے سے پہلے تو آپ ﷺ ان لوگوں کو کوئی کتاب پڑھ کر نہیں سناتے تھے اور نہ ہی آپ ﷺ کوئی کتاب خود اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ‘ بلکہ دنیوی اعتبار سے تو آپ ﷺ نے نہ کوئی تعلیم حاصل کی ہے اور نہ ہی آپ ﷺ نے پڑھنا لکھنا سیکھا ہے۔ ہاں اگر ایسا ہوتا تو قرآن کو باطل قرار دینے والوں کے لیے اس کے بارے میں شک کی کچھ گنجائش پیدا ہوسکتی تھی کہ جی ہاں ! یہ حضرت تو پرانے لکھاری ہیں ‘ روز روز کی مشق سے قلم میں زور اور تحریر میں نکھار آتا گیا اور رفتہ رفتہ یہ سلسلہ یہاں تک پہنچ گیا کہ انہوں نے قرآن جیسا بلند پایہ کلام لکھنا شروع کردیا ہے۔

بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ

📘 آیت 49 بَلْ ہُوَ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ط ”سابقہ الہامی کتابوں کا علم رکھنے والے لوگ قرآن کی آیات بینات کو خوب پہچانتے ہیں۔

مَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآتٍ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 آیت 5 مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآء اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ ط ”یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر ایک بندۂ مؤمن دنیا میں اپنا تن من دھن اس کی راہ میں کھپا دے گا تو اس کی اس قربانی کا صلہ اسے آخرت کی نعمتوں کی صورت میں دیا جائے گا۔ لیکن اللہ کا یہ وعدہ بہر حال ادھار کا وعدہ ہے۔ دوسری طرف دنیا کے ظاہری معاملات کو دیکھتے ہوئے انسان ”نو نقد نہ تیرہ ادھار“ کے اصول پر زیادہ اطمینان محسوس کرتا ہے۔ انسان کی اسی کمزوری سے شیطان فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کے دل میں وسوسے ڈال کر اس کے یقین کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چناچہ اسی حوالے سے یہاں حضرت بلال ‘ حضرت ابو فکیہہ اور حضرت خباب جیسے صحابہ رض اور ان کی قائم کردہ مثالوں کی قیامت تک کے لیے پیروی کرنے والے جاں نثاروں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اے شمع توحید کے پروانو ! شیطان تمہارے دلوں میں کسی قسم کا وسوسہ پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے ‘ تم اطمینان رکھو ! تمہارے ساتھ کیے گئے اللہ کے تمام وعدے ضرور پورے ہوں گے اور آخرت کا وہ دن ضرور آکر رہے گا جس دن تمہاری تمام قربانیوں کا بھر پور صلہ تمہیں دیا جائے گا۔وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ”وہ تمہارے حالات سے بخوبی آگاہ ہے ‘ تمہاری کوئی تکلیف اور کوئی قربانی اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے ‘۔۔ اب اگلی آیت میں پھر سرزنش کا انداز ہے :

وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِنْ رَبِّهِ ۖ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ

📘 آیت 50 وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ط ”مشرکین مکہ آئے دن یہ مطالبہ دہراتے رہتے تھے کہ اگر آپ ﷺ نبی ہیں تو آپ ﷺ کو معجزات کیوں نہیں دیے گئے ؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں بھی ان کا یہ مطالبہ تکرار کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 51 اَوَلَمْ یَکْفِہِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْہِمْ ط ”اگر یہ معجزہ کے منتظر ہیں تو انہیں قرآن جیسا عظیم الشان معجزہ کیوں نظر نہیں آتا ؟ کیا ہم نے انہیں بار بار چیلنج نہیں کیا کہ اس جیسا کلام تم لوگ بھی بنا کر دکھاؤ ؟ اور کیا یہ لوگ اس چیلنج کا جواب دینے سے عاجز نہیں ہیں ؟ اگر کوئی شخص واقعی حق اور ہدایت کا طالب ہو تو اس کے لیے یہی ایک معجزہ کافی ہے۔

قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ شَهِيدًا ۖ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

📘 آیت 52 قُلْ کَفٰی باللّٰہِ بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ شَہِیْدًا ج ”وہ خوب جانتا ہے کہ اس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے ‘ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس نے قرآن جیسا بصیرت افروز معجزہ مجھے عطا فرمایا ہے۔

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُسَمًّى لَجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

📘 آیت 52 قُلْ کَفٰی باللّٰہِ بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ شَہِیْدًا ج ”وہ خوب جانتا ہے کہ اس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے ‘ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس نے قرآن جیسا بصیرت افروز معجزہ مجھے عطا فرمایا ہے۔

يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ

📘 آیت 54 یَسْتَعْجِلُوْنَکَ بالْعَذَابِ ط ”یہ جملہ پھر سے دہرایا گیا ہے ‘ یہ بہت لطیف انداز ہے۔وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیْطَۃٌم بالْکٰفِرِیْنَ ”جہنم کی آگ ایک غیر مرئی چیز ہے ‘ اس لیے انہیں یہ نظر نہیں آرہی ‘ لیکن حقیقت میں یہ انہیں چاروں طرف سے گھیر چکی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی مخالف فوج کسی شہر کی فصیل کے قریب پہنچ کر شہر کا محاصرہ بھی کرلے لیکن شہر کے باسیوں کو اس کی خبر ہی نہ ہو۔

يَوْمَ يَغْشَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ وَيَقُولُ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 وَیَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ”اب اگلی آیت میں خطاب کا رخ پھر اہل ایمان کی طرف پھیرا جا رہا ہے اور راہ حق کے مجاہدین کو تیسری ہدایت دی جارہی ہے۔ پہلی ہدایت آیت 45 میں جبکہ دوسری 46 میں دی جا چکی ہے۔

يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ

📘 آیت 56 یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ ”قرآن کے اس اسلوب کے بارے میں ایک نکتہ جو پہلے کئی بار دہرایا جا چکا ہے یہاں پھر ذہن میں تازہ کرلیں کہ مکی دور میں اہل ایمان سے براہ راست بہت کم خطاب کیا گیا ہے ‘ زیادہ تر انہیں نبی مکرم ﷺ کی وساطت سے ہی مخاطب کیا گیا ہے ‘ جبکہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کی اصطلاح صرف مدنی قرآن میں ملتی ہے۔یہاں پر یٰعِبَادِیَ کے طرز تخاطب میں بہت شفقت اور عنایت کا اظہار پایا جاتا ہے کہ اے میرے بندو ! اگر مجھ پر ایمان لانے کی پاداش میں مکہ کی سرزمین میں تمہارا قافیہ تنگ کردیا گیا ہے ‘ تمہارے لیے اگر یہاں رہنا محال ہوگیا ہے اور ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید ہمت تم لوگوں میں نہیں رہی تو اپنے اس شہر کو چھوڑ دو ‘ کہیں اور چلے جاؤ ‘ میری زمین بہت وسیع ہے۔ اس آیت میں ہجرت کی طرف راہنمائی ہے اور ہجرت حبشہ اسی حکم کی روشنی میں وقوع پذیر ہوئی تھی۔ اب اگلی آیت میں چوتھی ہدایت کا ذکر ہے :

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ

📘 آیت 57 کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِقف ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ”دیکھو ! موت تو ایک دن آنی ہی ہے۔ اس دنیا میں نہ کوئی ہمیشہ رہا ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی ہمیشہ رہے گا۔ فرض کرو اگر یاسر اور ان کی اہلیہ سمیہ رض ابوجہل کے ہاتھوں شہید نہ بھی ہوتے تو کیا ہوتا ؟ بس یہی نا کہ چند برس اور جی لیتے۔ موت تو پھر بھی انہیں آنی ہی تھی۔ راہ حق کے مسافروں کے لیے یہ بہت قیمتی نصیحت ہے۔ اگر یہ اٹل حقیقت انسان کے دل و دماغ میں مستحضر رہے تو انتہائی مشکل اور نامساعد حالات میں بھی اس کی ہمت قائم رہتی ہے اور وہ زندگی بچانے کے لیے حق کا ساتھ چھوڑنے اور باطل کے ساتھ مصالحت کرلینے کی سوچ جیسے شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہتا ہے۔۔ اور اب پانچویں نصیحت :

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ

📘 آیت 58 وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّءَنَّہُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا ”اے میرے بندو ! اگر تم نے میرے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالی ہے تو میرے اس وعدے پر بھی پختہ یقین رکھو کہ میں نے تمہارے لیے جنت اور اس کی بیشمار نعمتیں تیار کر رکھی ہیں۔ تمہارے اعمال کے بدلے میں تم لوگوں کو جنت کے بالا خانوں میں جگہ دی جائے گی ‘ جہاں تم رنگا رنگ کی نعمتوں کے درمیان عیش کی زندگی بسر کرو گے۔ جنت کے بالاخانوں کا ذکر سورة الفرقان کی اس آیت میں بھی ہوا ہے : اُولٰٓءِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّسَلٰمًا ”یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے صبر کی جزا میں بالا خانے ملیں گے ‘ ان کا استقبال کیا جائے گا اس میں دعاؤں اور سلام کے ساتھ۔“تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ ”اس کے بعد چھٹی ہدایت :

الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

📘 آیت 59 الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ”اگر تم لوگوں نے اپنے لیے حق کے راستے کا انتخاب کیا ہے تو اس پر چلتے ہوئے باطل سے پنجہ آزمائی کرنے کا مرحلہ بھی آئے گا اور قدم قدم پر مصائب و مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اس سب کچھ کے مقابلے میں تمہارے پاس دو انتہائی مؤثر ہتھیار ہمہ وقت موجود و دستیاب رہنے چاہئیں ‘ یعنی صبر اور توکلّ علی اللہ ! بس اس راستے میں جو مشکل اور جو مصیبت بھی آئے اسے جھیلنے اور برداشت کرنے کا عزم اپنے اندر ہر دم تازہ اور بلند رکھو اور بھروسہ رکھو تو صرف اللہ کی ذات پر ! اس کٹھن سفر میں نہ تو تم مادی اسباب وو سائل پر نظر رکھو اور نہ ہی اپنی ذہانت و فطانت اور قوت و شجاعت کو لائق اعتناء سمجھو !۔۔ اب ساتویں نصیحت ملاحظہ ہو :

وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ

📘 آیت 6 وَمَنْ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفْسِہٖط اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ ”دیکھو ! تم میں سے جو کوئی اللہ کی راہ میں جدوجہد کر رہا ہے ‘ اس کے لیے تکلیفیں اٹھا رہا ہے اور ایثار کر رہا ہے تو یہ سب کچھ وہ اپنے لیے کر رہا ہے ‘ اس کا فائدہ بھی اسی کو ملنے والا ہے۔ وہ اپنے ان اعمال کا اللہ پر احسان نہ دھرے۔ اللہ کو ان چیزوں کی کوئی احتیاج نہیں۔ وہ ان چیزوں سے بہت بلند اور بےنیاز ہے۔ سورة الحجرات میں اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْاط قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْج بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰٹکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ”اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگئے۔ آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ اپنے اسلام کا مجھ پر احسان مت دھرو ‘ بلکہ یہ تو تم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی ‘ اگر تم اپنے ایمان کے دعوے میں سچے ہو۔“r؂ منتّ منہَ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی منتّ شناس ازو کہ بخدمت بدا شتت !یعنی تم بادشاہ پر احسان مت دھرو کہ تم اس کی خدمت کر رہے ہو ‘ بلکہ تم اس سلسلے میں بادشاہ کا احسان پہچانو کہ اس نے تمہیں اپنی خدمت کا موقع فراہم کیا ہے۔نوٹ کیجیے ان آیات کے مندرجات انسانی دل و دماغ کے احساسات و خیالات سے کس قدر مطابقت رکھتے ہیں۔۔ اب اگلی آیت میں پھر دلجوئی کا انداز ہے۔ گویا پہلے رکوع میں ترہیب کا رنگ بھی ہے اور ترغیب کا انداز بھی اور یہ دونوں مضامین پہلو بہ پہلو چل رہے ہیں۔ آغاز سرزنش سے ہوا تھا ‘ پھر دلجوئی فرمائی گئی ‘ اس کے بعد پھر سرزنش اور اب پھر دلجوئی :

وَكَأَيِّنْ مِنْ دَابَّةٍ لَا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 آیت 60 وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَاز ”تمہارے رزق کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ خود ہے ‘ لہٰذا اس کے لیے تم اللہ پر توکلّ کرو اور اس کے سوا کسی اور کی طرف مت دیکھو۔ دنیا میں کبھی کسی کے بارے میں ایسا مت سوچو کہ وہ ناراض ہوگیا تو تمہاری ضروریات کا کیا بنے گا۔متی کی انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کا جو وعظ پہاڑی کا وعظ نقل ہوا ہے اس میں یہ مضمون بڑے خوبصورت انداز میں بیان ہوا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے ؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں ؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کو ٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو ؟ جنگلی سو سن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کا تتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند ملبسّ نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو ‘ تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟ اس لیے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے ؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کو تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کے لیے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لیے آپ فکر کرلے گا۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔“ متی ‘ باب 6 : 25۔ 34 ‘ بحوالہ تدبر قرآن ‘ جلد پنجم ‘ ص 60اس ضمن میں یہ نکتہ ذہن نشین کرلیں کہ توکل اور ایمان ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی شخص کا اللہ پر ایمان جس قدر پختہ ہوگا ‘ اسی قدر اس کا اس پر توکل بھی مضبوط ہوگا اور اگر ایمان کمزور ہوگا تو پھر توکل بھی کمزور پڑجائے گا۔اَللّٰہُ یَرْزُقُہَا وَاِیَّاکُمْز وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ”وہ ہر حاجت مند کی التجا کو سنتا ہے ‘ اسے ہر ایک کی ضرورت کا علم ہے ‘ وہ اپنے ہر بندے کے حالات سے باخبر رہتا ہے ‘ کیا اسے خبر نہ ہوگی کہ میرا فلاں بندہ اس وقت بھوکا ہے ؟ کیا اسے معلوم نہ ہوگا کہ میرا فلاں وفادار تمام اسباب کو ٹھکرا کر مجھ پر توکلّ کیے بیٹھا ہے ؟ بلاشبہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس نے کس محتاج کی حاجت روائی کا کیا بندوبست کرنا ہے اور کس بندے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کسے وسیلہ بنانا ہے۔ اب آئندہ آیات میں خطاب کا رخ پھر مشرکین مکہ کی طرف ہے۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

📘 آیت 60 وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَاز ”تمہارے رزق کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ خود ہے ‘ لہٰذا اس کے لیے تم اللہ پر توکلّ کرو اور اس کے سوا کسی اور کی طرف مت دیکھو۔ دنیا میں کبھی کسی کے بارے میں ایسا مت سوچو کہ وہ ناراض ہوگیا تو تمہاری ضروریات کا کیا بنے گا۔متی کی انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کا جو وعظ پہاڑی کا وعظ نقل ہوا ہے اس میں یہ مضمون بڑے خوبصورت انداز میں بیان ہوا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے ؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں ؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کو ٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو ؟ جنگلی سو سن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کا تتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند ملبسّ نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو ‘ تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟ اس لیے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے ؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کو تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کے لیے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لیے آپ فکر کرلے گا۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔“ متی ‘ باب 6 : 25۔ 34 ‘ بحوالہ تدبر قرآن ‘ جلد پنجم ‘ ص 60اس ضمن میں یہ نکتہ ذہن نشین کرلیں کہ توکل اور ایمان ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی شخص کا اللہ پر ایمان جس قدر پختہ ہوگا ‘ اسی قدر اس کا اس پر توکل بھی مضبوط ہوگا اور اگر ایمان کمزور ہوگا تو پھر توکل بھی کمزور پڑجائے گا۔اَللّٰہُ یَرْزُقُہَا وَاِیَّاکُمْز وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ”وہ ہر حاجت مند کی التجا کو سنتا ہے ‘ اسے ہر ایک کی ضرورت کا علم ہے ‘ وہ اپنے ہر بندے کے حالات سے باخبر رہتا ہے ‘ کیا اسے خبر نہ ہوگی کہ میرا فلاں بندہ اس وقت بھوکا ہے ؟ کیا اسے معلوم نہ ہوگا کہ میرا فلاں وفادار تمام اسباب کو ٹھکرا کر مجھ پر توکلّ کیے بیٹھا ہے ؟ بلاشبہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس نے کس محتاج کی حاجت روائی کا کیا بندوبست کرنا ہے اور کس بندے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کسے وسیلہ بنانا ہے۔ اب آئندہ آیات میں خطاب کا رخ پھر مشرکین مکہ کی طرف ہے۔

اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

📘 آیت 60 وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَاز ”تمہارے رزق کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ خود ہے ‘ لہٰذا اس کے لیے تم اللہ پر توکلّ کرو اور اس کے سوا کسی اور کی طرف مت دیکھو۔ دنیا میں کبھی کسی کے بارے میں ایسا مت سوچو کہ وہ ناراض ہوگیا تو تمہاری ضروریات کا کیا بنے گا۔متی کی انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کا جو وعظ پہاڑی کا وعظ نقل ہوا ہے اس میں یہ مضمون بڑے خوبصورت انداز میں بیان ہوا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے ؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں ؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کو ٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو ؟ جنگلی سو سن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کا تتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند ملبسّ نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو ‘ تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟ اس لیے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے ؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کو تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کے لیے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لیے آپ فکر کرلے گا۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔“ متی ‘ باب 6 : 25۔ 34 ‘ بحوالہ تدبر قرآن ‘ جلد پنجم ‘ ص 60اس ضمن میں یہ نکتہ ذہن نشین کرلیں کہ توکل اور ایمان ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی شخص کا اللہ پر ایمان جس قدر پختہ ہوگا ‘ اسی قدر اس کا اس پر توکل بھی مضبوط ہوگا اور اگر ایمان کمزور ہوگا تو پھر توکل بھی کمزور پڑجائے گا۔اَللّٰہُ یَرْزُقُہَا وَاِیَّاکُمْز وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ”وہ ہر حاجت مند کی التجا کو سنتا ہے ‘ اسے ہر ایک کی ضرورت کا علم ہے ‘ وہ اپنے ہر بندے کے حالات سے باخبر رہتا ہے ‘ کیا اسے خبر نہ ہوگی کہ میرا فلاں بندہ اس وقت بھوکا ہے ؟ کیا اسے معلوم نہ ہوگا کہ میرا فلاں وفادار تمام اسباب کو ٹھکرا کر مجھ پر توکلّ کیے بیٹھا ہے ؟ بلاشبہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس نے کس محتاج کی حاجت روائی کا کیا بندوبست کرنا ہے اور کس بندے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کسے وسیلہ بنانا ہے۔ اب آئندہ آیات میں خطاب کا رخ پھر مشرکین مکہ کی طرف ہے۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ

📘 قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِط بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ ”اب اگلی آیت میں اہل ایمان کے لیے ایک اور ہدایت آرہی ہے :

وَمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 64 وَمَا ہٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ ط ”دیکھو مسلمانو ! یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل جیسی ہے۔ اس کی حیثیت تمہارے ایک سٹیج ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جس طرح ڈرامے کا بادشاہ حقیقی بادشاہ نہیں اور سٹیج پر فقیر کا کردار ادا کرنے والا شخص سچ مچ کا فقیر نہیں اسی طرح تمہاری اس زندگی کے تمام کردار بھی حقیقی نہیں۔ حقیقی کردار تو اس سٹیج سے باہر جا کر موت کے بعد سامنے آئیں گے۔ عین ممکن ہے یہاں کے شہنشاہ کو وہاں مجرم کی حیثیت میں اٹھایا جائے اور جو شخص یہاں زندگی بھر لوگوں کا معتوب و مغضوب رہا وہاں اسے خلعت فاخرہ سے نوازا جائے۔ چناچہ تم خاطر جمع رکھو ! نہ تو یہاں کا عیش اصل عیش ہے اور نہ آج کے مصائب حقیقی مصائب ہیں۔ یہ سب کچھ وقتی ‘ عارضی اور فانی ہے۔وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ 7 لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ”اس مضمون کا مفہوم اپنے دل میں اتارنے کے لیے آخری جملے کو اپنے اوپر طاری کر کے یوں کہیں : کاش کہ ہمیں معلوم ہوتا ! یہاں یہ اہم نکتہ بھی ذہن نشین کرنے کی کوشش کیجیے کہ بعث بعد الموت کا صرف مان لینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے بارے میں ایسے پختہ یقین کی ضرورت ہے جس کے تحت انسان کے دل کی گہرائیوں میں یہ حقیقت واقعی جاگزیں ہوجائے کہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے۔ آخرت کی زندگی کی حقیقت واضح کرنے کے لیے میں نے اکثر مواقع پر ایک کتاب کی تشبیہہ بیان کی ہے ‘ جس کے آغاز میں ایک دیباچہ اور آخر میں ایک ضمیمہ ہوتا ہے۔ عام طور پر ہم دنیادار یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا کی زندگی اصل کتاب ہے جبکہ آخرت کی زندگی اس کتاب کا ضمیمہ ہے ‘ جبکہ اصل حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی محض ایک دیباچہ ہے اس کتاب کا جو موت کے بعد کھلنے والی ہے ‘ بلکہ اگر نسبت تناسب کے پہلو سے دیکھا جائے تو یہ تشبیہہ بھی درست قرار نہیں پاتی۔ درحقیقت دنیا کی زندگی محدود ہے جبکہ آخرت کی زندگی لا محدود ہے اور حق یہ ہے کہ محدود اور لا محدود میں باہم کوئی نسبت ہو ہی نہیں سکتی۔ بہر حال ہمیں اپنے محدود ذہن کو سمجھانے کے لیے اس مثال کا سہارا لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے بعد اب خطاب کا رخ پھر مشرکین مکہّ کی طرف مڑ گیا ہے۔

فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ

📘 آیت 65 فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ج ”یہ مضمون قرآن میں کئی بار آچکا ہے۔

لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ وَلِيَتَمَتَّعُوا ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ

📘 وَلِیَتَمَتَّعُوْاوقفۃ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ”اس دنیا میں تو یہ لوگ اللہ کی نافرمانیاں بھی کر رہے ہیں اور مزے بھی اڑا رہے ہیں ‘ لیکن عنقریب جب آنکھ بند ہوگی تو اصل حقیقت ان کے سامنے آجائے گی : یہی اسلوب اور انداز ہمیں ”سورة التّکاثر“ میں بھی نظر آتا ہے : اَلْہٰٹکُمُ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۔ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۔ ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ”تم لوگوں کو غافل رکھا باہم کثرت کی خواہش نے ‘ یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔ ہرگز نہیں ! عنقریب تم جان لوگے۔ پھر ہرگز نہیں ! عنقریب تم جان لوگے۔“

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَكْفُرُونَ

📘 آیت 67 اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا ”یہاں مخاطب اہل ایمان ہیں لیکن بات مشرکین مکہ کی ہو رہی ہے۔وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ ط ”اللہ نے حدود حرم کو امن کی جگہ بنا رکھا ہے جس کی برکات سے یہ لوگ مسلسل مستفیض ہو رہے ہیں جبکہ باقی پورے عرب میں امن وامان نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہیں آتی۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ

📘 آیت 68 وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بالْحَقِّ لَمَّا جَآءَ ہٗ ط ”کوئی چیز خود گھڑ کر اللہ سے منسوب کرنا اور حق کو پہچان کر جھٹلادینا دونوں برابر کے جرم ہیں۔ گویا یہاں حضور ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ اے گروہ مشرکین ! دیکھو ‘ اگر میں یہ کلام خود گھڑ کر اسے اللہ سے منسوب کر رہا ہوں تو مجھ سے بڑا کوئی ظالم نہیں معاذ اللہ ! اور اگر یہ واقعتا اللہ کا کلام ہے اور اسے میں نے تم لوگوں تک پہنچا دیا ہے اور اس کے بعد تم لوگ اس کی تکذیب کر رہے ہو تو پھر تم سے بڑا ظالم کوئی اور نہیں ہے۔اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکٰفِرِیْنَ ”اب آخری آیت میں بڑے تاکیدی انداز میں پھر سے اہل ایمان کی دلجوئی فرمائی گئی ہے :

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ

📘 آیت 69 وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ط ”جو لوگ ہمارے لیے قربانیاں دے رہے ہیں اور ہماری راہ میں جہاد کر رہے ہیں انہیں مطمئن رہنا چاہیے کہ ہم انہیں بےسہارا نہیں چھوڑیں گے ‘ ہم انہیں اپنے راستوں کی بصیرت عطا فرمائیں گے۔ یہ ان سے ہمارا پختہ وعدہ ہے۔وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ”جن لوگوں کا اللہ پر ایمان ہے اور ان کا ایمان ”احسان“ کے درجے تک پہنچ چکا ہے ‘ پھر اللہ کی راہ میں وہ اپنا تن من اور دھن قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار بھی رہتے ہیں ‘ اللہ کبھی انہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اس کی تائید و نصرت ہر وقت ان کے ساتھ رہے گی۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم۔۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 7 وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ ”جو لوگ ایمان لانے کے بعد ایمان کے تقاضوں کو پوراکریں گے اور اس رستے میں آنے والی مصیبتوں اور تکلیفوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں گے ہم ان کے دامن پر سے گناہوں کے چھوٹے موٹے داغ دھبے دور کردیں گے۔وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ”زیر مطالعہ رکوع کے مضمون کی اہمیت کا اندازہ اس پہلو سے بھی لگائیں کہ ان آیات میں لام مفتوح اور نونّ مشدد کی تکرار ہے۔ یعنی جابجا انتہائی تاکید کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ آیت 3 میں دو مرتبہ یہی تاکید کا صیغہ آیا ہے : فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ جبکہ زیر مطالعہ آیت میں بھی دونوں باتوں میں تاکید کا وہی انداز پایا جاتا ہے۔

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 آیت 8 وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا ط ”مکہ کے مذکورہ حالات میں اسلام قبول کرنے والے بہت سے نوجوانوں کے لیے اپنے والدین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی ایک بہت سنجیدہ مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ ایک طرف قرآن کی یہ ہدایت تھی کہ انسان اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے اور ان کی نافرمانی نہ کرے۔ دوسری طرف ایمان لانے والے بہت سے نوجوان عملی طور پر اپنے والدین سے بغاوت کے مرتکب ہو رہے تھے۔ چناچہ ایسے تمام نوجوان اخلاقی اور جذباتی طور پر شدید دباؤ کا شکار تھے۔ مشرک والدین کا ان سے تقاضا تھا کہ تم ہماری اولاد ہو ‘ ہم نے پال پوس کر تمہیں بڑا کیا ہے ‘ لہٰذا تم پر لازم ہے کہ ہمارا حکم مانو اور محمد ﷺ سے تعلق توڑ کر اپنے مذہب پر واپس آجاؤ۔ جیسے حضرت سعد بن ابی وقاص رض کا معاملہ تھا۔ آپ رض کے والد فوت ہوچکے تھے۔ والدہ نے انہیں بہت ناز ونعم سے پالا تھا۔ آپ رض بہت سلیم الفطرت اور شریف النفس نوجوان تھے اور اپنی والدہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ آپ رض کے ایمان لانے پر آپ رض کی والدہ نے ”مرن برت“ رکھ لیا اور قسم کھالی کہ اگر اس کا بیٹا اپنے والد کے دین پر واپس نہ آیاتو وہ بھوکی پیاسی رہ کر خود کو ہلاک کرلے گی۔ تصور کریں کہ ماں بھوک اور پیاس سے مر رہی ہے اور بیٹا اس کی اس حالت کو بےچارگی سے دیکھ رہا ہے۔ ایک فرمانبردار بیٹے کے لیے یہ کس قدر سخت امتحان تھا ! چناچہ یہ سوال بہت اہم تھا کہ ایسے نوجوان ان حالات میں کیا کریں ؟ ایک طرف والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اور وہ بھی اس تاکید کے ساتھ کہ قرآن میں متعدد مقامات پر البقرۃ : 83 ‘ النساء : 36 ‘ الانعام : 151 ‘ بنی اسرائیل : 23 ‘ لقمان : 14 اللہ تعالیٰ نے اپنے حق عبادت کا ذکر کرنے کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر فرمایا ہے۔ دوسری طرف مشرک والدین کا یہ اصرار کہ ان کی اولاد ان کی فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر واپس ان کے دین پر آجائے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اس نازک مسئلہ کے بارے میں راہنمائی فرمائی گئی ہے : وَاِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا ط ”نوٹ کیجیے یہاں ”جہاد“ کا لفظ مشرک والدین کی اس ”کوشش“ کے لیے استعمال ہوا ہے جو وہ اپنی اولاد کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے کرسکتے تھے۔ گویا یہاں یہ لفظ اپنے خالص لغوی معنی جدوجہد کرنا ‘ کوشش کرنا میں آیا ہے۔ اس آیت میں بہت واضح انداز میں اولاد کے لیے والدین کی فرمانبرداری کی ”حد“ limit بتادی گئی کہ والدین کے حقوق بہر حال اللہ کے حقوق کے بعد ہیں۔ یعنی اللہ کا حق ‘ اس کا حکم اور اس کے دین کا تقاضا ہر صورت میں والدین کے حقوق اور ان کی مرضی پر فائق رہے گا۔ لہٰذا کسی نوجوان کے والدین اگر اسے کفر و شرک پر مجبور کر رہے ہوں تو وہ ان کا یہ مطالبہ مت مانے۔ البتہ اس صورت میں بھی نہ تو وہ ان کے ساتھ بد تمیزی کرے اور نہ ہی سینہ تان کر جواب دے ‘ بلکہ ادب سے انہیں سمجھائے کہ ان کا یہ حکم ماننا اس کے لیے ممکن نہیں ‘ اس لیے اس کی درخواست ہے کہ وہ اس کے لیے اس پر دباؤ نہ ڈالیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے مشرک والد کے ساتھ مکالمہ سورۂ مریم ‘ آیات 42 تا 45 اس حکمت عملی کی بہترین مثال ہے۔ اس مکالمے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام اپنے والد کو بار بار یٰاَبَتِ ‘ یٰاَبَتِ ابا جان ! ابا جان ! کے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں۔ والدین کے حقوق کے حوالے سے یہ مضمون سورة لقمان میں زیادہ وضاحت سے بیان ہوا ہے۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ

📘 آیت 9 وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّہُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ ”نیک اہل ایمان کو صالحین کے گروہ میں شامل کرنے کا یہ وعدہ دنیا کے لیے بھی ہے اور آخرت کے لیے بھی۔ اس مژدۂ جانفزا کے مفہوم کو بھی مکہ کے مذکورہ حالات کے پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے ‘ جہاں اہل ایمان اپنے پیاروں سے کٹ رہے تھے ‘ والدین اپنے جگر گوشوں کو چھوڑنے پر مجبور تھے ‘ اولاد والدین کی شفقت و محبت سے محروم ہو رہی تھی اور بھائی بھائیوں سے جدا ہو رہے تھے۔ جیسے سردار قریش عتبہ بن ربیعہ کے بڑے بیٹے حذیفہ رض ایمان لے آئے جبکہ چھوٹا بیٹا ولید کافر ہی رہا۔ عتبہ اور اس کا بیٹا ولید غزوۂ بدر میں سب سے پہلے مارے جانے والوں میں سے تھے۔ اگر انسانی سطح پر دیکھا جائے تو حضرت حذیفہ رض کے لیے یہ بہت کڑا امتحان تھا۔ بہرحال جو صحابہ رض اس آزمائش اور امتحان سے دو چار ہوئے انہوں نے غیر معمولی حوصلے اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن آخر تو وہ انسان تھے ‘ اندر سے ان کے دل زخمی تھے اور ان کے زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کی ضرورت تھی۔ چناچہ آیت زیر نظر کو اس سیاق وسباق میں پڑھا جائے تو اس کا مفہوم یوں ہوگا کہ اے میرے جاں نثار بندو ! اگر تم لوگ مجھ پر اور میرے رسول ﷺ پر ایمان لا کر اپنے والدین ‘ بھائی بہنوں اور عزیز رشتہ داروں سے کٹ چکے ہو تو رنجیدہ مت ہونا۔ دوسری طرف ہم نے تمہارے لیے نبی رحمت اور اہل ایمان کے گروہ کی صورت میں نئی محبتوں اور لازوال رفاقتوں کا بندوبست کردیا ہے۔ ہمارے ہاں تمہارے لیے ایک نئی برادری تشکیل پا رہی ہے جس کی بنیاد ایک مضبوط نظریے پر رکھی گئی ہے۔ اب تم لوگ اس نئی برادری کے رکن بن کر ہمارے برگزیدہ بندوں کے گروہ میں شامل ہوگئے ہو ‘ جہاں رحمۃٌ للعالمین ﷺ آپ لوگوں کو اپنے سینے سے لگانے کے لیے منتظر ہیں اور جہاں ابوبکر صدیق رض اپنے ساتھیوں سمیت تم لوگوں پر اپنی محبت و شفقت کے جذبات نچھاور کرنے کو بےقرار ہیں۔ اس حوالے سے نبی اکرم ﷺ کو بھی بار بار یاد دہانی کرائی جا رہی ہے سورۃ الحجر : 88 اور سورة الشعراء : 215 کہ مؤمنین کے لیے آپ ﷺ اپنے کندھوں کو جھکا کر رکھیے اور ان کے ساتھ محبت و رأفت کا معاملہ کیجیے۔ دوسری طرف صالحین کے گروہ میں شمولیت کی اس خوشخبری کا تعلق آخرت سے بھی ہے ‘ جس کا واضح تر اظہار سورة النساء کی اس آیت میں نظر آتا ہے : وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا ”اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی تو ایسے لوگوں کو معیت حاصل ہوگی ان لوگوں کی جن پر اللہ کا انعام ہوا یعنی انبیاء کرام ‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین۔ اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کے لیے !“