slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الأحقاف

(Al-Ahqaf) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ حم

📘 آیت 1 { حٰمٓ ”ح ‘ م۔“

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَكَفَرْتُمْ بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 10 { قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْتُمْ بِہٖ } ”اے نبی ﷺ ! ان سے کہیے کہ کیا تم نے سوچا بھی ہے کہ اگر یہ قرآن واقعتا اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کردیا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا ؟“ تم لوگ مجھے الزام دیتے ہو کہ میں نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے ‘ لیکن جب تمہیں چیلنج دیا گیا کہ اس جیسی کتاب تم بھی بنا کر دکھائو بلکہ ایک سورت ہی بنا لائو تو تم اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکے ‘ اس لیے دل سے تم بھی مانتے ہو کہ یہ کتاب انسانی تصنیف نہیں ہے۔ بہر حال اگر تم اسے اللہ کا کلام نہیں مانتے تو یہ بات اچھی طرح سے سوچ لو کہ اگر واقعتا یہ اللہ ہی کا کلام ہوا تو تمہارے اس انکار کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ { وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی مِثْلِہٖ } ”اور گواہی دے چکا ہے ایک گواہ بنی اسرائیل میں سے ایک ایسی ہی کتاب کی۔“ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے مابین اختلاف ہے۔ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اس سے عام اہل ِکتاب مؤ منین مراد ہیں ‘ جبکہ کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے۔ بظاہر یہ دوسری رائے زیادہ معتبر معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ عہد نامہ قدیم ‘ کتاب استثناء کے اٹھارہویں باب کی آیات 18 ‘ 19 میں جو پیشین گوئی درج ہے اس میں یہ الفاظ ہیں :ـ ”اے موسیٰ علیہ السلام ٰ میں ان کے بھائیوں میں سے تیرے مثل ایک پیغمبر اٹھائوں گا اور اس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا“۔ ان الفاظ کے مطابق تو مثلہٖ کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثل حضرت محمد ﷺ ہیں اور حضرت محمد ﷺ کی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی صاحب ِشریعت رسول ہیں اور حضور ﷺ کو بھی قرآن کی شکل میں آخری اور کامل شریعت عطا کی گئی ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صاحب کتاب رسول تو ہیں لیکن صاحب شریعت نہیں ہیں۔ سورة الزخرف کی آیت 63 میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول ہم پڑھ چکے ہیں : { قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ } کہ میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں۔ سورة الزخرف کی اس آیت کے ضمن میں یہ وضاحت بھی گزر چکی ہے کہ انجیل میں احکام اور شریعت نہیں صرف حکمت ہے ‘ جبکہ تورات اور قرآن قانون اور شریعت کی حامل کتابیں ہیں۔ { فَاٰمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ } ”پس وہ تو ایمان لے آیا اور تم استکبار کر رہے ہو !“ یہود میں ایسے علماء بھی تھے اگرچہ ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی جو نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان لے آئے تھے۔ جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رض جو یہود کے بہت بڑے عالم تھے۔ { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ } ”بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔“

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ

📘 آیت 11 { وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ } ”اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کی روش اختیار کی ‘ ان لوگوں کے بارے میں جو ایمان لائے کہ اگر یہ قرآن کوئی خیر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔“ یہ سردارانِ قریش کے موقف کا حوالہ ہے کہ ہم بڑے ہیں ‘ دانشور ہیں اور ہر اعتبار سے معاشرے کے سرکردہ لوگ ہیں۔ جب ہم اس دین کی طرف مائل نہیں ہوئے اور ہمیں اس قرآن میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں بھلائی کی کوئی بات ہے ہی نہیں ‘ ورنہ یہ غریب غرباء اور گھٹیا لوگ اس معاملے میں ہم سے سبقت حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ مکہ میں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والوں میں اگرچہ حضرت عثمان بن عفان ‘ حضرت عبدالرحمن بن عوف ‘ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رض جیسے لوگ بھی تھے ‘ جن کا تعلق اونچے گھرانوں سے تھا ‘ مگر ابتدا میں زیادہ تر نادار اور مزدور لوگ ہی حضور ﷺ پر ایمان لائے تھے ‘ جن میں کوئی غلام بھی تھے ‘ اور شروع شروع میں یہی لوگ زیادہ تر آپ ﷺ کے اردگرد موجود ہوتے تھے۔ چناچہ جس طرح حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے سرداروں کو اعتراض تھا کہ آپ علیہ السلام کے پیروکار نچلے طبقے کے لوگ ہیں ہود : 22 اسی طرح مکہ کے سرداروں کو بھی نادار اور غلام اہل ایمان کی موجود گی میں حضور ﷺ کی محفل میں بیٹھنا گوارا نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مزدوروں ‘ غلاموں اور کمتر حیثیت کے لوگوں کے درمیان آکر بیٹھنا ہمارے شایانِ شان نہیں۔ ہاں ان لوگوں کو اگر آپ ﷺ اپنی محفل سے اٹھا دیں تو پھر ہم آپ ﷺ کے پاس آکر آپ ﷺ کی بات سننے پر غور کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے سورة الانعام میں اللہ تعالیٰ نے ان مومنین ِصادقین کے بارے میں حضور ﷺ سے فرمایا : { وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗط مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔ } ”اور مت دھتکارئیے آپ ﷺ ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے ربّ کو صبح وشام اور اس کی رضا کے طالب ہیں۔ آپ ﷺ کے ذمے ان کے حساب میں سے کچھ نہیں ہے اور نہ آپ ﷺ کے حساب میں سے ان کے ذمے کچھ ہے ‘ تو اگر بالفرض آپ ﷺ انہیں دور کریں گے تو آپ ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔“ { وَاِذْ لَمْ یَہْتَدُوْا بِہٖ فَسَیَقُوْلُوْنَ ہٰذَآ اِفْکٌ قَدِیْمٌ} ”اور چونکہ انہوں نے اس قرآن کے ذریعے سے ہدایت نہیں پائی تو اب کہیں گے کہ یہ تو گھڑی ہوئی پرانی چیز ہے۔“

وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ وَهَٰذَا كِتَابٌ مُصَدِّقٌ لِسَانًا عَرَبِيًّا لِيُنْذِرَ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَبُشْرَىٰ لِلْمُحْسِنِينَ

📘 آیت 12 { وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَۃً } ”حالانکہ اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام ٰ کی کتاب موجود ہے ‘ راہنمائی کرنے والی اور رحمت !“ { وَہٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا } ”اور یہ کتاب اس کی تصدیق کرنے والی ہے ‘ عربی زبان میں“ یعنی قرآن مصدق ہے تورات اور انجیل کا ‘ اور قرآن کی یہ تصدیق دو پہلو سے ہے۔ ایک طرف تو قرآن ان کتابوں کی اس لحاظ سے تصدیق کرتا ہے کہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں۔ یہ تصدیق ہمیں قرآن میں جابجا ملتی ہے۔ مثلاً سورة المائدۃ آیت 44 میں فرمایا : { اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰٹۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌج } کہ ہم نے تورات نازل کی تھی اس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی تھا۔ اور پھر سورة المائدۃ میں ہی آگے آیت 46 میں انجیل کی تصدیق ہے : { وَاٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ فِیْہِ ہُدًی وَّنُوْرٌ} کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام ٰ ابن مریم کو انجیل عطا کی ‘ یہ بھی ہدایت اور نور کا منبع ہے۔ چناچہ قرآن ایک تو ان دونوں کتابوں کے منزل ّمن اللہ ہونے کی تصدیق کرتا ہے اگرچہ ان دونوں میں تحریف کردی گئی جبکہ اس تصدیق کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تورات اور انجیل میں جو پیشین گوئیاں تھیں قرآن ان کا مصداق بن کر آیا ہے۔ { لِّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا } ”تاکہ خبردار کر دے ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کی روش اختیار کی“ خبردار اور متنبہ کردینے کی ذمہ داری ہی کی وجہ سے قرآن کو سادہ اور سلیس زبان میں نازل کیا گیا اور سمجھنے کے لیے آسان بنا دیا گیا تاکہ ہر شخص تک اس کا پیغام پہنچ جائے۔ { وَبُشْرٰی لِلْمُحْسِنِیْنَ } ”اور بشارت بن جائے احسان کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے۔“ ”محسنین“ وہ لوگ ہیں جو اسلام کے درجے سے بتدریج آگے بڑھتے ہوئے ایمان اور پھر احسان کے درجے تک پہنچ جائیں۔

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 آیت 13 { اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا } ”بیشک جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جم گئے“ نوٹ کیجیے یہ وہی الفاظ ہیں جو اس سے پہلے ہم سورة حٰمٓ السجدۃ کی آیت 30 میں پڑھ آئے ہیں۔ وہاں بھی میں نے عرض کیا تھا اور اب پھر دہرا رہا ہوں کہ اس ”استقامت“ کو صرف ایک لفظ مت سمجھئے ‘ غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ اس ”استقامت“ میں ایک ”قیامت“ مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مان کر ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہنا ‘ اس کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لینا ‘ اسی پر توکل ّکرنا ‘ اس کے احکامات کی پابندی کرنا اور اس کی طرف سے عائد کردہ جملہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں اپنا تن من دھن دائو پر لگا دینا وغیرہ سب اس استقامت میں شامل ہے۔ سورة حٰمٓ السجدۃ آیت 30 کے مطالعہ کے دوران ہم حضرت سفیان بن عبداللہ رض کی حدیث پڑھ چکے ہیں کہ انہوں نے حضور ﷺ سے درخواست کی تھی کہ مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایک بات ایسی بتادیجیے جسے میں پلے ّباندھ لوں اور میرے لیے وہ کافی ہوجائے۔ اس کے جواب میں حضور ﷺ نے فرمایا : قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ”کہو کہ میں ایمان لایا اللہ پر ‘ پھر اس پر جم جائو !“ بہر حال اللہ پر ایمان لانے کے بعد استقامت یہی ہے کہ انسان کا دل اس سوچ پر جم جائے کہ اللہ ہی میرا پروردگار ہے اور وہی حاجت روا ‘ وہی مشکل کشا ہے اور وہی میری دعائوں کا سننے والا ہے ‘ اور پھر انسان خود کو اللہ کے لیے وقف کر دے۔ ایک بندہ مومن کی اسی کیفیت کا نقشہ سورة الانعام کی اس آیت میں دکھایا گیا ہے : { قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ”آپ ﷺ کہیے : میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔“ { فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ } ”تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہوں گے۔“ ملاحظہ کیجیے سورة یونس کی آیت 62 میں ”اولیاء اللہ“ کے مخصوص مقام و مرتبہ کے حوالے سے بھی بالکل یہی الفاظ آئے ہیں : { اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ ”آگاہ ہو جائو ! اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے“۔ گویا جو لوگ ایمان لائے اور پھر ایمان پر مستقیم ہوگئے وہ اولیاء اللہ ہیں اور آخرت میں انہیں کسی قسم کے خوف اور حزن و ملال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 14 { اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } ”یہی لوگ جنت والے ہیں ‘ اس میں ہمیشہ رہنے والے۔ یہ جزا ہوگی ان اعمال کی جو وہ کرتے رہے۔“ جیسا کہ پہلے بھی کئی مرتبہ ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی قدر افزائی کے لیے جنت میں داخلے اور اس کی نعمتوں کو ان کے اعمال کا صلہ قرار دیتا ہے ‘ جبکہ اللہ کے یہ نیک بندے جنت میں پہنچ کر اللہ کا شکر کرتے ہوئے اعتراف کریں گے کہ یہ سب کچھ اللہ کے فضل کے سبب ہی ممکن ہوا ‘ اور یہ کہ وہ اپنے اعمال کے َبل بوتے پر یہ کامیابی حاصل نہیں کرسکتے تھے : { وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدٰٹنَا لِہٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰنَا اللّٰہُ } الاعراف : 43 ”اور وہ کہیں گے ُ کل شکر اور کل تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ‘ اور ہم خود سے یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر اللہ ہی نے ہمیں نہ پہنچا دیا ہوتا۔“ بہر حال یہ اللہ کا اپنے بندوں پر بےپایاں فضل ہے کہ وہ قرآن میں بار بار ان کے نیک اعمال کی قدر دانی فرماتا ہے کہ اگر تم لوگوں نے : { اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا۔ الدھر کے اختیار کے باوجود میرے شکر گزار بندے بن کر زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا اور اس پر مشقتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ‘ چناچہ میں نے بھی تمہاری مدد کرتے ہوئے اس راستے پر تمہارے لیے آسانیاں پیدا کردیں ‘ تمہیں آگے بڑھنے کی توفیق عطا کی اور آج میں تمہارے ان اعمال کا بدلہ تمہیں جنت کی ابدی اور دائمی نعمتوں کی صورت میں عطا کررہا ہوں۔

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

📘 آیت 15 { وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًا } ”اور ہم نے تاکید کی انسان کو اس کے والدین کے بارے میں حسن سلوک کی۔“ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے احکام قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ سورة بنی اسرائیل کے اس حکم میں اس حوالے سے خصوصی تاکید پائی جاتی ہے : { وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلآَّ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْکِلٰہُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا } ”اور فیصلہ کردیا ہے آپ ﷺ کے رب نے کہ تم نہیں عبادت کرو گے کسی کی سوائے اس کے اور والدین کے ساتھ احسان کروگے۔ اگر پہنچ جائیں تمہارے پاس بڑھاپے کو ان میں سے کوئی ایک یا دونوں ‘ تو مت کہو ان کو اُف بھی اور مت جھڑکو ان کو ‘ اور بات کرو ان سے نرمی کے ساتھ۔“ اولاد کے لیے اگرچہ والد اور والدہ دونوں قابل احترام ہیں اور دونوں ہی ان کے حسن سلوک کے مستحق ہیں لیکن بچے کی پیدائش اور پرورش میں ماں کی مشقت اور ذمہ داری چونکہ زیادہ ہے اس لیے اولاد کی طرف سے خدمت اور حسن سلوک کے حوالے سے اس کا حق بھی فائق ہے۔ چناچہ سورة لقمان میں ماں کے خصوصی حق کا ذکر یوں فرمایا گیا : { وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِج حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ } ”اور ہم نے وصیت کی انسان کو اس کے والدین کے بارے میں ‘ اس کو اٹھائے رکھا اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں کمزوری پر کمزوری جھیل کر ‘ پھر اس کا دودھ چھڑانا ہوا دو سال میں۔“ والدہ کے خصوصی حق کی وضاحت ایک حدیث میں بھی ملتی ہے۔ ایک صحابی رض نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا : یا رسول اللہ ! میرے حسن سلوک کا سب سے بڑھ کر مستحق کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تمہاری والدہ !“ انہوں رض نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”پھر تمہاری والدہ !“ یہ سوال انہوں نے چار مرتبہ دہرایا۔ جواب میں آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا : تمہاری والدہ۔ جبکہ چوتھی مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا : ”پھر تمہارا والد !“ 1 البتہ اس حوالے سے یہ نکتہ مدنظر رہنا چاہیے کہ والدہ کے حق کی یہ فوقیت اخلاقی اعتبار سے ہے جبکہ قانونی طور پر والد کا حق ہی فائق ہے۔ مثلاً اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ جنت ماں کے قدموں میں ہے : اَلْجَنَّۃ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُمَّھَاتِ 2 لیکن اگر میاں بیوی میں علیحدگی ہوجائے تو اسلامی قانون اولاد پر والد ہی کا حق تسلیم کرتا ہے۔ { حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًا } ”اس کی ماں نے اسے اٹھائے رکھا پیٹ میں تکلیف جھیل کر اور اسے جنا تکلیف کے ساتھ۔“ { وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا } ”اور اس کا یہ حمل اور دودھ چھڑانا ہے لگ بھگ تیس مہینے میں۔“ ان دو جملوں میں ان تمام اضافی تکالیف اور مشقتوں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے جو والد کے مقابلے میں صرف والدہ کو برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ بچے کی پیدائش اور پرورش میں والد بالواسطہ طور پر حصہ لیتا ہے جبکہ والدہ اس پورے عمل میں براہ راست کردار ادا کرتی ہے۔ دورانِ حمل کی گونا گوں پریشانیوں ‘ وضع حمل کی جان لیوا تکلیفوں اور رضاعت و پرورش کی صبر آزما مشقتوں کو وہ تن تنہا جھیلتی ہے۔ { حَتّٰٓی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً } ”یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچتا ہے اور چالیس برس کا ہوجاتا ہے“ بچے کی جسمانی بلوغت تو سولہ سترہ سال کی عمر میں ہوجاتی ہے ‘ لیکن یہاں ذہنی اور نفسیاتی بلوغت اور پختگی کا ذکر ہوا ہے اور اس کی کم از کم حد چالیس سال بتائی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہ السلام کو چالیس برس کی عمر میں منصب ِنبوت پر فائز کیا جاتا رہا ہے ‘ جیسا کہ خود حضور ﷺ کو بھی نبوت چالیس برس کی عمر میں ملی۔ البتہ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق کچھ استثناء کی مثالیں بھی ہیں۔ مثلاً حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بچپن میں ہی حکمت عطا کردی گئی تھی ‘ جیسا کہ سورة مریم کی اس آیت سے واضح ہے : { وَاٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا۔ ”اور ہم نے اسے عطا کردی حکمت و دانائی بچپن میں ہی“۔ اور ایسا ہی معاملہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی تھا۔ لیکن عام قاعدہ کے تحت ذہنی و نفسیاتی بلوغت maturity کی حد چالیس سال ہی ہے۔ اور اس حوالے سے آیت زیر مطالعہ میں ایک بچے کی مثال دی گئی ہے کہ جب وہ اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل طے کر کے چالیس برس کی عمر میں ذہنی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو : { قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ } ”وہ کہتا ہے : اے میرے پروردگار ! مجھے توفیق دے کہ میں شکر کرسکوں تیرے انعامات کا جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمائے۔“ { وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ } ”اور یہ کہ میں ایسے اعمال کروں جنہیں تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں بھی اصلاح فرما دے۔“ اس دعا کا اسلوب خصوصی طور پر لائق توجہ ہے۔ دعا صرف یہ نہیں کہ میری اولاد کی اصلاح فرما دے اور انہیں نیک بنا دے ‘ بلکہ الفاظ کے مفہوم کی اصل روح یہ ہے کہ میری نسل میں میرے لیے اصلاح فرما دے ‘ ان میں میرے لیے بہتری پیدا فرما دے۔ اس لیے کہ بچے اگر صالح اور نیک ہوں گے تو اپنے والدین کے لیے مغفرت کی دعا کریں گے۔ اگر والدین نے اولاد کی اچھی تربیت کی ہوگی تو ان کے نیک اعمال میں سے والدین کو بھی صدقہ جاریہ کے طور پر حصہ ملتا رہے گا۔ یوں اولاد کی بہتری اور اصلاح گویا والدین کے لیے بھی فائدہ مند ہوگی۔ بالکل یہی مفہوم اس دعا کا بھی ہے : { وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔ الفرقان ”اور وہ لوگ کہ جو کہتے ہیں : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما ‘ اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔“ { اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ } ”میں تیری جناب میں توبہ کرتا ہوں اور یقینا میں تیرے فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ ۖ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ

📘 آیت 16{ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَیِّاٰتِہِمْ فِیْٓ اَصْحٰبِ الْجَنَّۃِ } ”یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہم ان کے بہترین اعمال قبول فرمائیں گے ‘ اور ہم ان کی خطائوں سے بھی درگزر فرمائیں گے ‘ اور وہ ہوں گے جنت والوں میں سے۔“ { وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ } ”یہ وہ سچا وعدہ ہے جو ان سے کیا جاتا تھا۔“ ان آیات میں ایک ایسے شخص کے کردار کی تصویر دکھائی گئی ہے جو اپنے والدین کا نیک اور صالح بیٹا ہے۔ شعور کی پختگی کو پہنچتے پہنچتے اس کے دل و دماغ میں خیالات و نظریات کا جو ہیولا تیار ہوا ہے اس کا خوبصورت عکس اوپر آیت 15 کے دعائیہ الفاظ سے جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بعد آئندہ آیات میں جس کردار کی تصویر دکھائی جا رہی ہے وہ اس کے برعکس ہے۔

وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

📘 آیت 17 { وَالَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْہِ اُفٍّ لَّکُمَآ اَتَعِدٰنِنِیْٓ اَنْ اُخْرَجَ } ”اور ایک وہ شخص ہے جو اپنے والدین سے کہتا ہے کہ میں بیزار ہوں آپ دونوں سے ‘ کیا آپ مجھے اس سے ڈراتے ہیں کہ میں نکال کھڑا کیا جائوں گا زندہ کر کے قبر سے ؟“ والدین مسلمان ہیں ‘ نیک سیرت ہیں ‘ لیکن بیٹا آوارہ اور ذہنی طور پر گمراہ ہوچکا ہے۔ وہ نہ اللہ کو مانتا ہے ‘ نہ آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ وہ اپنے والدین سے توتکار کرتا ہے کہ یہ آپ مجھے کیا ہر وقت حساب کتاب کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں ! ُ تف ہے آپ لوگوں پر ! میں آپ کے ان ڈھکوسلوں کی خود ساختہ تفصیلات سن سن کر تنگ آگیا ہوں ! بس آپ لوگ مجھے مزید سمجھانا چھوڑ دیں ! میں کسی آخرت واخرت کو نہیں مانتا ! { وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِیْج } ”حالانکہ مجھ سے پہلے کتنی ہی نسلیں گزر چکی ہیں !“ اب تک نسل در نسل کروڑوں ‘ اربوں لوگ اس دنیا میں آئے اور چلے گئے۔ ان میں سے تو آج تک کوئی اُٹھ کر نہ آیا۔ ایک وقت میں ان سب کا زندہ ہونا اور پھر ایک ایک کا حساب کتاب ہونا بالکل بعید از قیاس ہے۔ میں ایسی دقیانوسی باتوں کو ماننے والا نہیں ہوں۔ { وَہُمَا یَسْتَغِیْثٰنِ اللّٰہَ وَیْلَکَ اٰمِنْق اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّج } ”اور وہ دونوں اللہ کی دہائی دے کر کہتے ہیں : بربادی ہو تیری ‘ ایمان لے آ ! یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے۔“ { فَـیَقُوْلُ مَا ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ } ”لیکن وہ کہتا ہے : یہ کچھ نہیں مگر پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔“ یہ دوبارہ زندہ ہونے اور آخرت کی باتیں بس فرضی کہانیاں ہیں جو پچھلے زمانے سے سینہ بہ سینہ نقل ہوتی چلی آرہی ہیں۔

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ

📘 آیت 18 { اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ } ”یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی بات صادق آئی“ یعنی ایسے لوگ اللہ کے کلمہ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ { فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ } ”یہ بھی شامل کردیے جائیں گے ان قوموں میں جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں جنوں اور انسانوں میں سے۔“ { اِنَّہُمْ کَانُوْا خٰسِرِیْنَ } ”یقینا یہی لوگ ہیں خسارے والے۔“

وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا ۖ وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

📘 آیت 19 { وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا } ”اور ہر ایک کے لیے درجے اور مقامات ہوں گے ان کے اعمال کے اعتبار سے۔“ { وَلِیُوَفِّیَہُمْ اَعْمَالَہُمْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ } ”اور تاکہ وہ پورا پورا دے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔“

تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ

📘 آیت 2 { تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ } ”اس کتاب کا اتارا جانا ہے اس اللہ کی طرف سے جو زبردست ‘ کمال حکمت والا ہے۔“ قبل ازیں سورة الجاثیہ کی آیت 2 کے ضمن میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ سورة الجاثیہ اور سورة الاحقاف کے آغاز کی آیات مشترک ہیں۔

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُونَ

📘 آیت 20 { وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَلَی النَّارِ } ”اور جس دن یہ کافر پیش کیے جائیں گے آگ پر۔“ { اَذْہَبْتُمْ طَیِّبٰتِکُمْ فِیْ حَیَاتِکُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہَا } ”اُس وقت ان سے کہا جائے گا : تم اپنے حصے کی اچھی چیزیں اپنی دنیا کی زندگی میں لے چکے اور ان سے تم نے خوب فائدہ اٹھا لیا۔“ تم دنیا میں خوب عیش کرچکے ہو ‘ حلال و حرام کی تمیز سے بالاتر ہو کر تم نے وہاں بہت مزے اڑائے ہیں۔ { فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا کُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ } ”تو آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا بسبب اس تکبر کے جو تم زمین میں ناحق کرتے رہے ہو اور بسبب ان نافرمانیوں کے جو تم کرتے رہے ہو۔“

۞ وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

📘 آیت 21 { وَاذْکُرْ اَخَا عَادٍط اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ } ”اور ذرا تذکرہ کیجیے قوم عاد کے بھائی ہود علیہ السلام کا ‘ جب اس نے خبردار کیا اپنی قوم کو احقاف میں“ جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی ساحلی علاقے کو پرانے زمانے میں ”احقاف“ کہا جاتا تھا جہاں قوم عاد آباد تھی ‘ اب یہ علاقہ لق و دق صحرا کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ { وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖٓ} ”اور اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی بہت سے خبردار کرنے والے گزر چکے تھے“ یعنی ایسے خبردار کرنے والے اس سے پہلے بھی گزر چکے تھے اور اس کے بعد بھی آتے رہے۔ -۔ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کے بارے میں قبل ازیں بھی کئی مرتبہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ کسی قوم میں پہلے بہت سے انبیاء علیہ السلام بھیجے جاتے تھے اور پھر آخر میں اتمامِ حجت کے لیے ایک رسول علیہ السلام کو مبعوث کیا جاتا تھا۔ وہ سب کے سب ایک ہی دعوت دیتے تھے۔ { اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ } ”کہ مت عبادت کرو کسی کی سوائے اللہ کے !“ { اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ } ”مجھے اندیشہ ہے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا۔“

قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

📘 آیت 22 { قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَاْفِکَنَا عَنْ اٰلِہَتِنَا } ”انہوں نے کہا : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں بہکا کر ہمارے معبودوں سے برگشتہ کر دو ؟“ { فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ } ”تو جس عذاب کی دھمکی تم ہمیں دے رہے ہو وہ ہم پر لے آئو اگر تم سچوں میں سے ہو !“

قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُمْ مَا أُرْسِلْتُ بِهِ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ

📘 آیت 23 { قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِز } ”اس نے کہا کہ اس کا علم تو اللہ کے پاس ہے“ یعنی عذاب کے بارے میں تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اگر آئے گا تو کب آئے گا اور کس صورت میں آئے گا۔ مجھے اس بارے میں کچھ علم نہیں۔ { وَاُبَلِّغُکُمْ مَّآ اُرْسِلْتُ بِہٖ } ”اور میں تو تمہیں پہنچا رہا ہوں وہ پیغام جو اس نے مجھے دے کر بھیجا ہے“ میری ذمہ داری تو صرف اللہ کا پیغام تم لوگوں تک واضح طور پر پہنچا دینے اور اس کے مطابق تمہیں خبردار کردینے کی حد تک ہے۔ { وَلٰکِنِّیْٓ اَرٰٹکُمْ قَوْمًا تَجْہَلُوْنَ } ”لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ بالکل جہالت کی روش اختیار کر رہے ہو۔“ یہ تمہاری جہالت کی انتہا ہے کہ میری یہ باتیں سننے اور ان پر غور کرنے کے بجائے بغیر سوچے سمجھے تم ان کی نفی کرنے پر ُ تل گئے ہو۔

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 24 { فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِہِمْ } ”پھر جب انہوں نے اس عذاب کو دیکھا بادل کی صورت میں اپنی وادیوں کی طرف بڑھتے ہوئے“ { قَالُوْا ہٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا } ”تو انہوں نے کہا : یہ تو بادل ہے جو ہم کو سیراب کرنے والا ہے۔“ وہ اسے دیکھ کر خوشیاں منانے لگے کہ ابھی بارش ہوگی اور جل تھل ایک ہوجائیں گے۔ { بَلْ ہُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِہٖ } ”نہیں ! بلکہ یہ تو وہ شے ہے جس کے بارے میں تم نے جلدی مچارکھی تھی !“ تم لوگ خود ہی کہتے تھے نا کہ لے آئو ہم پر عذاب اگر لاسکتے ہو ‘ تو دیکھ لو : { رِیْحٌ فِیْہَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ } ”یہ وہ جھکڑ ّہے جس میں بہت دردناک عذاب ہے۔“ اس تیز ہوا کے جھکڑ کی کیفیت سورة الحاقہ میں اس طرح بیان ہوئی ہے : { سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍلا حُسُوْمًا لا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْہَا صَرْعٰیلا کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ } ”اللہ نے مسلط کیے رکھا اسے ان پر سات راتیں اور آٹھ دن ‘ نیست و نابود کردینے کے لیے ‘ پس تم دیکھتے اس قوم کو اس میں پچھڑے ہوئے جیسے وہ گری ہوئی کھجوروں کے تنے ہوں۔“

تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَىٰ إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ

📘 آیت 25 { تُدَمِّرُ کُلَّ شَیْئٍم بِاَمْرِ رَبِّہَا } ”تباہ و برباد کرتا ہے ہر شے کو اپنے رب کے حکم سے“ دمر کے مادہ میں کسی درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ چونکہ وہ بڑے قد آور لوگ تھے اس لیے ان کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور اسی لیے سورة الحاقہ کی مذکورہ بالا آیت میں انہیں زمین پر پڑے ہوئے کھجور کے تنوں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ { فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰٓی اِلَّا مَسٰکِنُہُمْ } ”پھر وہ ایسے ہوگئے کہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا سوائے ان کے مسکنوں کے۔“ ان کے عالی شان گھر اور ان کی بڑی بڑی حویلیاں تو نظر آرہی تھی مگر ان کے مکینوں کی کچھ خبر نہیں تھی۔ { کَذٰلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ } ”اسی طرح ہم بدلہ دیا کرتے ہیں مجرموں کی قوم کو۔“

وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِنْ مَكَّنَّاكُمْ فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُمْ مِنْ شَيْءٍ إِذْ كَانُوا يَجْحَدُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

📘 آیت 26 { وَلَقَدْ مَکَّنّٰہُمْ فِیْمَآ اِنْ مَّکَّنّٰکُمْ فِیْہِ } ”اور ہم نے جو تمکن انہیں دیا تھا ایسا تمکن ّہم نے تمہیں نہیں دیا ہے“ قریش مکہ کو مخاطب کر کے بتایا جا رہا ہے کہ جو طاقت اور شان و شوکت قوم عاد کو عطا ہوئی تھی اور جو وسائل انہیں میسر تھے تم لوگوں کے پاس تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ قبل ازیں سورة الاعراف کی آیت 69 کے ضمن میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ تہذیب و تمدن کے اعتبار سے قوم عاد اپنے زمانے کی بہت ترقی یافتہ قوم تھی۔ شداد اسی قوم کا بادشاہ تھا جس نے خصوصی طور پر ایک شہر بسا کر اسے جنت ِارضی کا نام دیا تھا۔ قوم عاد کا علاقہ اب لق ودق صحرا کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس صحرا میں شداد کے مذکورہ شہر کی باقیات زیر زمین سیٹلائیٹ کے ذریعے سے دریافت ہوچکی ہیں۔ حتیٰ کہ شہر کی فصیل پر بنے ہوئے 30 کے قریب ستون بھی گن لیے گئے ہیں۔ اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام نشانیاں ایک ایک کر کے دنیا کے سامنے آتی چلی جائیں گی جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ { وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْئِدَۃً } ”اور ہم نے انہیں کان ‘ آنکھیں اور دل یاعقلیں عطا کیے تھے۔“ { فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ سَمْعُہُمْ وَلَآ اَبْصَارُہُمْ وَلَآ اَفْئِدَتُہُمْ مِّنْ شَیْئٍ } ”تو ان کے کچھ بھی کام نہ آئے ان کے کان ‘ نہ ان کی آنکھیں اور نہ ہی ان کے دل عقلیں“ { اِذْ کَانُوْا یَجْحَدُوْنَ لا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ } ”جبکہ وہ انکار ہی کرتے رہے اللہ کی آیات کا اور ان کو گھیر لیا اسی چیز نے جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔“

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِنَ الْقُرَىٰ وَصَرَّفْنَا الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

📘 آیت 27 { وَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی } ”اور ہم نے ہلاک کیا ہے بہت سی ایسی بستیوں کو جو تمہارے اردگرد آباد تھیں“ وہ تمام اقوام جن کے انجام کا ذکر قرآن میں تکرار کے ساتھ آیا ہے جزیرہ نمائے عرب کے اردگرد کے علاقوں میں آباد تھیں۔ احقاف یعنی قوم عاد کا علاقہ مکہ سے جنوب مشرق میں واقع تھا۔ قوم ثمود کا علاقہ مدائن صالح مکہ سے شمال میں تھا اور شمال ہی کے رخ میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کا علاقہ مدین تھا۔ جبکہ بحیرئہ مردار Dead Sea کے ساحل پر حضرت لوط علیہ السلام کی قوم آباد تھی۔ اس قوم کے شہروں کے کھنڈرات بھی بحیرہ مردار کے اندر سے دریافت ہوچکے ہیں۔ { وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ } ”اور ہم نے پھیر پھیر کر ان کو اپنی آیات سنائیں تاکہ وہ رجوع کریں۔“

فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ قُرْبَانًا آلِهَةً ۖ بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ ۚ وَذَٰلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

📘 آیت 28 { فَلَوْلَا نَصَرَہُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قُرْبَانًا اٰلِہَۃً } ”تو کیوں نہ مدد کی ان کی ان ہستیوں نے جن کو انہوں نے اللہ کے سوا معبود بنا رکھا تھا تقرب ّ الی اللہ کا ذریعہ سمجھتے ہوئے !“ ان کا خیال تھا کہ ان کے معبود انہیں اللہ کے قریب کرنے کا ذریعہ بنیں گے اور ہر مشکل میں ان کی مدد کریں گے۔ { بَلْ ضَلُّوْا عَنْہُمْ } ”بلکہ وہ سب تو ان سے گم ہوگئے“ جب ان پر عذاب آیا تو ان کے معبودوں میں سے کوئی بھی ان کے کام نہ آیا اور انہیں یوں لگا جیسے کہ حقیقت میں ان کے معبودوں کا کوئی وجود تھا ہی نہیں ‘ بس بقول میر دردؔ: ع ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ‘ جو سنا افسانہ تھا !“ { وَذٰلِکَ اِفْکُہُمْ وَمَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ } ”اور یہ تھا ان کا جھوٹ اور جو کچھ وہ افترا کر رہے تھے۔“ آئندہ آیات میں ان ِجنات کا ذکر ہوا ہے جو رسول اللہ ﷺ سے قرآن سن کر ایمان لے آئے اور پھر اپنی قوم کی طرف مبلغ بن کر لوٹے۔ یہ واقعہ حضور ﷺ کے طائف سے واپسی کے سفر کے دوران پیش آیا۔ وہ ایام حضور ﷺ کے لیے یقینا بہت سخت تھے۔ ایک طرف آپ ﷺ اہل طائف کے رویے کی وجہ سے دل گرفتہ تھے تو دوسری طرف مکہ واپس جانے کے لیے بھی حالات سازگار نہیں تھے۔ اس صورت حال میں آپ ﷺ نے چند دن وادی نخلہ میں قیام فرمایا۔ وہاں ایک دن آپ ﷺ فجر کی نماز ادا فرما رہے تھے کہ ِجنوں کی ایک جماعت کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نماز میں حضور ﷺ امام تھے اور آپ ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ رض مقتدی تھے۔ وادی کی کھلی فضا ‘ فجر کا وقت اور اللہ کے رسول ﷺ کی زبان اطہر سے ”قرآن الفجر“ بنی اسرائیل : 78 کی طویل قراءت ! قریب سے گزرتے ہوئے جنات ٹھٹک کر رہ گئے۔ آپ ﷺ قرآن پڑھتے رہے اور وہ سنتے رہے۔ قراءت ختم ہوئی تو ان کی دنیا بدل چکی تھی ‘ وہ سب کے سب ایمان لے آئے ‘ بلکہ واپس جا کر انہوں نے اپنی قوم میں فوراً تبلیغ بھی شروع کردی۔ جنات کا یہ واقعہ ہمارے لیے اس لحاظ سے لائق عبرت ہے کہ جنات نے ایک ہی مرتبہ قرآن سنا اور وہ نہ صرف ایمان لے آئے بلکہ قرآن کے داعی اور مبلغ بھی بن گئے ‘ لیکن ہم بار بار قرآن سنتے ہیں اور ہر بار گویا ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ نہ تو قرآن ہمارے دلوں میں اترتا ہے اور نہ ہی ہماری زندگیوں میں اس سے کوئی تبدیلی آتی ہے۔

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ

📘 آیت 29 { وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ } ”اور اے نبی ﷺ ! جب ہم نے آپ کی طرف متوجہ کردیا جنات کی ایک جماعت کو کہ وہ قرآن سننے لگے۔“ { فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا } ”تو جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا : چپ ہو جائو !“ تلاوتِ قرآن کی سماعت کے بارے میں خود قرآن کا بھی یہی حکم ہے : { وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ } الاعراف ”اور جب قرآن پڑھا جار ہا ہو تو اسے پوری توجہ کے ساتھ سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے“۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ طبعاً نیک اور شریف قسم کے ِجنات ّ تھے۔ اگلی آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے اہل کتاب جن تھے۔ چناچہ وہ فوراً ہی اللہ کے کلام کو پہچان گئے اور اس کو پورے ادب و احترم سے سننے لگے۔ { فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّــوْا اِلٰی قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِیْنَ } ”پھر جب قراءت ختم ہوئی تو وہ پلٹے اپنی قوم کی طرف خبردار کرنے والے بن کر۔“

مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنْذِرُوا مُعْرِضُونَ

📘 آیت 3 { مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ } ”اور ہم نے نہیں پید ا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے مگر حق کے ساتھ“ یہ ایک مستحکم نظام اور ایک با مقصد تخلیق ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ سورة الدخان میں اس بارے میں یوں فرمایا گیا ہے : { وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ۔ } ”اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے مابین ہے محض کھیل کے طور پر تو تخلیق نہیں فرمایا۔“ { وَاَجَلٍ مُّسَمًّی } ”اور ایک اجل معین کے لیے“ { وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَمَّآ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ } ”اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اعراض کر رہے ہیں اس سے جس سے انہیں خبردار کیا جا رہا ہے۔“ اس جملے میں الفاظ کی ترتیب دراصل یوں ہے : وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا مُعْرِضُوْنَ عَمَّآ اُنْذِرُوْا۔ لیکن ایک مخصوص صوتی آہنگ rhythm برقرار رکھنے کے لیے یہاں الفاظ میں تقدیم و تاخیر کی گئی ہے۔ میں ”تعارفِ قرآن“ پر اپنے لیکچر زمین قرآن کے صوتی آہنگ پر گفتگو کرتے ہوئے یہ وضاحت کرچکا ہوں کہ ہم معروف معنوں میں جسے شاعری کہتے ہیں قرآن ویسی شاعری تو نہیں ہے لیکن ایک خاص آہنگ اور روانی کی وجہ سے قرآن کی آیات میں blank verse کا سا انداز پایا جاتا ہے اور جملوں میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر ہوجاتی ہے۔ اور غالباً یہ قرآنی اسلوب ہی دنیا میں blank verse کے رواج کا باعث بنا ہے۔

قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 آیت 30 { قَالُوْا یٰــقَوْمَنَــآ اِنَّا سَمِعْنَا کِتٰـبًا اُنْزِلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی } ”انہوں نے کہا : اے ہماری قوم کے لوگو ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ علیہ السلام ٰ کے بعد نازل ہوئی ہے“ گویا وہ ِجنات ّحضرت موسیٰ علیہ السلام کے امتی تھے۔ یہاں پر جنات کے اس قول کے حوالے سے یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ تورات کے بعد جو ”کتاب“ نازل ہوئی وہ قرآن ہے۔ اگرچہ ہم عرف عام میں انجیل کو بھی کتاب کہہ دیتے ہیں لیکن وہ اصطلاحی مفہوم میں باقاعدہ ”کتاب“ نہیں تھی۔ اس لیے کہ اس میں شریعت نہیں تھی۔ دراصل لفظ ”کتاب“ میں لغوی اعتبار سے شریعت قوانین ‘ احکام ‘ فرائض وغیرہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں احکام کی فرضیت کا ذکر اکثر ”کتب“ کے مشتقات کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سورة النساء کی آیت 103 میں نماز کے اوقات کے حوالے سے ”کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًا“ کے الفاظ آئے ہیں ‘ پھر سورة البقرۃ کی آیت 235 میں ”کتاب“ کا لفظ ”عدت“ کے مترادف کے طور پر آیا ہے : { حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَہٗ }۔ اور ”کُتِبَ عَلَیْکُمْ“ کے الفاظ تو قرآن میں بہت تکرار سے آئے ہیں۔ ظاہر ہے مذکورہ جنات اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے امتی تھے تو وہ لازماً انجیل کو بھی جانتے ہوں گے۔ لیکن انہوں نے اس کا ذکر کرنے کے بجائے صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حوالہ دیا کہ آپ علیہ السلام کے بعد اب ایک کتاب نازل ہوئی ہے جس کی تلاوت ہم سن کرا ٓئے ہیں۔ اس سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے لفظ ”کتاب“ کا اطلاق تورات پر ہوتا ہے یا پھر قرآن پر ‘ اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شریعت ِموسوی علیہ السلام کے بعد جو شریعت آئی ہے وہ شریعت ِمحمدی ﷺ ہے۔ { مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَہْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ وَاِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ } ”تصدیق کرتی ہوئی اس کی جو اس کے سامنے موجود ہے یعنی تورات ‘ راہنمائی کرتی ہے حق کی طرف اور ایک سیدھے راستے کی طرف۔“ ”طریق مستقیم“ کا بھی وہی مفہوم ہے جو ”صراطِ مستقیم“ کا ہے۔ طریق اور صراط دونوں کے لغوی معنی راستے کے ہیں۔ اسی طرح لفظ سبیل بھی راستے کے معنی دیتا ہے اور ”سواء السبیل“ کے معنی بھی سیدھے راستے کے ہیں۔

يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ

📘 آیت 31 { یٰـقَوْمَنَآ اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰہِ } ”اے ہماری قوم کے لوگو ! اللہ کی طرف پکارنے والے کی پکار پر لبیک کہو“ { وَاٰمِنُوْا بِہٖ یَغْفِرْ لَـکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ } ”اور اس پر ایمان لے آئو تاکہ وہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور تمہیں ایک درد ناک عذاب سے بچا لے۔“

وَمَنْ لَا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 آیت 32 { وَمَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِیَ اللّٰہِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْاَرْضِ } ”اور جو کوئی لبیک نہیں کہتا اللہ کی طرف پکارنے والے کی پکار پر تو وہ اللہ کو عاجز کرنے والا نہیں ہے زمین میں“ { وَلَیْسَ لَہٗ مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئُط اُولٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } ”اور نہیں ہوں گے اس کے لیے اللہ کے مقابلے میں دوسرے مددگار۔ یہی لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔“ یہاں پر ”دَاعِیَ اللّٰہِ“ کے حوالے سے یہ نکتہ ذہن میں مستحضر رکھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک دنیا میں نبوت کا سلسلہ جاری تھا انبیاء ورسل ہی ”اللہ کے داعی“ تھے۔ لیکن اب حضور ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے امتیوں کو ”دَاعِیَ اللّٰہِ“ کی حیثیت سے لوگوں کو قرآن کی طرف بلانا ہے ‘ انہیں اقامت دین کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا ہے اور اس جدوجہد میں اپنا تن من دھن کھپانے کے لیے انہیں اس طرح آمادہ کرنا ہے کہ ہر بندہ مومن کی زندگی سورة الانعام کی اس آیت کی تصویر بن جائے : { اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ”آپ ﷺ کہیے : میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔“ اس کام کے لیے اب چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا ‘ اس لیے ”دعوت الی اللہ“ کا یہ مقدس فریضہ اس امت کو سونپ دیا گیا ہے : { وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا } البقرۃ : 143 ”اور اے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تمہیں ایک امت ِوسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجائو اور رسول ﷺ تم پر گواہ ہو“۔ سورة آلِ عمران میں اس ذمہ داری کی مزید وضاحت اس طرح فرمائی گئی : { کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِِّ } آیت 110 ”تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے ‘ تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور َبدی سے روکتے ہو اور تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر۔“

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ ۚ بَلَىٰ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 آیت 33 { اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِیََ الْمَوْتٰی } ”کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی اور ان کی تخلیق سے تھکا نہیں ‘ وہ اس پر قادر ہے کہ ُ مردوں کو زندہ کر دے !“ یہ عقلی دلیل ہے اس شخص کے لیے جو اللہ کو ”خالق“ تو مانتا ہے مگر بعث بعد الموت پر یقین نہیں رکھتا۔ سورة قٓکی آیت 15 میں بھی ایسے ”فلسفیوں“ سے سوال کیا گیا ہے : { اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ } کہ کیا ہم کائنات اور اس کی مخلوقات کو ایک دفعہ تخلیق کرنے کے بعد تھک گئے ہیں ؟ کیا اب ہماری تخلیقی سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں ؟ اور کیا مزید نئی چیزیں بنانے کی ہماری صلاحیت اب ختم ہو کر رہ گئی ہے ؟ { بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ } ”کیوں نہیں ‘ یقینا وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَلَيْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ

📘 آیت 34 { وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَلَی النَّارِط اَلَیْسَ ہٰذَا بِالْحَقِّ } ”اور جس روز پیش کیے جائیں گے یہ کافر آگ پر ‘ اور ان سے پوچھا جائے گا : کیا یہ حقیقت نہیں ہے ؟“ کہ دنیا میں تو تم لوگ بعث بعد الموت کی باتوں کو ڈھکو سلے سمجھتے تھے ‘ آخرت اور اس کی سزا و جزا کی خبروں کو فرضی کہانیاں قرار دیتے تھے جبکہ جہنم اور اس کے عذاب کی وعیدیں تمہیں محض جھوٹے ڈراوے لگتے تھے۔ آج تم دوبارہ زندہ ہو کر ”آخرت“ کے عالم میں پہنچ چکے ہو ‘ اب تم آخرت کے تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ دیکھو ! یہ ہے جہنم کی آگ تمہارے سامنے جس کے بارے میں تمہیں بار بار خبردار کیا گیا تھا۔ اب بتائو کیا یہ حقیقت ہے یا تمہارا وہم ؟ { قَالُوْا بَلٰی وَرَبِّنَا } ”وہ کہیں گے : کیوں نہیں ! ہمارے پروردگار کی قسم یہ حق ہے !“ { قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ } ”اللہ فرمائے گا : تو اب چکھو عذاب کا مزہ اپنے اس کفر کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو۔“ اب آخر میں حضور ﷺ کو مخاطب کر کے خصوصی ہدایت دی جا رہی ہے :

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَهُمْ ۚ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ

📘 آیت 35 { فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ } ”تو اے محمد ﷺ ! آپ بھی صبر کیجیے جیسے اولوالعزم رسول علیہ السلام صبر کرتے رہے ہیں“ ”اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ“ کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ ان سے مراد وہ پانچ پیغمبر ہیں جن کا ذکر قبل ازیں سورة الشوریٰ کی اس آیت میں ہوا ہے : { شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَـیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی } آیت 13 ”اے مسلمانو ! تمہارے لیے دین میں اس نے وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوح علیہ السلام کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے اے محمد ﷺ ! آپ کی طرف کی ہے اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم علیہ السلام کو اور موسیٰ علیہ السلام ٰ کو اور عیسیٰ علیہ السلام ٰ کو…“ گویا حضرت محمد ﷺ کے علاوہ حضرت نوح ‘ حضرت ابراہیم ‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔ البتہ بعض علماء حضرت ہود اور حضرت صالح ﷺ کو بھی ان کے ساتھ شامل کرتے ہیں اور اس طرح ان کے نزدیک ”اولوالعزمِ منَ الرسل“ کی تعداد سات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں میں ہر پیغمبر کی شخصیت کا کوئی خاص پہلو امتیازی شان کا حامل نظر آتا ہے۔ مثلاً دعوت و تبلیغ کے میدان میں عزم اور استقامت کے لحاظ سے حضرت نوح سب سے آگے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دعوت دی اور ان کی طرف سے ہر قسم کی مخالفت اور تکلیف کو برداشت کیا : { فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا } العنکبوت : 14۔ اسی طرح ذاتی تکلیف اور بیماری پر صبر کرنے کے اعتبار سے حضرت ایوب کا مرتبہ بہت بلند ہے اور اس لحاظ سے ”صبر ِایوب علیہ السلام“ ضرب المثل کے طور پر مشہور ہے۔ { وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ } ”اور ان کے لیے جلدی نہ کیجیے !“ اس سے پہلے سورة الزخرف کے اختتام پر بھی ایسی ہی ہدایت دی گئی ہے : { فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلٰمٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ } ”تو اے نبی ﷺ ! آپ ان سے در گزر کیجیے اور کہیے سلام ہے ‘ تو بہت جلد یہ لوگ جان جائیں گے“۔ پھر سورة الدخان کے آخر میں بھی فرمایا گیا ہے : { فَارْتَقِبْ اِنَّہُمْ مُّرْتَقِبُوْنَ } ”تو آپ ﷺ انتظار کیجیے ‘ یقینا وہ بھی انتظار کر رہے ہیں“۔ ایک ہی گروپ کی ان سورتوں میں ایک جیسے الفاظ اور مفہوم کی حامل ان آیات کی تکرار سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان سورتوں کے نزول کے زمانے میں مکہ کے حالات اہل ایمان کے لیے واقعتابہت سخت تھے اور ان کے لیے ایک ایک دن گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔ ان حالات میں ممکن ہے کبھی حضور ﷺ کے دل میں بھی یہ خیال آتا ہو ‘ لیکن اہل ایمان کے ذہنوں میں ایسے سوالات کا آنا بالکل قرین ِقیاس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دشمنانِ حق کو ہم پر ظلم و ستم ڈھانے کی کھلی چھوٹ آخر کیوں دے رکھی ہے ؟ ان لوگوں پر پہلی نافرمان قوموں کی طرح عذاب کیوں نہیں ٹوٹ پڑتا ؟ بلال رض پر تشدد کرتے ہوئے اُمیہ ّبن خلف کے ہاتھ کیوں شل نہیں ہوجاتے ؟ اللہ تعالیٰ تو عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌہے۔ وہ اپنے ان باغیوں کو اتنی ڈھیل کیوں دیے جارہا ہے ؟ چناچہ اس انتہائی نازک صورت حال میں حضور ﷺ کو مخاطب کر کے گویا اہل ایمان کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مشرکین ِمکہ ّپر عذاب کا وقت ابھی نہیں آیا ‘ ابھی اللہ کی مشیت میں ان لوگوں کو کچھ اور مہلت دینا مقصود ہے۔ لہٰذا تم لوگ صبر سے کام لو اور کچھ دیر مزید انتظا رکرو ! { کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوْعَدُوْنَلا لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنْ نَّہَارٍ } ”جس دن یہ لوگ دیکھیں گے اس عذاب کو جس کی انہیں وعید سنائی جا رہی ہے تو ایسے محسوس کریں گے گویا نہیں رہے تھے دنیا میں مگر دن کی ایک گھڑی۔“ { بَلٰغٌج فَہَلْ یُہْلَکُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ } ”یہ پہنچا دینا ہے ! کیا سوائے نافرمان لوگوں کے کوئی اور بھی ہلاک کیا جائے گا ؟“ یعنی ہمارے رسول ﷺ کی ذمہ داری تو ان لوگوں تک اللہ کا یہ پیغام پہنچا کر حجت قائم کردینے کی حد تک ہے ‘ جو انہوں نے ادا کردی۔ -۔ اب ہلاک تو وہی ہوں گے جنہوں نے اس دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور نافرمانی کی روش اختیار کی۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 آیت 4 { قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ } ”اے نبی ﷺ ! ان سیکہیے کہ کبھی تم نے غور بھی کیا کہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ‘ مجھے دکھائو تو سہی کہ انہوں نے کیا پیدا کیا ہے زمین میں ؟“ { اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ } ”یا ان کی کوئی شراکت ہے آسمانوں میں ؟“ { اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَآ اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ } ”لائو میرے پاس کوئی کتاب اس سے پہلے کی یا کوئی ایسی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو اگر تم سچے ہو !“ اپنے ان معبودوں کے بارے میں مجھ سے کسی الہامی ثبوت یا علمی اور منطقی دلیل سے بات کرو۔

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ

📘 آیت 5 { وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ } ”اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کے سوا اسے پکارتا ہے جو اس کو جواب ہی نہیں دے سکتا قیامت کے دن تک“ وہ نہ تو ان کی دعائوں کو سن سکتے ہیں اور نہ قبول کرسکتے ہیں۔ { وَہُمْ عَنْ دُعَآئِہِمْ غٰفِلُوْنَ } ”اور وہ ان کی دعا سے غافل ہیں۔“ وہ ان کے پکارنے سے بیخبر ہیں۔ انہیں تو پتا ہی نہیں کہ کوئی ان سے دعا مانگ رہا ہے۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا جن معبودوں کو پکارتے ہیں ان میں کچھ تو بےجان اور بےعقل مخلوقات ہیں۔ ان کا تو اپنے پکارنے والوں کی دعائوں سے بیخبر ہونا ظاہر ہی ہے۔ ان کے علاوہ کچھ بزرگ انسانوں کو بھی پکارا جاتا ہے۔ وہ اللہ کے ہاں اس عالم َمیں ہیں کہ جہاں انسانی آوازیں ان تک نہیں پہنچتیں۔ فرض کیجیے ایک شخص کسی بڑے ولی اللہ کو اپنی مدد کے لیے پکار رہا ہے تو عِلیِّیْن میں موجود اس کی روح کو کیا معلوم کہ دنیا میں اس کا کوئی معتقد اسے پکار رہا ہے۔

وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ

📘 آیت 6 { وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَآئً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیْنَ } ”اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو وہ ان کے دشمن بن جائیں گے اور وہ ان کی عبادت کے منکر ہوں گے۔“ قیامت کے دن وہ پیغمبر ‘ وہ فرشتے اور وہ اولیاء اللہ جن کو لوگ مدد کے لیے پکارتے ہیں اور ان سے دعا کرتے ہیں ‘ وہ اپنے ان ”عقیدت مندوں“ سے ناراضگی اور دشمنی کا اظہار کریں گے کہ انہوں نے اللہ کے سامنے انہیں شرمسار کیا کہ انہیں اللہ کا مدمقابل ٹھہرایا۔ اس معاملے کی ”حساسیت“ ّکا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک مرتبہ ایک صحابی رض نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایسے الفاظ ادا کیے : مَا شَائَ اللّٰہُ وَمَا شِئْتَ یعنی جو اللہ چاہے اور جو آپ ﷺ چاہیں ! اس پر آپ ﷺ نے فوراً انہیں ٹوک دیا اور فرمایا : اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا ؟ 1 ”کیا تم نے مجھے اللہ کا مدمقابل بنا دیا ہے ؟“ کیونکہ مشیت تو صرف اور صرف اللہ کے لیے ہے۔

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَٰذَا سِحْرٌ مُبِينٌ

📘 آیت 7{ وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہُمْ ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} ”اور جب انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری آیت ِبینات ‘ ّتو یہ کافر کہتے ہیں حق کے بارے میں ‘ جبکہ وہ ان کے پاس آگیا ‘ کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔“

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

📘 آیت 8 { اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ } ”کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اس کو گھڑ لیا ہے ؟“ کیا ان کا خیال ہے کہ محمد ﷺ نے قرآن کو خود تصنیف کیا ہے ؟ { قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَلَا تَمْلِکُوْنَ لِیْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا } ”اے نبی ﷺ ! ان سے کہیے کہ اگر میں نے اس کو گھڑ لیا ہے تو تم مجھے اللہ کی پکڑ سے ذرا بھی نہیں بچا سکتے۔“ سورة الحاقۃ میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : { وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ۔ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ۔ } کہ اگر بالفرض محمد ﷺ کوئی چیز گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیں تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑیں گے اور پھر ان کی رگ جاں کو کاٹ دیں گے۔ ظاہر ہے اس اسلوب میں جو غصہ ہے وہ ان لوگوں پر ہے جو حضور ﷺ پر ایسا الزام لگانے کی جسارت کرتے تھے۔ { ہُوَ اَعْلَمُ بِمَا تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ } ”وہ خوب جانتا ہے جن باتوں میں تم لگے ہوئے ہو۔“ اللہ تعالیٰ تمہاری یہ گفتگو بھی سن رہا ہے اور وہ تمہارے دلوں میں چھپے ہوئے خیالات سے بھی آگاہ ہے۔ { کَفٰی بِہٖ شَہِیْدًابَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ } ”وہ کافی ہے بطور گواہ میرے اور تمہارے مابین ‘ اور وہ خوب بخشنے والا ‘ بہت رحم فرمانے والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے میرے پاس وحی بھیجی ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ میں اس کا رسول ہوں۔

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ

📘 آیت 9 { قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ } ”اے نبی ﷺ ! ان سے یہ بھی کہیے کہ میں کوئی نیا رسول تو نہیں ہوں“ بِدْعًا کے معنی نیا نویلا یا نرالاہونے کے ہیں۔ لفظ ”بدعت“ بھی اسی مادہ سے مشتق ہے۔ بدعت سے اصطلاحاً وہ چیز مراد ہے جو اصل میں دین کا حصہ نہ ہو بلکہ کسی وجہ سے دین میں رائج کردی گئی ہو۔ بہر حال یہاں حضور ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ میرا رسول ﷺ بن کر آنا کوئی نئی بات نہیں ہے ‘ بلکہ میں تو آخری رسول ﷺ ہوں۔ بہت سے رسول علیہ السلام مجھ سے پہلے بھی دنیا میں آ چکے ہیں۔ سورة آلِ عمران میں حضور ﷺ کا تعارف اس طرح کرایا گیا ہے : { وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ } آیت 144 ”اور محمد ﷺ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ‘ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں“۔ سورة المائدۃ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی بالکل یہی الفاظ آئے ہیں : { مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ } آیت 75 ”مسیح علیہ السلام ابن مریم اور کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ ایک رسول علیہ السلام تھے ‘ ان علیہ السلام سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے۔“ { وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ } ”اور مجھے یہ معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور نہ یہ کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔“ اس سے آخرت کا معاملہ مراد نہیں ہے ‘ کیونکہ آخرت کے بارے میں تو آنحضور ﷺ کو بہت واضح انداز میں بتادیا گیا تھا : { وَلَـلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی۔ الضحیٰ یعنی آپ ﷺ کے لیے آخرت یقینا دنیا سے بہت بہتر ہوگی۔ بلکہ آیت زیر مطالعہ کا اشارہ اس کش مکش کی طرف ہے جو حضور ﷺ اور مشرکین مکہ کے درمیان مسلسل جاری تھی۔ جیسے حضور ﷺ ایک امیدلے کر طائف تشریف لے گئے تھے لیکن وہاں جو کچھ ہوا وہ آپ ﷺ کی توقعات کے بالکل برعکس تھا۔ نبوت کے دسویں سال جب جناب ابو طالب کا انتقال ہوگیا تو آپ ﷺ کے اپنے قبیلے بنو ہاشم نے بھی آپ ﷺ سے اظہارِ براءت کردیا۔ اس کے بعد مکہ میں دنیوی اعتبار سے آپ ﷺ کا کوئی حلیف یا حمایتی نہ رہا۔ ان حالات میں آپ ﷺ طائف تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ کا خیال تھا کہ اہل طائف میں سے اگر کوئی بڑا سردار ایمان لے آیا تو میں اپنی دعوت کا مرکز وہاں منتقل کرلوں گا۔ لیکن اہل طائف کا رویہ اہل ِمکہ ّسے بھی بدتر نکلا۔ لہٰذا مکہ کے ماحول میں جاری کشیدگی کے حوالے سے یہاں آپ ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ اس چپقلش کے اندر آئندہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے کیا پیش آنے والا ہے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ { اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ} ”میں تو بس اسی کی پیروی کر رہا ہوں جو میری طرف وحی کی جا رہی ہے ‘ اور میں نہیں ہوں مگر ایک کھلا خبردار کردینے والا۔“