🕋 تفسير سورة الطور
(At-Tur) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ وَالطُّورِ
📘 آیت 1{ وَالطُّوْرِ۔ } ”قسم ہے طور کی۔“ طور عام پہاڑ کو بھی کہا جاتا ہے ‘ لیکن ”الطُّور“ سے مراد وہ خاص پہاڑ طور ِسینین٭ ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے تھے۔
وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا
📘 آیت 10{ وَّتَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا۔ } ”اور پہاڑ چل رہے ہوں گے جیسے چلا جاتا ہے۔“ پہاڑوں پر زمین کی گرفت برقرار نہیں رہے گی اور وہ ٹوٹ کر فضا میں بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔
فَوَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ
📘 آیت 1 1{ فَوَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ۔ } ”پس ہلاکت و بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔“
الَّذِينَ هُمْ فِي خَوْضٍ يَلْعَبُونَ
📘 آیت 12{ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ خَوْضٍ یَّلْعَبُوْنَ۔ } ”وہ لوگ جو خوش گپیوں میں مصروف کھیل رہے ہیں۔“
يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا
📘 آیت 13{ یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰی نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا۔ } ”جس دن ان کو دھکے دے دے کر جہنم کی طرف دھکیلاجائے گا۔“
هَٰذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ
📘 آیت 14{ ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِیْ کُنْتُمْ بِہَا تُکَذِّبُوْنَ۔ } ”اور کہا جائے گا یہ ہے وہ آگ جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔“
أَفَسِحْرٌ هَٰذَا أَمْ أَنْتُمْ لَا تُبْصِرُونَ
📘 آیت 15{ اَفَسِحْرٌ ہٰذَآ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ۔ } ”کیا یہ جادو ہے یا تم دیکھ نہیں رہے ہو ؟“ اب بتائو ! کیا تم اپنے سامنے واقعی جہنم کو دیکھ رہے ہو یا اس کو بھی تم جادو کا کھیل ہی سمجھتے ہو ؟
اصْلَوْهَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
📘 آیت 16{ اِصْلَوْہَا فَاصْبِرُوْٓا اَوْلَا تَصْبِرُوْاج سَوَآئٌ عَلَیْکُمْ ط } ”اب داخل ہو جائو اس میں ‘ تم خواہ صبر کرو یا نہ کرو ‘ اب تمہارے حق میں برابر ہے۔“ اب تمہارے جزع فزع کرنے اور چیخنے چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اب یہاں کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا۔ تمہارے پاس اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس میں خاموشی سے داخل ہو جائو اور اس کی سختیوں کو صبر سے برداشت کرو۔ { اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ } ”تمہیں بدلے میں وہی کچھ تو مل رہا ہے جو کچھ تم عمل کیا کرتے تھے۔“
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَعِيمٍ
📘 آیت 17{ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَعِیْمٍ۔ } ”یقینا متقی لوگ باغات میں اور نعمتوں میں ہوں گے۔“
فَاكِهِينَ بِمَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ وَوَقَاهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ
📘 آیت 18{ فٰـکِہِیْنَ بِمَآ اٰتٰـہُمْ رَبُّہُمْ ج } ”وہ مزے کر رہے ہوں گے ان نعمتوں کے ساتھ جو ان کے رب نے انہیں عطا کی ہوں گی۔“ { وَوَقٰـہُمْ رَبُّہُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ۔ } ”اور بچا لے گا انہیں ان کا ربّ جہنم کے عذاب سے۔“
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
📘 آیت 19{ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہَنِیْٓئًام بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ } ”اور کھائو پیو رچتا پچتا ‘ اُن اعمال کا صلہ جو تم کرتے رہے ہو۔“ قبل ازیں بھی متعدد مرتبہ ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل جنت کی قدر افزائی کے لیے جنت اور اس کی نعمتوں کو ان کے اعمال کا صلہ قرار دیا جائے گا ‘ جبکہ اہل جنت بار بار یہ اقرار کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! یہ تیرا فضل ہے جو تو نے ہمیں بخش دیا اور جنت کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا ‘ ورنہ ہم اس قابل ہرگز نہ تھے۔
وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ
📘 آیت 2 { وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ۔ } ”اور اس کتاب کی قسم جو لکھی ہوئی ہے۔“ اس بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ اس سے مراد تورات ہے ‘ کیونکہ تورات پتھر کی تختیوں پر لکھی ہوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی گئی تھی ‘ جبکہ قرآن قلب ِمحمد ﷺ پر براہ راست نازل ہوا تھا۔
مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ ۖ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ
📘 آیت 20{ مُتَّـکِئِیْنَ عَلٰی سُرُرٍ مَّصْفُوْفَۃٍج } ”وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے ان تختوں پر جو برابر بچھے ہوں گے صف درصف۔“ { وَزَوَّجْنٰـہُمْ بِحُوْرٍعِیْنٍ۔ } ”اورا نہیں ہم بیاہ دیں گے بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کے ساتھ۔“
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ
📘 آیت 21{ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّـتَہُمْ } ”اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی پیروی کی ایمان کے ساتھ ‘ ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اس اولاد کو“ قبل ازیں اس مضمون کا ذکر سورة المومن میں حاملین عرش اور ان کے ساتھی فرشتوں کی دعا کے ضمن میں بھی آچکا ہے۔ وہ اللہ کے حضور مومنین کے لیے یوں دعا کر رہے ہوں گے : { رَبَّـنَا وَاَدْخِلْہُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّہُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَـآئِ ہِمْ وَاَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیّٰتِہِمْط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ } ”اے ہمارے پروردگار ! انہیں داخل فرما ناان رہنے والے باغات میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کو بھی جو نیک ہوں ان کے آباء و اَجداد ‘ ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے۔ تو یقینا زبردست ہے ‘ کمالِ حکمت والا ہے“۔ اب زیرمطالعہ آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے اس کریمانہ فیصلے کا خود اعلان فرما رہے ہیں کہ ہم اہل جنت کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے۔ یعنی نچلے درجے کی جنت کے مستحق افراد کو بھی ان کے والدین کے برابر لے آئیں گے جو اعلیٰ درجات کی جنتوں میں متمکن ہوں گے۔ { وَمَآ اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ ط } ”اور ہم ان کے عمل میں سے کوئی کمی نہیں کریں گے۔“ یعنی اگر کوئی شخص اعلیٰ درجے کی جنت میں ہے اور اس کے اہل و عیال نسبتاً نچلے درجے میں ہیں تو یہ نہیں ہوگا کہ اس شخص کو اس کے اہل و عیال کے پاس نچلے درجے میں بھیج دیا جائے بلکہ اس کے اہل و عیال کے درجات بلند کر کے اس کے برابر کردیا جائے گا۔ گویا اہل جنت کے اکرام کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل ہوگا کہ ان کے رشتے داروں میں سے جو کوئی کم سے کم درجے کی جنت کا بھی مستحق ہوجائے گا اسے ترقی دے کر ان کے اعلیٰ جنتوں والے رشتے داروں سے ملا دیا جائے گا تاکہ انہیں آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہو۔ { کُلُّ امْرِیٍٔ م بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ۔ } ”ہر انسان اپنی کمائی کے عوض رہن ہوگا۔“
وَأَمْدَدْنَاهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ
📘 آیت 22{ وَاَمْدَدْنٰـہُمْ بِفَاکِہَۃٍ وَّلَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ۔ } ”اور ہم انہیں دیے چلے جائیں گے پھل اور گوشت جس سے وہ چاہیں گے۔“
يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ
📘 آیت 23{ یَتَنَازَعُوْنَ فِیْہَا کَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِیْہَا وَلَا تَاْثِیْمٌ۔ } ”اس میں وہ ایک دوسرے سے چھین رہے ہوں گے وہ جام جن کے مشروب میں نہ تو کوئی بےہودگی ہوگی اور نہ ہی گناہ میں ڈالنے والی کوئی بات۔“ یہ اہل جنت کی دوستانہ محفلوں کی رونق اور چہل پہل کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے کہ وہ خوش طبعی کے انداز میں ایک دوسرے سے جام چھین رہے ہوں گے۔ اہل جنت کو جو مشروب ملے گا اس میں کیف و سرور تو ہوگا لیکن دنیا کی شراب کی طرح بےہودگی کی کوئی کیفیت نہیں ہوگی۔
۞ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ
📘 آیت 24{ وَیَطُوْفُ عَلَیْہِمْ غِلْمَانٌ لَّہُمْ کَاَنَّـہُمْ لُـؤْلُــؤٌ مَّکْنُوْنٌ۔ } ”اور ان پر گردش میں رہیں گے نوجوان لڑکے ان کی خدمت کے لیے ‘ وہ ایسے ہوں گے جیسے موتی ہوں غلافوں میں رکھے ہوئے۔“
وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ
📘 آیت 25{ وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّـتَسَآئَ لُوْنَ۔ } ”اور وہ اہل جنت ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے باہم سوال کریں گے۔“
قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ
📘 آیت 26{ قَالُوْٓا اِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِیْٓ اَہْلِنَا مُشْفِقِیْنَ۔ } ”وہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے اہل و عیال میں ڈرتے ہوئے رہتے تھے۔“ دنیا میں اپنے اہل و عیال اور عزیز و اقارب کے درمیان معمول کی زندگی بسر کرتے ہوئے ہمیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ نہ معلوم ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر بھی پائیں گے یا نہیں۔ نہ معلوم نیک اعمال کی قبولیت کے لیے مطلوبہ معیار کا اخلاص ہمارے دلوں میں ہے بھی یا نہیں۔ کہیں ہم سے کوئی ایسی غلطی سرزد نہ ہوجائے جو ہماری ساری محنت کو بھی اکارت کر دے۔ ایسے اندیشے اور خدشے ہر لمحہ ہمیں دامن گیر رہتے تھے۔
فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ
📘 آیت 27{ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَوَقٰٹنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ۔ } ”تو اللہ نے بڑا احسان کیا ہم پر اور ہمیں بچالیا لو ُ کے عذاب سے۔“
إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوهُ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ
📘 آیت 28{ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوْہُ ط } ”یقینا ہم پہلے سے اس کو پکارا کرتے تھے۔“ البتہ یہ ضرور تھا کہ اپنی دنیوی زندگی میں ہم اپنی مغفرت کے لیے اللہ تعالیٰ سے مسلسل دعائیں کرتے رہتے تھے۔ { اِنَّہٗ ہُوَ الْبَرُّ الرَّحِیْمُ۔ } ”یقینا وہ بہت ہی اچھا سلوک کرنے والا ‘ بہت رحم فرمانے والا ہے۔“
فَذَكِّرْ فَمَا أَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ
📘 آیت 29{ فَذَکِّرْ فَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَّلَا مَجْنُوْنٍ۔ } ”تو اے نبی ﷺ ! آپ تذکیر کرتے رہیے ‘ پس آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون۔“ یہ خطاب اگرچہ حضور ﷺ سے ہے لیکن اصل میں سنانا ان لوگوں کو مقصود ہے جو آپ ﷺ کے ایسے نام رکھتے تھے۔ ان لوگوں کو نظر انداز کر کے حضور ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ ان کی فضول باتوں پر بالکل توجہ نہ دیں اور لوگوں کو مسلسل تذکیر اور یاد دہانی کرتے رہیں۔ اس سے ملتا جلتا مضمون قبل ازیں گزشتہ سورت الذاریات میں بھی آچکا ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا : { فَتَوَلَّ عَنْہُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ - وَّذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ } ”پس اے نبی ﷺ ! آپ ان سے رخ پھیر لیں ‘ آپ پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اور آپ تذکیر کرتے رہیے ‘ کیونکہ یہ تذکیر اہل ایمان کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔“ آپ ﷺ تذکیر و تبلیغ کا عمل مسلسل جاری رکھیے۔ کیا خبر کسی دل میں ایمان کی کوئی کلی کھلنے والی ہو ‘ کیا خبر آپ ﷺ کے کسی دشمن کا دل بھی موم ہونے والا ہو۔ حضرت عمر فاروق رض کے ایمان لانے کا واقعہ اس حقیقت کا گواہ ہے کہ تذکیر آہستہ آہستہ دلوں کو متاثر کرتی رہتی ہے اور پھر کسی وقت اچانک وہ گھڑی آپہنچتی ہے جب دل میں ایمان کی کلی کھل اٹھتی ہے۔ حضرت عمر رض اگرچہ حضور ﷺ کی مخالفت میں ہر وقت پیش پیش رہتے تھے لیکن چونکہ سخن شناس تھے اس لیے کلام الٰہی سننے کے لیے متجسس ّبھی رہتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ رات کو صحن ِکعبہ میں قیام اللیل کے دوران قرآن مجید کی تلاوت فرمایا کرتے تو کبھی کبھی حضرت عمر رض چھپ کر حضور ﷺ کی زبان مبارک سے تلاوت سنتے اور کلام الٰہی کی تاثیر کو اپنی روح کی گہرائیوں میں محسوس کرتے تھے۔ گویا حضور ﷺ کی تذکیر اور قرآن کی تاثیر تدریجاً ان کے دل میں گھر کر رہی تھی۔ اسی تدریجی عمل کے باعث آپ رض کے خیالات و جذبات میں اندر ہی اندر ایک مثبت تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ اس کے بعد مشیت الٰہی سے وہ واقعہ رونما ہوا جس کے باعث اس خاموش تبدیلی کو اظہار کا موقع ملا اور آپ رض کو ایمان کی دولت نصیب ہوگئی۔ اس دن تو آپ رض گھر سے حضور ﷺ کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تھے۔ راستے میں اپنی بہن فاطمہ رض بنت خطاب اور اپنے بہنوئی حضرت سعید رض بن زید سے الجھ پڑے۔ آپ رض کے تشدد کا سامنا کرتے ہوئے بہن نے جب ڈٹ کر کہا کہ عمر تم جو چاہے کرلو ‘ اب ہم اپنے دین کو چھوڑنے والے نہیں ! تو آپ رض اپنی بہن کے اس غیر معمولی عزم اور حوصلے کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔ پھر کیا تھا ‘ آپ رض کے دل کا ”بند“ یکدم کھل گیا اور آپ رض نے حق کو اعلانیہ قبول کرلیا۔
فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ
📘 آیت 3{ فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ۔ } ”کشادہ ورق میں۔“ یعنی وہ تختیاں خوب کشادہ تھیں جن پر تورات کی عبارت تحریر تھی۔ گویا یہ تین قسمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات سے متعلق ہیں۔ کو ہِ طور پر آپ علیہ السلام کو مکالمہ الٰہی سے سرفراز فرمایا گیا اور آپ علیہ السلام کو ایک ایسی کتاب عطا کی گئی جو کشادہ تختیوں پر لکھی ہوئی تھی۔
أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ
📘 آیت 30{ اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ۔ } ”کیا ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک شاعر ہے ‘ جس کے لیے ہم منتظر ہیں گردش زمانہ کے ؟“ مشرکین مکہ آپس میں ایک دوسرے کو یہ کہہ کر تسلی دیتے تھے کہ محمد ﷺ محض ایک شاعر ہیں۔ ان کے شاعرانہ کلام سے متاثر ہونے میں جلدی مت کرو ‘ کچھ دیر انتظار کرو گے wait and see ! ‘ تو ان کے دعو وں کی اصل حقیقت خود بخود کھل کر سامنے آجائے گی۔ ہمیں قوی امید ہے کہ بہت جلد یہ خود ہی گردش زمانہ کی لپیٹ میں آجائیں گے۔
قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ
📘 آیت 31{ قُلْ تَرَبَّصُوْا فَاِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُتَرَبِّصِیْنَ۔ } ”آپ ﷺ کہیے کہ اچھا تم انتظار کرو ‘ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔“
أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلَامُهُمْ بِهَٰذَا ۚ أَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ
📘 آیت 32{ اَمْ تَاْمُرُہُمْ اَحْلَامُہُمْ بِہٰذَآ اَمْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ۔ } ”کیا ان کی عقلیں انہیں یہی کچھ سکھا رہی ہیں یا یہ ہیں ہی سرکش لوگ ؟“ مشرکین کے ایمان نہ لانے کی یہ دو ہی ممکنہ وجوہات تھیں۔ یا تو واقعتا انہیں بات سمجھ نہیں آرہی تھی اور ان کی عقلیں انہیں یہی سکھاتی تھیں کہ محمد ﷺ جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ محض شاعری اور ان کا من گھڑت کلام ہے۔ دوسرا امکان یہ تھا کہ بات ان کی سمجھ میں بھی آتی تھی اور ان کے دل گواہی بھی دیتے تھے کہ یہ سب کچھ درست ہے مگر وہ اپنی سرکشی ‘ ضد اور عناد کی وجہ سے انکار پر جمے رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں یہ ساری باتیں وہ عقل سے نہیں بلکہ سراسر ضد ‘ عناد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر کر رہے تھے۔ دراصل نفس انسانی کی سرکشی بھی دریا کی طغیانی کی طرح ہے جس کے سامنے منطق ‘ تدبیر ‘ کوشش وغیرہ کسی کی نہیں چلتی۔ بقول الطاف حسین حالی : ؎دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے !
أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ ۚ بَلْ لَا يُؤْمِنُونَ
📘 آیت 33{ اَمْ یَـقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَـہٗ ج } ”کیا ان کا کہنا ہے کہ یہ اس محمد ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے ؟“ تَقَوَّلَ باب تفعل سے ہے اور اس کے معنی تکلف کر کے کچھ کہنے کے ہیں ‘ یعنی قرآن کے بارے میں مشرکین کا یہ کہنا تھا کہ محمد ﷺ محنت و ریاضت کے ذریعے یہ کلام خود ”موزوں“ کرتے ہیں۔ { بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَ۔ } ”بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ ماننے والے نہیں ہیں۔“
فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ
📘 آیت 34{ فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْنَ۔ } ”تو وہ لے آئیں اس جیسی کوئی ایک بات اگر وہ سچے ہیں۔“ یہ وہ چیلنج ہے جو قرآن نے بار بار انہیں دیا کہ اگر تم واقعتا یہ سمجھتے ہو کہ یہ کلام محمد ﷺ کا اپنا بنایا ہوا ہے تو ایسا ہی کلام تم بھی اس کے مقابلے میں بنا کرلے آئو۔ آخر تمہارے درمیان بڑے بڑے خطبائ ‘ ادباء اور شعراء موجود ہیں ‘ ان سب کو اکٹھا کرو اور کوشش کر کے دیکھ لو۔
أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ
📘 آیت 35{ اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئٍ اَمْ ہُمُ الْخٰلِقُوْنَ۔ } ”کیا یہ بغیر کسی کے بنائے ہوئے خود بن گئے ہیں یا یہ خود ہی خالق ہیں ؟“ یہ فلسفے کا بہت گہرا مسئلہ ہے۔ ظاہر ہے کوئی شے بغیر کسی کے بنائے ہوئے خود بخود تو بنتی نہیں ہے۔ چناچہ کسی بھی چیز کی تخلیق کے حوالے سے دو ہی صورتیں ممکن ہیں ‘ یعنی یا تو اس چیز کو کسی نے تخلیق کیا ہے یا اس چیز نے اپنے آپ کو خود تخلیق کیا ہے۔ چناچہ یہ منطقی سوال ان کے سامنے رکھا گیا کہ اگر تم اس حقیقت سے آگاہ ہو کہ تم نے خود اپنے آپ کو تخلیق نہیں کیا تو پھر خود بخود ثابت ہوجاتا ہے کہ کسی دوسری ہستی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ ہستی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَلْ لَا يُوقِنُونَ
📘 آیت 36{ اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَ۔ } ”کیا آسمانوں اور زمین کو انہوں نے بنایا ہے ؟ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے۔“ چلو اپنی تخلیق کی بحث کو چھوڑو ‘ تم ذرا یہ بتائو کہ زمین و آسمان تم نے بنائے ہیں ؟ اگر تم تسلیم کرتے ہو کہ تم نے نہیں بنائے تو پھر مان کیوں نہیں لیتے کہ خود تمہارا خالق اور تمام مخلوق سمیت پوری کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو دو اور دو چار کی طرح مسلم ہیں ‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ یقین سے محروم ہیں۔
أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ
📘 آیت 37{ اَمْ عِنْدَہُمْ خَزَآئِنُ رَبِّکَ اَمْ ہُمُ الْمُصَیْطِرُوْنَ۔ } ”کیا ان کے قبضہ قدرت میں آپ کے رب کے خزانے ہیں یا یہ داروغہ ہیں ؟“ اس آیت کو پڑھتے ہوئے مشرکین مکہ کا وہ اعتراض بھی ذہن میں تازہ کرلیں جس کا ذکر سورة الزخرف کی آیت 31 میں ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اگر وحی بھیجنا تھی اور اپنا کلام دنیا میں نازل کرنا ہی تھا تو اس کے لیے اس کی نظر بنوہاشم کے ایک یتیم شخص ہی پر کیوں پڑی ‘ جو نہ تو سرمایہ دار ہے اور نہ ہی مکہ کے قبائلی نظام کے اعلیٰ عہدوں hierarchy میں سے کوئی عہدہ اس کے پاس ہے ! عرب کے قبائلی معاشرے میں کسی شخصیت کے ”بڑے“ ہونے کا ایک معیار یہ بھی تھا کہ وہ کسی بڑے عہدے پر فائز ہو۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق رض اس زمانے میں مقدماتِ قتل کے فیصلے کرنے پر مامور تھے۔ یہ قبائلی نظام کا بہت بڑا اور انتہائی حساس نوعیت کا عہدہ تھا جس پر حضرت ابوبکر رض اس زمانے میں فائز تھے۔ اس کے علاوہ آپ رض بہت بڑے تاجر اور سرمایہ دار بھی تھے۔ اس زمانے میں حضرت ابوبکر صدیق رض کے سرمائے کی مالیت چالیس ہزار درہم کے لگ بھگ تھی۔ اس حوالے سے یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد آپ رض نے یہ سارا سرمایہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لٹا دیا اور جب آپ رض ہجرت کے لیے مدینہ روانہ ہوئے تو پیچھے گھر والوں کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ بہرحال مشرکین مکہ بار بار یہ اعتراض کرتے تھے کہ آخر اللہ تعالیٰ نے اس منصب کے لیے ان دو بڑے شہروں مکہ اور طائف میں سے کسی بڑی شخصیت کو کیوں منتخب نہیں کیا : { وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ۔ } الزخرف ”اور کہنے لگے کہ کیوں نہیں اتارا گیا یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی عظیم شخص پر ؟“ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : { اَھُمْ یَـقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَط } الزخرف : 32 ”کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ لوگ تقسیم کریں گے ؟“ آیت زیر مطالعہ میں بھی حضور ﷺ کے خلاف اسی نوعیت کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے خزانے کیا ان لوگوں کے قبضہ قدرت میں ہیں ؟ اور کیا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے فیصلے کرنے میں ان لوگوں کی مرضی و منشا کا پابند ہے ؟
أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ ۖ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ
📘 آیت 38{ اَمْ لَہُمْ سُلَّـمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیْہِ ج } ”کیا ان کے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے جس کے ذریعے سے یہ آسمان کی خبریں سن لیتے ہیں ؟“ { فَلْیَاْتِ مُسْتَمِعُہُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ۔ } ”اگر ایسا ہے تو ان کا سننے والا کوئی واضح دلیل لائے۔“
أَمْ لَهُ الْبَنَاتُ وَلَكُمُ الْبَنُونَ
📘 آیت 39{ اَمْ لَہُ الْبَنٰتُ وَلَـکُمُ الْبَنُوْنَ۔ } ”کیا اس کے لیے تو بیٹیاں ہیں اور تمہارے لیے بیٹے ؟“
وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ
📘 آیت 4{ وَّالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ۔ } ”اور قسم ہے آباد گھر کی۔“ ”البَیْتِ الْمَعْمُوْر“ سے بعض مفسرین بیت اللہ مراد لیتے ہیں کہ اس میں طواف اور عبادت کے لیے ہر وقت لوگ موجود رہتے ہیں۔ بعض دوسرے مفسرین کی رائے میں اس سے مراد خانہ کعبہ کے عین اوپر ساتویں آسمان میں فرشتوں کا کعبہ ہے جو ہر وقت ”معمور“ رہتا ہے ‘ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ بعض مفسرین کی رائے میں اس سے دنیا مراد ہے جو طرح طرح کی مخلوق سے معمور ہے اور مجھے ذاتی طور پر اس رائے سے اتفاق ہے۔ اس لیے کہ بعد والی قسم اسی مفہوم سے مناسبت رکھتی ہے۔
أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ
📘 آیت 40{ اَمْ تَسْئَلُہُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ۔ } ”کیا آپ ان لوگوں سے کوئی اجرت طلب کر رہے ہیں کہ یہ تاوان کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں ؟“ یہاں پر پے در پے سوالات کا انداز خصوصی تاثیر کا حامل ہے۔ یہ مقام زور خطابت ‘ فصاحت ‘ بلاغت ‘ ادبیت اور عذوبت کے حوالے سے گویا قرآن کی معراج ہے۔ ظاہر بات ہے ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔
أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ
📘 آیت 41{ اَمْ عِنْدَہُمُ الْـغَیْبُ فَہُمْ یَکْتُـبُوْنَ۔ } ”کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہیں ؟“
أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ
📘 آیت 42{ اَمْ یُرِیْدُوْنَ کَیْدًاط فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہُمُ الْمَکِیْدُوْنَ۔ } ”کیا یہ لوگ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں ؟ اصل میں تو یہ کافر خود ہی چال کا شکار ہوگئے ہیں۔“ یہ لوگ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہمارے رسول ﷺ اور قرآن کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلا رہے ہیں تاکہ عوام ان سے متاثر نہ ہوں۔ لیکن ان کی یہ باتیں اس قدر بودی ہیں کہ خود ان کے اپنے دل بھی ان کو نہیں مانتے۔ ان کی سازشوں کو اللہ تعالیٰ اسی طرح ناکام کرتا رہتا ہے ‘ جیسا کہ سورة الطارق میں فرمایا گیا : { اِنَّھُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا - وَّاَکِیْدُ کَیْدًا۔ } ”یہ لوگ تو اپنی تدبیروں میں لگے ہوئے ہیں اور میں اپنی تدبیر کر رہا ہوں۔“
أَمْ لَهُمْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ
📘 آیت 43{ اَمْ لَہُمْ اِلٰـــہٌ غَیْرُ اللّٰہِ ط سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ۔ } ”کیا ان کے لیے اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ بھی ہے ؟ پاک ہے اللہ اس سے جو شرک یہ کر رہے ہیں۔“
وَإِنْ يَرَوْا كِسْفًا مِنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَرْكُومٌ
📘 آیت 44{ وَاِنْ یَّرَوْا کِسْفًا مِّنَ السَّمَآئِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْکُوْمٌ۔ } ”اور اگر کبھی یہ دیکھیں آسمان کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا تو کہیں گے کہ یہ تو بادل ہیں تہ بر تہ۔“ ان کی حالت تو یہ ہے کہ اگر آسمان کا کوئی ٹکڑا بھی عذاب الٰہی بن کر ان پر گر رہا ہو تو اسے بھی یہ لوگ بارش برسانے والا بادل ہی سمجھیں گے۔ جیسا کہ قوم عاد کے لوگوں نے اپنی طرف بڑھتے ہوئے عذاب کو دیکھ کر کہا تھا : { ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا } الاحقاف : 24 ”یہ تو بادل ہے جو ہم کو سیراب کرنے والا ہے“۔ یہ بادل برسیں گے تو ہمارے علاقے میں جل تھل کردیں گے۔
فَذَرْهُمْ حَتَّىٰ يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ
📘 آیت 45{ فَذَرْہُمْ حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَہُمُ الَّذِیْ فِیْہِ یُصْعَقُوْنََ۔ } ”تو اے نبی ﷺ ! چھوڑے رکھیے ان کو ‘ یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن سے دوچار ہوں جس میں ان پر بجلی کی کڑک گرے گی۔“ ”چھوڑ دینے“ کے مفہوم میں یہ حکم ابتدائی زمانے کی سورتوں میں تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ جیسے سورة المعارج میں فرمایا گیا : { فَذَرْھُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا حَتّٰی یُلٰـقُوْا یَوْمَھُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ۔ } ”تو اے پیغمبر ﷺ ! ان کو باطل میں پڑے رہنے اور کھیل لینے دو یہاں تک کہ جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ان کے سامنے آموجود ہو“۔ سورة القلم میں فرمایا گیا : { فَذَرْنِیْ وَمَنْ یُّـکَذِّبُ بِھٰذَا الْحَدِیْثِط سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِنْ حَیْثُ لاَ یَعْلَمُوْنَ۔ } ”تو آپ مجھ کو اس کلام کے جھٹلانے والوں سے سمجھ لینے دیں۔ ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسے طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی“۔ اس حکم کے تکرار کا مطلب یہی ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان لوگوں کے تمسخر ‘ استہزاء اور دیگر مخالفانہ ہتھکنڈوں کو بالکل خاطر میں نہ لائیں اور تبلیغ و تذکیر کے حوالے سے اپنا مشن جاری رکھیں۔ ان لوگوں کے معاملے کو آپ ﷺ مجھ پر چھوڑ دیں ‘ ان سے میں خود نمٹ لوں گا۔
يَوْمَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ
📘 آیت 46{ یَوْمَ لَا یُغْنِیْ عَنْہُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا وَّلَا ہُمْ یُنْصَرُوْنَ۔ } ”جس دن ان کی چالیں ان کے کسی کام نہ آسکیں گی اور نہ ہی ان کی کوئی مدد ہی ہوگی۔“ ان کی ساری چالیں ناکام ہوجائیں گی اور کوئی مددگار ان کی مدد کو نہ پہنچ سکے گا۔
وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَٰلِكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
📘 آیت 47{ وَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِکَ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ } ”اور ان ظالموں کے لیے اس آخرت کے عذاب کے علاوہ بھی ایک عذاب ہے لیکن ان کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔“ اس عذاب سے یا تو قحط مکہ کا عذاب مراد ہے جس کا ذکر سورة الدخان میں ہے اور یا پھر غزوئہ بدر کے دن کا عذاب جس دن مکہ کے ستر سردار مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ
📘 آیت 48{ وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ } ”اور اے نبی ﷺ آپ اپنے ربّ کے فیصلے کا انتظار کیجیے۔“ ابتدائی مکی دور کی سورتوں میں یہ حکم بار بار آیا ہے۔ خصوصاً زیر مطالعہ گروپ کی سورتوں اور 29 ویں پارے کی سورتوں میں تو فَاصْبِرْ یا وَاصْبِرْکے صیغے کی بہت تکرار ملتی ہے۔ سورة النحل میں فرمایا گیا : { وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلاَّ بِاللّٰہِ } آیت 127 ”آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر تو اللہ ہی کے سہارے پر ہے“۔ سورة الاحقاف میں حضور ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا : { فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ } آیت 35 ”پس آپ بھی صبر کیجیے جیسے ہمارے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا تھا“۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کی زیادتیاں برداشت کیں۔ سورة المزمل میں ارشاد ہوا : { وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَـقُوْلُوْنَ } آیت 10 ”اور اس پر صبر کیجیے جو یہ لوگ آپ کے خلاف باتیں بنا رہے ہیں“۔ سورة المدثر میں فرمایا گیا : { وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ۔ } ”اور آپ اپنے رب کے لیے صبر کریں“۔ غرض ابتدائی مکی دور کی سورتوں میں رسول اللہ ﷺ کو براہ راست مخاطب کر کے بار بار ہدایت کی جاتی رہی کہ آپ صبر کا دامن مضبوطی سے تھا میں رہیں۔ عربی میں ”صبر“ کے بعد اگر ”ل“ آجائے جیسے کہ آیت زیر مطالعہ میں ہے ‘ تو اس کے معنی انتظار کرنے کے ہوتے ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کا ترجمہ اسی مفہوم کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ { فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا } ”بیشک آپ ہماری نگاہوں میں ہیں۔“ آپ ﷺ مسلسل ہماری نظروں کے سامنے ہیں ‘ ہم آپ کے حالات سے پوری طرح باخبر ہیں۔ ہم آپ ﷺ کی نگہبانی کر رہے ہیں ‘ آپ کو آپ کے حال پر نہیں چھوڑ دیا۔ بالکل یہی مضمون سورة یونس کی آیت 61 میں بھی آیا ہے :{ وَمَا تَـکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلاَ تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ ط } ”اور اے نبی ﷺ ! نہیں ہوتے آپ کسی بھی کیفیت میں اور نہیں پڑھ رہے ہوتے آپ قرآن میں سے کچھ اور اے مسلمانو ! تم نہیں کر رہے ہوتے کوئی بھی اچھا عمل مگر یہ کہ ہم تمہارے پاس موجود ہوتے ہیں جب تم اس میں مصروف ہوتے ہو۔“ { وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ۔ } ”اور آپ تسبیح کرتے رہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ جب آپ کھڑے ہوں۔“ اس بارے میں عام رائے یہی ہے کہ یہ حضور ﷺ کی تہجد کی نماز کی طرف اشارہ ہے ‘ کیونکہ آغاز میں تو وہی ایک نماز تھی۔ جیسا کہ سورة المزمل کی ان آیات میں قیام اللیل کا ذکر ہے :{ یٰٓــاَیـُّـھَا الْمُزَمِّلُ۔ قُمِ الَّــیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا۔ نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا۔ اَوْ زِدْ عَلَـیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا۔ } ”اے کپڑا اوڑھنے والے ! رات کو قیام کیا کرو مگر ساری رات نہیں بلکہ کم۔ یعنی نصف رات یا اس سے کچھ کم کرلو۔ یا اس پر کچھ زیادہ کرلو ‘ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔“
وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ
📘 آیت 49{ وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ } ”اور رات کے ایک حصے میں بھی آپ اس کی تسبیح کریں“ گویا تہجد کے علاوہ بھی رات کے مختلف حصوں میں حضور ﷺ کو تسبیح وتحمید کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ ابتدائی دور کی ان سورتوں میں جن اوقات کو اللہ کے ذکر کے لیے مخصوص کرنے کے احکام دیے گئے ہیں ‘ بعد میں جب پانچ اوقات کی نماز فرض ہوئی تو وہی اوقات مختلف نمازوں کے اوقات قرار پائے۔ چناچہ اس حکم کے مطابق مغرب اور عشاء کی نمازیں فرض ہوئیں ‘ کیونکہ غروب آفتاب سے رات شروع ہوجاتی ہے اور عشاء کی نماز بھی رات کے ایک حصے میں ہی ادا کی جاتی ہے۔ { وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ۔ } ”اور ستاروں کے پیٹھ موڑتے وقت بھی آپ تسبیح کیجیے۔“ جب ستاروں کا قافلہ کوچ کرتا ہے تو صبح کی آمد آمد ہوتی ہے۔ اس سے صبح صادق کا وقت مراد ہے اور بعد میں اس وقت پر نماز فجر فرض ہوئی۔
وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ
📘 آیت 5{ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ۔ } ”اور قسم ہے اونچی چھت کی۔“ اس سے آسمان مراد ہے۔ پچھلی آیت کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ دنیا ایک گھر کی مانند ہے جس میں انسان آباد ہیں اور آسمان اس گھر کی چھت ہے۔
وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ
📘 آیت 6{ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ۔ } ”اور قسم ہے ابلتے ہوئے سمندر کی۔“ اس سے سمندر کی وہ کیفیت مراد ہے جسے ہم اپنی زبان میں ”موج زن سمندر“ یا ”ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر“ کہہ کر بیان کرتے ہیں۔ سمندر کو دیکھنے سے واقعتا ایسے محسوس بھی ہوتا ہے جیسے یہ جوش سے ابل رہا ہے۔ بہرحال جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے ان قسموں کے معانی و مفاہیم کے بارے میں مفسرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ البتہ ان قسموں کا مقسم علیہ وہی ہے جو کہ سورة الذاریات کی قسموں کا مقسم علیہ ہے۔
إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ
📘 آیت 7{ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ۔ } ”تیرے رب کا عذاب یقینا واقع ہو کر رہے گا۔“ اس سے قیامت کا سخت دن مراد ہے جس کے اٹل ہونے کی حقیقت کو سورة الشوریٰ کی آیت 47 میں { یَوْمٌ لاَّ مَرَدَّ لَـہٗ } ”وہ دن جسے لوٹایا نہ جاسکے گا“ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
مَا لَهُ مِنْ دَافِعٍ
📘 آیت 8{ مَّا لَہٗ مِنْ دَافِعٍ۔ } ”اسے کوئی روکنے والا نہ ہوگا۔“
يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا
📘 آیت 9{ یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَآئُ مَوْرًا۔ } ”جس روز کہ آسمان بری طرح لرزے گا۔“