🕋 تفسير سورة الملك
(Al-Mulk) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 آیت 1{ تَبٰـرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ } ”بہت ہی بابرکت ہے وہ ہستی جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے“ یہ دین اسلام کے سیاسی منشور کی بنیادی شق ہے۔ یعنی پوری کائنات کا اقتدار اور اختیار کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہے۔ دنیا میں اگر انسانوں کے ہاں اللہ تعالیٰ کے احکام سے کہیں بغاوت دکھائی دیتی ہے تو وہ بھی دراصل اسی کے عطا کردہ اختیار کی وجہ سے ہے۔ اس میں ایمان کے دعوے داروں کا امتحان بھی ہے کہ وہ بھلا اللہ کے اقتدار کو چیلنج کرنے والوں کے مقابلے میں کیا طرزعمل اختیار کرتے ہیں۔ ورنہ سورج ‘ چاند ‘ ستارے ‘ کہکشائیں ‘ ہوائیں اور کائنات کا ذرّہ ذرّہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند اور تابع ہے۔ پوری کائنات پر اللہ تعالیٰ کی حکومت اور قدرت کی کیفیت یہ ہے کہ کہیں کوئی ایک ذرہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا اور حرکت کرتا ہوا کوئی ذرہ اس کی مشیت کے بغیر ساکن نہیں ہوسکتا۔ اپنی تمام مخلوق میں صرف انسان کو اس نے ایک حد تک ارادے اور عمل کا اختیار دیا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ اس میں انسان کی آزمائش مقصود ہے۔ لیکن انسان ہے کہ ہلدی کی یہ گانٹھ مل جانے پر پنساری بن بیٹھا ہے۔ اب کہیں وہ فرعون بن کر اللہ کے مقابلے میں ”میری حکومت ‘ میرا ملک اور میرا مثالی نظام“ جیسے دعو وں کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے تو کہیں کسی فرعون کی چاکری اور وفاداری کی دھن میں مقتدر حقیقی کے احکام کو پامال کرتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں انسان کی بےبسی کا عالم یہ ہے کہ خود اپنے جسم پر بھی اسے کوئی اختیار نہیں۔ ظاہر ہے انسان کے جسم کی فزیالوجی اور اناٹومی کا سارا نظام بھی تو اللہ تعالیٰ کے طے کردہ قانون کے تابع ہے۔ اگر کوئی شخص چاہے کہ وہ اپنے دل کو آرام دینے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے بند کردے اور پھر اپنی مرضی سے دوبارہ رواں کرلے تو اس کے لیے یہ ممکن نہیں۔ { وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُ۔ } ”اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“
وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ
📘 آیت 10{ وَقَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ } ”اور وہ کہیں گے کہ اگر ہم سنتے اور عقل سے کام لیتے“ { مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔ } ”تو ہم نہ ہوتے ان جہنم والوں میں سے۔“ اس آیت میں انبیاء و رسل علیہ السلام کی تکذیب کرنے والوں کے اصل گناہ کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ اس اعتبار سے قرآن مجید کا یہ مقام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ایسے تمام لوگوں کا بنیادی اور اصل جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی دعوت سنی اَن سنی کردی تھی۔ اس دعوت پر انہوں نے کبھی سنجیدگی سے غو رہی نہ کیا اور نہ ہی پیغمبروں کی باتوں کو کبھی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی زحمت گوارا کی۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیکھنے ‘ سننے ‘ سمجھنے وغیرہ کی صلاحیتیں اسی لیے تو دی ہیں کہ وہ ان صلاحیتوں کو کام میں لائے اور اپنے نفع و نقصان کے حوالے سے درست فیصلے کرے۔ اسی بنیاد پر آخرت میں انسان کی ان تمام صلاحیتوں کا احتساب بھی ہوگا : { اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً۔ } بنی اسرائیل ”یقینا سماعت ‘ بصارت اور عقل سبھی کے بارے میں بازپرس کی جائے گی“۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو یہ صلاحیتیں استعمال میں لانے کے لیے دی ہیں ‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ حق کی دعوت کے جواب میں اکثر لوگ ان صلاحیتوں سے بالکل بھی کام نہیں لیتے۔ بلکہ اگر بات سمجھ میں آبھی جائے اور دل اس کی صداقت کی گواہی بھی دے دے ‘ تب بھی عملی طور پر قدم آگے نہیں بڑھتا۔ صرف اس لیے کہ آباء و اَجداد کے اعتقادات و نظریات ہیں ‘ برادری کے رسم و رواج ہیں ! انہیں کیسے چھوڑ دیں ؟ اور اگر چھوڑیں گے تو لوگ کیا کہیں گے ؟ اسی نوعیت کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ پرانے مسلک سے روگردانی بھلا کیونکر ممکن ہے ؟ اتنے عرصے سے اس جماعت میں ہیں ‘ اب یکدم اس سے کیسے بےوفائی کردیں ؟
فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ فَسُحْقًا لِأَصْحَابِ السَّعِيرِ
📘 آیت 1 1{ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِہِمْ } ”پس وہ اپنے اصل گناہ کا اعتراف کرلیں گے۔“ { فَسُحْقًا لاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔ } ”پس پھٹکار ہے جہنمی لوگوں کے لیے۔“ اب تقابل کے طور پر آگے اہل جنت کا تذکرہ آ رہا ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ
📘 آیت 1 1{ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِہِمْ } ”پس وہ اپنے اصل گناہ کا اعتراف کرلیں گے۔“ { فَسُحْقًا لاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔ } ”پس پھٹکار ہے جہنمی لوگوں کے لیے۔“ اب تقابل کے طور پر آگے اہل جنت کا تذکرہ آ رہا ہے۔
وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
📘 آیت 1 1{ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِہِمْ } ”پس وہ اپنے اصل گناہ کا اعتراف کرلیں گے۔“ { فَسُحْقًا لاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔ } ”پس پھٹکار ہے جہنمی لوگوں کے لیے۔“ اب تقابل کے طور پر آگے اہل جنت کا تذکرہ آ رہا ہے۔
أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
📘 آیت 14{ اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ } ”کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ؟“ یہ آیت اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ ہم میں سے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دعوت کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق دی ہے ‘ انہیں ایسی آیات ازبر ہونی چاہئیں۔ ایک شخص نے اگر گھڑی بنائی ہے تو ظاہر ہے اس سے بڑھ کر بھلا اور کون اس گھڑی کے بارے میں جان سکتا ہے ؟ چناچہ اللہ تعالیٰ جو انسان کا خالق ہے ‘ اس سے اس کے ظاہر اور باطن کا کوئی پہلو بھلا کیسے پوشیدہ رہ سکتا ہے ! { وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۔ } ”اور وہ بہت باریک بین ہے ‘ ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے۔“
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
📘 آیت 15{ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَـکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا } ”وہی ہے جس نے تمہارے لیے بنا دیا ہے زمین کو پست“ اس نے زمین کو تمہارے ماتحت اور تابع حکم کر رکھا ہے۔ { فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا } ”تو تم چلو پھرو اس کے کندھوں کے مابین“ زمین کے کندھوں سے مراد اس کے وہ میدان ہیں جو انسان کو بہت وسیع اور کشادہ نظر آتے ہیں۔ جیسے ایک چیونٹی اگر ہاتھی کے کندھوں کے درمیان چل پھر رہی ہوگی تو ظاہر ہے اس جگہ کو وہ بہت وسیع میدان سمجھے گی۔ { وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖط وَاِلَـیْہِ النُّشُوْرُ۔ } ”اور اس کے دیے ہوئے رزق سے کھائو پیو ‘ اور یاد رکھو کہ تم نے اسی کی طرف زندہ ہو کر جانا ہے۔“
أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ
📘 آیت 16{ ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوْرُ۔ } ”کیا تم بےخوف ہوگئے ہو اس سے جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے اور وہ یکایک لرزنے لگے۔“ کیا تم اس بات سے خائف نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین پر زلزلہ آجائے ‘ زمین شق ہوجائے اور تم اس کے اندر دھنس جائو ؟
أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ
📘 آیت 16{ ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوْرُ۔ } ”کیا تم بےخوف ہوگئے ہو اس سے جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے اور وہ یکایک لرزنے لگے۔“ کیا تم اس بات سے خائف نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین پر زلزلہ آجائے ‘ زمین شق ہوجائے اور تم اس کے اندر دھنس جائو ؟
وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ
📘 آیت 16{ ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوْرُ۔ } ”کیا تم بےخوف ہوگئے ہو اس سے جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے اور وہ یکایک لرزنے لگے۔“ کیا تم اس بات سے خائف نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین پر زلزلہ آجائے ‘ زمین شق ہوجائے اور تم اس کے اندر دھنس جائو ؟
أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَٰنُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ
📘 یعنی اس کائنات کی ایک ایک مخلوق اور ایک ایک چیز جس قانونِ طبعی پر چل رہی ہے وہ اللہ ہی کا وضع کردہ ہے۔
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ
📘 آیت 2 { نِ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا } ”جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔“ { وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ۔ } ”اور وہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت بخشنے والا بھی۔“ یہ ہے انسانی زندگی اور موت کی تخلیق کا اصل مقصد۔ جو کوئی اس فلسفے کو نہیں سمجھے گا اسے زندگی ‘ موت اور موت کے بعد پھر زندگی کی یہ باتیں محض افسانہ معلوم ہوں گی۔ جیسے ایک معروف جاہلی شاعر نے اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہا تھا : حَیَاۃٌ ثُمَّ مَوْتٌ ثُمَّ بَعْثٌ حَدِیْثُ خَرَافَۃٍ یا اُمَّ عَمرو !”کہ یہ زندگی ‘ پھر موت ‘ پھر زندگی ‘ اے اُم عمرو ! یہ کیا حدیث خرافات ہے ؟“ معاذ اللہ ! انسانی زندگی کا سفر دراصل عالم ارواح سے شروع ہو کر ابد الآباد کی سرحدوں تک جاتا ہے۔ انسان کی دنیوی زندگی ‘ موت اور بعث بعد الموت اس طویل سلسلہ ٔ حیات کے مختلف مراحل ہیں۔ جیسا کہ اس آیت میں آیا ہے : { وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْـکُمْ ثُمَّ اِلَـیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔ } البقرۃ ”اور تم مردہ تھے ‘ پھر اس نے تمہیں زندہ کیا ‘ پھر وہ تمہیں مارے گا ‘ پھر جلائے گا ‘ پھر تم اسی کی طرف لوٹا دیے جائو گے“۔ زندگی کے اس تسلسل کے اندر موت کے مرحلے کی توجیہہ میر تقی میر نے ان الفاظ میں بیان کی ہے : ؎موت اِک زندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر !بہرحال انسان کی دنیوی زندگی ایک وقفہ امتحان ہے اور موت اس وقفے کے اختتام کی گھنٹی ہے : { نَحْنُ قَدَّرْنَا بَـیْـنَـکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ۔ } الواقعۃ۔ اس وقفہ امتحان کا انداز بالکل اسکولوں اور کالجوں کے امتحانات جیسا ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ ان امتحانات کے لیے چند گھنٹوں کا وقت دیا جاتا ہے ‘ جبکہ انسانی زندگی کے حقیقی امتحان کا دورانیہ اوسطاً تیس چالیس برس پر محیط ہے۔ ظاہر ہے انسان کی زندگی کے ابتدائی بیس پچیس برس تو بچپنے اور غیر سنجیدہ رویے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ پھر اگر کسی کو بڑھاپا دیکھنا نصیب ہو تو اپنی آخری عمر میں وہ { لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْم بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا } الحج : 5 کی عبرت ناک تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ لے دے کر ایک انسان کو عمل کے لیے شعور کی عمر کے اوسطاً تیس چالیس سال ہی ملتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم خضر راہ میں ”زندگی“ کے عنوان کے تحت زندگی کے اس فلسفے پر کمال مہارت سے روشنی ڈالی ہے۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :؎برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم ِجاں ہے زندگی !؎تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے ناپ جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی !؎قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانند ِحباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی !ان اشعار میں علامہ اقبال نے دراصل قرانی آیات ہی کی ترجمانی کی ہے۔ مندرجہ بالا آخری شعر قلزمِ ‘ ہستی… آیت زیر مطالعہ کے مفہوم کا ترجمان ہے ‘ جبکہ پہلے شعر میں سورة البقرۃ کی آیت 154 { وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَـآئٌ …} کا بنیادی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ ظاہر ہے عام طور پر تو زندہ جان کو ہی زندگی کا نام دیا جاتا ہے ‘ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقیقی اور دائمی زندگی جان دے دینے تسلیم ِجاں سے حاصل ہوتی ہے۔
أَمَّنْ هَٰذَا الَّذِي هُوَ جُنْدٌ لَكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِنْ دُونِ الرَّحْمَٰنِ ۚ إِنِ الْكَافِرُونَ إِلَّا فِي غُرُورٍ
📘 آیت 20{ اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِیْ ہُوَ جُنْدٌ لَّــکُمْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ } ”بھلا وہ کون ہے جو تمہارا لشکر بن کر تمہاری مدد کرے رحمن کے مقابلہ میں ؟“ { اِنِ الْکٰفِرُوْنَ اِلَّا فِیْ غُرُوْرٍ۔ } ”نہیں ہیں یہ کافر مگر دھوکے میں مبتلا ہیں۔“ حقیقت یہ ہے کہ یہ منکرین صرف دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔
أَمَّنْ هَٰذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ ۚ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ
📘 آیت 21{ اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِیْ یَرْزُقُـکُمْ اِنْ اَمْسَکَ رِزْقَہٗ } ”پھر بھلا کون ہے وہ جو تمہیں رزق دے سکے اگر اللہ اپنے رزق کو روک لے ؟“ { بَلْ لَّجُّوْا فِیْ عُتُوٍّوَّنُفُوْرٍ۔ } ”بلکہ یہ لوگ اپنی سرکشی اور حق سے گریز میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔“ اگلی آیت فلسفہ و حکمت ِقرآن کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔
أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلَىٰ وَجْهِهِ أَهْدَىٰ أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
📘 آیت 22 { اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُکِبًّا عَلٰی وَجْہِہٖٓ اَہْدٰٓی اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ } ”تو کیا وہ شخص جو اپنے منہ کے بل گھسٹ رہا ہے زیادہ ہدایت پر ہے یا وہ جو سیدھا ہو کر چل رہا ہے ایک سیدھے راستے پر ؟“ اس آیت میں دو قسم کے انسانوں کے ”طرزِ زندگی“ کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ ایک قسم کے انسان وہ ہیں جو انسان ہوتے ہوئے بھی حیوانی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جیسے ان کی حیوانی جبلت انہیں چلا رہی ہے بس اسی طرح وہ چلے جا رہے ہیں۔ بظاہر تو وہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندیاں بھی کرتے ہیں ‘ معاشی دوڑ دھوپ میں بھی سرگرمِ عمل رہتے ہیں ‘ کھاتے پیتے بھی ہیں اور دوسری ضروریات بھی پوری کرتے ہیں ‘ لیکن یہ سب کچھ وہ اپنے جبلی داعیات کے تحت کرتے ہیں۔ جبلی داعیات کی تعمیل و تکمیل کے علاوہ ان کے سامنے زندگی کا کوئی اور مقصد ہے ہی نہیں۔ ان لوگوں کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص فاصلہ طے کرنے کے لیے چوپایوں کی طرح اوندھا ہو کر منہ کے بل خود کو گھسیٹ رہا ہو۔ ظاہر ہے ایسا شخص نہ تو راستہ دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی اسے اپنی منزل کی کچھ خبر ہوتی ہے۔ دوسری مثال اس شخص کی ہے جو سیدھے راستے پر انسانوں کی طرح سیدھا کھڑے ہو کر چل رہا ہے۔ اس مثال کے مصداق وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی منزل طے کر رکھی ہے۔ وہ طے شدہ منزل پر پہنچانے والے درست راستے کا تعین بھی کرچکے ہیں اور پوری یکسوئی کے ساتھ اس راستے پر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ ظاہر ہے دنیا میں ان لوگوں کی منزل اقامت دین ہے جبکہ آخرت کے حوالے سے وہ رضائے الٰہی کے حصول کے متمنی ہیں۔ آیت زیر مطالعہ میں جو فلسفہ بیان ہوا ہے اس کی وضاحت قبل ازیں سورة الحج کی آیت 73 کے تحت بھی کی جاچکی ہے۔ اس فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز انسان کو حیوانات سے ممیز و ممتاز کرتی ہے وہ اس کا نظریہ اور اس کی سوچ ہے۔ گویا انسان حقیقت میں وہی ہے جس کا کوئی نظریہ ہو ‘ کوئی آئیڈیل اور کوئی نصب العین ہو۔ جو انسان کسی نظریے اور نصب العین کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان { اُولٰٓـئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّط } الاعراف : 179 کے مصداق ہیں ‘ یعنی وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ ظاہر ہے جانوروں کو تو شعور کی اس سطح پر پیدا ہی نہیں کیا گیا کہ وہ اپنی زندگی کا کوئی نصب العین متعین کرسکیں۔ ان کی تخلیق کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ انسان کسی نہ کسی طور پر انہیں اپنے کام میں لائیں اور بس۔ سورة الحج کی مذکورہ آیت آیت 73 میں بتوں اور ان کے پجاریوں کی تمثیل کے پردے میں یہ حقیقت بھی واضح کردی گئی ہے کہ جس انسان کا نظریہ یا آئیڈیل بلند ہوگا اس کی شخصیت بھی بلند ہوگی ‘ جبکہ گھٹیا آئیڈیل کے پیچھے بھاگنے والے انسان کی سوچ اور شخصیت بھی گھٹیا ہو کر رہ جائے گی۔
قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۖ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ
📘 آیت 23{ قُلْ ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ وَجَعَلَ لَـکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ } ”کہہ دیجیے کہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لیے کان ‘ آنکھیں اور دل بنائے۔“ لغوی اعتبار سے لفظ ’ اَنْشَاَ ‘ اٹھانے اور پرورش کرنے کا مفہوم بھی دیتا ہے۔ لفظ ”فواد“ کے مفہوم کی وضاحت سورة بنی اسرائیل کی آیت 36 کے تحت گزر چکی ہے۔ عام طور پر اس لفظ کا ترجمہ ”دل“ کیا جاتا ہے لیکن اصل میں اس سے مراد انسان کی وہ صلاحیت ہے جس کی مدد سے وہ دستیاب معلومات کا تجزیہ کر کے نتائج اخذ کرتا ہے۔ چناچہ اس لفظ میں عقل یا سمجھ بوجھ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں جب انسان کی طبعی صلاحیتوں یا حواس کا تذکرہ ہوتا ہے تو السَّمْع سماعت کا ذکر پہلے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی علم کے ذرائع میں پہلا اور بنیادی ذریعہ اس کی سماعت ہے۔ پچھلی نسلوں کے علمی آثار اور تجرباتی علم سے استفادہ کرنا ہر دور کے انسان کی ضرورت رہی ہے۔ اس علم کو بھی نسل در نسل منتقل کرنے کا بنیادی ذریعہ انسان کی سماعت ہی ہے۔ دوسرے حواس یا ذرائع اس میں اپنا اپنا حصہ بعد کے مراحل میں شامل کرتے ہیں۔ { قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ۔ } ”بہت ہی کم شکر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔“
قُلْ هُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
📘 آیت 23{ قُلْ ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ وَجَعَلَ لَـکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ } ”کہہ دیجیے کہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لیے کان ‘ آنکھیں اور دل بنائے۔“ لغوی اعتبار سے لفظ ’ اَنْشَاَ ‘ اٹھانے اور پرورش کرنے کا مفہوم بھی دیتا ہے۔ لفظ ”فواد“ کے مفہوم کی وضاحت سورة بنی اسرائیل کی آیت 36 کے تحت گزر چکی ہے۔ عام طور پر اس لفظ کا ترجمہ ”دل“ کیا جاتا ہے لیکن اصل میں اس سے مراد انسان کی وہ صلاحیت ہے جس کی مدد سے وہ دستیاب معلومات کا تجزیہ کر کے نتائج اخذ کرتا ہے۔ چناچہ اس لفظ میں عقل یا سمجھ بوجھ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں جب انسان کی طبعی صلاحیتوں یا حواس کا تذکرہ ہوتا ہے تو السَّمْع سماعت کا ذکر پہلے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی علم کے ذرائع میں پہلا اور بنیادی ذریعہ اس کی سماعت ہے۔ پچھلی نسلوں کے علمی آثار اور تجرباتی علم سے استفادہ کرنا ہر دور کے انسان کی ضرورت رہی ہے۔ اس علم کو بھی نسل در نسل منتقل کرنے کا بنیادی ذریعہ انسان کی سماعت ہی ہے۔ دوسرے حواس یا ذرائع اس میں اپنا اپنا حصہ بعد کے مراحل میں شامل کرتے ہیں۔ { قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ۔ } ”بہت ہی کم شکر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔“
وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 آیت 23{ قُلْ ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ وَجَعَلَ لَـکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ } ”کہہ دیجیے کہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لیے کان ‘ آنکھیں اور دل بنائے۔“ لغوی اعتبار سے لفظ ’ اَنْشَاَ ‘ اٹھانے اور پرورش کرنے کا مفہوم بھی دیتا ہے۔ لفظ ”فواد“ کے مفہوم کی وضاحت سورة بنی اسرائیل کی آیت 36 کے تحت گزر چکی ہے۔ عام طور پر اس لفظ کا ترجمہ ”دل“ کیا جاتا ہے لیکن اصل میں اس سے مراد انسان کی وہ صلاحیت ہے جس کی مدد سے وہ دستیاب معلومات کا تجزیہ کر کے نتائج اخذ کرتا ہے۔ چناچہ اس لفظ میں عقل یا سمجھ بوجھ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں جب انسان کی طبعی صلاحیتوں یا حواس کا تذکرہ ہوتا ہے تو السَّمْع سماعت کا ذکر پہلے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی علم کے ذرائع میں پہلا اور بنیادی ذریعہ اس کی سماعت ہے۔ پچھلی نسلوں کے علمی آثار اور تجرباتی علم سے استفادہ کرنا ہر دور کے انسان کی ضرورت رہی ہے۔ اس علم کو بھی نسل در نسل منتقل کرنے کا بنیادی ذریعہ انسان کی سماعت ہی ہے۔ دوسرے حواس یا ذرائع اس میں اپنا اپنا حصہ بعد کے مراحل میں شامل کرتے ہیں۔ { قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ۔ } ”بہت ہی کم شکر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔“
قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ
📘 آیت 26 { قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ } ”کہہ دیجیے کہ یہ علم تو اللہ ہی کے پاس ہے“ قیامت کے وقوع کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی کچھ نہیں جانتا : { اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِج } لقمان : 34 ”یقینا اللہ ہی ہے جس کے پاس ہے قیامت کا علم۔“ { وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِیْـرٌ مُّبِیْنٌ۔ } ”اور میں تو بس ایک واضح طور پر خبردار کردینے والا ہوں۔“
فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هَٰذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَدَّعُونَ
📘 آیت 27{ فَلَمَّا رَاَوْہُ زُلْـفَۃً سِیْــٓئَـتْ وُجُوْہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } ”پھر جب وہ دیکھیں گے اس کو اپنے قریب آتے تو ان کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے“ { وَقِیْلَ ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَدَّعُوْنَ۔ } ”اور کہا جائے گا ‘ یہ ہے وہ چیز جس کا تم مطالبہ کرتے ‘ تھے۔“ ہماری وعیدوں اور تنبیہات کے جواب میں تم لوگ طنزیہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ لائو دکھائو کیسی ہے وہ جہنم ! لائو ابھی لے آئو ہمارے اوپر وہ عذاب موعود ! تو لو دیکھ لو اب ‘ یہ ہے جہنم ! تمہارا اصل اور دائمی ٹھکانہ !
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَهْلَكَنِيَ اللَّهُ وَمَنْ مَعِيَ أَوْ رَحِمَنَا فَمَنْ يُجِيرُ الْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
📘 آیت 28{ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ اَہْلَکَنِیَ اللّٰہُ وَمَنْ مَّعِیَ اَوْ رَحِمَنَالا فَمَنْ یُّجِیْرُ الْکٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ } ”اے نبی ﷺ ! ان سے کہیے کہ اگر اللہ مجھے اور جو لوگ میرے ساتھ ہیں ‘ ان کو ہلاک کردے یا وہ ہم پر رحم کرے ‘ تو کافروں کو دردناک عذاب سے کون بچائے گا ؟“ یعنی ہم نے تو اپنا معاملہ اپنے اللہ کے سپرد کر رکھا ہے۔ ہم اللہ کے بتائے ہوئے جس راستے پر چل رہے ہیں اس میں یا تو ہماری جانیں چلی جائیں گی یا ہم فتح یاب ہوں گے۔ ان میں سے جو صورت بھی ہو ‘ ہمارے لیے تو کامیابی ہی کامیابی ہے۔ بلکہ ہماری اصل اور ابدی کامیابی تو وہ ہے جسے تم ہلاکت سمجھتے ہو۔ بہرحال صورت ِحال جو بھی ہو ‘ ان دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی اِحْدَی الْحُسْنَـیَیْنِ التوبۃ : 52 تو ہمیں مل کر ہی رہے گی۔ ہمارے غلبے اور فتح کی صورت میں تو تم بھی ہمیں کامیاب قرار دو گے ‘ لیکن ہم اگر بقول تمہارے ہلاک بھی ہوگئے تو تم اپنے بارے میں بھی تو سوچو کہ تم لوگوں کو اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا ؟
قُلْ هُوَ الرَّحْمَٰنُ آمَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
📘 آیت 29{ قُلْ ہُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے کہ وہ تو رحمن ہے ‘ ہم اس پر ایمان لاچکے ہیں اور اسی پر ہمارا توکل ّہے۔“ یاد رہے کہ زیر مطالعہ مکی سورتیں بالکل ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھیں ‘ اسی لیے ان میں حضور ﷺ اور اہل ایمان کے ساتھ کفار و مشرکین کی بالکل ابتدائی ردّوقدح کا عکس نظرآتا ہے۔ اس کشمکش کا نقطہ عروج سورة الانعام ‘ سورة الاعراف اور سورة ہود میں دیکھا جاسکتا ہے۔ { فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ ہُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ } ”تو عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کھلی گمراہی میں کون تھا !“ آنے والا وقت واضح کر دے گا کہ ہم گمراہ تھے یا تم۔
الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِنْ فُطُورٍ
📘 آیت 3{ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاط } ”وہ اللہ کہ جس نے بنائے سات آسمان ایک دوسرے کے اوپر۔“ یہ آیت آیات متشابہات میں سے ہے۔ ابھی تک انسان سات آسمانوں کی حقیقت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ { مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰـوُتٍ } ”تم نہیں دیکھ پائو گے رحمن کی تخلیق میں کہیں کوئی فرق۔“ اس کائنات کا نظام اور اس میں موجود ایک ایک چیز کی تخلیق اس قدر خوبصورت ‘ محکم ‘ مربوط اور کامل ہے کہ اس میں کسی خلل ‘ نقص ‘ رخنے ‘ بدنظمی یا عدم تناسب کا کہیں شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ اس حقیقت کی گواہی نسل انسانی نے اپنے اجتماعی علم کی بنیاد پر ہر زمانے میں دی ہے۔ ہر زمانے کے سائنس دانوں نے فلکیات ‘ ارضیات ‘ طبیعیات ‘ حیوانیات ‘ نباتات غرض سائنس کے تمام شعبوں میں حیران کن تحقیقات کی ہیں ‘ لیکن آج تک کوئی ایک محقق یا سائنسدان یہ نہیں کہہ سکا کہ قدرت کی بنائی ہوئی فلاں چیز میں فلاں نقص ہے یا یہ کہ فلاں چیز اگر ایسے کی بجائے ویسے ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتی۔ { فَارْجِعِ الْبَصَرَلا ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ۔ } ”پھر لوٹائو نگاہ کو ‘ کیا تمہیں کہیں کوئی رخنہ نظر آتا ہے ؟“
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ
📘 آیت 30{ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُکُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْکُمْ بِمَآئٍ مَّعِیْنٍ۔ } ”آپ ﷺ کہیے کہ ذرا سوچو ! اگر تمہارا پانی گہرائی میں اتر جائے تو کون ہے جو لائے گا تمہارے پاس صاف ‘ نتھرا ہواپانی ؟“ آج کے دور میں اس آیت کا مفہوم واضح تر ہو کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ آج متعلقہ ماہرین بار بار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ پانی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور بارشوں کی کمی کے باعث مستقبل قریب میں زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جاسکتی ہے۔ بیشتر علاقوں میں انسانی ‘ حیوانی اور نباتاتی زندگی کا زیادہ تر دار و مدار زیرزمین پانی پر ہی ہے جو عموماً آسانی سے دستیاب بھی ہے۔ صاف شفاف اور میٹھے پانی کا یہ عظیم الشان ذخیرہ ”زندگی“ کے لیے قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ اگر یہ پانی واقعی ایسی گہرائی میں چلا جائے جہاں سے اس کا نکالنا ناممکن یا مشکل ہوجائے تو اس کے نتائج کا تصور بھی روح فرسا ہے۔
ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ
📘 آیت 4{ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَـیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّہُوَ حَسِیْرٌ۔ } ”پھر لوٹائو نگاہ کو بار بار کوئی رخنہ ڈھونڈنے کے لیے ‘ پلٹ آئے گی نگاہ تمہاری طرف ناکام تھک ہار کر۔“ اندازہ کیجیے کہ کس قدر ُ پرزور اسلوب ہے اور کتنا بڑا چیلنج ہے ! بار بار دیکھو ‘ ہر پہلو اور ہر زاویے سے دیکھو ! اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تمہیں کہیں کوئی خلل ‘ نقص یا رخنہ نظر نہیں آئے گا ! ظاہر ہے یہ چیلنج پوری انسانیت کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ بہرحال آج تک کوئی سائنس دان اور کوئی دانشور اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکا۔ گویا اب تک پوری نوع انسانی اس نکتے پر متفق ہے کہ یہ کائنات اور اس کی ایک ایک تخلیق مثالی اور کامل ہے۔ دراصل دنیا بھر کے دانائوں اور دانشوروں کی توجہ اس مثالی تخلیق کی طرف دلا کر انہیں پیغام تو یہ دینا مقصود ہے کہ اے عقل کے اندھو ! کائنات کی خوبصورتی اور کاملیت کو دیکھ کر اس پر حیرت کا اظہار کرنے کے بجائے اس کے خالق کو پہچانو اور اس کی عظمت کے سامنے اپنا سر نیازخم کرو۔ لیکن مقام حیرت ہے کہ ستاروں اور کہکشائوں کی دنیا کے اسرار و عجائب کا کھوج لگانے والے بڑے بڑے سائنسدان اور ماہرین فلکیات بھی اس معاملے میں اپنے ناک تلے کے پتھر سے ٹھوکریں کھاتے رہے۔ ان لوگوں نے اپنی تحقیقات کے دوران بہت کچھ دریافت بھی کیا اور بہت کچھ دیکھا بھی۔ لیکن اس ساری چھان بین میں انہیں اگر نہیں نظر آیا تو اس کائنات کا خالق کہیں نظر نہیں آیا۔ بقول اقبال : ؎ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا !
وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ
📘 آیت 5{ وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ } ”اور ہم نے سب سے قریبی آسمان کو سجا دیا ہے چراغوں سے“ یعنی زمین سے قریب ترین آسمان کو ستاروں سے مزین کردیا گیا ہے۔ { وَجَعَلْنٰـہَا رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ } ”اور ان کو بنا دیا ہے ہم نے شیاطین کو نشانہ بنانے کا ذریعہ“ ان ستاروں میں ایسے میزائل نصب کردیے گئے ہیں جو غیب کی خبروں کی ٹوہ میں عالم بالا کی طرف جانے والے شیاطین ِجن کو نشانہ بناتے ہیں۔ { وَاَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ۔ } ”اور ان کے لیے ہم نے تیار کر رکھا ہے جلا دینے والا عذاب۔“
وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
📘 آیت 6{ وَلِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ عَذَابُ جَہَنَّمَط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔ } ”اور جو لوگ اپنے رب کا کفر کریں چاہے وہ انسان ہوں یا جنات ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے ‘ اور وہ بہت ہی ُ برا ٹھکانہ ہے۔“
إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ
📘 آیت 7{ اِذَآ اُلْقُوْا فِیْہَا سَمِعُوْا لَہَا شَہِیْقًا وَّہِیَ تَفُوْرُ۔ } ”جب وہ اس میں جھونکے جائیں گے تو اسے سنیں گے دھاڑتے ہوئے اور وہ بہت جوش کھا رہی ہوگی۔“ جہنم انہیں دیکھ کر غصے سے دھاڑرہی ہوگی جیسے کوئی بھوکا بھیڑیا اپنے شکار پر جھپٹتے ہوئے غراتا ہے۔ سورة قٓ میں جہنم کے غیظ و غضب کی ایک کیفیت یوں بیان ہوئی ہے : { یَوْمَ نَـقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ۔ } ”جس دن کہ ہم پوچھیں گے جہنم سے کہ کیا تو بھر گئی ؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟“
تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ ۖ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ
📘 آیت 8{ تَـکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ } ”قریب ہوگا کہ وہ غصے سے پھٹ جائے۔“ ایسے معلوم ہوگا کہ ابھی شدت غضب سے پھٹ پڑے گی۔ { کُلَّمَآ اُلْقِیَ فِیْہَا فَوْجٌ سَاَلَہُمْ خَزَنَتُہَآ اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَذِیْرٌ۔ } ”جب بھی ڈالا جائے گا اس میں کسی ایک گروہ کو تو اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے : کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا ؟“ قیامت کے دن ہر قوم کا علیحدہ علیحدہ حساب ہوگا ‘ جیسا کہ سورة النمل کی اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے : { وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّـکَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَـہُمْ یُوْزَعُوْنَ۔ } ”اور ذرا تصور کرو اس دن کا جس دن ہم جمع کریں گے ہر امت میں سے ایک فوج ان لوگوں میں سے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتے تھے ‘ پھر ان کی درجہ بندی کی جائے گی“۔ گویا جیسے جیسے حساب ہوتا جائے گا ‘ اسی ترتیب سے ہر قوم کے مجرمین کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ ہر گروہ کے پہنچنے پر جہنم پر متعین فرشتے ان سے سوال کریں گے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا ؟
قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ
📘 آیت 9{ قَالُوْا بَلٰی قَدْ جَآئَ نَا نَذِیْـــرٌ 5} ”وہ کہیں گے کیوں نہیں ! ہمارے پاس خبردار کرنے والا آیا تھا“ { فَکَذَّبْنَا } ”لیکن ہم نے اسے جھٹلا دیا“ { وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ مِنْ شَیْئٍ } ”اور ہم نے کہا کہ اللہ نے کوئی شے نہیں اتاری۔“ ہم نے اپنے رسولوں علیہ السلام سے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف کوئی کتاب وغیرہ نہیں بھیجی ‘ بلکہ ہم نے تو انہیں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ : { اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ کَبِیْرٍ۔ } ”تم تو کھلی گمراہی میں مبتلا ہوگئے ہو۔“