🕋 تفسير سورة الضحى
(Ad-Duhaa) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ وَالضُّحَىٰ
📘 آیت 21{ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی۔ } ”اور وہ عنقریب راضی ہوجائے گا۔“ یہاں پر یَرْضٰی کی ضمیر کا اشارہ بیک وقت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے اور اس شخصیت کی طرف بھی جس کی صفات کا ذکر ان آیات میں ہو رہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوجائے گا اور ابوبکر صدیق رض بھی راضی ہوجائیں گے۔ گویا یہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ جیسی بشارت ہے کہ اگر اللہ کا یہ بندہ اپنا مال صرف اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے لٹارہا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس سے راضی ہوجائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو آخرت میں اتنا کچھ عطا کرے گا کہ وہ بھی خوش ہوجائے گا۔ یہاں یہ اہم نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ معنوی اعتبار سے اس آیت کا اگلی سورت سورۃ الضحیٰ کی آیت 5 کے ساتھ خصوصی ربط وتعلق ہے جس کی وضاحت سورة الضحیٰ کے مطالعہ کے دوران کی جائے گی۔ یہاں پر زیر مطالعہ سورتوں سورۃ الشمس ‘ سورة اللیل ‘ سورة الضحیٰ اور سورة الانشراح کے مرکزی مضمون کے اہم نکات ایک دفعہ پھر اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے۔ سورة الشمس کی ابتدائی آٹھ آیات قسموں پر مشتمل ہیں۔ اس کے بعد مقسم علیہ کے طور پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نفس انسانی کے اندر نیکی اور بدی کا شعور ودیعت کردیا گیا ہے ‘ اور پھر اس کے بعد دو آیات میں اس حوالے سے کامیابی اور ناکامی کا معیار بھی بتادیا گیا ہے : { قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰٹہَا - وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰٹہَا۔ } کہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا وہ کامیاب ٹھہرا اور جس نے اسے مٹی میں دفن کردیا وہ ناکام ہوگیا۔ اگلی سورت یعنی سورة اللیل میں نفس کو سنوارنے اور بگاڑنے کے طریقوں یا راستوں کے بارے میں مزید وضاحت کردی گئی ہے کہ جو انسان اعطائے مال ‘ تقویٰ اور تصدیق بالحسنیٰ کے اوصاف اپنائے گا وہ صدیقیت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔ اس کے برعکس بخل ‘ استغناء حلال و حرام اور جائز و ناجائز سے متعلق لاپرواہی اور حق کی تکذیب کی راہ پر چلنے والا انسان بالآخر خود کو جہنم کے گڑھے میں گرائے گا۔ پھر کامیابی کے راستے کی مثال کے طور پر امت کی ایک ایسی شخصیت کی طرف اشارہ بھی کردیا گیا جسے پہلے تین اوصاف کو اپنانے کے باعث اعلیٰ مدارج و مراتب سے نوازا گیا۔ لیکن ظاہر ہے اس منزل کا بلند ترین مقام تو محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے مختص ہے جو معراجِ انسانیت ہیں۔ چناچہ اس مضمون کے حوالے سے اب اگلی دو سورتوں کا تعلق خصوصی طور پر حضور ﷺ کی ذات اقدس سے ہے۔ اسی نسبت سے ان سورتوں کا مطالعہ سیرت النبی ﷺ کے بعض پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے بھی مفید ہے۔ متقدمین میں سے تصوف کا ذوق رکھنے والے اکثر مفسرین نے ان سورتوں میں بعض باطنی حقائق کی نشاندہی بھی کی ہے۔ متعلقہ آیات کے مطالعہ کے دوران جہاں جس حد تک ممکن ہوا ایسے کچھ نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ ظاہر ہے موجودہ دور کے ”عقلیت پسند“ مفسرین نہ تو تصوف کا ذوق رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں ایسے موضوعات سے دلچسپی ہے۔ الا ماشاء اللہ !
وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ
📘 آیت 10{ وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْہَرْ۔ } ”اور آپ ﷺ کسی سائل کو نہ جھڑکیں۔“ ایک وقت تھا جب آپ ﷺ حقیقت کی تلاش میں سرگرداں تھے اور ہم نے آپ ﷺ کو ہدایت عطا فرمائی تھی۔ اب اگر آپ ﷺ کے پاس کوئی سائل اپنی حاجت لے کر آئے تو اس کی حاجت روائی کریں اور اسے جھڑکیں نہیں۔ ظاہر ہے سائل بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کوئی مالی معاونت کے لیے سوال کرتا ہے تو کوئی علم کی تلاش میں لوگوں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے۔
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ
📘 آیت 1 1{ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔ } ”اور اپنے رب کی نعمت کا بیان کریں۔“ یہ ہدایت جو آپ ﷺ کو عطا ہوئی ہے ‘ یہ آپ ﷺ کے رب کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر شکر کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ اس کی اس نعمت کا چرچا کریں اور اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلائیں۔ اس حکم میں ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ ہدایت کی نعمت کو اگر انسان اپنی ذات تک محدود کر کے بیٹھ رہے تو اس کا یہ طرزعمل بخل کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا جس کسی کو اللہ تعالیٰ ہدایت کی دولت سے نوازے اسے چاہیے کہ اس خیر کو عام کرے اور اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرے۔
وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ
📘 آیت 2{ وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی۔ } ”قسم ہے رات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ چھا جائے۔“ رات میں اندھیرا اور سکون ہے ‘ جبکہ دن اجالے اور حرکت کا مظہر ہے۔ ان دو آیات میں رات اور دن کی متضاد خصوصیات کو اس فرمان پر بطور شہادت پیش کیا گیا کہ :
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ
📘 آیت 3{ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی۔ } ”آپ ﷺ کے رب نے آپ کو رخصت نہیں کیا اور نہ ہی وہ آپ ﷺ سے ناراض ہوا ہے۔“ یعنی وحی کے تسلسل میں یہ وقفہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے ناراض ہوگیا ہے ‘ بلکہ یہ وقفہ ہماری حکمت و مشیت کا حصہ اور آپ ﷺ کی تربیت کا جزو تھا۔ ظاہر ہے نظام کائنات میں دن کے اجالے کے ساتھ رات کی تاریکی کا وجود بھی ناگزیر ہے۔ چناچہ جس طرح دن کے بعد رات کا آنا ضروری ہے اسی طرح نفس انسانی کے لیے بسط و کشاد کی لذت کے ساتھ ساتھ ”انقباض“ کی کیفیت سے آشنا ہونا بھی ضروری ہے۔
وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولَىٰ
📘 آیت 4{ وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی۔ } ”اور یقینا بعد کا وقت آپ کے لیے بہتر ہوگا پہلے سے۔“ یعنی اس وقفے اور ’ انقباض ‘ کی کیفیت کے بعد آنے والی اب ہر گھڑی اور ہر ساعت آپ ﷺ کے لیے ’ انبساط ‘ اور انشراح کا نیا پیغام لے کر آئے گی۔ ان آیات میں انقباض و انبساط کے حوالے سے جو اصول بیان ہوا ہے اس کی حیران کن حد تک درست ترجمانی غالب ؔنے اپنے اس مصرع میں کی ہے : ع ”رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور !“ یعنی اشعار کی آمد کے حوالے سے کبھی کبھی مجھ پر انقباض کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے لیکن جب اس وقفے کے بعد دوبارہ آمد شروع ہوتی ہے تو پھر میری طبیعت کی روانی پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ گویا انقباض کے بعد جب انبساط کا مرحلہ آتا ہے تو انسان اپنی پہلی کیفیت کے مقابلے میں ایک درجہ آگے جا چکا ہوتا ہے۔ ] اس آیت مبارکہ سے یہ مفہوم بھی متبادر ہوتا ہے کہ ”یقینا ہر آنے والی گھڑی آپ ﷺ کے لیے پہلی سے بدرجہا بہتر ہے“۔ آپ ﷺ پر آپ ﷺ کے رب کے لطف و کرم اور انعام و احسان کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ ہر آنے والا وقت گزشتہ حالات سے بہتر سے بہتر ہوگا۔ اس ایک جملہ میں کفار کے طعن وتشنیع اور الزام تراشیوں کا بھی سدباب کردیا گیا اور اسلام کے درخشاں مستقبل کے بارے میں بھی نوید جانفزا سنا دی گئی۔ [
وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ
📘 آیت 5{ وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی۔ } ”اور عنقریب آپ ﷺ کا رب آپ ﷺ کو اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ آپ ﷺ راضی ہوجائیں گے۔“ یعنی اب بہت جلد آپ ﷺ کی محنتوں کے ایسے ایسے نتائج آپ ﷺ کے سامنے آئیں گے کہ انہیں دیکھ کر آپ ﷺ خوش ہوجائیں گے۔ 1 یہاں پر پچھلی سورت کی آخری آیت کے یہ الفاظ بھی ذہن میں تازہ کرلیں : { وَلَسَوْفَ یَرْضٰی۔ } گویا جو خوشخبری یہاں حضور ﷺ کو سنائی جارہی ہے وہی بشارت سورة اللیل میں حضرت ابوبکر رض کو دی گئی ہے۔ دونوں آیات کا اسلوب اصلاً ایک سا ہے ‘ صرف ضمیر اور صیغے کا فرق ہے۔ حضور ﷺ پر چونکہ وحی آتی تھی اس لیے آپ ﷺ کو صیغہ حاضر تَرْضٰی میں براہ راست مخاطب کیا گیا ‘ جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رض کے لیے غائب کا صیغہ یَرْضٰی آیا ہے۔ ”انقباض“ کی مذکورہ کیفیت کے سیاق وسباق میں اب اللہ تعالیٰ حضور ﷺ پر اپنے احسانات جتا رہا ہے۔ یہ بھی دراصل حضور ﷺ کے لیے تسلی ہی کا ایک انداز ہے۔ جبکہ اس میں ہمارے لیے بھی راہنمائی ہے کہ جب کسی وقت آدمی پر ڈپریشن اور افسردگی کی کیفیت طاری ہو تو اسے چاہیے کہ اس کیفیت میں وہ خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کو گن گن کر یاد کرے کہ اللہ تعالیٰ کس کس انداز میں اس کی مدد کرتا رہا ہے اور کیسی کیسی مشکلات سے اسے نجات دلاتا رہا ہے۔ ظاہر ہے ماضی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے سے ایک پریشان حال آدمی کا حوصلہ بڑھتا ہے اور اس کی مثبت سوچ کو تحریک ملتی ہے۔
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ
📘 آیت 6{ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی۔ } ”کیا اس نے نہیں پایا آپ کو یتیم ‘ پھر پناہ دی !“ یہ آیات سیرت النبی ﷺ کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے کے حوالے سے بھی بہت اہم ہیں۔ حضور ﷺ کے والد آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ چناچہ آپ ﷺ پیدا ہی یتیمی کی حالت میں ہوئے۔ چھ سال کی عمر میں والدہ کا سہارا بھی چھن گیا۔ دادا نے اپنی کفالت میں لیا تو دو سال بعد وہ بھی چھوڑ کر چلے گئے۔ تایا زبیر بن عبدالمطلب سرپرست بنے تو کچھ عرصہ بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا حضور ﷺ کی کفالت کے حوالے سے آپ ﷺ کے تایا زبیر بن عبدالمطلب کا ذکر اکثر تاریخی حوالوں میں موجود ہی نہیں۔ ایسا دراصل جناب ابوطالب کے کردار کو زیادہ نمایاں کرنے کے لیے جان بوجھ کر باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جناب ابوطالب نے آپ ﷺ کے سرپردست شفقت رکھا اور انہی کی سرپرستی میں آپ ﷺ جوانی کی عمر کو پہنچے۔ آیت کے لفظ ”فَاٰوٰی“ میں ان تمام دنیوی سہاروں کی طرف اشارہ ہے جو ظاہر ہے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے فراہم کیے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ہی ان تمام رشتہ داروں کے دلوں میں آپ ﷺ کے لیے محبت اور چاہت پیدا کی تھی۔ اسی نے آپ ﷺ کی شخصیت ایسی بنائی تھی کہ جو کوئی آپ ﷺ کو دیکھتا آپ ﷺ کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی بچپن میں سہارا دیا تھا۔ سورة طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور حکمت کا ذکر اس طرح آیا ہے : { وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْج } آیت 39 کہ اے موسیٰ علیہ السلام میں نے آپ پر اپنی محبت کا َپرتو ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے لوگ آپ کو دیکھ کر متاثر ہوجاتے تھے اور یوں وہ آپ علیہ السلام کو قتل کرنے سے باز رہے۔
وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ
📘 آیت 7{ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی۔ } ”اور آپ ﷺ کو تلاش حقیقت میں سرگرداں پایا تو ہدایت دی !“ جب آپ ﷺ شعور کی پختگی کی عمر کو پہنچے اور آپ ﷺ نے کائنات کے حقائق کے بارے میں غوروفکر کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ ﷺ کو راہنمائی فراہم کردی۔ 1
وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ
📘 آیت 8{ وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی۔ } ”اور اس نے آپ ﷺ کو تنگ دست پایا تو غنی کردیا !“ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت خدیجہ رض کی ساری دولت آپ ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردی۔ حضرت خدیجہ رض بہت مال دار اور صاحب حیثیت خاتون تھیں۔ مکہ کے بڑے بڑے سرداران رض سے نکاح کے خواہش مند تھے ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے ان رض کا دل آپ ﷺ کی طرف پھیر دیا اور انہوں رض نے خود آپ ﷺ کو نکاح کا پیغام بھجوایا۔ گزشتہ آیات میں حضور ﷺ کی زندگی کے تین مراحل کے حوالے سے تین احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب اسی ترتیب سے آپ ﷺ کو تین ہدایات دی جا رہی ہیں :
فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ
📘 آیت 9{ فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ۔ } ”تو آپ ﷺ کسی یتیم پر سختی نہ کریں۔“ جیسے آپ ﷺ کی یتیمی میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی کفالت وغیرہ کا بندوبست کیا ‘ اسی طرح اب آپ ﷺ بھی یتیموں کی سرپرستی کریں اور انہیں لوگوں کی زیادتیوں سے بچائیں