slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الصف

(As-Saff) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 انسان کے سوا جو کائنات ہے اس میں کہیں تضاد نہیں۔ اس دنیا میں لکڑی ہمیشہ لکڑی رہتی ہے۔ اور جو چیز اپنے آپ کو لوہا اور پتھر کے روپ میں ظاہر کرے وہ حقیقی تجربہ میں بھی لوہا اور پتھر ہی ثابت ہوتی ہے۔ انسان کو بھی ایسا ہی بننا چاہیے۔ انسان کے کہنے اور کرنے میں مطابقت ہونی چاہیے، حتی کہ اس وقت بھی جب کہ آدمی کو اپنے کہنے کی یہ قیمت دینی پڑے کہ ہر قسم کی دشواریوں کے باوجود وہ صبر کا پہاڑ بن جائے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ

📘 تجارت میں آدمی پہلے دیتا ہے، اس کے بعد اس کو واپس ملتا ہے۔ دین کی جدوجہد میں بھی آدمی کو اپنی قوت اور اپنا مال دینا پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ بھی ایک قسم کی تجارت ہے۔ البتہ دنیوی تجارت کا نفع صرف دنیا میں ملتا ہے اور دین کی تجارت کا نفع مزید اضافہ کے ساتھ دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی۔ پھر اسی ’’تجارت‘‘ سے غلبہ کی راہ بھی کھلتی ہے جو موجودہ دنیا میں کسی گروہ کو باعزت زندگی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 تجارت میں آدمی پہلے دیتا ہے، اس کے بعد اس کو واپس ملتا ہے۔ دین کی جدوجہد میں بھی آدمی کو اپنی قوت اور اپنا مال دینا پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ بھی ایک قسم کی تجارت ہے۔ البتہ دنیوی تجارت کا نفع صرف دنیا میں ملتا ہے اور دین کی تجارت کا نفع مزید اضافہ کے ساتھ دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی۔ پھر اسی ’’تجارت‘‘ سے غلبہ کی راہ بھی کھلتی ہے جو موجودہ دنیا میں کسی گروہ کو باعزت زندگی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

📘 تجارت میں آدمی پہلے دیتا ہے، اس کے بعد اس کو واپس ملتا ہے۔ دین کی جدوجہد میں بھی آدمی کو اپنی قوت اور اپنا مال دینا پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ بھی ایک قسم کی تجارت ہے۔ البتہ دنیوی تجارت کا نفع صرف دنیا میں ملتا ہے اور دین کی تجارت کا نفع مزید اضافہ کے ساتھ دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی۔ پھر اسی ’’تجارت‘‘ سے غلبہ کی راہ بھی کھلتی ہے جو موجودہ دنیا میں کسی گروہ کو باعزت زندگی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

وَأُخْرَىٰ تُحِبُّونَهَا ۖ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ

📘 تجارت میں آدمی پہلے دیتا ہے، اس کے بعد اس کو واپس ملتا ہے۔ دین کی جدوجہد میں بھی آدمی کو اپنی قوت اور اپنا مال دینا پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ بھی ایک قسم کی تجارت ہے۔ البتہ دنیوی تجارت کا نفع صرف دنیا میں ملتا ہے اور دین کی تجارت کا نفع مزید اضافہ کے ساتھ دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی۔ پھر اسی ’’تجارت‘‘ سے غلبہ کی راہ بھی کھلتی ہے جو موجودہ دنیا میں کسی گروہ کو باعزت زندگی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ

📘 یہود کی اکثریت نے اگرچہ حضرت مسیح علیہ السلام کو رد کردیا مگر ان میں سے کچھ لوگ (حواریین) ایسے تھے جنہوں نے پورے اخلاص اور وفاداری کے ساتھ آپ کا ساتھ دیا۔ اور آپ کے پیغمبرانہ مشن کو آگے بڑھایا۔ یہی چند لوگ اللہ کی نظر میں مومن قرار پائے اور بقیہ تمام یہود پچھلے پیغمبروں کو ماننے کے باوجود کافر قرار پا گئے۔ یہاں جس غلبہ کا ذکر ہے وہ مجموعي اعتبار سے مومنین مسیح کا مجموعي اعتبار سے منکرین مسیح پر غلبہ ہے۔ حضرت مسیح کے بعد رومی شہنشاہ قسطنطین دوم (272-337 ء) نے نصرانیت قبول کرلی جس کی سلطنت شام و فلسطین تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے بعد رومی رعایا بہت بڑی تعداد میں عیسائی ہوگئی۔ چنانچہ یہود ان کے محکوم ہوگئے۔ موجودہ زمانہ میں بھی یہودیوں کی حکومت اسرائیل ہر اعتبار سے عیسائیوں کے ماتحت ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ

📘 انسان کے سوا جو کائنات ہے اس میں کہیں تضاد نہیں۔ اس دنیا میں لکڑی ہمیشہ لکڑی رہتی ہے۔ اور جو چیز اپنے آپ کو لوہا اور پتھر کے روپ میں ظاہر کرے وہ حقیقی تجربہ میں بھی لوہا اور پتھر ہی ثابت ہوتی ہے۔ انسان کو بھی ایسا ہی بننا چاہیے۔ انسان کے کہنے اور کرنے میں مطابقت ہونی چاہیے، حتی کہ اس وقت بھی جب کہ آدمی کو اپنے کہنے کی یہ قیمت دینی پڑے کہ ہر قسم کی دشواریوں کے باوجود وہ صبر کا پہاڑ بن جائے۔

كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ

📘 انسان کے سوا جو کائنات ہے اس میں کہیں تضاد نہیں۔ اس دنیا میں لکڑی ہمیشہ لکڑی رہتی ہے۔ اور جو چیز اپنے آپ کو لوہا اور پتھر کے روپ میں ظاہر کرے وہ حقیقی تجربہ میں بھی لوہا اور پتھر ہی ثابت ہوتی ہے۔ انسان کو بھی ایسا ہی بننا چاہیے۔ انسان کے کہنے اور کرنے میں مطابقت ہونی چاہیے، حتی کہ اس وقت بھی جب کہ آدمی کو اپنے کہنے کی یہ قیمت دینی پڑے کہ ہر قسم کی دشواریوں کے باوجود وہ صبر کا پہاڑ بن جائے۔

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ

📘 انسان کے سوا جو کائنات ہے اس میں کہیں تضاد نہیں۔ اس دنیا میں لکڑی ہمیشہ لکڑی رہتی ہے۔ اور جو چیز اپنے آپ کو لوہا اور پتھر کے روپ میں ظاہر کرے وہ حقیقی تجربہ میں بھی لوہا اور پتھر ہی ثابت ہوتی ہے۔ انسان کو بھی ایسا ہی بننا چاہیے۔ انسان کے کہنے اور کرنے میں مطابقت ہونی چاہیے، حتی کہ اس وقت بھی جب کہ آدمی کو اپنے کہنے کی یہ قیمت دینی پڑے کہ ہر قسم کی دشواریوں کے باوجود وہ صبر کا پہاڑ بن جائے۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ۖ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

📘 حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے درمیان آئے۔ بنی اسرائیل اس وقت ایک زوال یافتہ قوم تھے۔ ان کے اندر یہ حوصلہ باقی نہیں رہا تھا کہ جو کہیں وہی کریں۔ اور جو کریں وہی کہیں۔ چنانچہ ان کا حال یہ تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کے ہاتھ پر ایمان کا اقرار بھی کرتے تھے اور اسی کے ساتھ ہر قسم کی بدعہدی اور نافرمانی میں بھی مبتلا رہتے تھے۔ حتی کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ اپنے برے سلوک کو جائز ثابت کرنے کے لیے وہ خود حضرت موسیٰ پر جھوٹے جھوٹے الزام لگاتے تھے۔ بائبل میں خروج اور گنتی کے ابواب میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ عہد کرنے کے بعد عہد کی خلاف ورزی آدمی کو پہلے سے بھی زیادہ حق سے دور کردیتی ہے۔

وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُبِينٌ

📘 حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات اس بات کا ثبوت تھے کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں۔ مگر یہود نے ان معجزات کو جادو کا کرشمہ کہہ کر ان کو نظر انداز کردیا۔ اس طرح قدیم آسمانی کتابوں میں واضح طور پر پیغمبر آخر الزماں کی پیشگی خبر موجود تھی۔ مگر جب آپ آئے تو یہود اور نصاریٰ دونوں نے آپ کا انکار کردیا۔ انسان اتنا ظالم ہے کہ وہ کھلی کھلی حقیقتوں کا اعتراف کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ اس آیت میں غلبہ سے مراد فکری غلبہ ہے۔ یعنی خدا اور مذہب کے بارے میں جتنے غیر موحدانہ عقائد دنیا میں ہیں ان کو زیر کرکے توحید کے عقیدہ کو غالب فکر کی حیثیت دے دی جائے۔ بقیہ تمام عقائد ہمیشہ کے لیے فکری طور پر مغلوب ہو کر رہ جائیں۔ قرآن میں یہ پیشین گوئی انتہائی ناموافق حالات میں 3 ھ میں نازل ہوئی تھی۔ مگر بعد کو وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَىٰ إِلَى الْإِسْلَامِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

📘 حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات اس بات کا ثبوت تھے کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں۔ مگر یہود نے ان معجزات کو جادو کا کرشمہ کہہ کر ان کو نظر انداز کردیا۔ اس طرح قدیم آسمانی کتابوں میں واضح طور پر پیغمبر آخر الزماں کی پیشگی خبر موجود تھی۔ مگر جب آپ آئے تو یہود اور نصاریٰ دونوں نے آپ کا انکار کردیا۔ انسان اتنا ظالم ہے کہ وہ کھلی کھلی حقیقتوں کا اعتراف کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ اس آیت میں غلبہ سے مراد فکری غلبہ ہے۔ یعنی خدا اور مذہب کے بارے میں جتنے غیر موحدانہ عقائد دنیا میں ہیں ان کو زیر کرکے توحید کے عقیدہ کو غالب فکر کی حیثیت دے دی جائے۔ بقیہ تمام عقائد ہمیشہ کے لیے فکری طور پر مغلوب ہو کر رہ جائیں۔ قرآن میں یہ پیشین گوئی انتہائی ناموافق حالات میں 3 ھ میں نازل ہوئی تھی۔ مگر بعد کو وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

📘 حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات اس بات کا ثبوت تھے کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں۔ مگر یہود نے ان معجزات کو جادو کا کرشمہ کہہ کر ان کو نظر انداز کردیا۔ اس طرح قدیم آسمانی کتابوں میں واضح طور پر پیغمبر آخر الزماں کی پیشگی خبر موجود تھی۔ مگر جب آپ آئے تو یہود اور نصاریٰ دونوں نے آپ کا انکار کردیا۔ انسان اتنا ظالم ہے کہ وہ کھلی کھلی حقیقتوں کا اعتراف کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ اس آیت میں غلبہ سے مراد فکری غلبہ ہے۔ یعنی خدا اور مذہب کے بارے میں جتنے غیر موحدانہ عقائد دنیا میں ہیں ان کو زیر کرکے توحید کے عقیدہ کو غالب فکر کی حیثیت دے دی جائے۔ بقیہ تمام عقائد ہمیشہ کے لیے فکری طور پر مغلوب ہو کر رہ جائیں۔ قرآن میں یہ پیشین گوئی انتہائی ناموافق حالات میں 3 ھ میں نازل ہوئی تھی۔ مگر بعد کو وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

📘 حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات اس بات کا ثبوت تھے کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں۔ مگر یہود نے ان معجزات کو جادو کا کرشمہ کہہ کر ان کو نظر انداز کردیا۔ اس طرح قدیم آسمانی کتابوں میں واضح طور پر پیغمبر آخر الزماں کی پیشگی خبر موجود تھی۔ مگر جب آپ آئے تو یہود اور نصاریٰ دونوں نے آپ کا انکار کردیا۔ انسان اتنا ظالم ہے کہ وہ کھلی کھلی حقیقتوں کا اعتراف کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ اس آیت میں غلبہ سے مراد فکری غلبہ ہے۔ یعنی خدا اور مذہب کے بارے میں جتنے غیر موحدانہ عقائد دنیا میں ہیں ان کو زیر کرکے توحید کے عقیدہ کو غالب فکر کی حیثیت دے دی جائے۔ بقیہ تمام عقائد ہمیشہ کے لیے فکری طور پر مغلوب ہو کر رہ جائیں۔ قرآن میں یہ پیشین گوئی انتہائی ناموافق حالات میں 3 ھ میں نازل ہوئی تھی۔ مگر بعد کو وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔