🕋 تفسير سورة الجمعة
(Al-Jumuah) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
📘 انسان کی ہدایت کے لیے رسول بھیجنا خدا کی انہیں صفات کا انسانی سطح پر ظہور ہے جن صفات کا ظہور مادی اعتبار سے کائنات کی سطح پر ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اور اسی طرح دوسرے پیغمبروں کا کام خاص طور پر دو رہا ہے۔ ایک، خدا کی وحی کو لوگوں تک پہنچانا، دوسرا، لوگوں کے شعور کو بیدار کرنا تاکہ وہ خدائی باتوں کو سمجھیں اور اپنی حقيقی زندگی کے ساتھ ان کو مربوط کرسکیں۔ یہی دو کام آئندہ بھی دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں مطلوب رہیں گے، یعنی تعلیم قرآن اور ذہنی تربیت۔
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
📘 یہ کسی آدمی کے نفاق کی علامت ہے کہ وہ بڑی بڑی باتیں کرے۔ اور قسم کھا کر اپنی بات کا یقین دلائے۔ مخلص آدمی اللہ کے خوف سے دبا ہوا ہوتا ہے۔ وہ زبان سے زیادہ دل سے بولتا ہے۔ منافق آدمی صرف انسان کو اپنی آواز سنانے کا مشتاق ہوتا ہے، اور مخلص آدمی خدا کو سنانے کا۔
جب ایک شخص ایمان لاتا ہے تو وہ ایک سنجیدہ عہد کرتا ہے۔ اس کے بعد زندگی کے عملی مواقع آتے ہیں، جہاں ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس عہد کے مطابق عمل کرے۔ اب جو شخص ایسے مواقع پر اپنے دل کی آواز کو سن کر عہد کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس نے اپنے عہد ایمان کو پختہ کیا۔ اس کے برعکس، جس کا یہ حال ہو کہ اس کے دل نے آوازدی مگر اس نے دل کی آواز کو نظر انداز کرکے عہد کے خلاف عمل کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دھیرے دھیرے اپنے عہد ایمان کے معاملہ میں بے حس ہوجائے گا— یہی مطلب ہے دل پر مہر کرنےكا۔
وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
📘 یہ کسی آدمی کے نفاق کی علامت ہے کہ وہ بڑی بڑی باتیں کرے۔ اور قسم کھا کر اپنی بات کا یقین دلائے۔ مخلص آدمی اللہ کے خوف سے دبا ہوا ہوتا ہے۔ وہ زبان سے زیادہ دل سے بولتا ہے۔ منافق آدمی صرف انسان کو اپنی آواز سنانے کا مشتاق ہوتا ہے، اور مخلص آدمی خدا کو سنانے کا۔
جب ایک شخص ایمان لاتا ہے تو وہ ایک سنجیدہ عہد کرتا ہے۔ اس کے بعد زندگی کے عملی مواقع آتے ہیں، جہاں ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس عہد کے مطابق عمل کرے۔ اب جو شخص ایسے مواقع پر اپنے دل کی آواز کو سن کر عہد کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس نے اپنے عہد ایمان کو پختہ کیا۔ اس کے برعکس، جس کا یہ حال ہو کہ اس کے دل نے آوازدی مگر اس نے دل کی آواز کو نظر انداز کرکے عہد کے خلاف عمل کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دھیرے دھیرے اپنے عہد ایمان کے معاملہ میں بے حس ہوجائے گا— یہی مطلب ہے دل پر مہر کرنےكا۔
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
📘 انسان کی ہدایت کے لیے رسول بھیجنا خدا کی انہیں صفات کا انسانی سطح پر ظہور ہے جن صفات کا ظہور مادی اعتبار سے کائنات کی سطح پر ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اور اسی طرح دوسرے پیغمبروں کا کام خاص طور پر دو رہا ہے۔ ایک، خدا کی وحی کو لوگوں تک پہنچانا، دوسرا، لوگوں کے شعور کو بیدار کرنا تاکہ وہ خدائی باتوں کو سمجھیں اور اپنی حقيقی زندگی کے ساتھ ان کو مربوط کرسکیں۔ یہی دو کام آئندہ بھی دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں مطلوب رہیں گے، یعنی تعلیم قرآن اور ذہنی تربیت۔
وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
📘 انسان کی ہدایت کے لیے رسول بھیجنا خدا کی انہیں صفات کا انسانی سطح پر ظہور ہے جن صفات کا ظہور مادی اعتبار سے کائنات کی سطح پر ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اور اسی طرح دوسرے پیغمبروں کا کام خاص طور پر دو رہا ہے۔ ایک، خدا کی وحی کو لوگوں تک پہنچانا، دوسرا، لوگوں کے شعور کو بیدار کرنا تاکہ وہ خدائی باتوں کو سمجھیں اور اپنی حقيقی زندگی کے ساتھ ان کو مربوط کرسکیں۔ یہی دو کام آئندہ بھی دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں مطلوب رہیں گے، یعنی تعلیم قرآن اور ذہنی تربیت۔
ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
📘 انسان کی ہدایت کے لیے رسول بھیجنا خدا کی انہیں صفات کا انسانی سطح پر ظہور ہے جن صفات کا ظہور مادی اعتبار سے کائنات کی سطح پر ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اور اسی طرح دوسرے پیغمبروں کا کام خاص طور پر دو رہا ہے۔ ایک، خدا کی وحی کو لوگوں تک پہنچانا، دوسرا، لوگوں کے شعور کو بیدار کرنا تاکہ وہ خدائی باتوں کو سمجھیں اور اپنی حقيقی زندگی کے ساتھ ان کو مربوط کرسکیں۔ یہی دو کام آئندہ بھی دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں مطلوب رہیں گے، یعنی تعلیم قرآن اور ذہنی تربیت۔
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
📘 خدا کی کتاب جب کسی قوم کو دی جاتی ہے تو اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ اس کو اپنے اندر اتارے اور اس کو اپنی زندگی میں اپنائے۔ مگر جو قوم اس معنی میں کتاب آسمانی کی حامل نہ بن سکے اس کی مثال اس گدھے کی سی ہوگی جس کے اوپر علمی کتابیں لدی ہوئی ہوں اور اس کو کچھ خبر نہ ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے۔
یہود نے اگرچہ عملی طور پر خدا کے دین کو چھوڑ رکھا تھا، اس کے باوجود وہ اس کو اپنے قومی فخر کا نشان بنائے ہوئے تھے۔ مگر اس قسم کا فخر کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ ایسا فخر ہمیشہ جھوٹا فخر ہوتا ہے۔ اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آدمی جس دین کو اپنے فخر کا سامان بنائے ہوئے ہوتا ہے اس کے لیے وہ قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ تاہم جب موت آئے گی تو ایسے لوگ جان لیں گے کہ دنیا میں وہ جس فخر پر جی رہے تھے وہ آخرت میں انہیں ذلت کے سوا اور کچھ دینے والا نہیں۔
قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 خدا کی کتاب جب کسی قوم کو دی جاتی ہے تو اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ اس کو اپنے اندر اتارے اور اس کو اپنی زندگی میں اپنائے۔ مگر جو قوم اس معنی میں کتاب آسمانی کی حامل نہ بن سکے اس کی مثال اس گدھے کی سی ہوگی جس کے اوپر علمی کتابیں لدی ہوئی ہوں اور اس کو کچھ خبر نہ ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے۔
یہود نے اگرچہ عملی طور پر خدا کے دین کو چھوڑ رکھا تھا، اس کے باوجود وہ اس کو اپنے قومی فخر کا نشان بنائے ہوئے تھے۔ مگر اس قسم کا فخر کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ ایسا فخر ہمیشہ جھوٹا فخر ہوتا ہے۔ اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آدمی جس دین کو اپنے فخر کا سامان بنائے ہوئے ہوتا ہے اس کے لیے وہ قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ تاہم جب موت آئے گی تو ایسے لوگ جان لیں گے کہ دنیا میں وہ جس فخر پر جی رہے تھے وہ آخرت میں انہیں ذلت کے سوا اور کچھ دینے والا نہیں۔
وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
📘 خدا کی کتاب جب کسی قوم کو دی جاتی ہے تو اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ اس کو اپنے اندر اتارے اور اس کو اپنی زندگی میں اپنائے۔ مگر جو قوم اس معنی میں کتاب آسمانی کی حامل نہ بن سکے اس کی مثال اس گدھے کی سی ہوگی جس کے اوپر علمی کتابیں لدی ہوئی ہوں اور اس کو کچھ خبر نہ ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے۔
یہود نے اگرچہ عملی طور پر خدا کے دین کو چھوڑ رکھا تھا، اس کے باوجود وہ اس کو اپنے قومی فخر کا نشان بنائے ہوئے تھے۔ مگر اس قسم کا فخر کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ ایسا فخر ہمیشہ جھوٹا فخر ہوتا ہے۔ اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آدمی جس دین کو اپنے فخر کا سامان بنائے ہوئے ہوتا ہے اس کے لیے وہ قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ تاہم جب موت آئے گی تو ایسے لوگ جان لیں گے کہ دنیا میں وہ جس فخر پر جی رہے تھے وہ آخرت میں انہیں ذلت کے سوا اور کچھ دینے والا نہیں۔
قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ۖ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
📘 خدا کی کتاب جب کسی قوم کو دی جاتی ہے تو اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ اس کو اپنے اندر اتارے اور اس کو اپنی زندگی میں اپنائے۔ مگر جو قوم اس معنی میں کتاب آسمانی کی حامل نہ بن سکے اس کی مثال اس گدھے کی سی ہوگی جس کے اوپر علمی کتابیں لدی ہوئی ہوں اور اس کو کچھ خبر نہ ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے۔
یہود نے اگرچہ عملی طور پر خدا کے دین کو چھوڑ رکھا تھا، اس کے باوجود وہ اس کو اپنے قومی فخر کا نشان بنائے ہوئے تھے۔ مگر اس قسم کا فخر کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ ایسا فخر ہمیشہ جھوٹا فخر ہوتا ہے۔ اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آدمی جس دین کو اپنے فخر کا سامان بنائے ہوئے ہوتا ہے اس کے لیے وہ قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ تاہم جب موت آئے گی تو ایسے لوگ جان لیں گے کہ دنیا میں وہ جس فخر پر جی رہے تھے وہ آخرت میں انہیں ذلت کے سوا اور کچھ دینے والا نہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ
📘 یہ کسی آدمی کے نفاق کی علامت ہے کہ وہ بڑی بڑی باتیں کرے۔ اور قسم کھا کر اپنی بات کا یقین دلائے۔ مخلص آدمی اللہ کے خوف سے دبا ہوا ہوتا ہے۔ وہ زبان سے زیادہ دل سے بولتا ہے۔ منافق آدمی صرف انسان کو اپنی آواز سنانے کا مشتاق ہوتا ہے، اور مخلص آدمی خدا کو سنانے کا۔
جب ایک شخص ایمان لاتا ہے تو وہ ایک سنجیدہ عہد کرتا ہے۔ اس کے بعد زندگی کے عملی مواقع آتے ہیں، جہاں ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس عہد کے مطابق عمل کرے۔ اب جو شخص ایسے مواقع پر اپنے دل کی آواز کو سن کر عہد کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس نے اپنے عہد ایمان کو پختہ کیا۔ اس کے برعکس، جس کا یہ حال ہو کہ اس کے دل نے آوازدی مگر اس نے دل کی آواز کو نظر انداز کرکے عہد کے خلاف عمل کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دھیرے دھیرے اپنے عہد ایمان کے معاملہ میں بے حس ہوجائے گا— یہی مطلب ہے دل پر مہر کرنےكا۔