🕋 تفسير سورة المنافقون
(Al-Munafiqoon) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ
📘 یہ کسی آدمی کے نفاق کی علامت ہے کہ وہ بڑی بڑی باتیں کرے۔ اور قسم کھا کر اپنی بات کا یقین دلائے۔ مخلص آدمی اللہ کے خوف سے دبا ہوا ہوتا ہے۔ وہ زبان سے زیادہ دل سے بولتا ہے۔ منافق آدمی صرف انسان کو اپنی آواز سنانے کا مشتاق ہوتا ہے، اور مخلص آدمی خدا کو سنانے کا۔
جب ایک شخص ایمان لاتا ہے تو وہ ایک سنجیدہ عہد کرتا ہے۔ اس کے بعد زندگی کے عملی مواقع آتے ہیں، جہاں ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس عہد کے مطابق عمل کرے۔ اب جو شخص ایسے مواقع پر اپنے دل کی آواز کو سن کر عہد کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس نے اپنے عہد ایمان کو پختہ کیا۔ اس کے برعکس، جس کا یہ حال ہو کہ اس کے دل نے آوازدی مگر اس نے دل کی آواز کو نظر انداز کرکے عہد کے خلاف عمل کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دھیرے دھیرے اپنے عہد ایمان کے معاملہ میں بے حس ہوجائے گا— یہی مطلب ہے دل پر مہر کرنےكا۔
وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ
📘 ’’کائنات اللہ کی تسبیح کر رہی ہے‘‘کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جس حقیقت کو قرآن میں کھولا ہے، کائنات سراپا اس کی تصدیق بنی ہوئی ہے، وہ زبان حال سے حمدوستائش کی حد تک اس کی تائید کر رہی ہے۔ اس دو طرفہ اعلان کے باوجود جو لوگ مومن نہ بنیں انہیں اس کے بعد تیسرے اعلان کا انتظار کرنا چاہيے جب کہ تمام لوگ خدا کے یہاں جمع کیے جائیں گے، تاکہ خود مالک کائنات کی زبان سے اپنے بارے میں آخری فیصلہ کو سنیں۔
وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
📘 ’’کائنات اللہ کی تسبیح کر رہی ہے‘‘کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جس حقیقت کو قرآن میں کھولا ہے، کائنات سراپا اس کی تصدیق بنی ہوئی ہے، وہ زبان حال سے حمدوستائش کی حد تک اس کی تائید کر رہی ہے۔ اس دو طرفہ اعلان کے باوجود جو لوگ مومن نہ بنیں انہیں اس کے بعد تیسرے اعلان کا انتظار کرنا چاہيے جب کہ تمام لوگ خدا کے یہاں جمع کیے جائیں گے، تاکہ خود مالک کائنات کی زبان سے اپنے بارے میں آخری فیصلہ کو سنیں۔
اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 یہ کسی آدمی کے نفاق کی علامت ہے کہ وہ بڑی بڑی باتیں کرے۔ اور قسم کھا کر اپنی بات کا یقین دلائے۔ مخلص آدمی اللہ کے خوف سے دبا ہوا ہوتا ہے۔ وہ زبان سے زیادہ دل سے بولتا ہے۔ منافق آدمی صرف انسان کو اپنی آواز سنانے کا مشتاق ہوتا ہے، اور مخلص آدمی خدا کو سنانے کا۔
جب ایک شخص ایمان لاتا ہے تو وہ ایک سنجیدہ عہد کرتا ہے۔ اس کے بعد زندگی کے عملی مواقع آتے ہیں، جہاں ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس عہد کے مطابق عمل کرے۔ اب جو شخص ایسے مواقع پر اپنے دل کی آواز کو سن کر عہد کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس نے اپنے عہد ایمان کو پختہ کیا۔ اس کے برعکس، جس کا یہ حال ہو کہ اس کے دل نے آوازدی مگر اس نے دل کی آواز کو نظر انداز کرکے عہد کے خلاف عمل کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دھیرے دھیرے اپنے عہد ایمان کے معاملہ میں بے حس ہوجائے گا— یہی مطلب ہے دل پر مہر کرنےكا۔
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ
📘 یہ کسی آدمی کے نفاق کی علامت ہے کہ وہ بڑی بڑی باتیں کرے۔ اور قسم کھا کر اپنی بات کا یقین دلائے۔ مخلص آدمی اللہ کے خوف سے دبا ہوا ہوتا ہے۔ وہ زبان سے زیادہ دل سے بولتا ہے۔ منافق آدمی صرف انسان کو اپنی آواز سنانے کا مشتاق ہوتا ہے، اور مخلص آدمی خدا کو سنانے کا۔
جب ایک شخص ایمان لاتا ہے تو وہ ایک سنجیدہ عہد کرتا ہے۔ اس کے بعد زندگی کے عملی مواقع آتے ہیں، جہاں ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس عہد کے مطابق عمل کرے۔ اب جو شخص ایسے مواقع پر اپنے دل کی آواز کو سن کر عہد کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس نے اپنے عہد ایمان کو پختہ کیا۔ اس کے برعکس، جس کا یہ حال ہو کہ اس کے دل نے آوازدی مگر اس نے دل کی آواز کو نظر انداز کرکے عہد کے خلاف عمل کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دھیرے دھیرے اپنے عہد ایمان کے معاملہ میں بے حس ہوجائے گا— یہی مطلب ہے دل پر مہر کرنےكا۔
۞ وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
📘 منافق آدمی مصلحت پرستی کے ذریعہ اپنے مفادات کو محفوظ رکھتا ہے۔ وہ حق ناحق کی بحث میں نہیں پڑتا۔ اس لیے ہر ایک سے اس کا بناؤ رہتا ہے۔ اس کی زندگی غم سے خالی ہوتی ہے۔ یہ چیزیں اس کے جسم کو فربہ بنا دیتی ہیں۔ وہ لوگوں کے مزاج کی رعایت کرکے بولتا ہے۔ اس لیے اس کی باتوں میں ہر ایک اپنے لیے دل چسپی کا سامان پا لیتا ہے۔ مگر یہ بظاہر ہرے بھرے درخت حقیقۃً صرف سوکھی لکڑیاں ہوتے ہیں جن میں کوئی زندگی نہ ہو۔ وہ اندر سے بزدل ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کا دنیوی مفاد ہر دینی مفاد سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ایمان کے بلند بانگ مدعی ہونے کے باوجود خدا کی ہدایت سے یکسر محروم ہیں۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ
📘 منافق آدمی مصلحت پرستی کے ذریعہ اپنے مفادات کو محفوظ رکھتا ہے۔ وہ حق ناحق کی بحث میں نہیں پڑتا۔ اس لیے ہر ایک سے اس کا بناؤ رہتا ہے۔ اس کی زندگی غم سے خالی ہوتی ہے۔ یہ چیزیں اس کے جسم کو فربہ بنا دیتی ہیں۔ وہ لوگوں کے مزاج کی رعایت کرکے بولتا ہے۔ اس لیے اس کی باتوں میں ہر ایک اپنے لیے دل چسپی کا سامان پا لیتا ہے۔ مگر یہ بظاہر ہرے بھرے درخت حقیقۃً صرف سوکھی لکڑیاں ہوتے ہیں جن میں کوئی زندگی نہ ہو۔ وہ اندر سے بزدل ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کا دنیوی مفاد ہر دینی مفاد سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ایمان کے بلند بانگ مدعی ہونے کے باوجود خدا کی ہدایت سے یکسر محروم ہیں۔
سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
📘 منافق آدمی مصلحت پرستی کے ذریعہ اپنے مفادات کو محفوظ رکھتا ہے۔ وہ حق ناحق کی بحث میں نہیں پڑتا۔ اس لیے ہر ایک سے اس کا بناؤ رہتا ہے۔ اس کی زندگی غم سے خالی ہوتی ہے۔ یہ چیزیں اس کے جسم کو فربہ بنا دیتی ہیں۔ وہ لوگوں کے مزاج کی رعایت کرکے بولتا ہے۔ اس لیے اس کی باتوں میں ہر ایک اپنے لیے دل چسپی کا سامان پا لیتا ہے۔ مگر یہ بظاہر ہرے بھرے درخت حقیقۃً صرف سوکھی لکڑیاں ہوتے ہیں جن میں کوئی زندگی نہ ہو۔ وہ اندر سے بزدل ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کا دنیوی مفاد ہر دینی مفاد سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ایمان کے بلند بانگ مدعی ہونے کے باوجود خدا کی ہدایت سے یکسر محروم ہیں۔
هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنْفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ
📘 قدیم مدینہ میں دو قسم کے مسلمان تھے۔ ایک مہاجر اور دوسرے انصار۔ مہاجرین مکہ سے بے وطن ہو کر آئے تھے۔ ان کا سب سے بڑا ظاہری سہارا مقامی مسلمان (انصار) تھے۔ اس بنا پر دنیا پرست لوگوں کو مہاجر بے عزت دکھائی دیتے تھے اور انصار ان کی نظر میں باعزت لوگ تھے۔ حتی کہ ایک موقع پر عبداللہ بن ابی نے صاف طور پر کہہ دیا کہ ان مہاجرین کی حقیقت کیا ہے۔ اگر ہم ان کو اپنی بستی سے نکال دیں تو دنیا میں کہیں ان کو ٹھکانا نہ ملے۔
اس قسم کے الفاظ اسی شخص کی زبان سے نکل سکتے ہیں جو اس حقیقت سے بے خبر ہو کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے۔ وہی جس کو چاہے دے اور وہی جس سے چاہے چھین لے۔
يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ
📘 قدیم مدینہ میں دو قسم کے مسلمان تھے۔ ایک مہاجر اور دوسرے انصار۔ مہاجرین مکہ سے بے وطن ہو کر آئے تھے۔ ان کا سب سے بڑا ظاہری سہارا مقامی مسلمان (انصار) تھے۔ اس بنا پر دنیا پرست لوگوں کو مہاجر بے عزت دکھائی دیتے تھے اور انصار ان کی نظر میں باعزت لوگ تھے۔ حتی کہ ایک موقع پر عبداللہ بن ابی نے صاف طور پر کہہ دیا کہ ان مہاجرین کی حقیقت کیا ہے۔ اگر ہم ان کو اپنی بستی سے نکال دیں تو دنیا میں کہیں ان کو ٹھکانا نہ ملے۔
اس قسم کے الفاظ اسی شخص کی زبان سے نکل سکتے ہیں جو اس حقیقت سے بے خبر ہو کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے۔ وہی جس کو چاہے دے اور وہی جس سے چاہے چھین لے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
📘 ’’کائنات اللہ کی تسبیح کر رہی ہے‘‘کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جس حقیقت کو قرآن میں کھولا ہے، کائنات سراپا اس کی تصدیق بنی ہوئی ہے، وہ زبان حال سے حمدوستائش کی حد تک اس کی تائید کر رہی ہے۔ اس دو طرفہ اعلان کے باوجود جو لوگ مومن نہ بنیں انہیں اس کے بعد تیسرے اعلان کا انتظار کرنا چاہيے جب کہ تمام لوگ خدا کے یہاں جمع کیے جائیں گے، تاکہ خود مالک کائنات کی زبان سے اپنے بارے میں آخری فیصلہ کو سنیں۔