🕋 تفسير سورة الإنسان
(Al-Insan) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا
📘 قرآن ساتویں صدی عیسوی میں اترا۔ اس وقت ساری دنیا میں کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ رحم مادر میں انسان کا آغاز ایک مخلوط نطفہ سے ہوتا ہے۔ یہ صرف بیسویں صدی کی بات ہے کہ انسان نے یہ جانا کہ انسان اور (حیوان) کا ابتدائی نطفہ دو اجزاء سے مل کر بنتا ہے۔ ایک، عورت کا بیضہ (Ovum) اور دوسرے، مرد کا نطفہ (Sperm)۔ یہ دونوں خور دبینی اجزاء جب باہم مل جاتے ہیں، اس وقت رحم مادر میں وہ چیز بننا شروع ہوتی ہے، جو بالآخر انسان کی صورت اختیار کرتی ہے۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے قرآن میں نطفہ امشاج (مخلوط نطفہ) کا لفظ آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔
قرآن میں اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔ یہ استثنائی مثالیں واضح طور پر قرآن کو خدا کی کتاب ثابت کرتی ہے۔ اور جب یہ بات ثابت ہوجائے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے تو اس کے بعد قرآن کا ہر بیان مجرد قرآن کا بیان ہونے کی بنیاد پر درست ماننا پڑے گا۔
إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَٰلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
مُتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۖ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَالُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِآنِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
قَوَارِيرَ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِيرًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
عَيْنًا فِيهَا تُسَمَّىٰ سَلْسَبِيلًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
۞ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَنْثُورًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا
📘 قرآن ساتویں صدی عیسوی میں اترا۔ اس وقت ساری دنیا میں کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ رحم مادر میں انسان کا آغاز ایک مخلوط نطفہ سے ہوتا ہے۔ یہ صرف بیسویں صدی کی بات ہے کہ انسان نے یہ جانا کہ انسان اور (حیوان) کا ابتدائی نطفہ دو اجزاء سے مل کر بنتا ہے۔ ایک، عورت کا بیضہ (Ovum) اور دوسرے، مرد کا نطفہ (Sperm)۔ یہ دونوں خور دبینی اجزاء جب باہم مل جاتے ہیں، اس وقت رحم مادر میں وہ چیز بننا شروع ہوتی ہے، جو بالآخر انسان کی صورت اختیار کرتی ہے۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے قرآن میں نطفہ امشاج (مخلوط نطفہ) کا لفظ آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔
قرآن میں اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔ یہ استثنائی مثالیں واضح طور پر قرآن کو خدا کی کتاب ثابت کرتی ہے۔ اور جب یہ بات ثابت ہوجائے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے تو اس کے بعد قرآن کا ہر بیان مجرد قرآن کا بیان ہونے کی بنیاد پر درست ماننا پڑے گا۔
وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ ۖ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
إِنَّ هَٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُورًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنْزِيلًا
📘 حق کی دعوت کو نہ ماننے کے دو خاص سبب ہوتے ہیں۔ یا تو آدمی کے سامنے دنیا کا مفاد ہوتا ہے، اور مفاد سے محرومی کا اندیشہ اس کو حق کی طرف بڑھنے نہیں دیتا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ آدمی تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہو اور اس کا تکبر اس میں مانع بن جائے کہ وہ اپنے سے باہر کسی کی بڑائی کو تسلیم کرے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ دعوتِ حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ مگر حق کے داعی کو حکم ہے کہ وہ ان کا لحاظ کیے بغیر اپنا کام صبر کے ساتھ جاری رکھے۔
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا
📘 حق کی دعوت کو نہ ماننے کے دو خاص سبب ہوتے ہیں۔ یا تو آدمی کے سامنے دنیا کا مفاد ہوتا ہے، اور مفاد سے محرومی کا اندیشہ اس کو حق کی طرف بڑھنے نہیں دیتا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ آدمی تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہو اور اس کا تکبر اس میں مانع بن جائے کہ وہ اپنے سے باہر کسی کی بڑائی کو تسلیم کرے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ دعوتِ حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ مگر حق کے داعی کو حکم ہے کہ وہ ان کا لحاظ کیے بغیر اپنا کام صبر کے ساتھ جاری رکھے۔
وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
📘 حق کی دعوت کو نہ ماننے کے دو خاص سبب ہوتے ہیں۔ یا تو آدمی کے سامنے دنیا کا مفاد ہوتا ہے، اور مفاد سے محرومی کا اندیشہ اس کو حق کی طرف بڑھنے نہیں دیتا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ آدمی تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہو اور اس کا تکبر اس میں مانع بن جائے کہ وہ اپنے سے باہر کسی کی بڑائی کو تسلیم کرے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ دعوتِ حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ مگر حق کے داعی کو حکم ہے کہ وہ ان کا لحاظ کیے بغیر اپنا کام صبر کے ساتھ جاری رکھے۔
وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيلًا
📘 حق کی دعوت کو نہ ماننے کے دو خاص سبب ہوتے ہیں۔ یا تو آدمی کے سامنے دنیا کا مفاد ہوتا ہے، اور مفاد سے محرومی کا اندیشہ اس کو حق کی طرف بڑھنے نہیں دیتا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ آدمی تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہو اور اس کا تکبر اس میں مانع بن جائے کہ وہ اپنے سے باہر کسی کی بڑائی کو تسلیم کرے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ دعوتِ حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ مگر حق کے داعی کو حکم ہے کہ وہ ان کا لحاظ کیے بغیر اپنا کام صبر کے ساتھ جاری رکھے۔
إِنَّ هَٰؤُلَاءِ يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا
📘 حق کی دعوت کو نہ ماننے کے دو خاص سبب ہوتے ہیں۔ یا تو آدمی کے سامنے دنیا کا مفاد ہوتا ہے، اور مفاد سے محرومی کا اندیشہ اس کو حق کی طرف بڑھنے نہیں دیتا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ آدمی تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہو اور اس کا تکبر اس میں مانع بن جائے کہ وہ اپنے سے باہر کسی کی بڑائی کو تسلیم کرے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ دعوتِ حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ مگر حق کے داعی کو حکم ہے کہ وہ ان کا لحاظ کیے بغیر اپنا کام صبر کے ساتھ جاری رکھے۔
نَحْنُ خَلَقْنَاهُمْ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ ۖ وَإِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَهُمْ تَبْدِيلًا
📘 حق کی دعوت کو نہ ماننے کے دو خاص سبب ہوتے ہیں۔ یا تو آدمی کے سامنے دنیا کا مفاد ہوتا ہے، اور مفاد سے محرومی کا اندیشہ اس کو حق کی طرف بڑھنے نہیں دیتا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ آدمی تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہو اور اس کا تکبر اس میں مانع بن جائے کہ وہ اپنے سے باہر کسی کی بڑائی کو تسلیم کرے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ دعوتِ حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ مگر حق کے داعی کو حکم ہے کہ وہ ان کا لحاظ کیے بغیر اپنا کام صبر کے ساتھ جاری رکھے۔
إِنَّ هَٰذِهِ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا
📘 حق کی دعوت کو نہ ماننے کے دو خاص سبب ہوتے ہیں۔ یا تو آدمی کے سامنے دنیا کا مفاد ہوتا ہے، اور مفاد سے محرومی کا اندیشہ اس کو حق کی طرف بڑھنے نہیں دیتا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ آدمی تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہو اور اس کا تکبر اس میں مانع بن جائے کہ وہ اپنے سے باہر کسی کی بڑائی کو تسلیم کرے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ دعوتِ حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ مگر حق کے داعی کو حکم ہے کہ وہ ان کا لحاظ کیے بغیر اپنا کام صبر کے ساتھ جاری رکھے۔
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا
📘 قرآن ساتویں صدی عیسوی میں اترا۔ اس وقت ساری دنیا میں کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ رحم مادر میں انسان کا آغاز ایک مخلوط نطفہ سے ہوتا ہے۔ یہ صرف بیسویں صدی کی بات ہے کہ انسان نے یہ جانا کہ انسان اور (حیوان) کا ابتدائی نطفہ دو اجزاء سے مل کر بنتا ہے۔ ایک، عورت کا بیضہ (Ovum) اور دوسرے، مرد کا نطفہ (Sperm)۔ یہ دونوں خور دبینی اجزاء جب باہم مل جاتے ہیں، اس وقت رحم مادر میں وہ چیز بننا شروع ہوتی ہے، جو بالآخر انسان کی صورت اختیار کرتی ہے۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے قرآن میں نطفہ امشاج (مخلوط نطفہ) کا لفظ آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔
قرآن میں اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔ یہ استثنائی مثالیں واضح طور پر قرآن کو خدا کی کتاب ثابت کرتی ہے۔ اور جب یہ بات ثابت ہوجائے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے تو اس کے بعد قرآن کا ہر بیان مجرد قرآن کا بیان ہونے کی بنیاد پر درست ماننا پڑے گا۔
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
📘 حق کی دعوت کو نہ ماننے کے دو خاص سبب ہوتے ہیں۔ یا تو آدمی کے سامنے دنیا کا مفاد ہوتا ہے، اور مفاد سے محرومی کا اندیشہ اس کو حق کی طرف بڑھنے نہیں دیتا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ آدمی تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہو اور اس کا تکبر اس میں مانع بن جائے کہ وہ اپنے سے باہر کسی کی بڑائی کو تسلیم کرے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ دعوتِ حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ مگر حق کے داعی کو حکم ہے کہ وہ ان کا لحاظ کیے بغیر اپنا کام صبر کے ساتھ جاری رکھے۔
يُدْخِلُ مَنْ يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمِينَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
📘 حق کی دعوت کو نہ ماننے کے دو خاص سبب ہوتے ہیں۔ یا تو آدمی کے سامنے دنیا کا مفاد ہوتا ہے، اور مفاد سے محرومی کا اندیشہ اس کو حق کی طرف بڑھنے نہیں دیتا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ آدمی تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہو اور اس کا تکبر اس میں مانع بن جائے کہ وہ اپنے سے باہر کسی کی بڑائی کو تسلیم کرے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ دعوتِ حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ مگر حق کے داعی کو حکم ہے کہ وہ ان کا لحاظ کیے بغیر اپنا کام صبر کے ساتھ جاری رکھے۔
إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلَ وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔
إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا
📘 یہ برتر جنت کا بیان ہے جہاں زیادہ برتر ایمان کا ثبوت دینے والے لوگ بسائے جائیں گے۔ اس جنت کے باشندوں کو شاہانہ نعمتیں حاصل ہوں گی۔