🕋 تفسير سورة لقمان
(Luqman) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الم
📘 سورة البقرۃ کی پہلی آیت بھی انہی تین حروف پر مشتمل ہے۔
خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ ۚ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ
📘 وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ ”یعنی زمین کا توازن isostasy برقرار رکھنے کے لیے اس میں پہاڑ گاڑ دیے۔م وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ ”آج کی سائنس ”نباتات کے جوڑوں“ کی بہتر طور پر تشریح کرسکتی ہے۔ بہر حال دوسرے جانداروں کی طرح پودوں اور نباتات میں بھی نر اور مادہ کا نظام کار فرما ہے اور ان کے ہاں باقاعدہ خاندانوں اور قبیلوں کی پہچان اور تقسیم بھی پائی جاتی ہے۔
هَٰذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ ۚ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
📘 آیت 11 ہٰذَا خَلْقُ اللّٰہِ فَاَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ط ”قرآن میں مشرکین کے اس عقیدے کا بار بار ذکر ہوا ہے کہ وہ اللہ کو اس کائنات اور اس میں موجود ہر شے کا خالق مانتے تھے۔ چناچہ یہاں ان سے یہ سوال ان کے اسی عقیدے کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ”دراصل اس دلیل کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ عقیدے کے اعتبار سے اگرچہ وہ لوگ اپنے چھوٹے معبودوں کو کسی چیز کا خالق نہیں مانتے تھے ‘ لیکن وہ گمراہی میں اتنے دور جا چکے تھے کہ ایسی باتوں کی طرف کبھی متوجہ ہی نہیں ہوتے تھے۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
📘 سورة لقمان کا یہ رکوع اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اسے ہم نے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب میں بھی شامل کیا ہے۔ چناچہ منتخب نصاب کے پہلے حصے جامع اسباق کا تیسرا درس اس رکوع پر مشتمل ہے۔ بنیادی طور پر اس رکوع میں حضرت لقمان کی نصیحتیں نقل ہوئی ہیں۔ ان نصیحتوں میں اس قدر جامعیت ہے کہ انسان کی نجات اخروی کے لوازمات کا ایک مکمل خاکہ ان کے اندر موجود ہے۔ حضرت لقمان نہ تو خود نبی تھے اور نہ ہی کسی نبی کے پیروکار تھے ‘ بلکہ وہ ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان تھے۔ ان کے حوالے سے جو بہت اہم نکتہ یہاں پر واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے اس دورۂ ترجمہ قرآن کے دوران قبل ازیں بھی یہ نکتہ بار بارزیر بحث آچکا ہے کہ ہر انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اور اگر ماحول کے منفی اثرات کے باعث اس کی فطرت مسنح نہ ہوگئی ہو تو وحی یا کسی نبی کی راہنمائی کے بغیر بھی کائنات کے کچھ حقائق تک اس کی رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔ وہ اپنی عقل سلیم کے ذریعے بڑی آسانی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ اس پوری کائنات کا خالق ایک ہے ‘ اس کی تخلیق میں اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں۔ وہ ایسی ہستی ہے جو تمام صفات کمال سے بتمام و کمال متصفّ ہے۔ اسی نے اس کائنات کی تدبیر کی ہے اور وہی اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ اسی طرح ایک سلیم الفطرت انسان عقلی طور پر یہ حقیقت بھی سمجھ سکتا ہے کہ انسان کی زندگی صرف اس دنیا کی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی کا ہونا بھی ناگزیر ہے۔ اور یہ کہ جس خالق نے انسانوں کو پیدا کیا ہے وہ ان کا محاسبہ بھی کرے گا۔ ہر انسان کو اپنے کیے کی سزا یا جزا کے لیے اپنے خالق کے حضور ضرور حاضر ہونا پڑے گا۔ ان حقائق کے ادراک کو ”ایمان“ تو نہیں کہا جاسکتا ‘ لیکن معرفت یا حکمت کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ”ایمان“ تو نبی کی دعوت کی تصدیق کا نام ہے ‘ جس تک انسان خود بخود رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ البتہ معرفت اور حکمت کے یہ دو مقامات وجود باری تعالیٰ کا ادراک اور آخرت کا شعور ایسے ہیں جن تک انسان اپنی عقل سلیم کی مدد سے بھی پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی فطرت پر غفلت اور مادیت کے پردے نہ پڑچکے ہوں۔ایک سلیم الفطرت انسان کو اس مقام معرفت پر پہنچ کر آگے بڑھنے کے لیے کسی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اب تک اس نے عقل کی مدد سے اپنے خالق کو پہچان تو لیا ہے لیکن اس کے خالق کا اس سے تقاضا کیا ہے اس بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ چناچہ یہاں پہنچ کر وہ مدد کے لیے پکارتا ہے۔ انسان کی فطرت سلیمہ کی اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے الفاظ کا جامہ عطا کر کے ایک خوبصورت دعا کی صورت میں محفوظ فرما دیا ہے۔ یہ وہی دعا ہے جو ہم ہر نماز کی ہر رکعت کے اندر پڑھتے ہیں۔ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک عام آدمی کی دعا نہیں ہے بلکہ یہ اس انسان کی فطرت کی پکار ہے جو اپنی سلامتئ طبع ‘ سلامتئ فطرت اور سلامتئ عقل کی مدد سے اللہ کی معرفت حاصل کرچکا ہے۔ اس معرفت کے بعد اس کی روح گویا بےاختیار پکار اٹھتی ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یعنی اس نے اللہ کو خالق کائنات اور رب العالمین کے طور پر پہچان لیا ہے۔ وہ اللہ کو الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہستی کے طور پر بھی جان چکا ہے۔ اس کے بعد وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی منطق کا قائل بھی ہوچکا ہے اور اپنی عقل سلیم ہی کی مدد سے اسے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا فلسفہ بھی سمجھ میں آچکا ہے۔ لیکن اس سے آگے وہ کچھ نہیں جانتا۔ اسے اس حقیقت کا ادراک تو ہوگیا ہے کہ اسے اپنے رب ہی کی بندگی کرنا چاہیے اور اسی کی مرضی پر چلنا چاہیے ‘ مگر اس کی بندگی کا طریقہ کیا ہے ؟ اور اس کی مرضی ہے کیا ؟ اس بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ چناچہ یہاں وہ اسی ذات کی طرف رجوع کرتا ہے جس کی معرفت سے اس کا سینہ منور ہوا ہے اور اس سے راہنمائی کی درخواست کرتا ہے : اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ 5 غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلا الضَّآلِّیْنَ ”اے ہمارے ربّ ! ہمیں ہدایت بخش سیدھی راہ کی۔ راہ ان لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا ‘ جو نہ تو مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ۔“ 6 حضرت لقمان ایک ایسی ہی سلیم الفطرت شخصیت تھے جو وحی یا کسی نبی کی راہنمائی کے بغیر کائنات کے مذکورہ حقائق تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ وہ حبشئ النسل تھے اور پیشے کے اعتبار سے بڑھئی تھے۔ ان کا تعلق مصر اور سوڈان کے سرحدی علاقے نوبیا Noobia سے تھا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت و ذہانت اور سلامتی فطرت کی مدد سے نہ صرف انہیں توحید کی معرفت حاصل ہوئی بلکہ وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ گئے کہ انسانی اعمال ضائع ہونے کی چیز نہیں ہیں۔ اس رکوع میں حضرت لقمان کی ان نصیحتوں کا ذکر ہے جو انہوں نے انتقال کے وقت اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ گویا یہ باتیں ان کی عمر بھر کی سوچ کاُ لبّ لباب ہیں۔ چونکہ وہ کسی نبی کے پیروکار نہیں تھے اور نہ ہی وحی کی تعلیمات ان تک پہنچی تھیں اس لیے ان کی نصیحتوں میں نہ تو کسی رسول کا تذکرہ ہے اور نہ ہی ان حقائق کا ذکر ہے جن کا علم صرف وحی کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ عرب کے لوگ حضرت لقمان کی شخصیت سے خوب واقف تھے۔ وہ نہ صرف انہیں ایک دانشور حکیم کے طور پر جانتے تھے بلکہ ان کے اقوال کو اپنے اشعار اور خطبات میں نقل quote بھی کیا کرتے تھے۔ اس پس منظر میں حضرت لقمان کے اقوال و نصائح کو قرآن میں نقل quote کر کے اللہ تعالیٰ گویا مشرکین عرب کو بتانا چاہتا ہے کہ دیکھو ! لقمان جیسا دانشور حکیم بھی اپنی سلامتی طبع اور سلامتی فکر کے باعث اسی اصول اور اسی نکتے تک پہنچا تھا جس کی دعوت آج تم لوگوں کو محمد ﷺ دے رہے ہیں۔اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ ط ”انسان کی حکمت و دانائی اور اس کی فطرت کے ”سلیم“ ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ جو کوئی بھی اس کے ساتھ بھلائی کرے اس کے لیے اس کے دل میں بھلائی اور احسان مندی کے جذبات پیدا ہوں اور پھر وہ مناسب طریقے سے ان جذبات کا اظہار بھی کرے۔ چناچہ اگر کسی شخص کی فطرت بالکل ہی مسخ نہ ہوچکی ہو تو وہ اپنے محسن اعظم اور منعم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور ہر لمحہ اور ہر مقام پر ضرور کلمہ شکر بجا لائے گا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ اللہ کے شکر کے اظہار کے لیے بہترین کلمہ شکر ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ“ ہے جو قرآن مجید کا کلمہ آغاز بھی ہے۔
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
📘 آیت 13 وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ ”یہاں سے ان نصیحتوں کا آغاز ہوتا ہے جن میں حضرت لقمان اپنے بیٹے سے مخاطب ہیں۔ اگرچہ یہاں پر اس کا ذکر نہیں کیا گیا ‘ لیکن انہوں نے یہ نصیحتیں اپنے انتقال کے وقت کی تھیں۔ ہر شخص فطری طور پر چاہتا ہے کہ وہ اپنی موت سے پہلے اپنی اولاد کو اپنے ورثے کے بارے میں ضروری ہدایات دے جائے۔ جیسے عام طور پر بڑے بڑے کارخانہ دار اور دولت مند لوگ اپنے کاروبار ‘ اثاثہ جات اور اور لین دین کے معاملات سے متعلق وصیت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ چناچہ حضرت لقمان جیسے حکیم انسان نے بھی ضروری سمجھا کہ اپنے عمر بھر کے غوروفکر اور دانائی کا نچوڑاورُ لبّ لباب موت سے پہلے اپنے بیٹے کو منتقل کردیں۔یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ باللّٰہِط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ”لغوی اعتبار سے لفظ ”ظلم“ کا مفہوم ناانصافی اور حق تلفی ہے۔ ”ظلم“ کی تعریف یوں کی جاتی ہے : وَضْعُ الشَّیْئ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖیعنی کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی دوسری جگہ پر رکھ دینا۔ ظلم کی اس تعریف definition پر غور کریں تو یہ نکتہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے کہ یہاں شرک کو ”ظلم عظیم“ کیوں کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کا خالق ہے اور کائنات کی ہرچیز اس کی مخلوق ہے۔ وہ اپنی صفات میں یکتا اور تنہا ہے۔ اب اگر کوئی انسان ان صفات کے اعتبار سے مخلوق میں سے کسی کو اٹھا کر اللہ کے برابر کر دے یا اللہ تعالیٰ کو کسی اعتبار سے گرا کر مخلوق کی صف میں لا کھڑا کرے تو اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا ؟حضرت لقمان کی اس اہم نصیحت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی طرف سے ایک نصیحت کا اضافہ کیا ہے جو والدین کے حقوق سے متعلق ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت لقمان نے کسر نفسی کے باعث خود اپنے حق سے متعلق بیٹے کو نصیحت کرنا مناسب نہ سمجھا ہو ‘ چناچہ اس کمی کو اللہ تعالیٰ نے پورا فرما دیا۔ اس لحاظ سے قرآن حکیم میں یہ پانچواں مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے حق توحید کے فوراً بعد والدین کے حقوق کا بیان فرمایا ہے۔ اس سے پہلے البقرۃ : 83 ‘ النساء : 36 ‘ الانعام : 151 ‘ اور بنی اسرائیل : 23 میں اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر ہوا ہے۔
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
📘 آیت 14 وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ ج ”یعنی والدین کے بارے میں حسن سلوک کی تاکیدی ہدایت کی۔ پھر والدین میں سے بھی والدہ کے حق کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ‘ کیونکہ بچوں کی پیدائش اور پرورش کے سلسلے میں زیادہ مشقت اور تکلیف والدہ ہی کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ ”پہلے نو ماہ تک بچہ ماں کے پیٹ میں رہ کر جونک کی طرح اس کا خون چوستا رہا اور پھر پیدائش کے بعد دو سال تک مسلسل اس کے جسم کی توانائیاں دودھ کی شکل میں نچوڑتا رہا۔ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ ”اب اللہ تعالیٰ اور والدین کے حقوق میں توازن کے سلسلے میں جو وضاحت اگلی آیت میں آرہی ہے وہ ہم سورة العنکبوت کی آیت 8 میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ اس سے ان دونوں سورتوں کے مضامین میں مشابہت اور مناسبت کی نشان دہی بھی ہوتی ہے۔
وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
📘 آیت 15 وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌلا فَلَا تُطِعْہُمَا ”یہاں والدین کے اپنی اولاد کو شرک پر مجبور کرنے کے حوالے سے ”جہاد“ کا لفظ استعمال ہوا ہے ‘ جس کے معنی انتہائی کوشش کے ہیں۔ چناچہ اس لفظ میں والدین کی طرف سے اپنا موقف منوانے کے لیے لڑنے جھگڑنے اور ہر طرح سے دباؤ ڈالنے کا مفہوم موجود ہے۔ البتہ یہاں بہت واضح انداز میں بتادیا گیا ہے کہ والدین کے تمام تر تقدس اور احترام کے باوجود انہیں اپنی حدود سے تجاوز کرنے اور اللہ کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت کسی صورت میں نہیں دی جائے گی۔ چناچہ اگر والدین اپنی اولاد کو اللہ کے ساتھ شرک کرنے پر مجبور کرنے لگیں تو اولاد ان کے اس حکم کی تعمیل کسی قیمت پر نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے یہ اہم نکتہ بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ یہ حکم صرف بت پرستی کی ممانعت تک محدود نہیں بلکہ لَا تُشْرِکْ باللّٰہِ کے الفاظ میں ہر قسم کے شرک کی مطلق ممانعت ہے ‘ بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ اگر والدین اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو توڑنے کا کہہ رہے ہوں تو گویا وہ شرک ہی کا حکم دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کے مقابلے میں کسی دوسرے کو مطاع ماننا گویا اسے معبود بنا لینے کے مترادف ہے۔ جیسے اگر کوئی شخص اپنے نفس کے اکسانے پر حرام میں منہ مارتا ہے یعنی اللہ کے حکم کو چھوڑ کر اپنے نفس کی بات مانتا ہے تو گویا اس نے حرام دولت کو اور اپنے نفس کو معبود کا درجہ دے دیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم کا حکم بہت واضح ہے : اَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰٹہُط اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا الفرقان ”کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے ! تو اے نبی ﷺ ! کیا آپ ایسے شخص کی ذمہ داری لے سکتے ہیں ؟“ شرک جیسے حساس مسئلے کو بہت زیادہ احتیاط اور اہتمام کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شرک کا محدود مفہوم سامنے رکھ کر اس کے بہت سے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ الحمد للہ ! اس موضوع پر میں نے تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ ”حقیقت و اقسام شرک“ کے موضوع پر میری چھ گھنٹے کی تقاریر کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ اس موضوع کو سمجھنے کے لیے ان تقاریر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ان تقاریر کو اسی موضوع کے تحت کتابی صورت میں شائع بھی کیا جا چکا ہے۔ وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًاز ”ملاحظہ کیجیے اللہ تعالیٰ کے احکام کے اندر کس قدر خوبصورت توازن پایا جاتا ہے۔ ایک طرف والدین کے حقوق ادا کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے ‘ جبکہ دوسری طرف ان کے حقوق کی حد بھی مقرر کردی گئی ہے۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ اگر والدین کافر یا مشرک ہیں تو ان کے تمام حقوق ہی ساقط ہوجائیں ‘ بلکہ ایسی صورت میں بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ یعنی اگر والدین مشرک ہیں تو بھی ان کی خدمت کرو ‘ ان کی ضروریات کا خیال رکھو اور ان کے مؤدّب بن کر رہو۔ البتہ اگر وہ شرک پر مجبور کریں یا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کا یہ مطالبہ نہ مانا جائے اور اس حوالے سے بھی انکار کرتے ہوئے ان کے ساتھ بد تمیزی نہ کی جائے۔ وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ج ”قرآن مجید میں جہاں بھی والدین کے حقوق کی بات ہوئی ہے وہاں ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے جبکہ ان کی اطاعت کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں دیا گیا۔ بہر حال اگر والدین کی اطاعت ہوگی بھی تو اللہ کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہ کر ہی ہوگی۔ البتہ جہاں تک اتباع اور پیروی کا تعلق ہے تو وہ صرف اسی شخص کی جائز ہے جو ہر طرف سے منہ موڑ کر کلیّ طور پر اللہ کی اطاعت میں آچکا ہو۔ جب تک نبوت کا تسلسل قائم تھا تو یہ بات انبیاء کرام علیہ السلام پر صادق آتی تھی۔ اب ختم نبوت کے بعد امت میں سے جو شخص بھی اللہ کی اطاعت اور حضور ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے لوگوں کو دین کی طرف بلائے اس آیت کی رو سے اس کا اتباع کرنا اور اس کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ”آخر کار تم سب نے میرے پاس ہی آنا ہے ‘ والدین کو بھی میرے حضور حاضر ہونا ہے اور ان کی اولاد کو بھی۔ ان میں سے جس نے جو کیا ہوگا ‘ وہ سب کچھ اسے دکھا دیا جائے گا۔اب اگلی آیت میں حضرت لقمان کی دوسری نصیحت کا ذکر ہے۔ ان کی پہلی نصیحت آیت 13 میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے بعد دو آیات میں والدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔
يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ
📘 آیت 16 یٰبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ ”اپنی جسامت کے اعتبار سے رائی کا دانہ بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ مراد اس سے بہت ہی چھوٹی یا حقیر چیز ہے۔ قرآن مجید میں کسی چھوٹی یا حقیر چیز کا ذکر کرنے کے لیے حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ رائی کے دانے کے علاوہ بالعموم فَتِیْلاً یعنی کھجور کی گٹھلی کے ساتھ لگے ہوئے دھاگے النساء : 49 اور نَقِیْرًا یعنی کھجور کی گٹھلی کے گڑھے النساء : 124 جیسے الفاظ بھی آتے ہیں ‘ لیکن رائی کا دانہ اپنی جسامت میں ان سب سے چھوٹا ہوتا ہے۔ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِہَا اللّٰہُ ط ”انسان اشرف المخلوقات ہے ‘ اس کے اعمال چاہے اچھے ہوں یا برے وہ بھی انسان ہی کی طرح اہم ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ انسانی اعمال کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ چناچہ انسان کا کوئی بھی عمل چاہے وہ کسی پہاڑ کی کھوہ میں وقوع پذیر ہواہو ‘ خلاء کی پہنائیوں میں یا زمین کے پیٹ کی تاریکیوں میں سر انجام دیا گیا ہو ‘ وہ اللہ سے چھپ نہیں سکتا۔اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ ”یہی مضمون سورة الزلزال میں اس طرح بیان ہوا ہے : فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ”تو جو کوئی کرے گا ذرّہ برابر بھلائی وہ اسے دیکھ لے گا ‘ اور جو کوئی کرے گا ذرّہ برابر برائی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔“ نوٹ کیجیے ! حضرت لقمان نے اپنی وصیت میں شرک اور انسانی اعمال کے لازمی نتائج کے بعد بعث بعد الموت یا جنت و دوزخ کا تذکرہ نہیں کیا۔ اس لیے کہ یہ معلومات صرف وحی یا نبوت کی تعلیمات کے ذرائع سے ہی حاصل ہوسکتی ہیں۔ چناچہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت لقمان نہ تو خود نبی تھے اور نہ ہی ان تک کسی نبی کی تعلیمات پہنچی تھیں۔ اس لیے ان کی نصیحتوں میں صرف وہی باتیں پائی جاتی ہیں جن تک کوئی صاحب حکمت شخص غور و خوض کے ذریعے پہنچ سکتا ہے۔۔ اب ان کی تیسری نصیحت ملاحظہ ہو :
يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
📘 آیت 17 یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ”نماز اللہ کے ذکر کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ نماز کی اقامت یا پابندی سے مقصود بنیادی طور پر یہی ہے کہ اللہ پر ایمان کی کیفیت کو ہر وقت مستحضر رکھا جائے ‘ ورنہ انسان کا نفس اسے غلط راستے پر ڈال دے گا اور شیطان اسے ورغلانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ سورة العنکبوت کی آیت 45 میں نماز کا مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ یہ غلط کاموں سے روکتی ہے : اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَط اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ ط ”تلاوت کرتے رہا کریں اس کی جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف کتاب میں سے اور نماز قائم کریں ‘ یقیناً نماز روکتی ہے بےحیائی سے اور برے کاموں سے“۔ چناچہ حضرت لقمان کی نصیحت کا مفہوم یہ ہے کہ بیٹا ! اللہ کو محض پہچان لینا ہی کافی نہیں بلکہ اسے ہر وقت یاد رکھنا بھی ضروری ہے ‘ ورنہ انسان کا سیدھے راستے سے بھٹکنے کا اندیشہ ہر وقت رہے گا۔ اب ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ حضرت لقمان کے ہاں نماز کی کیا صورت تھی مگر مراد اس سے یہی ہے کہ انسان کو اپنے شب و روز میں کوئی ایسا معمول ضرور اپنانا چاہیے جس سے اللہ کو ہر وقت یاد رکھا جائے۔وَاْمُرْ بالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ ”یہ ان کی چوتھی نصیحت ہے۔ دراصل یہ انسان کی انسانیت ‘ اس کی شرافت اور مروّت کا نا گزیر تقاضا ہے کہ وہ اپنے ابنائے جنس کی بھلائی کے لیے حسب استطاعت کوشاں رہے۔ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت جو کوئی انسان سر انجام دے سکتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ معاشرے میں رہتے ہوئے بھلائی کا پرچار کرے اور برائیوں سے لوگوں کو روکے۔وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ ط ”یہ گویا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عمل کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ اس لیے کہ حق ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے ‘ اپنے اعمال اور رویے ّ پر تنقید کسی کو بھی پسند نہیں۔ چناچہ جب آپ حق کی بات کریں گے ‘ لوگوں کے غلط طرز عمل پر تنقید کریں گے ‘ کسی کو برائی سے رک جانے کی نصیحت کریں گے ‘ تو لوگ آپ کو برا بھلا بھی کہیں گے اور آپ پر کیچڑ بھی اچھالنے کی کوشش کریں گے۔ حتیٰ کہ وہ آپ کی جان کے درپے بھی ہوجائیں گے۔ اس لیے اگر آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علم بلند کر کے حق کا راستہ اپنانا ہے تو پھر آپ کو صبر کرنا بھی سیکھنا ہوگا اور مشکل سے مشکل حالات میں استقامت کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ”غور کریں تو حضرت لقمان کی ان چارنصیحتوں میں وہی چار باتیں ایک دوسرے انداز میں بیان ہوئی ہیں جن کا ذکر سورة العصر میں آیا ہے۔ سورة العصر میں یہ باتیں یوں بیان ہوئی ہیں : اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بالْحَقِّج وَتَوَاصَوْا بالصَّبْرِ ”سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ‘ انہوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی“۔ سورة العصر میں مذکور ان چار نکات یعنی ایمان ‘ اعمال صالحہ ‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا اگر حضرت لقمان کی نصائح کے مندرجات سے تقابل کریں تو ”ایمان“ کی جگہ حضرت لقمان نے توحید کا ذکر کیا ہے ‘ اعمال صالحہ میں سے نماز اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر ہے۔ تواصی بالحق کی جگہ انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی نصیحت کی ہے جبکہ ”صبر“ کا ذکر دونوں جگہ پر ہی موجود ہے۔ گویا دونوں مقامات پر استعمال ہونے والی اصطلاحات اگرچہ مختلف ہیں لیکن مضمون ایک ہی ہے۔
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
📘 آیت 18 وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ للنَّاسِ ”یعنی لوگوں سے بےرخی اور غرور وتکبر کی روش مت اختیار کرو۔اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ”لفظی اعتبار سے مُخْتَال کا تعلق خیل گھوڑے سے ہے۔ گھوڑے کی چال میں ایک خاص تمکنت اور غرور کا انداز پایا جاتا ہے۔ چناچہ جب انسان اپنی چال کے انداز میں گھوڑے کے سے غرور و تمکنت کا مظاہرہ کرتا ہے تو گویا وہ مُخْتَالبن جاتا ہے۔ یہی مضمون اس سے پہلے سورة بنی اسرائیل میں اس طرح بیان ہوا ہے : وَلاَ تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاج اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً ”اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو ‘ تم نہ تو زمین کو پھاڑ سکو گے اور نہ ہی پہنچ سکو گے پہاڑوں تک اونچائی میں“۔۔ اور اب آخری نصیحت :
وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ
📘 آیت 19 وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ ”یہ میانہ روی اقتصاد صرف ظاہری چال ہی میں نہیں بلکہ زندگی کی مجموعی ”چال“ میں بھی مطلوب ہے۔ خصوصی طور پر قرآن میں معیشت کی میانہ روی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ مثلاً سورة الفرقان میں بندۂ مومن کی پختہ mature اور متوازن شخصیت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے : وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا۔ ”اور وہ لوگ کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ ان کا معاملہ اس کے بین بین معتدل ہوتا ہے۔“ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ ط ”خصوصی طور پر کسی بحث و تمحیص کے دوران اونچی آواز میں چیخنے کے بجائے ٹھوس دلیل کے ساتھ پر وقار انداز میں گفتگو کرو۔ کیونکہ عام طور پر بحث کرتے ہوئے آدمی اونچی آواز میں چیخ چیخ کر اس وقت بولتا ہے جب اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔ گویا وہ آواز کے زور سے اپنی دلیل کی کمی پوری کرنا چاہتا ہے۔اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ ”خواہ مخواہ بلند آواز سے بولنے میں انسان کی کوئی بڑائی نہیں ہے۔ اس میں اگر کوئی بڑائی ہوتی تو اس کا سب سے زیادہ مستحق گدھا قرار پاتا جس کی آواز غیر معمولی طور پر بلند اور زور دار ہوتی ہے ‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گدھے کی آواز سب آوازوں سے زیادہ مکروہ اور ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔ چناچہ ایک معقول انسان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ گدھے کی طرح چلاّ چلا کر گفتگو کرے ‘ بلکہ بات چیت میں انسان کا بہتر طرز عمل یہی ہے کہ وہ تحمل سے گفتگو کرے اور گفتگو میں وزن پیدا کرنے کے لیے علمی و عقلی دلیل کا سہارا لے۔
تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ
📘 آیت 2 تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ”سورۃ البقرۃ سے تقابل کریں تو وہاں آیت 2 میں ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ کے الفاظ ہیں۔
أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍ
📘 آیت 20 اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ”تم لوگ غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی ساری مخلوق کو تمہاری خدمت کرنے اور تمہیں سہولیات بہم پہنچانے پر مامور کردیا ہے۔ مثلاً سورج کو دیکھو جو تمہارے لیے تمازت اور روشنی مہیا کرتا ہے۔ اسی سے ہواؤں اور بارشوں کا نظام ترتیب پاتا ہے اور زمین پر فصلوں اور پھلوں کی پرورش ممکن ہوتی ہے۔ زمین کو دیکھو جسے اللہ تعالیٰ نے ایک بچھونے کی طرح بچھا کر تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے اور یوں تمہاری تمام ضرورتیں پوری کرنے کا اہتمام کیا ہے۔وَاَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّبَاطِنَۃً ط ”اللہ کی ان نعمتوں سے ہم دن رات مستفیض ہو رہے ہیں۔ ان میں سے کئی نعمتیں تو ایسی ہیں جنہیں ہم دیکھتے بھی ہیں اور محسوس بھی کرتے ہیں مگر اس کی بیشمار نعمتوں کے بارے میں ہمیں کبھی احساس بھی نہیں ہوا۔ مثلاً ہمارے وجود کے اندر اللہ کی قدرت سے کیسے کیسے نظام خود بخود مصروف عمل ہیں ‘ لیکن عام طور پر ہمیں ان کے بارے میں احساس نہیں ہوتا۔وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ ”اس سے پہلے یہ مضمون سورة الحج کی آیت 3 میں بھی بالکل انہی الفاظ میں آچکا ہے۔ ایسے لوگ اللہ کی ذات ‘ اس کی آیات اور اس کے احکام کے بارے میں طرح طرح کے سوالات اٹھاتے ہیں ‘ منفی انداز میں بحث وتمحیص کرتے ہیں ‘ لیکن اس کے بارے میں ان کے پاس نہ تو کوئی علمی دلیل ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی الہامی ثبوت۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِيرِ
📘 آیت 21 وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَ نَا ط ”یہ سوچ آج بھی زندہ ہے۔ آج بھی ہر معاشرے میں کلچر کے احیاء ‘ لوک ورثے کی حفاظت اور قومی روایات کے پروان چڑھانے کے نام پر کروڑوں روپے کے وسائل ضائع کردیے جاتے ہیں۔اَوَلَوْ کَان الشَّیْطٰنُ یَدْعُوْہُمْ اِلٰی عَذَاب السَّعِیْرِ ”اپنے آباء و اَجداد کے غلط طریقوں سے چمٹے رہنے کی یہ سوچ دراصل شیطانی گمراہی کے سبب ہے۔ چناچہ ایسی باتیں کر کے گویا وہ لوگ شیطان کی دعوت پر لبیک کہہ رہے ہیں اور شیطان کی دعوت تو گویا جہنم کے عذاب کی دعوت ہے۔
۞ وَمَنْ يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
📘 فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ط ”اَلْعُرْوَۃُ الْوُثْقٰی مضبوط کنڈا یا حلقہ سے مراد اللہ کا تعلق اور اس کا سہارا ہے۔ اس مضبوط سہارے کو تھامنے کا ذکر اس سے پہلے سورة البقرۃ کی آیت 256 میں اس طرح آیا ہے : فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم باللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق لاَ انْفِصَامَ لَھَا ط ”اور جو کوئی انکار کرے طاغوت کا اور ایمان لائے اللہ پر اس نے تو ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔“
وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُهُ ۚ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
📘 فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ط ”اَلْعُرْوَۃُ الْوُثْقٰی مضبوط کنڈا یا حلقہ سے مراد اللہ کا تعلق اور اس کا سہارا ہے۔ اس مضبوط سہارے کو تھامنے کا ذکر اس سے پہلے سورة البقرۃ کی آیت 256 میں اس طرح آیا ہے : فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم باللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق لاَ انْفِصَامَ لَھَا ط ”اور جو کوئی انکار کرے طاغوت کا اور ایمان لائے اللہ پر اس نے تو ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔“
نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَىٰ عَذَابٍ غَلِيظٍ
📘 آیت 24 نُمَتِّعُہُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّہُمْ اِلٰی عَذَابٍ غَلِیْظٍ ”ہم نے انہیں دنیوی زندگی کی صورت میں تھوڑی سی مہلت دی ہے ‘ جس میں وہ دنیا کے سازوسامان کو کام میں لاتے ہوئے مزے لوٹ لیں۔ پھر ہم انہیں پکڑ کر بہت سخت عذاب کی طرف دھکیل دیں گے۔
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
📘 آیت 24 نُمَتِّعُہُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّہُمْ اِلٰی عَذَابٍ غَلِیْظٍ ”ہم نے انہیں دنیوی زندگی کی صورت میں تھوڑی سی مہلت دی ہے ‘ جس میں وہ دنیا کے سازوسامان کو کام میں لاتے ہوئے مزے لوٹ لیں۔ پھر ہم انہیں پکڑ کر بہت سخت عذاب کی طرف دھکیل دیں گے۔
لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
📘 آیت 26 لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط ”لفظ اللہ کے ساتھ یہاں ”لام تملیک“ آیا ہے۔ یعنی آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کی ملکیت ہے۔اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ”وہ بےنیاز ہے ‘ اسے کوئی احتیاج نہیں ‘ وہ خود اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔
وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
📘 آیت 27 وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ ”قرآن مجید کے اس اسلوب کی طرف پہلے بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ اہم مضامین کم از کم دو مرتبہ ضرور دہرائے جاتے ہیں۔ چناچہ یہی مضمون سورة الکہف میں اس طرح بیان ہوا ہے : قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِءْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے کہ اگر سمندر سیاہی بن جائے میرے رب کی باتوں کے لکھنے کے لیے تو یقیناً سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں اگرچہ ہم اسی کی طرح اور سمندر بھی مدد کے لیے لے آئیں“۔ سورة الکہف کی اس آیت میں لکھنے کے حوالے سے صرف سیاہی کا ذکر ہے جبکہ یہاں پر سیاہی کے ساتھ قلم کا ذکر بھی ہوا ہے۔ وَّالْبَحْرُیَمُدُّہٗ مِنْم بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ ”یہاں پر الْبَحْرکے بعد مِدَاد سیاہی کا لفظ محذوف ہے۔ بہر حال مفہوم واضح ہے کہ اگر زمین پر موجود سب کے سب درخت قلمیں بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائے اور پھر مزید سات سمندروں کا پانی بھی سیاہی بن کر اس میں شامل ہوجائے تب بھی :مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ”قبل ازیں کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ کائنات کی ہرچیز اللہ کے کلمہ ”کُن“ کا ظہور ہے۔ اس لحاظ سے اللہ کی تمام مخلوقات گویا ”کلمات اللہ“ ہیں جن کا شمار ممکن ہی نہیں۔ پرانے زمانے کے مقابلے میں آج کا انسان اس کائنات کی وسعت کے بارے میں بہتر طور پر جانتا ہے۔ آج کے سائنسدان اربوں نوری سالوں کی وسعت تک کائنات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مگر اس سب کچھ کے باوجود بھی وہ کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کی وسعت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ چناچہ جس کائنات کی وسعت کا اندازہ لگانا کسی کے بس کی بات نہیں ‘ اس میں موجود مخلوق یعنی اللہ کے کلمات وصفات کو احاطۂ تحریر میں لانا کسی کے لیے کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔
مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ
📘 آیت 28 مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ط ”پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی وسعت و عظمت کا تذکرہ تھا۔ اب اس وسیع و عریض کائنات کے انتظام و انصرام اور رنگا رنگ مخلوق کے معاملات کی نگرانی کا ذکر ہے کہ ان تمام امور کی نگہداشت اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔ جیسے آیت الکرسی سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہوا : وَلاَ یَءُوْدُہٗ حِفْظُہُمَاج وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ”اور اس پر گراں نہیں گزرتی ان دونوں زمین و آسمان کی حفاظت ‘ اور وہ بلند وبالا ہے ‘ بڑی عظمت والا۔“
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
📘 آیت 29 اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ ”اس مفہوم کے اعتبار سے اس کی مثال تسبیح کے دانوں کی سی ہے ‘ یعنی قدرت الٰہی سے دن اور رات کی ترتیب ایک ڈوری میں پروئے گئے سیاہ اور سفید رنگ کے دانوں کی سی ہے کہ ایک سیاہ اور ایک سفید دانہ باری باری چلے آ رہے ہیں۔ ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں۔ یعنی دن جب گھٹتا ہے تو رات اس کے کچھ حصے پر قابض ہوجاتی ہے گویا وہ اس میں داخل ہوجاتی ہے۔ اور اسی طرح جب رات گھٹتی ہے تو اس کے کچھ حصے پر دن قبضہ encroachment کرلیتا ہے۔
هُدًى وَرَحْمَةً لِلْمُحْسِنِينَ
📘 آیت 3 ہُدًی وَّرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَ ”یعنی قرآن محسنین کے لیے سراسر ہدایت اور سراپا رحمت ہے۔ یاد رہے سورة البقرۃ کی آیت 2 میں اس کے مقابل ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کے الفاظ ہیں کہ یہ ہدایت ہے اہل تقویٰ کے لیے۔ یہاں پر ایک تو ہدایت کے ساتھ لفظ ”رَحْمَۃ“ کا اضافہ فرمایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کتاب سے استفادہ کے حوالے سے ”متقین“ کے بجائے ”محسنین“ کا ذکر ہے۔ محسنین دراصل متقین سے بلند تر درجے پر فائزوہ لوگ ہیں جن کا ایمان ترقی پاتے پاتے ”احسان“ کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔۔ ”احسان“ قرآن کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ اس کی وضاحت قبل ازیں سورة المائدۃ کی اس آیت کے ضمن میں کی جا چکی ہے : اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ”جب تک وہ تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھیں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اور پھر تقویٰ میں بڑھیں اور ایمان لائیں ‘ پھر اور تقویٰ میں بڑھیں اور پھر درجہ احسان پر فائز ہوجائیں۔ اور اللہ تعالیٰ محسنوں سے محبت کرتا ہے“۔ یہ اس درجہ بندی کی طرف اشارہ ہے جس میں سب سے پہلے اسلام ‘ اس کے بعد ایمان ‘ اور پھر اس کے اوپر احسان کا درجہ ہے۔ اسلام ‘ ایمان اور احسان کی یہ تین منازل ”حدیث جبریل علیہ السلام“ میں بھی بیان ہوئی ہیں۔ چناچہ اللہ کے راستے کے مسافروں کی اعلیٰ ترین منزل ”احسان“ ہے۔
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ
📘 آیت 30 ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُلا ”لغوی اعتبار سے ہر وہ چیز ”باطل“ ہے جو اگرچہ نظر تو آرہی ہو مگر اس کا وجود حقیقی نہ ہو۔ جیسے ”سراب“ کہ دور سے دیکھنے پر پانی نظر آتا ہے مگر اصل میں وہ پانی نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سوا جس کسی کو بھی کوئی معبود سمجھ کر پکارتا ہے وہ محض دھوکہ اور سراب ہے۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُمْ مِنْ آيَاتِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
📘 آیت 31 اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْکَ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰہِ لِیُرِیَکُمْ مِّنْ اٰیٰتِہٖ ط ”یعنی یہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے کہ دریاؤں اور سمندروں میں کشتیاں اور بڑے بڑے جہاز ہزاروں ٹن وزنی سازو سامان اٹھائے رواں دواں ہیں۔اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ ”صَبَّار ‘ فَعَّال کے وزن پر اور شَکُوْر ‘ فَعُوْل کے وزن پر مبالغے کے صیغے ہیں ‘ یعنی بہت زیادہ صبر کرنے والا اور بہت زیادہ شکر کرنے والا۔
وَإِذَا غَشِيَهُمْ مَوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ
📘 آیت 32 وَاِذَا غَشِیَہُمْ مَّوْجٌ کَالظُّلَلِ ”بحری سفر کے دوران جب کبھی یہ لوگ طوفان میں پھنس جاتے ہیں اور سائبانوں کی طرح پھیلی ہوئی موجیں انہیں اپنی طرف ایسے بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جیسے کہ وہ ان کے اوپر سے گزر جائیں گی۔فَلَمَّا نَجّٰٹہُمْ اِلَی الْبَرِّ فَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ ط ”یعنی ان میں سے اکثر و بیشتر توحید خالص سے برگشتہ ہو کر پھر شرک کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ
📘 وَلَا مَوْلُوْدٌ ہُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ شَیْءًا ط ”باپ اور بیٹے کے حوالے سے قریب ترین رشتے کا ذکر کر کے گویا اس سے نچلے درجوں کے تمام رشتوں اور تعلقات کے بارے میں واضح کردیا گیا کہ اس دن کوئی کسی کے کام نہیں آسکے گا۔ جیسا کہ سورة البقرۃ میں ارشاد ہوا : وَاتَّقُوْا یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ ”اور ڈرو اس دن سے جس دن کام نہ آسکے گی کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی اور نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ ہی کسی سے کوئی فدیہ لیا جائے گا اور نہ ہی انہیں کوئی مدد مل سکے گی۔“ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَاوقفۃ ”ایسا نہ ہو کہ تم دنیا کی زندگی کی زیب وزینت پر ریجھ کر اصل زندگی کو بھول جاؤ۔وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ باللّٰہِ الْغَرُوْرُ ”اللہ کے بارے میں انسان کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے شیطان طرح طرح کے حربے آزماتا ہے۔ بعض اوقات وہ انسان کو ہمدردانہ انداز میں باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ اللہ بڑا غفارّ ہے ‘ اس کی رحمت اور مغفرت بہت وسیع ہے ‘ تم خواہ مخواہ گھبرا رہے ہو ‘ کا ہے کو توبہ کا سوچتے ہو ؟ اگر آج تمہیں موقع ملا ہے تو جی بھر کر عیش کرلو ‘ پھر یہ وقت ہاتھ نہیں آئے گا۔ رہا بخشش کا مسئلہ تو اس کی فکر نہ کرو ‘ اللہ بڑے بڑے گنہگاروں کو بھی بخش دے گا۔
إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
📘 آیت 34 اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ج ”اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ گھڑی کب آئے گی۔ عام طور پر ہم ”قیامت“ اور ”السّاعۃ“ کے الفاظ کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں اور انہیں باہم مترادف الفاظ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ ان دونوں میں سے ہر لفظ کا اپنا الگ مفہوم ہے۔ ”السَّاعۃ“ کے معنی مخصوص گھڑی کے ہیں اور قرآنی اصطلاح کے مطابق ”السَّاعۃ“ وہ معینّ گھڑی ہے جب پوری زمین زلزلے سے جھنجھوڑ ڈالی جائے گی ‘ اجرام سماویہ ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ مثلاً سورة القارعہ میں ”السَّاعۃ“ کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے : اَلْقَارِعَۃُ مَا الْقَارِعَۃُ۔ وَمَآ اَدْرٰٹکَ مَا الْقَارِعَۃُ۔ یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ۔ وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ ”وہ کھڑ کھڑانے والی ! کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی ؟ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی ! جب لوگ ایسے ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے پتنگے۔ اور پہاڑ ایسے ہوجائیں گے جیسے دھنکی ہوئی روئی۔“ اسی طرح لفظ ”قیامت“ کا جائزہ لیں تو اس کے لغوی معنی قیام کرنے اور کھڑے ہونے کے ہیں اور اس سے وہ وقت یا وہ دن مراد ہے جب تمام لوگ دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے۔ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ط ”اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک آدمی ساری عمر ایک جگہ مقیم رہا ‘ مگر کبھی اچانک وہ کسی دوسرے ملک گیا اور وہاں اس کی موت واقع ہوگئی ‘ جبکہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسے موت اس دیار غیر میں آئے گی۔اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ”اس آیت کے حوالے سے کچھ لوگ خواہ مخواہ اشکال پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے اس کا مفہوم اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پہلا نکتہ یہ نوٹ کرلیں کہ جن پانچ چیزوں کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے ان میں سے پہلی اور آخری دو یعنی کل تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ذکر میں ”حصر“ کا اسلوب ہے ‘ یعنی ان میں دو ٹوک نفی categorical denial موجود ہے کہ ان چیزوں کا علم صرف اللہ کو ہے ‘ اس کے سوا کوئی دوسرا ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ یہ تین چیزیں ہیں : 1 عِلم السَّاعۃ ‘ 2 اس چیز کا علم کہ کل کوئی کیا کرے گا ‘ اور 3 کسی کو اپنی موت کی جگہ کا علم ہونا۔ جبکہ باقی دو چیزوں دوسری اور تیسری کے ذکر میں ”حصر“ کا اسلوب نہیں ہے۔ یعنی ان کا ذکر کرتے ہوئے کسی دوسرے کے علم کی نفی نہیں کی گئی۔ بلکہ بارش کے حوالے سے تو یہاں اللہ کی قدرت کا ذکر ہوا ہے ‘ نہ کہ اس کے علم کا ‘ کہ اللہ بارش برساتا ہے۔ اس سلسلے کے دوسرے فرمان وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ میں بھی اللہ کے علم کا ذکر ہے کہ وہ جانتا ہے جو کچھ رحموں کے اندر ہے ‘ اور یہاں بھی ”حصر“ کا اسلوب نہیں ہے۔ یعنی کسی دوسرے کے علم کی یہاں بھی نفی نہیں کی گئی۔ چناچہ قرآن کے ان الفاظ میں نہ تو کوئی اشکال ہے اور نہ ہی کسی اعتراض کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ البتہ بعض لوگ اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں جو اس آیت کی وضاحت میں وارد ہوئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رض سے مروی متفق علیہ ”حدیث جبریل“ میں مذکور ہے کہ نووارد شخص جو دراصل حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے نے رسول اللہ ﷺ سے ایمان ‘ اسلام اور احسان کے بارے میں سوالات کرنے کے بعد دریافت کیا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَتَی السَّاعَۃُ ؟ ”اے اللہ کے رسول ﷺ ! قیامت کب آئے گی ؟“ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مَا الْمَسْءُوْلُ عَنْھَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّاءِلِ ! ”جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا !“۔۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی چند علامات بیان فرمائیں اور پھر ارشاد فرمایا : فِیْ خَمْسٍ لَا یَعْلَمُھُنَّ اِلَّا اللّٰہُ ”پانچ چیزوں کے بارے میں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا“۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِج وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَج وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًاط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ 1اس حدیث کے حوالے سے عام طور یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آج کل ماں کے پیٹ کے اندر بچے کی جنس کے بارے میں معلوم کیا جاسکتا ہے ‘ لہٰذا یہ دعویٰ درست نہیں کہ اس کے بارے میں اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ لیکن غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعتراض بھی درست نہیں۔ کیونکہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے ؟ اب تک انسان اس کے صرف ایک پہلو یعنی بچے کی جنس لڑکا یا لڑکی کے بارے میں ہی معلوم کرسکا ہے ‘ جبکہ اس کے بہت سے دوسرے پہلوؤں کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جان سکتا۔ مثلاً ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ بچہ کن صلاحیتوں کا مالک ہوگا ؟ ذہین و فطین ہوگا یا کند ذہن ‘ نیکو کار ہوگا یا بدکار۔ اسی طرح بارش کے بارے میں محکمہ موسمیات کی پیشین گوئیوں کی حقیقت ظن وتخمین سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ چناچہ اس توجیہہ کی موجودگی میں حدیث کے الفاظ پر بھی اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی۔
الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
📘 آیت 4 الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ”اب یہاں محسنین کے اوصاف کا ذکر ہے اور ان کی پہلی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ ”ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ اپنے تزکیے کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ سورة البقرۃ کی آیت 3 میں اس حوالے سے وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ کے الفاظ آئے ہیں ‘ جبکہ یہاں باقاعدہ ”زکوٰۃ“ کا لفظ آیا ہے۔وَہُمْ بالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ ””ایمان بالآخرۃ“ کی اہمیت کے پیش نظر اس کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ یہاں ”یقین“ کا ذکر ہوا ہے۔ دراصل آخرت کا عقیدہ وہ عامل factor ہے جو انسان کے عمل اور کردار پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اس ضمن میں ایک بندۂ مسلمان سے یقین والے ایمان کا تقاضا کرتا ہے۔
أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
📘 آیت 5 اُولٰٓءِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنْ رَّبِّہِمْ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ”یہاں اس سورت کی پانچویں آیت بعینہٖ وہی ہے جو سورة البقرۃ کی پانچویں آیت ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ
📘 آیت 6 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍق وَّیَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ط ”یہاں خصوصی طور پر نضر بن حارث کے کردار کی طرف اشارہ ہے جو روسائے قریش میں سے تھا۔ دراصل نزول قرآن کے وقت عرب کے معاشرہ میں شعر و شاعری کا بہت چرچا تھا۔ ان کے عوام تک میں شعر کا ذوق پایا جاتا تھا اور اچھی شاعری اور اچھے شاعروں کی ہر کوئی قدر کرتا تھا۔ ایسے ماحول میں قرآن کریم جیسے کلام نے گویا اچانک کھلبلی مچا دی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اس کلام کے گرویدہ ہونے لگے تھے ‘ اس کی فصاحت و بلاغت انہیں مسحور کیے دے رہی تھی۔ یہاں تک کہ جو شخص قرآن کو ایک بار سن لیتا وہ اسے بار بار سننا چاہتا۔ یہ صورت حال مشرکین کے لیے بہت تشویش ناک تھی۔ وہ ہر قیمت پر لوگوں کو اس کلام سے دور رکھنا چاہتے تھے اور دن رات اس کی اس ”قوت تسخیر“ کا توڑ ڈھونڈنے کی فکر میں تھے۔ چناچہ نضر بن حارث نے اپنے فہم کے مطابق اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ وہ شام سے ناچ گانے والی ایک خوبصورت لونڈی خرید لایا اور اس کی مدد سے مکہ میں اس نے راتوں کو ناچ گانے کی محفلیں منعقد کرانا شروع کردیں۔ بظاہر یہ ترکیب بہت کامیاب اور مؤثر تھی کہ لوگ ساری ساری رات ناچ گانے سے لطف اندوز ہوں ‘ اس کے بعد دن کے بیشتر اوقات میں وہ سوتے رہیں اور اس طرح انہیں قرآن سننے یا اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی کبھی فرصت ہی میسر نہ آئے۔یہاں ضمنی طور پر اس صورت حال کا تقابل آج کے اپنے معاشرے سے بھی کرلیں۔ مکہ میں تو ایک نضربن حارث تھا جس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا ‘ لیکن آج ہمارے ہاں سپورٹس میچز ‘ میوزیکل کنسرٹس concerts اور بےہودہ فلموں کی صورت میں لہو و لعب اور فحاشی و عریانی کا سیلاب بلا گھر گھر میں داخل ہوچکا ہے جو پورے معاشرے کو اپنی رو میں بہائے چلا جا رہا ہے۔ فحاشی و عریانی کے تعفنّ کا یہ زہر ہمارے نوجوانوں کی رگوں میں اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ بحیثیت مجموعی ان کے قلوب و اَذہان میں موت یا آخرت کی فکر سے متعلق کوئی ترجیح کہیں نظر ہی نہیں آتی۔ ان میں سے کسی کو الّا ما شاء اللہ اب یہ سوچنے کی فرصت ہی میسر نہیں کہ وہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ کس طرف جا رہا ہے ؟ اس کی زندگی کا مقصد و مآل کیا ہے ؟ اس کے ملک کے حالات کس رخ پر جا رہے ہیں اور اس ملک کا مستقبل کیا ہے ؟ اس سب کچھ کے مقابلے میں ذہن اقبالؔ کے ابلیس کی سوچ تو گویا بالکل ہی بےضرر تھی جس نے بقول اقبال ؔ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے کارندوں کو یہ سبق پڑھایا تھا : مست رکھو ذکر و فکر صبح گا ہی میں اسے پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے !گویا اس دور میں ابلیس کو معلوم تھا کہ مسلمان کسی قیمت پر بھی ”عریاں الحاد“ کے جال میں پھنسنے والا نہیں۔ اس لیے وہ کھل کر سامنے آنے کی بجائے ”مزاج خانقاہی“ کا سہارا لے کر مسلمانوں کو ”شرع پیغمبر“ سے برگشتہ کرنے کا سوچتا تھا۔ مگر آج صورت حال یکسر مختلف ہے۔ آج ابلیس کی ”جدوجہد“ کی کرامت سے ”نوجواں مسلم“ اس قدر ”جدت پسند“ ہوچکا ہے کہ فحاشی و عریانی کے مظاہر کو وہ جدید فیشن اور نئی ترقی کا حصہ سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا کے سٹیج پر ابلیسیت کوئی بہروپ بدلنے کا تکلفّ کیے بغیر اپنی اصل شکل میں برہنہ محو رقص ہے اور ہماری نئی نسل کے نوجوان بغیر کسی تردّد کے اپنی تمام ترجیحات کو بالائے طاق رکھ کر اس تماشہ کو دیکھنے میں رات دن مگن ہیں۔ گویا یہی ان کی زندگی ہے اور یہی زندگی کا مقصد و مآل !
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
📘 کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا کَاَنَّ فِیْٓ اُذُنَیْہِ وَقْرًا ج ”گویا وہ بہرا ہے اور جو کچھ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے سنایا ہے اس نے وہ سنا ہی نہیں۔فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ”تاویل خاص کے اعتبار سے دونوں آیات مذکورہ شخص نضر بن حارث کے بارے میں ہیں اور ان میں عذاب کے حوالے سے اسی کا ذکر ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيمِ
📘 کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا کَاَنَّ فِیْٓ اُذُنَیْہِ وَقْرًا ج ”گویا وہ بہرا ہے اور جو کچھ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے سنایا ہے اس نے وہ سنا ہی نہیں۔فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ”تاویل خاص کے اعتبار سے دونوں آیات مذکورہ شخص نضر بن حارث کے بارے میں ہیں اور ان میں عذاب کے حوالے سے اسی کا ذکر ہے۔
خَالِدِينَ فِيهَا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
📘 کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا کَاَنَّ فِیْٓ اُذُنَیْہِ وَقْرًا ج ”گویا وہ بہرا ہے اور جو کچھ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے سنایا ہے اس نے وہ سنا ہی نہیں۔فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ”تاویل خاص کے اعتبار سے دونوں آیات مذکورہ شخص نضر بن حارث کے بارے میں ہیں اور ان میں عذاب کے حوالے سے اسی کا ذکر ہے۔