slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الزمر

(Az-Zumar) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ

📘 آیت 1 { تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ } ”اس کتاب کا نازل کیا جانا ہے اس اللہ کی طرف سے جو زبردست ‘ کمال حکمت والا ہے۔“ سورة الزمر اور سورة المومن کا آپس میں جوڑے کا تعلق ہے۔ چناچہ ان دونوں سورتوں کا آغاز بھی ایک جیسے الفاظ سے ہو رہا ہے ‘ صرف ”الحکیم“ اور ”العلیم“ کا فرق ہے۔ جیسے کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ زیر مطالعہ ضمنی گروپ کی ان آٹھ سورتوں میں سے پہلی سورت یعنی سورة الزمر کے آغاز میں حروفِ مقطعات نہیں ہیں جبکہ باقی ساتوں سورتیں سورۃ المومن تا سورة الاحقاف حٰمٓ کے حروف سے شروع ہوتی ہیں۔

قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ

📘 آیت 10 { قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّکُمْ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے کہ اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو ! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔“ تم لوگ اللہ پر ایمان لائے ہو تو اب تمہیں ہر وقت اللہ کی رضا جوئی کی فکر ہونی چاہیے۔ لہٰذا اللہ جو کام کرنے کا حکم دے وہ کرو اور جس سے وہ منع کرے اس سے باز رہو۔ یہاں پر مسلمانوں کو نبی اکرم ﷺ کی وساطت سے مخاطب کیا گیا ہے۔ یہاں پر یہ نکتہ ایک دفعہ پھر ذہن نشین کرلیں کہ مکی سورتوں میں اہل ایمان کو مخاطب کرنے کا یہی انداز ملتا ہے ‘ جبکہ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے براہ راست خطاب کا اسلوب صرف مدنی سورتوں میں پایا جاتا ہے۔ چناچہ یہاں اہل ایمان سے براہ راست خطاب کرنے کے بجائے حضور ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ میری طرف سے میرے اہل ایمان بندوں کو یہ پیغام پہنچا دیں : { لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ہٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ} ”جو لوگ احسان کی روش اختیار کریں گے ‘ ان کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے۔“ { وَاَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ} ”اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔“ اگر مکہ میں رہتے ہوئے تمہارے لیے توحید پر کاربند رہنا ممکن نہیں رہا تو یہاں سے ہجرت کر جائو۔ { اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ } ”یقینا صبر کرنے والوں کو ان کا اجر پورا پورا دیا جائے گا بغیر حساب کے۔“ اجر کے حوالے سے یہاں پر یُوَفَّی کا اصول بھی بتایا گیا ہے اور بِغَیْرِ حِسَابٍ کی نوید بھی سنائی گئی ہے۔ یعنی پورا پورا بدلہ دینے کے بعد اللہ کا مزید فضل بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے معاملے میں حساب کا کوئی سوال ہی نہیں !

قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ

📘 آیت 11 { قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے مجھے تو حکم ہوا ہے کہ میں بندگی کروں اللہ کی اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔“ یہ وہی الفاظ ہیں جو اس سے پہلے آیت 2 میں بھی آ چکے ہیں۔ یہ مضمون اس سورت کا عمود ہے اور اس میں بار بار آئے گا۔ چناچہ اس مضمون کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ اس حوالے سے بنیادی طور پر یہ نکتہ ذہن نشین کر لیجیے کہ ہرچیز کی طرح عبادت کا بھی ایک ظاہر ہے اور ایک اس کی اصل حقیقت ہے۔ عبادت کا ظاہر اس کی رسومات ہیں۔ ”رسم“ کسی شے کی ظاہری شکل کو کہا جاتا ہے۔ مثلاً یہ لکھائی میں جو حروف اور الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کی ظاہری اشکال کو ”رسم“ رسم الخ ط کہتے ہیں۔ جیسے قرآن کا موجودہ رسم الخط ”رسم عثمانی“ کہلاتا ہے۔ اب اگر نماز کی مثال لیں تو نماز میں کھڑے ہونا ‘ اللہ کی حمد و تسبیح کرنا ‘ رکوع و سجدہ کرنا مراسم عبادت ہیں۔ بعض دوسرے مذاہب میں اپنے معبود کے سامنے مودب کھڑے ہونا ‘ سلیوٹ کرنا اور ہاتھ جو ڑناوغیرہ ان کی عبادت کے مراسم ہیں۔ چناچہ عرف عام میں مراسم ِعبودیت عبادت کی ظاہری شکل و صورت کو ہی ”عبادت“ سمجھا جاتا ہے جبکہ عبادت کی اصل حقیقت کچھ اور ہے۔ اب عبادت کی اصل حقیقت کو یوں سمجھیں کہ یہ بھی دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک جسد ہے اور ایک اس کی روح۔ اصل عبادت کا جسد ”اطاعت“ ہے۔ لیکن عبادت کے حوالے سے اطاعت کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے لفظ ”عبادت“ کے لغوی معنی کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ عبادت کا لفظ ”عبد“ سے مشتق ہے اور عبد کے معنی غلام کے ہیں۔ عبد یا غلام اپنے آقا کی ہمہ تن اور ہمہ وقت اطاعت غلامی کا پابند ہوتا ہے۔ چناچہ قرآن میں اس سے پہلے ہم یہ لفظ دو مرتبہ غلامی اور کلی اطاعت کے معنی میں پڑھ چکے ہیں۔ سورة المومنون میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ﷺ کے بارے میں فرعون کا یہ قول نقل ہوا ہے : { وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ۔ } کہ ان کی قوم تو ہماری غلام ہے۔ اسی طرح سورة الشعراء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس مکالمے کا حوالہ آچکا ہے جس میں آپ علیہ السلام نے فرعون کو مخاطب کر کے فرمایا تھا : { وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ۔ ”اور یہ احسان جو تو مجھے جتلا رہا ہے کیا یہ اس کا بدلہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے ؟“ اب ظاہر ہے بنی اسرائیل فرعون یا قبطیوں کی پرستش یا پوجا تو نہیں کرتے تھے ‘ وہ ان کی نماز نہیں پڑھتے تھے اور انہیں سجدہ بھی نہیں کرتے تھے۔ البتہ وہ ان کے غلام تھے اور اس حیثیت میں ان کی ”اطاعت“ کے پابند تھے۔ لہٰذا متذکرہ بالا دونوں آیات میں عبد کا لفظ کلی اطاعت یا غلامی کے مفہوم میں ہی استعمال ہوا ہے۔ چناچہ اطاعت یا غلامی دراصل عبادت کا جسد ہے جبکہ اس کی روح ”محبت“ ہے۔ یعنی اگر کسی کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اس کی اطاعت کی جائے تو وہ اس کی عبادت ہوگی ‘ جبکہ جبری اطاعت عبادت نہیں ہوسکتی۔ مثلاً 1947 ء سے پہلے برصغیر میں ہم لوگ انگریز کی اطاعت کرتے تھے ‘ لیکن ہماری اس اطاعت کو عبادت نہیں کہا جاسکتا ‘ اس لیے کہ یہ جبری اطاعت تھی۔ امام ابن تیمیہ رح اور ان کے شاگرد حافظ ابن قیم رح نے عبادت کی تعریف یوں کی ہے : العبادۃ تجمع اََصْلَین : غایۃَ الحُبِّ مع غایۃ الذُّلِّ والخُضوع یعنی اللہ کی عبادت دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہے : اس کے ساتھ غایت درجے کی محبت اور اس کے سامنے غایت درجے کا تذلل اور عاجزی کا اظہار۔ دوسرے لفظوں میں اللہ کی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ انسان حد درجے کی محبت کے ساتھ خود کو اللہ کے سامنے بچھا دے اور اس کا مطیع و منقاد ہوجائے۔ چناچہ اللہ کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اس کی کلی اطاعت کرنا اصل عبادت ہے ‘ جبکہ مراسم عبادت کی حیثیت عبادت کے ”ظاہر“ کی ہے۔ آیت زیر مطالعہ کا مضمون گویا اس سورت کا عمود ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اللہ کی اطاعت سے آزاد کسی دوسرے کی مستقل بالذات اطاعت تو شرک ہے ہی ‘ لیکن اگر کسی نے اللہ کی اطاعت کے ساتھ کسی اور کی اطاعت کو بھی شریک کرلیا تو ایسی جزوی یا مشترکہ اطاعت اللہ کو قبول نہیں۔ ایسی اطاعت اللہ کی طرف سے ایسے اطاعت گزار کے منہ پردے ماری جائے گی۔ اس حوالے سے سورة البقرۃ کی آیت 208 کا یہ حکم بہت واضح ہے : { یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص } ”اے اہل ایمان ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو !“ یعنی اللہ کو ُ کلی اطاعت مطلوب ہے۔ کسی کی پچیس فی صد ‘ پچاس فی صد یا پچھتر ّ 75 فی صد اطاعت اسے قبول نہیں۔ یہ تو ہے عبادت کی اصل روح اور اطاعت کی اصل کیفیت جو اللہ کو مطلوب ہے۔ لیکن ایک ہم ہیں جو یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم پانچ یا دس فیصد اطاعت پر ہی اللہ کو نعوذ باللہ ٹرخا دیں گے اور وہ اسی معیار کی اطاعت پر ہمیں جنت اور اس کی نعمتوں سے نواز دے گا۔ دراصل ہماری اسی ٹیڑھی سوچ کی وجہ سے آج ہمارے ذہنوں سے زندگی کے تمام گوشوں میں اللہ کی کلی اطاعت اور کلی بندگی کا تصور نکل چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی کے اسی تصور کو زیر مطالعہ سورتوں میں ایک خاص ترتیب سے اجاگر کیا گیا ہے۔ اس طرح کہ اس مضمون کی جڑیں اس پہلی سورت میں ملیں گی اور اس کی چوٹی چوتھی سورت یعنی سورة الشوریٰ میں جا کر نظر آئے گی۔

وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ

📘 آیت 12{ وَاُمِرْتُ لِاَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ } ”اور مجھے حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلا فرماں بردار میں خود بنوں۔“ ایسا ممکن نہیں کہ میں تم لوگوں کو تو اللہ کی فرماں برداری کی دعوت دوں اور خود مجھے اس کی پروا نہ ہو۔

قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

📘 آیت 13 { قُلْ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ } ”کہہ دیجیے کہ مجھے خود اندیشہ ہے ایک بڑے دن کے عذاب کا اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں۔“ میں خود بھی تو اللہ کا بندہ ہوں ‘ اور اس حیثیت سے اس کی ُ کلی اطاعت کا پابند ہوں۔ اس ضمن میں میرے لیے کوئی استثناء نہیں ‘ اور اگر بالفرض میں بھی اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بھی اللہ کے عذاب کا اندیشہ ہوگا۔ یہ شرطیہ فقرہ ہے اور یوں سمجھیں کہ اس کے درمیان کا ”اگر“ گویا ایک پہاڑ ہے جسے پھلانگنا ناممکنات میں سے ہے۔ دراصل یہ انداز مخالفین کو معاملے کی سنجیدگی کا احساس دلانے کے لیے اختیار فرمایا گیا ہے ‘ ورنہ حضور ﷺ کے لیے اس کا ہرگز کوئی امکان نہیں تھا۔

قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَهُ دِينِي

📘 آیت 14 { قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّہٗ دِیْنِیْ } ”کہہ دیجیے کہ میں تو اللہ ہی کی بندگی کرتا ہوں اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔“ نوٹ کیجیے ! اس مضمون کو یہاں بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ اور ہر بار پڑھنے سے اس میں ایک نیا حسن نظر آتا ہے اور ایک نئی تاثیر کا احساس ہوتا ہے۔ جب کہ ہم انسانوں کی دنیا میں کسی عبارت کے اندر الفاظ یا مضمون کی تکرار ‘ اس تحریر یا تصنیف کا بہت بڑا عیب بن جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی فصاحت و بلاغت کا معجزہ ہے کہ اس کے ہاں تکرار سے کلام کا حسن اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہاں اس مضمون کی غیر معمولی تکرار کی غرض وغایت کو سمجھنے اور اس اسلوبِ خاص میں تاکید emphasis کی شدت کو محسوس کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سورت کے آغاز سے لے کر آیت زیر مطالعہ تک مذکورہ مضمون سے متعلقہ آیات کو ایک مرتبہ پھر سے ذہن میں تازہ کر لیجیے۔ آغاز میں فرمایا گیا : { اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ۔ اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُط } ”اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ پر یہ کتاب اتاری ہے حق کے ساتھ ‘ پس بندگی کرو اللہ کی اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ آگاہ ہو جائو کہ اطاعت ِخالص اللہ ہی کا حق ہے“۔ اس کے بعد آیت 11 ملاحظہ کیجیے : { قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّـہُ الدِّیْنَ۔ ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے مجھے حکم ہوا ہے کہ میں بندگی کروں اللہ کی اس کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے“۔ اور اب زیرمطالعہ آیت کا مضمون دیکھئے : { قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّہٗ دِیْنِیْ۔ ”کہہ دیجیے کہ میں تو اللہ ہی کی بندگی کرتا ہوں اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے“۔ گویا تکرار پر تکرار ہے ‘ اصرار پر اصرار ہے اور تاکید پر تاکید ہے۔

فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ مِنْ دُونِهِ ۗ قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ

📘 آیت 15 { فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ } ”تو تم جس کو چاہو پوجو اس کے سوا !“ { قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ } ”آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اصل میں خسارے میں رہنے والے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو خسارے میں ڈالا قیامت کے دن۔“ یہاں پر تو وہ حرام خوری کے ذریعے خود بھی مزے میں ہیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی عیش و عشرت کا سامان مہیا کر رہے ہیں۔ لیکن اس روش کو اپنا کر وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ کوئی بھلائی یا خیر خواہی نہیں کر رہے بلکہ حقیقت میں وہ خود کو اور ان کو جہنم کا ایندھن بنانے کے اسباب پیدا کر رہے ہیں۔ سورة التحریم ‘ آیت 6 میں اہل ایمان کو اس حوالے سے خصوصی طور پر حکم دیا گیا ہے : { یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا…} ”اے اہل ایمان ! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے…“ لیکن اس کے برعکس جو شخص خود کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ کا مستحق بنا لے اس سے بڑھ کر اور کون گھاٹے میں ہوگا ! { اَلَا ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ } ”آگاہ ہو جائو یہی تو کھلا خسارا ہے۔“

لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ۚ ذَٰلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ ۚ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ

📘 آیت 16 { لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَلٌ} ”ان کے لیے ان کے اوپر سے بھی آگ کے بادل ہوں گے تہہ بر تہہ اور نیچے سے بھی آگ کے بھب کے ہوں گے تہہ بر تہہ۔“ { ذٰلِکَ یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہٗط } ”یہ وہ شے ہے جس سے اللہ ڈراتا ہے اپنے بندوں کو۔“ { یٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ } ”اے میرے بندو ! پس تم مجھ سے ڈرو۔“ میری ان وعیدوں سے ڈر کر تم اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو۔

وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ

📘 آیت 17 { وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْہَا } ”اور وہ لوگ جنہوں نے طاغوت سے کنارہ کشی کرلی اس طرح کہ اس کی بندگی نہ کی“ طاغوت کا لفظ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ سب سے پہلے ہم نے یہ لفظ سورة البقرۃ کی اس آیت میں پڑھا تھا : { فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق } آیت 257 ”تو جو کوئی بھی طاغوت کا انکار کرے اور پھر اللہ پر ایمان لائے تو اس نے بہت مضبوط حلقہ تھام لیا“۔ لفظ طاغوت کا مادہ ”طغی“ ہے اور اس کے معنی سرکشی کے ہیں۔ اسی مادہ سے اردو لفظ ”طغیانی“ مشتق ہے۔ دریا اپنے کناروں کے اندر بہہ رہا ہو تو بہت خوبصورت منظر پیش کرتا ہے لیکن جب وہ اپنی ”حدود“ سے باہر نکل آئے تو ہم کہتے ہیں کہ دریا میں طغیانی آگئی ہے۔ اسی طرح انسان اگر اللہ کی بندگی کی حد میں رہے تو وہ اللہ کا بندہ ہے ‘ اس کا خلیفہ ہے اور اشرف المخلوقات ہے۔ لیکن اگر بندگی کی حدود سے تجاوز کر جائے تو وہ ”طاغوت“ ہے۔ پھر چاہے ان حدود کو پھلانگنے کے بعد وہ اپنے نفس کا بندہ بن جائے یا کسی اور کو اپنا مطاع بنا لے ‘ خود حاکم بن بیٹھے یا اللہ کے علاوہ کسی اور کی حاکمیت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لے ‘ اللہ کی نظر میں وہ طاغوت ہی ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے کنارہ کشی کرلی اس سے کہ وہ طاغوت کی اطاعت یا بندگی کریں : { وَاَنَابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الْبُشْرٰیج فَبَشِّرْ عِبَادِ } ”اور انہوں نے رجوع کرلیا اللہ کی طرف ‘ ان کے لیے بشارت ہے ‘ تو اے نبی ﷺ ! میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجیے۔“ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اب اگلی آیت بہت اہم ہے ‘ اس میں ان بندوں کی صفت بیان کی گئی ہے جنہیں بشارت دی جا رہی ہے۔

الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ

📘 آیت 18 { الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ } ”جو بات کو توجہ سے سنتے ہیں ‘ پھر اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں۔“ یعنی یہ دین جس کی طرف اللہ تمہیں بلا رہا ہے اس کے بھی مختلف مدارج ہیں۔ پہلاد رجہ اسلام ہے ‘ اس سے اونچا درجہ ایمان اور پھر سب سے اونچا درجہ احسان ہے۔ درجہ احسان پر فائز لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے { وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ } المائدۃ کی بشارت سنائی ہے۔ چناچہ ہمیں چاہیے کہ دین کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ محنت کریں اور ہر لمحہ بہتر سے بہتر درجے پر پہنچنے کی فکر میں رہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارا طرز عمل اس کے برعکس ہے۔ دُنیوی معاملات میں تو ہمارا ماٹو بقول حالیؔ یہ ہے کہ ـ: ؎ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں !جبکہ دین کے معاملے میں نہ صرف یہ کہ ہم کم سے کم پر گزارا کرنا چاہتے ہیں بلکہ پسپائی اختیار کرنے کی فکر میں ہر وقت کسی گنجائش اور رعایت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ حالانکہ ایک بندہ مومن کو چاہیے کہ دنیا کے معاملے میں تو کم سے کم پر گزارا کرے اور دین کے معاملے میں ہمیشہ عزیمت کا راستہ اختیار کرنے کی فکر میں رہے۔ { اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ہَدٰٹہُمُ اللّٰہُ وَاُولٰٓئِکَ ہُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ } ”یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو عقل مند ہیں۔“

أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ أَفَأَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِي النَّارِ

📘 آیت 19{ اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْہِ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ } ”تو کیا وہ شخص جس پر ثابت ہوچکا ہے عذاب کا فیصلہ !“ اس کے بعد یہ جملہ گویا محذوف ہے : کَمَنْ ھُوَ فِی الْجَنَّۃِ ؟ یعنی جو شخص عذاب کا مستحق ہوچکا ہے کیا وہ اس شخص کے برابر ہوجائے گا جو کہ جنت میں جانے والا ہے ؟ { اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِی النَّارِ } ”تو اے نبی ﷺ ! کیا آپ اس کو بچا سکیں گے جو آگ میں ہے ؟“ یہ وہ لوگ ہیں جو عذاب سے متعلق اللہ کے قانون کی زد میں آ چکے ہیں۔ اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد ان کے دلوں پر مہریں لگا دی گئی ہیں۔ وہ گمراہی میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ اب ایمان کی طرف ان کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ چناچہ اب وہ آگ کا ایندھن بننے والے ہیں اور اس مرحلے پر آپ ﷺ ان کو اس بھیانک انجام سے نہیں بچا سکتے۔

إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ

📘 آیت 2 { اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ } ”اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ پر یہ کتاب اتاری ہے حق کے ساتھ“ { فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ } ”پس بندگی کرو اللہ کی اپنی اطاعت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔“ اس حکم کے برعکس آج عملی طور پر ہماری زندگیوں کا نقشہ یہ ہے کہ اللہ کی بندگی بھی ہو رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ طاغوت کو بھی پوجا جا رہا ہے۔ ایک طرف نمازیں پڑھی جا رہی ہیں ‘ حج اور عمرے ادا کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حرام خوری بھی جاری ہے اور سودی کاروبار بھی چل رہا ہے۔ اللہ کو ایسی آلودہ polluted بندگی کی ضرورت نہیں۔ وہ تو اپنے بندوں سے خالص بندگی کا تقاضا کرتا ہے۔

لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ الْمِيعَادَ

📘 آیت 20 { لٰـکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِہَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّۃٌ} ”لیکن وہ لوگ جو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے ہوں گے بالا خانوں پر بالا خانے ایک دوسرے کے اوپر ُ چنے ہوئے۔“ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں کئی کئی منزلہ رہائش گاہیں skyscrapers عطا فرمائے گا۔ { تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُط } ”ان کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی۔“ { وَعْدَ اللّٰہِط لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ الْمِیْعَادَ } ”یہ اللہ کا وعدہ ہے ‘ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔“

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

📘 آیت 21 { اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ } ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی ‘ پھر اس کو چلا دیا چشموں کی شکل میں زمین میں“ { ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ } ”پھر اس کے ذریعے سے وہ نکالتا ہے کھیتی جس کے مختلف رنگ ہیں“ { ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰٹہُ مُصْفَرًّا } ”پھر وہ پک کر تیار ہوجاتی ہے ‘ پھر تم اسے دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی ہے“ { ثُمَّ یَجْعَلُہٗ حُطَامًاط } ”پھر وہ اسے چورا چورا کردیتا ہے۔“ کچھ عرصہ پہلے جس کھیت میں فصل لہلہا رہی تھی اب وہاں خاک اڑ رہی ہے اور خشک بھوسے کے کچھ تنکے ہیں جو ادھر ادھر بکھرے نظر آ رہے ہیں۔ { اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ } ”یقینا اس میں یاد دہانی اور سبق ہے ہوشمند لوگوں کے لیے۔“ یعنی اگر غور سے دیکھا جائے تو فصل کے اگنے ‘ نشوونما پا کر پوری طرح تیار ہونے ‘ پک کر سوکھ جانے اور پھر کٹ کر چورا چورا ہوجانے میں انسانی زندگی ہی کے مختلف مراحل کا نقشہ نظر آتا ہے۔ جس طرح فصل کے اپچنے پر کسان خوش ہوتا ہے اسی طرح ہمارے ہاں بچے کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ پھر وہ بچہ پرورش پا کر جوان ہوتا ہے ‘ اس کے بعد آہستہ آہستہ بالوں میں سفیدی آنے لگتی ہے۔ جوانی کی طاقت گھٹنا شروع ہوجاتی ہے ‘ قویٰ کمزور پڑنے لگتے ہیں اور پھر ایک دن اسے قبر میں اتار دیا جاتا ہے ‘ جہاں وہ مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ چناچہ موسمی فصلوں اور انسانوں کا life cycle ایک سا ہے۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ فصل کے اگنے سے لے کر کٹنے تک چند ماہ کا عرصہ درکار ہے جبکہ انسانی زندگی میں یہ دورانیہ پچاس ساٹھ سال کا ہے۔ بہر حال ”زندگی“ دونوں جگہ مشترک ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے بھی دیکھیں تو نباتاتی زندگی Botany اور حیوانی زندگی Zoology دونوں حیاتیات Biology ہی کی شاخیں ہیں۔

أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِنْ رَبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 آیت 22 { اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ } ”بھلا وہ شخص کہ جس کے سینے کو اللہ نے کھول دیا ہے اسلام کے لیے اور وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے !“ یہاں پھر وہی ”حذف“ کا اسلوب ہے۔ چناچہ اس جملے کے بعد یہاں پر کَمَنْ ھُوَ فِی الظُّلُمٰت کا جملہ محذوف مانا جائے گا۔ یعنی ایک وہ شخص ہے جسے اندرونی بصیرت حاصل ہے اور اس کا دل ایمان کے نور سے جگمگا رہا ہے ‘ کیا وہ اس شخص کی طرح ہوجائے گا جو اندھیروں میں بھٹک رہا ہے ؟ { فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُہُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ } ”تو ہلاکت اور بربادی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل سخت ہوگئے ہیں اللہ کے ذکر سے۔“ ان کے دل نرمی اور گداز سے محروم ہوچکے ہیں ‘ چناچہ اب نہ تو ان کے دلوں میں اللہ کے ذکر کا ذوق ہے اور نہ ہی اس کی طرف رجوع کرنے کا شوق۔ { اُولٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } ”یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔“

اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

📘 آیت 23 { اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰـبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ } ”اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے کتاب کی صورت میں ‘ جس کے مضامین باہم مشابہ ہیں اور بار بار دہرائے گئے ہیں“ ہمارے ہاں لوگ عام طور پر لفظ ”حدیث“ کے صرف ایک ہی مفہوم سے آشنا ہیں جو کہ اس لفظ کا اصطلاحی مفہوم ہے ‘ یعنی فرمانِ رسول ﷺ کو اصطلاحاً حدیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ اس لفظ کے لغوی معنی بات یا کلام کے ہیں اور قرآن میں لفظ ”حدیث“ اسی مفہوم میں آیا ہے۔ جیسے سورة المرسلات میں فرمایا گیا : { فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ۔ } کہ اس قرآن کے بعد اب یہ لوگ بھلا اور کس بات پر ایمان لائیں گے ؟ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کا مطلب ہے : بہترین کلام۔ مُّتَشَابِہًا سے مراد قرآن کے الفاظ ‘ اس کی آیات اور اس کے مضامین کا باہم مشابہ ہونا ہے۔ یہ مشابہت قرآن کے اہم مضامین کی تکرار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ قصہ آدم علیہ السلام و ابلیس قرآن میں سات مقامات پر مذکور ہے۔ بظاہر سب مقامات پر یہ قصہ ایک سا معلوم ہوتا ہے مگر ہر جگہ سیاق وسباق کے حوالے سے اس میں کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور سامنے آتی ہے۔ اگر ایک شخص اپنے معمول کے مطابق سات روز میں قرآن مجید ختم کرتا ہو تو وہ ہر روز کہیں نہ کہیں اس قصے کی تلاوت کرے گا۔ اس لحاظ سے اس قصے کی تفصیلات ‘ متعلقہ آیات اور ان آیات کے الفاظ اسے باہم مشابہ محسوس ہوں گے۔ اسی طرح بعض سورتوں کی بھی آپس میں گہری مشابہت ہے اور اسی مشابہت کی بنا پر انہیں جوڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ -۔ - مَثَانِیَکا معنی ہے دہرائی ہوئی یا جوڑوں کی صورت میں۔ { تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ } ”اس کی تلاوت سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔“ متقی لوگ جب قرآن مجید کو پڑھتے ہیں تو ان پر اللہ کا خوف طاری ہوجاتا ہے اور اس خوف کی وجہ سے ان کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے۔ { ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ } ”پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کی یاد کے لیے نرم پڑجاتے ہیں۔“ یعنی ان کے بدن اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف جھک پڑتے ہیں۔ { ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ } ”یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ ہدایت بخشتا ہے جس کو چاہتا ہے۔“ { وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ } ”اور جس کو اللہ گمراہ کر دے پھر اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔“ جس کی گمراہی پر اللہ ہی کی طرف سے مہر ثبت ہوچکی ہو پھر اسے کون ہدایت دے سکتا ہے ؟

أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ

📘 آیت 24 { اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ بِوَجْہِہٖ سُوْٓئَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ } ”بھلا وہ شخص جو اپنے چہرے پر روکے گا بدترین عذاب قیامت کے دن !“ یہ پھر وہی حذف کا اسلوب ہے کہ بھلا ایک شخص جس کا چہرہ قیامت کے دن بدترین عذاب کی زد میں ہوگا اور آگ کے تھپیڑوں کو اپنے چہرے پر روکنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ ہوگا ‘ کیا وہ اس شخص کے برابر ہوجائے گا جو { فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ 5 وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ } الواقعہ کے مزے لے رہا ہوگا ؟ { وَقِیْلَ لِلظّٰلِمِیْنَ ذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَ } ”اور کہہ دیا جائے گا ان ظالموں سے کہ اب چکھو مزہ اس کا جو کچھ کمائی تم کرتے رہے تھے۔“ انہیں جتلا دیا جائے گا کہ یہ تمہارے اپنے اعمال ہی ہیں جنہوں نے آج یہاں آگ کی شکل اختیار کرلی ہے۔

كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ

📘 آیت 25{ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَاَتٰٹہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ } ”اے نبی ﷺ ! جھٹلایا تھا انہوں نے بھی جو ان سے پہلے تھے ‘ تو ان پر آن دھمکا عذاب وہاں سے جہاں سے انہیں گمان تک نہیں تھا۔“

فَأَذَاقَهُمُ اللَّهُ الْخِزْيَ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 26 { فَاَذَاقَہُمُ اللّٰہُ الْخِزْیَ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا } ”تو اللہ نے انہیں دنیا کی زندگی میں رسوائی کا مزہ چکھا دیا۔“ { وَلَـعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ 7 لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ } ”اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہے۔ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا !“

وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ

📘 آیت 27 { وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ } ”اور ہم نے انسانوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں بیان کردی ہیں“ مختلف احکام و مسائل کو قرآن میں کھول کھول کر اور اسلوب بدل بدل کر بیان کردیا گیا ہے۔ { لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ } ”شاید کہ وہ سبق حاصل کریں۔“

قُرْآنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

📘 آیت 28 { قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ } ”ہم نے اسے بنا دیا ہے قرآن عربی ‘ اس میں کوئی کجی نہیں ہے ‘ شاید کہ وہ تقویٰ کی روش اختیار کریں۔“ ہم نے اس قرآن کو فصیح وبلیغ عربی میں اتارا ہے۔ اس کی زبان بہت سادہ اور سلیس ہے۔ اس حوالے سے سورة القمر میں یہ آیت چار مرتبہ دہرائی گئی ہے : { وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ 4 } ”اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے ‘ تو ہے کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنے والا ؟“

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 29 { ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْہِ شُرَکَآئُ مُتَشَاکِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ } ”اللہ نے مثال بیان فرمائی ہے ایک شخص کی جس میں بہت سے آپس میں ضد رکھنے والے آقا شریک ہیں اور ایک وہ شخص ہے جو پورے طور پر ایک ہی آقا کا غلام ہے۔“ یہ تمثیل ”توحید عملی“ کا مفہوم واضح کرنے کے لیے بیان فرمائی جا رہی ہے۔ یہ دو غلاموں کی حالت کا تقابل ہے۔ ایک غلام کے کئی آقا ہیں اور وہ بھی ضدی ‘ مختلف الاغراض اور مختلف مزاج رکھنے والے۔ اور دوسرا غلام وہ ہے جس کا ایک ہی آقا ہے۔ مقامِ غور ہے کہ اگر چار آپس میں ضد رکھنے والے اور تند خو آدمیوں نے مل کر ایک غلام خرید رکھا ہے تو اس غلام کی جان تو ہر وقت مصیبت میں پھنسی رہے گی۔ ایک آقا اسے بیٹھنے کا کہے گا تو دوسرا اٹھنے کا حکم دے گا۔ تیسرا کوئی اور فرمائش کرے گا اور چوتھا کچھ اور کہے گا۔ وہ بےچارا ایک کو خوش کرنے کی کوشش کرے گا تو دوسرا ناراض ہوجائے گا۔ الغرض ایسے غلام کے لیے ایک وقت میں اپنے سب آقائوں کو خوش رکھنا کسی طور بھی ممکن نہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی غلام کا ایک ہی آقا ہو تو اس کے لیے اپنے اس آقا کو خوش کرنا اور مطمئن رکھنا بہت آسان ہوگا۔ اس مثال کی اہمیت انتظامی امور کے حوالے سے بھی سمجھی جاسکتی ہے۔ اگر کسی ملک یا ادارے کا ایک مقتدر سربراہ ہوگا تو اس کا نظام درست رہے گا ‘ لیکن جہاں متوازی حکم چلانے والے کئی سربراہ ہوں گے تو وہاں لازمی طور پر فساد مچ جائے گا۔ اب اس مثال کی روشنی میں شرک اور توحید کے معاملے کو دیکھیں تو حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اگر تم ایک اللہ کے بندے بن کر رہو گے تو سکون اور چین سے رہو گے۔ اگر مختلف شخصیات اور دیوی دیوتائوں کے پجاری بنو گے تو مصیبت میں پھنس جائو گے۔ ایک کو خوش کرو گے تو دوسرا ناراض ہوجائے گا۔ آخر کس کس معبود کی پوجا کرو گے ؟ کتنے آقائوں کے حضور نذرانے پیش کرو گے ؟ اور کہاں کہاں جا کر پیشانی رگڑو گے ؟ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؎یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات ! { ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا } ”کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں مثال میں ؟“ { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ } ”کل ُ تعریف اللہ کے لیے ہے ‘ لیکن ان کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔“ یعنی بات واضح ہوگئی کہ توحید ہی صحیح راستہ ہے ‘ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا جانتے بوجھتے ناسمجھ بنے بیٹھے ہیں۔

أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ

📘 آیت 3 { اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ } ”آگاہ ہو جائو کہ اطاعت ِخالص اللہ ہی کا حق ہے۔“ اللہ کے ہاں صرف دین خالص ہی مقبول ہے۔ اللہ کو یہ ہرگز منظور نہیں کہ اس کا کوئی بندہ اس کی بندگی بھی کرے اور اپنی بندگی کا کچھ حصہ کسی دوسرے کے لیے بھی مختص کرلے۔ اللہ تعالیٰ بہت غیور ہے ‘ وہ شراکت کی بندگی کو واپس اس بندے کے منہ پردے مارتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ میرا بننا ہے تو خالصتاً میرے بنو : { یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص } البقرہ : 208 ”اے اہل ایمان ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو“۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ احکام ماننے اور کچھ نہ ماننے کے حوالے سے سورة البقرۃ کی اس آیت میں بہت سخت وعید آئی ہے : { اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِطوَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ } ”تو کیا تم ہماری کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کا انکار کردیتے ہو ؟ تو نہیں ہے کوئی سزا اس کی جو تم میں سے یہ حرکت کرے سوائے دنیا کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے ‘ اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔“سیاق وسباق کے لحاظ سے اگرچہ اس آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں لیکن آج ہمارے لیے بھی اللہ کا حکم اور قانون یہی ہے۔ بلکہ یہ آیت ہمارے لیے آئینے کی حیثیت رکھتی ہے جس میں آج ہم اپنی تصویر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کی جس رسوائی کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے وہ آج ہمارے ماتھے پر جلی حروف میں لکھی ہوئی صاف نظر آرہی ہے۔ اس وقت مسلمان تعداد میں ڈیڑھ سو کروڑ سے بھی زائد ہیں مگر عزت نام کی کوئی چیز اس وقت ان کے پاس نہیں ہے۔ بین الاقوامی معاملات میں کسی کو ان سے ان کی رائے پوچھنا بھی گوارا نہیں۔ { وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ } ”اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا کچھ اور کو اولیاء بنا یا ہوا ہے“ { مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی } ” وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ان کو صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔“ یعنی اصل میں تو ہم اللہ ہی کو پوجتے ہیں ‘ جبکہ دوسرے معبودوں کو تو ہم اللہ تک پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا صرف وسیلہ سمجھتے ہیں۔ { اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِیْ مَا ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ } ”یقینا اللہ فیصلہ کر دے گا ان کے مابین ان تمام چیزوں میں جن میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔“ { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ} ”اللہ ہرگز ہدایت نہیں دیتا جھوٹے اور نا شکرے لوگوں کو۔“

إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ

📘 آیت 30 { اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّـیِّتُوْنَ } ”اے نبی ﷺ ! یقینا موت آپ پر بھی وارد ہوگی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔“

ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ

📘 آیت 31 { ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ } ”پھر تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس آپس میں جھگڑو گے۔“ اس جھگڑے کی نوعیت کچھ یوں ہوگی کہ حضور ﷺ شہادت دیں گے کہ اے اللہ ! میں نے تیرا پیغام کما حقہ ان تک پہنچا دیا تھا۔ ممکن ہے وہاں ان میں سے کچھ لوگ انکار کریں کہ نہیں نہیں یہ بات ان تک نہیں پہنچی تھی اور بحث و تکرار کی نوبت آجائے۔ ابلاغِ رسالت کے بارے میں پیغمبروں کی گواہی اور متعلقہ امتوں کے افراد سے جواب طلبی کے حوالے سے سورة الاعراف کی یہ آیت بہت اہم ہے : { فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ } ”ہم ان سے بھی پوچھیں گے جن کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا تھا اور ان سے بھی پوچھیں گے جنہیں رسول بنا کر بھیجا تھا“۔ چناچہ وہاں سب پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ کیا آپ لوگوں نے ہمارا پیغام اپنی اپنی قوموں تک پہنچا دیا تھا ؟ جواب میں تمام پیغمبر گواہی دیں گے کہ اے اللہ ہم نے پہنچا دیا تھا۔ اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر موجود لوگوں سے استفسار فرمایا تھا : اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُکہ کیا میں نے اللہ کا پیغام تم لوگوں تک پہنچا دیا ؟ جواب میں پورے مجمعے نے یک زبان ہو کر کہا تھا : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَ اَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ ! 1 کہ حضور ﷺ ہم گواہ ہیں کہ آپ ﷺ نے تبلیغ ‘ امانت اور نصیحت کا حق ادا کردیا ! اس کے بعد حضور ﷺ نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا : اللَّھُمَّ اشْھَدْ ! اللَّھُمَّ اشْھَدْ ! اللَّھُمَّ اشْھَدْ ! کہ اے اللہ ! تو بھی گواہ رہ ‘ یہ لوگ تسلیم کر رہے ہیں کہ میں نے ان تک تیرا پیغام پہنچاد یا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : أَلَا لِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ 2 کہ اب جو لوگ موجود ہیں ان کا فرض ہے کہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ اس طرح آپ ﷺ نے یہ فریضہ امت کی طرف منتقل فرما دیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کے اس فرمان کے بعد یوں سمجھیں کہ اب یہ پوری امت اللہ کے رسول ﷺ کی رسول ہے سورة یٰسٓکی آیت 14 کے تحت اس اصطلاح کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے جو پیغام ان تک پہنچایا ہے اب انہوں نے اسے پوری نوع انسانی تک پہنچانا ہے۔ حضور ﷺ کی امت کے اس اعزاز اور فریضہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو مقامات پر فرمایا ہے ‘ ہجرت سے متصلاً قبل سورة الحج میں اور ہجرت سے متصلاً بعد سورة البقرۃ میں۔ سورة الحج کی آخری آیت میں یوں فرمایا : { ہُوَ اجْتَبٰـٹکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍط مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَط ہُوَ سَمّٰٹکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ 5 مِنْ قَـبْلُ وَفِیْ ہٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَـکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِج } ”اس نے تمہیں چن لیا ہے اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جائو اپنے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ‘ اس سے پہلے بھی تمہارا یہی نام تھا اور اس کتاب میں بھی ‘ تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ ہو“۔ سورة البقرۃ میں اسی مضمون کو ان الفاظ میں پھر سے دہرایا گیا : { وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًاط } آیت 143 ”اور اے مسلمانو ! اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے ‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو“۔ دونوں مقامات پر الفاظ ایک سے آئے ہیں صرف الفاظ کی ترتیب تبدیل ہوئی ہے۔

۞ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ

📘 آیت 32 { فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلَی اللّٰہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَآئَ ہ } ”اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور جھٹلائے سچی بات کو جبکہ اس کے پاس آگئی ہو !“ یہ دونوں خصوصیات ایک ہی شخص کے کردار میں بھی ہوسکتی ہیں کہ وہ اللہ پر جھوٹ بھی باندھ رہا ہو اور اللہ کی طرف سے جو حق اس کے پاس آیا ہے اس کی تکذیب یا نفی بھی کر رہا ہو۔ اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دو الگ الگ کرداروں کا ذکر ہو۔ یعنی ایک وہ شخص جو اپنی کسی بات کو اللہ کی طرف منسوب کر کے دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی آئی ہے۔ ظاہر ہے ایسے شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اسی درجے کا ظالم وہ شخص بھی ہوگا جس کے پاس اللہ کا کلام پہنچ جائے جو کہ سراسر حق ہے اور وہ اس حق کو جھٹلا دے۔ { اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکٰفِرِیْنَ } ”تو کیا جہنم ہی میں ٹھکانہ نہیں ہے ایسے کافروں کا !“ اب اگلی آیت میں اس کے برعکس کردار کا ذکر ہے :

وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ

📘 آیت 33 { وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖٓ } ”اور وہ شخص جو سچائی لے کر آیا اور وہ جس نے اس کی تصدیق کی“ گزشتہ آیت کی طرح یہاں بھی دونوں احتمالات موجود ہیں۔ یعنی یہ الگ الگ دو کردار بھی ہوسکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں خوبیاں کسی ایک ہی شخص میں پائی جائیں کہ وہ راست باز بھی ہے اور حق کی تصدیق کرنے والابھی۔ لیکن اس آیت کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ یہاں وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ سے مراد محمد ٌ رسول اللہ ﷺ ہیں جو اللہ کی طرف سے حق اور سچائی لے کر آئے ہیں اور وَصَدَّقَ بِہٖٓ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رض ہیں جنہوں نے اس سچائی کی بلا حیل و حجت تصدیق کی۔ { اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ } ”یہی لوگ ہیں کہ جو متقی ہیں۔“

لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ

📘 آیت 34 { لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الْمُحْسِنِیْنَ } ”ان کے لیے اپنے رب کے پاس وہ سب کچھ ہے جو یہ چاہیں گے۔ یہی بدلہ ہے نیکوکاروں کا !“

لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 35 { لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا } ”تاکہ اللہ ان سے دور کر دے ان کے ُ برے اعمال کو“ ظاہر بات ہے کہ انبیاء کرام علیہ السلام تو معصوم ہیں۔ ان سے اگر بر بنائے طبع بشری کسی غلط بات کا امکان پیدا ہو بھی جائے تو اللہ تعالیٰ انہیں اس کے صدور سے محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن انبیاء علیہ السلام کے علاوہ تو ہر شخص سے غلطی اور خطا کا امکان ہے۔ چناچہ اوپر کی آیات میں جن متقین اور محسنین کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ ان کی خطائوں اور لغزشوں کو معاف فرما کر ان کے نامہ ہائے اعمال کو برائیوں اور گناہوں سے بالکل پاک کر دے گا۔ { وَیَجْزِیَہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } ”اور ان کو اجر عطا فرمائے ان کے بہترین اعمال کے حساب سے۔“ ظاہر بات ہے کہ ہر نیک شخص کے تمام نیک اعمال ایک جیسے نہیں ہوتے ‘ یعنی نیکیوں کی بھی درجہ بندی ہے۔ کوئی نیکی بہت اعلیٰ درجے کی ہے تو کوئی نسبتاً نچلے درجے کی۔ لہٰذا مذکورہ لوگوں کے اعمال کی جزا دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ان کے بلند ترین درجے کے اعمال کو مد نظر رکھے گا اور ان ہی اعمال کی مطابقت سے جنت میں انہیں مقام و مرتبہ عطا فرمائے گا ‘ جبکہ ان کے برے اعمال کے منفی اثرات سے انہیں پاک کر دے گا۔

أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ ۚ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

📘 آیت 36 { اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ } ”کیا اللہ کافی نہیں ہے اپنے بندے کے لیے ؟“ یہاں بالخصوص نبی اکرم ﷺ اور تبعاً اہل ِایمان کی تسلی مقصود ہے کہ آپ لوگ مطمئن رہیں ‘ اللہ آپ کی مدد اور حفاظت کے لیے کافی ہے۔ لیکن بات میں زور پیدا کرنے کے لیے سوالیہ انداز اختیار فرمایا گیا ہے۔ { وَیُخَوِّفُوْنَکَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ } ”اور اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ کو ڈراتے ہیں ان سے جو اس کے علاوہ ان کے معبود ہیں۔“ یہ لوگ اپنے جھوٹے معبودوں کی طرف سے آپ علیہ السلام کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ آپ پر ان کی کوئی پھٹکار پڑجائے گی۔ اسی طرح سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی آپ علیہ السلام کی قوم نے دھمکی دی تھی کہ آپ نے ہمارے سارے معبودوں کی نفی کر کے انہیں ناراض کردیا ہے ‘ اب آپ پر ان کی پھٹکار پڑے گی اور ان کی طرف سے آپ کی پکڑ ہوگی۔ ان کے جواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا الانعام : 81 کہ ”میں ان سے کیونکر ڈروں جن کو تم نے شریک ٹھہرایا ہے جبکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اس نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی !“ یعنی بدبختو ! مجھے تم ان پتھر کے ُ بتوں سے کیا ڈراتے ہو ‘ جب کہ ڈرنا تو تم لوگوں کو چاہیے کہ تم اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہو ! { وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ } ”اور جس کو اللہ گمراہ کر دے تو اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔“ جس کی گمراہی پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دے اس کی راہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔

وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزٍ ذِي انْتِقَامٍ

📘 آیت 37 { وَمَنْ یَّہْدِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّضِلٍّ } ”اور جس کو اللہ ہدایت دے دے توا سے گمراہ کرنے والا کوئی نہیں۔“ { اَلَیْسَ اللّٰہُ بِعَزِیْزٍ ذِی انْتِقَامٍ } ”تو کیا اللہ زبردست ‘ انتقام لینے والا نہیں ہے ؟“

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ ۚ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ

📘 آیت 38 { وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ } ”اور اے نبی ﷺ ! اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو تو وہ یقینا یہی کہیں گے کہ اللہ نے !“ { قُلْ اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ اَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ہَلْ ہُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖٓ} ”تو ان سے کہیے کہ ذرا غور کرو ! جن کو تم پکارتے ہو اللہ کے سوا ‘ اگر اللہ نے میرے لیے کسی تکلیف کا فیصلہ کرلیا ہے تو کیا وہ تمہارے معبود اس تکلیف کو دور کرسکیں گے ؟“ دراصل مشرکین ِمکہ ّاللہ تعالیٰ کو سب سے بڑے معبود کے طور پر تو مانتے تھے لیکن ساتھ ہی انہوں نے بہت سے چھوٹے معبود بھی بنا رکھے تھے۔ چناچہ اس آیت میں ان کے اسی عقیدے کے مطابق ایک منطقی سوال کیا گیا ہے کہ اگر تمہارا بڑا معبود اللہ کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کرلے تو اس کے بعد کیا اس بڑے کا حکم چلتا ہے یا اس کے مقابلے میں تمہارے یہ چھوٹے معبود بھی اپنی من مرضی کرتے ہیں ؟ اور اگر بالفرض اللہ نے میرے لیے کسی ضرر کا فیصلہ کرلیا ہے تو کیا تمہارے یہ معبود اس کے اس فیصلے کے آڑے آسکتے ہیں ؟ { اَوْ اَرَادَنِیْ بِرَحْمَۃٍ ہَلْ ہُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖ } ”یا اگر اس نے میرے لیے رحمت کا کوئی فیصلہ کرلیا ہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں ؟“ { قُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ } ”آپ کہہ دیجیے کہ میرے لیے تو اللہ ہی کافی ہے ! اور اسی پر توکل ّکرتے ہیں توکل کرنے والے۔“

قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ

📘 آیت 39 { قُلْ یٰـقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ } ”آپ کہیے کہ اے میری قوم کے لوگو ! تم اپنی جگہ پر جو کرسکتے ہو کرلو“ تم لوگ اپنی پوری قوت مجتمع کرلو اور پھر میرے خلاف جو تدبیریں بروئے کار لاسکتے ہو ‘ جو سازشیں کرسکتے ہو اور جو اقدام کرسکتے ہو کر گزرو ! { اِنِّیْ عَامِلٌج فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ } ”میں بھی اپنی سی محنت کر رہا ہوں ‘ پس عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا۔“

لَوْ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا لَاصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ

📘 آیت 4 { لَوْ اَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰی مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ } ”اگر اللہ کا واقعی ارادہ ہوتا کہ کسی کو اولاد بنائے تو وہ چن لیتا اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا“ اللہ کی نہ تو کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کے ہاں اولاد کا کوئی تصور ہے۔ وہ اکیلا خالق ہے اور باقی ہرچیز اس کی مخلوق ہے ‘ فرشتے بھی اس کی مخلوق ہیں۔ اسے کسی کو بیٹا یا بیٹی بنانے کی کوئی ضرورت یا حاجت نہیں ہے۔ { سُبْحٰنَہٗط ہُوَ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ } ”وہ پاک ہے۔ وہ اللہ ہے اکیلا اور کل کائنات پر چھایا ہوا۔“ ُ کل کائنات اور تمام مخلوقات پر اس کی حکومت قائم ہے۔ وہ سب پر قابو رکھنے والا اور غالب ہے۔

مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُقِيمٌ

📘 آیت 40 { مَنْ یَّاْتِیْہِ عَذَابٌ یُّخْزِیْہِ وَیَحِلُّ عَلَیْہِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ} ”کہ کس پر آتا ہے وہ عذاب جو اسے رسوا کر دے اور اس پر وہ عذاب نازل ہوجائے جو ہمیشہ رہنے والا ہو !“

إِنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ

📘 آیت 41 { اِنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ } ”اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کردی ہے لوگوں کے لیے حق کے ساتھ۔“ { فَمَنِ اہْتَدٰی فَلِنَفْسِہٖ } ”تو جو کوئی ہدایت کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ اپنے ہی بھلے کے لیے کرتا ہے۔“ { وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا } ”اور جو کوئی گمراہی اختیار کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر آئے گا۔“ { وَمَآ اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیْلٍ } ”اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔“ آپ ﷺ ان لوگوں کے انجام کے بارے میں جوابدہ نہیں ہیں۔ آپ ﷺ کی ذمہ داری ان تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی حد تک ہے اور قیامت کے دن اسی کے بارے میں آپ ﷺ سے پوچھا جائے گا۔

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

📘 آیت 42 { اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا } ”اللہ قبض کرلیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت“ { وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا } ”اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں۔“ یَتَوَفَّی فعل مضارع وفی مادہ سے باب تفعّل ہے۔ اس کے معنی ہیں کسی چیز کو پورا پورا قبضے میں لے لینا۔ سورة آل عمران کی آیت 55 میں یہ لفظ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے آیا ہے اور وہاں لغوی اعتبار سے اس کی تشریح کی جا چکی ہے۔ اس کے بعد قرآن حکیم کے اس مطالعہ کے دوران جہاں بھی اس مادہ سے کوئی لفظ آیا میں نے خصوصی طور پر اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس لفظ کی بنیاد پر قادیانیوں نے لوگوں کے ذہنوں میں جو اشکالات پیدا کر رکھے ہیں ان کا منطقی جواب مل سکے۔ چناچہ اس کا مفہوم یوں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی موت کے وقت ان کی جانوں اور ان کے شعور کو قبض کرلیتا ہے۔ نیند کی کیفیت میں انسان کا فہم و شعور اور اختیار و ارادہ سلب کرلیا جاتا ہے مگر روح موجود رہتی ہے۔ جبکہ موت کی حالت میں روح اور شعور دونوں چلے جاتے ہیں ‘ صرف جسم پیچھے رہ جاتا ہے۔ چونکہ اس مادے میں کسی چیز کو مکمل اور پورے کا پورا لینے کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لیے لفظ تَوفِیّ کا بتمام و کمال اطلاق تو حضرت مسیح علیہ السلام کے روح ‘ شعور اور جسم سمیت رفع آسمانی کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جبکہ نیند کے حوالے سے یہ لفظ استعارۃً بولا جاتا ہے۔ { فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰٓی اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی } ”تو جس کی موت کا وہ فیصلہ کرچکا ہو اس کو اپنے پاس روکے رکھتا ہے اور دوسروں کو واپس بھیج دیتا ہے ایک وقت ِمعین ّ تک کے لیے۔“ یعنی سونے والا جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اس کا فہم و شعور اور اختیار و ارادہ واپس آجاتا ہے اور ایک وقت معین یعنی اس کی موت تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ انسان کو ہر روز موت اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا مشاہدہ کراتا رہتا ہے۔ { اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّـتَفَکَّرُوْنَ } ”یقینا اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔“

أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ ۚ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ

📘 آیت 43 { اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شُفَعَآئَ } ”کیا انہوں نے اللہ کے سوا کوئی سفارشی بنا رکھے ہیں ؟“ { قُلْ اَوَلَوْ کَانُوْا لَا یَمْلِکُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَعْقِلُوْنَ } ”اے نبی ﷺ ! آپ ان سے کہیے اگرچہ انہیں سرے سے کوئی اختیار ہی نہ ہو اور نہ ہی انہیں کچھ سمجھ ہو پھر بھی وہ تمہاری شفاعت کریں گے ؟“

قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۖ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

📘 آیت 44 { قُلْ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا } ”آپ ﷺ کہیے کہ شفاعت ُ کل کی کل اللہ کے اختیار میں ہے۔“ قیامت کے دن جو کوئی بھی کسی کی شفاعت کرے گا تو وہ اللہ کی اجازت سے ہی کرے گا ‘ اور پھر کسی شفاعت کا قبول کرنا یا نہ کرنا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی بات اللہ سے منوا لے۔ { لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ } ”آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لیے ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹا دیے جائو گے۔“

وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ

📘 آیت 45 { وَاِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ } ”اور جب ذکر کیا جاتا ہے اکیلے اللہ کا تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ُ کڑھنے لگتے ہیں۔“ یہ اصلاً تو کفار کا ذکر ہے ‘ مگر مسلمانوں میں سے بھی جو مشرکانہ ذوق رکھتے ہیں ان کا یہی حال ہے کہ اگر کہیں صرف اللہ ہی کی بات ہو رہی ہو تو انہیں یہ اچھا نہیں لگتا۔ کسی تقریر یا وعظ میں اگر ساری گفتگو توحید پر ہی ہو تو عام طور پر لوگ گھبرا جاتے ہیں کہ یہ کیا بات ہوئی ؟ یہ کیسی تقریر ہے جس میں نہ تو اولیاء اللہ کی کرامات کا ذکر کیا جارہا ہے اور نہ ہی شان نبوت بیان ہو رہی ہے ! { وَاِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ } ”اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر کیا جاتا ہے تب وہ خوش ہوجاتے ہیں۔“

قُلِ اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

📘 آیت 46 { قُلِ اللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ } ”آپ ﷺ کہیے : اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! غائب اور حاضر کے جاننے والے !“ { اَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْ مَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ } ”یقینا تو ُ فیصلہ کرے گا اپنے بندوں کے مابین ان تمام چیزوں میں جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔“

وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ

📘 آیت 47 { وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لَافْتَدَوْا بِہٖ مِنْ سُوْٓئِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ } ”اور اگر ان ظالموں کے پاس وہ سب کچھ ہوتا جو بھی زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہوتا تو وہ قیامت کے دن ُ برے عذاب سے بچنے کے لیے وہ سب فدیہ میں دے دیتے۔“ روزِ محشر اگر ان کے پاس تمام روئے زمین کی دولت ہو بلکہ اتنی اور بھی ہو تو وہ چاہیں گے کہ وہ سب کچھ دے دیں اور انہیں کسی طرح جہنم کے عذاب سے بچالیا جائے۔ انسان کی اس کیفیت کا مشاہدہ تو یہاں دنیا میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ جب کبھی انسان کی جان پر بن جاتی ہے تو وہ ایک گھونٹ پانی کے لیے اپنا سب کچھ دینے کو تیار ہوجاتا ہے۔ بہر حال یہاں یہ اسلوب صرف انسانوں کے سمجھانے کے لیے آیا ہے ‘ ورنہ اس دن نہ تو کسی کے پاس کچھ دینے کو ہوگا اور نہ ہی کوئی کسی کو کچھ دے سکے گا۔ { وَبَدَا لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ مَا لَمْ یَکُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ } ”اور اُس روز ان کے سامنے اللہ کی طرف سے وہ کچھ آجائے گا جس کا انہیں گمان بھی نہیں تھا۔“ آج وہ سمجھتے ہیں کہ جہنم اور اس کے عذابوں کی حقیقت کچھ بھی نہیں ‘ بلکہ ان کا خیال ہے کہ جس طرح بچوں کو کوئی بات منوانے کے لیے فرضی چیزوں سے ڈرایا جاتا ہے اسی طرح ہمیں بھی خالی ڈراوے دیے جا رہے ہیں اور جہنم کا ’ ہوا ‘ دکھایا جا رہا ہے۔ لیکن اس دن جہنم کو اس کے تمام تر عذابوں اور سختیوں کے ساتھ ان کے سامنے لایا جائے گا اور پھر ان سے پوچھا جائے گا : { اَلَیْسَ ہٰذَا بِالْحَقِّط قَالُوْا بَلٰی وَرَبِّنَاط } الانعام : 30 کہ جو کچھ اب تم اپنے سامنے دیکھ رہے ہو کیا یہ حقیقت نہیں ؟ تو اس وقت وہ تسلیم کریں گے کہ ہاں کیوں نہیں ‘ ہمارے پروردگار کی قسم ! واقعی یہ تو ایک حقیقت ہے۔

وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

📘 آیت 48 { وَبَدَا لَہُمْ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوْا وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ } ”اور ان کے سامنے آجائیں گے ان کی کمائی کے سارے ُ برے نتائج اور ان کو گھیرے میں لے لے گی وہ چیز جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔“

فَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 49 { فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَاز } ”تو جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے“ { ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰـہُ نِعْمَۃً مِّنَّا } ”پھر جب ہم اسے لپیٹ دیتے ہیں اپنی نعمت میں“ { قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ } ”تو وہ کہتا ہے مجھے تو یہ ملا ہے اپنے علم کی بنیاد پر۔“ وہ کہتا ہے کہ یہ تو میری سمجھ ‘ ذہانت و فطانت اور منصوبہ بندی کا کمال ہے۔ میں نے بہت پہلے یہ اندازہ کرلیا تھا کہ عنقریب اس چیز کی ڈیمانڈ آنے والی ہے ‘ چناچہ میں نے بر وقت فیکٹری لگا لی اور یوں میرے وارے نیارے ہوگئے۔ یہ مضمون سورة القصص کے آٹھویں رکوع میں قارون کے حوالے سے بڑی وضاحت کے ساتھ آچکا ہے۔ اس نے بھی اپنی دولت کے بارے میں کہا تھا : { اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ } آیت 78 کہ یہ سب کچھ تو مجھے میری ذہانت و فطانت کی وجہ سے ملا ہے۔ { بَلْ ہِیَ فِتْنَۃٌ وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ } ”بلکہ یہ تو ایک آزمائش ہے ‘ لیکن ان کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔“

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ

📘 آیت 5 { خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ”اس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ۔“ یعنی یہ کائنات ایک نہایت منظم ‘ بامقصد اور نتیجہ خیز تخلیق ہے ‘ یہ کوئی کار عبث نہیں ہے۔ { یُـکَوِّرُ الَّــیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُــکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّــیْلِ } ”وہ رات کو لپیٹ دیتا ہے دن پر اور دن کو لپیٹ دیتا ہے رات پر“ یہ مضمون قرآن حکیم میں تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ متعدد مقامات پر یہی الفاظ دہرائے گئے ہیں ‘ جبکہ بعض جگہوں پر { یُوْلِجُ الَّــیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّــیْلِ } کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ بہر حال مقصود اس سے یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ رات اور دن کے الٹ پھیر کا یہ منضبط اور منظم نظام بےمقصد اور عبث نہیں ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے عالم نباتات کے نظام تنفس ّ respiration system کی مثال لی جاسکتی ہے جو کلی طور پر دن رات کے ادلنے بدلنے کے ساتھ متعلق و مشروط ہے یا پھر روئے زمین پر پھیلے ہوئے پورے نظام زندگی کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس گردش لیل و نہار کا مرہونِ منت ہے۔ غرض اس کائنات کی کوئی چیزیا کوئی تخلیق بھی بےمقصد و بےکار نہیں۔ اور اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو پھر انسان اور انسان کی تخلیق کیونکر بےمقصد و بےکار ہوسکتی ہے ‘ جس کے لیے یہ سب کچھ پیدا کیا گیا ہے ؟ یہاں پر ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں یہ سوال خود بخود پیدا ہونا چاہیے کہ جب کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں تو آخر انسان کا مقصد ِتخلیق کیا ہے ؟ ایک حدیث میں الفاظ آئے ہیں : فَاِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَـکُمْ وَاَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَۃِ 1 یعنی دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ بہر حال اگر عقل اور منطق کی عینک سے بھی دیکھا جائے تو بھی آخرت کے تصور کے بغیر انسان کی تخلیق کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ خصوصاً انسان کو نیکی اور بدی کا جو شعور ودیعت ہوا ہے وہ ایک ایسی دنیا کا تقاضا کرتا ہے جہاں اچھائی کا نتیجہ واقعی اچھا نکلے اور برائی کا انجام واقعی برا ہو۔ جبکہ اس دنیا میں ہر جگہ اور ہر وقت ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ چناچہ انسان کی اخلاقی حس moral sense کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے بھی ایک دوسری زندگی کا ظہور نا گزیر ہے۔ { وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ } ”اور اس نے مسخر کردیا سورج اور چاند کو۔“ { کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی } ”یہ سب کے سب چل رہے ہیں ایک وقت معین تک کے لیے۔“ { اَلَا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ } ”آگاہ ہو جائو ! وہ زبردست ہے ‘ بہت بخشنے والا۔“

قَدْ قَالَهَا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

📘 آیت 50 { قَدْ قَالَہَا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ } ”ان سے پہلوں نے بھی یہی بات کہی تھی“ مثلاً قارون بھی ایسے ہی دعوے کیا کرتا تھا۔ { فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ } ”تو جو کچھ بھی انہوں نے کمائی کی تھی وہ ان کے کسی کام نہ آسکی۔“ جب اللہ تعالیٰ نے قارون کو اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا تو اپنی اس دولت کے بل پر وہ اللہ کے عذاب سے بچ نہ پایا۔

فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا ۚ وَالَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هَٰؤُلَاءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ

📘 آیت 51 { فَاَصَابَہُمْ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوْا } ”پس انہیں اس کے بدنتائج پہنچ گئے جو وہ کماتے تھے۔“ { وَالَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ ہٰٓؤُلَآئِ } ”اور ان میں سے بھی جو لوگ ظلم شرک کی روش اختیار کریں گے“ { سَیُصِیْبُہُمْ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوْالا وَمَا ہُمْ بِمُعْجِزِیْنَ } ”ان کو پہنچ کر رہیں گے ان کے کرتوتوں کے برے نتائج ‘ اور وہ اللہ کو عاجز کردینے والے نہیں ہیں۔“

أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 52 { اَوَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَقْدِرُ } ”کیا یہ جانتے نہیں کہ اللہ ہی ہے جو کشادہ کردیتا ہے رزق کو جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے۔“ { اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ } ”یقینا اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ماننے والے ہیں۔“

۞ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

📘 آیت 53 { قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے !“ قُلْ یٰعِبَادِیْکا اندازِ تخاطب اس سورت میں یہاں دوسری مرتبہ آیا ہے۔ اس سے پہلے آیت 10 میں ارشاد ہوا : { قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّکُمْ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو ! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو“۔ اب یہاں گویا پھر سے یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ اب تک کی زندگی اگر تم لوگوں نے غفلت میں گزار دی ہے تو اب بھی وقت ہے ‘ اب بھی ہوش میں آ جائو ! اور اگر تم نے اب تک اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تو : { لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا } ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔“ ٭ لیکن اس معافی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کے حضور خلوص دل سے توبہ کرو ‘ حرام خوری چھوڑ دو ‘ معصیت کی روش ترک کر دو اور آئندہ کے لیے اپنے اعمال کو درست کرلو۔ ایسی توبہ کا انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ملے گا کہ تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ سورة الفرقان میں اس بارے میں بہت واضح حکم موجود ہے : { اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًارَّحِیْمًا۔ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا۔ ”سوائے اس کے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیے ‘ تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دیتا ہے ‘ اور اللہ غفور ہے ‘ رحیم ہے۔ اور جس نے توبہ کی اور نیک اعمال کیے تو یہی شخص توبہ کرتا ہے اللہ کی جناب میں جیسا کہ توبہ کرنے کا حق ہے“۔ چناچہ سابقہ گناہوں کی معافی توبہ سے ممکن ہے ‘ لیکن توبہ وہی قبول ہوگی جس کے بعد انسان کے اعمال درست ہوجائیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو رسمی اور زبانی توبہ بےمعنی ہے۔ { اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ } ”یقینا وہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔“

وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ

📘 آیت 54 { وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ } ”اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو ‘ اور اس کے فرمانبردار بن جائو“ { مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ } ”اس سے پہلے کہ تم پر عذاب ّمسلط ہوجائے ‘ پھر تمہاری کہیں سے مدد نہیں کی جائے گی۔“

وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ

📘 آیت 55 { وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ } ”اور پیروی کرو اس کے بہترین پہلو کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے“ یہ مضمون اس سے پہلے آیت 18 میں بھی آچکا ہے ‘ وہاں پر { فَـیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗط } کے الفاظ آئے ہیں۔ گویا قرآن جو راستہ تم لوگوں کو دکھا رہا ہے اس میں بھی مختلف درجات ہیں۔ ان درجات کا ذکر سورة التوبہ کی اس آیت میں بھی ہوا ہے : { وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ } آیت 100 ”اور پہلے پہل سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصار میں سے ‘ اور وہ جنہوں نے ان کی پیروی کی نیکی کے ساتھ“۔ سورة النساء کی آیت 69 میں بھی چار مدارج کا ذکر ہے۔ ان میں پہلا درجہ انبیاء کرام علیہ السلام کا ہے ‘ دوسرے درجے پر صدیقین ہیں ‘ تیسرے درجے پر شہداء اور چوتھے پر صالحین۔ سورة الحدید میں یہ مضمون زیادہ واضح انداز میں بیان ہوا ہے۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ میں قرآن کے اتباع میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کو پانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ { مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ } ”اس سے پہلے کہ تم پر عذاب اچانک آدھمکے اور تمہیں اس کا گمان تک نہ ہو۔“

أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ

📘 آیت 56 { اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْبِ اللّٰہِ } ”مبادا کہ اس وقت کوئی جان یہ کہے کہ ہائے افسوس اس کوتاہی پر جو مجھ سے اللہ کی جناب میں ہوئی“ م ہائے میری بدقسمتی کہ میں زندگی بھر اپنے دھندوں میں اس طرح مگن رہا کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کو پہچان ہی نہ سکا۔ میرے سامنے اللہ کا دین مغلوب تھا مگر میں اس کی سربلندی کے لیے جدو جہد کرنے کے بجائے اپنی عیش و عشرت کے مواقع ڈھونڈنے اور اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے میں لگا رہا۔ میں نے دنیا کے مال و متاع کو ہی اپنا معبود سمجھ لیا اور عمر بھر اسی کے لیے اپنا تن من دھن کھپاتا رہا۔ { وَاِنْ کُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِیْنَ } ”اور میں تو مذاق اڑانے والوں ہی میں شامل رہا۔“ میں نے اللہ تعالیٰ ‘ اس کے دین اور آخرت کی باتوں کو نہ کبھی دھیان سے سنا اور نہ ہی کبھی سنجیدگی سے ان پر غور کیا ‘ بلکہ میں تو ہمیشہ ان باتوں کا مذاق ہی اڑاتا رہا۔

أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ

📘 آیت 57 { اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰہَ ہَدٰٹنِیْ لَـکُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ } ”یا وہ یہ کہے کہ اگر اللہ نے مجھے ہدایت دی ہوتی تو میں بھی متقین میں سے ہوجاتا !“ اگر کوئی شخص ایسے کہے گا تو گویا وہ اپنے اس اختیار کی نفی کرے گا جو اسے انسان کی حیثیت سے دنیا میں عطا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تو اسے اشرف المخلوقات بنایا تھا اور اختیار دیا تھا : { اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا } الدھر کہ چاہو تو میرے شکر گزار بندے بن کر رہو اور چاہو تو نافرمان اور ناشکرے بن جائو۔

أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ

📘 آیت 58 { اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَی الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ کَرَّۃً فَاَکُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ } ”یا جب وہ عذاب کو دیکھے تو یوں کہے کہ اگر مجھے ایک بار لوٹنا نصیب ہوجائے تو میں محسنین میں سے ہو جائوں !“ یعنی اگر مجھے ایک دفعہ دنیا میں دوبارہ جانے کا موقع مل جائے تو میں صرف مسلم ‘ صرف مومن یا صرف متقی ہی نہیں بنوں گا بلکہ محسنین کی صف میں جگہ بنا لوں گا۔

بَلَىٰ قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ

📘 آیت 59 { بَلٰی قَدْ جَآئَ تْکَ اٰیٰتِیْ فَکَذَّبْتَ بِہَا وَاسْتَکْبَرْتَ وَکُنْتَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ } ”کیوں نہیں ! تیرے پاس میری آیات آئی تھیں تو تو ُ نے ان کو جھٹلا دیا تھا اور تکبر کیا تھا اور تو کافروں میں سے تھا۔“

خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۚ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ

📘 آیت 6 { خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا } ”اس نے پیدا کیا تمہیں ایک جان سے ‘ پھر اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا“ جو لوگ نظریہ ارتقاء evolution theory کو مانتے ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے ساتھ اس کے بعض اجزاء کی مطابقت ہے ‘ وہ اس کی تعبیر یوں کرتے ہیں کہ ابتدا میں پیدا کیے جانے والے حیوانات lower animals میں نر اور مادہ کی تقسیم نہیں تھی۔ جیسے امیبا Amoeba ہے جو دو حصوں میں تقسیم ہو کر اپنے جیسے ایک نئے وجود کو جنم دے دیتا ہے۔ اس کے بعد اگلے مرحلے پر ان کا خیال ہے کہ ایسے جانور پیدا کیے گئے جن کے اندر بیک وقت مذکر اور مونث دونوں جنسیں sexes موجود تھیں۔ جیسے کہ برسات کے موسم میں زمین سے نکلنے والے کینچو وں earth worms میں سے ہر ایک کیڑا مذکر و مونث دونوں جنسوں کا حامل hermaphrodite ہوتا ہے۔ اس کے بعدرفتہ رفتہ دونوں جنسوں میں مزید تفریق ہوئی اور پھر تیسرے مرحلے میں دونوں جنسیں علیحدہ علیحدہ پیدا ہونا شروع ہوئیں۔ { وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ } ”اور تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ جوڑے اتار دیے“ مویشیوں کے آٹھ جوڑوں کے بارے میں قبل ازیں ہم سورة الانعام آیت 143 ‘ 144 میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ ان میں اونٹ نر اور مادہ ‘ گائے نر اور مادہ ‘ بھیڑ نر اور مادہ اور بکری نر اور مادہ آٹھ مویشی شامل ہیں جو اس وقت عرب میں عموماً پائے جاتے تھے۔ { یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ خَلْقًا مِّنْم بَعْدِ خَلْقٍ } ”وہ پیدا کرتا ہے تمہیں تمہارے مائوں کے پیٹوں میں ایک خلق کے بعد دوسری خلق“ یہاں پر خَلْقًا مِّنْم بَعْدِ خَلْقٍسے تخلیق کے مختلف مراحل مراد ہیں۔ ان مراحل کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر نُطْفَۃ ‘ عَلَقَۃ ‘ مُضْغَۃ ‘ مُضْغَۃ مُخَلَّقَۃ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَۃ اور خَلْقًا اٰخَرَ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ البتہ سورة المومنون کے پہلے رکوع کی آیات اس موضوع پر قرآن کے ذروہ سنام کا درجہ رکھتی ہیں۔ { فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ } ”یہ تخلیق ہوتی ہے تین اندھیروں کے اندر“ ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق کا یہ عمل تین پردوں کے اندر ہوتا ہے۔ یعنی ایک پردہ تو پیٹ کی بیرونی دیوار abdominal wall کا ہے۔ دوسرا پردہ رحم uterus کی موٹی دیوار ہے ‘ جبکہ تیسرا پردہ رحم کے اندر کی وہ جھلی مَشِیمہ ہے جس کے اندر بچہ لپٹا ہوتا ہے۔ اس میں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ تین پردوں کی یہ بات قرآن نے صدیوں پہلے اس وقت کی جس وقت علم جنینیات Embryology کے بارے میں انسان کی معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر کیتھ ایل مور جسے ایمبریالوجی پر دنیا بھر میں سند مانا جاتا ہے نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن نے علم جنین کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں وہ واقعتا حیران کن ہیں اور یہ کہ ماں کے پیٹ کے اندر انسانی تخلیق کے مختلف مراحل کی جو تعبیر قرآن نے کی ہے اس سے بہتر تعبیر ممکن ہی نہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ تین پردوں کے اندر انسان کی تخلیق فرماتا ہے۔ اس کے اعضاء اور اس کی شکل کو جیسے چاہتا ہے بناتا ہے۔ { ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُط لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَج فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ } ”وہ ہے اللہ تمہارا رب ‘ اسی کی بادشاہی ہے ‘ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ تو تم لوگ کہاں سے پھرائے جا رہے ہو !“

وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ

📘 آیت 60 { وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تَرَی الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلَی اللّٰہِ وُجُوْہُہُمْ مُّسْوَدَّۃٌ} ”اور قیامت کے دن تم دیکھو گے ان لوگوں کو جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا کہ ان کے چہرے سیاہ ہوں گے۔“ { اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْمُتَکَبِّرِیْنَ } ”تو کیا جہنم ہی میں ٹھکانہ نہیں ہے ایسے متکبرین کا ؟“

وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 آیت 61 { وَیُنَجِّی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِہِمْ } ”اور اللہ نجات دے گا ان لوگوں کو جنہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی تھی اور انہیں پہنچا دے گا ان کی کامیابی کی جگہوں پر۔“ جنت میں ان کے درجات اور مراتب کے مطابق اللہ تعالیٰ انہیں ان کے مقامات تک پہنچا دے گا۔ انبیاء کرام علیہ السلام اپنے مراتب پر پہنچیں گے اور اسی طرح صدیقین ‘ شہداء اور صالحین اپنے اپنے مقامات کو پالیں گے۔ { لَا یَمَسُّہُمُ السُّوْٓئُ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ } ”نہ ان کو کوئی تکلیف چھو سکے گی اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔“

اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ

📘 آیت 62 { اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍز وَّہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ } ”اللہ ہی ہر شے کا خالق ہے ‘ اور وہی ہرچیز پر نگہبان ہے۔“

لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

📘 آیت 63 { لَہٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ”اسی کے لیے ہیں تمام کنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی۔“ { وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ } ”اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہی ہیں گھاٹے میں رہنے والے۔“ اب اس سورت کے آخری دو رکوع ہمارے زیر مطالعہ ہوں گے۔ یہ دونوں رکوع اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ ان میں توحید فی العبادت کا مضمون بہت ُ پر جلال انداز میں بیان ہوا ہے۔

قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ

📘 آیت 64 { قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰہِ تَاْمُرُوْٓنِّیْٓ اَعْبُدُ اَیُّہَا الْجٰہِلُوْنَ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجئے کہ اے جاہلو ! کیا تم مجھے بھی یہ مشورہ دے رہے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کروں ؟“ یہ انداز اس آیت کے علاوہ پورے قرآن میں اور کہیں نہیں پایا جاتا اور یہ خاص اسلوب دراصل مشرکین ِ مکہ کے اس دبائو کا جواب ہے جو انہوں نے حضور ﷺ پر ”کچھ لو اور کچھ دو“ کی پالیسی اختیار کرنے کے لیے ڈال رکھا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ آپ اپنے موقف میں کچھ نرمی پیدا کریں اور ہمارے معبودوں میں سے کچھ کو تسلیم کرلیں تو اس کے جواب میں ہم بھی آپ کی کچھ باتیں مان لیں گے ‘ بلکہ آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کرلیں گے۔ اس طرح ایک درمیانی راہ نکل آئے گی اور جھگڑا ختم ہوجائے گا۔ چناچہ ان کے اس مطالبے کا جواب بہت سخت انداز میں دیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ عربی میں ’ جاہل ‘ اس کو کہتے ہیں جو علم اور عقل کے بجائے جذبات اور خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔

وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

📘 آیت 65 { وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ } ”اور اے نبی ﷺ ! آپ کی طرف تو وحی کی جا چکی ہے اور جو رسول آپ سے پہلے تھے ان کی طرف بھی وحی کردی گئی تھی“ آگے اس وحی کا ُ لب ّلباب بیان کیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے : { لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ } ”اگر آپ بھی بالفرض شرک کریں گے تو آپ کے سارے اعمال بھی ضائع ہوجائیں گے اور آپ بھی نہایت خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“ یہ سخت اسلوب دراصل حضور ﷺ کے لیے نہیں بلکہ مشرکین کے لیے ہے۔ آپ ﷺ کو مخاطب کر کے دراصل انہیں سنانا مقصود ہے کہ قانونِ خداوندی اس سلسلے میں بہت واضح اور اٹل ہے۔ شرک جو کوئی بھی کرے گا اسے اس کی سزا ضرور ملے گی ‘ کسے باشد ! اللہ کا قانون کسی کے لیے تبدیل نہیں کیا جاتا : { وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔ الاحزاب ”اور تم ہرگز نہیں پائو گے اللہ کے طریقے میں کوئی تبدیلی !“

بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ

📘 آیت 66 { بَلِ اللّٰہَ فَاعْبُدْ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ } ”بلکہ آپ ﷺ صرف اللہ ہی کی بندگی کیجیے اور بن جائیے شکر گزار بندوں میں سے !“

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

📘 آیت 67 { وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ } ”اور انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسے کہ اس کی قدر کا حق تھا“ یہ لوگ اللہ کی قدرت ‘ اس کی قوت اور اس کی صفات کا اندازہ نہیں کر پائے۔ اس معاملے میں یہ بہت اہم نکتہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اگرچہ ہم انسان اللہ تعالیٰ کے علم ‘ اس کی قدرت اور اس کی دوسری صفات کو ناپ تول نہیں سکتے ‘ اگر ہم اس کی کوشش بھی کریں گے تو یوں سمجھیں کہ اس کوشش کی مثال سنار کی ترازو میں ٹنوں کے وزن کو تولنے جیسی ہوگی ‘ لیکن ہم یہ تو جان سکتے ہیں کہ وہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہستی ہے۔ اس آیت کے مصداق وہ لوگ ہیں جن کے اذہان اللہ کو عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْـرٌ ماننے سے بھی عاجز ہیں۔ اب اللہ کی قدرت اور عظمت کی ایک جھلک ملاحظہ ہو : { وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌم بِیَمِیْنِہٖ } ”اور زمین پوری کی پوری اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔“ کیا اس کیفیت کا اندازہ کرنا انسانی فکر اور سوچ کے بس کی بات ہے ؟ آسمانوں کی پہنائیاں ! کائنات میں موجود کہکشائوں ‘ ستاروں اور سیاروں کی تعداد ! ایک ایک کہکشاں کی وسعت ! ایک ایک ستارے کی جسامت ! ان کہکشائوں اور ستاروں کے باہمی فاصلے ! ان فاصلوں اور وسعتوں کو ناپنے کے لیے انسان کے فرض کیے ہوئے نوری سالوں کے پیمانے ! ایک نوری سال کے فاصلے کا تصور ! اور پھر اربوں کھربوں نوری سالوں کی وسعتوں کا تخیل ! اور پھر یہ تصور کہ یہ سب کچھ لپٹا ہواہو گا اللہ کے داہنے ہاتھ میں ! ! بہر حال یہ ایسا موضوع ہے جس پر سوچتے ہوئے انسانی فکر اور اس کی قوت متخیلہ بھی تھک ہار کر رہ جاتی ہے۔ اور انسان کی عقل جو اللہ کی تخلیق کی ہوئی کائنات کے کسی ایک کونے کا احاطہ کرنے سے بھی عاجز ہے ‘ وہ اللہ کی قدرت کا کیا اندازہ کرے گی ! { سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ } ”وہ پاک ہے اور بہت بلند وبالا اس تمام شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔“

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ

📘 آیت 68 { وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآئَ اللّٰہُ } ”اور صور میں پھونکا جائے گا تو بےہوش ہوجائیں گے جو کوئی بھی ہیں آسمانوں میں اور زمین میں ‘ سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا۔“ یہ منظر بہت دہشت ناک ہوگا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ فرشتوں کے علاوہ باقی تمام فرشتے بھی صور کی اس آواز سے بےہوش ہو کر گرپڑیں گے۔ دراصل یہ تین نفخے ہوں گے۔ پہلا نفخہ وہ ہوگا جسے قرآن میں ”السَّاعۃ“ بھی کہا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید زلزلے ‘ ہلچل اور طوفان کی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ سورج اور چاند آپس میں ٹکرا جائیں گے۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں گے۔ پھر دوسرا نفخہ ہوگا جس کے نتیجے میں تمام جانداروں پر موت طاری ہوجائے گی۔ اس آیت میں اسی دوسرے نفخہ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد نفخہ ثالثہ کی کیفیت یوں ہوگی : { ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ } ”پھر اس صور میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو اچانک وہ سب کے سب کھڑے ہوجائیں گے دیکھتے ہوئے۔“ اس تیسرے نفخے کے نتیجے میں تمام انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔ یہ گویا بعث بعد الموت کا نفخہ ہوگا اور اسی کا نام قیامت کھڑے ہونا ہے۔

وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

📘 آیت 69 { وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا } ”اور زمین جگمگا اٹھے گی اپنے رب کے نور سے“ اس وقت کی کیفیت کو سورة الفرقان میں یوں بیان فرمایا گیا ہے : { وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآئُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰٓئِکَۃُ تَنْزِیْلًا } ”اور جس دن آسمان پھٹ جائے گا بادلوں کی مانند اور فرشتے نازل کیے جائیں گے لگاتار“۔ پھر اللہ تعالیٰ زمین پر نزول فرمائیں گے اور فرشتے صفیں باندھے نیچے اتریں گے : { وَّجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا } الفجر۔ { وَوُضِعَ الْکِتٰبُ } ”اور اعمال نامہ لا کر رکھ دیا جائے گا“ لوگوں کے اعمال نامے کا سر محشر لا کر رکھے جانے کی صورت حال کا نقشہ سورة الکہف کی آیت 49 میں یوں کھینچا گیا ہے : { وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰٹہَا } ”اور رکھ دیا جائے گا اعمال نامہ ‘ چناچہ تم دیکھو گے مجرموں کو کہ وہ لرزاں و ترساں ہوں گے اس سے جو کچھ اس میں ہوگا اور کہیں گے : ہائے ہماری شامت ! یہ کیسا اعمال نامہ ہے کہ اس نے نہ تو کسی چھوٹی چیز کو چھوڑا ہے اور نہ کسی بڑی کو ‘ مگر اس کو محفوظ کر کے رکھا ہے“۔ اس کے بعد کی کیفیت کا نقشہ آگے دکھایا جا رہا ہے : { وَجِایْٓئَ بِالنَّبِیّٖنَ وَالشُّہَدَآئِ } ”اور لائے جائیں گے انبیاء اور شہید“ یہاں ”شہید“ سے مراد اوّلاً تو رسول ہیں کہ وہ اپنی اپنی امتوں پر سب سے پہلے گواہی دیں گے۔ سورة الحج کی آخری آیت میں حضور ﷺ کی اپنی امت پر گواہی کے بارے میں فرمایا گیا : { لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ } ”تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ ہو“۔ لیکن یہاں انبیاء کے ذکر کے بعد شہید کا لفظ خصوصی طور پر اس لیے لایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں کو بھی گواہ کے طور پر بلایا جائے گا جو انبیاء و رسل علیہ السلام کی طرف سے تبلیغ کرتے رہے ہوں گے۔ جیسے عشرہ مبشرہ میں سے چھ چوٹی کے صحابہ وہ ہیں جو حضرت ابوبکرصدیق رض کی تبلیغ کے نتیجے میں ایمان لائے۔ اسی طرح حضور ﷺ نے بہت سے علاقوں اور قبیلوں کی خواہش پر اپنے بعض صحابہ رض کو قرآن اور دین کی تعلیم کے لیے بھیجا۔ ایسے مبلغ اور معلم ّصحابہ رض زیادہ تر اصحابِ ُ صفہّ رض میں سے تھے۔ ان صحابہ رض نے حضور ﷺ کی طرف سے جن لوگوں کو دعوت دی تھی ‘ قیامت کے دن ان پر وہ گواہی دیں گے کہ اے اللہ ! تیرے نبی ﷺ نے تیرے دین کا جو پیغام ہم تک پہنچایا تھا ہم نے وہ ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ پھر حضور ﷺ کے بعد دین کی دعوت و تبلیغ کی یہ ذمہ داری آپ ﷺ کی امت کی طرف منتقل ہوگئی اور اس لحاظ سے آج ہم سب اس ذمہ داری کے مکلف ہیں۔ چناچہ ہمیں وہاں بطور گواہ بلایا جائے گا کہ محمد ﷺ کی طرف سے اللہ کا جو دین تم تک وراثتاً پہنچا تھا کیا تم لوگوں نے اسے آگے نوع انسانی تک پہنچا دیا تھا ؟ اگر خدانخواستہ ہم یہ گواہی دینے میں ناکام رہے تو ان تمام لوگوں کی گمراہی اور ضلالت کا وبال بھی ہماری گردن پر آئے گا جو ہمارے حلقہ اثر اور دائرئہ اختیار میں تھے اور ہم انہیں دعوت نہیں دے سکے تھے۔ لیکن اگر ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق یہ حق ادا کردیا ہوگا تو ہم اس گواہی سے سرخرو ہوں گے اور وہ لوگ اپنے اعمال کے لیے اللہ کے ہاں خود جوابدہ ہوں گے۔ بہر حال اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت کا منظر دکھایا گیا ہے جو سر محشر سجائی جائے گی۔ تمام بنی نوع انسان کا اعمال نامہ بھی لا کر اس عدالت کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ پھر انبیاء و رسل علیہ السلام اور دوسرے گواہوں کو بھی لا یا جائے گا۔ { وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ } ”اور ان کے مابین فیصلہ کردیا جائے گا حق کے ساتھ اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔“

إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

📘 آیت 7 { اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ قف } ”اگر تم کفر کرتے ہو تو یقینا اللہ تم سے بےنیاز ہے۔“ وہ غنی ہے ‘ اسے تمہاری کوئی احتیاج نہیں ‘ تمہاری طرف سے انکار یا کفرانِ نعمت کی صورت میں اس کی سلطنت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ { وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ } ”لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پر راضی نہیں ہے“ اگرچہ اس نے انسان کو اختیار دے رکھا ہے : { اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا۔ الدھر کہ تم چاہو تو شکرگزار بندے بنو اور چاہو تو کفرانِ نعمت کی روش اختیار کرو۔ یہ تمہارا اپنا فیصلہ ہے ‘ مگر یہ جان رکھو کہ اسے اپنے بندوں کی طرف سے کفر کا رویہ ہرگز پسند نہیں ہے۔ { وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ } ”اور اگر تم شکر کرو تو وہ تم سے راضی ہوگا۔“ اگر تم اس کا شکر ادا کرتے رہو ‘ اس کی حمد و ثنا کے ترانے گاتے رہو اور اس کی بندگی کی روش اختیار کیے رکھو تو وہ تم سے خوش رہے گا۔ وہ اسی طرزعمل کو پسند کرتا ہے۔ { وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی } ”اور نہیں اٹھائے گی بوجھ اٹھانے والی کوئی جان کسی دوسرے کے بوجھ کو۔“ { ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ } ”پھر تمہارا لوٹنا ہے تمہارے رب ہی کی طرف“ { فَیُـنَـبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ } ”پھر وہ تمہیں بتادے گا جو کچھ کہ تم کرتے رہے تھے۔“ { اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ } ”یقینا وہ جاننے والا ہے سینوں کے اندر چھپی ہوئی باتوں کا۔“ جو راز تمہارے سینوں کے اندر مخفی ہیں وہ ان سے بھی باخبر ہے۔

وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ

📘 آیت 70 { وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ } ”اور پورا پورا دے دیا جائے گا ہر جان کو جو کچھ کہ اس نے عمل کیا ہوگا ‘ اور اللہ خوب جانتا ہے جو عمل یہ لوگ کر رہے ہیں۔“ اس موضوع سے متعلق قرآن کے مختلف مقامات پر جو اشارے ملتے ہیں ان سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میدانِ حشر اسی زمین پر ہوگا۔ اس کے لیے زمین کو کھینچ کر پھیلا دیا جائے گا ‘ جیسا کہ سورة الانشقاق کی اس آیت میں فرمایا گیا ہے : { وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ }۔ پھر اسے بالکل ہموار اور چٹیل میدان کی شکل دے دی جائے گی ‘ اس طرح کہ : { لَا تَرٰی فِیْہَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا } طٰہٰ ”تم نہیں دیکھو گے اس میں کوئی ٹیڑھ اور نہ کوئی ٹیلا“۔ پھر یہیں پر اللہ تعالیٰ کا نزول ہوگا اور یہیں پر فرشتے اتریں گے : { وَجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا } الفجر اور یہیں پر حساب کتاب ہوگا۔ گویا قصہ زمین برسرزمین چکایا جائے گا۔ فیصلوں کے بعد اہل جنت کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا اور اہل ِجہنم کو جہنم کی طرف۔ یہ میدانِ حشر کا آخری منظر ہوگا جس کا نقشہ اگلے رکوع میں بڑے ُ پر جلال انداز میں کھینچا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے یہ قرآن کا خاص مقام ہے۔

وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ

📘 آیت 71 { وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا } ”اور ہانک کرلے جائے جائیں گے کافر جہنم کی طرف گروہ در گروہ۔“ اس طرح کہ ایک امت کے بعد دوسری امت اور پھر تیسری اُمت۔ غرض تمام امتوں کے مجرم لوگ اپنے اپنے لیڈروں کی قیادت میں جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔ سورة ہود میں فرعون اور اس کی قوم کے حوالے سے ایک نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے : { یَقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْرَدَہُمُ النَّارَط وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ۔ } ”قیامت کے دن وہ آئے گا آگے چلتا ہوا اپنی قوم کے ‘ پھر وہ آگ کے گھاٹ پر انہیں اتار دے گا۔ اور وہ بہت ہی برا گھاٹ ہے جس پر وہ اتارے جائیں گے“۔ تو یوں اہل جہنم کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا۔ { حَتّٰٓی اِذَا جَآئُ وْہَا فُتِحَتْ اَبْوَابُہَا } ”یہاں تک کہ جب وہ پہنچ جائیں گے جہنم پر تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے“ جیسے جیل کے دروازے صرف نئے قیدیوں کے داخلے کے لیے ہی کھولے جاتے ہیں ‘ اسی طرح جہنم کے بند دروازے بھی مجرموں کی آمد پر ہی کھولے جائیں گے۔ { وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَآ } ”اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے“ ان مجرمین کی آمد پر جہنم پر مامور فرشتے ان سے پوچھیں گے : { اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا } ”کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول علیہ السلام نہیں آئے تھے جو تمہیں سناتے تھے تمہارے رب کی آیات اور تمہیں خبردار کرتے تھے تمہاری آج کے دن کی اس ملاقات سے !“ { قَالُوْا بَلٰی وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ } ”وہ کہیں گے کیوں نہیں ! لیکن کافروں پر عذاب کا حکم ثابت ہو کررہا۔“ یعنی پیغمبروں نے تو دعوت و تبلیغ کا حق ادا کردیا ‘ لیکن یہ لوگ انکار اور کفر پر اڑے رہے اور یوں انہوں نے خود کو عذاب کا مستحق ثابت کر دکھایا۔

قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ

📘 آیت 72 { قِیْلَ ادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاج فَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ } ”کہہ دیا جائے گا ان سے کہ داخل ہو جائو جہنم کے دروازوں میں ‘ اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے۔ تو بہت برا ہے یہ ٹھکانہ متکبرین کا۔“ پیغمبروں کی دعوت کے جواب میں جو اکڑفوں تم لوگ دکھاتے رہے تھے اس کی وجہ سے آج تم اس انجام سے دو چار ہوئے ہو۔

وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ

📘 آیت 73 { وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا } ”اور لے جایا جائے گا ان لوگوں کو جنت کی طرف جو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کیے رہے تھے گروہ در گروہ۔“ { حَتّٰٓی اِذَا جَآئُ وْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا } ”یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے“ یہاں پر ”و“ بہت معنی خیز ہے۔ اس ”و“ کی وجہ سے فقرے میں یہ مفہوم پیدا ہو رہا ہے کہ جنت کے دروازے پہلے سے ہی کھلے ہوں گے۔ یعنی اہل جنت کا انتظار کھلے دروازوں کے ساتھ ہو رہا ہوگا۔ اس حوالے سے سورة ص کی آیت 50 میں { مُفَتَّحَۃً لَّہُمُ الْاَبْوَابُ۔ } کے الفاظ بھی اسی مفہوم کو واضح کرتے ہیں۔ { وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ } ”اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے : آپ پر سلام ہو ‘ آپ لوگ کتنے پاکباز ہیں !“ { فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَ } ”اب داخل ہوجائیے اس میں ہمیشہ ہمیش رہنے کے لیے۔“

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ ۖ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ

📘 آیت 74 { وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ } ”اور وہ کہیں گے کہ ُ کل حمد اور کل شکر اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کردیا“ { وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآئُ } ”اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا کہ اب ہم گھر بنا لیں جنت میں جہاں چاہیں۔“ { فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ } ”تو بہت ہی اچھا ہوگا اجر عمل کرنے والوں کا !“ گواہوں نے گواہیاں دے دیں ‘ آخری فیصلے صادر کردیے گئے ‘ سزا پانے والوں کو جہنم کی طرف بھیج دیا گیا ‘ کامیاب ہونے والوں کو جنت میں پہنچا دیا گیا۔ اب آخری آیت میں گویا عدالت ِمحشر کا اختتامی منظر ڈراپ سین دکھایا جا رہا ہے :

وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 آیت 75 { وَتَرَی الْمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ } ”اور تم دیکھو گے ‘ فرشتوں کو کہ وہ عرش الٰہی کو گھیرے ہوئے ہوں گے ‘ اپنے ربّ کی تسبیح بیان کر رہے ہوں گے اس کی حمد کے ساتھ۔“ { وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ } ”اور ان کے مابین حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا“ یہاں پر بَیْنَہُمْ سے کچھ مفسرین نے تو انسان ہی مرادلیے ہیں اور ان کی رائے یہ ہے کہ یہاں گویا وہی بات دہرائی گئی ہے جو قبل ازیں چھٹے رکوع میں بایں الفاظ بیان ہوچکی ہے :ـ { وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ }۔ لیکن ایک دوسری رائے کے مطابق یہاں پر وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کے فیصلوں کے بعد فرشتوں کے درمیان بھی فیصلہ کردیا جائے گا۔ قبل ازیں سورة صٓ کی آیت 69 کے ضمن میں یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ فرشتے عاقل ہستیاں ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی اپنی سوچ اور اپنی رائے رکھتا ہے۔ اس بنا پر ان میں اختلافات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے بارے میں بحث کرتے ہوئے ان میں سے ہر کوئی اپنی اپنی رائے دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فلاں فیصلے میں یہ حکمت ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ چناچہ اس جملے کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخر میں فرشتوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کا بھی حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا۔ { وَقِیْلَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ”اور پکارا جائے گا کہ ُ کل کی کل حمد اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے !“ یعنی آخر میں وہی اللہ تعالیٰ کی جے بلند کی جائے گی کہ کل شکر اور کل تعریف اللہ کے لیے ہے ‘ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے !

۞ وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَنْدَادًا لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ

📘 آیت 8 { وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہٗ مُنِیْبًا اِلَیْہِ } ”اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتا ہے اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے“ { ثُمَّ اِذَا خَوَّلَہٗ نِعْمَۃً مِّنْہُ نَسِیَ مَا کَانَ یَدْعُوْٓا اِلَـیْہِ مِنْ قَـبْلُ } ”پھر جب وہ عطا کردیتا ہے اسے کوئی نعمت اپنی طرف سے تو وہ جس چیز کے لیے پہلے اس کے حضور دعائیں کر رہا تھا سب بھول جاتا ہے“ خَوَّلَ کے لفظی معنی اوڑھانے اور لپیٹنے کے ہیں۔ اردو لفظ ”خول“ اسی سے مشتق ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے گرد اپنی نعمت کا خول بنا دیتا ہے ‘ اسے اپنی نعمت اوڑھا دیتا ہے یا اپنی نعمت کے اندر اسے لپیٹ لیتا ہے۔ { وَجَعَلَ لِلّٰہِ اَنْدَادًا } ”اور وہ اللہ کے ّمد ِمقابل ٹھہرا لیتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کے بعد وہ قبل ازاں مانگی ہوئی اپنی دعائوں کو بھول جانے اور اللہ تعالیٰ سے اعراض کرنے پر ہی بس نہیں کرتا ‘ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اللہ کے مد مقابل جھوٹے معبود بنانے کی جسارت بھی کر گزرتا ہے۔ { لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ } ”تاکہ بہکائے لوگوں کو اس کے راستے سے۔“ { قُلْ تَمَتَّعْ بِکُفْرِکَ قَلِیْلًاق اِنَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے کہ مزے اڑا لو اپنے کفر کے ساتھ تھوڑی دیر ‘ یقینا تم آگ والوں میں سے ہو !“ کفر کی جو روش تم نے اختیار کر رکھی ہے ‘ اس کے ساتھ دنیا کی چند روزہ زندگی میں جو عیش کرسکتے ہو کرلو ‘ اس کے بعد تمہارا مستقل ٹھکانہ جہنم ہے۔ بالآخر اسی کی آگ میں تمہیں جھونک دیا جائے گا۔

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ

📘 آیت 9 { اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآئَ الَّـیْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ } ”بھلا وہ شخص جو بندگی کرنے والا ہے رات کی گھڑیوں میں ‘ سجود و قیام کرتے ہوئے ‘ وہ آخرت سے ڈرتا رہتا ہے ‘ اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار بھی ہے !“ ان الفاظ کے بعد کی عبارت محذوف ہے اور یہ اسلوب اس سورت میں بار بار آتا ہے۔ آگے چل کر متعدد آیات ایسی ملیں گی جہاں جملوں کو نا مکمل چھوڑ دیا گیا ہے کہ سننے یا پڑھنے والا اپنے علم ‘ ذہن اور ذوق کے مطابق خود مکمل کرلے۔ چناچہ یہاں پر کَمَنْ ھُوَ غَافِلٌ ؟ کے الفاظ سے اس جملے کو مکمل کیا جاسکتا ہے کہ کیا ایک ایسا شخص جو اللہ کا فرمانبردار ہے ‘ وہ اپنی راتوں کی گھڑیاں اللہ کے حضور اس کیفیت میں گزارتا ہے کہ کبھی سجدے میں پڑا ہوا ہے اور کبھی حالت قیام میں ہے ‘ اس کے دل میں آخرت کا خوف بھی ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید بھی ‘ کیا وہ ایک ایسے شخص کے برابر ہوجائے گا جو بالکل غفلت میں پڑا ہوا ہے ؟ { قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے کہ کیا برابر ہوسکتے ہیں وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے ؟“ { اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ } ”حقیقی نصیحت اور سبق تو وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل مند ہیں۔“