🕋 تفسير سورة فصلت
(Fussilat) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ حم
📘 آیت 1 { حٰمٓ۔ ”حٰ ‘ مٓ۔“
وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ
📘 آیت 10 { وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِہَا } ”اور اس میں اس نے بنائے پہاڑوں کے لنگر اس کے اوپر سے“ { وَبٰرَکَ فِیْہَا وَقَدَّرَ فِیْہَآ اَقْوَاتَہَا فِیْٓ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ } ”اور اس میں برکات پیدا کیں اور اس میں اندازے مقررکیے اس کی غذائوں کے ‘ چار دنوں میں۔“ یعنی دو دنوں میں زمین کو پیدا کیا جو بذات خود ایک بہت بڑی تخلیق ہے ‘ پھر مزید دو دنوں میں اس کے اوپر سے اس پر پہاڑ جما دیے اور زمین کی مٹی کو روئیدگی کے قابل بنایا۔ زمین ابتدا میں تو آگ کے ایک ُ کرے ّکی شکل میں تھی۔ آہستہ آہستہ یہ ٹھنڈی ہوئی۔ پہلے پہل اس کی مٹی میں صرف inorganic compounds پائے جاتے تھے۔ ہوتے ہوتے organic compounds پیدا ہوئے۔ اس کے بعداس میں وہ صلاحیت اور اہلیت پیدا ہوئی کہ یہ زندگی کا گہوارہ بن سکے۔ یہ سارا عمل چار دنوں میں مکمل ہوا۔ یہ آیت تا حال آیات متشابہات میں سے ہے ‘ ابھی تک ہم ان چار دنوں کی حقیقت اور تفصیل کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ { سَوَآئً لِّلسَّآئِلِیْنَ } ”تمام سائلین کے لیے برابر۔“ زمین کی مختلف صلاحیتوں ‘ اس کی پیداوار اور اس کے غذائی ذخائر پر ان سب کا حق برابر ہے جنہیں ان کی ضرورت ہے۔ اس میں کسی کے لیے کوئی خاص حصہ نہیں رکھا گیا۔
ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ
📘 آیت 11 { ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ وَہِیَ دُخَانٌ} ”پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا ‘ اور ابھی وہ ایک دھواں سا تھا“ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب آسمان ایک دھویں کی شکل میں تھا اور ابھی سات آسمانوں کی الگ الگ صورتیں وجود میں نہیں آئی تھیں۔ ان آیات میں کائنات کی تخلیق کے ابتدائی مرحلے سے متعلق کچھ اشارے پائے جاتے ہیں۔ سائنسی شواہد کے مطابق Big Bang کے بعد آگ کا ایک بہت ہی بڑا گولا وجود میں آیا۔ پھر اس گولے میں مزید دھماکے ہوئے اور اس طرح اس مادے کے جو حصے علیحدہ ہوئے ان سے کہکشائیں بننا شروع ہوئیں۔ { فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا } ”تو اس نے آسمان اور زمین سے کہا کہ تم دونوں چلے آئو خوشی سے یا جبراً !“ { قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ } ”ان دونوں نے کہا کہ ہم حاضر ہیں پوری آمادگی کے ساتھ۔“
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
📘 آیت 12 { فَقَضٰہُنَّ سَبْعَ سَمٰواتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ } ”پھر اس نے ان کو سات آسمانوں کی شکل دے دی ‘ دو دنوں میں۔“ قرآن حکیم میں سات مقامات پر یہ ذکر ملتا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق چھ دنوں میں ہوئی ‘ لیکن یہ قرآن کا واحد مقام ہے جہاں نہ صرف ان چھ دنوں کی مزید تفصیل break up دی گئی ہے بلکہ اس تخلیقی عمل کی ترتیب sequence کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ یعنی پہلے زمین بنی اور سات آسمان اس کے بعد وجود میں آئے۔ لیکن ابھی تک ہم نہ تو مذکورہ چھ دنوں کے مفہوم کو سمجھ سکے ہیں اور نہ ہی زمین و آسمان کے تخلیقی عمل کی ترتیب سے متعلق سائنٹیفک انداز میں کچھ جان سکتے ہیں۔ بہر حال ہمارا یمان ہے کہ مستقبل میں کسی وقت سائنس ضرور ان معلومات تک رسائی حاصل کرے گی اور انسان اس حقیقت کی تہہ تک ضرور پہنچ جائے گا کہ زمین و آسمان کے وجود میں آنے کی صحیح ترتیب وہی ہے جو قرآن نے بیان فرمائی ہے۔ { وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَہَا } ”اور اس نے وحی کردیا ہر آسمان پر اس کا حکم“ سات آسمان بنانے کے بعد ہر آسمان پر اس سے متعلق تفصیلی احکامات بھیج دیے گئے۔ { وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا } ”اور ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے ّمزین کردیا اور اس کی خوب حفاظت کی۔“ چراغوں سے مراد ستارے ہیں۔ ستارے زمین سے قریب ترین آسمان کے لیے باعث زینت بھی ہیں اور شیاطین جن کی سرگرمیوں کے خلاف حفاظتی چوکیوں کا کام بھی دیتے ہیں۔ چناچہ جو شیاطین جن غیب کی خبریں حاصل کرنے کے لیے ممنوعہ حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان پر ان ستاروں سے میزائل داغے جاتے ہیں۔ اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سورة الحجر کی آیت 17 اور سورة الانبیاء کی آیت 32 کی تشریح۔ { ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ } ”یہ اس ہستی کا بنایا ہوا اندازہ ہے جو زبردست ہے اور ُ کل علم رکھنے والا ہے۔“
فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ
📘 آیت 13 { فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ } ”تو اے نبی ﷺ ! اگر یہ لوگ اعراض کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ میں نے تو تمہیں خبردار کردیا ہے ایک ایسی خوفناک کڑک سے جیسی کہ قوم عاد اور قوم ثمود کی کڑک تھی۔“ میں نے تو تم لوگوں کو آگاہ کردیا ہے کہ جیسے قوم عاد اور قوم ثمود پر عذاب آیا تھا ‘ تمہاری تکذیب کے باعث ویسا ہی کوئی عذاب تم پر بھی ٹوٹ سکتا ہے۔
إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۖ قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ
📘 آیت 14 { اِذْ جَآئَ تْہُمُ الرُّسُلُ مِنْم بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ } ”جبکہ ان کے پاس رسول علیہ السلام آئے ان کے سامنے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی“ یہاں پر قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر کر کے عرب کا وہ پورا علاقہ مراد لیا گیا ہے جہاں مختلف قوموں کی طرف پے در پے پیغمبر آئے۔ ان پیغمبروں اور ان کی اقوام کا ذکر قرآن میں بہت تکرار سے آیا ہے۔ { اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ } ”اس دعوت کے ساتھ کہ اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔“ { قَالُوْا لَوْ شَآئَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰٓئِکَۃً } ”جواب میں ہر قوم کے لوگوں نے یہی کہا کہ اگر ہمارا رب چاہتا تو فرشتوں کو نازل کردیتا“ { فَاِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ } ”پس جو چیز دے کر آپ بھیجے گئے ہیں ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔“ آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ کو اللہ نے کوئی خاص پیغام دے کر ہماری طرف بھیجا ہے تو آپ اس حوالے سے ہمارا جواب بھی سن لیں اور وہ یہ کہ آپ کے دعوے کے مطابق جس چیز کے ساتھ بھی آپ کو بھیجا گیا ہے ہم اسے ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ
📘 آیت 15 { فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ } ”عاد کا معاملہ یہ تھا کہ انہوں نے زمین میں بہت تکبر کیا بالکل ناحق“ { وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً } ”اور انہوں نے کہا کہ کون ہے ہم سے بڑھ کر قوت میں ؟“ { اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃً } ”کیا انہوں نے غور نہیں کیا تھا کہ وہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا وہ ان سے بہت بڑھ کر ہے قوت میں !“ اگر انہیں اپنے مدمقابل کوئی اور قوم اس وقت دنیا میں نظر نہیں آرہی تھی تو کیا انہیں اللہ کی طاقت بھی نظر نہیں آرہی تھی ؟ ایک وہ طاقتور ہستی تو بہر حال موجود تھی جس نے انہیں پیدا کیا تھا۔ { وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ } ”اور وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے۔“
فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَحِسَاتٍ لِنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنْصَرُونَ
📘 آیت 16 { فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْٓ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ } ”تو ہم نے ان پر چھوڑ دی بہت زور کی ہوا نحوست کے دنوں میں“ سورة الحاقہ میں تند و تیز ہوا کے اس عذاب کا ذکر یوں آیا ہے : { سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍٍ } آیت 6 یعنی انتہائی تیز اور شدید ہوا کا یہ جھکڑ ّان لوگوں پر سات راتوں اور آٹھ دن تک مسلسل چلتا رہا۔ { لِّنُذِیْقَہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا } ”تاکہ ہم انہیں مزہ چکھائیں رسوا کن عذاب کا اس دنیا کی زندگی میں۔“ { وَلَـعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَخْزٰی وَہُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ } ”اور آخرت کا عذاب تو کہیں زیادہ رسوا کن ہوگا اور وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔“
وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
📘 آیت 17 { وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنٰہُمْ } ”اور جو قوم ثمود تھی ‘ ان کو ہم نے ہدایت کی راہ دکھائی“ ان کی طرف ہم نے اپنا رسول بھی بھیجا اور اونٹنی کی صورت میں انہیں واضح معجزہ بھی دکھا دیا۔ { فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی } ”لیکن انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں اندھے پن کو ہی پسند کیا“ ہماری واضح تعلیمات ان تک پہنچ گئی تھیں ‘ لیکن اس کے باوجود انہوں نے حقائق کی طرف سے اپنی آنکھیں بند ہی رکھیں۔ { فَاَخَذَتْہُمْ صٰعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ } ”توا نہیں بھی آپکڑا ذلت کے عذاب کی ہولناک کڑک نے ان کے کرتوتوں کی پاداش میں۔“
وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
📘 آیت 18 { وَنَجَّیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ } ”اور ہم نے نجات دے دی ان کو جو ان میں سے ایمان لائے تھے اور جنہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی تھی۔“
وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ
📘 آیت 19 { وَیَوْمَ یُحْشَرُ اَعْدَآئُ اللّٰہِ اِلَی النَّارِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ } ”اور جس دن اللہ کے یہ دشمن جمع کیے جائیں گے آگ کی طرف تو ان کی درجہ بندی کی جائے گی۔“ ظاہر ہے کردار و اعمال کے حوالے سے اہل جہنم سب برابر نہیں ہوں گے۔ ہر مجرم کا عذاب اس کے جرم کے مطابق ہوگا۔ چناچہ وہاں جرائم اور سزائوں کی اقسام کے مطابق اہل جہنم کو الگ الگ جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
تَنْزِيلٌ مِنَ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
📘 آیت 2 { تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ } ”اس کتاب کا اتارا جانا ہے اس ہستی کی طرف سے جو بیحد مہربان ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی رحمت ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند بھی ہے اور اس رحمت میں دوام اور تسلسل بھی ہے۔
حَتَّىٰ إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 آیت 20{ حَتّٰٓی اِذَا مَا جَآئُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } ”یہاں تک کہ جب یہ وہاں پہنچیں گے تو ان کے خلاف گواہی دیں گے ان کے کان ‘ ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں اس بارے میں جو کچھ کہ وہ کرتے رہے تھے۔“ ”شہادت“ کے بارے میں یہ بات بتکرار و اعادہ بیان کی جا چکی ہے کہ شہادت کسی کے خلاف ہوتی ہے اور کسی کے حق میں۔ چناچہ شَھِدَ کے بعد اگر عَلٰی کا صلہ ہو تو اس کے معنی کسی کے خلاف گواہی دینے کے ہوں گے جیسا کہ آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے جبکہ شَھِدَ کے ساتھ ”ل“ کا صلہ آنے کی صورت میں کسی کے حق میں گواہی کا مفہوم نکلے گا۔ مثلاً : { کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِز } المائدہ : 8 اور { کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ } النساء : 135۔ ان دونوں آیات میں لفظ اللہ کے ساتھ ”ل“ اللہ کے لیے گواہی کا مفہوم دے رہا ہے ‘ کہ تم لوگ اللہ کے لیے کھڑے ہو کر گواہی دینے والے بن جائو ! بقول اقبالؔ: ع ”دے تو بھی محمد ﷺ کی صداقت کی گواہی !“
وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
📘 آیت 21 { وَقَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَیْنَا } ”اور وہ کہیں گے اپنی کھالوں سے کہ تم نے کیوں ہمارے خلاف گواہی دی ؟“ { قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْئٍ } ”وہ کہیں گی کہ ہمیں بھی اس اللہ نے بولنے کی صلاحیت عطا کردی ہے جس نے ہر شے کو قوت گویائی عطا کی ہے“ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو اس کے حسب حال ”زبان“ عطا کر رکھی ہے جس سے وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔ سورة بنی اسرائیل کے یہ الفاظ اس حوالے سے بہت واضح ہیں : { وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ } آیت 44 ”اور کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ وہ تسبیح کرتی ہے اس کی حمد کے ساتھ لیکن تم لوگ نہیں سمجھ سکتے ان کی تسبیح کو۔“ { وَّہُوَ خَلَقَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ } ”اور اسی نے تمہیں پیدا کیا پہلی مرتبہ اور اسی کی طرف تم لوٹا دیے جائوگے۔“
وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَٰكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ
📘 آیت 22 { وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ یَّشْہَدَ عَلَیْکُمْ سَمْعُکُمْ وَلَآ اَبْصَارُکُمْ وَلَا جُلُوْدُکُمْ } ”اور تم اس خیال سے پردہ داری نہیں کرتے تھے کہ تمہارے خلاف گواہی دیں گے تمہارے اپنے کان ‘ تمہاری اپنی آنکھیں اور تمہاری اپنی کھالیں“ انسان دنیا میں جرائم کرتے ہوئے لوگوں سے چھپنے کی کوشش کرتا ہے ‘ مگر خود اپنے ہی اعضاء وجوارح سے کیونکرچھپ سکتا ہے ؟ { وَلٰکِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَعْلَمُ کَثِیْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ } ”بلکہ تمہیں تو یہ گمان ہوگیا تھا کہ بہت سی باتیں تو اللہ کے علم میں ہی نہیں ہیں جو تم کر رہے ہو۔“ گویا ایسے جہلاء بھی اس دنیا میں پائے جاتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے کرتوتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو کچھ معلوم نہیں۔ قبل ازیں اس حوالے سے مشائین ارسطو اور اس کے پیروکاروں کا ذکر بھی گزر چکا ہے جن کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ عالم کلیات ہے ‘ وہ جزئیات کا عالم نہیں ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کائنات اور اس کی اشیاء کے متعلق قوانین بنا دیے ہیں اور وہ انہی قوانین کو جانتا ہے ‘ جبکہ ان قوانین کے تحت رونما ہونے والے واقعات و حادثات کی جزئیات سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ -۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ !
وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ
📘 آیت 23 { وَذٰلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ اَرْدٰٹکُمْ } ”اور تمہارا یہی وہ گمان ہے جو تم نے اپنے رب کے بارے میں کیا تھا ‘ جس نے تمہیں غارت کیا ہے“ اس حوالے سے ہمیں خود اپنے بارے میں بھی غور کرنا چاہیے۔ اگرچہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ایک ایک حرکت کو دیکھتا اور جانتا ہے لیکن اپنے اس ایمان کے مطابق ہمارے دلوں میں اس بارے میں یقین پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم غلط کام کرتے ہوئے اس حقیقت سے لاپرواہی برت جاتے ہیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے ‘ ورنہ اگر واقعی کسی کے دل میں یقین ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے تو بھلاوہ کوئی غلط حرکت کیسے کرسکتا ہے۔ { فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ } ”تو آج تم ہوگئے خسارہ پانے والوں میں۔“
فَإِنْ يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ ۖ وَإِنْ يَسْتَعْتِبُوا فَمَا هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ
📘 آیت 24 { فَاِنْ یَّصْبِرُوْا فَالنَّارُ مَثْوًی لَّہُمْ } ”تو اب اگر یہ لوگ صبر کریں یا نہ کریں پس ان کا ٹھکانہ آگ ہی ہے۔“ { وَاِنْ یَّسْتَعْتِبُوْا فَمَا ہُمْ مِّنَ الْمُعْتَبِیْنَ } ”اور اگر وہ معافی مانگیں تو اب انہیں معاف نہیں کیا جائے گا۔“ قیامت کے دن وہ چاہیں گے کہ انہیں معافی مانگنے پر چھوڑ دیا جائے مگر اس وقت یہ ممکن نہیں ہوگا۔ معافی مانگنے اور استغفار کرنے کا موقع تو دنیا میں ہے۔ انفرادی طور پر ہر آدمی کی موت کے وقت تک اور اجتماعی طور پر قیامت کے آثار نمایاں ہونے تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے ‘ لیکن اس کے بعد عالم برزخ یا عالم آخرت میں توبہ کا کوئی سوال نہیں۔
۞ وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُمْ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ
📘 آیت 25 { وَقَیَّضْنَا لَہُمْ قُرَنَآئَ فَزَیَّنُوْا لَہُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ } ”اور ہم نے ان کے لیے ایسے ساتھی مقرر کردیے جنہوں نے ان کو مزین ّکر کے دکھلائی ہر وہ چیز جو ان کے سامنے تھی اور جوان کے پیچھے تھی“ جیسے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ فرشتے مقرر کر رکھے ہیں ایسے ہی ہر انسان کے ساتھ شیاطین ِجن بھی لگا دیے گئے ہیں۔ انسانوں کے ساتھ فرشتوں کی موجودگی کا ذکر قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ سورة الانعام کی آیت 61 میں { وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً } کے الفاظ میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سے انسانوں کی حفاظت کا انتظام فرماتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے کراماً کاتبین اس کے اعمال کا ریکارڈ رکھنے کے لیے بھی مقرر کیے گئے ہیں۔ ان فرشتوں کا ذکر سورة الانفطار میں اس طرح آیا ہے : { وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ۔ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ } اسی طرح انسانوں کے ساتھ شیاطین ِجن بھی ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ ایک ساتھی جنات شیاطین میں سے اور ایک ساتھی ملائکہ میں سے مقرر نہ کردیا گیا ہو“۔ اس پر صحابہ کرام رض نے دریافت فرمایا : اے اللہ کے رسول ! آپ کے ساتھ بھی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وَاِیَّایَ ، لٰـکِنْ اَعَانَنِیَ اللّٰہُ عَلَیْہِ فَاَسْلَمَ 1 ”ہاں ! میرے ساتھ بھی ایک شیطان ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر نصرت عطا فرمائی ہے اور میں نے اسے مسلمان کرلیا ہے“۔ یعنی میں نے اسے اپنا تابع بنا لیا ہے اور اب وہ مجھے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ بہر حال اس آیت میں غلط کار انسانوں کے ان شیطان ساتھیوں کا ذکر ہے جو دنیا میں ان کے غلط عقائد اور برے اعمال کو خوش نما بنا کر انہیں دکھاتے رہتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ گناہوں کی لذت اور دنیا کی رنگینیوں میں ہی گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ { وَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِج } ”اور ان پر سچ ثابت ہوئی اللہ کے عذاب کی بات ‘ اور وہ شامل ہوگئے ان امتوں میں جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں جنوں اور انسانوں کی۔“ ان پر بھی بالآخر وہی بات پوری ہو کر رہی جو جنوں اور انسانوں کے ان گروہوں پر پوری ہوئی تھی جو ان سے پہلے تھے۔ یعنی وہ اللہ کے عذاب کے مستحق قرار پائے۔ { اِنَّہُمْ کَانُوْا خٰسِرِیْنَ } ”یقینا وہ خسارہ پانے والے لوگ تھے۔“
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ
📘 اب اگلی آیت میں قرآن مجید کا ذکر بہت عظیم الشان انداز میں ہو رہا ہے :آیت 26 { وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ } ”اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا کہ مت سنو اس قرآن کو اور اس کی تلاوت کے دوران میں شور مچایا کرو“ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا آلہ اور ذریعہ چونکہ قرآن تھا اس لیے منکرین حق نے آپس میں ایک دوسرے کو یہ مشورہ دینا شروع کردیا کہ جب محمد ﷺ قرآن پڑھا کریں تو تم لوگ اسے مت سنا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے دلوں پر اس کا اثر ہوجائے اور اس کی وجہ سے تم اپنے آبائی دین سے برگشتہ ہو جائو۔ اس لیے جب بھی وہ تمہیں قرآن سنانے کی کوشش کریں تم شور مچانا hooting شروع کردیا کروتا کہ اس کی آواز کسی کے کان میں نہ پڑے۔ حضور ﷺ کی زبان مبارک سے قرآن مجید کی تلاوت چو ن کہ غیر معمولی تاثیر کی حامل تھی اور اس کی وجہ سے آپ ﷺ کی دعوت کا پیغام تیزی سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر رہا تھا ‘ اس لیے مشرکین ِمکہ ّاس عمل کو روکنے کے لیے اپنے زعم میں گویا ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ خم ٹھونک کر آپ ﷺ کے مقابلے میں آگئے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ قرآن کا پڑھنا پڑھانا ‘ سننا سنانا اور سیکھنا سکھانا چونکہ شیطان پر بہت بھاری ہے اس لیے جہاں کہیں بھی یہ کام موثر انداز میں ہو رہا ہوگا شیطانی قوتیں اسے روکنے کے لیے اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آجائیں گی۔ البتہ اگر کہیں قرآن کا کوئی پروگرام محض رسمی انداز میں ہورہا ہو ‘ یعنی اس میں علمی اور عقلی سطح پر کوئی موثر پیغام لوگوں تک نہ پہنچ رہا ہو تو ایسی تقریبات ‘ ٹیوی پروگرامز اور قرآنی سیمینارز پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ دورِ حاضر میں ٹیوی پروگرام ”الہدیٰ“ کی بندش اس کی زندہ مثال ہے۔ یہ پروگرام ”پی ٹیوی“ کا مقبول ترین ہفتہ وار دینی پروگرام تھا ‘ جو بہت اہتمام کے ساتھ پورے ملک میں ایک ہی وقت پر ٹیلی کا سٹ ہوتا تھا اُس وقت ابھی کیبل نیٹ ورک کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ اس میں مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب پیش کیا جاتا تھا۔ جب یہ پروگرام بہت موثر انداز میں چلنا شروع ہوا اور قرآن کا اصل پیغام ایک تدریج اور منطقی ترتیب کے ساتھ گھر گھر پہنچنے لگا تو شیطانی قوتیں ”لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ“ کا نعرہ لگا کر سامنے آ کھڑی ہوئیں اور انہوں نے اس پروگرام کو بند کرا کے ہی دم لیا۔ یہ پروگرام اس حد تک مقبول ہوا تھا کہ بھارت میں بھی بڑے ذوق و شوق سے دیکھا جاتا تھا۔ -۔ بلکہ پی ٹیوی پر اس پروگرام کی بندش کے بعد یہ بھارت میں کیبل نیٹ ورک پر دکھایا جانے لگا تھا ‘ بلکہ کبھی کبھی ”دور درشن“ پر بھی پیش کردیا جاتا تھا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ”پی ٹیوی“ پر میرے پروگراموں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ { لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ } ”تاکہ تم غالب رہو۔“ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے لیے یہی مشورہ تھا کہ اگر تم اپنی ”سیادت“ کو برقرار رکھنا چاہتے ہو تو خود کو اور اپنے عوام کو اس قرآن سے دور رکھو۔ بالکل یہی انداز منافقین کے اس مشورے میں بھی نظر آتا ہے جو انہوں نے غزوئہ احزاب کے موقع پر مدینہ کے عام لوگوں کو دینا شروع کیا تھا۔ ان کا مشورہ تھا : { یٰٓــاَہْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوْاج } الاحزاب : 13 کہ اے اہل یثرب ! تمہارے یہاں ٹھہرنے کی اب کوئی صورت نہیں ہے ‘ لہٰذا اب تم واپس پلٹ جائو۔ بہر حال حضور ﷺ کی زبان مبارک سے قرآن کے پیغام کو گھر گھر پہنچتے دیکھ کر مشرکین نے بجا طور پر محسوس کیا کہ اگر اس دعوت کو بر وقت نہ روکا گیا تو پھر عرب کی سر زمین میں ان کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں بچے گا۔
فَلَنُذِيقَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا عَذَابًا شَدِيدًا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 آیت 27 { فَلَنُذِیْقَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَذَابًا شَدِیْدًا } ”تو ہم لازماً مزہ چکھائیں گے ان کافروں کو بہت سخت عذاب کا“ یہ بہت سخت جواب ہے اور اس جملے کا اسلوب بھی بہت زور دار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ میرا کلام ہے ‘ اسے میں نے { ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ } البقرۃ : 185 کی حیثیت سے نازل فرمایا ہے۔ اگر یہ لوگ میری اس عظیم نعمت کو ٹھکرا رہے ہیں اور میرے بندوں تک اس کے ابلاغ کو روکنے کی سازشیں کر رہے ہیں تو میں انہیں اس بغاوت اور سرکشی کا مزہ ضرور چکھائوں گا۔ { وَّلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } ”اور ہم انہیں سزادیں گے ان کے بدترین اعمال کے حساب سے۔“ یعنی ان کی سزا معین ّکرتے ہوئے ان کے سب سے برے اعمال کو بطور ”معیار“ مد نظر رکھا جائے گا۔
ذَٰلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ ۖ لَهُمْ فِيهَا دَارُ الْخُلْدِ ۖ جَزَاءً بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ
📘 آیت 28 { ذٰلِکَ جَزَآئُ اَعْدَآئِ اللّٰہِ النَّارُ } ”یہ ہے بدلہ اللہ کے دشمنوں کا یعنی آگ !“ یہ لوگ قرآن کے دشمن ہیں تو قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے اس لیے یہ اللہ کے دشمن ہیں۔ اور اللہ کے دشمنوں کی سزا آتش دوزخ کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے ! { لَہُمْ فِیْہَا دَارُ الْخُلْدِ } ”ان کے لیے اسی میں ہمیشگی کا ٹھکانہ ہوگا۔“ { جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ } ”یہ بدلہ ہوگا اس کا کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے تھے۔“
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ
📘 آیت 29 { وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ } ”اور جو کافر ہیں وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! ذرا ہمیں دکھا دے ِجنوں اور انسانوں میں سے وہ لوگ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا“ وہاں جہنم میں بڑے بڑے سرداروں اور لیڈروں کے خلاف ان کے عوام واویلا کر رہے ہوں گے۔ وہ کہیں گے کہ اے پروردگار ! اس وقت ہم ان لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہیں جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ وہ لوگ جو ہمیں قرآن سننے سے روکتے رہے ‘ جنہوں نے ہماری عقلوں پر پردے ڈال دیے تھے ‘ جنہوں نے محمد ﷺ کے بارے میں ہمیں ورغلایا ‘ ان کے بارے میں ہمارے دلوں میں طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کیے ‘ اور ہمارے اور ان کی دعوت کے درمیان آڑ بن گئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت انہیں ہمارے سامنے لایا جائے تاکہ : { نَجْعَلْہُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَکُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ } ”ہم انہیں اپنے قدموں کے نیچے روندیں ‘ تاکہ وہ ہوجائیں سب سے نیچے والے۔“ اگلی سات آیات اپنے مضمون کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ ”مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب“ کے پہلے حصے کا چوتھا درس انہی آیات پر مشتمل ہے۔ منتخب نصاب کے اس حصے میں چار جامع اسباق ہیں اور ان چاروں اسباق یادروس میں مضمون کے اعتبار سے ایک خاص ترتیب اور تدریج پائی جاتی ہے۔ ان میں پہلا درس سورة العصر پر مشتمل ہے : { وَالْعَصْرِ۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّلا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔۔ یہ سورت قرآن حکیم کی تین مختصر ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ اس میں اخروی نجات کے لیے چار شرائط بیان کی گئی ہیں۔ اس کے بعد دوسرا درس آیت البر سورۃ البقرۃ کی آیت 177 پر مشتمل ہے۔ اس آیت میں وہی چار نکات قدرے وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں جن کا ذکر سورة العصر میں ہوا ہے۔ تیسرے درس کے لیے سورة لقمان کے دوسرے رکوع کو منتخب کیا گیا ہے۔ اس رکوع میں یہی مضمون ذرا مختلف انداز میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحتوں کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ اس طرح سورة العصر کا مضمون ایک خاص ترتیب اور تدریج کے ساتھ چوتھے درس زیر مطالعہ سورت کی آیات 30 تا 36 میں اپنے نقطہ عروج تک پہنچ گیا ہے۔ چناچہ ان سات آیات کے اندر آپ کو سورة العصر کے چاروں موضوعات ایمان ‘ اعمالِ صالحہ ‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر میں سے ہر ایک کی چوٹی نظر آئے گی ‘ اور پھر انہی سات آیات کے عین درمیان میں وہ آیت بھی آیت 33 آئے گی جو اس سورت کا عمود ہے۔ اس آیت کی مثال ایک بہت بڑے ہیرے کی سی ہے جوان سات آیات کے خوبصورت ہار کے عین وسط میں اپنی خصوصی آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہا ہے۔ اس تمہید کے بعد آئیے اب ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں :
كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
📘 آیت 3 { کِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ } ”یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات خوب کھول کھول کر بیان کردی گئی ہیں“ یعنی قرآن میں ہرچیز اور ہر موضوع کو تفصیل کے ساتھ علیحدہ علیحدہ discretely بیان کردیا گیا ہے۔ اس سورت کا دوسرا نام فُصِّلَتْ اسی جملے سے لیا گیا ہے۔ { قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ } ”قرآن عربی کی صورت میں ‘ ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہوں یا علم رکھنا چاہیں۔“
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ
📘 آیت 30 { اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا } ”بیشک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے“ اللہ پر ایمان لانا آسان ہے مگر اس پر جمے رہنا آسان نہیں ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب انسان کو اللہ پر پوری طرح توکل ّہو ‘ وہ ہر حالت میں اس کی رضا پر راضی رہے۔ نہ اپنی کسی حالت کے بارے میں اس کی زبان پر حرف شکایت آئے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے کسی فیصلے پر اس کے دل میں ملال پیدا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے آگے اس کا سر تسلیم بلا حیل و حجت جھکتا چلا جائے اور وہ اپنے تن من دھن کو ہتھیلی پر رکھے ‘ اس کے درِ اطاعت پر ہمہ وقت کمر بستہ کھڑے رہ کر عملی طور پر ثابت کر دے کہ : { اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ الانعام ”یقینا میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے“۔ اس استقامت کی اہمیت ایک حدیث سے بہت اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔ حضرت سفیان بن عبداللہ رض سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا : ”یارسول اللہ ! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتادیں کہ آپ ﷺ کے سوا کسی اور سے کچھ دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے۔“ یعنی مجھے اسلام کی حقیقت ایک جملے میں بتا دیجیے تاکہ میں اسے گرہ میں باندھ لوں۔ جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا : قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ 1 ”کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جائو !“ اگر واقعی کوئی شخص غور کرے تو اس استقامت میں اسے قیامت مضمر دکھائی دے گی۔ واضح رہے کہ استقامت اور قیامت کا سہ حرفی مادہ ایک ہی ہے۔ یہ قیامت ہی تو ہے کہ ایک بندہ اللہ تعالیٰ کو نظریاتی طور پر اپنا رب مان لینے کے بعد عملی طور پر ساری دنیا سے بےنیاز ہوجائے اور اپنے ایک ایک عمل سے ثابت کردے کہ میرا پروردگار ‘ میرا حاجت روا ‘ میرا سہارا ‘ میرا مشکل کشا ‘ میرے نفع و نقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ ہے۔ دل کا یہ یقین اور عمل کا یہ رنگ گویا چوٹی ہے اس ایمان اور عمل صالح کی جس کا ذکر سورة العصر میں نجاتِ اُخروی کی پہلی دو شرائط کے طور پر اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کے الفاظ میں ہوا ہے۔ اب اگلی آیت میں ان خوش قسمت لوگوں کا اللہ کے ہاں مقام ملاحظہ کیجیے جو اپنی دنیوی زندگی میں ایمان و عمل کی اس چوٹی یعنی استقامت تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں : { تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ } ”ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ آپ لوگ ڈرو نہیں اور غمگین نہ ہو اور خوشیاں منائو اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔“ فرشتوں کا نزول ان لوگوں پر کب ہوتا ہے ؟ اس حوالے سے یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ موت کے قریب ایسے لوگوں کو خوش آمدید کہنے اور بشارت دینے کے لیے فرشتے نازل ہوتے ہیں ‘ لیکن دنیوی زندگی کے دوران بھی اہل ایمان کی مدد کے لیے فرشتوں کا آنا ثابت ہے۔ جیسے میدانِ بدر میں اہل ِایمان مجاہدین کی مدد کے لیے فرشتے نازل ہوئے : { اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاط } الانفال : 12 ”یاد کریں جب آپ ﷺ کا ربّ وحی کر رہا تھا فرشتوں کو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ تو تم جائو اور اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو“۔ چناچہ مومنین صادقین پر ملائکہ کا نزول اثنائے حیات میں بھی ہوتا ہے۔
نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ
📘 آیت 31 { نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِج } ”ہم ہیں تمہارے رفیق دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔“ ان الفاظ سے یہ مفہوم خود بخود واضح ہو رہا ہے کہ فرشتے حیات دنیوی کے دوران بھی ان خوش قسمت لوگوں کی ہمت بندھاتے ہیں اور انہیں یہ پیغامِ جانفرا پہنچاتے ہیں۔ { وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ } ”اور تمہارے لیے اس جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جو تمہارے جی چاہیں گے“ تمہارے جی وہاں جو کچھ چاہیں گے وہ سب کچھ ہمارے علم میں ہے ‘ کیونکہ تمہارے نفسوں کے تقاضوں اور تمہاری خواہشات کو بھی ہم نے خود ہی پیدا کیا ہے۔ لہٰذا ہم تمہاری خواہشات کی تسکین کا مکمل سامان وہاں فراہم کریں گے۔ { وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ } ”اور تمہارے لیے اس میں وہ سب کچھ بھی ہوگا جو تم مانگو گے۔“ تمہارے نفسوں کے تقاضوں کے مطابق تو سب کچھ وہاں پہلے سے ہی مہیا ہوچکا ہوگا۔ البتہ مانگنے اور طلب کرنے کے حوالے سے ہر شخص کا اپنی ذہنی سطح کے مطابق ایک معیار اور مخصوص ذوق ہوتا ہے۔ بچہ اپنی پسند کی کوئی چیز مانگے گا ‘ ایک سادہ لوح دیہاتی اپنے معیار کی کوئی چیز طلب کرے گا ‘ جبکہ ایک حکیم و فلسفی اپنے ذوق کے مطابق سوال کرے گا۔ غرض جو کوئی جو کچھ مانگے گا وہ سب کچھ اس کے سامنے حاضر کردیا جائے گا۔
نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ
📘 آیت 32 { نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ } ”یہ ابتدائی مہمان نوازی ہوگی اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔“ جنت کی جن نعمتوں کا ذکر ہمیں قرآن و حدیث میں ملتا ہے ان کا تعلق اہل جنت کی ابتدائی مہمان نوازی نُزُل سے ہے۔ جہاں تک ان کی اصل ضیافت کا تعلق ہے اس کی کیفیت ہمارے احاطہ شعور میں نہیں آسکتی۔ حضرت ابوہریرہ رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالاَ عَیْنٌ رَأَتْ ‘ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ ‘ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ … 1 ”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے جنت میں وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ‘ نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل پر اس کا گمان ہی گزرا…“ پھر آپ ﷺ نے سورة السجدۃ کی یہ آیت تلاوت فرمائی : { فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍج جَزَآئًمبِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } ”پس کوئی انسان نہیں جانتا کہ ان اہل جنت کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے ‘ وہ بدلہ ہوگا ان کے اعمال کا۔“ اب اس کے بعد وہ آیت آرہی ہے جو اپنے مضمون کے اعتبار سے اس سورت کا عمود ہے اور جس کو قبل ازیں ان سات آیات کے ہار کے درمیان ایک جگمگاتے ہیرے سے تشبیہہ دی گئی تھی۔
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
📘 آیت 33{ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ } ”اور اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوگی جو بلائے اللہ کی طرف“ جس خوش قسمت شخص کو ایمان کے بعد ”استقامت“ کا مقام حاصل ہوچکا ہو ‘ اسے بھلا اب کس بات کی دھن ہوگی ؟ کیا وہ اب بھی مال و دولت ِدنیا کے پیچھے دوڑے گا ؟ یا کیا حکومت اور اقتدار کے حصول کی خواہش اب بھی اس کے دامن دل کو اپنی طرف کھینچے گی ؟ نہیں ! ہرگز نہیں ! اس ”متاعِ غرور“ کو تو وہ ٹھکرا کر بہت آگے نکل آیا ہے۔ مسند ِاستقامت پر رونق افروز ہونے کے بعد دنیا ومافیہا کے بارے میں اس کی ترجیحات بہت واضح ہوچکی ہیں۔ اب تو وہ خوب سمجھتا ہے کہ یہ سب آنی جانی چیزیں ہیں ‘ آج ہیں تو کل نہیں ہیں۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ دنیا اور اس کے لوازمات کی بہتات سے مسئولیت بڑھتی ہے اور حساب آخرت مشکل ہوجاتا ہے۔ چناچہ اب اس کے دل میں ایک ہی تڑپ ہے اور وہ ہے دعوت الی اللہ کی تڑپ۔ اب اس کی دوڑ دھوپ اور جدوجہد کا اگر کوئی ہدف ہے تو بس یہی کہ میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو راہ ہدایت پر لے آئوں۔ { وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ } ”اور وہ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔“ اعمالِ صالحہ کا مفہوم ”استقامت“ کے اندر بھی پوشیدہ ہے ‘ لیکن یہاں پر اس کا علیحدہ ذکر بھی آگیا ہے ‘ اس لیے کہ دعوت الی اللہ اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ایک داعی کا اپنا عمل درست نہیں ہوگا تو نہ صرف یہ کہ اس کی دعوت موثر نہیں رہے گی بلکہ وہ دعوت کی بدنامی کا باعث بھی بنے گا۔
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ
📘 آیت 34{ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ } ”اور دیکھو ! اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوتے۔“ اب کون کہے گا کہ یہ دونوں برابر ہیں۔ چناچہ بات اس نکتے سے شروع کی جا رہی ہے جو سب کے ہاں متفق علیہ اور مسلم ّہے۔ { اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ } ”تم مدافعت کرو بہترین طریقے سے“ لوگ بیشک آپ کو گالیاں دیں ‘ مگر آپ انہیں دعائیں دو ‘ اگر کوئی آپ کو پتھر مارے تو آپ جواب میں اسے پھول پیش کرو۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جو کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ اس طرز عمل کے سامنے بڑے سے بڑا کٹھور دل انسان بھی نرم پڑجاتا ہے۔ یہاں اس مضمون کے حوالے سے یہ نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اگلی سورت یعنی سورة الشوریٰ میں اس تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آئے گا۔ لیکن یاد رہے کہ سورة الشوریٰ میں سختی کا جواب سختی سے دینے کی بات اقامت دین کے حوالے سے ہوئی ہے جبکہ یہاں دعوت دین کے مرحلے کی حکمت عملی بتائی جا رہی ہے۔ دونوں مرحلوں پر پالیسی کے اس فرق کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بہر حال ”دعوت“ کے مرحلے کی پالیسی یہی ہے کہ جب تم دعوت کو لے کر چلو تو ایسے بےضرر انسان بن جائو کہ بدھ مت کے بھکشو نظر آئو۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اسی حکمت عملی کے بارے میں فرمایا تھا کہ تم سانپ کی مانند چوکنے اور فاختہ کی طرح بےضرر بنو ! یعنی ایک داعی کو ایسا احمق اور بدھو نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے اسے ضرر پہنچا جائیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ خود اس کی ذات سے کسی دوسرے کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس حوالے سے رسالت مآب ﷺ کی سیرت ہمارے سامنے ہے۔ آپ ﷺ نے گالیاں دینے والوں کو ہمیشہ دعائیں دیں ‘ بلکہ آپ ﷺ نے تو ابوجہل جیسے دشمنوں کی ہدایت کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں ؎سلام اس ﷺ پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں سلام اس ﷺ پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں ! زیر مطالعہ موضوع یعنی ”دعوت توحید“ کی اہمیت کو اقامت دین کی جدوجہد کے حوالے سے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ توحید عملی کے تدریجی مراحل کو اپنے ذہن میں ایک مرتبہ پھر سے تازہ کرلیں۔ اب تک ہم انفرادی سطح پر توحید عملی کے دو پہلوئوں کا مطالعہ کرچکے ہیں۔ سورة الزمر میں توحید کا خارجی یا ظاہری پہلو بیان ہوا ہے کہ عبادت صرف اللہ کی کرو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اس کے بعد سورة المومن میں توحید کے داخلی پہلو کا ذکر آیا تھا کہ دعا صرف اللہ سے کرو ‘ اور وہ بھی اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اب سورة حٰمٓ السجدہ میں توحید کو انفرادی سطح سے اجتماعیت کی طرف بڑھانے کی بات ہو رہی ہے۔ گویا ”توحید“ ایک فرد سے نکل کر دوسرے افراد تک پہنچنا شروع ہوگی اور دعوت کے ذریعے ”متعدی“ صورت اختیارکر کے معاشرے میں پھیلتی چلی جائے گی۔ سورة آل عمران میں اس بنیاد پر باقاعدہ ایک جماعت قائم کرنے کی ضرورت اور اہمیت ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے : { وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ } ”اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے ‘ نیکی کا حکم دیتی رہے اور بدی سے روکتی رہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔“ بہر حال زیر مطالعہ آیات کا موضوع دعوت توحید ہے اور اس حوالے سے داعیانِ حق کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ تم برائی کا جواب ہمیشہ نیکی اور خوش اخلاقی سے دو۔ اگر تم یہ روش اختیار کرو گے : { فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ } ”تو تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے وہ گویا گرم جوش دوست بن جائے گا۔“ انسان آخر انسان ہے۔ اگر کوئی شخص ہر وقت آپ کی مخالفت پر ہی کمر بستہ ہے اور آپ ہیں کہ ہمیشہ اس کی بھلائی کے لیے کوشاں ہیں تو آخر وہ کب تک اپنے منفی طرزعمل پر کاربند رہے گا۔ بالآخر اسے آپ کے اخلاق کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑیں گے۔
وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
📘 آیت 35{ وَمَا یُلَقّٰٹہَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا } ”اور یہ مقام نہیں حاصل ہوسکتا مگر ان ہی لوگوں کو جو بہت صبر کرتے ہوں۔“ اس خاص مقام تک صرف وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جن میں صبر کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو اور وہ اپنی عملی زندگی میں بھی ہمیشہ صبر کی روش پر کاربند ہوں۔ { وَمَا یُلَقّٰٹہَا اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ”اور یہ نہیں دیا جاتا مگر ان ہی کو جو بڑے نصیب والے ہوں۔“ یہ حَظٍّ عَظِیْمٍ کیا ہے اور اس کا حقیقی معیار کیا ہے ؟ ہر انسان کے لیے اس کا صحیح ادراک حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سے پہلے یہ لفظ ہم سورة القصص کے آٹھویں رکوع میں قارون کے حوالے سے بھی پڑھ آئے ہیں۔ قارون کے ٹھاٹھ باٹھ اور خدم و حشم سے متاثر ہو کر دنیا دار لوگوں نے حسرت بھرے انداز میں کہا تھا : { اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ۔ } القصص کہ یقینا یہ شخص بڑا صاحب نصیب ہے۔ لیکن پھر جب وہ اپنے گھر بار سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا تو ان ہی لوگوں نے اس پر شکر و اطمینان کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑی مہربانی کی کہ انہیں قارون جیسا مال و منال نہ دیا ‘ ورنہ انہیں بھی اسی طرح زمین میں دھنسا دیا جاتا۔ چناچہ ایک بندئہ مومن کے لیے اصل کامیابی ‘ حقیقی فوزو فلاح اور ”حظ ِعظیم“ اسی عمل اور اسی کردار میں ہے جس کی نشاندہی اس آیت میں کی گئی ہے۔
وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
📘 آیت 36{ وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ } ”اور اگر کبھی تمہیں شیطان کی طرف سے کوئی چوک لگنے لگے تو اللہ کی پناہ طلب کرلیا کرو۔“ اگر کبھی کسی کے ناروا سلوک اور مخالفانہ رویے پر غصہ آجائے تو فوراً سمجھ لو کہ یہ شیطان کی اکساہٹ ہے ‘ شیطان تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے۔ چناچہ ایسی کیفیت میں فوراً اللہ کی پناہ طلب کرلیا کرو ‘ کیونکہ صرف اسی کی پناہ میں آکر تم شیطان کے وار سے بچ سکتے ہو۔ { اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ } ”یقینا وہی ہے سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ جاننے والا۔“ یہ آیت سورة الاعراف آیت 200 میں بھی آچکی ہے۔ وہاں { اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ} کے الفاظ ہیں۔ گویا یہاں اللہ تعالیٰ کی مذکورہ صفات السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ کے بارے میں زیادہ زور اور تاکید کا انداز پایا جاتا ہے۔
وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
📘 آیت 37{ وَمِنْ اٰیٰتِہِ الَّـیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ } ”اور اسی کی نشانیوں میں سے ہیں رات ‘ دن ‘ سورج اور چاند۔“ { لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ } ”تم سورج کو سجدہ مت کرو اور نہ چاند کو“ { وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَہُنَّ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ } ”بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ‘ اگر تم واقعتا اسی کی بندگی کرتے ہو۔“
فَإِنِ اسْتَكْبَرُوا فَالَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ ۩
📘 آیت 38{ فَاِنِ اسْتَکْبَرُوْا فَالَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ یُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِالَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَہُمْ لَا یَسْئَمُوْنَ } ”پس اے نبی ﷺ ! اگر وہ استکبار کریں تو پروا نہیں وہ جو آپ کے رب کے پاس ہیں وہ دن رات اس کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں اور وہ اس سے تھکتے نہیں۔“ اگر یہ لوگ تکبر کی بنا پر مجھے سجدہ کرنے کو تیار نہیں تو مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرے پاس تو فرشتوں کی فوجیں ہیں جو دن رات مسلسل میری تسبیح اور حمد میں لگے رہتے ہیں۔ اس بارے میں فرشتوں کا یہ بیان ہم سورة البقرہ کی آیت 30 میں پڑھ چکے ہیں : { وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَط } ”اور ہم آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس میں لگے ہوئے ہیں۔“
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّكَ تَرَى الْأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۚ إِنَّ الَّذِي أَحْيَاهَا لَمُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۚ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 آیت 39{ وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً } ”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم زمین کو دیکھتے ہو کہ وہ دبی پڑی ہے“ یعنی زمین کی وہ کیفیت کہ جب وہ بنجر اور ویران ہوتی ہے اور اس پر روئیدگی وغیرہ کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ { فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ } ”پھر جب ہم اس پر پانی برسادیتے ہیں تو اس میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ ابھر آتی ہے۔“ بارش کے برستے ہی زمین سے طرح طرح کے نباتات اگنے لگتے ہیں جیسے کہ مردہ زمین میں جان پڑگئی ہو۔ { اِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاہَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰیط اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} ”یقینا وہ اللہ جس نے اس کو زندہ کیا ہے وہی ُ مردوں کو بھی زندہ کرے گا۔ یقینا وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“
بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ
📘 آیت 4 { بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا } ”بشارت دینے والی اور آگاہ کردینے والی۔“ یہ کتاب بشارتیں بھی دیتی ہے اور خبردار بھی کرتی ہے۔ حضور ﷺ بھی تبشیر اور انذار کا حق قرآن مجید کے ذریعے سے ہی ادا فرماتے تھے۔ جیسا کہ سورة مریم میں فرمایا گیا : { فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰــہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا۔ } ”پس ہم نے توآسان کردیا ہے اس قرآن کو آپ ﷺ کی زبان میں ‘ تاکہ آپ بشارت دیں اس کے ساتھ متقین کو اور خبردار کریں اسی کے ذریعے جھگڑالو قوم کو۔“ { فَاَعْرَضَ اَکْثَرُہُمْ فَہُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ } ”تو ان کی اکثریت نے اعراض کیا اور وہ سنتے ہی نہیں ہیں۔“
إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ أَفَمَنْ يُلْقَىٰ فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
📘 آیت 40{ اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا } ”جو لوگ ہماری آیات کے بارے میں کج روی اختیار کرتے ہیں وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔“ { اَفَمَنْ یُّلْقٰی فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْٓ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ } ”تو کیا وہ شخص جو آگ میں جھونک دیا جائے گا وہ بہتر ہوگا یا وہ کہ جو قیامت کے دن امن کی حالت میں آئے گا !“ { اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْلا اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ} ”تم کیے جائو جو بھی کرنا چاہتے ہو ‘ وہ خوب دیکھ رہا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔“ قبل ازیں ہم آیت 5 میں مشرکین کی طرف سے حضور ﷺ کے لیے اس کھلے چیلنج کے بارے میں پڑھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا : فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَکہ آپ جو کرنا چاہتے ہیں کرلیں ‘ ہم بھی آپ کی ہر کوشش کا توڑ کریں گے اور آپ کی اس دعوت کو چلنے نہیں دیں گے۔ زیر مطالعہ جملے میں دراصل اسی چیلنج کا جواب ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ
📘 آیت 41{ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَآئَ ہُمْ } ”یقینا وہ لوگ جنہوں نے اس یاد دہانی کا انکار کیا جبکہ یہ ان کے پاس آگئی۔“ اس سے آگے اس مفہوم کے الفاظ محذوف ہیں کہ ”اب ان لوگوں کی شامت آنے والی ہے“۔ نوٹ کیجیے کہ اس سورت میں یہاں تیسری مرتبہ قرآن کا ذکر آیا ہے۔ اس سے پہلے آیت 3 اور آیت 26 میں بھی قرآن کا ذکر آچکا ہے۔ یہاں قرآن کو ”الذکر“ یعنی یاد دہانی قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب تو اس گواہی کو اجاگر کرکے تمہارے سامنے لا رہی ہے جو پہلے سے تمہاری فطرت کے اندر مخفی ہے۔ اللہ کی معرفت اور اس کی محبت تو تمہاری ارواح کے اندر پہلے سے موجود تھی لیکن تمہاری عدم توجہی کی وجہ سے اس معرفت پر غفلت اور ذہول کے پردے پڑگئے تھے ‘ جس کے نتیجے میں تم اپنی فطرت کی اصل پہچان کو بھول کر اللہ ہی کو بھول گئے تھے۔ سورة الحشر کی آیت 19 میں اہل ایمان کو اسی حوالے سے تاکید کی گئی ہے : { وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْط } کہ اے اہل ایمان ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو نتیجتاً اللہ نے انہیں ایسا کردیا کہ وہ خود اپنے آپ ہی کو بھول گئے۔ چناچہ یہاں قرآن کو ”الذکر“ کہہ کر گویا اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ کتاب انسانی فطرت میں مضمرمعرفت خداوندی کے ابدی سبق کی یاد دہانی کے لیے آئی ہے۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس یاد دہانی کا انکار کردیا ہے اب ان کی شامت آنے والی ہے۔ { وَاِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ} ”انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بلاشبہ یہ ایک زبردست کتاب ہے۔“
لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ
📘 آیت 42{ لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ } ”باطل اس پر حملہ آور ہو ہی نہیں سکتا ‘ نہ اس کے سامنے سے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔“ اس دورئہ ترجمہ قرآن کے دوران بار بار میں مثالیں دیتا رہا ہوں کہ قرآن کس طرح اپنی حفاظت کرتا ہے اور کس طرح ان لوگوں کے عزائم کو ناکام بناتا ہے جو اس کی آیات کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں یا کسی آیت کی تعبیر اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔ { تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ } ”اس کا اتارا جانا ہے ایک حکیم اور حمید ہستی کی طرف سے۔“
مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ
📘 آیت 43{ مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ } ”اے نبی ﷺ ! نہیں کہا جاتا آپ سے مگر وہی کچھ جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا تھا۔“ { اِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ وَّذُوْ عِقَابٍ اَلِیْمٍ } ”یقینا آپ کا رب مغفرت والا بھی ہے اور دردناک سزا دینے والا بھی۔“
وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ
📘 آیت 44{ وَلَوْ جَعَلْنٰـہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِیًّا } ”اور اگر ہم نے اسے عجمی قرآن بنایا ہوتا“ نوٹ کیجیے یہ پانچویں مرتبہ قرآن کا ذکر آیا ہے اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اگر ہم نے اس قرآن کو عربی زبان کے بجائے کسی عجمی زبان میں نازل کیا ہوتا : { لَّقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ } ”تو یہ کہتے کہ اس کی آیات واضح کیوں نہیں کی گئیں !“ { ئَ اَعْجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّط } ”کیا کتاب عجمی اور مخاطب عربی ؟“ ایسی صورت میں اس پر یہ اعتراض وارد ہوسکتا تھا کہ جس کتاب کی اولین مخاطب ایک عربی قوم ہے وہ خود کسی اور زبان میں ہے ! { قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَآئٌ} ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے کہ یہ ہدایت اور شفا ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔“ { وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ} ”اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے“ { وَّہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی } ”اور یہ قرآن ان کے حق میں اندھا پن ہے۔“ یعنی یہ لوگ قرآن کی حقیقت کو نہیں دیکھ پا رہے۔ { اُولٰٓئِکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍم بَعِیْدٍ } ”یہ وہ لوگ ہیں جو پکارے جاتے ہیں بہت دور کی جگہ سے۔“ انہیں قرآن کی باتیں عجیب اور نا مانوس لگتی ہیں۔ قرآن کی تعلیمات کے بارے میں انہیں ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں کوئی بہت دور سے پکار رہا ہو۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۗ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ
📘 آیت 45{ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْہِ } ”اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام ٰ کو بھی کتاب دی تھی ‘ تو اس میں بھی اختلاف کیا گیا۔“ { وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ } ”اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے مابین فیصلہ کردیا جاتا۔“ اللہ تعالیٰ کی تقویم میں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے ‘ اسی طرح ان کے فیصلے کا بھی اللہ تعالیٰ نے ایک وقت طے کررکھا ہے۔ اگر یہ وقت پہلے سے طے نہ ہوتا تو ان کا فیصلہ اب تک چکا دیا جاتا۔ { وَاِنَّہُمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ } ”اور یقینا وہ اس کے بارے میں خلجان انگیز شک میں مبتلا ہیں۔“ یہاں مِنْہُ سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی پہلے انہوں نے خواہ مخواہ اختلافات کھڑے کیے۔ لیکن جب ہم نے ان اختلافات کی وضاحت کے لیے یہ کتاب بھیج دی تو اب وہ اس کے بارے میں ایسے شک و شبہ میں مبتلا ہوگئے ہیں جس نے انہیں سخت خلجان اور الجھن میں ڈال دیا ہے اور وہ اس میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ
📘 آیت 46{ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْہَا } ”جو کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اپنے ہی لیے کرتا ہے ‘ اور جو کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر آئے گا۔“ { وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۔ } ”اور آپ کا رب کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے اپنے بندوں کے حق میں۔“
۞ إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرَاتٍ مِنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِنْ شَهِيدٍ
📘 آیت 47{ اِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ } ”اسی کی طرف لوٹتا ہے قیامت کا علم۔“ یعنی قیامت کا علم صرف اسی کے پاس ہے۔ { وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَکْمَامِہَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ } ”اور نہیں نکلتے کوئی پھل اپنے غلافوں سے اور نہ کسی مادہ کو حمل ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اس کو جنتی ہے ‘ مگر اسی کے علم سے۔“ یعنی صرف قیامت ہی نہیں بلکہ تمام امور غیب کا علم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ جزئیات کا بھی اتنا تفصیلی علم رکھتا ہے کہ اس کی نگاہ سے کسی شخص کا کوئی چھوٹا سا عمل بھی مخفی نہیں رہ سکتا۔ واضح رہے کہ یہاں پر اُنْثٰی کا لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے انسانوں کے علاوہ تمام حیوانات کی مادائوں کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ { وَیَوْمَ یُنَادِیْہِمْ اَیْنَ شُرَکَآئِ } ”اور جس دن وہ ان کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک ؟“ { قَالُوْٓا اٰذَنّٰکَ مَا مِنَّا مِنْ شَہِیْدٍ } ”وہ کہیں گے : ہم نے تو آپ سے عرض کردیا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کی گواہی دینے والا نہیں۔“ اس وقت وہ بےبسی کے عالم میں یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے کہ دنیا میں ہم نے واقعتا کچھ سہارے ڈھونڈ کر ان سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔
وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَدْعُونَ مِنْ قَبْلُ ۖ وَظَنُّوا مَا لَهُمْ مِنْ مَحِيصٍ
📘 آیت 48{ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَدْعُوْنَ مِنْ قَبْلُ } ”اور وہ سب گم ہوجائیں گے ان سے جنہیں وہ پکارا کرتے تھے اس سے پہلے“ اس دن کی سختی کو دیکھ کر گویا ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔ { وَظَنُّوْا مَا لَہُمْ مِّنْ مَّحِیْصٍ } ”اور وہ یقین کرلیں گے کہ اب ان کے لیے کوئی جائے فرار نہیں۔“
لَا يَسْأَمُ الْإِنْسَانُ مِنْ دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ
📘 آیت 49{ لَا یَسْئَمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآئِ الْخَیْرِ } ”انسان بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا“ یہاں بھلائی خیر سے مراد دنیوی نعمتوں اور مال و دولت کی فراوانی ہے۔ کسی انسان کے پاس جتنی چاہے دولت ہو اور جس قدر چاہے نعمتیں اسے میسر ہوں ‘ پھر بھی مزید حاصل کرنے کی اس کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی۔ { وَاِنْ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَئُوْسٌ قَنُوْطٌ} ”اور اگر کہیں اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو بالکل مایوس و دل شکستہ ہوجاتا ہے۔“
وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِنْ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ
📘 آیت 5 { وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْٓ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ } ”اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل پر دوں میں ہیں اس چیز سے جس کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں“ { وَفِیْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ} ”اور ہمارے کانوں میں بوجھ ہے“ مشرکین مکہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی باتیں ادب و احترام کے دائرے میں نہیں بلکہ آپ ﷺ کو تنگ کرنے کے لیے گستاخانہ اور استہزائیہ انداز میں کرتے تھے۔ وہ لوگ مختلف طریقوں سے آپ ﷺ کے سامنے اپنے اس موقف کو بار بار دہراتے رہتے تھے کہ آپ ﷺ جس قدر چاہیں اپنے آپ کو ہلکان کرلیں ‘ آپ ﷺ کی یہ باتیں ہمارے دلوں میں اتر کر اپنا اثر نہیں دکھا سکتیں۔ آپ ﷺ کی ان باتوں کو نہ تو ہم سنتے ہیں اور نہ ہی ان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ بلکہ ایسی باتیں سننے کے حوالے سے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ آپ ﷺ خواہ مخواہ ہمیں تنگ نہ کریں۔ { وَّمِنْم بَیْنِنَا وَبَیْنِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ } ”اور ہمارے اور آپ ﷺ کے درمیان تو ایک پردہ حائل ہے ‘ تو آپ اپنا کام کریں ‘ ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔“ یہ گویا ان کی طرف سے چیلنج تھا کہ آپ ﷺ جو کچھ کرسکتے ہیں کرلیں ‘ جتنا چاہیں زور لگا لیں ہم آپ ﷺ کی اس دعوت کو چلنے نہیں دیں گے۔
وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِنْدَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ
📘 آیت 50{ وَلَئِنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنَّا مِنْم بَعْدِ ضَرَّآئَ مَسَّتْہُ } ”اور اگر اسے ہم اپنی رحمت کا مزہ چکھا دیں اس کے بعد کہ اسے کوئی تکلیف پہنچی تھی“ { لَیَقُوْلَنَّ ہٰذَا لِیْلا } ”تو وہ ضرور کہے گا کہ ہاں یہ تو میرا حق ہے“ سختی کا وقت گزر جانے کے بعد حالات بہتر ہوجانے پر وہ بڑے فخر سے دعوے کرے گا کہ میں نے اپنے ناخن تدبیر سے تمام عقدے حل کرلیے ہیں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بالآخر میں نے اپنے تمام مسائل پر قابوپا لیا ہے۔ { وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً } ”اور میں نہیں سمجھتا کہ یہ قیامت وغیرہ کوئی قائم ہونے والی شے ہے۔“ { وَّلَئِنْ رُّجِعْتُ اِلٰی رَبِّیْٓ } ”اور اگر مجھے لوٹا ہی دیا گیا میرے رب کی طرف“ یہ ہو بہو وہی الفاظ ہیں جو سورة الکہف کی آیت 36 میں ایک مالدار اور آسودہ حال شخص کے حوالے سے نقل ہوئے ہیں۔ ان دونوں مکالموں میں صرف رُدِدْتُ اور رُجِعْتُ کا فرق ہے۔ یہ جملہ دراصل ایک ایسے مادیت پسند انسان کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو دنیا کی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھتا ہے اور ہمہ تن اسی کی زیب وزینت میں گم ہے۔ ایسے شخص کو اگر کسی وقت آخرت کی فکر پریشان کرتی ہے تو وہ اس خیال سے خود کو تسلی دے لیتا ہے کہ قیامت برپا ہونے کی یہ تمام باتیں اوّل تو محض ایک ڈھکوسلا ہیں ‘ لیکن اگر بالفرض قیامت آ ہی گئی اور مجھے دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کے حضور پیش ہونا ہی پڑا تو : { اِنَّ لِیْ عِنْدَہٗ لَلْحُسْنٰی } ”یقینا میرے لیے اس کے پاس بہتری ہی ہوگی۔“ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مجھے دولت اور عزت دی ہے ‘ اولاد عطا کی ہے اور طرح طرح کی دوسری نعمتوں سے بھی مجھے نواز رکھا ہے تو اس کا یہی مطلب تو ہے کہ میں اس کا منظورِ نظر ہوں اور وہ مجھ پر مہربان ہے۔ چناچہ اس زندگی کے بعد بھی اگر کوئی زندگی ہے تو میں وہاں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کا منظورِ نظر ہی رہوں گا ‘ وہ وہاں بھی مجھ پر اسی طرح مہربان رہے گا اور جس طرح میں یہاں اس دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہا ہوں وہاں بھی اسی طرح مزے اڑائوں گا۔ { فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِمَا عَمِلُوْا } ”تب ہم پوری طرح سے جتلادیں گے ان کافروں کو جو کچھ بھی اعمال انہوں نے کیے ہوں گے۔“ { وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ } ”اور انہیں ہم لازماً مزا چکھائیں گے بہت ہی گاڑھے عذاب کا۔“
وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ
📘 آیت 51{ وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ } ”اور جب ہم انسان پر نعمتوں کی بارش کردیتے ہیں تو وہ رخ پھیر لیتا ہے اور اپنا پہلو بدل لیتا ہے۔“ { وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآئٍ عَرِیْضٍ } ”اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بڑی لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔“
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ
📘 آیت 52{ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ثُمَّ کَفَرْتُمْ بِہٖ } ”اے نبی ﷺ ! ان سے کہیے : کیا تم نے غور کیا کہ اگر یہ قرآن واقعی اللہ ہی کی طرف سے ہو ‘ پھر تم نے اس کا کفر کیا“ بیشک تم لوگ قرآن کو اللہ کا کلام ماننے کے لیے تیار نہیں ہو ‘ لیکن تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لو کہ اگر یہ واقعی اللہ کا کلام ہو اور تم لوگ اس کے منکر ہو رہے ہو تو : { مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ ہُوَ فِیْ شِقَاقٍم بَعِیْدٍ } ”تو کون ہوگا اس سے بڑھ کر بھٹکا ہوا جو دور کی مخالفت میں پڑا ہو !“ یہ بالکل وہی اسلوب ہے جو اس سے پہلے سورة سبا کی اس آیت میں اختیار فرمایا گیا ہے : { قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍج اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنٰی وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْاقف مَا بِصَاحِبِکُمْ مِّنْ جِنَّۃٍط } آیت 46 ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں ‘ یہ کہ تم کھڑے ہو جائو اللہ کے لیے دو دو ہو کر یا اکیلے اکیلے ‘ پھر غور کرو ‘ نہیں ہے تمہارے ساتھی کو جنون کا کوئی عارضہ۔“ اب یہاں آخری مرتبہ پھر قرآن مجید کا ذکر آ رہا ہے اور یہ استدلال ہمارے اس موجودہ سائنسی دور کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
📘 آیت 53{ سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ } ”عنقریب ہم انہیں دکھائیں گے اپنی نشانیاں آفاق میں بھی اور ان کی اپنی جانوں کے اندر بھی“ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی جانوں اور زمین و آسمان کے اندر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مبرہن انداز میں ان لوگوں کے سامنے آتی چلی جائیں گی۔ { حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ } ”یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔“ اس آیت میں دراصل معلومات کے اس explosion کی طرف اشارہ ہے جو سائنسی ترقی کے باعث آج کے دور میں ممکن ہوا ہے۔ موجودہ دور سائنس کا دور ہے۔ اس دور کی تاریخ زیادہ سے زیادہ دو سو برس پرانی ہے اور سائنسی ترقی میں یہ برق رفتاری جو آج ہم دیکھ رہے ہیں اسے شروع ہوئے تو ابھی نصف صدی ہی ہوئی ہے۔ چناچہ پچھلی نصف صدی سے سائنسی ترقی کے سبب مسلسل حیرت انگیز انکشافات ہو رہے ہیں اور آئے روز نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں۔ ان سائنسی معلومات کے اکتشافات اور حقائق کے بےنقاب ہونے سے بتدریج قرآن کا حق ہونا ثابت ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دورئہ ترجمہ قرآن کے آغاز میں ”تعارفِ قرآن“ کے تحت اعجازِ قرآن کے مختلف پہلوئوں پر تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے۔ ان تمام پہلوئوں کا احصاء اور احاطہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت اعجازِ قرآن کے جس پہلو نے اہل ِعرب کو سب سے زیادہ متاثر بلکہ مسحور کیا تھا وہ اس کی فصاحت ‘ بلاغت اور ادبیت تھی۔ اس وقت قرآن نے عرب بھر کے شعراء ‘ خطباء اور فصحاء کو ان کے اپنے میدان میں چیلنج کیا کہ اگر تم لوگ دعویٰ کرتے ہو کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے تو تم اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھائو۔ یہ چیلنج انہیں اس میدان میں دیا گیا تھا جس کے شہسوار ہونے پر انہیں خود اپنے اوپر ناز تھا اور جس کے نشیب و فراز کو وہ خوب اچھی طرح سے سمجھتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس چیلنج کا جواب نہ دے سکے۔ نزولِ قرآن کے وقت عربوں کے ہاں چونکہ شاعری اور سخن وری و سخن فہمی کا بہت چرچا تھا اس لیے اس دور میں قرآن نے اپنے اسی ”اعجاز“ کو نمایاں کیا تھا۔ آج جبکہ سائنس کا دور ہے تو آج اعجازِ قرآن کے سائنسی پہلو کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ قرآن نے انسان کو کائنات میں بکھری ہوئی آیاتِ الٰہیہ کا مشاہدہ کرنے اور ان پر غور کرنے کی بار بار دعوت دی ہے ‘ لیکن ظاہر بات ہے کہ اس میدان میں چودہ سو سال پہلے کے مشاہدے اور آج کے مشاہدے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پرانے زمانے کا انسان کائنات کے عجائبات کو ننگی آنکھ سے دیکھتا تھا جبکہ آج کے انسان کو بہت بڑی بڑی ٹیلی سکوپس ‘ الیکٹرانک مائیکرو سکوپس اور نہ جانے کون کون سی سہولیات میسر ہیں۔ بہرحال آج خصوصی محنت اور کوشش سے یہ حقیقت دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ جن حقائق تک سائنس آج پہنچ پا رہی ہے قرآن نے بنی نوع انسان کو چودہ صدیاں پہلے ان سے متعارف کر ادیا تھا۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ابھی تک کسی مسلمان اسکالر کو قرآن اور سائنسی معلومات کا تقابلی مطالعہ comparative study کرکے یہ ثابت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ اب تک کے تمام سائنسی انکشافات قرآن کی فراہم کردہ معلومات کے عین مطابق ہیں۔ حال ہی میں فرانسیسی سرجن ڈاکٹر موریس بوکائی [ Maurice Bucaile 1920- 1998 ] نے ”بائبل ‘ قرآن اور سائنس“ The Bible , The Quran and Science کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ‘ جس میں اس نے ثابت کیا ہے کہ اب تک جو بھی سائنسی حقائق دنیا کے سامنے آئے ہیں وہ نہ صرف قرآن میں دی گئی تفصیلات کے عین مطابق ہیں بلکہ ان سب کے مطالعہ سے قرآن کی حقانیت بھی ثابت ہوتی ہے۔ اپنی اسی تحقیق کی بدولت موصوف سرجن کو ایمان کی دولت بھی نصیب ہوئی۔ قرآن کی بعض آیات تو اگرچہ آج بھی سائنسی حوالے سے تحقیق طلب ہیں ‘ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اب تک سامنے آنے والے سائنسی انکشافات کی روشنی میں قرآن کی متعلقہ آیات و عبارات کے مفاہیم و مطالب مزید نکھرکر سامنے آئے ہیں۔ بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ قرآن کے بعض الفاظ کے جو معانی پرانے زمانے میں سمجھے گئے تھے وہ غلط ثابت ہوئے ہیں اور ان کی جگہ ان الفاظ کے زیادہ واضح اور زیادہ منطقی معانی سامنے آئے ہیں۔ مثلاً لفظ عَلَقَہ کا وہ مفہوم جو قبل ازیں سورة المومنون کی آیت 14 کے ضمن میں بیان ہوا ہے زیادہ بہتر اور درست ہے۔ اور لفظ ”فائدہ“ اور ”فواد“ کی وہ وضاحت جو سورة بنی اسرائیل کی آیت 36 کے تحت دی گئی ہے زیادہ واضح اور منطقی ہے۔ اسی طرح اجرام سماویہ کے بارے میں قرآنی الفاظ { وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ۔ } یٰسٓ کا وہ مفہوم جو آج کے انسان کو معلوم ہوا ہے وہ پرانے زمانے کے انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ‘ بلکہ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اجرامِ فلکی اور ان کی گردش سے متعلق مختلف زمانوں میں مختلف موقف اختیار کیے گئے۔ کسی زمانے میں انسان سمجھتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج حرکت میں ہے۔ پھر اسے یوں لگا جیسے سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے۔ حتیٰ کہ آج کے انسان نے اپنی تحقیق و جستجو سے یہ ثابت کردیا کہ سچ یہی ہے : { وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ 4 } کہ یہ سب ہی اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ بلکہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ متحرک ہے ‘ حتیٰ کہ ہر ایٹم atom کے اندر اس کے اجزاء الیکٹرانز ‘ پروٹانز اور نیوٹرانز بھی بےتابانہ مسلسل گردش میں ہیں۔ اقبالؔ نے اپنے اس شعر میں اسی حقیقت کی ترجمانی کی ہیـ: ؎ سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں ! موجودہ دور میں اگرچہ مسلمانوں کو قرآن اور سائنس کے حوالے سے خصوصی اہتمام کے ساتھ تحقیق و تدقیق کرنے کی ضرورت ہے ‘ لیکن ایسی کسی تحقیق کے دوران خواہ مخواہ تکلف کرنے اور زبردستی کھینچ تان کر کے قرآن کے دور ازکار مفاہیم نکالنے کی کوشش میں نہیں رہنا چاہیے۔ بلکہ جہاں پر عقلی اور سائنسی طور پر بات سمجھ میں نہ آئے وہاں تسلیم کرلینا چاہیے کہ ابھی بات واضح نہیں ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یقین رکھنا چاہیے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے : { کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج } آل عمران : 7۔ ایک وقت ضرور آئے گا کہ جو بات آج واضح نہیں ہے وہ واضح ہوجائے گی ‘ اور خارج کی دنیا میں اس حوالے سے جو حقائق بھی منکشف ہوں گے وہ قرآن کے الفاظ کے عین مطابق ہوں گے۔ ان شاء اللہ ! البتہ جن سائنسی حقائق کی اب تک قرآن کے ساتھ مطابقت ثابت ہوچکی ہے انہیں عام کر کے قرآن کی حقانیت کے سائنٹفک ثبوت کے طور پر لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آیت زیر مطالعہ میں فعل مضارع سَنُرِیْہِمْ سے پہلے ”س“ کی وجہ سے اس لفظ کے مفہوم میں خصوصی طور پر مستقبل کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی مستقبل میں ہم انہیں اپنی ایسی نشانیاں دکھائیں گے جن سے قرآن کی حقانیت واضح ہوجائے گی۔ اس ”مستقبل“ کا احاطہ کرنے کی کوشش میں اگر چشم تصور کو جنبش دی جائے تو اس کی حدود نزول قرآن کے دور کی فضائوں سے لے کر زمانہ قیامت کی دہلیز تک وسعت پذیر نظر آئیں گی۔ آج وقت کی شاہراہ پر انسانی علم کی برق رفتاری کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ انسانی تحقیق کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خلاء کی پہنائیوں کے راز اس کے سامنے ایک ایک کر کے بےنقاب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سمندروں کی اتھاہ گہرائیاں اس کی عمیق نظری کے سامنے سرنگوں ہیں۔ قطب شمالی Arctic اور قطب جنوبی Antarctic سمیت زمین کا چپہ چپہ ہر پہلو سے نت نئی تحقیق کی زد میں آچکا ہے۔ غرض سائنسی ترقی کا یہ ”جن“ کہکشائوں کی بلندیوں سے لے کر تحت الثریٰ ّکی گہرائیوں تک معلومات کے خزانے اکٹھے کر کے بنی نوع انسان کے قدموں میں ڈالتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن الحمد للہ ! اس تحقیق کے ذریعے سے اب تک جو حقائق بھی سامنے آئے ہیں وہ سب کے سب قرآن کی حقانیت پر گواہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے علم و تحقیق کا یہ قافلہ وقت کی شاہراہ پر اپنا سفر قیامت تک جاری رکھے گا۔ ہمارا ایمان ہے کہ اس سفر کے دوران ایجادو دریافت کے میدان میں انسان کو جو کامیابیاں بھی نصیب ہوں گی اور انفس و آفاق کی دنیائوں کے جو جو راز بھی منکشف ہوں گے وہ سب کے سب بالآخر قرآن حکیم کی حقانیت پر مہر ِتصدیق ثبت کرتے چلے جائیں گے۔ { اَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدٌ } ”کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ کا ربّ ہرچیز پر گواہ ہے !“ کائنات کی ہرچیز اس کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ لیکن اس نے قرآن میں صرف اسی حد تک حقائق کا ذکر کیا ہے جس حد تک انسان انہیں سمجھ سکتا ہے اور اسی انداز میں ان کا ذکر کیا ہے جس انداز میں انسانی فہم و شعور کی رسائی ان تک ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے وہ حقائق جن تک آج کے انسان کی تدریجاً رسائی ہوئی ہے اگر وہ آج سے پندرہ سو سال پہلے من و عن بیان کردیے جاتے تو اس وقت انہیں کون سمجھ سکتا تھا۔
أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَاءِ رَبِّهِمْ ۗ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ
📘 آیت 54{ اَلَآ اِنَّہُمْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَآئِ رَبِّہِمْ } ”آگاہ ہو جائو ! یہ لوگ اپنے رب کے ساتھ ملاقات سے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں۔“ { اَلَآ اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْئٍ مُّحِیْطٌ } ”آگاہ ہو جائو ! بیشک وہ ہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔“
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ
📘 آیت 6 { قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ } ”آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ میں تو بس ایک انسان ہوں تمہاری طرح کا“ مخالفین کی طرف سے چیلنج کا گستاخانہ انداز دیکھئے اور حضور ﷺ کا جواب ملاحظہ فرمائیے۔ یعنی میں نے تم لوگوں کے سامنے نہ تو خدائی کا دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی میں نے کہا ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو بس ایک انسان ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میرے پاس اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے۔ { یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ} ”میری طرف وحی کی جا رہی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے“ ان سورتوں کا مرکزی مضمون چونکہ توحید ہے ‘ اس لیے سورت کے آغاز میں ہی اس مضمون کو نمایاں کیا جا رہا ہے۔ { فَاسْتَقِیْمُوْٓا اِلَیْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ } ”تو اسی کی طرف سیدھا رکھو اپنے رخ کو اور اس سے استغفار کرو۔“ جو خطائیں اور غلطیاں اس سے پہلے ہوچکی ہیں ان کی معافی مانگو اور کفر و شرک کے عقائد سے توبہ کرو۔ { وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِیْنَ } ”اور بڑی تباہی اور ہلاکت ہوگی مشرکین کے لیے۔“
الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ
📘 آیت 7 { الَّذِیْنَ لَا یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ } ”وہ لوگ جو خود کو پاک کرنے کی کوشش نہیں کرتے“ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ حضور ﷺ کے مکی دور میں زکوٰۃ کا کوئی نظام نہیں تھا۔ یہ نظام تو ہجرت کے بعد مدینہ میں جا کر قائم ہوا تھا۔ چناچہ اگر لفظ زکوٰۃ مکی سورتوں میں آئے تو اس کے لغوی معنی مراد لیے جاتے ہیں۔ لفظ زکوٰۃ کے لغوی معنی چونکہ پاکیزگی کے ہیں اس لیے اس جملے کا مفہوم یہی ہوگا کہ جو لوگ اپنے تزکیہ نفس کی کوشش نہیں کرتے۔ { وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ } ”اور وہ آخرت کے منکر ہیں۔“
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ
📘 آیت 8 { اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ } ”بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ‘ ان کے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔“
۞ قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ
📘 آیت 9 { قُلْ اَئِنَّکُمْ لَـتَـکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ } ”اے نبی ﷺ ! آپ ان سے کہیے کہ کیا تم لوگ کفر کر رہے ہو اس ہستی کا جس نے زمین کو بنایا دو دنوں میں ؟“ { وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗٓ اَنْدَادًاط ذٰلِکَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ } ”اور تم اس کے لیے مدمقابل ٹھہرا رہے ہو ! وہ ہے تمام جہانوں کا رب۔“ اَنْدَاد کا واحد ”نِدّ“ ہے جس کے معنی مد مقابل کے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا ہے تو اس کا مالک اور اصل حاکم بھی وہی ہے۔ لہٰذا دنیا میں اگر کوئی حاکم بنے گا تو اسے اللہ کا تابع اور ماتحت بن کر رہنا ہوگا۔ اس حیثیت سے وہ اللہ کا خلیفہ ہوگا۔ لیکن اگر کوئی اللہ کی اطاعت سے آزاد ہو کر حاکم بن بیٹھے اور خود کو مطلق اقتدار sovereignty کا حق دار سمجھنے لگے تو وہ گویا اللہ کا مدمقابل ہے ‘ چاہے وہ ایک فرد ہو یا کسی ملک کے کروڑوں عوام ہوں۔