🕋 تفسير سورة الدخان
(Ad-Dukhan) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ حم
📘 آیت 1 { حٰمٓ } ”ح ‘ م۔“
فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ
📘 آیت 10 { فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ } ”تو آپ انتظار کیجیے اس دن کا جس دن آسمان لائے گا واضح دھواں۔“ اس آیت کے مفہوم کے بارے میں مفسرین ّکے درمیان شدید اختلاف ہے اور یہ اختلاف صحابہ کرام رض کے زمانے میں بھی پایا جاتا تھا۔ حضرت علی ‘ ابن عمر ‘ ابن عباس اور ابوسعید خدری علیہ السلام اور حسن بصری رح جیسے اکابر کی رائے ہے کہ اس سے وہ دھواں مراد ہے جو قیامت سے پہلے نمودار ہوگا۔ ایک حدیث میں حضور ﷺ نے قیامت سے فوراً پہلے نمودار ہونے والی جن دس نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے ان میں دھویں دخان کا ذکر بھی ہے۔ اس کے برعکس حضرت عبداللہ بن مسعود رض کی بڑی شدت کے ساتھ یہ رائے ہے کہ حضور ﷺ کی نبوت کے ابتدائی سالوں میں مکہ میں جو قحط پڑا تھا اس آیت میں اس قحط کے بارے میں پیشگی خبردار کیا گیا ہے۔ صحرائی علاقوں میں اگر طویل مدت تک بارش نہ ہو تو پوری فضا گرد سے اٹ جاتی ہے اور آسمان کی طرف دیکھنے سے یوں لگتا ہے جیسے دھویں کے بادل چھا رہے ہیں۔ قحط کا یہ عذاب دراصل اسی قانونِ خداوندی کے تحت اہل مکہ پر مسلط ہوا تھا جس کا ذکر سورة الانعام میں اس طرح ہوا ہے : { وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ۔ } ”اور ہم نے بھیجا ہے دوسری امتوں کی طرف بھی آپ ﷺ سے قبل رسولوں کو ‘ پھر ہم نے پکڑا انہیں سختیوں اور تکلیفوں سے شاید کہ وہ عاجزی کریں“۔ تابعین میں سے مجاہد ‘ قتادہ ‘ ابراہیم نخعی وغیرہ حضرات نے حضرت عبداللہ بن مسعود رض کی رائے سے اتفاق کیا ہے۔ بہر حال میں نے یہاں جلیل القدر صحابہ رض کی آراء بیان کردی ہیں۔ ان صحابہ رض کے عظیم مراتب کے پیش نظر ان آراء میں محاکمہ کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔
يَغْشَى النَّاسَ ۖ هَٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 آیت 11 { یَّغْشَی النَّاسَط ہٰذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ} ”وہ ڈھانپ لے گا لوگوں کو۔ یہ ایک درد ناک عذاب ہوگا۔“
رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ
📘 آیت 12 { رَبَّنَا اکْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَ } ”اُس وقت لوگ کہیں گے : اے ہمارے رب ! اس عذاب کو ہم سے دور کر دے ‘ ہم ایمان لانے والے ہیں۔“
أَنَّىٰ لَهُمُ الذِّكْرَىٰ وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ
📘 آیت 13 { اَنّٰی لَہُمُ الذِّکْرٰی وَقَدْ جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ } ”کہاں ہے ان کے لیے یاد دہانی کی استعداد ‘ جبکہ آچکا ہے ان کے پاس ایک واضح کردینے والا رسول !“
ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ
📘 آیت 14 { ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْہُ وَقَالُوْا مُعَلَّـمٌ مَّجْنُوْنٌ} ”پھر انہوں نے منہ پھیرلیا اس کی طرف سے اور کہا کہ یہ تو سکھایا پڑھایا ہوا مجنون ہے۔“ معاذ اللہ ! نقل کفر کفر نباشد ! وہ حضور ﷺ کے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے تھے۔ کبھی کہتے کہ ان کو یہ باتیں کسی اور نے سکھائی ہیں اور کبھی کہتے کہ ان پر آسیب اور ِجنات ّوغیرہ کا اثر ہوگیا ہے اور ان کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا۔ معاذ اللہ !
إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا ۚ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ
📘 آیت 15 { اِنَّا کَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّکُمْ عَآئِدُوْنَ } ”ہم دور کردیں گے اس عذاب کو تھوڑی دیر کے لیے ‘ تو تم لوٹ کر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے۔“ جیسے آلِ فرعون کے معاملے میں ہم سورة الاعراف کے چھٹے رکوع میں پڑھ چکے ہیں کہ ان پر پے در پے سات عذاب بھیجے گئے تھے۔ ہر مرتبہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے دعا کریں اور ہر بار وعدہ کیا کہ اگر یہ عذاب ٹل گیا تو وہ ایمان لے آئیں گے۔ مگر جب عذاب ٹل جاتا تو وہ اپنے وعدے سے ِپھر جاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رض اس آیت کو اپنے مذکورہ موقف کے حق میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر اس دھویں سے مراد قبل از قیامت کا دھواں ہوتا تو اس کے دور کیے جانے کا کوئی سوال نہیں تھا۔ اس لیے اس سے مراد اسی نوعیت کا عذاب ہے جو کسی رسول کی بعثت کے بعد لوگوں کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے بھیجا جاتا ہے اور جس کا مقصد اور اصول سورة السجدۃ میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : { وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ ”اور ہم انہیں لازماً چکھائیں گے قریب کے کچھ چھوٹے عذاب بڑے عذاب سے پہلے تاکہ یہ باز آجائیں۔“
يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ إِنَّا مُنْتَقِمُونَ
📘 آیت 16 { یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰیج اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ } ”جس دن ہم پکڑیں گے بڑی پکڑ ‘ اُس دن یقینا ہم پورا پورا انتقام لیں گے۔“
۞ وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ
📘 آیت 17 { وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَہُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ کَرِیْمٌ} ”اور ہم نے آزمایا تھا ان سے پہلے قوم فرعون کو بھی ‘ اور ان کے پاس بھی ایک بہت معزز رسول آیا تھا۔“
أَنْ أَدُّوا إِلَيَّ عِبَادَ اللَّهِ ۖ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ
📘 آیت 18 { اَنْ اَدُّوْٓا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِط اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ} ”اس پیغام کے ساتھ کہ تم اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو۔ یقینا میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ایک معزز اور امانت دار رسول ہوں اور تمہاری طرف اللہ کا یہ پیغام لے کر آیا ہوں کہ تم بنی اسرائیل کو آزاد کر کے میرے ساتھ جانے کی اجازت دے دو۔
وَأَنْ لَا تَعْلُوا عَلَى اللَّهِ ۖ إِنِّي آتِيكُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ
📘 آیت 19 { وَّاَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَی اللّٰہِج اِنِّیْٓ اٰتِیْکُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ } ”اور یہ کہ تم اللہ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو۔ میں تمہارے پاس لے کر آیا ہوں ایک واضح سند۔“ اگر تم لوگ میری مخالفت کرو گے تو یہ گویا اللہ کی مخالفت اور اس کے خلاف سرکشی ہوگی۔ اس لیے کہ میں اللہ کا نمائندہ ہوں اور اسی کے پیغامات تم تک پہنچا رہا ہوں۔
وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ
📘 آیت 2 { وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ } ”قسم ہے اس روشن کتاب کی۔“ جیسا کہ سورة الزخرف کے آغاز میں عرض کیا گیا ‘ سورة الدخان کی سورة الزخرف کے ساتھ نسبت ِزوجیت ہے اور اس کی ایک علامت یہ ہے کہ دونوں سورتوں کی دو ابتدائی آیات مشترک ہیں اور ان کا اسلوب بھی ایک جیسا ہے۔ چناچہ سورة الزخرف کی طرح یہاں اس آیت میں بھی قرآن کی قسم کا جوابِ قسم یا مقسم علیہ محذوف ہے۔ اس ضمن میں یہ وضاحت قبل ازیں کی جا چکی ہے کہ ایسے مقامات پر مقسم علیہ گویا وہی حقیقت ہے جس کا ذکر سورة یٰسٓ کے آغاز میں ہوچکا ہے : { یٰسٓ۔ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔۔ چناچہ یہاں پر اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کو مقدر understood مانتے ہوئے آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یوں ہوگا : ”اے محمد ﷺ یہ کتاب ِمبین گواہ ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ﷺ ہیں“۔ گویا یہ روشن اور واضح کتاب ‘ یہ قرآن آپ ﷺ کی رسالت کا قطعی ثبوت ہے۔
وَإِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ أَنْ تَرْجُمُونِ
📘 آیت 20 { وَاِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ } ”اور میں نے پناہ پکڑ لی ہے اپنے اور تمہارے رب کی اس بات سے کہ تم مجھے سنگسار کرو۔“
وَإِنْ لَمْ تُؤْمِنُوا لِي فَاعْتَزِلُونِ
📘 آیت 21 { وَاِنْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا لِیْ فَاعْتَزِلُوْنِ } ”اور اگر تم لوگ میری بات نہیں مانتے ہو تو مجھ سے دوررہو !“ تمہاری سازشوں کے خلاف چونکہ میں نے اپنے رب کی پناہ حاصل کرلی ہے اس لیے اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو بھی میرے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے سے باز رہنا۔
فَدَعَا رَبَّهُ أَنَّ هَٰؤُلَاءِ قَوْمٌ مُجْرِمُونَ
📘 آیت 22 { فَدَعَا رَبَّہٗٓ اَنَّ ہٰٓؤُلَآئِ قَوْمٌ مُّجْرِمُوْنَ } ”پھر اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ مجرم قوم ہے۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیاـ:
فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ
📘 آیت 23{ فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلًا اِنَّکُمْ مُّتَّبَعُوْنَ } ”پس میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جائو ‘ آگاہ رہو کہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔“
وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ۖ إِنَّهُمْ جُنْدٌ مُغْرَقُونَ
📘 آیت 24 { وَاتْرُکِ الْبَحْرَ رَہْوًا } ”اور چھوڑ دینا سمندر کو ساکن !“ ہم سمندر کو پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنا دیں گے ‘ اس راستے سے گزر جانے کے بعد اسے اسی طرح ساکن چھوڑ دینا۔ { اِنَّہُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ } ”یہ ایک لشکر ہیں جو غرق کیے جائیں گے۔“ فرعون کا لشکر تمہارا تعاقب کرے گا اور اسی راستے سے گزرنے کی کوشش کرے گا ‘ لیکن ہم اس کو غرق کردیں گے۔
كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ
📘 آیت 25 ‘ 26 { کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ۔ وَّزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ۔ ”انہوں نے کتنے ہی باغوں ‘ چشموں ‘ کھیتوں اور شاندار رہائش گاہوں کو چھوڑا۔“
وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ
📘 آیت 25 ‘ 26 { کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ۔ وَّزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ۔ ”انہوں نے کتنے ہی باغوں ‘ چشموں ‘ کھیتوں اور شاندار رہائش گاہوں کو چھوڑا۔“
وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ
📘 آیت 27 { وَّنَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْہَا فٰــکِہِیْنَ } ”اور کیسی کیسی نعمتوں کو جن میں وہ عیش کیا کرتے تھے۔“
كَذَٰلِكَ ۖ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ
📘 آیت 28 { کَذٰلِکَقف وَاَوْرَثْنٰہَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ } ”یوں ہی ہوا ‘ اور ہم نے وارث بنا دیا ان چیزوں کا دوسرے لوگوں کو۔“
فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ
📘 آیت 29 { فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآئُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَ } ”تو نہ ان پر آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ ہی انہیں کوئی مہلت دی گئی۔“
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ
📘 آیت 3 { اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَـیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ } ”یقینا ہم نے اس کو نازل کیا ہے ایک مبارک رات میں“ یہ مضمون سورة القدر میں واضح تر انداز میں آیا ہے : { اِنَّآاَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃِ الْقَدْرِ۔ کہ ہم نے اسے ”لیلۃ القدر“ میں نازل فرمایا۔ چونکہ قرآن مجید میں عام طور پر اہم مضامین کم از کم دو مرتبہ آئے ہیں اس لیے اس خاص رات کا ذکر بھی دو مرتبہ آیا ہے۔ وہاں ”لیلۃ القدر“ کے نام سے اور یہاں ”لیلۃ مبارکۃ“ کے نام سے۔ { اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ } ”یقینا ہم خبردار کردینے والے ہیں۔“ رسالت اور انزالِ کتب کا اصل مقصد لوگوں کا انذار خبردار کرنا ‘ آگاہ کرنا ہے۔ جیسے سورة المدثر میں حضور ﷺ کو حکم دیا گیا : { یٰٓـــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ ”اے چادر اوڑھنے والے ‘ اٹھئے اور لوگوں کو خبردار کیجیے“۔ دنیا کی زندگی اصل زندگی نہیں ہے۔ یہ تو اصل ”کتاب زندگی“ کے دیباچے کی مانند ہے۔ اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہونے والی ہے۔ چناچہ اسی حوالے سے لوگوں کو خبردار warn کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل علیہ السلام اور الہامی کتب کے ذریعے ہدایت کے ایک سلسلے کا اہتمام فرمایا تاکہ ان میں اصل اور ہمیشہ کی زندگی کو بہتر بنانے کا شعور پیداہو اور وہ اس کے لیے تیاری کرسکیں : { وَمَا ہٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌط وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ 7 لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۔ العنکبوت ”یہ دنیا کی زندگی تو کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں ‘ جبکہ آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے۔ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا !“
وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِينِ
📘 آیت 30 { وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ } ”اور ہم نے نجات دے دی بنی اسرائیل کو ذلت آمیز عذاب سے۔“
مِنْ فِرْعَوْنَ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَالِيًا مِنَ الْمُسْرِفِينَ
📘 آیت 31 { مِنْ فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ کَانَ عَالِیًا مِّنَ الْمُسْرِفِیْنَ } ”یعنی فرعون سے ‘ یقینا وہ بڑا ہی سرکش ‘ حد سے نکل جانے والوں میں سے تھا۔“ ایک طرف تو وہ معصیت کے ارتکاب میں حد سے بڑھا ہوا تھا اور دوسری طرف اس کی سرشت میں سرکشی بھی بہت تھی۔
وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَىٰ عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ
📘 آیت 32 { وَلَقَدِ اخْتَرْنٰـہُمْ عَلٰی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ } ”اور ہم نے علم رکھنے کے باوجود اُن بنی اسرائیل کو اقوامِ عالم پر ترجیح دی تھی۔“ بنی اسرائیل کی تمام خرابیاں اور کوتاہیاں ہمارے علم میں تھیں۔ اس کے باوجود ہم نے دنیا کی تمام اقوام پر انہیں فضیلت دے کر برگزیدہ کیا تھا۔ بنی اسرائیل کی اس فضیلت کا ذکر قرآن حکیم میں بار بار آیا ہے۔ سورة البقرۃ میں یہ آیت دو مرتبہ 47 اور 122 آئی ہے : { یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ 4 } ”اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میرے اس انعام کو جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت عطا کی جہان والوں پر۔“ قرآن کریم خصوصی طور پر سورة البقرۃ میں بنی اسرائیل کے بڑے بڑے جرائم بھی ِگنوائے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی کی وجہ یہ تھی کہ ان کا سواد اعظم مسلسل توحید سے چمٹا رہا تھا۔ اگرچہ گاہے بگاہے ان میں مشرکانہ نظریات و اوہام بھی پنپتے رہے لیکن ان کی اکثریت بہر حال توحید پر قائم رہی۔ مثلاً ایک زمانے میں ان کے درمیان ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا تھا جو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتا تھا لیکن اس دور میں بھی مجموعی طور پر ان میں سے اکثر لوگ توحید پرست ہی رہے۔
وَآتَيْنَاهُمْ مِنَ الْآيَاتِ مَا فِيهِ بَلَاءٌ مُبِينٌ
📘 آیت 33 { وَاٰتَیْنٰہُمْ مِّنَ الْاٰیٰتِ مَا فِیْہِ بَلٰٓؤٌا مُّبِیْنٌ } ”اور ہم نے انہیں بہت سی ایسی نشانیاں دیں جن میں بہت واضح آزمائش تھی۔“ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو بار بار ایسی آزمائشوں سے دو چار کیا گیا جو ان کے لیے ”بَلَآئً حَسَنًا“ الانفال : 17 کا درجہ رکھتی تھیں۔ یعنی ایسی آزمائشیں جو انسان کی بھلائیوں کو بڑھانے اور اچھائیوں کو نکھارنے کا باعث بنتی ہیں۔
إِنَّ هَٰؤُلَاءِ لَيَقُولُونَ
📘 آیت 34 { اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ لَیَقُوْلُوْنَ } ”یہ لوگ تو یہی کہہ رہے ہیں۔“ ہٰٓؤُلَآئِ سے یہاں اہل مکہ مراد ہیں۔ چونکہ یہ مکی سورت ہے اس لیے بنی اسرائیل کا ذکر کرنے کے بعد اب مشرکین مکہ کے اقوال و عقائد پر تبصرہ ہونے جا رہا ہے۔
إِنْ هِيَ إِلَّا مَوْتَتُنَا الْأُولَىٰ وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِينَ
📘 آیت 35 { اِنْ ہِیَ اِلَّا مَوْتَتُنَا الْاُوْلٰی وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِیْنَ } ”کچھ نہیں مگر ہماری یہ پہلی موت ہی ہوگی اور ہم دوبارہ اٹھائے جانے والے نہیں ہیں۔“ کہ بس ہماری موت کے ساتھ ہی ہماری زندگی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کے عقیدے کو ہم نہیں مانتے۔
فَأْتُوا بِآبَائِنَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 آیت 36 { فَاْتُوْا بِاٰبَآئِنَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ } ”تو لائو ذرا ہمارے آباء و اَجداد کو ‘ اگر تم سچے ہو !“ اپنے موقف کے حمایت میں وہ لوگ یہ دلیل دیتے کہ اگر تم بعث بعد الموت کے عقیدے کو سچ مانتے ہو تو ذرا ہمارے فوت شدہ آباء و اَجداد کو زندہ کر کے دکھائو !
أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ
📘 آیت 37 { اَہُمْ خَیْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّعٍلا وَّالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ } ”کیا یہ بہتر ہیں یا ُ تبع ّکی قوم اور وہ لوگ جو ان سے پہلے تھے ؟“ یمن کے قدیم بادشاہ ”تبع“ کہلاتے تھے۔ جس طرح پرانے زمانے میں مصر کے بادشاہوں کا لقب ”فرعون“ اور عراق کے بادشاہوں کا لقب ”نمرود“ تھا اسی طرح یمن کے بادشاہوں کا لقب ”تبع“ تھا۔ { اَہْلَکْنٰہُمْ اِنَّہُمْ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ } ”ہم نے ان سب کو ہلاک کردیا ‘ بیشک وہ سب کے سب مجرم تھے۔“
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ
📘 آیت 38 { وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ } ”اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے مابین ہے محض کھیل کے طور پر تو تخلیق نہیں فرمایا۔“
مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
📘 آیت 39 { مَا خَلَقْنٰہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ } ”اور ہم نے نہیں بنایا ان دونوں کو مگر حق کے ساتھ ‘ مگر ان لوگوں کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔“
فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ
📘 آیت 4 { فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ } ”اس رات میں تمام ُ پر حکمت امور کے فیصلے صادر کیے جاتے ہیں۔“ اس سے پہلے ہم سورة السجدۃ میں پڑھ چکے ہیں کہ تدبیر ِکائنات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی منصوبہ بندی ایک ہزار سال کی ہوتی ہے : { یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔ ”وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف ‘ پھر وہ امر چڑھتا ہے اس کی طرف ‘ یہ سارا معاملہ طے پاتا ہے ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس ہے“۔ البتہ انسانی معاملات کے حوالے سے یہ رات لیلہ مبارکہ گویا اللہ تعالیٰ کی کائناتی سلطنت Cosmic Empire کے سالانہ بجٹ سیشن کا درجہ رکھتی ہے۔ -۔ - لفظ فرق کے لغوی معنی علیحدہ کردینے کے ہیں۔ چناچہ یُفْرَقُ کا درست مفہوم یہ ہوگا کہ فیصلے جاری issue کردیے جاتے ہیں۔ یعنی یہ وہ رات ہے جس میں تمام سال کے فیصلے طے کر کے تعمیل و تنفیذ implementation کے لیے ملائکہ کے حوالے کردیے جاتے ہیں جو اس عظیم سلطنت کی ”سول سروس“ کا درجہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ آیت کے مطابق یہ وہی رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو لوح محفوظ یا اُمّ الکتاب سے آسمانِ دنیا پر اتارا۔
إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ
📘 آیت 40 { اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَاتُہُمْ اَجْمَعِیْنَ } ”یقینا فیصلے کا دن ان سب کا وقت ِمعین ّہے۔“
يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ
📘 آیت 41 { یَوْمَ لَا یُغْنِیْ مَوْلًی عَنْ مَّوْلًی شَیْئًا وَّلَا ہُمْ یُنْصَرُوْنَ } ”جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہیں آسکے گا اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔“
إِلَّا مَنْ رَحِمَ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
📘 آیت 42 { اِلَّا مَنْ رَّحِمَ اللّٰہُط اِنَّہٗ ہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ } ”سوائے اس کے جس پر اللہ رحم فرما دے۔ یقینا وہی ہے زبردست ‘ بہت رحم فرمانے والا۔“
إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ
📘 آیت 43 { اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ } ”یقینا زقوم کا درخت۔“
طَعَامُ الْأَثِيمِ
📘 آیت 44 { طَعَامُ الْاَثِیْمِ۔ } ”گنہگاروں کا کھانا ہے۔“
كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ
📘 آیت 45 { کَالْمُہْلِج یَغْلِیْ فِی الْْبُطُوْنِ } ”پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ‘ کھولے گا پیٹوں کے اندر۔“ اس درخت کا ذکر اس سے پہلے سورة الصافات کے دوسرے رکوع میں بھی ہوچکا ہے۔ اس کے شگوفے نہایت بد شکل ‘ بد ذائقہ اور بدبودار ہوں گے ‘ لیکن اہل جہنم اس کو کھانے پر مجبور ہوں گے۔ جب وہ بھوک سے بےحال ہو کر اس کو کھائیں گے تو وہ ان کے پیٹوں میں پگھلے ہوئے تانبے کی طرح جوش مارے گا۔
كَغَلْيِ الْحَمِيمِ
📘 آیت 46 { کَغَلْیِ الْحَمِیْمِ۔ } ”جیسے گرم پانی کھولتا ہے۔“
خُذُوهُ فَاعْتِلُوهُ إِلَىٰ سَوَاءِ الْجَحِيمِ
📘 آیت 47 { خُذُوْہُ فَاعْتِلُوْہُ اِلٰی سَوَآئِ الْجَحِیْمِ۔ } ”پھر کہا جائے گا : پکڑو اس کو اور دھکیلتے ہوئے لے جائو اسے عین جہنم کے بیچوں بیچ۔“
ثُمَّ صُبُّوا فَوْقَ رَأْسِهِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيمِ
📘 آیت 48 { ثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِہٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیْمِ۔ } ”پھر انڈیل دو اس کے سر کے اوپر کھولتے ہوئے پانی کا عذاب۔“
ذُقْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ
📘 آیت 49 { ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ۔ } ”اب چکھو ! تم تو بڑے طاقتور ‘ بہت معزز تھے نا !“ ہاں اے ابوجہل ! تمہیں اپنی سرداری اور جتھے ّداری پر بڑا فخر تھا نا ! اور ولید بن مغیرہ ! تم بھی تو اپنی دولت اور جوان بیٹوں کے َبل پر بڑے اکڑتے تھے نا ! آج جہنم کی آگ ‘ زقوم کے کھانے اور کھولتے ہوئے پانی کے عذاب کا مزا چکھو ! اب یہی تم لوگوں کا مقدر ہے۔
أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ
📘 آیت 5 { اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاط اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ } ”طے شدہ احکام ہماری طرف سے۔ یقینا ہم ہی ہیں رسولوں کو بھیجنے والے۔“
إِنَّ هَٰذَا مَا كُنْتُمْ بِهِ تَمْتَرُونَ
📘 آیت 50 { اِنَّ ہٰذَا مَا کُنْتُمْ بِہٖ تَمْتَرُوْنَ } ”یقینایہی ہے وہ چیز جس کے بارے میں تم شک کرتے تھے۔“
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ
📘 آیت 51 { اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍ۔ } ”اس کے برعکس متقین بڑی امن والی جگہ میں ہوں گے۔“
فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ
📘 آیت 52 { فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ } ”باغات اور چشموں میں۔“
يَلْبَسُونَ مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُتَقَابِلِينَ
📘 آیت 53 { یَّلْبَسُوْنَ مِنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ } ”باریک اور موٹے ریشم کا لباس پہنیں گے ‘ ایک دوسرے کی طرف رخ کیے ہوئے بیٹھے ہوں گے۔“ ان کا نیچے کا لباس موٹے ریشم کا جبکہ اوپر کا لباس باریک ریشم کا ہوگا۔
كَذَٰلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ
📘 آیت 54 { کَذٰلِکَقف وَزَوَّجْنٰـہُمْ بِحُوْرٍعِیْنٍ } ”اسی طرح ہوگا ‘ اور ہم ان سے بیاہ دیں گے بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں۔“
يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ آمِنِينَ
📘 آیت 55 { یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِکُلِّ فَاکِہَۃٍ اٰمِنِیْنَ } ”وہ طلب کریں گے اس میں ہر طرح کے پھل اطمینان کے ساتھ۔“ جنت کے پھلوں میں سے جس پھل کی وہ خواہش کریں گے وہ ان کے سامنے پیش کر دیاجائے گا۔
لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَىٰ ۖ وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ
📘 آیت 56 { لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْہَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَۃَ الْاُوْلٰی وَوَقٰٹہُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ } ”وہ نہیں چکھیں گے اس میں موت سوائے اس پہلی موت کے ‘ اور اللہ نے انہیں بچالیا ہے جہنم کے عذاب سے۔“ دنیا میں انہیں جو موت آئی تھی وہی ان کی آخری موت ہوگی ‘ اب انہیں موت کی سختی کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور جنت میں ان کا قیام ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوگا۔ اَللّٰھُمَ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے ان بندوں میں شامل کرلے ‘ آمین !
فَضْلًا مِنْ رَبِّكَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
📘 آیت 57 { فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکَط ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ } ”یہ فضل ہوگا آپ کے رب کی طرف سے۔ یقینا یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔“ بلاشبہ اس میں ان کی نیکیوں اور محنت کا بھی حصہ ہوگا ‘ لیکن اس دن کی کامیابی نیک اعمال کی کثرت کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے خصوصی فضل کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔
فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
📘 آیت 58 { فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰــہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ } ”تو اے نبی ﷺ ! ہم نے اس قرآن کو آسان کردیا ہے آپ کی زبان پر ‘ تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔“ قرآن کی زبان بہت فصیح وبلیغ ہونے کے باوجود بڑی سادہ اور آسان ہے۔ بعض مصنفین دقیق اور ثقیل الفاظ استعمال کر کے قارئین پر اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ عربی کی کتاب ”مقاماتِ حریری“ پڑھیں تو اس میں آپ کو بھاری بھر کم اور نامانوس الفاظ کی کثرت سے محسوس ہوگا کہ شاید کتاب لکھنے سے مصنف کا مقصود صرف اپنے ذخیرہ الفاظ کا مظاہرہ کرنا ہی ہے۔ بہر حال قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس کا مقصد بنی نوع انسان کو ہدایت دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نعوذ باللہ قرآن کی عبارت کے ذریعے سے اپنی زبان دانی کی مہارت کا مظاہرہ کرنا مقصود نہیں تھا۔ چناچہ اس کتاب میں اگر ایک طرف ہمیں فصاحت و بلاغت کی معراج نظر آتی ہے تو دوسری طرف اس کی عبارت میں سہل ممتنع اور سادگی کا اعجاز بھی دکھائی دیتا ہے۔
فَارْتَقِبْ إِنَّهُمْ مُرْتَقِبُونَ
📘 آیت 59 { فَارْتَقِبْ اِنَّہُمْ مُّرْتَقِبُوْنَ } ”تو آپ ﷺ انتظار کیجیے ‘ یہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔“ یہی لفظ فَارْتَقِبْ قبل ازیں آیت 10 میں بھی آیا ہے ‘ جہاں دھویں کے عذاب کا ذکر ہے۔ گویا یہاں ایک دفعہ پھر اسی عذاب کے بارے میں پیشگی طور پر خبردار کردیا گیا ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود رض کے نزدیک اہل ِمکہ پر خشک سالی اور قحط کی صورت میں آنے والا تھا۔
رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
📘 آیت 6 { رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَط اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ } ”رحمت کے طور پر آپ کے رب کی طرف سے۔ یقینا وہی ہے سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ جاننے والا۔“ یہ تمام فیصلے یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت پر مبنی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر قرآن کا نزول اور نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت تو نوع انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت کا مظہر ہے۔
رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِنْ كُنْتُمْ مُوقِنِينَ
📘 آیت 7 { رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا 7 اِنْ کُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ } ”آسمانوں اور زمین کا رب اور جو کچھ ان کے مابین ہے۔ اگر تم یقین کرنے والے ہو !“ یقینا ساری کائنات کا پروردگار اور مالک اللہ ہی ہے۔ اس حقیقت کو مان لینا تو آسان ہے لیکن دل کی گہرائیوں میں اس کا یقین بٹھانا انسان کے لیے بہت مشکل ہے۔ انسان کا نفس اس سلسلے میں اسے قدم قدم پر دھوکہ دیتا ہے کہ فلاں چیز میری ہے اور فلاں چیز کا مالک میں ہوں۔ بہر حال ہمیں دل سے یقین کرلینا چاہیے کہ ہرچیز اللہ کی ہے اور وہی ہر شے کا مالک ہے : ؎ ایں امانت چند روزہ نزد ماست در حقیقت مالک ِ ہر شے خدا ست !گویا ہر انسان کی جان ‘ اس کا جسم ‘ جسم کے اعضاء اور زیر استعمال اشیاء وغیرہ اس کے پاس چند روز کے لیے امانت ہیں۔ حقیقت میں ان سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ آخرت میں ان میں سے ایک ایک امانت کا حساب لیا جائے گا اور اس حساب کے دوران انسان کے اپنے اعضاء اپنے مالک حقیقی کے سامنے اس کے خلاف گواہیاں دیں گے۔
لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ
📘 آیت 8 { لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ } ”اس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ وہی زندہ رکھتا ہے اور وہی مارتا ہے۔“ { رَبُّکُمْ وَرَبُّ اٰبَآئِکُمُ الْاَوَّلِیْنَ } ”وہ تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے پہلے آباء واجداد کا بھی رب ہے۔“
بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ يَلْعَبُونَ
📘 آیت 9 { بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ یَّلْعَبُوْنَ } ”لیکن یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے کھیل رہے ہیں۔“ رسول اللہ ﷺ جب اہل ِمکہ ّکے سامنے قرآن پیش کرتے تھے تو ان میں سے اکثر لوگ اسے کلام اللہ ماننے کے بجائے اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے تھے۔ پھر اسی بنا پر وہ حضور ﷺ کا مذاق بھی اڑاتے تھے کہ دیکھیں جی ! یہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔