🕋 تفسير سورة ق
(Qaf) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ
📘 آیت 1{ قٓ قف وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ۔ } ”ق ‘ قسم ہے عظیم الشان قرآن کی۔“ قرآن کی تین سورتیں ایسی ہیں جن کے آغاز میں صرف ایک ایک حرفِ مقطعہ ہے۔ ان میں سورة قٓ کے علاوہ تیئسویں پارے کی سورة صٓ اور انتیسویں پارے کی سورة القلم یا سورة نٓ شامل ہیں۔ بہت سی دوسری سورتوں کے آغاز کی طرح اس سورت کے آغاز میں بھی قرآن مجید کی قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے۔ بہرحال چونکہ سورة یٰسٓ کے آغاز میں قرآن حکیم کی قسم کا مقسم علیہ موجود ہے اس لیے اس قسم کا مقسم علیہ بھی وہی ہوگا ‘ یعنی { اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ } یٰسٓ۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ اے محمد ﷺ قسم ہے اس عظیم الشان قرآن کی ‘ بیشک آپ مرسلین میں سے ہیں۔ اس قسم کے فوراً بعد دوسری آیت میں حضور ﷺ کا تعارف انذارِ آخرت کے حوالے سے کرایا گیا ہے جو اس سورت کا مرکزی مضمون ہے۔
وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ
📘 آیت 10 { وَالنَّخْلَ بٰسِقٰتٍ لَّــہَا طَلْعٌ نَّضِیْدٌ۔ } ”اور کھجوروں کے بلند وبالا درخت جن کے خوشے ہیں تہ بر تہ۔“
رِزْقًا لِلْعِبَادِ ۖ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ الْخُرُوجُ
📘 آیت 11 { رِّزْقًا لِّلْعِبَادِلا وَاَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًاط } ”یہ سب رزق ہے بندوں کے لیے ‘ اور اسی پانی سے ہم زندہ کردیتے ہیں مردہ زمین کو۔“ { کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُ۔ } ”اسی طریقے سے نکلنا ہوگا تمہارا بھی۔“ جس طرح بارش کے پانی کے باعث خشک اور بنجر زمین سے طرح طرح کی نباتات اُگ آتی ہیں اسی طرح تم بھی ہمارے حکم سے زندہ ہو کر زمین سے نکل آئو گے۔
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ
📘 آیت 12{ کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُ۔ } ”جھٹلایا تھا ان سے پہلے بھی نوح علیہ السلام کی قوم نے ‘ کنویں والوں نے اور قوم ثمود نے۔“ یہ انباء الرسل کا تذکرہ ہے لیکن انتہائی مختصر انداز میں۔
وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ
📘 آیت 13 { وَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ وَاِخْوَانُ لُوْطٍ۔ } ”اور قوم عاد ‘ فرعون اور لوط علیہ السلام کے بھائیوں نے۔“
وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ
📘 آیت 14{ وَّاَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ط } ”اور بن والوں اور قومِ ُ تبع ّنے۔“ بن والوں سے یہاں اہل مدین مراد ہیں جن کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ ”تبع“ شاہانِ یمن کا لقب تھا۔ قبل ازیں سورة الدخان کی آیت 37 میں بھی ہم قوم تبع کا ذکر پڑھ آئے ہیں۔ { کُلٌّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِیْدِ۔ } ”ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا تو وہ مستحق ہوگئے میری وعید کے۔“ پیغمبروں کو جھٹلا کر وہ لوگ عذاب کی وعیدوں کے مصداق بن گئے۔
أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ
📘 آیت 15{ اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ط } ”تو کیا ہم پہلی مرتبہ پیدا کر کے عاجز آگئے ہیں !“ کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری تخلیقی صلاحیتیں creative potential اب ختم ہو کر رہ گئی ہیں اور اب ہم انہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکیں گے۔ یہی مضمون سورة الاحقاف میں اس طرح آیا ہے : { اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِییَ الْمَوْتٰیط بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ }”کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی اور ان کی تخلیق سے تھکا نہیں ‘ وہ اس پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے ! کیوں نہیں ‘ یقینا وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“ { بَلْ ہُمْ فِیْ لَـبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ۔ } ”بلکہ یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں نئی تخلیق سے متعلق۔“ ہماری خلاقی کی قدرت میں تو کوئی کمی نہیں آئی ‘ البتہ یہ لوگ اپنے ذہنوں کی تنگی کی وجہ سے پریشان ہیں اور مبتلائے شک ہیں کہ انہیں مرنے کے بعددوبارہ کیسے زندہ کرلیا جائے گا !
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
📘 آیت 16 { وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ج } ”اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے۔“ یہ اس قوت شرکا ذکر ہے جو انسان کے اندر ہے۔ نفس انسانی کے شر کا ذکر سورة یوسف میں یوں آیا ہے :{ وَمَـآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْج اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓ ئِ اِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ } ”اور میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا ‘ یقینا انسان کا نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے سوائے اس کے جس پر میرا ربّ رحم فرمائے۔ یقینا میرا ربّ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔“فطری طور پر انسان کے اندر داعیہ خیر بھی ہے اور داعیہ شر بھی۔ انسان کی اندرونی قوت شر کو سورة یوسف کی اس آیت میں ”نفس ِامارہ“ کا نام دیا گیا ہے۔ فرائیڈ اسے id یا libido کہتا ہے۔ دوسری طرف انسان کے اندر خیر کی قوت اس کی روح ہے جس کا مسکن قلب انسانی ہے۔ انسان کی روح اسے بلندی کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ اس داعیہ یا قوت کو فرائیڈ super ego کا نام دیتا ہے ‘ یعنی ego انسانی انا کا اعلیٰ درجہ۔ فرائیڈ کے دیے ہوئے یہ عنوانات تو کسی حد تک ہمارے لیے قابل قبول ہیں ‘ لیکن ان عنوانات کی تشریح جو اس نے کی ہے اسے ہم درست نہیں سمجھتے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو اس حوالے سے کئی مرتبہ پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ مغربی سائنسدان اور فلاسفرز سب کے سب ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ وہ صرف ”عالم خلق“ یعنی اسباب و علل کی دنیا سے واقف ہیں اور اس میں کوئی کلام نہیں کہ مادی دنیا کے اسرار و رموز کو وہ خوب سمجھتے ہیں۔ اس میدان میں انہوں نے تحقیق و تفتیش کے ایسے معیار قائم کیے ہیں کہ انسانی عقل واقعی دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ”عالم امر“ کے بارے میں وہ بالکل اندھے اور کورے ہیں۔ یعنی ان کے ہاں روح ‘ وحی اور فرشتے وغیرہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”انسان“ کے بارے میں ان کے فلسفیانہ تجزیے اکثر درست نہیں ہوتے۔ بہرحال آیت زیر مطالعہ میں انسان کے اندر موجود قوت شر نفس امارہ کا ذکر ہے کہ انسان کا نفس اسے جو پٹیاں پڑھاتا ہے اس کی تفصیلات اس کے خالق سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ { وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ } ”اور ہم تو اس سے اس کی رَگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔“ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے اس قرب کی کیفیت اور نوعیت کے بارے میں ہم کچھ نہیں جان سکتے ‘ بقول شاعر یہ قرب ”بےتکیف و بےقیاس“ ہے : ؎اتصالے بےتکیف بےقیاس ہست ربّ الناس را با جانِ ناس سورة الحدید کی آیت 4 میں بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس قرب کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے : { وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ } کہ تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ہم اس ”معیت“ کا تصور نہیں کرسکتے۔ اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اور چہرے کا ذکر بھی ہے ‘ اس کا چہرہ کیسا ہے ؟ ہم نہیں جانتے۔ اس کا ہاتھ کیسا ہے ؟ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ وہ کیسے نزول فرماتا ہے ؟ ہم اس کی کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے۔ ایسے معاملات میں خواہ مخواہ کا تجسس ہمیں فتنوں میں مبتلا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں آخری بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ”عالم امر“ اور اس کی کیفیات ہماری سمجھ سے وراء الوراء ہیں۔ ہم اپنے حواس خمسہ اور عقل و شعور کے ذریعے جو علم حاصل کرسکتے ہیں اس کا تعلق ”عالم خلق“ سے ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسی ”دائرے“ میں رہتے ہوئے ‘ سوچیں سمجھیں ‘ تحقیق کریں ‘ نتائج اخذ کریں اور ان نتائج کو بروئے کار لائیں۔ دوسری طرف ”عالم امر“ سے متعلق جو معلومات وحی کے ذریعے ہم تک پہنچیں انہیں من وعن تسلیم کرلیں۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت 36 کے الفاظ { اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ } میں اسی طرزعمل کی طرف ہماری راہنمائی کی گئی ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہمارے لیے بس یہ جان لینا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری رگِ جان سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے۔ اس قرب کی منطق اور کیفیت کے بارے میں ہمیں عقل کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں ہے۔
إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ
📘 آیت 17{ اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۔ } ”جبکہ لیتے جاتے ہیں دو لینے والے جو دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہوتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ خود بھی ہر جگہ ‘ ہر آن موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ہر انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے بھی مقرر کر رکھے ہیں جو اس کے ہر فعل اور عمل کو ریکارڈ کر رہے ہیں۔ سورة الانفطار ‘ آیت 11 میں ان فرشتوں کو ’ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ
📘 آیت 18 { مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۔ } ”وہ کوئی لفظ بھی نہیں بولتا ہے مگر اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود ہوتا ہے۔“ یعنی کوئی انسان جو لفظ بھی اپنی زبان سے بولتا ہے متعلقہ فرشتہ اس کو فوراً ریکارڈ کرلیتا ہے اور ظاہر ہے فرشتوں کی یہ ریکارڈنگ بھی عالم امر کی چیز ہے ‘ اس لیے اس کی کیفیت بھی ہمارے تصور میں نہیں آسکتی۔ ریکارڈنگ کے شعبے میں گزشتہ چند دہائیوں میں انسانی سطح پر جو ترقی دیکھنے میں آئی ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب انسان کی ”ریکارڈنگ“ کا معیار یہ ہے اور اس معیار میں مزید ترقی بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی تو اللہ کی قدرت سے جو ریکارڈنگ ہو رہی ہے اس کا معیار کیا ہوگا !
وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ
📘 آیت 19{ وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّط } ”اور بالآخر موت کی بےہوشی کا وقت آن پہنچا ہے حق کے ساتھ۔“ موت کا آنا تو قطعی اور برحق ہے ‘ اس سے کسی کو انکار نہیں۔ اللہ کے منکر تو بہت ہیں لیکن موت کا منکر کوئی نہیں۔ { ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ۔ } ”یہی ہے نا وہ چیز جس سے تو بھاگا کرتا تھا !“ اس بات کا انسان کی نفسیات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ ہر انسان کی نفسیاتی کمزوری ہے کہ موت کو برحق جانتے ہوئے بھی وہ اس کے تصور کو حتی الوسع اپنے ذہن سے دور رکھنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ وقتی طور پر اگر کسی عزیز کی موت اور تجہیز و تکفین کے موقع پر اپنی موت اور قبر کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آتا بھی ہے تو انسان فوری طور پر اس خیال کو ذہن سے جھٹک کر روز مرہ کے معمولات میں خود کو مصروف کرلیتا ہے۔
بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ
📘 آیت 2 { بَلْ عَجِبُوْٓا اَنْ جَآئَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ } ”بلکہ انہیں بہت عجیب محسوس ہوا ہے کہ ان کے پاس آیا ہے ایک خبردار کرنے والا ان ہی میں سے“ مُنْذِر کے معنی ہیں انذار کرنے والا ‘ خبردار warn کرنے والا۔ { فَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ہٰذَا شَیْئٌ عَجِیْبٌ۔ } ”تو کافروں نے کہا یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے۔“
وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِ
📘 آیت 20 { وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِط ذٰلِکَ یَوْمُ الْوَعِیْدِ۔ } ”اور صور میں پھونکا جائے گا ‘ یہ ہے وعدے کا دن !“ پہلے انفرادی موت کی بات کی گئی تھی۔ اب اس آیت میں پوری دنیا کی اجتماعی موت کا ذکر ہے۔ جب کسی شخص کو موت آتی ہے تو اس کے لیے تو گویا وہی قیامت ہے۔ اس لیے انسان کی انفرادی موت کو قیامت ِصغریٰ اور تمام انسانوں کی اجتماعی موت کو قیامت کبریٰ کہا جاتا ہے۔ چناچہ گزشتہ آیت میں قیامت صغریٰ کا بیان تھا ‘ اب یہاں قیامت کبریٰ کا نقشہ دکھایا جا رہا ہے۔
وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ
📘 آیت 21 { وَجَآئَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَّعَہَا سَآئِقٌ وَّشَہِیْدٌ۔ } ”اور ہر جان آئے گی اس حالت میں کہ اس کے ساتھ ہوگا ایک دھکیلنے والا اور ایک گواہ۔“ دنیا میں ہر انسان کے ساتھ جو دو فرشتے کِرَامًا کَاتِبِیْنَ مامور ہیں وہی قیامت کے دن اسے لا کر اللہ کی عدالت میں پیش کریں گے۔ ان میں سے ایک فرشتہ اس کا اعمال نامہ اٹھائے ہوئے ہوگا جب کہ دوسرا اسے عدالت کی طرف دھکیل رہا ہوگا۔
لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ
📘 آیت 22 { لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا } ”اللہ فرمائے گا : اے انسان ! تو اس دن سے غفلت میں رہاتھانا !“ { فَـکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ۔ } ”تو آج ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا ہے ‘ تو آج تمہاری نگاہ کتنی تیز ہوگئی ہے۔“ دنیا میں رہتے ہوئے بہت سے حقائق تمہارے لیے پردہ غیب میں تھے۔ وہاں تجھ سے مطالبہ تھا کہ ان حقائق پر بغیر دیکھے ایمان لائو۔ آج غیب کا پردہ اٹھا دیا گیا ہے اور اب تمہاری نظر ہرچیز کو دیکھ سکتی ہے ‘ حتیٰ کہ آج تم اپنے ساتھ آنے والے فرشتوں کو بھی دیکھ رہے ہو۔
وَقَالَ قَرِينُهُ هَٰذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ
📘 آیت 23{ وَقَالَ قَرِیْنُہٗ ہٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیْدٌ۔ } ”اور اس کا ساتھی کہے گا : پروردگار ! یہ جو میری تحویل میں تھا ‘ حاضر ہے !“ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں ”ساتھی“ سے فرشتہ مراد ہے ‘ لیکن میں ان لوگوں سے متفق ہوں جو اس سے شیطان مراد لیتے ہیں۔ دراصل خیر اور شر کی قوتیں انسان کے اندر بھی موجود ہیں اور خارج میں بھی۔ اندر سے انسان کا نفس اسے برائی پر ابھارتا ہے ‘ جبکہ خارج میں ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان بھی مامور ہے جو اس کے نفس میں ہر وقت وسوسہ اندازی کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان کے اندر اس کی روح ”داعی ٔ خیر“ کے طور پر موجود ہے جبکہ خارج میں اس حوالے سے فرشتے اس کی مدد کرتے ہیں۔ سورة حٰمٓ السجدۃ کی آیات 30 اور 31 میں ان فرشتوں کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں جو نیکی کے کاموں میں انسان کی پشت پناہی کرتے ہیں : { نَحْنُ اَوْلِیٰٓــؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج }۔ فرشتوں کی معیت کے باعث ہی کوئی نیک کام کر کے ہمیں خوشی اور طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ ایسے مواقع پر فرشتے دراصل ہمیں بشارت اور شاباش دے رہے ہوتے ہیں جس کے اثرات ہماری روح پر طمانیت کی صورت میں مرتب ہوتے ہیں۔
أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ
📘 آیت 24{ اَلْقِیَا فِیْ جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیْدٍ۔ } ”اللہ تعالیٰ فرمائے گا جھونک دو جہنم میں ہر ناشکرے سرکش کو۔“ یہ حکم گویا اس انسان اور اس کے ساتھی شیطان دونوں کے لیے ہوگا۔
مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُرِيبٍ
📘 آیت 25{ مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبِ۔ } ”جو خیر سے روکنے والا ‘ حد سے بڑھنے والا اور شکوک و شبہات میں مبتلا رہنے والا ہے۔“
الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَأَلْقِيَاهُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِ
📘 آیت 26 { نِ الَّذِیْ جَعَلَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ } ”جس نے اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ بھی بنا لیا تھا۔“ { فَاَلْقِیٰــہُ فِی الْْعَذَابِ الشَّدِیْدِ۔ } ”تو جھونک دو اس کو بڑے سخت عذاب میں۔“ اس انسان کا شیطان یہ سمجھ رہا ہوگا کہ اس کی اپنی حیثیت ”سرکاری کارندے“ کی ہے جو مجرم کو سزا کے لیے لے کر آیا ہے ‘ لیکن دونوں کو جہنم رسید کرنے کا حکم سن کر وہ فوراً اپنی صفائی میں چلانا شروع کر دے گا۔
۞ قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَٰكِنْ كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ
📘 آیت 27{ قَالَ قَرِیْنُہٗ رَبَّـنَا مَآ اَطْغَیْتُہٗ وَلٰــکِنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍم بَعِیْدٍ۔ } ”اس کا ساتھی شیطان کہے گا : پروردگار ! میں نے اس کو سرکش نہیں بنایا ‘ بلکہ یہ خود ہی بہت دور کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا۔“ گویا وہ چاہے گا کہ جو انسان اس کی تحویل میں دیا گیا تھا اسے سزا کے لیے وصول کرلیا جائے اور خود اس کی جان بخشی کردی جائے۔
قَالَ لَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ
📘 آیت 28{ قَالَ لَا تَخْتَصِمُوْا لَدَیَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ اِلَـیْکُمْ بِالْوَعِیْدِ۔ } ”اللہ فرمائے گا : اب میرے سامنے جھگڑ 1 مت کرو ‘ جبکہ میں پہلے ہی تمہاری طرف وعید بھیج چکا ہوں۔“ کہ میں نے تو جن و انس پر ’ ’ انذار“ کے حوالے سے اتمامِ حجت کردیا تھا۔ سورة الاحقاف میں ان جنات کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں جو حضور ﷺ سے قرآن سن کر ایمان لائے اور پھر داعیانِ حق بن کر اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ گویا قرآن کا پیغام اور انذار جنات تک بھی پہنچا دیا گیا ہے۔
مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ
📘 آیت 29{ مَا یُـبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۔ } ”میرے حضور میں بات تبدیل نہیں کی جاسکتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں۔“ چناچہ اب میرے قانون کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۖ ذَٰلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ
📘 آیت 3 { ئَ اِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا } ”کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی ہوجائیں گے تو ہم پھر سے زندہ کیے جائیں گے ؟ “ { ذٰلِکَ رَجْعٌم بَعِیْدٌ۔ } ”یہ لوٹایا جانا تو بہت دور کی بات ہے۔“ مر کر مٹی ہوجانے کے بعد ہمارا دوبارہ زندہ ہونا بالکل انہونی سی بات ہے ‘ یہ بعید از قیاس دعویٰ کر کے یہ صاحب بہت دور کی کوڑی لائے ہیں۔
يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ
📘 آیت 30{ یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَئْتِ } ”جس دن ہم پوچھیں گے جہنم سے کہ کیا تو بھر گئی ؟“ { وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ۔ } ”اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟“ یعنی وہ کہے گی کہ ابھی تو میرے اندر بہت گنجائش ہے۔ ابھی مزید جنوں اور انسانوں کو میرے اندر ڈالا جائے تاکہ میں بھر جائوں۔
وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ
📘 آیت 31 { وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّـۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ۔ } ”اور جنت قریب لائی جائے گی اہل تقویٰ کے لیے ‘ کچھ بھی دور نہیں ہوگی۔“
هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ
📘 آیت 32 { ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ } ”ان سے کہا جائے گا یہ ہے جس کا وعدہ تم لوگوں سے کیا جاتا تھا“ { لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ۔ } ”ہر اس شخص کے لیے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا اور حفاظت کرنے والا ہو۔“ یعنی اس امانت کی حفاظت کرنے والا جو ہم نے اس کے سپرد کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں جو روح پھونکی ہے وہ اس کے پاس اللہ کی امانت ہے ‘ جیسا کہ سورة الاحزاب کی اس آیت سے واضح ہوتا ہے : { اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُط } آیت 72 ”ہم نے اس امانت کو پیش کیا آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر تو ان سب نے انکار کردیا اس کو اٹھانے سے اور وہ اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا“۔ چناچہ ”حَفِیْظ“ سے ایسا شخص مراد ہے جس نے اس امانت کا حق ادا کیا اور اپنی روح کو گناہ کی آلودگی سے محفوظ رکھا۔ سورة الشعراء میں ایسی محفوظ اور پاکیزہ روح کو ”قلب سلیم“ کا نام دیا گیا ہے : { یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ۔ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ } ”جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ بیٹے۔ سوائے اس کے جو آئے اللہ کے پاس قلب ِسلیم لے کر“۔ اس مضمون کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورة الاحزاب کی آیت 72 کی تشریح۔
مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ
📘 آیت 33 { مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ } ”جو ڈرتا رہا رحمن سے غیب میں ہونے کے باوجود۔“ { وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِ۔ } ”اور لے کر آیا رجوع کرنے والا دل۔“ قلب منیب سے بھی یہاں قلب سلیم ہی مراد ہے۔ یہ ایسے شخص کا ذکر ہے جو دنیا میں اللہ کا فرمانبردار بندہ بن کر رہا۔ اللہ کی امانت کو اس نے پوری حفاظت اور سلامتی کے ساتھ رکھا اور صحیح و سلامت حالت میں لوٹایا۔
ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ
📘 آیت 34{ نِ ادْخُلُوْہَا بِسَلٰمٍ ط ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ۔ } ”ان سے کہا جائے گا : داخل ہو جائو اس جنت میں سلامتی کے ساتھ ‘ اب یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔“ اب ایسا کوئی مرحلہ نہیں آئے گا کہ تمہیں جنت سے نکلنا پڑے۔
لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ
📘 آیت 35{ لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ فِیْہَا وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ۔ } ”ان کے لیے اس میں وہ سب کچھ ہوگاجو وہ چاہیں گے ‘ اور ہمارے پاس مزید بھی بہت کچھ ہے۔“ قرآن کے مختلف مقامات پر جنت کی نعمتوں کا جو تعارف ملتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی نعمتوں کے تین درجے ہیں۔ نفس انسانی کے بنیادی تقاضوں کی تسکین کا بھرپور سامان تو جنت میں پہلے سے موجود ہوگا۔ اس کے علاوہ ہر شخص اپنی پسند ‘ ذوق اور خواہش کے مطابق جو کچھ طلب کرے گا وہ بھی اسے فراہم کیا جائے گا۔ ظاہر ہے ہر شخص کی طلب اپنے ذوق اور معیار کے مطابق ہوگی۔ ایک سادہ لوح دیہاتی اپنی پسند کے مطابق کوئی چیز مانگے گا اور ایک حکیم و فلسفی اپنے ذوق کی تسکین چاہے گا۔ البتہ اس حوالے سے کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو کچھ بھی طلب نہیں کریں گے ‘ وہ لوگ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ الکہف : 28 کے مصداق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی رضا کے طالب ہوں گے۔ جیسے رابعہ بصری رح کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک مرتبہ جذب کے عالم میں ایک مشعل اور پانی کا لوٹا لیے گھر سے نکلیں۔ لوگوں کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ میں اس آگ سے جنت کو جلانے نکلی ہوں اور اس پانی سے میں جہنم کی آگ کو بجھا دینا چاہتی ہوں تاکہ لوگ اللہ سے خالص اس کی ذات کے لیے محبت کریں نہ کہ جنت کے لالچ اور جہنم کے خوف کی وجہ سے اسے چاہیں۔ بہرحال جنت میں وہ لوگ بھی ہوں گے جنہیں اللہ کی رضا کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے ہوگا۔ جبکہ ان دو اقسام کے علاوہ تیسری قسم کی نعمتیں وہ ہوں گی جو انسانی تصور سے بالاتر ہیں اور آیت زیر مطالعہ کے الفاظ ”وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ“ میں انہی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے۔ سورة السجدۃ میں جنت کی ان نعمتوں کا ذکر اس طرح ہوا ہے : { فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّــآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍج } آیت 17 ”پس کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ ان اہل جنت کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے“۔ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی ہے : قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالاَ عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ، فَاقْرَئُ وْا اِنْ شِئْتُمْ : فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ 1”اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے جنت میں وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ‘ نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا گمان ہی گزرا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ”پس کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ ان اہل جنت کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپا کررکھا گیا ہے۔“
وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ
📘 آیت 36 { وَکَمْ اَہْلَکْنَا قَـبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ ہُمْ اَشَدُّ مِنْہُمْ بَطْشًا فَنَقَّــبُوْا فِی الْبِلَادِ ط ہَلْ مِنْ مَّحِیْصٍ۔ } ”اور کتنی ہی قوموں کو ہم نے ان سے پہلے ہلاک کیا ہے جو قوت میں ان سے بڑھ کر تھیں ‘ سو انہوں نے ملکوں کے ملک فتح کیے ! پھر کیا وہ کوئی جائے فرار پا سکے ؟“ نَقَبَ کا معنی ہے نقب لگانا ‘ یعنی دیوار میں سوراخ کرنا ‘ جبکہ نَقَّبَ فِی الْاَرْضِ باب تفعیل کا مفہوم ہے : بھاگ دوڑ کرتے ہوئے کسی ملک میں جا گھسنا ‘ یعنی کسی علاقے کو فتح کرلینا۔ وہ لوگ اتنے زور آور تھے کہ اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں گھستے چلے گئے اور ملکوں پر ملک فتح کرتے چلے گئے ‘ لیکن جب اللہ کی پکڑ آئی تو انہیں بھاگنے کو جگہ نہ ملی۔
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ
📘 آیت 37{ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَـہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْــقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ۔ } ”یقینا اس میں یاد دہانی ہے اس کے لیے جس کا دل ہو یا جو توجہ سے سنے حاضر ہو کر۔“ اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ قرآن مجید کا بہت اہم مقام ہے۔ یاد دہانی کے حوالے سے اس آیت میں دو طرح کے لوگوں کا ذکر ہوا ہے۔ یہ یاد دہانی یا تو ان لوگوں کے لیے مفید ہے جو ”دل“ رکھتے ہیں ‘ یا پھر وہ جو پوری توجہ سے اس کو سنیں۔ گویا یہاں قرآن کی ہدایت تک پہنچنے کے دو الگ الگ طریقوں اور راستوں approaches کا ذکر ہے۔ ایک ان لوگوں کا راستہ ہے جو دل رکھتے ہیں۔ یہ دراصل وہ لوگ ہیں جن کی روح زندہ ہے۔ روح کا مسکن چونکہ قلب انسانی ہے اس لیے جس انسان کی روح زندہ ہوگی اس کا دل بھی زندہ ہوگا۔ ایسے دل کو دلِ بیدار ‘ دلِ زندہ یا قلب ِسلیم کہا جاتا ہے۔ میر درد ؔنے اپنے اس شعر میں دل کی اسی ”زندگی“ کا ذکر کیا ہے : ؎مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے !1چنانچہ ایک زندہ دل شخص جب قرآن سنے گا تو اس شخص کی روح یوں لپک کر قرآنی پیغام تک پہنچ جائے گی جیسے پٹرول دور سے آگ پکڑ لیتا ہے۔ اس کیفیت کو سورة النور کی آیت 35 میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : { یَکَادُ زَیْتُھَا یُضِٹٓیْئُ وَلَـوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَـارٌط } النور : 35 ”قریب ہے کہ اس کا روغن خود بخود روشن ہوجائے ‘ چاہے اسے آگ نے ابھی چھوا بھی نہ ہو“۔ گویا ایک پاکیزہ روح نور وحی تک پہنچنے کے لیے بےقرار ہوتی ہے۔ بقولِ اقبال : ؎مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز تو ذرا چھیڑ تو دے تشنہ مضراب ہے ساز نغمے بےتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے ! حافظ ابن قیم رح نے اس بارے میں بڑی خوبصورت بات لکھی کہ بہت سے لوگ قرآن کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس کرتے ہیں جیسے قرآن ان کے دل پر نقش ہے اور وہ اس کی عبارت کو مصحف سے نہیں بلکہ اپنی لوح قلب سے پڑھ رہے ہیں۔ یعنی سلیم الفطرت لوگوں کی ارواح کو قرآن حکیم کے ساتھ خصوصی ہم آہنگی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو ان کی روحوں میں ایک مانوس قسم کا ارتعاش sympathetic vibration پیدا ہوتا ہے۔ گویا ان کی ارواح قرآنی الفاظ و آیات کے ساتھ پہلے سے ہی مانوس ہیں۔ بقول غالبؔ ؎دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے !ایسے لوگوں کو قرآن کی ہدایت تک پہنچنے کے لیے کسی مہلت یا تگ و دو کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق رض نے قبول حق میں ایک لمحے کا توقف بھی نہیں کیا تھا۔ اس کے برعکس وہ لوگ جن کی ارواح پر غفلت اور مادیت کے پردے پڑچکے ہوں ‘ ان کے لیے اس آیت میں دوسرا طریقہ بتایا گیا ہے : { اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیْدٌ}۔ یعنی ان لوگوں کو خصوصی توجہ کے ساتھ محنت کرنا ہوگی ‘ تب کہیں جا کر ”گوہر مقصود“ تک ان کی رسائی ہوگی۔ مطالعہ قرآن کے ہمارے منتخب نصاب میں ایمان کی بحث کے تحت دو دروس درس 6 اور 7 ایسے ہیں جو انہی دو طریقوں کی الگ الگ نمائندگی کرتے ہیں۔ ان میں پہلا درس سورة آل عمران کی آیات 190 تا 195 پر مشتمل ہے۔ ان آیات میں آیات آفاقی کے مشاہدے کی بنیاد پر تفکر و تدبر کی دعوت دی گئی ہے :{ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّــیْلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ ِلّاُولِی الْاَلْبَابِ رض الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج رَبَّـنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًاج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ }”یقینا آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے الٹ پھیر میں ہوش مند لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں ‘ کھڑے بھی ‘ بیٹھے بھی اور اپنے پہلوئوں پر بھی اور مزید غور و فکر کرتے رہتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں۔ اے ہمارے ربّ ! تو نے یہ سب کچھ بےمقصد تو پیدا نہیں کیا ہے۔ تو پاک ہے اس سے کہ کوئی عبث کام کرے ‘ پس تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا !“ لیکن یہ تفکر و تدبر تب نتیجہ خیز ہوگا جب اس کے ساتھ اللہ کے ذکر کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ گویا ایمان و ہدایت کی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ذکر اور فکر دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہوگا ‘ جیسا کہ اقبال ؔنے کہا ہے ؎فقر ِقرآں اختلاطِ ذکر و فکر فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر جز بہ قرآں ضیغمی روباہی است فقر ِقرآں اصل شاہنشاہی است یعنی فقر قرآن تو ذکر اور فکر کے امتزاج کا نام ہے جبکہ میں ذکر کے بغیر فکر کو ناقص اور نامکمل دیکھتا ہوں۔ اگر کوئی شیر بھی ہو تو قرآن کے بغیر وہ لومڑی کی طرح ہوگا ‘ اصل شہنشاہ تو وہ ہے جسے فقر قرآنی مل گیا۔ اس ضمن میں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ذکر اور فکر کے الگ الگ حلقے بن چکے ہیں۔ ان میں سے ہر حلقے کے لوگ اپنے طور طریقوں میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں دوسروں سے کچھ سروکار نہیں۔ ایک طرف مفکرین ہیں جو فلسفہ وفکر پر بڑی بڑی کتابیں رقم کر رہے ہیں ‘ کیسی کیسی تفسیریں لکھتے جاتے ہیں ‘ مگر وہ ذکر کی لذت سے بالکل ناآشنا ہیں۔ دوسری طرف ذاکرین ہیں جو ذکر کی روح پرور محفلیں سجاتے ہیں لیکن انہیں فکر و تدبر سے کوئی واسطہ نہیں۔ ظاہر ہے گاڑی کے ان دونوں پہیوں میں ہم آہنگی ہوگی تو امت کا قافلہ منزل کی طرف گامزن ہوگا۔ بہرحال سورة آل عمران کی مذکورہ آیات میں ذکر و فکر کے ذریعے ہدایت کی ”منزل مقصود“ تک پہنچنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ‘ جبکہ دوسرے طریقے کی نشاندہی سورة النور کے پانچویں رکوع منتخب نصاب کے درس 7 میں کی گئی ہے کہ اپنے قلب کو صاف کر لیجیے ‘ اس کی تمام کدورتیں دور کردیجیے تو اس کے آئینے میں قرآن خود بخود منعکس ہو کر اسے منور نُورٌ عَلٰی نُور کر دے گا اور یوں نور فطرت اور نور وحی کے امتزاج سے نور ایمان کی تکمیل ہوجائے گی۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ
📘 آیت 38{ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ق } ”اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے مابین ہے پیدا کیا چھ دنوں میں۔“ { وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُّــغُوْبٍ۔ } ”اور ہم پر کوئی تکان طاری نہیں ہوئی۔“ یہ مضمون موجودہ تورات میں کچھ اس طرح بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کر کے تھکن دور کی۔ اسی وجہ سے یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں ”ویک اینڈ“ کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن کام کرنے کے بعد ساتویں دن آرام کیا تھا ‘ لہٰذا تم لوگ بھی چھ دن کام کر کے ساتویں دن آرام کرو۔ اس آیت میں دراصل تورات کے اس تصور کی نفی کی گئی ہے۔ چناچہ اسلام میں ”ویک اینڈ“ کا کوئی تصور نہیں۔ اس حوالے سے یہ تاریخی حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ اصل تورات بخت نصر کے حملے میں گم ہوگئی تھی اور دوبارہ اس کو یادداشت کی مدد سے مرتب کیا گیا تھا۔ مرتبین چونکہ عام انسان تھے ‘ نبی نہیں تھے ‘ اس لیے ان کی یادداشتوں نے ٹھوکریں کھائیں اور بہت سی غلط باتیں بھی اس میں شامل کردی گئیں۔
فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ
📘 آیت 39{ فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَـقُوْلُوْنَ } ”تو اے نبی ﷺ آپ صبر کیجیے اس پر جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں“ { وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَـبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَـبْلَ الْغُرُوْبِ۔ } ”اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے سورج کے طلوع ہونے سے قبل اور غروب ہونے سے قبل۔“ جیسا کہ قبل ازیں ذکر ہوچکا ہے ‘ زیر مطالعہ سورتیں مکی دور کے ابتدائی چار سال کے دوران نازل ہوئی تھیں۔ اس وقت تک پنج گانہ نماز کا باقاعدہ نظام وضع نہیں ہوا تھا۔ پنج گانہ نماز تو معراج کے موقع پر 10 نبوی ﷺ میں فرض ہوئی تھی۔ اس سے پہلے تو بس صبح وشام اللہ کا ذکر کرنے کی بار بار تلقین و تاکید کی جاتی تھی ‘ جیسا کہ سورة طٰہ کی آیت 130 میں بھی بالکل یہی الفاظ آئے ہیں یا اس سے بھی پہلے سورة المزمل میں رات کی نماز اور اس میں تلاوتِ قرآن کا حکم آچکا تھا۔ بعد میں جب باقاعدہ اوقات کے ساتھ پانچ نمازوں کا نظام وضع ہوا تو ان دو اوقات میں دو نمازیں فرض ہوگئیں ‘ یعنی قَـبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ کے اوقات میں فجر کی نماز اور قَـبْلَ الْغُرُوْبِ کے وقت میں نماز عصر۔
قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ
📘 آیت 4 { قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْہُمْ ج } ”ہم خوب جانتے ہیں کہ زمین ان میں سے کیا چیز کم کرتی ہے۔“ ”ہم“ کے صیغے کے ساتھ یہ شاہانہ اندازِ بیان ہے۔ انسانوں کے دفن ہونے کے بعد زمین ان کے جسموں کے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہے ‘ ہر انسان کا کون سا عضو کیسے ضائع ہوتا ہے اور پھر ان کے اجزاء کس کس صورت میں کہاں کہاں جاتے ہیں ‘ ہمیں ایک ایک چیز کا علم ہے۔ { وَعِنْدَنَا کِتٰبٌ حَفِیْظٌ۔ } ”اور ہمارے پاس تو ایک محفوظ رکھنے والی کتاب بھی موجود ہے۔“ ہمارے پاس ایک ایک چیز کا ریکارڈ موجود ہے۔ ان کے جسموں کو ہم نے مٹی سے پیدا کیا تھا اور ان کی موت کے بعد ان کے تمام اجزاء کو ہم مٹی میں ہی محفوظ رکھتے ہیں۔ قیامت کے دن اسی مٹی سے ہم انہیں نکال لیں گے : { مِنْھَا خَلَقْنٰـکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی۔ } طٰہٰ ۔ اس کے علاوہ ان کے ایک ایک عمل کی پوری تفصیل بھی ہم نے لکھ رکھی ہے اور ان کی ارواح بھی ہمارے پاس عِلِّیّین یا سِجِّین میں موجود ہیں۔ غرض ان کی کوئی چیز بھی ہمارے علم یا قبضے سے باہر نہیں ہے۔
وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ
📘 آیت 40{ وَمِنَ الَّـیْلِ فَسَبِّحْہُ } ”اور رات کے حصوں میں بھی اس کی تسبیح بیان کرو۔“ { وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ۔ } ”اور سجدوں نمازوں کے بعد بھی۔“ یہ گویا نماز سے فارغ ہونے کے بعد کی تسبیح وتحمید کا حکم ہے۔ نمازوں کے بعد کے اذکار کی تفصیلات احادیث میں ملتی ہیں ‘ جیسے تسبیح فاطمہ رض 33 مرتبہ سبحان اللہ ‘ 33 مرتبہ الحمد للہ اور 33 یا 34 بار اللہ اکبر پڑھنا کی مداومت سے متعلق احادیث میں ترغیب آئی ہے۔
وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ
📘 آیت 41{ وَاسْتَمِعْ یَوْمَ یُـنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَّـکَانٍ قَرِیْبٍ۔ } ”اور کان لگائے رکھو جس دن پکارنے والا پکارے گا بہت قریب کی جگہ سے۔“ یعنی اس دن کے منتظررہو جب صور میں پھونکا جائے گا اور ہر شخص کو اس کی آواز بہت قریب سے آتی ہوئی محسوس ہوگی۔ صور کی آواز ایسی زوردار اور خوفناک ہوگی کہ اس سے ہر جان دار کی موت واقع ہوجائے گی۔ اس کے بعد سب انسانوں کو زندہ کر کے محشر میں جمع کرنے کے لیے پھر صور پھونکا جائے گا۔ یہاں اسی دوسرے صور کا ذکر ہے۔
يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ
📘 آیت 42{ یَّوْمَ یَسْمَعُوْنَ الصَّیْحَۃَ بِالْحَقِّ ط } ”جس دن کہ وہ سنیں گے ایک چنگھاڑ حق کے ساتھ۔“ { ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُرُوْجِ۔ } ”وہ ہوگا نکلنے کا دن۔“ یعنی وہ زمین سے ُ مردوں کے نکلنے کا دن ہوگا۔
إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ
📘 آیت 43{ اِنَّا نَحْنُ نُحْیٖ وَنُمِیْتُ } ”یقینا ہم ہی زندہ رکھتے ہیں اور ہم ہی موت وارد کرتے ہیں۔“ { وَاِلَـیْنَا الْمَصِیْرُ۔ } ”اور ہماری ہی طرف سب کو پلٹ کر آنا ہے۔“ واضح رہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ اپنی شان جلالت کا زیادہ اظہار کرنا چاہتا ہے وہاں اپنے لیے جمع کا صیغہ پسند فرماتا ہے۔
يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۚ ذَٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ
📘 آیت 44{ یَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْہُمْ سِرَاعًاط } ”جس دن زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور وہ تیزی سے نکل پڑیں گے۔“ { ذٰلِکَ حَشْرٌ عَلَیْنَا یَسِیْرٌ۔ } ”یہ سب کا جمع کردینا ہمارے لیے بہت آسان ہے۔“
نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ۖ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ
📘 آیت 45{ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَـقُوْلُوْنَ } ”اے نبی ﷺ ! ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں“ { وَمَآ اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِجَبَّارٍقف } ”اور آپ ان پر کوئی زبردستی کرنے والے نہیں ہیں۔“ آپ کا کام ان سے جبراً بات منوانا نہیں ہے۔ ہم نے آپ ﷺ کو اس اختیار کے ساتھ نہیں بھیجا کہ آپ ﷺ انہیں زبردستی حق کی طرف لے آئیں۔ { فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ۔ } ”پس آپ تذکیر کرتے رہیے اس قرآن کے ذریعے سے ہر اس شخص کو جو میری وعید سے ڈرتا ہے۔“ جس شخص کی روح مردہ نہ ہوچکی ہوگی اور اس میں تھوڑی سی بھی جان ہوگی اور جس کے اندر اخلاقی حس دم نہ توڑ چکی ہوگی اور بھلائی کی معمولی سی رمق بھی باقی ہوگی وہ آپ ﷺ کی باتیں سن کر قرآن کی تذکیر اور یاد دہانی سے ضرور فائدہ اٹھائے گا۔ یہاں پر { فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ } کے الفاظ میں حضور ﷺ کو خصوصی طور پر ہدایت دی جا رہی ہے کہ آپ ﷺ تبلیغ و تذکیر ‘ انذار وتبشیر اور لوگوں کے تزکیہ نفس کا ذریعہ قرآن ہی کو بنائیں۔ اس حکم کے مقابلے میں آج امت ِمسلمہ کی مجموعی حالت یہ ہے کہ مسلمانوں نے خود کو قرآن سے بالکل ہی بےنیاز کرلیا ہے اور دعوت و تبلیغ ‘ وعظ و نصیحت اور تربیت و تزکیہ کے دیگر ذرائع اختیار کرلیے ہیں۔
بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ
📘 آیت 5 { بَلْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہُمْ } ”بلکہ انہوں نے جھٹلا دیا حق کو جب کہ وہ ان کے پاس آیا“ { فَہُمْ فِیْٓ اَمْرٍ مَّرِیْجٍ۔ } ”سو اب وہ ایک بڑی الجھن میں مبتلاہو گئے ہیں۔“ ایک طرف تو جواب دہی اور احتساب کی باتیں ماننے کے لیے ان کی طبیعتیں آمادہ نہیں اور دوسری طرف اس بارے میں قرآن کی زبان میں حضور ﷺ کے دلائل ایسے قوی ہیں کہ انہیں جھٹلانا ان کے لیے ممکن نہیں۔ بس یہی الجھن ہے جس میں یہ لوگ پھنس چکے ہیں۔ اس کائنات کی ایک ایک چیز اس حقیقت پر گواہ ہے اور اس کا مربوط و مستحکم نظام بھی زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کا خالق ایک علیم و حکیم ہستی ہے۔ پھر انسان کے اندر پائی جانے والی ”اخلاقی حس“ بھی اس کے اچھے برے اعمال کے ٹھوس اور حتمی نتائج کا تقاضا کرتی ہے جس کے لیے ایک دوسری زندگی کی ضرورت ہے۔ ان تمام حقائق و شواہد کی موجودگی میں ایک صاحب ِعقل اور ذی شعور انسان کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ کائنات بس ”رام کی لیلا“ ہے اور انسان کی اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔ چناچہ منکرین آخرت کے لیے ان حقائق کو تسلیم کیے بغیر چارہ بھی نہیں ‘ لیکن ان کی طبیعتیں ہیں کہ احتساب کے لیے تیار بھی نہیں۔ یہ انسان کی وہی نفسیاتی الجھن ہے جس کا ذکر غالب ؔنے اس شعر میں کیا ہے جو میں نے ابھی آپ کو سنایا ہے : ؎جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی !ان لوگوں کے قلوب و اذہان میں منفی خیالات و نظریات اس قدر راسخ ہوچکے ہیں کہ اب ان سے پیچھا چھڑانا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ دراصل انسان اپنے لڑکپن کی عمر میں جن عقائد و نظریات کا اثر قبول کرتا ہے وہ ساری عمر کے لیے اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انسان کی اس کمزوری کا نقشہ ایک انگریزی نظم The Cage میں بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں دکھایا گیا ہے۔ یہ نظم میں نے اپنے انٹرمیڈیٹ کے زمانے میں پڑھی تھی۔ اس نظم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ان عادات کے ”پنجرے“ کا قیدی ہے جنہیں وہ لڑکپن کی عمر میں ایک ایک کرکے اپناتا ہے۔ گویا اس پنجرے کی سلاخیں اپنے لیے وہ خود تیار کرتا ہے۔ بقول شاعر :" I built these bars when I was young"”اس پنجرے کی سلاخیں میں نے اس وقت تیار کی تھیں جب میں جوان تھا“۔ جوانی میں انسان کے قویٰ مضبوط ہوتے ہیں۔ اس وقت وہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ اس کے ذہن پر نقش کا لحجر بن جاتا ہے اور پھر اپنی باقی عمر وہ ان عادات و نظریات کا قیدی بن کر پنجرے میں قید پرندے کی مانند گزار دیتا ہے۔ چناچہ یہ منکرین آخرت بھی اپنے غلط عقائد و نظریات کے خود ساختہ پنجروں کے قیدی ہیں۔ ان پنجروں کی سلاخیں وہ اس قدر مضبوط کرچکے ہیں کہ اب انہیں توڑ کر باہر نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔
أَفَلَمْ يَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ
📘 آیت 6 { اَفَلَمْ یَنْظُرُوْٓا اِلَی السَّمَآئِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنٰـہَا وَزَیَّنّٰہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوْجٍ۔ } ”تو کیا انہوں نے دیکھا نہیں آسمان کی طرف جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اسے کیسے بنایا ہے اور کیسے اسے مزین کیا ہے اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے۔“ اس آیت کی کماحقہ ّتشریح تو کوئی ماہر فلکیات ہی کرسکتا ہے۔ بہرحال آج کا انسان خوب جانتا ہے کہ ستاروں ‘ سیاروں اور کہکشائوں کا نظام بہت محکم و مربوط ہے اور یہ کہ اس نظام میں کسی رخنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ
📘 آیت 7 { وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰـہَا وَاَلْقَیْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ } ”اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا ہے اور ہم نے اس میں لنگر ڈال دیے ہیں“ ماہرین طبقات الارض Geologists بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زمین کی گردش کے دوران اس کا توازن isostacy برقرار رکھنے میں پہاڑوں کا انتہائی اہم کردار ہے۔ { وَاَنْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍم بَہِیْجٍ۔ } ”اور ہم نے اس میں ہر طرح کی بڑی ہی رونق والی چیزیں جوڑوں کی شکل میں پیدا کردیں۔“
تَبْصِرَةً وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ
📘 آیت 8 { تَـبْصِرَۃً وَّذِکْرٰی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ۔ } ”یہ اللہ کی نشانیاں ہیں سجھانے اور یاد دہانی کرانے کو ہر اس بندے کے لیے جو رجوع رکھے ہوئے ہو۔“ عَبْدِ مُنِیْب سے ایسا بندہ مراد ہے جس کی روح اور فطرت کا رخ اللہ کی طرف ہو۔ مطلب یہ کہ اگر کسی انسان کی فطرت سلیم اور روح زندہ ہو تب ہی یہ ”بصائر“ اس کے لیے مفید ہوں گے۔ ایسی صورت میں اسے کائنات میں بکھری اللہ کی نشانیاں نظر بھی آئیں گی اور ان نشانیوں سے اس کے دل میں خالق حقیقی کی ”یاد“ بھی تازہ ہوتی رہے گی۔ لیکن اگر کسی انسان کی فطرت مسخ اور روح مردہ ہوچکی ہو تو اس کا ”دیکھنا“ اور ”سننا“ اس کے لیے ہرگز مفید نہیں ہوگا۔ سورة الغاشیہ کی ان آیات کا انداز بھی اس حوالے سے بہت بصیرت افروز ہے :{ اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ۔ وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ۔ وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ۔ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ۔ }”کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹوں کو کہ کیسے پیدا کیے گئے ہیں ؟ اور آسمان کو کہ کیسے بلند کیا گیا ہے ؟ اور پہاڑوں کو کہ کیسے گاڑدیے گئے ہیں ؟ اور زمین کو کہ کیسے بچھا دی گئی ہے ؟“یعنی پوری کائنات میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں موجود ہیں ‘ جو انسان کو قدم قدم پر یاد دلاتی ہیں کہ ہرچیز کا خالق اور صورت گر وہی ہے : { ہُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰیط } الحشر : 24 ”وہی ہے اللہ ‘ پیدا کرنے والا ‘ وجود بخشنے والا ‘ صورتیں بنانے والا ‘ تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔“ اقبال نے ”آیاتِ خداوندی“ کے مشاہدے کی دعوت ان الفاظ میں دی ہے : ؎کھول آنکھ ‘ زمین دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ !
وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ
📘 آیت 9 { وَنَزَّلْـنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً مُّبٰـرَکًا } ”اور ہم نے آسمان سے اتارا برکت والا پانی“ لفظ ”برکت“ میں کسی چیز کی خفتہ صلاحیت کو ترقی دینے کا مفہوم پایاجاتا ہے۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی متعدد بار وضاحت ہوچکی ہے کہ بارش کا پانی زمین کی قوت نمو کو جلا بخشتا ہے اور اس کی روئیدگی کو اجاگر کرنے کا باعث بنتا ہے اور اسی پہلو سے یہ مبارک ہے۔ { فَـاَنْبَتْنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ۔ } ”تو ہم نے اگایا اس کے ذریعے سے باغات کو اور ان فصلوں کو جو کٹ جاتی ہیں۔“ الفاظ کی یہ ترتیب منطقی اور بہت خوبصورت ہے۔ جَنّٰت سے درختوں کے باغات مراد ہیں اور درختوں کو کاٹا نہیں جاتا ‘ صرف ان کے پھل اتارے جاتے ہیں۔ دوسری طرف اناج کی فصل جیسے گندم کی فصل پودوں سمیت کاٹ لی جاتی ہے ‘ اس لیے اس کے لیے حَبَّ الْحَصِیْدِ کی ترکیب آئی ہے۔