slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الرحمن

(Ar-Rahman) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الرَّحْمَٰنُ

📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا۔ اس کو نطق کی انوکھی صلاحیت دی جو ساری معلوم کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔ پھر انسان سے جو عادلانہ روش مطلوب تھی اس کا عملی نمونہ اس نے کائنات میں قائم کردیا۔ انسان کے گردو پیش کی پوری دنیا عین اسی اصولِ عدل پر قائم ہے جو انسان سے اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور قرآن میں اسی عدل کو لفظی طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ قرآن خدائی عدل کا لفظی اظہار ہے اور کائنات خدائی عدل کا عملی اظہار۔ بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کو اسی ترازو سے ناپتے رہیں۔ وہ نہ لینے میں بے انصافی کریں اور نہ دینے میں۔

وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

فِيهَا فَاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَكْمَامِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

عَلَّمَ الْقُرْآنَ

📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا۔ اس کو نطق کی انوکھی صلاحیت دی جو ساری معلوم کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔ پھر انسان سے جو عادلانہ روش مطلوب تھی اس کا عملی نمونہ اس نے کائنات میں قائم کردیا۔ انسان کے گردو پیش کی پوری دنیا عین اسی اصولِ عدل پر قائم ہے جو انسان سے اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور قرآن میں اسی عدل کو لفظی طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ قرآن خدائی عدل کا لفظی اظہار ہے اور کائنات خدائی عدل کا عملی اظہار۔ بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کو اسی ترازو سے ناپتے رہیں۔ وہ نہ لینے میں بے انصافی کریں اور نہ دینے میں۔

بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 اس دنیا کا بیشتر حصہ ستاروں پر مشتمل ہے جو سراپا آگ ہیں۔ جنّات اسی آگ کے مادہ سے بنائے گئے ہیں۔ مگر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس کو ’’مٹی’’ سے بنایا گیا ہے جو وسیع کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا استثناء ہے۔ یہاں وہ تمام اسباب حد درجہ توازن اور تناسب کے ساتھ مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان جیسی مخلوق کے لیے رہنا اور تمدن کی تعمیر کرنا ممکن ہوسکے۔ انہیں انتظامات میں سے ایک انتظام زمین میں مشرقین اور مغربین کا ہونا ہے۔ جاڑے کے موسم میں سورج کے طلوع وغروب کے مقامات دوسرے ہوتے ہیں۔ اور گرمی کے موسم میں دوسرے اس لحاظ سے اس کے مشرق و مغرب کئی ہوجاتے ہیں۔ یہ موسمي فرق فضا میں زمین کے محوری جھکاؤ (Axial tilt) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جھکاؤ کائنات کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔ اور اس سے بے شمار تمدنی فائدے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ ناقابل قیاس حد تک وسیع کائنات میں انسان اور زمین کا یہ استثناء خدا کی نعمت و قدرت کا ایسا عظیم معاملہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح اس کا شکر ادا کرنے پر قادر نہیں۔

كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ

📘 دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں ہر چیز فنا پذیر ہے۔ اشیاء کا فنا پذیری کے باوجود موجود ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کا خالق اور منتظم غیر فانی ہے۔ اگر وہ غیر فانی نہ ہوتا تو اشیاء کا وجود ہی نہ ہوتا ۔یا اگر ہوتا تو اب تک ان کا وجود مٹ چکا ہوتا۔ دنیا کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ دنیا کی کسی چیز کے اندر تخلیق کی طاقت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اشیاء اپنی بقا کے لیے جن چیزوں کی محتاج ہیں وہ ان کی اپنی پیدا کردہ نہیں ہیں۔یہ واقعہ دوبارہ خالق کی بے پایاں قدرت کو بتاتا ہے۔ یہ حقیقتیں اتنی واضح ہیں کہ کسی سنجیدہ آدمی کے لیے ان کا انکار ممکن نہیں۔ خدا کی نشانیاں اس دنیا میں اتنی زیادہ ہیں کہ ایک سنجیدہ انسان کے لیے ان کو نظر انداز کرنا کسی طرح ممکن نہیں۔ مگر انسان اتنا ظالم ہے کہ وہ نشانیوں کے ہجوم میں بھی ان نشانیوں کا انکار کرتا ہے۔

وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

📘 دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں ہر چیز فنا پذیر ہے۔ اشیاء کا فنا پذیری کے باوجود موجود ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کا خالق اور منتظم غیر فانی ہے۔ اگر وہ غیر فانی نہ ہوتا تو اشیاء کا وجود ہی نہ ہوتا ۔یا اگر ہوتا تو اب تک ان کا وجود مٹ چکا ہوتا۔ دنیا کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ دنیا کی کسی چیز کے اندر تخلیق کی طاقت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اشیاء اپنی بقا کے لیے جن چیزوں کی محتاج ہیں وہ ان کی اپنی پیدا کردہ نہیں ہیں۔یہ واقعہ دوبارہ خالق کی بے پایاں قدرت کو بتاتا ہے۔ یہ حقیقتیں اتنی واضح ہیں کہ کسی سنجیدہ آدمی کے لیے ان کا انکار ممکن نہیں۔ خدا کی نشانیاں اس دنیا میں اتنی زیادہ ہیں کہ ایک سنجیدہ انسان کے لیے ان کو نظر انداز کرنا کسی طرح ممکن نہیں۔ مگر انسان اتنا ظالم ہے کہ وہ نشانیوں کے ہجوم میں بھی ان نشانیوں کا انکار کرتا ہے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں ہر چیز فنا پذیر ہے۔ اشیاء کا فنا پذیری کے باوجود موجود ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کا خالق اور منتظم غیر فانی ہے۔ اگر وہ غیر فانی نہ ہوتا تو اشیاء کا وجود ہی نہ ہوتا ۔یا اگر ہوتا تو اب تک ان کا وجود مٹ چکا ہوتا۔ دنیا کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ دنیا کی کسی چیز کے اندر تخلیق کی طاقت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اشیاء اپنی بقا کے لیے جن چیزوں کی محتاج ہیں وہ ان کی اپنی پیدا کردہ نہیں ہیں۔یہ واقعہ دوبارہ خالق کی بے پایاں قدرت کو بتاتا ہے۔ یہ حقیقتیں اتنی واضح ہیں کہ کسی سنجیدہ آدمی کے لیے ان کا انکار ممکن نہیں۔ خدا کی نشانیاں اس دنیا میں اتنی زیادہ ہیں کہ ایک سنجیدہ انسان کے لیے ان کو نظر انداز کرنا کسی طرح ممکن نہیں۔ مگر انسان اتنا ظالم ہے کہ وہ نشانیوں کے ہجوم میں بھی ان نشانیوں کا انکار کرتا ہے۔

يَسْأَلُهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ

📘 دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں ہر چیز فنا پذیر ہے۔ اشیاء کا فنا پذیری کے باوجود موجود ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کا خالق اور منتظم غیر فانی ہے۔ اگر وہ غیر فانی نہ ہوتا تو اشیاء کا وجود ہی نہ ہوتا ۔یا اگر ہوتا تو اب تک ان کا وجود مٹ چکا ہوتا۔ دنیا کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ دنیا کی کسی چیز کے اندر تخلیق کی طاقت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اشیاء اپنی بقا کے لیے جن چیزوں کی محتاج ہیں وہ ان کی اپنی پیدا کردہ نہیں ہیں۔یہ واقعہ دوبارہ خالق کی بے پایاں قدرت کو بتاتا ہے۔ یہ حقیقتیں اتنی واضح ہیں کہ کسی سنجیدہ آدمی کے لیے ان کا انکار ممکن نہیں۔ خدا کی نشانیاں اس دنیا میں اتنی زیادہ ہیں کہ ایک سنجیدہ انسان کے لیے ان کو نظر انداز کرنا کسی طرح ممکن نہیں۔ مگر انسان اتنا ظالم ہے کہ وہ نشانیوں کے ہجوم میں بھی ان نشانیوں کا انکار کرتا ہے۔

خَلَقَ الْإِنْسَانَ

📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا۔ اس کو نطق کی انوکھی صلاحیت دی جو ساری معلوم کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔ پھر انسان سے جو عادلانہ روش مطلوب تھی اس کا عملی نمونہ اس نے کائنات میں قائم کردیا۔ انسان کے گردو پیش کی پوری دنیا عین اسی اصولِ عدل پر قائم ہے جو انسان سے اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور قرآن میں اسی عدل کو لفظی طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ قرآن خدائی عدل کا لفظی اظہار ہے اور کائنات خدائی عدل کا عملی اظہار۔ بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کو اسی ترازو سے ناپتے رہیں۔ وہ نہ لینے میں بے انصافی کریں اور نہ دینے میں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں ہر چیز فنا پذیر ہے۔ اشیاء کا فنا پذیری کے باوجود موجود ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کا خالق اور منتظم غیر فانی ہے۔ اگر وہ غیر فانی نہ ہوتا تو اشیاء کا وجود ہی نہ ہوتا ۔یا اگر ہوتا تو اب تک ان کا وجود مٹ چکا ہوتا۔ دنیا کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ دنیا کی کسی چیز کے اندر تخلیق کی طاقت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اشیاء اپنی بقا کے لیے جن چیزوں کی محتاج ہیں وہ ان کی اپنی پیدا کردہ نہیں ہیں۔یہ واقعہ دوبارہ خالق کی بے پایاں قدرت کو بتاتا ہے۔ یہ حقیقتیں اتنی واضح ہیں کہ کسی سنجیدہ آدمی کے لیے ان کا انکار ممکن نہیں۔ خدا کی نشانیاں اس دنیا میں اتنی زیادہ ہیں کہ ایک سنجیدہ انسان کے لیے ان کو نظر انداز کرنا کسی طرح ممکن نہیں۔ مگر انسان اتنا ظالم ہے کہ وہ نشانیوں کے ہجوم میں بھی ان نشانیوں کا انکار کرتا ہے۔

سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ

📘 موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ جب تک امتحان کی مدت ختم نہیں ہوتی ہر شخص سرکشی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ مگر کامل آزادی کے باوجود کوئی جن و انس اس پر قادر نہیں کہ وہ کائنات کی حدود سے باہر چلا جائے۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انسان پوری طرح خدا کی گرفت میں ہے امتحان کی مدت ختم ہونے پر جب وہ لوگوں کو پکڑے گا تو کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ اس سے اپنے آپ کو بچا سکے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ جب تک امتحان کی مدت ختم نہیں ہوتی ہر شخص سرکشی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ مگر کامل آزادی کے باوجود کوئی جن و انس اس پر قادر نہیں کہ وہ کائنات کی حدود سے باہر چلا جائے۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انسان پوری طرح خدا کی گرفت میں ہے امتحان کی مدت ختم ہونے پر جب وہ لوگوں کو پکڑے گا تو کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ اس سے اپنے آپ کو بچا سکے۔

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا ۚ لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ

📘 موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ جب تک امتحان کی مدت ختم نہیں ہوتی ہر شخص سرکشی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ مگر کامل آزادی کے باوجود کوئی جن و انس اس پر قادر نہیں کہ وہ کائنات کی حدود سے باہر چلا جائے۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انسان پوری طرح خدا کی گرفت میں ہے امتحان کی مدت ختم ہونے پر جب وہ لوگوں کو پکڑے گا تو کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ اس سے اپنے آپ کو بچا سکے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ جب تک امتحان کی مدت ختم نہیں ہوتی ہر شخص سرکشی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ مگر کامل آزادی کے باوجود کوئی جن و انس اس پر قادر نہیں کہ وہ کائنات کی حدود سے باہر چلا جائے۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انسان پوری طرح خدا کی گرفت میں ہے امتحان کی مدت ختم ہونے پر جب وہ لوگوں کو پکڑے گا تو کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ اس سے اپنے آپ کو بچا سکے۔

يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ

📘 موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ جب تک امتحان کی مدت ختم نہیں ہوتی ہر شخص سرکشی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ مگر کامل آزادی کے باوجود کوئی جن و انس اس پر قادر نہیں کہ وہ کائنات کی حدود سے باہر چلا جائے۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انسان پوری طرح خدا کی گرفت میں ہے امتحان کی مدت ختم ہونے پر جب وہ لوگوں کو پکڑے گا تو کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ اس سے اپنے آپ کو بچا سکے۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ جب تک امتحان کی مدت ختم نہیں ہوتی ہر شخص سرکشی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ مگر کامل آزادی کے باوجود کوئی جن و انس اس پر قادر نہیں کہ وہ کائنات کی حدود سے باہر چلا جائے۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انسان پوری طرح خدا کی گرفت میں ہے امتحان کی مدت ختم ہونے پر جب وہ لوگوں کو پکڑے گا تو کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ اس سے اپنے آپ کو بچا سکے۔

فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ

📘 انکار اور سرکشی کی وجہ ہمیشہ بے خوفی ہوتی ہے۔ قیامت کا ہولناک لمحہ جب سامنے آئے گا تو مجرم اپنی سرکشی بھول جائیں گے۔ موجودہ دنیا میں جس حق کو وہ طاقت ور دلائل کے باوجود ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے، قیامت میں اس کو بلا بحث مان لیں گے۔ مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ اللہ کی قدرتوں کو غیب میں ماننا معتبر ہے، نہ کہ اس کے ظاہر ہوجانے کے بعد۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 انکار اور سرکشی کی وجہ ہمیشہ بے خوفی ہوتی ہے۔ قیامت کا ہولناک لمحہ جب سامنے آئے گا تو مجرم اپنی سرکشی بھول جائیں گے۔ موجودہ دنیا میں جس حق کو وہ طاقت ور دلائل کے باوجود ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے، قیامت میں اس کو بلا بحث مان لیں گے۔ مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ اللہ کی قدرتوں کو غیب میں ماننا معتبر ہے، نہ کہ اس کے ظاہر ہوجانے کے بعد۔

فَيَوْمَئِذٍ لَا يُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ

📘 انکار اور سرکشی کی وجہ ہمیشہ بے خوفی ہوتی ہے۔ قیامت کا ہولناک لمحہ جب سامنے آئے گا تو مجرم اپنی سرکشی بھول جائیں گے۔ موجودہ دنیا میں جس حق کو وہ طاقت ور دلائل کے باوجود ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے، قیامت میں اس کو بلا بحث مان لیں گے۔ مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ اللہ کی قدرتوں کو غیب میں ماننا معتبر ہے، نہ کہ اس کے ظاہر ہوجانے کے بعد۔

عَلَّمَهُ الْبَيَانَ

📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا۔ اس کو نطق کی انوکھی صلاحیت دی جو ساری معلوم کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔ پھر انسان سے جو عادلانہ روش مطلوب تھی اس کا عملی نمونہ اس نے کائنات میں قائم کردیا۔ انسان کے گردو پیش کی پوری دنیا عین اسی اصولِ عدل پر قائم ہے جو انسان سے اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور قرآن میں اسی عدل کو لفظی طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ قرآن خدائی عدل کا لفظی اظہار ہے اور کائنات خدائی عدل کا عملی اظہار۔ بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کو اسی ترازو سے ناپتے رہیں۔ وہ نہ لینے میں بے انصافی کریں اور نہ دینے میں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 انکار اور سرکشی کی وجہ ہمیشہ بے خوفی ہوتی ہے۔ قیامت کا ہولناک لمحہ جب سامنے آئے گا تو مجرم اپنی سرکشی بھول جائیں گے۔ موجودہ دنیا میں جس حق کو وہ طاقت ور دلائل کے باوجود ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے، قیامت میں اس کو بلا بحث مان لیں گے۔ مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ اللہ کی قدرتوں کو غیب میں ماننا معتبر ہے، نہ کہ اس کے ظاہر ہوجانے کے بعد۔

يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ

📘 انکار اور سرکشی کی وجہ ہمیشہ بے خوفی ہوتی ہے۔ قیامت کا ہولناک لمحہ جب سامنے آئے گا تو مجرم اپنی سرکشی بھول جائیں گے۔ موجودہ دنیا میں جس حق کو وہ طاقت ور دلائل کے باوجود ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے، قیامت میں اس کو بلا بحث مان لیں گے۔ مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ اللہ کی قدرتوں کو غیب میں ماننا معتبر ہے، نہ کہ اس کے ظاہر ہوجانے کے بعد۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 انکار اور سرکشی کی وجہ ہمیشہ بے خوفی ہوتی ہے۔ قیامت کا ہولناک لمحہ جب سامنے آئے گا تو مجرم اپنی سرکشی بھول جائیں گے۔ موجودہ دنیا میں جس حق کو وہ طاقت ور دلائل کے باوجود ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے، قیامت میں اس کو بلا بحث مان لیں گے۔ مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ اللہ کی قدرتوں کو غیب میں ماننا معتبر ہے، نہ کہ اس کے ظاہر ہوجانے کے بعد۔

هَٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ

📘 انکار اور سرکشی کی وجہ ہمیشہ بے خوفی ہوتی ہے۔ قیامت کا ہولناک لمحہ جب سامنے آئے گا تو مجرم اپنی سرکشی بھول جائیں گے۔ موجودہ دنیا میں جس حق کو وہ طاقت ور دلائل کے باوجود ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے، قیامت میں اس کو بلا بحث مان لیں گے۔ مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ اللہ کی قدرتوں کو غیب میں ماننا معتبر ہے، نہ کہ اس کے ظاہر ہوجانے کے بعد۔

يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ آنٍ

📘 انکار اور سرکشی کی وجہ ہمیشہ بے خوفی ہوتی ہے۔ قیامت کا ہولناک لمحہ جب سامنے آئے گا تو مجرم اپنی سرکشی بھول جائیں گے۔ موجودہ دنیا میں جس حق کو وہ طاقت ور دلائل کے باوجود ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے، قیامت میں اس کو بلا بحث مان لیں گے۔ مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ اللہ کی قدرتوں کو غیب میں ماننا معتبر ہے، نہ کہ اس کے ظاہر ہوجانے کے بعد۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 انکار اور سرکشی کی وجہ ہمیشہ بے خوفی ہوتی ہے۔ قیامت کا ہولناک لمحہ جب سامنے آئے گا تو مجرم اپنی سرکشی بھول جائیں گے۔ موجودہ دنیا میں جس حق کو وہ طاقت ور دلائل کے باوجود ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے، قیامت میں اس کو بلا بحث مان لیں گے۔ مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ اللہ کی قدرتوں کو غیب میں ماننا معتبر ہے، نہ کہ اس کے ظاہر ہوجانے کے بعد۔

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

ذَوَاتَا أَفْنَانٍ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ

📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا۔ اس کو نطق کی انوکھی صلاحیت دی جو ساری معلوم کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔ پھر انسان سے جو عادلانہ روش مطلوب تھی اس کا عملی نمونہ اس نے کائنات میں قائم کردیا۔ انسان کے گردو پیش کی پوری دنیا عین اسی اصولِ عدل پر قائم ہے جو انسان سے اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور قرآن میں اسی عدل کو لفظی طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ قرآن خدائی عدل کا لفظی اظہار ہے اور کائنات خدائی عدل کا عملی اظہار۔ بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کو اسی ترازو سے ناپتے رہیں۔ وہ نہ لینے میں بے انصافی کریں اور نہ دینے میں۔

فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

فِيهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ ۚ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ

📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا۔ اس کو نطق کی انوکھی صلاحیت دی جو ساری معلوم کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔ پھر انسان سے جو عادلانہ روش مطلوب تھی اس کا عملی نمونہ اس نے کائنات میں قائم کردیا۔ انسان کے گردو پیش کی پوری دنیا عین اسی اصولِ عدل پر قائم ہے جو انسان سے اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور قرآن میں اسی عدل کو لفظی طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ قرآن خدائی عدل کا لفظی اظہار ہے اور کائنات خدائی عدل کا عملی اظہار۔ بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کو اسی ترازو سے ناپتے رہیں۔ وہ نہ لینے میں بے انصافی کریں اور نہ دینے میں۔

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 و سیع تقسیم کے اعتبار سے جنت کے دو بڑے درجے ہیں۔ ان آیات میں دوباغوں والی جس جنت کا ذکر ہے وہ پہلے درجہ والی جنت ہے۔ اس جنت میں شاہانہ درجہ کی نعمتیں مہیا ہوں گی۔ یہ اعلی نعمتیں ان لوگوں کو ملیں گی جن پر اللہ کا فکر اتنا غالب ہوا کہ موجودہ دنیا میں ہی انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا کرلیا۔ انہوں نے احسان کے درجہ میں اللہ سے تعلق کا ثبوت دیا۔

وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

مُدْهَامَّتَانِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ

📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا۔ اس کو نطق کی انوکھی صلاحیت دی جو ساری معلوم کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔ پھر انسان سے جو عادلانہ روش مطلوب تھی اس کا عملی نمونہ اس نے کائنات میں قائم کردیا۔ انسان کے گردو پیش کی پوری دنیا عین اسی اصولِ عدل پر قائم ہے جو انسان سے اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور قرآن میں اسی عدل کو لفظی طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ قرآن خدائی عدل کا لفظی اظہار ہے اور کائنات خدائی عدل کا عملی اظہار۔ بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کو اسی ترازو سے ناپتے رہیں۔ وہ نہ لینے میں بے انصافی کریں اور نہ دینے میں۔

فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

📘 ان آیات میں دوسری جنت کا ذکر ہے۔ وہ بھی پہلی جنت کی طرح دو باغوں والی ہوگی۔ یہ جنت عام اہل تقویٰ کے لیے ہوگی۔ موجودہ دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے اس جنت کی نعمتیں بھی اگرچہ ناقابل قیاس حد تک زیادہ ہوں گی مگر اول الذکر جنت کے مقابلہ میں وه دوسرے درجہ کی جنت ہوگی۔ یہ جنتیں اس خالق و مالک کے شایان شان ہوں گی جس کی عظمتوں اور قدرتوں کے نمونے موجودہ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اور جن کو دیکھنے والے آج ہی دیکھ رہے ہیں۔

أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ

📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا۔ اس کو نطق کی انوکھی صلاحیت دی جو ساری معلوم کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔ پھر انسان سے جو عادلانہ روش مطلوب تھی اس کا عملی نمونہ اس نے کائنات میں قائم کردیا۔ انسان کے گردو پیش کی پوری دنیا عین اسی اصولِ عدل پر قائم ہے جو انسان سے اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور قرآن میں اسی عدل کو لفظی طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ قرآن خدائی عدل کا لفظی اظہار ہے اور کائنات خدائی عدل کا عملی اظہار۔ بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کو اسی ترازو سے ناپتے رہیں۔ وہ نہ لینے میں بے انصافی کریں اور نہ دینے میں۔

وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ

📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا۔ اس کو نطق کی انوکھی صلاحیت دی جو ساری معلوم کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔ پھر انسان سے جو عادلانہ روش مطلوب تھی اس کا عملی نمونہ اس نے کائنات میں قائم کردیا۔ انسان کے گردو پیش کی پوری دنیا عین اسی اصولِ عدل پر قائم ہے جو انسان سے اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور قرآن میں اسی عدل کو لفظی طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ قرآن خدائی عدل کا لفظی اظہار ہے اور کائنات خدائی عدل کا عملی اظہار۔ بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کو اسی ترازو سے ناپتے رہیں۔ وہ نہ لینے میں بے انصافی کریں اور نہ دینے میں۔