🕋 تفسير سورة المجادلة
(Al-Mujadila) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ
📘 اسلام سے پہلے عرب میں رواج تھا کہ کوئی مرد اگر اپنی بیوی سے کہہ دیتا کہ أنتِ عليَّ كظَهْر أمِّي (تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ) تو وہ عورت ہمیشہ کے لیے اس مرد پر حرام ہوجاتی۔ اس کو ظہار کہا جاتا تھا۔ مدینہ کے ایک مسلمان اوس بن صامت انصاری نے اپنی بیوی خولہ بنت ثعلبہ کو ایک بار یہی لفظ کہہ دیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور واقعہ بتایا۔ آپ نے قدیم رواج کے اعتبار سے فرما دیا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ تم اس پر حرام ہوگئی ہو۔ خولہ کو پریشانی ہوئی کہ میرا گھر اور میرے بچے برباد ہوجائیں گے۔ وہ فریاد و زاری کرنے لگیں۔ اس پر یہ آیتیں اتریں اور بتایا گیا کہ ظہار کے بارے میں اسلامی حکم کیا ہے۔
إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
📘 مجلس کے آداب کے تحت کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو پیچھے کرکے دوسرے شخص کو آگے بٹھایا جاتا ہے۔ اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کی امید کے خلاف کہہ دیا جاتا ہے کہ اب آپ لوگ تشریف لے جائیں۔ ایسی باتوں کو عزت کا سوال بنانا شعوری پستی کا ثبوت ہے۔ اور جو شخص ان باتوں کو عزت کا سوال نہ بنائے اس نے یہ ثبوت دیا کہ شعوری اعتبار سے وہ بلند درجہ کو پہنچا ہوا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
📘 مجلس کے آداب کے تحت کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو پیچھے کرکے دوسرے شخص کو آگے بٹھایا جاتا ہے۔ اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کی امید کے خلاف کہہ دیا جاتا ہے کہ اب آپ لوگ تشریف لے جائیں۔ ایسی باتوں کو عزت کا سوال بنانا شعوری پستی کا ثبوت ہے۔ اور جو شخص ان باتوں کو عزت کا سوال نہ بنائے اس نے یہ ثبوت دیا کہ شعوری اعتبار سے وہ بلند درجہ کو پہنچا ہوا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف وہی لوگ ملیں جو فی الواقع سنجیدہ مقصد کے تحت آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ غیر ضروری قسم کے لوگ چھانٹ دئے جائیں جو اپنی بے فائدہ باتوں سے صرف وقت ضائع کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس ليے یہ اصول مقرر کیا گیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کا ارادہ کرو تو پہلے اللہ کے نام پر کچھ صدقہ کرو۔ اور اگر اس کی قدرت نہ ہوتو کوئی دوسری نیکی کرو۔
یہ حکم اگر چہ اصلاً رسول کے ليے مطلوب تھا۔ مگر رسول کے بعد بھی امت کے رہنماؤں کے حق میں وہ حالات کے اعتبار سے درجہ بدرجہ مطلوب ہوگا۔
أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
📘 اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف وہی لوگ ملیں جو فی الواقع سنجیدہ مقصد کے تحت آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ غیر ضروری قسم کے لوگ چھانٹ دئے جائیں جو اپنی بے فائدہ باتوں سے صرف وقت ضائع کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس ليے یہ اصول مقرر کیا گیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کا ارادہ کرو تو پہلے اللہ کے نام پر کچھ صدقہ کرو۔ اور اگر اس کی قدرت نہ ہوتو کوئی دوسری نیکی کرو۔
یہ حکم اگر چہ اصلاً رسول کے ليے مطلوب تھا۔ مگر رسول کے بعد بھی امت کے رہنماؤں کے حق میں وہ حالات کے اعتبار سے درجہ بدرجہ مطلوب ہوگا۔
۞ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
📘 مدینہ کے منافقین اسلام کی جماعت میں شامل تھے۔ اسی کے ساتھ وہ یہود سے بھی ملے ہوئے تھے۔ یہی ہمیشہ ان لوگوں کا حال ہوتا ہے، جو حق کو پوری یکسوئی کے ساتھ اختیار نہ کرسکیں۔ ایسے لوگ بظاہر سب سے ملے ہوئے ہوتے ہیں مگر حقیقۃً وہ صرف اپنے مفاد کے وفادار ہوتے ہیں۔ خواہ وہ قسمیں کھا کر اپنے حق پرست ہونے کا یقین دلا رہے ہوں۔
أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 مدینہ کے منافقین اسلام کی جماعت میں شامل تھے۔ اسی کے ساتھ وہ یہود سے بھی ملے ہوئے تھے۔ یہی ہمیشہ ان لوگوں کا حال ہوتا ہے، جو حق کو پوری یکسوئی کے ساتھ اختیار نہ کرسکیں۔ ایسے لوگ بظاہر سب سے ملے ہوئے ہوتے ہیں مگر حقیقۃً وہ صرف اپنے مفاد کے وفادار ہوتے ہیں۔ خواہ وہ قسمیں کھا کر اپنے حق پرست ہونے کا یقین دلا رہے ہوں۔
اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ
📘 مدینہ کے منافقین اسلام کی جماعت میں شامل تھے۔ اسی کے ساتھ وہ یہود سے بھی ملے ہوئے تھے۔ یہی ہمیشہ ان لوگوں کا حال ہوتا ہے، جو حق کو پوری یکسوئی کے ساتھ اختیار نہ کرسکیں۔ ایسے لوگ بظاہر سب سے ملے ہوئے ہوتے ہیں مگر حقیقۃً وہ صرف اپنے مفاد کے وفادار ہوتے ہیں۔ خواہ وہ قسمیں کھا کر اپنے حق پرست ہونے کا یقین دلا رہے ہوں۔
لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
📘 مفاد پرست آدمی جب دعوتِ حق کی مخالفت کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو محفوظ کر رہا ہے مگر اس وقت وہ دہشت زدہ ، ہوکر رہ جائے گا۔جب آخرت میں وہ دیکھے گا کہ جن چیزوں پر اس نے بھروسہ کر رکھا تھا وہ فیصلہ کے اس وقت میں اس کے کچھ کام آنے والی نہیں۔
منافق آدمی اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے ليے بڑھ بڑھ کر باتیں کر تاہے۔ حتي کہ وہ قسمیں کھا کر اپنے اخلاص کا یقین دلاتا ہے۔ یہ سب کر کے وہ سمجھتا ہے کہ ’’ وہ کسی چیز پر ہے‘‘۔ اس نے اپنے حق میں کوئی واقعی بنیاد فراہم کرلی ہے۔ مگر قیامت کا دھماکہ جب حقیقتوں کو کھولے گا اس وقت وہ جان لے گا کہ یہ محض شیطان کے سکھائے ہوئے جھوٹے الفاظ تھے جن کو وہ اپنے بے قصور ہونے کا یقینی ثبوت سمجھتا رہا۔
يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ ۖ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ
📘 مفاد پرست آدمی جب دعوتِ حق کی مخالفت کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو محفوظ کر رہا ہے مگر اس وقت وہ دہشت زدہ ، ہوکر رہ جائے گا۔جب آخرت میں وہ دیکھے گا کہ جن چیزوں پر اس نے بھروسہ کر رکھا تھا وہ فیصلہ کے اس وقت میں اس کے کچھ کام آنے والی نہیں۔
منافق آدمی اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے ليے بڑھ بڑھ کر باتیں کر تاہے۔ حتي کہ وہ قسمیں کھا کر اپنے اخلاص کا یقین دلاتا ہے۔ یہ سب کر کے وہ سمجھتا ہے کہ ’’ وہ کسی چیز پر ہے‘‘۔ اس نے اپنے حق میں کوئی واقعی بنیاد فراہم کرلی ہے۔ مگر قیامت کا دھماکہ جب حقیقتوں کو کھولے گا اس وقت وہ جان لے گا کہ یہ محض شیطان کے سکھائے ہوئے جھوٹے الفاظ تھے جن کو وہ اپنے بے قصور ہونے کا یقینی ثبوت سمجھتا رہا۔
اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ
📘 مفاد پرست آدمی جب دعوتِ حق کی مخالفت کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو محفوظ کر رہا ہے مگر اس وقت وہ دہشت زدہ ، ہوکر رہ جائے گا۔جب آخرت میں وہ دیکھے گا کہ جن چیزوں پر اس نے بھروسہ کر رکھا تھا وہ فیصلہ کے اس وقت میں اس کے کچھ کام آنے والی نہیں۔
منافق آدمی اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے ليے بڑھ بڑھ کر باتیں کر تاہے۔ حتي کہ وہ قسمیں کھا کر اپنے اخلاص کا یقین دلاتا ہے۔ یہ سب کر کے وہ سمجھتا ہے کہ ’’ وہ کسی چیز پر ہے‘‘۔ اس نے اپنے حق میں کوئی واقعی بنیاد فراہم کرلی ہے۔ مگر قیامت کا دھماکہ جب حقیقتوں کو کھولے گا اس وقت وہ جان لے گا کہ یہ محض شیطان کے سکھائے ہوئے جھوٹے الفاظ تھے جن کو وہ اپنے بے قصور ہونے کا یقینی ثبوت سمجھتا رہا۔
الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَائِهِمْ مَا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ۖ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَزُورًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ
📘 اسلام میں صورت اور حقیقت کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس قدیم رواج کو تسلیم نہیں کیا کہ جو عورت حقیقی ماں نہ ہو وہ محض ماں کا لفظ بول دینے سے کسی کی ماں بن جائے۔ اس قسم کا فعل ایک لغوبات تو ضرور ہے مگر اس کی وجہ سے فطرت کے قوانین بدل نہیں سکتے۔
قرآن میں بتایا گیا کہ محض ظہار سے کسی آدمی کی بیوی پر طلاق نہیں پڑے گی۔ البتہ اس آدمی پر لازم کیا گیا کہ وہ پہلے کفارہ ادا کرے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اپنی بیوی کے پاس جائے۔ کسی غلطی کے بعد جب آدمی اس طرح کفارہ ادا کرتا ہے تو وہ دوبارہ اپنے یقین کو زندہ کرتا ہے۔ وہ اس اصول میں اپنے عقیدہ کو از سرِ نو مستحکم بناتا ہے جس کو وہ غفلت یا نادانی سے چھوڑ بیٹھا تھا۔
إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ
📘 مفاد پرست آدمی جب دعوتِ حق کی مخالفت کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو محفوظ کر رہا ہے مگر اس وقت وہ دہشت زدہ ، ہوکر رہ جائے گا۔جب آخرت میں وہ دیکھے گا کہ جن چیزوں پر اس نے بھروسہ کر رکھا تھا وہ فیصلہ کے اس وقت میں اس کے کچھ کام آنے والی نہیں۔
منافق آدمی اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے ليے بڑھ بڑھ کر باتیں کر تاہے۔ حتي کہ وہ قسمیں کھا کر اپنے اخلاص کا یقین دلاتا ہے۔ یہ سب کر کے وہ سمجھتا ہے کہ ’’ وہ کسی چیز پر ہے‘‘۔ اس نے اپنے حق میں کوئی واقعی بنیاد فراہم کرلی ہے۔ مگر قیامت کا دھماکہ جب حقیقتوں کو کھولے گا اس وقت وہ جان لے گا کہ یہ محض شیطان کے سکھائے ہوئے جھوٹے الفاظ تھے جن کو وہ اپنے بے قصور ہونے کا یقینی ثبوت سمجھتا رہا۔
كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ
📘 مفاد پرست آدمی جب دعوتِ حق کی مخالفت کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو محفوظ کر رہا ہے مگر اس وقت وہ دہشت زدہ ، ہوکر رہ جائے گا۔جب آخرت میں وہ دیکھے گا کہ جن چیزوں پر اس نے بھروسہ کر رکھا تھا وہ فیصلہ کے اس وقت میں اس کے کچھ کام آنے والی نہیں۔
منافق آدمی اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے ليے بڑھ بڑھ کر باتیں کر تاہے۔ حتي کہ وہ قسمیں کھا کر اپنے اخلاص کا یقین دلاتا ہے۔ یہ سب کر کے وہ سمجھتا ہے کہ ’’ وہ کسی چیز پر ہے‘‘۔ اس نے اپنے حق میں کوئی واقعی بنیاد فراہم کرلی ہے۔ مگر قیامت کا دھماکہ جب حقیقتوں کو کھولے گا اس وقت وہ جان لے گا کہ یہ محض شیطان کے سکھائے ہوئے جھوٹے الفاظ تھے جن کو وہ اپنے بے قصور ہونے کا یقینی ثبوت سمجھتا رہا۔
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
📘 اس دنیا میں کامیابی حزبُ اللہ کے ليے ہے۔ حزب اللہ ( اللہ کی جماعت) کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان سب سے بڑی حقیقت کے طور پر راسخ ہوگیاہو۔ جن کو اللہ سے اتنی گہری نسبت حاصل ہو کہ ان کو اللہ کی طرف سے روحانی فیض پہنچنے لگے۔ پھر یہ کہ خدائی حقیقتوں سے ان کی وابستگی اتنی گہری ہو کہ اسی کی بنیاد پر ان کی دوستیاں اور دشمنیاں قائم ہوں۔ وہ سب سے زیادہ ان لوگوں سے قریب ہوں جو خدائی صداقت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اور جو لوگ خدائی صداقت سے دور ہیں وہ بھی ان سے دور ہو جائیں ، خواه وہ ان کے اپنے عزیز اور رشتہ دار کیوں نہ ہوں۔
وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ۚ ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
📘 اسلام میں صورت اور حقیقت کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس قدیم رواج کو تسلیم نہیں کیا کہ جو عورت حقیقی ماں نہ ہو وہ محض ماں کا لفظ بول دینے سے کسی کی ماں بن جائے۔ اس قسم کا فعل ایک لغوبات تو ضرور ہے مگر اس کی وجہ سے فطرت کے قوانین بدل نہیں سکتے۔
قرآن میں بتایا گیا کہ محض ظہار سے کسی آدمی کی بیوی پر طلاق نہیں پڑے گی۔ البتہ اس آدمی پر لازم کیا گیا کہ وہ پہلے کفارہ ادا کرے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اپنی بیوی کے پاس جائے۔ کسی غلطی کے بعد جب آدمی اس طرح کفارہ ادا کرتا ہے تو وہ دوبارہ اپنے یقین کو زندہ کرتا ہے۔ وہ اس اصول میں اپنے عقیدہ کو از سرِ نو مستحکم بناتا ہے جس کو وہ غفلت یا نادانی سے چھوڑ بیٹھا تھا۔
فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ۖ فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 اسلام میں صورت اور حقیقت کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس قدیم رواج کو تسلیم نہیں کیا کہ جو عورت حقیقی ماں نہ ہو وہ محض ماں کا لفظ بول دینے سے کسی کی ماں بن جائے۔ اس قسم کا فعل ایک لغوبات تو ضرور ہے مگر اس کی وجہ سے فطرت کے قوانین بدل نہیں سکتے۔
قرآن میں بتایا گیا کہ محض ظہار سے کسی آدمی کی بیوی پر طلاق نہیں پڑے گی۔ البتہ اس آدمی پر لازم کیا گیا کہ وہ پہلے کفارہ ادا کرے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اپنی بیوی کے پاس جائے۔ کسی غلطی کے بعد جب آدمی اس طرح کفارہ ادا کرتا ہے تو وہ دوبارہ اپنے یقین کو زندہ کرتا ہے۔ وہ اس اصول میں اپنے عقیدہ کو از سرِ نو مستحکم بناتا ہے جس کو وہ غفلت یا نادانی سے چھوڑ بیٹھا تھا۔
إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ كُبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ وَقَدْ أَنْزَلْنَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ
📘 حق کی مخالفت کرنا خدا کی مخالفت کرنا ہے۔ اور خدا کی مخالفت کرنا اس ہستی کی مخالفت کرنا ہے جس سے مخالفت کرکے آدمی خود اپنا نقصان کرتا ہے۔ خدا سے آدمی نہ اپنی کسی چیز کو چھپا سکتا اور نہ کسی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ خدا کی پکڑ سے اپنے آپ کو بچا سکے۔
يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا ۚ أَحْصَاهُ اللَّهُ وَنَسُوهُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
📘 حق کی مخالفت کرنا خدا کی مخالفت کرنا ہے۔ اور خدا کی مخالفت کرنا اس ہستی کی مخالفت کرنا ہے جس سے مخالفت کرکے آدمی خود اپنا نقصان کرتا ہے۔ خدا سے آدمی نہ اپنی کسی چیز کو چھپا سکتا اور نہ کسی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ خدا کی پکڑ سے اپنے آپ کو بچا سکے۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِنْ ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
📘 کائنات اپنے انتہائی پیچیدہ نظام کے ساتھ یہ گواہی دے رہی ہے کہ وہ ہر آن کسی بالاتر طاقت کی نگرانی میں ہے۔ کائنات میں نگرانی کی شہادت یہ ثابت کرتی ہے کہ انسان بھی مسلسل طور پر اپنے خالق کی نگرانی میں ہے۔ ایسی حالت میں حق کے خلاف خفیہ سرگرمیاں دکھانا صرف ایسے اندھے لوگوں کا کام ہوسکتا ہے جو خدا کی صفتوں کو نہ براہ راست طور پر ملفوظ قرآن میں پڑھ سکیں اور نہ بالواسطہ طور پر غیر ملفوظ کائنات میں۔
بعض یہود اور منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آتے تو وہ السلام علیکم (آپ پر سلامتی ہو) کہنے کے بجائے السام علیکم (آپ پر موت آئے) کہتے۔ یہ ہمیشہ سے سطحی انسانوں کا طریقہ رہا ہے۔ سطحی لوگ ایک سچے انسان کو بے قدر کرکے اپنے ذہن میں خوش ہوتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ساری پھیلی ہوئی خدائی عین اس وقت بھی اس سچے انسان کا اعتراف کر رہی ہوتی ہے جب کہ اپنے محدود ذہن کے مطابق وہ اس کی تحقیر و تردید کے لیے اپنا آخری لفظ استعمال کرچکے ہوں۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ
📘 کائنات اپنے انتہائی پیچیدہ نظام کے ساتھ یہ گواہی دے رہی ہے کہ وہ ہر آن کسی بالاتر طاقت کی نگرانی میں ہے۔ کائنات میں نگرانی کی شہادت یہ ثابت کرتی ہے کہ انسان بھی مسلسل طور پر اپنے خالق کی نگرانی میں ہے۔ ایسی حالت میں حق کے خلاف خفیہ سرگرمیاں دکھانا صرف ایسے اندھے لوگوں کا کام ہوسکتا ہے جو خدا کی صفتوں کو نہ براہ راست طور پر ملفوظ قرآن میں پڑھ سکیں اور نہ بالواسطہ طور پر غیر ملفوظ کائنات میں۔
بعض یہود اور منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آتے تو وہ السلام علیکم (آپ پر سلامتی ہو) کہنے کے بجائے السام علیکم (آپ پر موت آئے) کہتے۔ یہ ہمیشہ سے سطحی انسانوں کا طریقہ رہا ہے۔ سطحی لوگ ایک سچے انسان کو بے قدر کرکے اپنے ذہن میں خوش ہوتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ساری پھیلی ہوئی خدائی عین اس وقت بھی اس سچے انسان کا اعتراف کر رہی ہوتی ہے جب کہ اپنے محدود ذہن کے مطابق وہ اس کی تحقیر و تردید کے لیے اپنا آخری لفظ استعمال کرچکے ہوں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
📘 مجلس کے آداب کے تحت کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو پیچھے کرکے دوسرے شخص کو آگے بٹھایا جاتا ہے۔ اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کی امید کے خلاف کہہ دیا جاتا ہے کہ اب آپ لوگ تشریف لے جائیں۔ ایسی باتوں کو عزت کا سوال بنانا شعوری پستی کا ثبوت ہے۔ اور جو شخص ان باتوں کو عزت کا سوال نہ بنائے اس نے یہ ثبوت دیا کہ شعوری اعتبار سے وہ بلند درجہ کو پہنچا ہوا ہے۔