slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة يوسف

(Yusuf) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ

📘 الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ یہ اس کتاب روشن کی آیات ہیں جو اپنا مدعا واضح طور پر بیان کرتی ہے اور کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیتی۔

قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ

📘 آیت 10 قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ یہ شریف النفس انسان ان کے سب سے بڑے بھائی تھے جنہوں نے یہ مشورہ دیا۔ ان کا نام یہودا تھا اور انہی کے نام پر لفظ ”یہودی“ بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ تو اس سے پیچھا چھڑانے کا ہے لہٰذا ضروری نہیں کہ قتل جیسا گناہ کر کے ہی یہ مقصد حاصل کیا جائے اس کے لیے کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔وَاَلْقُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّـيَّارَةِ پرانے زمانے کے کنویں کی ایک خاص قسم کو باؤلی کہا جاتا تھا اس کا منہ کھلا ہوتا تھا لیکن گہرائی میں یہ تدریجاً تنگ ہوتا جاتا تھا۔ پانی کی سطح کے قریب اس کی دیوار میں طاقچے سے بنائے جاتے تھے۔ اس طرح کی باؤلیاں پرانے زمانے میں قافلوں کے راستوں پر بنائی جاتی تھیں۔ چناچہ اس مشورے پر عمل کی صورت میں قوی امکان تھا کہ کسی قافلے کا ادھر سے گزر ہوگا اور قافلے والے یوسف کو باؤلی سے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ بڑے بھائی کے اس مشورے کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ اس طرح کم از کم یوسف کی جان بچ جائے گی اور ہم بھی اس کے خون سے ہاتھ رنگنے کے جرم کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ جب نو بھائی اس بات پر پوری طرح تلُ گئے کہ یوسف سے بہرحال چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو دسواں بھائی ان کو اس حرکت سے بالکل منع تو نہیں کرسکا لیکن اس نے کوشش کی کہ کم از کم وہ لوگ یوسف کو قتل کرنے سے باز رہیں۔

وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُمْ مِنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ

📘 آیت 100 وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًایہ سجدۂ تعظیمی تھا جو پہلی شریعتوں میں جائز تھا۔ شریعت محمدی میں جہاں دین کی تکمیل ہوگئی وہاں توحید کا معاملہ بھی آخری درجے میں تکمیل کو پہنچا دیا گیا۔ چناچہ یہ سجدۂ تعظیمی اب حرام مطلق ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں یا قبروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ صریح شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ سابقہ انبیاء کرام کے حالات و واقعات سے آج اس کے لیے کوئی دلیل اخذ کرنا قطعاً درست نہیں۔وَقَالَ يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ حضرت یوسف کے اس خواب کا ذکر آیت 4 میں ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ اس میں گیارہ بھائی ستاروں کی مانند جبکہ والدین سورج اور چاند کے حکم میں ہیں۔وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ آپ لوگوں کو صحرا کی پر مشقت زندگی سے نجات دلا کر یہاں مصر کے متمدن اور ترقی یافتہ ماحول میں پہنچا دیا ‘ جہاں زندگی کی ہر سہولت میسر ہے۔ اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق باریک بینی سے تدبیر کرتا ہے اور اس کی تدبیر بالآخر کامیاب ہوتی ہے۔ اس کے بعد حضرت یوسف اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں :

۞ رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ

📘 آیت 100 وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًایہ سجدۂ تعظیمی تھا جو پہلی شریعتوں میں جائز تھا۔ شریعت محمدی میں جہاں دین کی تکمیل ہوگئی وہاں توحید کا معاملہ بھی آخری درجے میں تکمیل کو پہنچا دیا گیا۔ چناچہ یہ سجدۂ تعظیمی اب حرام مطلق ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں یا قبروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ صریح شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ سابقہ انبیاء کرام کے حالات و واقعات سے آج اس کے لیے کوئی دلیل اخذ کرنا قطعاً درست نہیں۔وَقَالَ يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ حضرت یوسف کے اس خواب کا ذکر آیت 4 میں ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ اس میں گیارہ بھائی ستاروں کی مانند جبکہ والدین سورج اور چاند کے حکم میں ہیں۔وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ آپ لوگوں کو صحرا کی پر مشقت زندگی سے نجات دلا کر یہاں مصر کے متمدن اور ترقی یافتہ ماحول میں پہنچا دیا ‘ جہاں زندگی کی ہر سہولت میسر ہے۔ اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق باریک بینی سے تدبیر کرتا ہے اور اس کی تدبیر بالآخر کامیاب ہوتی ہے۔ اس کے بعد حضرت یوسف اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں :

ذَٰلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ

📘 آیت 100 وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًایہ سجدۂ تعظیمی تھا جو پہلی شریعتوں میں جائز تھا۔ شریعت محمدی میں جہاں دین کی تکمیل ہوگئی وہاں توحید کا معاملہ بھی آخری درجے میں تکمیل کو پہنچا دیا گیا۔ چناچہ یہ سجدۂ تعظیمی اب حرام مطلق ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں یا قبروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ صریح شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ سابقہ انبیاء کرام کے حالات و واقعات سے آج اس کے لیے کوئی دلیل اخذ کرنا قطعاً درست نہیں۔وَقَالَ يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ حضرت یوسف کے اس خواب کا ذکر آیت 4 میں ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ اس میں گیارہ بھائی ستاروں کی مانند جبکہ والدین سورج اور چاند کے حکم میں ہیں۔وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ آپ لوگوں کو صحرا کی پر مشقت زندگی سے نجات دلا کر یہاں مصر کے متمدن اور ترقی یافتہ ماحول میں پہنچا دیا ‘ جہاں زندگی کی ہر سہولت میسر ہے۔ اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق باریک بینی سے تدبیر کرتا ہے اور اس کی تدبیر بالآخر کامیاب ہوتی ہے۔ اس کے بعد حضرت یوسف اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں :

وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ

📘 آیت 103 وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ان منکرین حق نے اپنی طرف سے ایک سوال کیا تھا ہم نے اس کا مفصل جواب دے دیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قدر عمدہ اور خوبصورت جواب پا کر وہ لوگ ایمان بھی لے آئیں گے۔ نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ ان میں سے اکثر لوگ آپ کی شدید خواہش کے باوجود بھی ایمان نہیں لائیں گے۔

وَمَا تَسْأَلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ

📘 آیت 103 وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ان منکرین حق نے اپنی طرف سے ایک سوال کیا تھا ہم نے اس کا مفصل جواب دے دیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قدر عمدہ اور خوبصورت جواب پا کر وہ لوگ ایمان بھی لے آئیں گے۔ نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ ان میں سے اکثر لوگ آپ کی شدید خواہش کے باوجود بھی ایمان نہیں لائیں گے۔

وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ

📘 آیت 105 وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ یہ لوگ زمین و آسمان کی وسعتوں میں اللہ تعالیٰ کی بیشمار نشانیوں کو بار بار دیکھتے ہیں مگر کبھی ان پر غور کرکے سبق حاصل نہیں کرتے۔

وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ

📘 آیت 106 وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ باللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ یہ آیت ہمارے لیے بہت زیادہ لائق توجہ ہے اور ہم سب کو اس پر بہت غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے۔ شرک کا معاملہ ان لوگوں کا تو بالکل واضح ہے جو ایک اللہ کے ساتھ بیشمار دوسرے معبودوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مختلف ناموں سے ان کی پوجا کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ خود کو موحد سمجھتے ہیں اور اپنے خیال میں وہ امکانی حد تک موحد ہوتے بھی ہیں ‘ بسا اوقات غیر شعوری طور پر وہ بھی کسی نہ کسی نوع کے شرک میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے بڑی گہری بصیرت کی ضرورت ہے ‘ اور ایسی بصیرت اور ایسا علم حاصل کرنا ہر صاحب شعور مسلمان پر فرض ہے تاکہ وہ خود کو اس مہلک اور تباہ کن گناہ سے بچا سکے۔شرک کو قرآن مجید میں بدترین گناہ اور سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس گناہ کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سوررۃ النساء میں وہ آیت 48 اور 116 دو مرتبہ آئی ہے جس میں شرک کا ارتکاب کرنے والے فرد کے لیے معافی اور مغفرت کے کسی بھی امکان کو سختی سے رد کردیا گیا ہے : اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ اس اعتبار سے میں یہاں پر ایک دفعہ پھر ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ”حقیقت و اقسام شرک“ کے موضوع پر میری چھ گھنٹے کی تقاریر کی ریکارڈنگ آپ ضرور سنیں اب اسی نام سے کتاب بھی دستیاب ہے جس کا مطالعہ کرلیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ شرک کی حقیقت اور اس کی اقسام کیا ہیں ؟ ماضی میں شرک کی کیا صورتیں تھیں اور آج کے دور کا سب سے بڑا شرک کون سا ہے ؟ شرک فی الذات کیا ہے ؟ شرک فی الصفات کیا ہے ؟ شرک فی الحقوق کیا ہے ؟ نظریاتی شرک کیا ہے ؟ سائنس میں یہ شرک کس طور سے آیا ہے ؟ قوم پرستی ‘ مادہ پرستی ‘ نفس پرستی اور دولت پرستی کس اعتبار سے شرک کے زمرے میں آتی ہے ؟ کون کون سے بڑے شرک ہیں جن میں آج ہمارے ملوث ہونے کا امکان ہے ؟ شرک کے بارے میں یہ تمام تفصیلات جاننا ایک بندۂ مسلمان کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔

أَفَأَمِنُوا أَنْ تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ أَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

📘 آیت 106 وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ باللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ یہ آیت ہمارے لیے بہت زیادہ لائق توجہ ہے اور ہم سب کو اس پر بہت غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے۔ شرک کا معاملہ ان لوگوں کا تو بالکل واضح ہے جو ایک اللہ کے ساتھ بیشمار دوسرے معبودوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مختلف ناموں سے ان کی پوجا کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ خود کو موحد سمجھتے ہیں اور اپنے خیال میں وہ امکانی حد تک موحد ہوتے بھی ہیں ‘ بسا اوقات غیر شعوری طور پر وہ بھی کسی نہ کسی نوع کے شرک میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے بڑی گہری بصیرت کی ضرورت ہے ‘ اور ایسی بصیرت اور ایسا علم حاصل کرنا ہر صاحب شعور مسلمان پر فرض ہے تاکہ وہ خود کو اس مہلک اور تباہ کن گناہ سے بچا سکے۔شرک کو قرآن مجید میں بدترین گناہ اور سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس گناہ کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سوررۃ النساء میں وہ آیت 48 اور 116 دو مرتبہ آئی ہے جس میں شرک کا ارتکاب کرنے والے فرد کے لیے معافی اور مغفرت کے کسی بھی امکان کو سختی سے رد کردیا گیا ہے : اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ اس اعتبار سے میں یہاں پر ایک دفعہ پھر ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ”حقیقت و اقسام شرک“ کے موضوع پر میری چھ گھنٹے کی تقاریر کی ریکارڈنگ آپ ضرور سنیں اب اسی نام سے کتاب بھی دستیاب ہے جس کا مطالعہ کرلیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ شرک کی حقیقت اور اس کی اقسام کیا ہیں ؟ ماضی میں شرک کی کیا صورتیں تھیں اور آج کے دور کا سب سے بڑا شرک کون سا ہے ؟ شرک فی الذات کیا ہے ؟ شرک فی الصفات کیا ہے ؟ شرک فی الحقوق کیا ہے ؟ نظریاتی شرک کیا ہے ؟ سائنس میں یہ شرک کس طور سے آیا ہے ؟ قوم پرستی ‘ مادہ پرستی ‘ نفس پرستی اور دولت پرستی کس اعتبار سے شرک کے زمرے میں آتی ہے ؟ کون کون سے بڑے شرک ہیں جن میں آج ہمارے ملوث ہونے کا امکان ہے ؟ شرک کے بارے میں یہ تمام تفصیلات جاننا ایک بندۂ مسلمان کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔

قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

📘 آیت 108 قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ 7 عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ یعنی میرا اس راستے کو اختیار کرنا اور پھر اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا یونہی کوئی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف نہیں ہے بلکہ میں اپنی بصیرت باطنی کے ساتھ پوری سوجھ بوجھ اور پورے شعور کے ساتھ اس راستے پر خود بھی چل رہا ہوں اور اس راستے کی طرف دوسروں کو بھی بلا رہا ہوں۔ اسی طرح میرے پیروکار بھی کوئی اندھے بہرے مقلد نہیں ہیں بلکہ پورے شعور کے ساتھ میری پیروی کر رہے ہیں۔آج کے دور میں اس شعوری ایمان کی بہت ضرورت ہے۔ اگرچہ blind faith بھی اپنی جگہ بہت قیمتی چیز ہے اور یہ بھی انسان کی زندگی اور زندگی کی اقدار میں انقلاب لاسکتا ہے ‘ لیکن آج ضرورت چونکہ نظام بدلنے کی ہے اور نظام پر معاشرے کے intelligentsia کا تسلط ہے اس لیے جب تک اس طبقے کے اندر شعور اور بصیرت والا ایمان پیدا نہیں ہوگا یہ نظام تبدیل نہیں ہوسکتا۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۗ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

📘 آیت 109 وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰىیعنی آپ سے پہلے مختلف ادوار میں اور مختلف علاقوں میں جو انبیاء و رسل آئے وہ سب آدمی ہی تھے اور ان ہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے۔اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ یہ انہی اقوام کے انجام کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر انباء الرسل کے تحت قرآن میں بار بار آیا ہے۔ وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّـلَّذِيْنَ اتَّقَوْا ۭاَفَلَا تَعْقِلُوْنَ اگلی آیت مشکلات القرآن میں سے ہے اور اس کے بارے میں بہت سی آراء ہیں۔ میرے نزدیک جو رائے صحیح تر ہے صرف وہ یہاں بیان کی جا رہی ہے۔

قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ

📘 آیت 10 قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ یہ شریف النفس انسان ان کے سب سے بڑے بھائی تھے جنہوں نے یہ مشورہ دیا۔ ان کا نام یہودا تھا اور انہی کے نام پر لفظ ”یہودی“ بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ تو اس سے پیچھا چھڑانے کا ہے لہٰذا ضروری نہیں کہ قتل جیسا گناہ کر کے ہی یہ مقصد حاصل کیا جائے اس کے لیے کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔وَاَلْقُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّـيَّارَةِ پرانے زمانے کے کنویں کی ایک خاص قسم کو باؤلی کہا جاتا تھا اس کا منہ کھلا ہوتا تھا لیکن گہرائی میں یہ تدریجاً تنگ ہوتا جاتا تھا۔ پانی کی سطح کے قریب اس کی دیوار میں طاقچے سے بنائے جاتے تھے۔ اس طرح کی باؤلیاں پرانے زمانے میں قافلوں کے راستوں پر بنائی جاتی تھیں۔ چناچہ اس مشورے پر عمل کی صورت میں قوی امکان تھا کہ کسی قافلے کا ادھر سے گزر ہوگا اور قافلے والے یوسف کو باؤلی سے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ بڑے بھائی کے اس مشورے کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ اس طرح کم از کم یوسف کی جان بچ جائے گی اور ہم بھی اس کے خون سے ہاتھ رنگنے کے جرم کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ جب نو بھائی اس بات پر پوری طرح تلُ گئے کہ یوسف سے بہرحال چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو دسواں بھائی ان کو اس حرکت سے بالکل منع تو نہیں کرسکا لیکن اس نے کوشش کی کہ کم از کم وہ لوگ یوسف کو قتل کرنے سے باز رہیں۔

حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَنْ نَشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ

📘 آیت 110 حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ یعنی متعلقہ قوم میں جس قدر فطرت سلیمہ کی استعداد potential تھی اس لحاظ سے نتائج سامنے آچکے۔ ان میں سے جن لوگوں نے ایمان لانا تھا وہ ایمان لا چکے اور مزید کسی کے ایمان لانے کی توقع نہ رہی۔ بالفاظ دیگر اس چاٹی میں سے جس قدر مکھن نکلنا تھا نکل چکا ‘ اب اسے مزید بلونے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا۔وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْایہاں ظَنُّوْٓا کا فاعل متعلقہ قوم کے لوگ ہیں ‘ یعنی اب تک جو لوگ ایمان نہیں لائے تھے وہ مزید دلیر ہوگئے۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ سب کچھ واقعی جھوٹ تھا۔ کیونکہ اگر سچ ہوتا تو اتنے عرصے سے ہمیں جو عذاب کی دھمکیاں مل رہی تھیں وہ پوری ہوجاتیں۔ ہم ایمان بھی نہیں لائے اور عذاب بھی نہیں آیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کا دعویٰ اور عذاب کے یہ ڈراوے سب جھوٹ ہی تھا۔جَاۗءَهُمْ نَصْرُنَایعنی انبیاء و رسل کی دعوت اور حق و باطل کی کشمکش کے دوران ہمیشہ ایسا ہوا کہ جب دونوں طرف کی سوچ اپنی اپنی آخری حد تک پہنچتی پیغمبر سمجھتے کہ اب مزید کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا اور منکرین سمجھتے کہ اب کوئی عذاب وغیرہ نہیں آئے گا یہ سب ڈھونگ تھا تو عین ایسے موقع پر نبیوں اور رسولوں کے پاس ہماری طرف سے مدد پہنچ جاتی۔فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُـنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ یعنی اپنے انبیاء ورسل کے لیے ہماری یہ مدد منکرین حق پر عذاب کی صورت میں آتی اور اس عذاب سے جسے ہم چاہتے بچا لیتے ‘ لیکن اس سلسلے کی اٹل حقیقت یہ ہے کہ ایسے موقع پر مجرمین پر ہمارا عذاب آکر ہی رہتا ہے۔ ان کی طرف سے اس کا رخ کسی طور سے موڑا نہیں جاسکتا۔

لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

📘 مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ یعنی یہ واقعات تورات میں بھی ہیں اور قرآن انہی واقعات کی تصدیق کررہا ہے۔ حضرت یوسف کے قصے کے سلسلے میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے بہت عمدگی کے ساتھ تورات اور قرآن کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے ‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے حسن بیان اور اس کے حکیمانہ انداز کا معیار اس قدر بلند ہے کہ تورات میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل تورات تو گم ہوگئی تھی۔ بعد میں حافظے کی مدد سے جو تحریریں مرتب کی گئیں ان میں ظاہر ہے وہ معیار تو پیدا نہیں ہوسکتا تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تورات میں تھا۔وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ یعنی وہ علم جو اس دنیا میں انسان کے لیے ضروری ہے اور وہ راہنمائی جو دنیوی زندگی میں اسے درکار ہے سب کچھ اس قرآن میں موجود ہے۔

أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

📘 آیت 12 اَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَّرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ انہوں نے کہا کہ ہم کل شکار پر جا رہے ہیں آپ یوسف کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیجیے۔ وہاں یہ درختوں سے پھل وغیرہ کھائے گا اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا۔ آپ اس کی طرف سے بالکل فکر مند نہ ہوں ہم اس کی حفاظت کریں گے۔

قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَنْ يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ

📘 آیت 13 قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ وہ تمہارے ساتھ چلا جائے پھر تم لوگ اپنی مصروفیات میں منہمک ہوجاؤ اس طرح وہ جنگل میں اکیلا رہ جائے اور کوئی بھیڑیا اسے پھاڑ کھائے۔

قَالُوا لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ

📘 آیت 14 قَالُوْا لَىِٕنْ اَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے جیسے دس کڑیل جوانوں کے ہوتے ہوئے اسے بھیڑیا کھاجائے ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں۔

فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

📘 آیت 15 فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ یہاں پر اَجْمَعُوْٓا کے بعد عَلٰی کا صلہ محذوف ہے یعنی اس منصوبے پر وہ سب کے سب جمع ہوگئے انہوں نے اس رائے پر اتفاق کرلیا۔وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ یہ بات الہام کی صورت میں حضرت یوسف کے دل میں ڈالی گئی ہوگی کیونکہ ابھی آپ کی عمر نبوت کی تو نہیں تھی کہ باقاعدہ وحی ہوتی۔ بہر حال آپ پر یہ الہام کیا گیا کہ ایک دن تم اپنے ان بھائیوں کو یہ بات اس وقت جتلاؤ گے جب انہیں اس کا خیال بھی نہیں ہوگا۔ اس چھوٹے سے فقرے میں جو بلاغت ہے اس کا جواب نہیں۔ چند الفاظ کے اندر حضرت یوسف کی تسلی کے لیے گویا پوری داستان بیان کردی گئی ہے کہ تمہاری جان کو خطرہ نہیں ہے تم نہ صرف اس مشکل صورت حال سے نکلنے میں کامیاب ہوجاؤ گے بلکہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب تم اس قابل ہو گے کہ اپنے ان بھائیوں کو ان کا یہ سلوک جتلا سکو۔

وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ

📘 آیت 15 فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ یہاں پر اَجْمَعُوْٓا کے بعد عَلٰی کا صلہ محذوف ہے یعنی اس منصوبے پر وہ سب کے سب جمع ہوگئے انہوں نے اس رائے پر اتفاق کرلیا۔وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ یہ بات الہام کی صورت میں حضرت یوسف کے دل میں ڈالی گئی ہوگی کیونکہ ابھی آپ کی عمر نبوت کی تو نہیں تھی کہ باقاعدہ وحی ہوتی۔ بہر حال آپ پر یہ الہام کیا گیا کہ ایک دن تم اپنے ان بھائیوں کو یہ بات اس وقت جتلاؤ گے جب انہیں اس کا خیال بھی نہیں ہوگا۔ اس چھوٹے سے فقرے میں جو بلاغت ہے اس کا جواب نہیں۔ چند الفاظ کے اندر حضرت یوسف کی تسلی کے لیے گویا پوری داستان بیان کردی گئی ہے کہ تمہاری جان کو خطرہ نہیں ہے تم نہ صرف اس مشکل صورت حال سے نکلنے میں کامیاب ہوجاؤ گے بلکہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب تم اس قابل ہو گے کہ اپنے ان بھائیوں کو ان کا یہ سلوک جتلا سکو۔

قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ

📘 آیت 17 قَالُوْا يٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَاہم نے اپنا اضافی سامان اکٹھا کر کے ایک جگہ رکھا اور اس سامان کے پاس ہم نے یوسف کو چھوڑ دیا تھا۔ خود ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرتے ہوئے دور نکل گئے۔

وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ

📘 قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًاان کی بات سن کر حضرت یعقوب نے فرمایا کہ نہیں بات کچھ اور ہے۔ یہ بات جو تم بتا رہے ہو یہ تو تمہارے جی کی گھڑی ہوئی ایک بات ہے۔ تمہارے نفسوں نے تمہارے لیے ایک بڑی بات کو ہلکا کر کے پیش کیا ہے اور تم لوگوں نے کوئی بہت بڑا غلط اقدام کیا ہے۔فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ حضرت یعقوب اکیلے تھے بوڑھے تھے اور دوسری طرف دس جوان بیٹے اس صورت حال میں اور کیا کہتے ؟

وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 19 وَجَاۗءَتْ سَيَّارَةٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَهُمْ جب قافلے چلتے تھے تو ایک آدمی قافلے کے آگے آگے چلتا تھا۔ وہ قافلے کے پڑاؤ کے لیے جگہ کا انتخاب کرتا اور پانی وغیرہ کے انتظام کا جائزہ لیتا۔ قافلے والوں نے اس ڈیوٹی پر مامور شخص کو بھیجا کہ وہ جا کر پانی کا کھوج لگائے۔ اس شخص نے باؤلی دیکھی تو پانی نکالنے کی تدبیر کرنے لگا۔فَاَدْلٰى دَلْوَهٗ حضرت یوسف نے اس کے ڈول کو پکڑ لیا۔ اس نے جب ڈول کھینچا اور حضرت یوسف کو دیکھا تو :قَالَ يٰبُشْرٰي ھٰذَا غُلٰمٌ ۭ وَاَسَرُّوْهُ بِضَاعَةً کہ بہت خوبصورت لڑکا ہے بیچیں گے تو اچھے دام ملیں گے۔

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

📘 آیت 2 اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّایعنی وہ قرآن جو اُمّ الکتاب اور لوح محفوظ میں ہمارے پاس ہے ‘ اس کو ہم نے قرآن عربی بنا کر محمد رسول اللہ پر نازل کیا ہے۔لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ یہ خطاب عرب کے امیینّ سے ہے کہ ہمارے آخری رسول کی اوّلین بعثت تمہاری طرف ہوئی ہے۔ آپ کے مخاطبین اولین تم لوگ ہو۔ چناچہ ہم نے قرآن کو تمہاری اپنی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ اسے اچھی طرح سمجھ سکو۔

وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ

📘 آیت 20 وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍ ۚ وَكَانُوْا فِيْهِ مِنَ الزَّاهِدِيْنَ اگرچہ انہوں نے حضرت یوسف کو مال تجارت سمجھ کر چھپایا تھا ‘ مگر مصر پہنچ کر بالکل ہی معمولی قیمت پر فروخت کردیا۔ اس زمانے میں درہم ایک دینار کا چوتھا حصہ ہوتا تھا۔ گویا انہوں نے چندّ چونیوں کے عوض آپ علیہ السلام کو بیچ دیا۔ اس لیے کہ آپ علیہ السلام کے بارے میں اس وقت تک انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں ‘ ایک تو آپ علیہ السلام ان کے لیے مفت کا مال تھے جس پر ان لوگوں کا کوئی سرمایہ وغیرہ نہیں لگا تھا ‘ لہٰذا جو مل گیا انہوں نے اسے غنیمت جانا۔ دوسرے ان لوگوں کو آپ علیہ السلام کی طرف سے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ لڑکے کے وارث آکر کہیں اسے پہچان نہ لیں اور ان پر چوری کا الزام نہ لگ جائے۔ لہٰذا وہ جلد از جلد آپ علیہ السلام کے معاملے سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔

وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 21 وَقَالَ الَّذِي اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لامْرَاَتِهٖٓ اَكْرِمِيْ مَثْوٰىهُ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًاوہ شخص مصر کی حکومت میں بہت اعلیٰ منصب عزیز مصر پر فائز تھا۔ حضرت یوسف کو بیٹا بنانے کی خواہش سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس کے ہاں اولاد نہیں تھی۔وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے یوسف کو اس دور کی متمدن ترین مملکت میں پہنچا دیا اور وہاں آپ کی رہائش کا بندوبست بھی کیا تو کسی جھونپڑی میں نہیں بلکہ ملک کے ایک بہت بڑے صاحب حیثیت شخص کے گھر میں اور وہ بھی محض ایک غلام کے طور پر نہیں بلکہ خصوصی عزت و اکرام کے انداز میں۔وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ یعنی عزیز مصر کے گھر میں آپ کو جگہ بنا کردینے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہاں آپ کو ”معاملہ فہمی“ کی تربیت فراہم کی جائے۔ عزیز مصر کا گھر ایک طرح کا سیکریٹریٹ ہوگا جہاں آئے دن انتہائی اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوتے ہوں گے اور قومی و بین الاقوامی نوعیت کے انتہائی اہم امور پر بحث و تمحیص کے بعد فیصلے کیے جاتے ہوں گے اور حضرت یوسف کو ان تمام سرگرمیوں کا بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کے مواقع میسر آتے ہوں گے۔ اس طرح بہت اعلیٰ سطح کی تعلیم و تربیت کا ایک انتظام تھا جو حضرت یوسف کے لیے یہاں پر کردیا گیا۔وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِهٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ اللہ تعالیٰ اپنے ارادے کی تنفیذ پر غالب ہے وہ اپنا کام کر کے رہتا ہے۔

وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ

📘 وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ حکم اور علم سے مراد نبوت ہے۔ حکم کے معنی قوت فیصلہ کے بھی ہیں اور اقتدار کے بھی۔ علم سے مراد علم وحی ہے۔

وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ

📘 آیت 23 وَرَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ یعنی عزیز مصر کی بیوی آپ پر فریفتہ ہوگئی۔ قرآن میں اس کا نام مذکور نہیں البتہ تورات میں اس کا نام زلیخا بتایا گیا ہے۔قَالَ مَعَاذ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ یہاں پر ”ربّ“ کے دونوں معنی لیے جاسکتے ہیں اللہ بھی اور آقا بھی۔ چناچہ اس فقرے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ اللہ میرا رب ہے اور اس نے میرے لیے بہت اچھے ٹھکانے کا انتظام کیا ہے میں اس کی نافرمانی کا کیسے سوچ سکتا ہوں ! دوسرے معنی میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کا خاوند میرا آقا ہے وہ میرا محسن اور مربی بھی ہے اس نے مجھے اپنے گھر میں بہت عزت و اکرام سے رکھا ہے اور میں اس کی خیانت کر کے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاؤں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا ! یہ دوسرا مفہوم اس لیے بھی زیادہ مناسب ہے کہ ”رب“ کا لفظ اس سورت میں آقا اور بادشاہ کے لیے متعدد بار استعمال ہوا ہے۔

وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ

📘 آیت 24 وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ حضرت یوسف جوان تھے اور ممکن تھا طبع بشری کی بنیاد پر آپ کے دل میں بھی کوئی ایسا خیال جنم لیتا مگر اللہ نے اس نازک موقع پر آپ کی خصوصی مدد فرمائی اور اپنی خصوصی نشانی دکھا کر آپ کو کسی منفی خیال سے محفوظ رکھا۔ یہ نشانی کیا تھی اس کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں البتہ تورات میں اس کی وضاحت یوں بیان کی گئی ہے کہ عین اس موقع پر حضرت یعقوب کی شکل دیوار پر ظاہر ہوئی اور آپ نے انگلی کا اشارہ کر کے حضرت یوسف کو باز رہنے کے لیے کہا۔كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ یعنی ہم نے اپنی نشانی دکھا کر حضرت یوسف سے برائی اور بےحیائی کا رخ پھیر دیا اور یوں آپ کی عصمت و عفت کی حفاظت کا خصوصی اہتمام کیا۔اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ واضح رہے کہ یہاں لفظ مُخْلَص لام کی زبر کے ساتھ آیا ہے۔ مُخلِص اور مخلص کے فرق کو سمجھ لیجیے۔ مُخلِص اسم الفاعل ہے یعنی خلوص و اخلاص سے کام کرنے والا اور مخلص وہ شخص ہے جس کو خالص کرلیا گیا ہو۔ اللہ کے مخلص وہ ہیں جن کو اللہ نے اپنے لیے خالص کرلیا ہو ‘ یعنی اللہ کے خاص برگزیدہ اور چہیتے بندے۔

وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَنْ يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 25 وَاسْتَبَقَا الْبَابَ یعنی حضرت یوسف نے جب دیکھا کہ اس عورت کی نیت خراب ہے اور اس پر شیطنت کا بھوت سوار ہے تو آپ اس سے بچنے کے لیے دروازے کی طرف لپکے اور آپ کے پیچھے وہ بھی بھاگی تاکہ آپ کو قابو کرسکے۔وَقَدَّتْ قَمِيْصَهٗ مِنْ دُبُرٍ آپ کو دوڑتے ہوئے دیکھ کر اس عورت نے آپ کی طرف تیزی سے لپک کر پیچھے سے آپ کو پکڑنے کی کوشش کی تو آپ کی قمیص اس کے ہاتھ میں آکر پھٹ گئی۔وَّاَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا الْبَابِ اس عورت نے لازماً ایسے وقت کا انتخاب کیا ہوگا جب اس کا خاوند گھر سے باہر تھا اور اس کے جلد گھر آنے کا امکان نہیں تھا ‘ مگر جونہی وہ دونوں آگے پیچھے دروازے سے باہر نکلے تو غیر متوقع طور پر اس کا خاوند عین دروازے پر کھڑا تھا۔ قَالَتْ مَا جَزَاۗءُ مَنْ اَرَادَ بِاَهْلِكَ سُوْۗءًا اِلَّآ اَنْ يُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِيْمٌاپنے خاوند کو دیکھتے ہی اس عورت نے فوراً پینترا بدلا اور اس کی غیرت کو للکارتے ہوئے بولی کہ اس لڑکے نے مجھ پر دست درازی کی ہے اور میں نے بڑی مشکل سے خود کو بچایا ہے۔ اب اس سے آپ ہی سمجھیں اور اسے کوئی عبرت ناک سزا دیں۔

قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا إِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ

📘 آیت 26 قَالَ هِىَ رَاوَدَتْنِيْ عَنْ نَّفْسِيْ صورت حال بہت نازک اور خطرناک رخ اختیار کرچکی تھی۔ حضرت یوسف کو بھی اپنے دفاع میں کچھ نہ کچھ تو کہنا تھا۔ لہٰذا آپ نے صاف صاف بتادیا کہ خود اس عورت نے مجھے گناہ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَااس عورت کے اپنے رشتہ داروں میں سے بھی کوئی شخص موقع پر آپہنچا۔ اس نے موقع محل دیکھ کر وقوعہ کے بارے میں بڑی مدلل اور خوبصورت قرائنی شہادت circumstancial evidence دی کہ :اِنْ كَانَ قَمِيْصُهٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ اگر عورت سے دست درازی کی کوشش ہو رہی تھی اور وہ اپنا تحفظ کر رہی تھی تو ظاہر ہے کہ حملہ آور کی قمیص سامنے سے پھٹنی چاہیے۔

وَإِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِينَ

📘 آیت 27 وَاِنْ كَانَ قَمِيْصُهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ اس عادلانہ اور حکیمانہ گواہی سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں اس معاشرے میں بہت سی خرابیاں تھیں جن میں سے کچھ کا ذکر آگے آئے گا وہاں اس گواہی دینے والے شخص جیسے حق گو اور انصاف پسند لوگ بھی موجود تھے جس نے قرابت دار ہوتے ہوئے بھی حق اور انصاف کی بات کی۔

فَلَمَّا رَأَىٰ قَمِيصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ كَيْدِكُنَّ ۖ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ

📘 فَلَمَّا رَاٰ قَمِيْصَهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّهٗ مِنْ كَيْدِكُنَّ ۭ اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌپھر عزیز مصر نے حضرت یوسف سے کہا :

يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَا ۚ وَاسْتَغْفِرِي لِذَنْبِكِ ۖ إِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ

📘 آیت 29 يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَااس کے بعد وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا اور بولا :

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ

📘 آیت 3 نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ قَصَص ق کی زبر کے ساتھ یہاں بطور مصدر آیا ہے اور اس کے معنی ہیں ”بیان“۔ اگر لفظ قِصَص ق کی زیر کے ساتھ ہوتا تو قصہ کی جمع کے معنی دیتا ‘ اور اس صورت میں اس کا ترجمہ یوں ہوتا کہ ہم آپ کو بہترین قصہ سنا رہے ہیں۔ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ہٰذَا الْقُرْاٰنَق وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ یعنی قرآن میں اس وحی سورت کے نزول سے پہلے آپ اس واقعہ سے واقف نہیں تھے۔

۞ وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 اِنَّا لَنَرٰىهَا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ اس کا اپنے غلام کے ساتھ اس طرح کا معاملہ ! یہ تو بہت ہی گھٹیا بات ہے !

فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ

📘 آیت 31 فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ عزیز مصر کی بیوی نے جب سنا کہ شہر میں اس کے خلاف اس طرح کے چرچے ہو رہے ہیں اور مصر کی عورتیں ایسی طعن آمیز باتیں کر رہی ہیں تو اس نے بھی جوابی کارروائی کا منصوبہ بنا لیا۔ یہ اس معاشرے کے انتہائی اعلیٰ سطح کے لوگوں کی بات تھی اور اس کا چرچا بھی اسی سطح پر ہو رہا تھا۔ اسے بھی اپنے ارد گرد سب لوگوں کے کردار کا پتا تھا کہاں کیا خرابی ہے اور کس کے ہاں کتنی گندگی ہے وہ سب جانتی تھی۔ چناچہ اس نے اس اعلیٰ سوسائٹی کے اجتماعی کردار کا بھانڈا بیچ چورا ہے میں پھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔اَرْسَلَتْ اِلَيْهِنَّ وَاَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَاً اس نے کھانے کی ایک پر تکلف تقریب کا اہتمام کیا جس میں مہمان عورتوں کے لیے گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے۔وَّاٰتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّيْنًاکھانے کی چیزوں میں پھل وغیرہ بھی ہوں گے ‘ چناچہ ہر مہمان عورت کے سامنے ایک ایک چھری بھی رکھ دی گئی۔وَقَطَّعْنَ اَيْدِيَهُنَّ عورتوں نے جب پاکیزگی اور تقدس کا پیکر ایک جوان رعنا اپنے سامنے کھڑا دیکھاتو مبہوت ہو کر رہ گئیں۔ سب کی سب آپ کے حسن و جمال پر ایسی فریفتہ ہوئیں کہ اپنے اپنے ہاتھ زخمی کرلیے۔ ممکن ہے کسی ایک عورت کا ہاتھ تو واقعی عالم حیرت و محویت میں کٹ گیا ہو اور اس کی طرف حضرت یوسف بحیثیت خادم کے متوجہ ہوئے ہوں کہ خون صاف کر کے پٹی وغیرہ کردیں اور یہ دیکھ کر باقی سب نے بھی اپنی اپنی انگلیاں دانستہ کاٹ لی ہوں کہ اس طرح یہی التفات انہیں بھی ملے گا۔ قَطَّعَباب تفعیل ہے ‘ جس میں کسی کام کو پورے اہتمام اور ارادے سے کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں۔

قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِنْ لَمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِنَ الصَّاغِرِينَ

📘 وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُهٗ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ اس عورت کا دھڑلے سے خصوصی دعوت کا اہتمام کرنا اور اس میں سب کو فخر سے بتانا کہ دیکھ لو یہ ہے وہ شخص جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں اور پھر پوری بےحیائی سے اعلان کرنا کہ ایک دفعہ تو یہ مجھ سے بچ گیا ہے مگر کب تک ؟ آخر کار اسے میری بات ماننا ہوگی ! اس سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان کی اس انتہائی اونچی سطح کی سوسائٹی کی مجموعی طور پر اخلاقی حالت کیا تھی !

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجَاهِلِينَ

📘 وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُهٗ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ اس عورت کا دھڑلے سے خصوصی دعوت کا اہتمام کرنا اور اس میں سب کو فخر سے بتانا کہ دیکھ لو یہ ہے وہ شخص جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں اور پھر پوری بےحیائی سے اعلان کرنا کہ ایک دفعہ تو یہ مجھ سے بچ گیا ہے مگر کب تک ؟ آخر کار اسے میری بات ماننا ہوگی ! اس سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان کی اس انتہائی اونچی سطح کی سوسائٹی کی مجموعی طور پر اخلاقی حالت کیا تھی !

فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُهٗ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ اس عورت کا دھڑلے سے خصوصی دعوت کا اہتمام کرنا اور اس میں سب کو فخر سے بتانا کہ دیکھ لو یہ ہے وہ شخص جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں اور پھر پوری بےحیائی سے اعلان کرنا کہ ایک دفعہ تو یہ مجھ سے بچ گیا ہے مگر کب تک ؟ آخر کار اسے میری بات ماننا ہوگی ! اس سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان کی اس انتہائی اونچی سطح کی سوسائٹی کی مجموعی طور پر اخلاقی حالت کیا تھی !

ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآيَاتِ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّىٰ حِينٍ

📘 آیت 35 ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰيٰتِ لَيَسْجُنُنَّهٗ حَتّٰي حِيْنٍ اس تقریب میں جو کچھ ہوا اس معاملے کو پوشیدہ رکھنا ممکن نہیں تھا چناچہ ارباب اختیار نے جب یہ سارے حالات دیکھے تو انہیں عافیت اور مصلحت اسی میں نظر آئی کہ حضرت یوسف کو وقتی طور پر منظر سے ہٹا دیا جائے اور اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ کچھ عرصے کے لیے انہیں جیل میں ڈال دیا جائے۔

وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ

📘 آیت 36 وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ جب حضرت یوسف کو جیل بھیجا گیا تو اتفاقاً اسی موقع پر دو اور قیدی بھی آپ کے ساتھ جیل میں داخل کیے گئے۔نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِهٖ ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ دوسرے قیدیوں سے بالکل مختلف ہیں۔ آپ اعلیٰ اخلاق اور قابل رشک کردار کے مالک ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آپ ہمارے خوابوں کے سلسلے میں ضرور ہماری راہنمائی فرمائیں گے۔

قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي ۚ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ

📘 آیت 37 قَالَ لَا يَاْتِيْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖٓ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِيْـلِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّاْتِيَكُمَاجیل میں قیدیوں کے کھانے کے اوقات مقرر ہوں گے۔ آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ اب تعبیر کے بارے میں فکر مت کرو ‘ وہ تو میں کھانا آنے سے پہلے پہلے آپ لوگوں کو بتادوں گا لیکن میں تم لوگوں سے اس کے علاوہ بھی بات کرنا چاہتا ہوں ‘ لہٰذا اس وقت تم لوگ میری بات سنو۔ حضرت یوسف کا یہ طریقہ ایک داعی حق کے لیے راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ ایک داعی کی ہر وقت یہ کوشش ہونی چاہیے کہ تبلیغ کے لیے حق بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے جب اور جہاں موقع میسر آئے اس سے فائدہ اٹھائے۔ چناچہ حضرت یوسف نے دیکھا کہ لوگ میری طرف خود متوجہ ہوئے ہیں تو آپ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان کی حاجت کو مؤخر کرکے پہلے انہیں پیغامِ حق پہنچانا ضروری سمجھا۔ ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ آپ نے انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی بات شروع کی اور خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا تعارف کرایا کہ یہ علم مجھے میرے رب نے سکھایا ہے اس میں میرا اپنا کوئی کمال نہیں ہے۔

وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِكَ بِاللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ

📘 آیت 38 وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَاۗءِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ آپ کی اس بات سے موروثی اور شعوری عقائد کا فرق سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی ایک تو وہ عقائد و نظریات ہیں جو بچہ اپنے والدین سے اپناتا ہے ‘ جیسے ایک مسلمان گھرانے میں بچے کو موروثی طور پر اسلام کے عقائد ملتے ہیں۔ اللہ اور رسول کا نام وہ بچپن ہی سے جانتا ہے ‘ ابتدائی کلمے اس کو پڑھا دیے جاتے ہیں ‘ نماز بھی سکھا دی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد اپنے آزادانہ انتخاب کے نتیجے میں اپنے علم اور غور و فکر سے کوئی عقیدہ اختیار کرے گا تو وہ اس کا شعوری عقیدہ ہوگا۔ چناچہ حضرت یوسف نے اپنے اس شعوری عقیدے کا ذکر کیا کہ اگرچہ وہ جن لوگوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں وہ اللہ اس کے کسی نبی اور وحی وغیرہ کے تصورات سے نابلد ہیں ‘ سب کے سب کافر اور مشرک ہیں مگر مجھے دیکھو میں نے اس ماحول کا اثر قبول نہیں کیا اپنے ارد گرد کے لوگوں کے نظریات و عقائد نہیں اپنائے بلکہ پورے شعور کے ساتھ اپنے آباء و اَجداد کے نظریات کو صحیح مانتے ہوئے ان کی پیروی کر رہا ہوں صرف اس لیے نہیں کہ وہ میرے آباء و اَجداد تھے ‘ بلکہ اس لیے کہ یہی راستہ میرے نزدیک معقول اور عقل سلیم کے قریب تر ہے۔ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا وَعَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ یعنی شرک سے بچنے اور توحید کو اپنانے کا عقیدہ دراصل اللہ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا فضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس حیثیت میں انسان کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کی پرستش کرتا پھرے جنہیں خود اس کی خدمت اور استفادے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ

📘 آیت 38 وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَاۗءِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ آپ کی اس بات سے موروثی اور شعوری عقائد کا فرق سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی ایک تو وہ عقائد و نظریات ہیں جو بچہ اپنے والدین سے اپناتا ہے ‘ جیسے ایک مسلمان گھرانے میں بچے کو موروثی طور پر اسلام کے عقائد ملتے ہیں۔ اللہ اور رسول کا نام وہ بچپن ہی سے جانتا ہے ‘ ابتدائی کلمے اس کو پڑھا دیے جاتے ہیں ‘ نماز بھی سکھا دی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد اپنے آزادانہ انتخاب کے نتیجے میں اپنے علم اور غور و فکر سے کوئی عقیدہ اختیار کرے گا تو وہ اس کا شعوری عقیدہ ہوگا۔ چناچہ حضرت یوسف نے اپنے اس شعوری عقیدے کا ذکر کیا کہ اگرچہ وہ جن لوگوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں وہ اللہ اس کے کسی نبی اور وحی وغیرہ کے تصورات سے نابلد ہیں ‘ سب کے سب کافر اور مشرک ہیں مگر مجھے دیکھو میں نے اس ماحول کا اثر قبول نہیں کیا اپنے ارد گرد کے لوگوں کے نظریات و عقائد نہیں اپنائے بلکہ پورے شعور کے ساتھ اپنے آباء و اَجداد کے نظریات کو صحیح مانتے ہوئے ان کی پیروی کر رہا ہوں صرف اس لیے نہیں کہ وہ میرے آباء و اَجداد تھے ‘ بلکہ اس لیے کہ یہی راستہ میرے نزدیک معقول اور عقل سلیم کے قریب تر ہے۔ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا وَعَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ یعنی شرک سے بچنے اور توحید کو اپنانے کا عقیدہ دراصل اللہ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا فضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس حیثیت میں انسان کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کی پرستش کرتا پھرے جنہیں خود اس کی خدمت اور استفادے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ

📘 آیت 4 اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ حضرت یعقوب کی بڑی بیوی سے آپ کے دس بیٹے تھے اور وہ سب کے سب اس وقت تک جوانی کی عمر کو پہنچ چکے تھے ‘ جبکہ آپ کے دو بیٹے یوسف اور بن یا مین آپ کی چھوٹی بیوی سے تھے۔ ان میں حضرت یوسف بڑے تھے مگر ابھی یہ دونوں ہی کم سن تھے۔

مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

📘 مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ قانون بنانے اور اس کے مطابق حکم چلانے کا اختیار صرف اللہ کا ہے۔

يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ۖ وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَأْسِهِ ۚ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ

📘 آیت 41 يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًایہاں پر رب کا لفظ بادشاہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یہ اس شخص کے خواب کی تعبیر ہے جس نے خود کو شراب کشید کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ شخص پہلے بھی بادشاہ کا ساقی تھا مگر اس پر کوئی الزام لگا اور اسے جیل بھیج دیا گیا۔ حضرت یوسف نے خبر دے دی کہ اس کے خواب کے مطابق وہ اس الزام سے بری ہو کر اپنے پرانے عہدے پر بحال ہوجائے گا۔

وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِنْهُمَا اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ

📘 آیت 42 وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ یعنی تمہیں کبھی موقع ملے تو بادشاہ کو بتانا کہ جیل میں ایک ایسا قیدی بھی ہے جس کا کوئی قصور نہیں اور اسے خواہ مخواہ جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔فَاَنْسٰىهُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِيْنَ بِضْع کا لفظ عربی زبان میں دو سے لے کر نو تک دس سے کم کی تعداد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرَىٰ سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ ۖ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ إِنْ كُنْتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ

📘 آیت 43 وَقَالَ الْمَلِكُ اِنِّىْٓ اَرٰي سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ اب یہاں سے اس قصے کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے۔ اس وقت مصر پر فراعنہ کی حکومت نہیں تھی ‘ بلکہ وہاں چرواہے بادشاہ Hyksos Kings حکمران تھے۔ تاریخ میں اکثر ایسے واقعات ملتے ہیں کہ کچھ صحرائی قبیلوں نے قوت حاصل کر کے متمدن علاقوں پر چڑھائی کی پھر یا تو وہ لوٹ مار کر کے واپس چلے گئے یا ان علاقوں پر اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ ایسی ہی ایک مثال مصر کے چرواہے بادشاہوں کی ہے جو صحرائی قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے کسی زمانے میں مصر پر حملہ کیا اور مقامی لوگوں قبطی قوم کو غلام بنا کر وہاں اپنی حکومت قائم کرلی۔ یہاں جس بادشاہ کا ذکر ہے وہ اسی خاندان سے تھا۔ اس بادشاہ کے کردار اور رویے کی جو جھلک اس قصے میں دکھائی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگرچہ توحید و رسالت سے نا بلد تھا مگر ایک نیک سرشت انسان تھا۔

قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ ۖ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِينَ

📘 آیت 44 قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ ۚ وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِيْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِيْنَ بادشاہ کے خواب کو سن کر انہوں نے جواب دیا کہ یہ کوئی معنوی خواب نہیں ایسے ہی بےمعنی اور منتشر قسم کے خیالات ہیں جن کی ہم کوئی تعبیر نہیں کرسکتے۔ فرائڈ کا بھی یہی خیال ہے کہ خواب میں انسان اپنے شہوانی خیالات اور دوسری دبی ہوئی نفسانی خواہشات کی تسکین کرنا چاہتا ہے ‘ مگر اسلامی نکتہ نظر سے خواب تین قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم ”رویائے صادقہ“ کی ہے یعنی سچے خواب ‘ یہ اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور ایسے خوابوں کے بارے میں حضور نے فرمایا ہے کہ یہ نبوت کے اجزاء میں سے ہیں۔ دوسری قسم کے خواب وہ ہیں جو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان میں بعض اوقات شیاطینِ جن اپنی طرف سے خیالات انسانوں کے ذہنوں میں الہام بھی کرتے ہیں۔ تیسری قسم کے خواب وہ ہیں جن کا ذکر فرائڈ نے کیا ہے۔ یعنی انسان کے اپنے ہی خیالات منتشر انداز میں مختلف وجوہات کی بنا پر سوتے وقت انسان کے ذہن میں آتے ہیں اور ان میں کوئی معنی یا ربط ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

وَقَالَ الَّذِي نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ أَنَا أُنَبِّئُكُمْ بِتَأْوِيلِهِ فَأَرْسِلُونِ

📘 آیت 45 وَقَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ وہ شخص جیل سے رہا ہو کر پھر سے ساقی گری کر رہا تھا۔ اسے بادشاہ کے خواب کے ذکر سے اچانک حضرت یوسف یاد آگئے کہ ہاں جیل میں ایک شخص ہے جو خوابوں کی تعبیر بتانے میں بڑا ماہر ہے۔اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِيْـلِهٖ فَاَرْسِلُوْنِ اس طرح وہ شخص جیل میں حضرت یوسف کے پاس پہنچ کر آپ سے مخاطب ہوا :

يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ

📘 آیت 45 وَقَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ وہ شخص جیل سے رہا ہو کر پھر سے ساقی گری کر رہا تھا۔ اسے بادشاہ کے خواب کے ذکر سے اچانک حضرت یوسف یاد آگئے کہ ہاں جیل میں ایک شخص ہے جو خوابوں کی تعبیر بتانے میں بڑا ماہر ہے۔اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِيْـلِهٖ فَاَرْسِلُوْنِ اس طرح وہ شخص جیل میں حضرت یوسف کے پاس پہنچ کر آپ سے مخاطب ہوا :

قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوهُ فِي سُنْبُلِهِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تَأْكُلُونَ

📘 فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِيْ سُنْۢبُلِهٖٓ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ آپ نے صرف اس خواب کی تعبیر ہی نہیں بتائی بلکہ مسئلے کی تدبیر بھی بتادی اور تدبیر بھی ایسی جو شاہی مشیروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی تھی۔ آج کے سائنسی تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اناج کو محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے سٹوں کے اندر ہی رہنے دیا جائے اور ان سٹوں کو محفوظ کرلیا جائے۔ اس طرح سے اناج خراب نہیں ہوتا اور اسے کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کے لیے کسی اضافی preservative کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔

ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ

📘 آیت 48 ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌخوشحالی کے سات سالوں کے بعد سات سال تک خشک سالی کا سماں ہوگا جس کی وجہ سے ملک میں شدید قحط پڑجائے گا۔يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات سال تک ملک میں بہت خوشحالی ہوگی فصلیں بہت اچھی ہوں گی مگر ان سات سالوں کے بعد سات سال ایسے آئیں گے جن میں خشک سالی کے سبب شدید قحط پڑجائے گا۔ اس مسئلے کی تدبیر آپ نے یہ بتائی کہ پہلے سات سال کے دوران صرف ضرورت کا اناج استعمال کرنا اور باقی سٹوں کے اندر ہی محفوظ کرتے جانا اور جب قحط کا زمانہ آئے تو ان سٹوں سے نکال کر بقدر ضرورت اناج استعمال کرنا۔

ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ

📘 ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِيْهِ يُغَاث النَّاسُ وَفِيْهِ يَعْصِرُوْنَ جب خوب بارشیں ہوں گی تو انگور کی بیلیں خوب پھلیں پھولیں گی ‘ انگور کی پیداوار بھی خوب ہوگی ‘ لوگ خوب انگور نچوڑیں گے اور شراب کشید کریں گے۔

قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ

📘 آیت 5 قَالَ يٰبُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلٰٓي اِخْوَتِكَ حضرت یعقوب نے سمجھ لیا کہ اس خواب میں یوسف کے گیارہ بھائیوں اور ماں باپ کے بارے میں کوئی اشارہ ہے اور شاید اللہ تعالیٰ میرے اس بیٹے کے لیے کوئی خاص فضیلت ظاہر کرنے والا ہے۔فَیَکِیْدُوْا لَکَ کَیْدًاممکن ہے وہ لوگ خواب سن کر اس میں واضح اشارے کو بھانپ لیں تو ان کے اندر حسد کی آگ بھڑک اٹھے اور پھر وہ تمہارے خلاف کوئی سازش کریں ‘ تمہیں گزند پہنچانے کی کوشش کریں۔اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌوہ دشمنی میں کسی کو بھی کسی بھی وقت کوئی بھی پٹی پڑھا سکتا ہے۔

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ

📘 آیت 50 وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ بادشاہ اپنے خواب کی تعبیر اور پھر اس کی ایسی اعلیٰ تدبیر سن کر یقیناً بہت متاثر ہوا ہوگا اور اس نے سوچا ہوگا کہ ایسے ذہین فطین شخص کو جیل میں نہیں بلکہ بادشاہ کا مشیر ہونا چاہیے۔ چناچہ اس نے حکم دیا کہ اس قیدی کو فوراً میرے پاس لے کر آؤ۔فَلَمَّا جَاۗءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ بادشاہ کا پیغام لے کر جب قاصد آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا کہ میں اس طرح ابھی جیل سے باہر نہیں آنا چاہتا۔ پہلے پورے معاملے کی چھان بین کی جائے کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں جیل بھیجا گیا تھا۔ اگر مجھ پر کوئی الزام ہے تو اس کی مکمل تفتیش ہو اور اگر میرا کوئی قصور نہیں ہے تو مجھے علی الاعلان بےگناہ اور بری قرار دیا جائے۔ چناچہ آپ نے اس قاصد سے فرمایا کہ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤ :اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌبادشاہ تک یہ بات پہنچی تو اس نے سب بیگمات کو طلب کرلیا۔

قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدْتُنَّ يُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ

📘 قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوْۗءٍ اس وقت جو کچھ بھی ہوا تھا وہ سب ہماری طرف سے تھا ‘ یوسف علیہ السلام کی طرف سے کوئی غلط بات ہم نے محسوس نہیں کی۔قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ الْــٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ ۡ اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ اس طرح عزیز کی بیوی کو اس حقیقت کا برملا اظہار کرنا پڑا کہ یوسف علیہ السلام نے نہ تو زبان سے کوئی غلط بیانی کی ہے اور نہ ہی اس کے کردار میں کوئی کھوٹ ہے۔

ذَٰلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ

📘 آیت 52 ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْهُ بالْغَيْبِ یہ فقرہ سیاق عبارت میں کس کی زبان سے ادا ہوا ہے اس کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ اس لیے کہ اس فقرے کے موقع محل اور الفاظ میں متعدد امکانات کی گنجائش ہے۔ ان اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ یہ فقرہ عزیز کی بیوی کی زبان ہی سے ادا ہوا ہے کہ میں نے ساری بات اس لیے سچ سچ بیان کردی ہے تاکہ یوسف کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس سے کوئی غلط بات منسوب کر کے اس کی خیانت نہیں کی۔

۞ وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّيْ ۭ اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌاگر گزشتہ آیت میں نقل ہونے والے بیان کو عزیز مصر کی بیوی کا بیان مانا جائے تو اس صورت میں آیت زیر نظر بھی اسی کے کلام کا تسلسل قرار پائے گی اور اس کا ترجمہ وہی ہوگا جو اوپر کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ دراصل اس نظریے کے مطابق ہے جس کے تحت ہمارے بہت سے مفسرین اور قصہ گو حضرات نے مائی زُلیخا کو ولی اللہ کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ اور کچھ بعید بھی نہیں کہ اس کا عشق مجازی وقت کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی میں تبدیل ہوگیا ہو اور وہ حقیقتاً ہدایت پر آگئی ہو۔ بہر حال جو لوگ اس بات کو درست تسلیم کرتے ہیں وہ ان آیات کا ترجمہ اسی طرح کرتے ہیں ‘ کیونکہ اس نے اعتراف جرم کر کے توبہ کرلی تھی اور اس لحاظ سے مذکورہ مفسرین کا موقف یہ ہے کہ اعتراف گناہ سے لے کر آیت 53 کے اختتام تک اسی کا بیان ہے۔اس سلسلے میں دوسرا موقف جو دور حاضر کے زیادہ تر مفسرین نے اختیار کیا ہے یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی کا بیان اس آیت پر ختم ہوگیا ہے : اَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ اور اس کے بعد حضرت یوسف کا بیان نقل ہوا ہے۔ اس صورت میں آیت 52 اور 53 کا مفہوم یوں ہوگا کہ جب بادشاہ کی تفتیشی کارروائی اور عزیز مصر کی بیوی کے برملا اعتراف جرم کے بارے میں حضرت یوسف علیہ السلام کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سب کچھ سے میرا یہ مقصود نہیں تھا کہ کسی کی عزت و ناموس کا پردہ چاک ہو ‘ بلکہ میں تو چاہتا تھا کہ عزیز مصر یہ جان لے کہ اگر اس نے مجھے اپنے گھر میں عزت و اکرام سے رکھا تھا اور مجھ پر اعتماد کیا تھا تو میں نے بھی اس کی عدم موجودگی میں اس کی خیانت کر کے اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی ‘ اور میرا ایمان ہے کہ اللہ خیانت کرنے والوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔ باقی میں خود کو بہت پارسا نہیں سمجھتا بلکہ سمجھتا ہوں کہ نفس انسانی تو انسان کو برائی پر ابھارتا ہی ہے اور اس کے حملے سے صرف وہی بچ سکتا ہے جس پر میرا رب اپنی خصوصی نظر رحمت فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری حفاظت کا بھی اگر خصوصی انتظام نہ فرمایا جاتا تو مجھ سے بھی غلطی سرزد ہوسکتی تھی۔ مگر چونکہ میرا رب بخشنے والا بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے اس لیے اس نے مجھ پر اپنی خصوصی رحمت فرمائی۔

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي ۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ

📘 فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌآج سے آپ کا شمار ہمارے خاص مقربین میں ہوگا اور اس لحاظ سے مملکت کے اندر آپ کا ایک خاص مقام ہوگا۔ آپ کی امانت و دیانت پر ہمیں پورا پورا بھروسا ہے۔

قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ

📘 آیت 55 قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌحضرت یوسف جان چکے تھے کہ اس ملک پر بہت بڑی آفت آنے والی ہے اور اگر اس ممکنہ صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے بر وقت درست اور مؤثر اقدام نہ کیے گئے تو نہ صرف خود مصر ایک خوفناک قحط کی زد میں آجائے گا بلکہ آس پاس کے علاقوں کے لیے بھی بہت بھیانک حالات پیدا ہوجائیں گے۔ اس پورے خطے میں مصر ہی ایک ایسا ملک تھا جہاں غلہ اور دوسری اشیائے خوراک پیدا ہوتی تھیں۔ اس کے ہمسایہ میں چاروں طرف خشک صحرائی علاقے تھے اور اناج وغیرہ کے سلسلے میں ان علاقوں کا انحصار بھی مصر کی زراعت پر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے موقع دیکھا تو فوراً اپنی خدمات پیش کردیں کہ اگر خزانے اور خوراک و زراعت کا پورا انتظام و انصرام میرے پاس ہوگا تو میں اس آفت کا سامنا کرنے کے لیے جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی کرسکوں گا۔

وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ۚ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

📘 آیت 56 وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۗءُ حضرت یوسف کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمکن عطا ہونے کا یہ دوسرامرحلہ تھا۔ پہلے مرحلے میں آپ کو بدوی اور صحرائی ماحول سے اٹھا کر اس دور کے ایک نہایت متمدن ملک کی اعلیٰ ترین سطح کی سوسائٹی میں پہنچایا گیا جبکہ دوسرے مرحلے میں آپ کو اسی ملک کے ارباب اختیار و اقتدار کی صف میں ایک نہایت ممتاز مقام عطا کردیا گیا جس کے بعد آپ پورے اختیار کے ساتھ عزیز کے عہدے پر متمکن ہوگئے۔

وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ

📘 آیت 57 وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ اب یہاں سے آگے اس قصے کا ایک نیا باب شروع ہونے جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ آئندہ رکوع کے مضامین اور گزشتہ مضمون کے درمیان زمانی اعتبار سے تقریباً دس سال کا بعد ہے۔ اب بات اس زمانے سے شروع ہورہی ہے جب مصر میں بہتر فصلوں کے سات سالہ دور کے بعد قحط پڑچکا تھا۔ یہاں پر جو تفصیلات چھوڑ دی گئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف کی تعبیر کے عین مطابق سات سال تک مصر میں خوشحالی کا دور دورہ رہا اور فصلوں کی پیداوار معمول سے کہیں بڑھ کر ہوئی۔ اس دوران حضرت یوسف نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اناج کے بڑے بڑے ذخائر جمع کرلیے تھے۔ چناچہ جب یہ پورا علاقہ قحط کی لپیٹ میں آیا تو مصر کی حکومت کے پاس نہ صرف اپنے عوام کے لیے بلکہ ملحقہ علاقوں کے لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اناج وافر مقدار میں موجود تھا۔ چناچہ حضرت یوسف نے اس غیر معمولی صورت حال کے پیش نظر ”راشن بندی“ کا ایک خاص نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت ایک خاندان کو ایک سال کے لیے صرف اس قدرّ غلہ دیا جاتا تھا جس قدر ایک اونٹ اٹھا سکتا تھا اور اس کی قیمت اتنی وصول کی جاتی تھی جو وہ آسانی سے ادا کرسکیں۔ ان حالات میں فلسطین میں بھی قحط کا سماں تھا اور وہاں سے بھی لوگ قافلوں کی صورت میں مصر کی طرف غلہ لینے کے لیے آتے تھے۔ ایسے ہی ایک قافلے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے دس بھائی بھی غلہ لینے مصر پہنچے جبکہ آپ کا ماں جایا بھائی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ اس لیے کہ حضرت یعقوب اپنے اس بیٹے کو کسی طرح بھی ان کے ساتھ کہیں بھیجنے پر آمادہ نہیں تھے۔

وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ

📘 فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ ان حالات میں یہ امکان ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عزیز مصر جس کے دربار میں ان کی پیشی ہورہی ہے وہ ان کا بھائی یوسف ہے۔

وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِي بِأَخٍ لَكُمْ مِنْ أَبِيكُمْ ۚ أَلَا تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ

📘 آیت 59 وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُوْنِيْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِيْكُمْ غلہ چونکہ راشن بندی کے تحت دیا جاتا تھا اس لیے انہوں نے درخواست کی ہوگی کہ ہمارا ایک بھائی اور بھی ہے اس کے اہل خانہ بھی ہیں اسے ہم اپنے والد کی خدمت کے لیے پیچھے چھوڑ آئے ہیں اس کے حصے کا غلہ بھی ہمیں دے دیا جائے۔ اس سلسلے میں سوال و جواب کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا ہوگا کہ ہم دس حقیقی بھائی ہیں جبکہ وہ گیا رہواں بھائی باپ کی طرف سے سگا لیکن والدہ کی طرف سے سوتیلا ہے۔ حضرت یوسف نے یہ سارا ماجرا سننے کے بعد فرمایا ہوگا کہ ٹھیک ہے میں آپ کے گیارہویں بھائی کے حصے کا اضافی غلہ تم لوگوں کو اس شرط پردے دیتا ہوں کہ آئندہ جب تم لوگ غلہ لینے کے لیے آؤ گے تو اپنے اس بھائی کو ساتھ لے کر آؤ گے تاکہ میں تصدیق کرسکوں کہ تم لوگوں نے غلط بیانی کر کے مجھ سے اضافی غلہ تو نہیں لیا۔

وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَىٰ أَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

📘 آیت 6 وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ حضرت یعقوب نے سمجھ لیا کہ میرے بیٹوں میں سے یوسف کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے چن لیا ہے۔وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ یہاں پر تاویل حدیث کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک خوابوں کی تعبیر اور دوسرے معاملہ فہمی اور دور بینی باتوں کی کنہ تہ تک پہنچ جانا ‘ حقیقت تک رسائی ہوجانا۔ وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اٰلِ يَعْقُوْبَ كَمَآ اَتَمَّــهَا عَلٰٓي اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ یہاں حضرت یعقوب نے کسر نفسی کے سبب حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق کے ساتھ اپنا نام نہیں لیا۔

فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِي وَلَا تَقْرَبُونِ

📘 آیت 59 وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُوْنِيْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِيْكُمْ غلہ چونکہ راشن بندی کے تحت دیا جاتا تھا اس لیے انہوں نے درخواست کی ہوگی کہ ہمارا ایک بھائی اور بھی ہے اس کے اہل خانہ بھی ہیں اسے ہم اپنے والد کی خدمت کے لیے پیچھے چھوڑ آئے ہیں اس کے حصے کا غلہ بھی ہمیں دے دیا جائے۔ اس سلسلے میں سوال و جواب کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا ہوگا کہ ہم دس حقیقی بھائی ہیں جبکہ وہ گیا رہواں بھائی باپ کی طرف سے سگا لیکن والدہ کی طرف سے سوتیلا ہے۔ حضرت یوسف نے یہ سارا ماجرا سننے کے بعد فرمایا ہوگا کہ ٹھیک ہے میں آپ کے گیارہویں بھائی کے حصے کا اضافی غلہ تم لوگوں کو اس شرط پردے دیتا ہوں کہ آئندہ جب تم لوگ غلہ لینے کے لیے آؤ گے تو اپنے اس بھائی کو ساتھ لے کر آؤ گے تاکہ میں تصدیق کرسکوں کہ تم لوگوں نے غلط بیانی کر کے مجھ سے اضافی غلہ تو نہیں لیا۔

قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ

📘 آیت 59 وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُوْنِيْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِيْكُمْ غلہ چونکہ راشن بندی کے تحت دیا جاتا تھا اس لیے انہوں نے درخواست کی ہوگی کہ ہمارا ایک بھائی اور بھی ہے اس کے اہل خانہ بھی ہیں اسے ہم اپنے والد کی خدمت کے لیے پیچھے چھوڑ آئے ہیں اس کے حصے کا غلہ بھی ہمیں دے دیا جائے۔ اس سلسلے میں سوال و جواب کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا ہوگا کہ ہم دس حقیقی بھائی ہیں جبکہ وہ گیا رہواں بھائی باپ کی طرف سے سگا لیکن والدہ کی طرف سے سوتیلا ہے۔ حضرت یوسف نے یہ سارا ماجرا سننے کے بعد فرمایا ہوگا کہ ٹھیک ہے میں آپ کے گیارہویں بھائی کے حصے کا اضافی غلہ تم لوگوں کو اس شرط پردے دیتا ہوں کہ آئندہ جب تم لوگ غلہ لینے کے لیے آؤ گے تو اپنے اس بھائی کو ساتھ لے کر آؤ گے تاکہ میں تصدیق کرسکوں کہ تم لوگوں نے غلط بیانی کر کے مجھ سے اضافی غلہ تو نہیں لیا۔

وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انْقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

📘 آیت 62 وَقَالَ لِفِتْيٰنِهِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَهُمْ فِيْ رِحَالِهِمْ اس زمانے میں چیزوں کے عوض ہی چیزیں خریدی جاتی تھیں۔ چناچہ وہ لوگ بھی اپنے ہاں سے کچھ چیزیں بھیڑ بکریوں کی اون وغیرہ اس مقصد کے لیے لے کر آئے تھے اور غلے کی قیمت کے طور پر اپنی وہ چیزیں انہوں نے پیش کردی تھیں۔ مگر حضرت یوسف نے اپنے ملازمین کو ہدایت کردی کہ جب ان کے کجاو وں میں گندم بھری جائے تو ان لوگوں کی یہ چیزیں بھی جو انہوں نے غلے کی قیمت کے طور پر ادا کی ہیں چپکے سے واپس ان کے کجاو وں میں ہی رکھ دی جائیں۔

فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَىٰ أَبِيهِمْ قَالُوا يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

📘 آیت 63 فَلَمَّا رَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْهِمْ قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ یعنی انہوں نے آئندہ کے لیے ہمارے چھوٹے بھائی کے حصے کا غلہ روک دیا ہے اور وہ تبھی ملے گا جب ہم اس کو وہاں لے کر جائیں گے۔

قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنْتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِنْ قَبْلُ ۖ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ

📘 آیت 63 فَلَمَّا رَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْهِمْ قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ یعنی انہوں نے آئندہ کے لیے ہمارے چھوٹے بھائی کے حصے کا غلہ روک دیا ہے اور وہ تبھی ملے گا جب ہم اس کو وہاں لے کر جائیں گے۔

وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ قَالُوا يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ۖ هَٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ۖ ذَٰلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ

📘 آیت 63 فَلَمَّا رَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْهِمْ قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ یعنی انہوں نے آئندہ کے لیے ہمارے چھوٹے بھائی کے حصے کا غلہ روک دیا ہے اور وہ تبھی ملے گا جب ہم اس کو وہاں لے کر جائیں گے۔

قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَنْ يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ

📘 آیت 66 قَالَ لَنْ اُرْسِلَهٗ مَعَكُمْ حَتّٰى تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ لَتَاْتُنَّنِيْ بِهٖٓ اِلَّآ اَنْ يُّحَاطَ بِكُمْ ہاں اگر کوئی ایسی مصیبت آجائے کہ تم سب کے سب گھیرلیے جاؤ اور وہاں سے گلو خلاصی مشکل ہوجائے تو اور بات ہے ‘ مگر عام حالات میں تم لوگ اسے واپس میرے پاس لانے کے پابند ہو گے۔

وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ

📘 آیت 67 وَقَالَ يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ حسد اور نظر بد وغیرہ کے اثرات سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ آپ تمام بھائی اکٹھے ایک دروازے سے شہر میں داخل ہونے کے بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہوں۔ وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ میں اللہ کے کسی فیصلے کو تم لوگوں سے نہیں ٹال سکتا۔ اگر اللہ کی مشیت میں تم لوگوں کو کوئی گزند پہنچنا منظور ہے تو میں اس کو روک نہیں سکتا۔ یہ صرف انسانی کوشش کی حد تک احتیاطی تدابیر ہیں جو ہم اختیار کرسکتے ہیں۔

وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ مَا كَانَ يُغْنِي عَنْهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

📘 مَا كَانَ يُغْنِيْ عَنْهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ اِلَّا حَاجَةً فِيْ نَفْسِ يَعْقُوْبَ قَضٰىهَاحضرت یعقوب کے دل میں ایک کھٹک تھی جسے دور کرنے کے لیے آپ نے یہ تدبیر اختیار کی کہ اپنے بیٹوں کو ہدایت کردی کہ وہ ایک دروازے سے داخل ہونے کی بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہوں لیکن آپ کی یہ تدبیر اللہ کے کسی فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوسکتی تھی۔

وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَخَاهُ ۖ قَالَ إِنِّي أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 69 وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَخَاهُ قَالَ اِنِّىْٓ اَنَا اَخُوْكَ آپ نے اپنے چھوٹے بھائی بن یا مین کو علیحدگی میں اپنے پاس بلایا اور ان پر اپنی شناخت ظاہر کردی کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں جو بچپن میں کھو گیا تھا۔فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ حضرت یوسف نے اپنے چھوٹے بھائی کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اللہ نے اس اعلیٰ مقام تک پہنچایا ہے اور ہمیں آپس میں ملا بھی دیا ہے۔ چناچہ اب ان بڑے بھائیوں کے رویے پر تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب سختی کے دن ختم ہوگئے ہیں۔

۞ لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ

📘 آیت 7 لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ وَاِخْوَتِهٖٓ اٰيٰتٌ لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ یعنی جن لوگوں قریش مکہ نے یہ سوال پوچھا ہے اور جن لوگوں یہود مدینہ کے کہنے پر پوچھا ہے ان سب کے لیے اس قصے میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اگر وہ صرف اس ایک قصے کو حقیقت کی نظروں سے دیکھیں اور اس پر غور کریں تو بہت سے حقائق نکھر کر ان کے سامنے آجائیں گے۔

فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ

📘 آیت 70 فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِيْ رَحْلِ اَخِيْهِ یہ بادشاہ کا خصوصی جام تھا جو سونے کا بنا ہوا تھا۔ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَيَّــتُهَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ جب وہ قافلہ چل پڑا تو اسے روک لیا گیا کہ ہمارے ہاں سے کوئی چیز چوری ہوئی ہے اور ہمیں اس بارے میں تم لوگوں پر شک ہے۔

قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ

📘 آیت 70 فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِيْ رَحْلِ اَخِيْهِ یہ بادشاہ کا خصوصی جام تھا جو سونے کا بنا ہوا تھا۔ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَيَّــتُهَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ جب وہ قافلہ چل پڑا تو اسے روک لیا گیا کہ ہمارے ہاں سے کوئی چیز چوری ہوئی ہے اور ہمیں اس بارے میں تم لوگوں پر شک ہے۔

قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ

📘 آیت 70 فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِيْ رَحْلِ اَخِيْهِ یہ بادشاہ کا خصوصی جام تھا جو سونے کا بنا ہوا تھا۔ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَيَّــتُهَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ جب وہ قافلہ چل پڑا تو اسے روک لیا گیا کہ ہمارے ہاں سے کوئی چیز چوری ہوئی ہے اور ہمیں اس بارے میں تم لوگوں پر شک ہے۔

قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ

📘 آیت 73 قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْاَرْضِ وَمَا كُنَّا سٰرِقِيْنَ آپ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم قحط کے مارے لوگ یہاں اتنی دور سے غلہ لینے آئے ہیں ہم کوئی چور ڈاکو نہیں ہیں۔ ان کے اس فقرے اور انداز گفتگو میں بڑی لجاجت پائی جاتی ہے۔

قَالُوا فَمَا جَزَاؤُهُ إِنْ كُنْتُمْ كَاذِبِينَ

📘 آیت 74 قَالُوْا فَمَا جَزَاۗؤُهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ كٰذِبِيْنَ یعنی اگر تم لوگ اپنے اس دعوے میں جھوٹے نکلے اور تم میں سے ہی کوئی شخص چور ہوا تو پھر اس شخص کی کیا سزا ہونی چاہیے ؟

قَالُوا جَزَاؤُهُ مَنْ وُجِدَ فِي رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ

📘 آیت 75 قَالُوْا جَزَاۗؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَاۗؤُهٗ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر ایسا ہوا تو پھر جس کے سامان میں سے آپ کا جام نکل آئے سزا کے طور پر آپ لوگ اسے اپنے پاس رکھ لیں وہ آپ کا غلام بن جائے گا۔ ہمارے ہاں تو شریعت ابراہیمی کی رو سے چوری کے جرم کی یہی سزا رائج ہے۔

فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ

📘 كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ یہ ایک ایسی تدبیر تھی جس میں توریے کا سا انداز تھا اور اس سے مقصود کسی کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اس پورے خاندان کو آپس میں ملانا تھا۔ اس تدبیر کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے کہ حضرت یوسف نے اپنی طرف سے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ اللہ نے آپ کے لیے یہ ایک راہ نکالی تھی۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی تاکہ کسی ذہن میں یہ اشکال پیدا نہ ہو کہ ایسی تدبیر اختیار کرنا شان نبوت کے منافی ہے۔ یہاں پر یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اختیار بھی مطلق ہے اور اس کا علم بھی ہر شے پر محیط ہے۔ اللہ کو تو علم تھا کہ یہ عارضی سا معاملہ ہے اور اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ لفظ ”دین“ کی تعریف definition کے اعتبار سے قرآن کی یہ آیت بہت اہم ہے۔ یہاں دِیْنِ الْمَلِکِ بادشاہ کے دین سے مراد وہ نظام ہے جس کے تحت بادشاہ اس پورے ملک کو چلا رہا تھا ‘ جس میں بادشاہ اقتدار اعلیٰ Sovereignty کا مالک تھا۔ اس کا اختیار مطلق تھا ‘ اس کا ہر حکم قانون تھا اور پورا نظام سلطنت و مملکت اس کے تابع تھا۔ اس حوالے سے ”دین اللہ“ کی اصطلاح بہت آسانی سے واضح ہوجاتی ہے۔ چناچہ اگر اللہ کے اقتدار Sovereignty اور اختیار مطلق کو تسلیم کر کے پورا نظام زندگی اس کے تابع کردیا جائے تو یہی ”دین اللہ“ کا عملی ظہور ہوگا۔ یہی وہ کیفیت تھی جو ”دین اللہ“ کے غلبے کے بعد جزیرہ نمائے عرب میں پیدا ہوئی تھی اور جس کی گواہی سورة النصر میں اس طرح دی گئی ہے : اِذَاجَآءَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔ اسی طرح آج کا دین جسے عوام کی فلاح کا ضامن قرار دیا جا رہا ہے ”دین الجمہور“ ہے۔ اس دین یا نظام میں قانون سازی کا اختیار جمہور یعنی عوام یا عوام کے نمائندوں کو حاصل ہے وہ جسے چاہیں جائز قرار دیں اور جسے چاہیں ناجائز اور یہی سب سے بڑا کفر اور شرک ہے۔بہر حال اس وقت مصر میں بادشاہی نظام رائج تھا جس کو حضرت یوسف بدل نہیں سکتے تھے کیونکہ آپ بادشاہ تو نہیں تھے۔ آپ کو جو اختیار حاصل تھا وہ اسی نظام کے مطابق اپنے شعبے اور محکمے کی حد تک تھا جس کے وہ انچارج تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے یہ تدبیر نکالی۔ آپ کے بھائیوں سے پہلے یہ اقرار کرا لیا گیا کہ جس کے سامان سے وہ پیالہ برآمد ہوگا سزا کے طور پر اسے خود ہی غلام بننا پڑے گا اور اس طرح حضرت یوسف کے لیے جواز پیدا ہوگیا کہ وہ اپنے بھائی کو اپنے پاس روک سکیں۔نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌیعنی علم کے لحاظ سے علماء کے درجات ہیں۔ ہر عالم کے اوپر اس سے بڑا عالم ہے اور یہ درجات اللہ تعالیٰ کی ذات پر جا کر اختتام پذیر ہوتے ہیں جو سب سے بڑا عالم ہے۔

۞ قَالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنْتُمْ شَرٌّ مَكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ

📘 آیت 77 قَالُوْٓا اِنْ يَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ برادران یوسف کی طبیعت کا ہلکا پن ملاحظہ ہو کہ اس پر انہوں نے فوراً کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے یہ بعید نہیں تھا کیونکہ ایک زمانے میں اس کے ماں جائے بھائی یوسف نے بھی اسی طرح کی حرکت کی تھی۔قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۚ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ انہوں نے آپ پر بھی فوراً چوری کا بےبنیاد الزام لگا دیا مگر آپ نے کمال حکمت اور صبر سے اسے برداشت کیا اور اس پر کسی قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔

قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ

📘 اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ یہ صورت حال ان لوگوں کے لیے بہت پریشان کن تھی۔ باپ کا اعتماد وہ پہلے ہی کھو چکے تھے۔ اس دفعہ اللہ کے نام پر عہد کر کے بن یامین کو اپنے ساتھ لائے تھے۔ اب خیال آتا تھا کہ اگر اسے یہاں چھوڑ کر واپس جاتے ہیں تو والد کو جا کر کیا منہ دکھائیں گے۔ چناچہ وہ گڑ گڑانے پر آگئے اور حضرت یوسف کی منت سماجت کرنے لگے کہ آپ بہت شریف اور نیک انسان ہیں ‘ آپ ہم میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ اپنے پاس رکھ لیں مگر اس کو جانے دیں۔

قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ

📘 اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ یہ صورت حال ان لوگوں کے لیے بہت پریشان کن تھی۔ باپ کا اعتماد وہ پہلے ہی کھو چکے تھے۔ اس دفعہ اللہ کے نام پر عہد کر کے بن یامین کو اپنے ساتھ لائے تھے۔ اب خیال آتا تھا کہ اگر اسے یہاں چھوڑ کر واپس جاتے ہیں تو والد کو جا کر کیا منہ دکھائیں گے۔ چناچہ وہ گڑ گڑانے پر آگئے اور حضرت یوسف کی منت سماجت کرنے لگے کہ آپ بہت شریف اور نیک انسان ہیں ‘ آپ ہم میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ اپنے پاس رکھ لیں مگر اس کو جانے دیں۔

إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰ أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 آیت 8 اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌبرادران یوسف نے کہا کہ ہم پورے دس لوگ ہیں سب کے سب جوان اور طاقتور ہیں خاندان کی شان تو ہمارے دم قدم سے ہے قبائلی زندگی میں نوجوان بیٹوں کی تعداد پر ہی کسی خاندان کی شان و شوکت اور قوت و طاقت کا انحصار ہوتا ہے لیکن ہمارے والد ہمیں نظر انداز کر کے ان دو چھوٹے بچوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُمْ مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ

📘 قَالَ كَبِيْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَيْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ ان کے سب سے بڑے بھائی کا نام یہودا تھا یہ وہی تھے جنہوں نے مشورہ دے کر حضرت یوسف کی جان بچائی تھی کہ اگر تم اس کی جان کے درپے ہوگئے ہو تو اسے قتل مت کرو بلکہ کسی دور دراز علاقے میں پھینک آؤ۔ فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى يَاْذَنَ لِيْٓ اَبِيْٓتم لوگ جا کر والد صاحب کو سارا واقعہ بتاؤ پھر اگر وہ مطمئن ہو کر مجھے اجازت دے دیں تو تب میں واپس جاؤں گا ورنہ میں ادھر ہی رہوں گا۔

ارْجِعُوا إِلَىٰ أَبِيكُمْ فَقُولُوا يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ

📘 وَمَا شَهِدْنَآ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حٰفِظِيْنَ ابا جان ! ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہم تو آپ کو وہی حقیقت بتا رہے ہیں جو ہمارے علم میں آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ بن یا میں نے چوری کی ہے اور اس جرم میں وہ وہاں پکڑا گیا ہے۔

وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

📘 وَسْـــَٔـلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا وَالْعِيْرَ الَّتِيْٓ اَقْبَلْنَا فِيْهَا ۭ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ آپ مصر سے بھی حقیقت حال معلوم کرا سکتے ہیں یا پھر جس قافلے کے ساتھ ہم گئے تھے اس کے سب لوگ وہاں موجود تھے ان کے سامنے یہ سب کچھ ہوا تھا۔ آپ ان میں سے کسی سے بھی پوچھ لیں وہ سارا ماجرا آپ کو بتادیں گے۔

قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ

📘 آیت 83 قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌحضرت یعقوب نے یہاں پر پھر وہی فقرہ بولا جو حضرت یوسف کی موت کے بارے میں خبر ملنے پر بولا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ حقیقت وہ نہیں ہے جو وہ بیان کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا : بہرحال میں اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا۔عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ حضرت یعقوب کے لیے حضرت یوسف کا غم ہی کیا کم تھا کہ اب دیار غیر میں دوسرے بیٹے کے مصیبت میں گرفتار ہونے کی خبر مل گئی ‘ اور پھر تیسرے بیٹے یہودا کا دکھ اس پر مستزاد جس نے مصر سے واپس آنے سے انکار کردیا تھا مگر پھر بھی آپ صبر کا دامن تھامے رہے۔ رنج وا لم کے سیل بےپناہ کا سامنا ہے مگر پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ بس اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسا ہے اور اسی کی رحمت سے امید !

وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ

📘 وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيْمٌحضرت یعقوب کو حضرت یوسف سے بہت محبت تھی۔ بیٹے کے ہجر اور فراق میں آپ کے دل پر جو گزری تھی خود قرآن کے یہ الفاظ اس پر گواہ ہیں۔ یہ انسانی فطرت کا ایک ناگزیر تقاضا ہے جسے یہاں اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی کے بچے کا فوت ہوجانا یقیناً بہت بڑا صدمہ ہے لیکن بچے کا گم ہوجانا اس سے کئی گنا بڑا صدمہ ہے۔ فوت ہونے کی صورت میں اپنے سامنے تجہیز و تکفین ہونے سے اپنے ہاتھوں دفن کرنے اور قبر بنا لینے سے کسی قدر صبر کا دامن ہاتھ میں رہتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس صبر میں ثبات پیدا ہوتا جاتا ہے۔ مگر بچے کے گم ہونے کی صورت میں اس کی یاد مستقل طور پر انسان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے۔ یہ خیال کسی وقت چین نہیں لینے دیتا کہ نہ معلوم بچہ زندہ ہے یا فوت ہوگیا ہے۔ اور اگر زندہ ہے تو کہاں ہے ؟ اور کس حال میں ہے ؟ یہی دکھ تھا جو حضرت یعقوب کو اندر ہی اندر کھا گیا تھا اور رو رو کر آپ کی آنکھیں سفید ہوچکی تھیں۔ آپ کو وحی کے ذریعے یہ تو بتلا دیا گیا تھا کہ یوسف زندہ ہیں اور آپ سے ضرور ملیں گے مگر کہاں ہیں ؟ کس حال میں ہیں ؟ اور کب ملیں گے ؟ یہ وہ سوالات تھے جو آپ کو سالہا سال سے مسلسل کرب میں مبتلا کیے ہوئے تھے۔ اب بن یامین کی جدائی پر یوسف کا غم پوری شدت سے عود کر آیا۔

قَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّىٰ تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ

📘 وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيْمٌحضرت یعقوب کو حضرت یوسف سے بہت محبت تھی۔ بیٹے کے ہجر اور فراق میں آپ کے دل پر جو گزری تھی خود قرآن کے یہ الفاظ اس پر گواہ ہیں۔ یہ انسانی فطرت کا ایک ناگزیر تقاضا ہے جسے یہاں اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی کے بچے کا فوت ہوجانا یقیناً بہت بڑا صدمہ ہے لیکن بچے کا گم ہوجانا اس سے کئی گنا بڑا صدمہ ہے۔ فوت ہونے کی صورت میں اپنے سامنے تجہیز و تکفین ہونے سے اپنے ہاتھوں دفن کرنے اور قبر بنا لینے سے کسی قدر صبر کا دامن ہاتھ میں رہتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس صبر میں ثبات پیدا ہوتا جاتا ہے۔ مگر بچے کے گم ہونے کی صورت میں اس کی یاد مستقل طور پر انسان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے۔ یہ خیال کسی وقت چین نہیں لینے دیتا کہ نہ معلوم بچہ زندہ ہے یا فوت ہوگیا ہے۔ اور اگر زندہ ہے تو کہاں ہے ؟ اور کس حال میں ہے ؟ یہی دکھ تھا جو حضرت یعقوب کو اندر ہی اندر کھا گیا تھا اور رو رو کر آپ کی آنکھیں سفید ہوچکی تھیں۔ آپ کو وحی کے ذریعے یہ تو بتلا دیا گیا تھا کہ یوسف زندہ ہیں اور آپ سے ضرور ملیں گے مگر کہاں ہیں ؟ کس حال میں ہیں ؟ اور کب ملیں گے ؟ یہ وہ سوالات تھے جو آپ کو سالہا سال سے مسلسل کرب میں مبتلا کیے ہوئے تھے۔ اب بن یامین کی جدائی پر یوسف کا غم پوری شدت سے عود کر آیا۔

قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 86 قَالَ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ میں نے تم لوگوں سے تو کچھ نہیں کہا میں نے تمہیں تو کوئی لعن طعن نہیں کی تم سے تو میں نے کوئی باز پرس نہیں کی۔ یہی الفاظ تھے جو نبی اکرم نے طائف کے دن اپنی دعا میں استعمال فرمائے تھے : اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ ؟ 1 ”اے اللہ ! میں تیری جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں اپنی قوت کی کمزوری اور اپنے وسائل کی کمی کی اور لوگوں کے سامنے میری جو توہین ہو رہی ہے اس کی۔ اے اللہ ! تو نے مجھے کس کے حوالے کردیا ہے ؟وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ یعنی اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم سے میں جانتا ہوں کہ یوسف زندہ ہیں فوت نہیں ہوئے۔

يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ

📘 اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ صاحب ایمان لوگ کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔

فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ

📘 آیت 88 فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْهِ اگلے سال جب وہ لوگ اپنے والد کے حکم کے مطابق مصر پہنچے اور پھر حضرت یوسف کے سامنے پیش ہوئے۔قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ مَسَّنَا وَاَهْلَنَا الضُّرُّ کئی سال سے لگاتار قحط کا سماں تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے اثرات زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر ہو رہے ہوں گے۔ بھیڑبکریاں بھی ختم ہوچکی ہوں گی۔ اب تو ان کی اون بھی نہیں ہوگی جو اناج کی قیمت کے عوض دے سکیں۔وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجٰىةٍ فَاَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ اس دفعہ ہم جو چیزیں غلے کی قیمت ادا کرنے کے لیے لے کر آئے ہیں وہ بہت کم اور ناقص ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ان سے غلے کی قیمت پوری نہیں ہوسکتی۔وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا اپنے انتہائی خراب حالات کی وجہ سے ہم چونکہ خیرات کے مستحق ہوچکے ہیں ‘ اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ اس دفعہ کچھ غلہ آپ ہمیں خیرات میں بھی دیں۔ اِنَّ اللّٰهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِيْنَ چونکہ حضرت یوسف کے لیے یہ ساری صورت حال بہت رقت انگیز تھی اس لیے آپ مزید ضبط نہیں کرسکے اور آپ نے انہیں اپنے بارے میں بتانے کا فیصلہ کرلیا۔

قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ

📘 قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ وَاَخِيْهِ اِذْ اَنْتُمْ جٰهِلُوْنَ آپ کا اپنے بھائیوں سے یہ سوال کرنا گویا اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا حرف بہ حرف ایفا تھا جس کا ذکر سورت کے آغاز میں ان الفاظ میں ہوا تھا : وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّءَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ہٰذَا وَہُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ ۔ یہ تب کی بات ہے جب وہ سب بھائی مل کر آپ کو باؤلی میں پھینکنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ان الفاظ میں آپ کے دل پر الہام کیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب آپ اپنے بھائیوں کو یہ بات ضرور جتلائیں گے اور یہ ایسے وقت اور ایسی صورت حال میں ہوگا جب یہ بات ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگی۔

اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِنْ بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ

📘 آیت 9 اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ یوسف چونکہ ان دونوں میں بڑا ہے اس لیے وہی والد صاحب کی ساری توجہ اور عنایات کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔ چناچہ جب یہ نہیں رہے گا تو لا محالہ والد صاحب کی تمام تر شفقت اور مہربانی ہمارے لیے ہی ہوگی۔وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ اس فقرے میں ان کے نفس اور ضمیر کی کشمکش کی جھلک صاف نظر آرہی ہے۔ ضمیر تو مسلسل ملامت کر رہا تھا کہ یہ کیا کرنے لگے ہو ؟ اپنے بھائی کو قتل کرنا چاہتے ہو ؟ یہ تمہاری سوچ درست نہیں ہے ! لیکن عام طور پر ایسے مواقع پر انسان کا نفس اس کے ضمیر پر غالب آجاتا ہے جیسا کہ ہم نے سورة المائدۃ آیت 30 میں ہابیل اور قابیل کے سلسلے میں پڑھا تھا : فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ ”پس قابیل کے نفس نے اسے آمادہ کر ہی لیا اپنے بھائی کے قتل کرنے پر۔“اسی طرح ان لوگوں نے بھی اپنے ضمیر کی آواز کو دبا کر آپس میں مشورہ کیا کہ ایک دفعہ یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتار لو ‘ پھر اس کے بعد توبہ کر کے اور کفارہ وغیرہ ادا کر کے کسی نہ کسی طرح اس جرم کی تلافی کردیں گے اور باقی زندگی نیک بن کر رہیں گے۔

قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنْتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

📘 قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ وَاَخِيْهِ اِذْ اَنْتُمْ جٰهِلُوْنَ آپ کا اپنے بھائیوں سے یہ سوال کرنا گویا اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا حرف بہ حرف ایفا تھا جس کا ذکر سورت کے آغاز میں ان الفاظ میں ہوا تھا : وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّءَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ہٰذَا وَہُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ ۔ یہ تب کی بات ہے جب وہ سب بھائی مل کر آپ کو باؤلی میں پھینکنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ان الفاظ میں آپ کے دل پر الہام کیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب آپ اپنے بھائیوں کو یہ بات ضرور جتلائیں گے اور یہ ایسے وقت اور ایسی صورت حال میں ہوگا جب یہ بات ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگی۔

قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ

📘 قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَاِنْ كُنَّا لَخٰطِــــِٕيْنَ یقیناً ہم خطاکار ہیں بلاشبہ ظلم و زیادتی کے مرتکب ہم ہی ہوئے تھے۔

قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ

📘 آیت 92 قَالَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ یہ اس قدر معمولی بات نہیں تھی جسے اس ایک فقرے میں ختم کردیا جاتا ‘ مگر حضرت یوسف کی شخصیت کے ترفع اور اخلاق کی عظمت کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنے ان خطا کار بھائیوں کو فوراً غیر مشروط طور پر معاف کردیا۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ نبی اکرم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے مخالفین جن کے جرائم کی فہرست بڑی طویل اور سنگین تھی کو معاف کرتے ہوئے حضرت یوسف کے اسی قول کا تذکرہ کیا تھا۔ آپ نے فرمایا : اَنَا اَقُوْلُ کَمَا قَالَ اَخِیْ یُوْسُفُ : لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ”میں آج تمہارے بارے میں وہی کہوں گا جو میرے بھائی حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا : جاؤ تم پر آج کوئی گرفت نہیں ہے !“

اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ

📘 آیت 92 قَالَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ یہ اس قدر معمولی بات نہیں تھی جسے اس ایک فقرے میں ختم کردیا جاتا ‘ مگر حضرت یوسف کی شخصیت کے ترفع اور اخلاق کی عظمت کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنے ان خطا کار بھائیوں کو فوراً غیر مشروط طور پر معاف کردیا۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ نبی اکرم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے مخالفین جن کے جرائم کی فہرست بڑی طویل اور سنگین تھی کو معاف کرتے ہوئے حضرت یوسف کے اسی قول کا تذکرہ کیا تھا۔ آپ نے فرمایا : اَنَا اَقُوْلُ کَمَا قَالَ اَخِیْ یُوْسُفُ : لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ”میں آج تمہارے بارے میں وہی کہوں گا جو میرے بھائی حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا : جاؤ تم پر آج کوئی گرفت نہیں ہے !“

وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ ۖ لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ

📘 آیت 94 وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ جونہی حضرت یوسف کی قمیص لے کر قافلہ مصر سے چلا اسی لمحے کنعان میں حضرت یعقوب کو اپنے بیٹے کی خوشبو پہنچ گئی۔ مگر اس سے پہلے ایک طویل عرصے تک آپ نے اپنے بیٹے کے ہجر میں رو رو کر اپنی آنکھیں سفید کرلیں مگر یہ خوشبو نہیں آئی۔ اس سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کوئی نبی ہو یا ولی ‘ کسی معجزے یا کرامت کا ظہور کسی بھی شخصیت کا ذاتی کمال نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔ وہ جس کو جس وقت جو علم چاہے عطا فرما دے یا اس کے ہاتھوں جو چاہے دکھا دے۔ جیسے ایک دفعہ حضرت عمر کو مسجد نبوی میں خطبہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے شام کے علاقے میں واقع اس میدان جنگ کا نقشہ دکھا دیا جہاں اس وقت اسلامی افواج برسر پیکار تھیں اور آپ نے فوج کے کمانڈر ساریہ کو ایک حربی تدبیر اختیار کرنے کی بآواز بلند تلقین فرمائی۔ جناب ساریہ نے میدان جنگ میں حضرت عمر کی آواز سنی اور آپ کی ہدایت پر عمل کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت عمر کو اختیار تھا کہ جب چاہتے ایسا منظر دیکھ لیتے۔

قَالُوا تَاللَّهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلَالِكَ الْقَدِيمِ

📘 آیت 95 قَالُوْا تَاللّٰهِ اِنَّكَ لَفِيْ ضَلٰلِكَ الْقَدِيْمِ آپ کو شروع ہی سے یہ وہم ہے کہ یوسف زندہ ہے اور آپ کو اس کے دوبارہ ملنے کا یقین ہے۔ یہ آپ کے ذہن پر اسی وہم کے غلبے کا اثر ہے جو آپ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہی پرانے خیالات یوسف کی خوشبو بن کر آپ کے دماغ میں آ رہے ہیں۔

فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 96 فَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَ الْبَشِيْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰي وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِيْرًایوسف کی قمیص چہرے پر ڈالتے ہی حضرت یعقوب کی بصارت لوٹ آئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت یعقوب کے سامنے زندگی کا سب سے اندوہناک غم بھی حضرت یوسف کے کرتے ہی کی صورت میں سامنے آیا تھا جب برادران یوسف نے اس پر خون لگا کر ان کے سامنے پیش کردیا تھا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا اور اب زندگی کی سب سے بڑی خوشی بھی یوسف کے کرتے ہی کی صورت میں نمودار ہوگئی۔

قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ

📘 آیت 96 فَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَ الْبَشِيْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰي وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِيْرًایوسف کی قمیص چہرے پر ڈالتے ہی حضرت یعقوب کی بصارت لوٹ آئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت یعقوب کے سامنے زندگی کا سب سے اندوہناک غم بھی حضرت یوسف کے کرتے ہی کی صورت میں سامنے آیا تھا جب برادران یوسف نے اس پر خون لگا کر ان کے سامنے پیش کردیا تھا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا اور اب زندگی کی سب سے بڑی خوشی بھی یوسف کے کرتے ہی کی صورت میں نمودار ہوگئی۔

قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

📘 آیت 98 قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ یہاں پر ”سَوْفَ“ کا لفظ بہت اہم ہے۔ یعنی آپ نے فوری طور پر ان کے لیے استغفار نہیں کیا بلکہ وعدہ کیا کہ میں عنقریب تم لوگوں کے لیے اپنے رب سے استغفار کروں گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی اپنے بیٹوں کے بارے میں آپ کے دل میں رنج اور غصہ برقرار تھا۔ شاید آپ کا خیال ہو کہ میں یوسف سے مل کر ساری تفصیلات معلوم کروں گا ‘ اس کے بعد جب تمام معاملات کی صفائی ہوجائے گی تو پھر میں اپنے رب سے ان کے لیے معافی کی درخواست کروں گا۔

فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ

📘 آیت 99 فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ کنعان سے چل کر بنی اسرائیل کا یہ پورا خاندان جب حضرت یوسف کے پاس مصر پہنچا تو آپ نے خصوصی اعزاز کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور اپنے والدین کو اپنے پاس امتیازی نشستیں پیش کیں۔وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ اب آپ لوگوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ اگر اللہ نے چاہا تو یہاں آپ کے لیے امن وچین اور سکون و راحت ہی ہے۔