slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة النمل

(An-Naml) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُبِينٍ

📘 قبطی کی موت کے واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ مدین کا علاقہ بحراحمر کی اس شاخ کے مشرقی ساحل پر تھا جس کو خلیج عقبہ کہاجاتاہے۔ حضرت موسیٰ نے یہاں تقریباً آٹھ سال گزارے اس کے بعد وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر واپس جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں وہ بحر احمر کی دونوں شاخوں کے درمیان اس پہاڑ کے کنارے پہنچے جس کا قدیم نام طور تھا اور اب اس کو جبل موسیٰ (Gebel Musa) کہاجاتا ہے۔ یہ غالباً سردیوں کی رات تھی۔ حضرت موسیٰ کو دور پہاڑ پر ایک آگ سی چیز نظر آئی۔ وہ اس کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خدا کی تجلی تھی، نہ کہ کوئی انسانی آگ۔ پہاڑ کے اوپر جہاں حضرت موسیٰ نے روشنی دیکھی تھی وہاں آج بھی ایک قدیم درخت موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ درخت ہے جس کے اوپر سے حضرت موسیٰ کو خدا کی آواز سنائی دی تھی۔ یہاں بعد کو عیسائی حضرات نے گرجا اور خانقاہ تعمیر کردیا جو آج بھی لوگوں کے ليے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ

📘 حضرت موسیٰ پہاڑ پر آگ کے ليے گئے تھے۔ مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ پیغمبری کے ليے بلائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کو خصوصی عطیہ دیتاہے تو اچانک اور غیر متوقع طورپر دیتاہے تاکہ وہ اس کو براہِ راست اللہ کی طرف سے سمجھے اور اس کے اندر زیادہ سے زیادہ شکر کا جذبہ پیدا ہو۔ حضرت موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) اگرچہ اس وقت کے لحاظ سے ایک مسلم قوم تھی۔ مگر اب وہ بالکل بے جان ہوچکی تھی۔ دوسری طرف انھیں فرعون جیسے جابر حکمراں کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرنا تھا۔ اس ليے اللہ تعالیٰ نے آغاز ہی میں آپ کو عصا کا معجزہ عطا فرمادیا۔ یہ عصا حضرت موسیٰ کے ليے ایک مستقل خدائی طاقت تھا۔ اس کے ذریعے سے فرعون کے مقابلہ میں 9 معجزات ظاہر ہوئے۔ بنی اسرائیل کے ليے ظاہر ہونے والے معجزات ان کے علاوہ تھے۔حضرت موسیٰ کے معجزات نے آخری حد تک آپ کی صداقت ثابت کردی تھی۔ اس کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے آپ کا اعتراف نہیں کیا۔ اس کی وجہ ان کا ظلم اور علو تھا۔ فرعون اور اس کے ساتھی اپنی آزادی پر قید لگانے کے ليے تیار نہ تھے۔ مزید یہ کہ وہ جانتے تھے کہ موسیٰ کی بات ماننا اپنی بڑائی کی نفی کرنا ہے۔ اور کون ہے جو اپنی بڑائی کی نفی کی قیمت پر سچائی کو مانے۔

إِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 حضرت موسیٰ پہاڑ پر آگ کے ليے گئے تھے۔ مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ پیغمبری کے ليے بلائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کو خصوصی عطیہ دیتاہے تو اچانک اور غیر متوقع طورپر دیتاہے تاکہ وہ اس کو براہِ راست اللہ کی طرف سے سمجھے اور اس کے اندر زیادہ سے زیادہ شکر کا جذبہ پیدا ہو۔ حضرت موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) اگرچہ اس وقت کے لحاظ سے ایک مسلم قوم تھی۔ مگر اب وہ بالکل بے جان ہوچکی تھی۔ دوسری طرف انھیں فرعون جیسے جابر حکمراں کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرنا تھا۔ اس ليے اللہ تعالیٰ نے آغاز ہی میں آپ کو عصا کا معجزہ عطا فرمادیا۔ یہ عصا حضرت موسیٰ کے ليے ایک مستقل خدائی طاقت تھا۔ اس کے ذریعے سے فرعون کے مقابلہ میں 9 معجزات ظاہر ہوئے۔ بنی اسرائیل کے ليے ظاہر ہونے والے معجزات ان کے علاوہ تھے۔حضرت موسیٰ کے معجزات نے آخری حد تک آپ کی صداقت ثابت کردی تھی۔ اس کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے آپ کا اعتراف نہیں کیا۔ اس کی وجہ ان کا ظلم اور علو تھا۔ فرعون اور اس کے ساتھی اپنی آزادی پر قید لگانے کے ليے تیار نہ تھے۔ مزید یہ کہ وہ جانتے تھے کہ موسیٰ کی بات ماننا اپنی بڑائی کی نفی کرنا ہے۔ اور کون ہے جو اپنی بڑائی کی نفی کی قیمت پر سچائی کو مانے۔

وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ ۖ فِي تِسْعِ آيَاتٍ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ

📘 حضرت موسیٰ پہاڑ پر آگ کے ليے گئے تھے۔ مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ پیغمبری کے ليے بلائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کو خصوصی عطیہ دیتاہے تو اچانک اور غیر متوقع طورپر دیتاہے تاکہ وہ اس کو براہِ راست اللہ کی طرف سے سمجھے اور اس کے اندر زیادہ سے زیادہ شکر کا جذبہ پیدا ہو۔ حضرت موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) اگرچہ اس وقت کے لحاظ سے ایک مسلم قوم تھی۔ مگر اب وہ بالکل بے جان ہوچکی تھی۔ دوسری طرف انھیں فرعون جیسے جابر حکمراں کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرنا تھا۔ اس ليے اللہ تعالیٰ نے آغاز ہی میں آپ کو عصا کا معجزہ عطا فرمادیا۔ یہ عصا حضرت موسیٰ کے ليے ایک مستقل خدائی طاقت تھا۔ اس کے ذریعے سے فرعون کے مقابلہ میں 9 معجزات ظاہر ہوئے۔ بنی اسرائیل کے ليے ظاہر ہونے والے معجزات ان کے علاوہ تھے۔حضرت موسیٰ کے معجزات نے آخری حد تک آپ کی صداقت ثابت کردی تھی۔ اس کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے آپ کا اعتراف نہیں کیا۔ اس کی وجہ ان کا ظلم اور علو تھا۔ فرعون اور اس کے ساتھی اپنی آزادی پر قید لگانے کے ليے تیار نہ تھے۔ مزید یہ کہ وہ جانتے تھے کہ موسیٰ کی بات ماننا اپنی بڑائی کی نفی کرنا ہے۔ اور کون ہے جو اپنی بڑائی کی نفی کی قیمت پر سچائی کو مانے۔

فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ آيَاتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُبِينٌ

📘 حضرت موسیٰ پہاڑ پر آگ کے ليے گئے تھے۔ مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ پیغمبری کے ليے بلائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کو خصوصی عطیہ دیتاہے تو اچانک اور غیر متوقع طورپر دیتاہے تاکہ وہ اس کو براہِ راست اللہ کی طرف سے سمجھے اور اس کے اندر زیادہ سے زیادہ شکر کا جذبہ پیدا ہو۔ حضرت موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) اگرچہ اس وقت کے لحاظ سے ایک مسلم قوم تھی۔ مگر اب وہ بالکل بے جان ہوچکی تھی۔ دوسری طرف انھیں فرعون جیسے جابر حکمراں کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرنا تھا۔ اس ليے اللہ تعالیٰ نے آغاز ہی میں آپ کو عصا کا معجزہ عطا فرمادیا۔ یہ عصا حضرت موسیٰ کے ليے ایک مستقل خدائی طاقت تھا۔ اس کے ذریعے سے فرعون کے مقابلہ میں 9 معجزات ظاہر ہوئے۔ بنی اسرائیل کے ليے ظاہر ہونے والے معجزات ان کے علاوہ تھے۔حضرت موسیٰ کے معجزات نے آخری حد تک آپ کی صداقت ثابت کردی تھی۔ اس کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے آپ کا اعتراف نہیں کیا۔ اس کی وجہ ان کا ظلم اور علو تھا۔ فرعون اور اس کے ساتھی اپنی آزادی پر قید لگانے کے ليے تیار نہ تھے۔ مزید یہ کہ وہ جانتے تھے کہ موسیٰ کی بات ماننا اپنی بڑائی کی نفی کرنا ہے۔ اور کون ہے جو اپنی بڑائی کی نفی کی قیمت پر سچائی کو مانے۔

وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ

📘 حضرت موسیٰ پہاڑ پر آگ کے ليے گئے تھے۔ مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ پیغمبری کے ليے بلائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کو خصوصی عطیہ دیتاہے تو اچانک اور غیر متوقع طورپر دیتاہے تاکہ وہ اس کو براہِ راست اللہ کی طرف سے سمجھے اور اس کے اندر زیادہ سے زیادہ شکر کا جذبہ پیدا ہو۔ حضرت موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) اگرچہ اس وقت کے لحاظ سے ایک مسلم قوم تھی۔ مگر اب وہ بالکل بے جان ہوچکی تھی۔ دوسری طرف انھیں فرعون جیسے جابر حکمراں کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرنا تھا۔ اس ليے اللہ تعالیٰ نے آغاز ہی میں آپ کو عصا کا معجزہ عطا فرمادیا۔ یہ عصا حضرت موسیٰ کے ليے ایک مستقل خدائی طاقت تھا۔ اس کے ذریعے سے فرعون کے مقابلہ میں 9 معجزات ظاہر ہوئے۔ بنی اسرائیل کے ليے ظاہر ہونے والے معجزات ان کے علاوہ تھے۔حضرت موسیٰ کے معجزات نے آخری حد تک آپ کی صداقت ثابت کردی تھی۔ اس کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے آپ کا اعتراف نہیں کیا۔ اس کی وجہ ان کا ظلم اور علو تھا۔ فرعون اور اس کے ساتھی اپنی آزادی پر قید لگانے کے ليے تیار نہ تھے۔ مزید یہ کہ وہ جانتے تھے کہ موسیٰ کی بات ماننا اپنی بڑائی کی نفی کرنا ہے۔ اور کون ہے جو اپنی بڑائی کی نفی کی قیمت پر سچائی کو مانے۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ

📘 حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبر اور بادشاہ تھے۔ آپ کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام بھی پیغمبر اور بادشاہ ہوئے۔ آپ کی سلطنت فلسطین اور شرق اردن سے لے کر شام تک پھیلی ہوئی تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کی صنعتی معلومات دی تھیں۔ نیز آپ کو معجزاتی طور پر کئی چیزیں عطا ہوئی تھیں۔ مثلاً چڑیوں کی بولیاں سمجھنا۔ اور ان کو تربیت دے کر انھیں خبر رسانی وغیرہ کے ليے استعمال کرنا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنے ہم زمانہ لوگوں پر غیر معمولی برتری حاصل تھی۔ مگر اس برتری نے ان کے اندر صرف تواضع کا جذبہ پیدا کیا۔ انھیں جو کچھ حاصل تھا اس کو انھوں نے براہِ راست خدا کا عطیہ قرار دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا زمانہ سلطنت 965 ق م سے لے کر 926 ق م تک ہے۔ اس لحاظ سے آپ تقریباً چالیس سال حکمراں رہے۔

وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ

📘 حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبر اور بادشاہ تھے۔ آپ کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام بھی پیغمبر اور بادشاہ ہوئے۔ آپ کی سلطنت فلسطین اور شرق اردن سے لے کر شام تک پھیلی ہوئی تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کی صنعتی معلومات دی تھیں۔ نیز آپ کو معجزاتی طور پر کئی چیزیں عطا ہوئی تھیں۔ مثلاً چڑیوں کی بولیاں سمجھنا۔ اور ان کو تربیت دے کر انھیں خبر رسانی وغیرہ کے ليے استعمال کرنا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنے ہم زمانہ لوگوں پر غیر معمولی برتری حاصل تھی۔ مگر اس برتری نے ان کے اندر صرف تواضع کا جذبہ پیدا کیا۔ انھیں جو کچھ حاصل تھا اس کو انھوں نے براہِ راست خدا کا عطیہ قرار دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا زمانہ سلطنت 965 ق م سے لے کر 926 ق م تک ہے۔ اس لحاظ سے آپ تقریباً چالیس سال حکمراں رہے۔

وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ

📘 حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں نہ صرف انسان تھے بلکہ جنات اور پرندے بھی آپ کی فوج میں شامل تھے۔ حضرت سلیمان کا لشکر ایک بار کسی وادی سے گزرا جہاں چیونٹیاں بہت زیادہ تھیں۔ چیونٹیوں نے غیرمعمولی طورپر آپ کے لشکر کی عظمت کا اعتراف کیا۔ چیونٹیوں نے اس موقع پر جو گفتگو کی اس کو حضرت سلیمان نے بھی سمجھ لیا۔ اس طرح کا کوئی واقعہ ایک عام انسان کو فخر وغرور میں مبتلا کرنے کے ليے کافی ہے۔ مگر حضرت سلیمان اپنے اس حال کو دیکھ کر سراپا شکر بن گئے۔ جو کچھ بظاہر خود انھیں حاصل تھا اس کو انھوںنے پورے طورپر خدا کے خانہ میں ڈال دیا — یہی ہے صالح انسان کا طریقہ۔

حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

📘 حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں نہ صرف انسان تھے بلکہ جنات اور پرندے بھی آپ کی فوج میں شامل تھے۔ حضرت سلیمان کا لشکر ایک بار کسی وادی سے گزرا جہاں چیونٹیاں بہت زیادہ تھیں۔ چیونٹیوں نے غیرمعمولی طورپر آپ کے لشکر کی عظمت کا اعتراف کیا۔ چیونٹیوں نے اس موقع پر جو گفتگو کی اس کو حضرت سلیمان نے بھی سمجھ لیا۔ اس طرح کا کوئی واقعہ ایک عام انسان کو فخر وغرور میں مبتلا کرنے کے ليے کافی ہے۔ مگر حضرت سلیمان اپنے اس حال کو دیکھ کر سراپا شکر بن گئے۔ جو کچھ بظاہر خود انھیں حاصل تھا اس کو انھوںنے پورے طورپر خدا کے خانہ میں ڈال دیا — یہی ہے صالح انسان کا طریقہ۔

فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ

📘 حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں نہ صرف انسان تھے بلکہ جنات اور پرندے بھی آپ کی فوج میں شامل تھے۔ حضرت سلیمان کا لشکر ایک بار کسی وادی سے گزرا جہاں چیونٹیاں بہت زیادہ تھیں۔ چیونٹیوں نے غیرمعمولی طورپر آپ کے لشکر کی عظمت کا اعتراف کیا۔ چیونٹیوں نے اس موقع پر جو گفتگو کی اس کو حضرت سلیمان نے بھی سمجھ لیا۔ اس طرح کا کوئی واقعہ ایک عام انسان کو فخر وغرور میں مبتلا کرنے کے ليے کافی ہے۔ مگر حضرت سلیمان اپنے اس حال کو دیکھ کر سراپا شکر بن گئے۔ جو کچھ بظاہر خود انھیں حاصل تھا اس کو انھوںنے پورے طورپر خدا کے خانہ میں ڈال دیا — یہی ہے صالح انسان کا طریقہ۔

هُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ

📘 قبطی کی موت کے واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ مدین کا علاقہ بحراحمر کی اس شاخ کے مشرقی ساحل پر تھا جس کو خلیج عقبہ کہاجاتاہے۔ حضرت موسیٰ نے یہاں تقریباً آٹھ سال گزارے اس کے بعد وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر واپس جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں وہ بحر احمر کی دونوں شاخوں کے درمیان اس پہاڑ کے کنارے پہنچے جس کا قدیم نام طور تھا اور اب اس کو جبل موسیٰ (Gebel Musa) کہاجاتا ہے۔ یہ غالباً سردیوں کی رات تھی۔ حضرت موسیٰ کو دور پہاڑ پر ایک آگ سی چیز نظر آئی۔ وہ اس کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خدا کی تجلی تھی، نہ کہ کوئی انسانی آگ۔ پہاڑ کے اوپر جہاں حضرت موسیٰ نے روشنی دیکھی تھی وہاں آج بھی ایک قدیم درخت موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ درخت ہے جس کے اوپر سے حضرت موسیٰ کو خدا کی آواز سنائی دی تھی۔ یہاں بعد کو عیسائی حضرات نے گرجا اور خانقاہ تعمیر کردیا جو آج بھی لوگوں کے ليے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ

📘 سبا (Sabaeans) قدیم زمانہ کی ایک دولت مند قوم تھی۔ اس کا زمانہ 1100 ق م سے لے کر 115 ق م تک ہے۔ اس کا مرکز مارب (یمن) تھا۔ اس علاقہ میں آج بھی اس کے شاندار کھنڈر پائے جاتے ہیں۔حضرت سلیمان کے زمانہ میں یہاں ایک عورت (بلقیس) کی حکومت تھی۔ یہ لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے۔ شیطان نے انھیں سکھایا کہ معبود وہی ہوسکتاہے جو سب سے زیادہ نمایاں ہو۔ سورج چوں کہ تمام دکھائی دینے والی چیزوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے اس ليے وہی اس قابل ہے کہ اس کو معبود سمجھا جائے اور اس کی پرستش کی جائے۔ ہدہد کے ذریعہ حضرت سلیمان کو قوم سبا کے بارے میں مفصل معلومات حاصل ہوئیں۔ یہ ہدہد غالباً آپ کی پرندوں کی فوج سے تعلق رکھتا تھا اور باقاعدہ تربیت یافتہ تھا۔

لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ

📘 سبا (Sabaeans) قدیم زمانہ کی ایک دولت مند قوم تھی۔ اس کا زمانہ 1100 ق م سے لے کر 115 ق م تک ہے۔ اس کا مرکز مارب (یمن) تھا۔ اس علاقہ میں آج بھی اس کے شاندار کھنڈر پائے جاتے ہیں۔حضرت سلیمان کے زمانہ میں یہاں ایک عورت (بلقیس) کی حکومت تھی۔ یہ لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے۔ شیطان نے انھیں سکھایا کہ معبود وہی ہوسکتاہے جو سب سے زیادہ نمایاں ہو۔ سورج چوں کہ تمام دکھائی دینے والی چیزوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے اس ليے وہی اس قابل ہے کہ اس کو معبود سمجھا جائے اور اس کی پرستش کی جائے۔ ہدہد کے ذریعہ حضرت سلیمان کو قوم سبا کے بارے میں مفصل معلومات حاصل ہوئیں۔ یہ ہدہد غالباً آپ کی پرندوں کی فوج سے تعلق رکھتا تھا اور باقاعدہ تربیت یافتہ تھا۔

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ

📘 سبا (Sabaeans) قدیم زمانہ کی ایک دولت مند قوم تھی۔ اس کا زمانہ 1100 ق م سے لے کر 115 ق م تک ہے۔ اس کا مرکز مارب (یمن) تھا۔ اس علاقہ میں آج بھی اس کے شاندار کھنڈر پائے جاتے ہیں۔حضرت سلیمان کے زمانہ میں یہاں ایک عورت (بلقیس) کی حکومت تھی۔ یہ لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے۔ شیطان نے انھیں سکھایا کہ معبود وہی ہوسکتاہے جو سب سے زیادہ نمایاں ہو۔ سورج چوں کہ تمام دکھائی دینے والی چیزوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے اس ليے وہی اس قابل ہے کہ اس کو معبود سمجھا جائے اور اس کی پرستش کی جائے۔ ہدہد کے ذریعہ حضرت سلیمان کو قوم سبا کے بارے میں مفصل معلومات حاصل ہوئیں۔ یہ ہدہد غالباً آپ کی پرندوں کی فوج سے تعلق رکھتا تھا اور باقاعدہ تربیت یافتہ تھا۔

إِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ

📘 سبا (Sabaeans) قدیم زمانہ کی ایک دولت مند قوم تھی۔ اس کا زمانہ 1100 ق م سے لے کر 115 ق م تک ہے۔ اس کا مرکز مارب (یمن) تھا۔ اس علاقہ میں آج بھی اس کے شاندار کھنڈر پائے جاتے ہیں۔حضرت سلیمان کے زمانہ میں یہاں ایک عورت (بلقیس) کی حکومت تھی۔ یہ لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے۔ شیطان نے انھیں سکھایا کہ معبود وہی ہوسکتاہے جو سب سے زیادہ نمایاں ہو۔ سورج چوں کہ تمام دکھائی دینے والی چیزوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے اس ليے وہی اس قابل ہے کہ اس کو معبود سمجھا جائے اور اس کی پرستش کی جائے۔ ہدہد کے ذریعہ حضرت سلیمان کو قوم سبا کے بارے میں مفصل معلومات حاصل ہوئیں۔ یہ ہدہد غالباً آپ کی پرندوں کی فوج سے تعلق رکھتا تھا اور باقاعدہ تربیت یافتہ تھا۔

وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ

📘 سبا (Sabaeans) قدیم زمانہ کی ایک دولت مند قوم تھی۔ اس کا زمانہ 1100 ق م سے لے کر 115 ق م تک ہے۔ اس کا مرکز مارب (یمن) تھا۔ اس علاقہ میں آج بھی اس کے شاندار کھنڈر پائے جاتے ہیں۔حضرت سلیمان کے زمانہ میں یہاں ایک عورت (بلقیس) کی حکومت تھی۔ یہ لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے۔ شیطان نے انھیں سکھایا کہ معبود وہی ہوسکتاہے جو سب سے زیادہ نمایاں ہو۔ سورج چوں کہ تمام دکھائی دینے والی چیزوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے اس ليے وہی اس قابل ہے کہ اس کو معبود سمجھا جائے اور اس کی پرستش کی جائے۔ ہدہد کے ذریعہ حضرت سلیمان کو قوم سبا کے بارے میں مفصل معلومات حاصل ہوئیں۔ یہ ہدہد غالباً آپ کی پرندوں کی فوج سے تعلق رکھتا تھا اور باقاعدہ تربیت یافتہ تھا۔

أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ

📘 سبا (Sabaeans) قدیم زمانہ کی ایک دولت مند قوم تھی۔ اس کا زمانہ 1100 ق م سے لے کر 115 ق م تک ہے۔ اس کا مرکز مارب (یمن) تھا۔ اس علاقہ میں آج بھی اس کے شاندار کھنڈر پائے جاتے ہیں۔حضرت سلیمان کے زمانہ میں یہاں ایک عورت (بلقیس) کی حکومت تھی۔ یہ لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے۔ شیطان نے انھیں سکھایا کہ معبود وہی ہوسکتاہے جو سب سے زیادہ نمایاں ہو۔ سورج چوں کہ تمام دکھائی دینے والی چیزوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے اس ليے وہی اس قابل ہے کہ اس کو معبود سمجھا جائے اور اس کی پرستش کی جائے۔ ہدہد کے ذریعہ حضرت سلیمان کو قوم سبا کے بارے میں مفصل معلومات حاصل ہوئیں۔ یہ ہدہد غالباً آپ کی پرندوں کی فوج سے تعلق رکھتا تھا اور باقاعدہ تربیت یافتہ تھا۔

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ۩

📘 سبا (Sabaeans) قدیم زمانہ کی ایک دولت مند قوم تھی۔ اس کا زمانہ 1100 ق م سے لے کر 115 ق م تک ہے۔ اس کا مرکز مارب (یمن) تھا۔ اس علاقہ میں آج بھی اس کے شاندار کھنڈر پائے جاتے ہیں۔حضرت سلیمان کے زمانہ میں یہاں ایک عورت (بلقیس) کی حکومت تھی۔ یہ لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے۔ شیطان نے انھیں سکھایا کہ معبود وہی ہوسکتاہے جو سب سے زیادہ نمایاں ہو۔ سورج چوں کہ تمام دکھائی دینے والی چیزوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے اس ليے وہی اس قابل ہے کہ اس کو معبود سمجھا جائے اور اس کی پرستش کی جائے۔ ہدہد کے ذریعہ حضرت سلیمان کو قوم سبا کے بارے میں مفصل معلومات حاصل ہوئیں۔ یہ ہدہد غالباً آپ کی پرندوں کی فوج سے تعلق رکھتا تھا اور باقاعدہ تربیت یافتہ تھا۔

۞ قَالَ سَنَنْظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ

📘 حضرت سلیمان کی قوت وسلطنت ایک خدائی عطیہ تھی۔ اسی طرح آپ نے سبا کی حکومت کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ بھی ایک خدائی معاملہ تھا۔ شاہ عبدالقادر دہلوی آیت 37 کے ذیل میں لکھتے ہیں ’’اور کسی پیغمبر نے اس طرح کی بات نہیں فرمائی۔ سلیمان کو حق تعالیٰ کی سلطنت کا زورتھا جو یہ فرمایا‘‘۔ ملکہ سبا (بلقیس) نے معاملہ کو خالص حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھا۔ اس نے یہ رائے قائم کی کہ اگر ہم سلیمان کی طاقت سے ٹکرائیں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ ہم ہاریں گے اور پھر ہمارے ساتھ وہی کیا جائے گا جو ہر غالب قوم مغلوب قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر ہم اطاعت قبول کرلیں تو ہم تباہی سے بچ جائیں گے۔ تاہم ملکہ نے ابتدائی اندازوں کے لیے تحفے بھیجنے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلیمان ہماری دولت کے خواہش مند ہیں یا اس سے آگے ان کا ہم سے کوئی اصولی مطالبہ ہے۔

اذْهَبْ بِكِتَابِي هَٰذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ

📘 حضرت سلیمان کی قوت وسلطنت ایک خدائی عطیہ تھی۔ اسی طرح آپ نے سبا کی حکومت کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ بھی ایک خدائی معاملہ تھا۔ شاہ عبدالقادر دہلوی آیت 37 کے ذیل میں لکھتے ہیں ’’اور کسی پیغمبر نے اس طرح کی بات نہیں فرمائی۔ سلیمان کو حق تعالیٰ کی سلطنت کا زورتھا جو یہ فرمایا‘‘۔ ملکہ سبا (بلقیس) نے معاملہ کو خالص حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھا۔ اس نے یہ رائے قائم کی کہ اگر ہم سلیمان کی طاقت سے ٹکرائیں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ ہم ہاریں گے اور پھر ہمارے ساتھ وہی کیا جائے گا جو ہر غالب قوم مغلوب قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر ہم اطاعت قبول کرلیں تو ہم تباہی سے بچ جائیں گے۔ تاہم ملکہ نے ابتدائی اندازوں کے لیے تحفے بھیجنے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلیمان ہماری دولت کے خواہش مند ہیں یا اس سے آگے ان کا ہم سے کوئی اصولی مطالبہ ہے۔

قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ

📘 حضرت سلیمان کی قوت وسلطنت ایک خدائی عطیہ تھی۔ اسی طرح آپ نے سبا کی حکومت کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ بھی ایک خدائی معاملہ تھا۔ شاہ عبدالقادر دہلوی آیت 37 کے ذیل میں لکھتے ہیں ’’اور کسی پیغمبر نے اس طرح کی بات نہیں فرمائی۔ سلیمان کو حق تعالیٰ کی سلطنت کا زورتھا جو یہ فرمایا‘‘۔ ملکہ سبا (بلقیس) نے معاملہ کو خالص حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھا۔ اس نے یہ رائے قائم کی کہ اگر ہم سلیمان کی طاقت سے ٹکرائیں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ ہم ہاریں گے اور پھر ہمارے ساتھ وہی کیا جائے گا جو ہر غالب قوم مغلوب قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر ہم اطاعت قبول کرلیں تو ہم تباہی سے بچ جائیں گے۔ تاہم ملکہ نے ابتدائی اندازوں کے لیے تحفے بھیجنے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلیمان ہماری دولت کے خواہش مند ہیں یا اس سے آگے ان کا ہم سے کوئی اصولی مطالبہ ہے۔

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ

📘 قبطی کی موت کے واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ مدین کا علاقہ بحراحمر کی اس شاخ کے مشرقی ساحل پر تھا جس کو خلیج عقبہ کہاجاتاہے۔ حضرت موسیٰ نے یہاں تقریباً آٹھ سال گزارے اس کے بعد وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر واپس جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں وہ بحر احمر کی دونوں شاخوں کے درمیان اس پہاڑ کے کنارے پہنچے جس کا قدیم نام طور تھا اور اب اس کو جبل موسیٰ (Gebel Musa) کہاجاتا ہے۔ یہ غالباً سردیوں کی رات تھی۔ حضرت موسیٰ کو دور پہاڑ پر ایک آگ سی چیز نظر آئی۔ وہ اس کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خدا کی تجلی تھی، نہ کہ کوئی انسانی آگ۔ پہاڑ کے اوپر جہاں حضرت موسیٰ نے روشنی دیکھی تھی وہاں آج بھی ایک قدیم درخت موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ درخت ہے جس کے اوپر سے حضرت موسیٰ کو خدا کی آواز سنائی دی تھی۔ یہاں بعد کو عیسائی حضرات نے گرجا اور خانقاہ تعمیر کردیا جو آج بھی لوگوں کے ليے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

📘 حضرت سلیمان کی قوت وسلطنت ایک خدائی عطیہ تھی۔ اسی طرح آپ نے سبا کی حکومت کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ بھی ایک خدائی معاملہ تھا۔ شاہ عبدالقادر دہلوی آیت 37 کے ذیل میں لکھتے ہیں ’’اور کسی پیغمبر نے اس طرح کی بات نہیں فرمائی۔ سلیمان کو حق تعالیٰ کی سلطنت کا زورتھا جو یہ فرمایا‘‘۔ ملکہ سبا (بلقیس) نے معاملہ کو خالص حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھا۔ اس نے یہ رائے قائم کی کہ اگر ہم سلیمان کی طاقت سے ٹکرائیں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ ہم ہاریں گے اور پھر ہمارے ساتھ وہی کیا جائے گا جو ہر غالب قوم مغلوب قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر ہم اطاعت قبول کرلیں تو ہم تباہی سے بچ جائیں گے۔ تاہم ملکہ نے ابتدائی اندازوں کے لیے تحفے بھیجنے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلیمان ہماری دولت کے خواہش مند ہیں یا اس سے آگے ان کا ہم سے کوئی اصولی مطالبہ ہے۔

أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ

📘 حضرت سلیمان کی قوت وسلطنت ایک خدائی عطیہ تھی۔ اسی طرح آپ نے سبا کی حکومت کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ بھی ایک خدائی معاملہ تھا۔ شاہ عبدالقادر دہلوی آیت 37 کے ذیل میں لکھتے ہیں ’’اور کسی پیغمبر نے اس طرح کی بات نہیں فرمائی۔ سلیمان کو حق تعالیٰ کی سلطنت کا زورتھا جو یہ فرمایا‘‘۔ ملکہ سبا (بلقیس) نے معاملہ کو خالص حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھا۔ اس نے یہ رائے قائم کی کہ اگر ہم سلیمان کی طاقت سے ٹکرائیں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ ہم ہاریں گے اور پھر ہمارے ساتھ وہی کیا جائے گا جو ہر غالب قوم مغلوب قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر ہم اطاعت قبول کرلیں تو ہم تباہی سے بچ جائیں گے۔ تاہم ملکہ نے ابتدائی اندازوں کے لیے تحفے بھیجنے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلیمان ہماری دولت کے خواہش مند ہیں یا اس سے آگے ان کا ہم سے کوئی اصولی مطالبہ ہے۔

قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنْتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّىٰ تَشْهَدُونِ

📘 حضرت سلیمان کی قوت وسلطنت ایک خدائی عطیہ تھی۔ اسی طرح آپ نے سبا کی حکومت کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ بھی ایک خدائی معاملہ تھا۔ شاہ عبدالقادر دہلوی آیت 37 کے ذیل میں لکھتے ہیں ’’اور کسی پیغمبر نے اس طرح کی بات نہیں فرمائی۔ سلیمان کو حق تعالیٰ کی سلطنت کا زورتھا جو یہ فرمایا‘‘۔ ملکہ سبا (بلقیس) نے معاملہ کو خالص حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھا۔ اس نے یہ رائے قائم کی کہ اگر ہم سلیمان کی طاقت سے ٹکرائیں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ ہم ہاریں گے اور پھر ہمارے ساتھ وہی کیا جائے گا جو ہر غالب قوم مغلوب قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر ہم اطاعت قبول کرلیں تو ہم تباہی سے بچ جائیں گے۔ تاہم ملکہ نے ابتدائی اندازوں کے لیے تحفے بھیجنے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلیمان ہماری دولت کے خواہش مند ہیں یا اس سے آگے ان کا ہم سے کوئی اصولی مطالبہ ہے۔

قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالْأَمْرُ إِلَيْكِ فَانْظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ

📘 حضرت سلیمان کی قوت وسلطنت ایک خدائی عطیہ تھی۔ اسی طرح آپ نے سبا کی حکومت کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ بھی ایک خدائی معاملہ تھا۔ شاہ عبدالقادر دہلوی آیت 37 کے ذیل میں لکھتے ہیں ’’اور کسی پیغمبر نے اس طرح کی بات نہیں فرمائی۔ سلیمان کو حق تعالیٰ کی سلطنت کا زورتھا جو یہ فرمایا‘‘۔ ملکہ سبا (بلقیس) نے معاملہ کو خالص حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھا۔ اس نے یہ رائے قائم کی کہ اگر ہم سلیمان کی طاقت سے ٹکرائیں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ ہم ہاریں گے اور پھر ہمارے ساتھ وہی کیا جائے گا جو ہر غالب قوم مغلوب قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر ہم اطاعت قبول کرلیں تو ہم تباہی سے بچ جائیں گے۔ تاہم ملکہ نے ابتدائی اندازوں کے لیے تحفے بھیجنے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلیمان ہماری دولت کے خواہش مند ہیں یا اس سے آگے ان کا ہم سے کوئی اصولی مطالبہ ہے۔

قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ۖ وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ

📘 حضرت سلیمان کی قوت وسلطنت ایک خدائی عطیہ تھی۔ اسی طرح آپ نے سبا کی حکومت کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ بھی ایک خدائی معاملہ تھا۔ شاہ عبدالقادر دہلوی آیت 37 کے ذیل میں لکھتے ہیں ’’اور کسی پیغمبر نے اس طرح کی بات نہیں فرمائی۔ سلیمان کو حق تعالیٰ کی سلطنت کا زورتھا جو یہ فرمایا‘‘۔ ملکہ سبا (بلقیس) نے معاملہ کو خالص حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھا۔ اس نے یہ رائے قائم کی کہ اگر ہم سلیمان کی طاقت سے ٹکرائیں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ ہم ہاریں گے اور پھر ہمارے ساتھ وہی کیا جائے گا جو ہر غالب قوم مغلوب قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر ہم اطاعت قبول کرلیں تو ہم تباہی سے بچ جائیں گے۔ تاہم ملکہ نے ابتدائی اندازوں کے لیے تحفے بھیجنے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلیمان ہماری دولت کے خواہش مند ہیں یا اس سے آگے ان کا ہم سے کوئی اصولی مطالبہ ہے۔

وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ

📘 حضرت سلیمان کی قوت وسلطنت ایک خدائی عطیہ تھی۔ اسی طرح آپ نے سبا کی حکومت کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ بھی ایک خدائی معاملہ تھا۔ شاہ عبدالقادر دہلوی آیت 37 کے ذیل میں لکھتے ہیں ’’اور کسی پیغمبر نے اس طرح کی بات نہیں فرمائی۔ سلیمان کو حق تعالیٰ کی سلطنت کا زورتھا جو یہ فرمایا‘‘۔ ملکہ سبا (بلقیس) نے معاملہ کو خالص حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھا۔ اس نے یہ رائے قائم کی کہ اگر ہم سلیمان کی طاقت سے ٹکرائیں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ ہم ہاریں گے اور پھر ہمارے ساتھ وہی کیا جائے گا جو ہر غالب قوم مغلوب قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر ہم اطاعت قبول کرلیں تو ہم تباہی سے بچ جائیں گے۔ تاہم ملکہ نے ابتدائی اندازوں کے لیے تحفے بھیجنے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلیمان ہماری دولت کے خواہش مند ہیں یا اس سے آگے ان کا ہم سے کوئی اصولی مطالبہ ہے۔

فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِمَّا آتَاكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ

📘 حضرت سلیمان کو نبوت اور خدا کی معرفت کی شکل میں جو قیمتی دولت ملی تھی، اس کے مقابلہ میں ہر دوسری دولت ان کی نظر میں ہیچ ہوچکی تھی۔ چنانچہ ملکہ سبا کی طرف سے جب ان کے پاس سونے چاندی کے تحفے پہنچے تو انھوں نے ان کی طرف نگاہ بھی نہ کی۔ حضرت سلیمان نے اپنے عمل سے ملکہ سبا کے سفیروں کو یہ تاثر دیا کہ میرا معاملہ اصولی معاملہ ہے، نہ کہ مفاد کا معاملہ۔ مفسر ابن کثیر اس کی تشریح میں یہ الفاظ لکھتے ہیںأَيْأَتُصَانِعُونَنِي بِمَالٍ لِأَتْرُكَكُمْ عَلَى شِرْكِكُمْ وَمُلْكِكُمْ؟! (تفسیر ابن کثیر، جلد6، صفحہ 191 )یعنی، کیا تم مال دے کر مجھ کو متاثر کرنا چاہتے ہو کہ میں تم کو تمھارے شرک پر چھوڑ دوں اور تمھاری حکومت تمھارے پاس رہنے دوں۔

ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ

📘 حضرت سلیمان کو نبوت اور خدا کی معرفت کی شکل میں جو قیمتی دولت ملی تھی، اس کے مقابلہ میں ہر دوسری دولت ان کی نظر میں ہیچ ہوچکی تھی۔ چنانچہ ملکہ سبا کی طرف سے جب ان کے پاس سونے چاندی کے تحفے پہنچے تو انھوں نے ان کی طرف نگاہ بھی نہ کی۔ حضرت سلیمان نے اپنے عمل سے ملکہ سبا کے سفیروں کو یہ تاثر دیا کہ میرا معاملہ اصولی معاملہ ہے، نہ کہ مفاد کا معاملہ۔ مفسر ابن کثیر اس کی تشریح میں یہ الفاظ لکھتے ہیںأَيْأَتُصَانِعُونَنِي بِمَالٍ لِأَتْرُكَكُمْ عَلَى شِرْكِكُمْ وَمُلْكِكُمْ؟! (تفسیر ابن کثیر، جلد6، صفحہ 191 )یعنی، کیا تم مال دے کر مجھ کو متاثر کرنا چاہتے ہو کہ میں تم کو تمھارے شرک پر چھوڑ دوں اور تمھاری حکومت تمھارے پاس رہنے دوں۔

قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَنْ يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ

📘 حضرت سلیمان کے پاس اگرچہ غیر معمولی طاقت تھی۔ مگر انھوں نے استعمالِ طاقت کے بجائے مظاہرۂ طاقت کے ذریعہ قوم سبا کو زیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ آپ نے اپنے خصوصی کارندہ کے ذریعہ ملکہ کے تخت کو مارب (Marib) کے محل سے یروشلم (فلسطین) منگوالیا۔ تخت کو منگانے کا واقعہ غالباً اس وقت پیش آیا جب کہ تحفہ کی واپسی کے بعد ملکہ سبا یمن سے فلسطین کے ليے روانہ ہوئی۔ تاکہ وہ حضرت سلیمان کے دربار میں پہنچ کر براہِ راست آپ سے گفتگو کرے۔ ملکہ سبا کا اپنے خدم وحشم کے ساتھ یہ سفر یقیناً اس وقت ہوا ہوگا جب کہ اس کے سفارتی وفد نے واپس جاکر حضرت سلیمان کی حکمت کی باتیں اور آپ کے غیر معمولی کردار کی شہادت دی اور آپ کی غیر معمولی عظمت کا حال بیان کیا۔ مارب سے یروشلم کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ ہزار میل ہے۔ یہ لمبا فاصلہ اس طرح طے ہوا کہ اِدھر حضرت سلیمان کی زبان سے حکم کے الفاظ نکلے اور ادھر زروجواہر سے جڑا ہوا تخت ان کے سامنے رکھا ہوا موجود تھا۔ اس غیر معمولی قوت کے باوجود حضرت سلیمان کے اندر فخر کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ وہ سرتاپا تواضع بن کر خدا کے آگے جھکے رہے۔

قَالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ ۖ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ

📘 حضرت سلیمان کے پاس اگرچہ غیر معمولی طاقت تھی۔ مگر انھوں نے استعمالِ طاقت کے بجائے مظاہرۂ طاقت کے ذریعہ قوم سبا کو زیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ آپ نے اپنے خصوصی کارندہ کے ذریعہ ملکہ کے تخت کو مارب (Marib) کے محل سے یروشلم (فلسطین) منگوالیا۔ تخت کو منگانے کا واقعہ غالباً اس وقت پیش آیا جب کہ تحفہ کی واپسی کے بعد ملکہ سبا یمن سے فلسطین کے ليے روانہ ہوئی۔ تاکہ وہ حضرت سلیمان کے دربار میں پہنچ کر براہِ راست آپ سے گفتگو کرے۔ ملکہ سبا کا اپنے خدم وحشم کے ساتھ یہ سفر یقیناً اس وقت ہوا ہوگا جب کہ اس کے سفارتی وفد نے واپس جاکر حضرت سلیمان کی حکمت کی باتیں اور آپ کے غیر معمولی کردار کی شہادت دی اور آپ کی غیر معمولی عظمت کا حال بیان کیا۔ مارب سے یروشلم کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ ہزار میل ہے۔ یہ لمبا فاصلہ اس طرح طے ہوا کہ اِدھر حضرت سلیمان کی زبان سے حکم کے الفاظ نکلے اور ادھر زروجواہر سے جڑا ہوا تخت ان کے سامنے رکھا ہوا موجود تھا۔ اس غیر معمولی قوت کے باوجود حضرت سلیمان کے اندر فخر کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ وہ سرتاپا تواضع بن کر خدا کے آگے جھکے رہے۔

إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ

📘 قبطی کی موت کے واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ مدین کا علاقہ بحراحمر کی اس شاخ کے مشرقی ساحل پر تھا جس کو خلیج عقبہ کہاجاتاہے۔ حضرت موسیٰ نے یہاں تقریباً آٹھ سال گزارے اس کے بعد وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر واپس جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں وہ بحر احمر کی دونوں شاخوں کے درمیان اس پہاڑ کے کنارے پہنچے جس کا قدیم نام طور تھا اور اب اس کو جبل موسیٰ (Gebel Musa) کہاجاتا ہے۔ یہ غالباً سردیوں کی رات تھی۔ حضرت موسیٰ کو دور پہاڑ پر ایک آگ سی چیز نظر آئی۔ وہ اس کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خدا کی تجلی تھی، نہ کہ کوئی انسانی آگ۔ پہاڑ کے اوپر جہاں حضرت موسیٰ نے روشنی دیکھی تھی وہاں آج بھی ایک قدیم درخت موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ درخت ہے جس کے اوپر سے حضرت موسیٰ کو خدا کی آواز سنائی دی تھی۔ یہاں بعد کو عیسائی حضرات نے گرجا اور خانقاہ تعمیر کردیا جو آج بھی لوگوں کے ليے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ

📘 حضرت سلیمان کے پاس اگرچہ غیر معمولی طاقت تھی۔ مگر انھوں نے استعمالِ طاقت کے بجائے مظاہرۂ طاقت کے ذریعہ قوم سبا کو زیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ آپ نے اپنے خصوصی کارندہ کے ذریعہ ملکہ کے تخت کو مارب (Marib) کے محل سے یروشلم (فلسطین) منگوالیا۔ تخت کو منگانے کا واقعہ غالباً اس وقت پیش آیا جب کہ تحفہ کی واپسی کے بعد ملکہ سبا یمن سے فلسطین کے ليے روانہ ہوئی۔ تاکہ وہ حضرت سلیمان کے دربار میں پہنچ کر براہِ راست آپ سے گفتگو کرے۔ ملکہ سبا کا اپنے خدم وحشم کے ساتھ یہ سفر یقیناً اس وقت ہوا ہوگا جب کہ اس کے سفارتی وفد نے واپس جاکر حضرت سلیمان کی حکمت کی باتیں اور آپ کے غیر معمولی کردار کی شہادت دی اور آپ کی غیر معمولی عظمت کا حال بیان کیا۔ مارب سے یروشلم کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ ہزار میل ہے۔ یہ لمبا فاصلہ اس طرح طے ہوا کہ اِدھر حضرت سلیمان کی زبان سے حکم کے الفاظ نکلے اور ادھر زروجواہر سے جڑا ہوا تخت ان کے سامنے رکھا ہوا موجود تھا۔ اس غیر معمولی قوت کے باوجود حضرت سلیمان کے اندر فخر کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ وہ سرتاپا تواضع بن کر خدا کے آگے جھکے رہے۔

قَالَ نَكِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ أَتَهْتَدِي أَمْ تَكُونُ مِنَ الَّذِينَ لَا يَهْتَدُونَ

📘 ملکہ سبا اپنے ملک سے روانہ ہو کر بیت المقدس پہنچی۔ یہاں وہ حضرت سلیمان کے محل میں داخل ہوئی تو بالکل انجان طورپر اس کے سامنے ایک تخت لایاگیا۔ اور کہاگیا کہ دیکھو، کیا یہ تمھارا تخت ہے۔ یہ دیکھ کر وہ خدا کی قدرت پر حیران رہ گئی کہ اپنے جس تخت کو وہ مارب کے محل میں محفوظ کرکے آئی تھی وہ پراسرار طورپر ڈیڑھ ہزار میل کا فاصلہ طے کرکے بیت المقدس پہنچ گیا ہے۔ حضرت سلیمان کے محل میں داخل ہو کر ملکہ سبا ایک ایسے مقام پر پہنچی جس کا فرش صاف وشفاف شیشہ کی موٹی تختیوں سے بنایا گیا تھا اور اس کے نیچے پانی بہہ رہا تھا۔ ملکہ جب چلتے ہوئے یہاں پہنچی تو اس کو اچانک محسوس ہو ا کہ اس کے آگے پانی کا حوض ہے۔ اس وقت اس نے وہی کیا جو پانی میں اترنے والا ہر آدمی کرتاہے۔ یعنی اس نے غیر ارادی طور پر اپنے کپڑے اٹھاليے۔ اس طرح گویا کہ عملی تجربہ کی زبان میں اس کو بتایا گیا کہ انسان ظاہر کو دیکھ کر فریب کھا جاتاہے، مگر اصل حقیقت اکثر اس سے مختلف ہوتی ہے جو ظاہری آنکھوں سے دکھائی دیتی ہے۔ آدمی ظاہری طورپر سورج اور چاند کو نمایاں دیکھ کران کی پرستش کرنے لگتاہے،حالاں کہ حقیقی خدا وہ ہے جو ان ظواہر سے آگے ہے۔ ملکہ سبا اب تک قومی روایات کے زیر اثر سورج کی پرستش کررہي تھی۔ مگر حضرت سلیمان کے قریب پہنچ کر اس نے جو کچھ سنا اور جوکچھ دیکھا اس نے اس کے ذہن سے غیر اللہ کی عظمت کا یکسر خاتمہ کردیا۔ اس نے دینِ شرک کو چھوڑ دیا اور دینِ توحید کو دل وجان سے اختیار کرلیا۔

فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أَهَٰكَذَا عَرْشُكِ ۖ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ۚ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ

📘 ملکہ سبا اپنے ملک سے روانہ ہو کر بیت المقدس پہنچی۔ یہاں وہ حضرت سلیمان کے محل میں داخل ہوئی تو بالکل انجان طورپر اس کے سامنے ایک تخت لایاگیا۔ اور کہاگیا کہ دیکھو، کیا یہ تمھارا تخت ہے۔ یہ دیکھ کر وہ خدا کی قدرت پر حیران رہ گئی کہ اپنے جس تخت کو وہ مارب کے محل میں محفوظ کرکے آئی تھی وہ پراسرار طورپر ڈیڑھ ہزار میل کا فاصلہ طے کرکے بیت المقدس پہنچ گیا ہے۔ حضرت سلیمان کے محل میں داخل ہو کر ملکہ سبا ایک ایسے مقام پر پہنچی جس کا فرش صاف وشفاف شیشہ کی موٹی تختیوں سے بنایا گیا تھا اور اس کے نیچے پانی بہہ رہا تھا۔ ملکہ جب چلتے ہوئے یہاں پہنچی تو اس کو اچانک محسوس ہو ا کہ اس کے آگے پانی کا حوض ہے۔ اس وقت اس نے وہی کیا جو پانی میں اترنے والا ہر آدمی کرتاہے۔ یعنی اس نے غیر ارادی طور پر اپنے کپڑے اٹھاليے۔ اس طرح گویا کہ عملی تجربہ کی زبان میں اس کو بتایا گیا کہ انسان ظاہر کو دیکھ کر فریب کھا جاتاہے، مگر اصل حقیقت اکثر اس سے مختلف ہوتی ہے جو ظاہری آنکھوں سے دکھائی دیتی ہے۔ آدمی ظاہری طورپر سورج اور چاند کو نمایاں دیکھ کران کی پرستش کرنے لگتاہے،حالاں کہ حقیقی خدا وہ ہے جو ان ظواہر سے آگے ہے۔ ملکہ سبا اب تک قومی روایات کے زیر اثر سورج کی پرستش کررہي تھی۔ مگر حضرت سلیمان کے قریب پہنچ کر اس نے جو کچھ سنا اور جوکچھ دیکھا اس نے اس کے ذہن سے غیر اللہ کی عظمت کا یکسر خاتمہ کردیا۔ اس نے دینِ شرک کو چھوڑ دیا اور دینِ توحید کو دل وجان سے اختیار کرلیا۔

وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ إِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كَافِرِينَ

📘 ملکہ سبا اپنے ملک سے روانہ ہو کر بیت المقدس پہنچی۔ یہاں وہ حضرت سلیمان کے محل میں داخل ہوئی تو بالکل انجان طورپر اس کے سامنے ایک تخت لایاگیا۔ اور کہاگیا کہ دیکھو، کیا یہ تمھارا تخت ہے۔ یہ دیکھ کر وہ خدا کی قدرت پر حیران رہ گئی کہ اپنے جس تخت کو وہ مارب کے محل میں محفوظ کرکے آئی تھی وہ پراسرار طورپر ڈیڑھ ہزار میل کا فاصلہ طے کرکے بیت المقدس پہنچ گیا ہے۔ حضرت سلیمان کے محل میں داخل ہو کر ملکہ سبا ایک ایسے مقام پر پہنچی جس کا فرش صاف وشفاف شیشہ کی موٹی تختیوں سے بنایا گیا تھا اور اس کے نیچے پانی بہہ رہا تھا۔ ملکہ جب چلتے ہوئے یہاں پہنچی تو اس کو اچانک محسوس ہو ا کہ اس کے آگے پانی کا حوض ہے۔ اس وقت اس نے وہی کیا جو پانی میں اترنے والا ہر آدمی کرتاہے۔ یعنی اس نے غیر ارادی طور پر اپنے کپڑے اٹھاليے۔ اس طرح گویا کہ عملی تجربہ کی زبان میں اس کو بتایا گیا کہ انسان ظاہر کو دیکھ کر فریب کھا جاتاہے، مگر اصل حقیقت اکثر اس سے مختلف ہوتی ہے جو ظاہری آنکھوں سے دکھائی دیتی ہے۔ آدمی ظاہری طورپر سورج اور چاند کو نمایاں دیکھ کران کی پرستش کرنے لگتاہے،حالاں کہ حقیقی خدا وہ ہے جو ان ظواہر سے آگے ہے۔ ملکہ سبا اب تک قومی روایات کے زیر اثر سورج کی پرستش کررہي تھی۔ مگر حضرت سلیمان کے قریب پہنچ کر اس نے جو کچھ سنا اور جوکچھ دیکھا اس نے اس کے ذہن سے غیر اللہ کی عظمت کا یکسر خاتمہ کردیا۔ اس نے دینِ شرک کو چھوڑ دیا اور دینِ توحید کو دل وجان سے اختیار کرلیا۔

قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ ۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَارِيرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 ملکہ سبا اپنے ملک سے روانہ ہو کر بیت المقدس پہنچی۔ یہاں وہ حضرت سلیمان کے محل میں داخل ہوئی تو بالکل انجان طورپر اس کے سامنے ایک تخت لایاگیا۔ اور کہاگیا کہ دیکھو، کیا یہ تمھارا تخت ہے۔ یہ دیکھ کر وہ خدا کی قدرت پر حیران رہ گئی کہ اپنے جس تخت کو وہ مارب کے محل میں محفوظ کرکے آئی تھی وہ پراسرار طورپر ڈیڑھ ہزار میل کا فاصلہ طے کرکے بیت المقدس پہنچ گیا ہے۔ حضرت سلیمان کے محل میں داخل ہو کر ملکہ سبا ایک ایسے مقام پر پہنچی جس کا فرش صاف وشفاف شیشہ کی موٹی تختیوں سے بنایا گیا تھا اور اس کے نیچے پانی بہہ رہا تھا۔ ملکہ جب چلتے ہوئے یہاں پہنچی تو اس کو اچانک محسوس ہو ا کہ اس کے آگے پانی کا حوض ہے۔ اس وقت اس نے وہی کیا جو پانی میں اترنے والا ہر آدمی کرتاہے۔ یعنی اس نے غیر ارادی طور پر اپنے کپڑے اٹھاليے۔ اس طرح گویا کہ عملی تجربہ کی زبان میں اس کو بتایا گیا کہ انسان ظاہر کو دیکھ کر فریب کھا جاتاہے، مگر اصل حقیقت اکثر اس سے مختلف ہوتی ہے جو ظاہری آنکھوں سے دکھائی دیتی ہے۔ آدمی ظاہری طورپر سورج اور چاند کو نمایاں دیکھ کران کی پرستش کرنے لگتاہے،حالاں کہ حقیقی خدا وہ ہے جو ان ظواہر سے آگے ہے۔ ملکہ سبا اب تک قومی روایات کے زیر اثر سورج کی پرستش کررہي تھی۔ مگر حضرت سلیمان کے قریب پہنچ کر اس نے جو کچھ سنا اور جوکچھ دیکھا اس نے اس کے ذہن سے غیر اللہ کی عظمت کا یکسر خاتمہ کردیا۔ اس نے دینِ شرک کو چھوڑ دیا اور دینِ توحید کو دل وجان سے اختیار کرلیا۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ

📘 حضرت صالح علیہ السلام نے توحید خالص کی دعوت شروع کی تو ان کی قوم دو طبقوں میں بٹ گئی۔ جو لوگ قوم کے بڑے تھے وہ اپنی بڑائی میں گم رہے اور حضرت صالح کے بے آمیز دین کو قبول کرنے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ البتہ چھوٹے لوگوں میں سے کچھ افراد نکلے جنھوں نے آپ کی پکار پر لبیک کہا۔ ان دونوں گروہوں میں اختلافی بحثیں شروع ہوگئیں۔ بڑے لوگ پر فخر انداز میں کہتے کہ ہم تمھارے منکر ہیں۔ پھر ہمارے انکار کی پاداش میں جو عذاب تم لاسکتے ہو لے آؤ۔ کبھی کوئی مصیبت پڑتی تو وہ کہہ دیتے کہ صالح اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کی وجہ سے یہ بلا ہمارے اوپر آئی ہے۔ یہ باتیں وہ حضرت صالح اور آپ کی دعوت کی تحقیر کے طورپر کہتے تھے، نہ کہ سنجیدہ خیال کے طورپر۔ ان کی اچھی حالت اور ان کی بری حالت دونوں خدا کی طرف سے تھی۔ مگر اچھی حالت سے انھوں نے جھوٹے فخر کی غذا لی اور بری حالت سے جھوٹی شکایت کی۔ ان کے درمیان حق کے داعی کا اٹھنا ان کے ليے خدا کا ایک امتحان تھا۔ وہ اس آزمائش کے میدان میں کھڑے کردئے گئے تھے کہ وہ حق کو پہچان کر اس کا ساتھ دیتے ہیں یا اس کے مقابلے میں اندھے بہرے بنے رہتے ہیں۔ مگر وہ دوسری دوسری باتوں میں الجھے رہے اور اصل معاملہ کو سمجھنے سے قاصر رہے۔

قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ۖ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

📘 حضرت صالح علیہ السلام نے توحید خالص کی دعوت شروع کی تو ان کی قوم دو طبقوں میں بٹ گئی۔ جو لوگ قوم کے بڑے تھے وہ اپنی بڑائی میں گم رہے اور حضرت صالح کے بے آمیز دین کو قبول کرنے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ البتہ چھوٹے لوگوں میں سے کچھ افراد نکلے جنھوں نے آپ کی پکار پر لبیک کہا۔ ان دونوں گروہوں میں اختلافی بحثیں شروع ہوگئیں۔ بڑے لوگ پر فخر انداز میں کہتے کہ ہم تمھارے منکر ہیں۔ پھر ہمارے انکار کی پاداش میں جو عذاب تم لاسکتے ہو لے آؤ۔ کبھی کوئی مصیبت پڑتی تو وہ کہہ دیتے کہ صالح اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کی وجہ سے یہ بلا ہمارے اوپر آئی ہے۔ یہ باتیں وہ حضرت صالح اور آپ کی دعوت کی تحقیر کے طورپر کہتے تھے، نہ کہ سنجیدہ خیال کے طورپر۔ ان کی اچھی حالت اور ان کی بری حالت دونوں خدا کی طرف سے تھی۔ مگر اچھی حالت سے انھوں نے جھوٹے فخر کی غذا لی اور بری حالت سے جھوٹی شکایت کی۔ ان کے درمیان حق کے داعی کا اٹھنا ان کے ليے خدا کا ایک امتحان تھا۔ وہ اس آزمائش کے میدان میں کھڑے کردئے گئے تھے کہ وہ حق کو پہچان کر اس کا ساتھ دیتے ہیں یا اس کے مقابلے میں اندھے بہرے بنے رہتے ہیں۔ مگر وہ دوسری دوسری باتوں میں الجھے رہے اور اصل معاملہ کو سمجھنے سے قاصر رہے۔

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ ۚ قَالَ طَائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ ۖ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ

📘 حضرت صالح علیہ السلام نے توحید خالص کی دعوت شروع کی تو ان کی قوم دو طبقوں میں بٹ گئی۔ جو لوگ قوم کے بڑے تھے وہ اپنی بڑائی میں گم رہے اور حضرت صالح کے بے آمیز دین کو قبول کرنے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ البتہ چھوٹے لوگوں میں سے کچھ افراد نکلے جنھوں نے آپ کی پکار پر لبیک کہا۔ ان دونوں گروہوں میں اختلافی بحثیں شروع ہوگئیں۔ بڑے لوگ پر فخر انداز میں کہتے کہ ہم تمھارے منکر ہیں۔ پھر ہمارے انکار کی پاداش میں جو عذاب تم لاسکتے ہو لے آؤ۔ کبھی کوئی مصیبت پڑتی تو وہ کہہ دیتے کہ صالح اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کی وجہ سے یہ بلا ہمارے اوپر آئی ہے۔ یہ باتیں وہ حضرت صالح اور آپ کی دعوت کی تحقیر کے طورپر کہتے تھے، نہ کہ سنجیدہ خیال کے طورپر۔ ان کی اچھی حالت اور ان کی بری حالت دونوں خدا کی طرف سے تھی۔ مگر اچھی حالت سے انھوں نے جھوٹے فخر کی غذا لی اور بری حالت سے جھوٹی شکایت کی۔ ان کے درمیان حق کے داعی کا اٹھنا ان کے ليے خدا کا ایک امتحان تھا۔ وہ اس آزمائش کے میدان میں کھڑے کردئے گئے تھے کہ وہ حق کو پہچان کر اس کا ساتھ دیتے ہیں یا اس کے مقابلے میں اندھے بہرے بنے رہتے ہیں۔ مگر وہ دوسری دوسری باتوں میں الجھے رہے اور اصل معاملہ کو سمجھنے سے قاصر رہے۔

وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ

📘 قوم میں نو بڑے سردار تھے۔وہ اپنے کو بڑا باقی رکھنے کے ليے حق کو چھوٹا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ اور اس قسم کی کوشش بلا شبہ خدا کی زمین میں سب سے بڑا فساد ہے۔ ان سرداروں نے آخری مرحلہ میں حضرت صالح کو ہلاک کرنے کی سازش کی۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اپنے خفیہ منصوبہ کے مطابق حضرت صالح کے خلاف کوئی اقدام کریں، خدا نے خود ان کو پکڑ لیا۔ وہ اپنی ساری بڑائی کے باوجود اس طرح برباد کردئے گئے کہ ان کی قدیم بستیوں میں اب صرف ان کے ٹوٹے ہوئے کھنڈر ان کی یادگار كے طور پر باقی رہ گئے ہیں۔ اس قسم کے تاریخی واقعات میں زبردست سبق چھپا ہوا ہے۔ مگر اس سبق کو وہی شخص پائے گا جو اس کو قانونِ الٰہی سے جوڑے۔ اس کے برعکس، جو لوگ اس کو اسباب ِطبیعی سے جوڑیں وہ اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے۔

قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

📘 قوم میں نو بڑے سردار تھے۔وہ اپنے کو بڑا باقی رکھنے کے ليے حق کو چھوٹا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ اور اس قسم کی کوشش بلا شبہ خدا کی زمین میں سب سے بڑا فساد ہے۔ ان سرداروں نے آخری مرحلہ میں حضرت صالح کو ہلاک کرنے کی سازش کی۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اپنے خفیہ منصوبہ کے مطابق حضرت صالح کے خلاف کوئی اقدام کریں، خدا نے خود ان کو پکڑ لیا۔ وہ اپنی ساری بڑائی کے باوجود اس طرح برباد کردئے گئے کہ ان کی قدیم بستیوں میں اب صرف ان کے ٹوٹے ہوئے کھنڈر ان کی یادگار كے طور پر باقی رہ گئے ہیں۔ اس قسم کے تاریخی واقعات میں زبردست سبق چھپا ہوا ہے۔ مگر اس سبق کو وہی شخص پائے گا جو اس کو قانونِ الٰہی سے جوڑے۔ اس کے برعکس، جو لوگ اس کو اسباب ِطبیعی سے جوڑیں وہ اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے۔

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَهُمْ سُوءُ الْعَذَابِ وَهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ

📘 قبطی کی موت کے واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ مدین کا علاقہ بحراحمر کی اس شاخ کے مشرقی ساحل پر تھا جس کو خلیج عقبہ کہاجاتاہے۔ حضرت موسیٰ نے یہاں تقریباً آٹھ سال گزارے اس کے بعد وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر واپس جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں وہ بحر احمر کی دونوں شاخوں کے درمیان اس پہاڑ کے کنارے پہنچے جس کا قدیم نام طور تھا اور اب اس کو جبل موسیٰ (Gebel Musa) کہاجاتا ہے۔ یہ غالباً سردیوں کی رات تھی۔ حضرت موسیٰ کو دور پہاڑ پر ایک آگ سی چیز نظر آئی۔ وہ اس کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خدا کی تجلی تھی، نہ کہ کوئی انسانی آگ۔ پہاڑ کے اوپر جہاں حضرت موسیٰ نے روشنی دیکھی تھی وہاں آج بھی ایک قدیم درخت موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ درخت ہے جس کے اوپر سے حضرت موسیٰ کو خدا کی آواز سنائی دی تھی۔ یہاں بعد کو عیسائی حضرات نے گرجا اور خانقاہ تعمیر کردیا جو آج بھی لوگوں کے ليے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

📘 قوم میں نو بڑے سردار تھے۔وہ اپنے کو بڑا باقی رکھنے کے ليے حق کو چھوٹا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ اور اس قسم کی کوشش بلا شبہ خدا کی زمین میں سب سے بڑا فساد ہے۔ ان سرداروں نے آخری مرحلہ میں حضرت صالح کو ہلاک کرنے کی سازش کی۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اپنے خفیہ منصوبہ کے مطابق حضرت صالح کے خلاف کوئی اقدام کریں، خدا نے خود ان کو پکڑ لیا۔ وہ اپنی ساری بڑائی کے باوجود اس طرح برباد کردئے گئے کہ ان کی قدیم بستیوں میں اب صرف ان کے ٹوٹے ہوئے کھنڈر ان کی یادگار كے طور پر باقی رہ گئے ہیں۔ اس قسم کے تاریخی واقعات میں زبردست سبق چھپا ہوا ہے۔ مگر اس سبق کو وہی شخص پائے گا جو اس کو قانونِ الٰہی سے جوڑے۔ اس کے برعکس، جو لوگ اس کو اسباب ِطبیعی سے جوڑیں وہ اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے۔

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 قوم میں نو بڑے سردار تھے۔وہ اپنے کو بڑا باقی رکھنے کے ليے حق کو چھوٹا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ اور اس قسم کی کوشش بلا شبہ خدا کی زمین میں سب سے بڑا فساد ہے۔ ان سرداروں نے آخری مرحلہ میں حضرت صالح کو ہلاک کرنے کی سازش کی۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اپنے خفیہ منصوبہ کے مطابق حضرت صالح کے خلاف کوئی اقدام کریں، خدا نے خود ان کو پکڑ لیا۔ وہ اپنی ساری بڑائی کے باوجود اس طرح برباد کردئے گئے کہ ان کی قدیم بستیوں میں اب صرف ان کے ٹوٹے ہوئے کھنڈر ان کی یادگار كے طور پر باقی رہ گئے ہیں۔ اس قسم کے تاریخی واقعات میں زبردست سبق چھپا ہوا ہے۔ مگر اس سبق کو وہی شخص پائے گا جو اس کو قانونِ الٰہی سے جوڑے۔ اس کے برعکس، جو لوگ اس کو اسباب ِطبیعی سے جوڑیں وہ اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے۔

فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

📘 قوم میں نو بڑے سردار تھے۔وہ اپنے کو بڑا باقی رکھنے کے ليے حق کو چھوٹا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ اور اس قسم کی کوشش بلا شبہ خدا کی زمین میں سب سے بڑا فساد ہے۔ ان سرداروں نے آخری مرحلہ میں حضرت صالح کو ہلاک کرنے کی سازش کی۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اپنے خفیہ منصوبہ کے مطابق حضرت صالح کے خلاف کوئی اقدام کریں، خدا نے خود ان کو پکڑ لیا۔ وہ اپنی ساری بڑائی کے باوجود اس طرح برباد کردئے گئے کہ ان کی قدیم بستیوں میں اب صرف ان کے ٹوٹے ہوئے کھنڈر ان کی یادگار كے طور پر باقی رہ گئے ہیں۔ اس قسم کے تاریخی واقعات میں زبردست سبق چھپا ہوا ہے۔ مگر اس سبق کو وہی شخص پائے گا جو اس کو قانونِ الٰہی سے جوڑے۔ اس کے برعکس، جو لوگ اس کو اسباب ِطبیعی سے جوڑیں وہ اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے۔

وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ

📘 قوم میں نو بڑے سردار تھے۔وہ اپنے کو بڑا باقی رکھنے کے ليے حق کو چھوٹا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ اور اس قسم کی کوشش بلا شبہ خدا کی زمین میں سب سے بڑا فساد ہے۔ ان سرداروں نے آخری مرحلہ میں حضرت صالح کو ہلاک کرنے کی سازش کی۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اپنے خفیہ منصوبہ کے مطابق حضرت صالح کے خلاف کوئی اقدام کریں، خدا نے خود ان کو پکڑ لیا۔ وہ اپنی ساری بڑائی کے باوجود اس طرح برباد کردئے گئے کہ ان کی قدیم بستیوں میں اب صرف ان کے ٹوٹے ہوئے کھنڈر ان کی یادگار كے طور پر باقی رہ گئے ہیں۔ اس قسم کے تاریخی واقعات میں زبردست سبق چھپا ہوا ہے۔ مگر اس سبق کو وہی شخص پائے گا جو اس کو قانونِ الٰہی سے جوڑے۔ اس کے برعکس، جو لوگ اس کو اسباب ِطبیعی سے جوڑیں وہ اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے۔

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ

📘 قوم لوط اپنی لذتیت میں امرد پرستی (pederasty) کی حد تک پہنچ گئی تھی۔ حضرت لوط نے قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ خدا کے بندو، تم کو آنکھ دی گئی ہے کہ دیکھو اور بھلے برُے کی تمیز دی گئی ہے کہ پہچانو۔ پھر کیسے تم وہ کام کرتے ہو جو کھلی ہوئی بے حیائی کا کام ہے۔ قوم کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ پیغمبر کی بات کو دلیل سے رد نہیں کرسکتے تھے۔ اس ليے وہ پیغمبر کے خلاف جارحیت پر آمادہ ہوگئے۔مگر جب یہ نوبت آجائے تو پھر بلا تاخیر خدا کا فیصلہ آجاتاہے۔ چنانچہ خدا نے آتش فشانی مادہ برسا کر انھیں ہلاک کردیا۔ اس خدائی فیصلہ سے حضرت لوط کی بیوی بھی نہ بچی جو مشرکوں سے ملی ہوئی تھی۔ خدا کا معاملہ ہر شخص سے اس کے ذاتی عمل کی بنیادپر ہوتا ہے، نہ کہ رشتہ اور تعلق کی بنیاد پر۔ تاریخ کے مذکورہ واقعات پر جو شخص غور کرے گا وہ پکار اٹھے گا کہ اس خدا کا شکر ہے جس نے ہر دور میں انسان کی رہنمائی کا انتظام کیا اور پھر ان بندوں کی عقیدت سے اس کا سینہ لبریز ہوجائے گاجنھوں نے اپنی زندگی کامل طورپر خداکے حوالے کرکے خداکے منصوبۂ ہدایت کی تکمیل کی۔

أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ

📘 قوم لوط اپنی لذتیت میں امرد پرستی (pederasty) کی حد تک پہنچ گئی تھی۔ حضرت لوط نے قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ خدا کے بندو، تم کو آنکھ دی گئی ہے کہ دیکھو اور بھلے برُے کی تمیز دی گئی ہے کہ پہچانو۔ پھر کیسے تم وہ کام کرتے ہو جو کھلی ہوئی بے حیائی کا کام ہے۔ قوم کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ پیغمبر کی بات کو دلیل سے رد نہیں کرسکتے تھے۔ اس ليے وہ پیغمبر کے خلاف جارحیت پر آمادہ ہوگئے۔مگر جب یہ نوبت آجائے تو پھر بلا تاخیر خدا کا فیصلہ آجاتاہے۔ چنانچہ خدا نے آتش فشانی مادہ برسا کر انھیں ہلاک کردیا۔ اس خدائی فیصلہ سے حضرت لوط کی بیوی بھی نہ بچی جو مشرکوں سے ملی ہوئی تھی۔ خدا کا معاملہ ہر شخص سے اس کے ذاتی عمل کی بنیادپر ہوتا ہے، نہ کہ رشتہ اور تعلق کی بنیاد پر۔ تاریخ کے مذکورہ واقعات پر جو شخص غور کرے گا وہ پکار اٹھے گا کہ اس خدا کا شکر ہے جس نے ہر دور میں انسان کی رہنمائی کا انتظام کیا اور پھر ان بندوں کی عقیدت سے اس کا سینہ لبریز ہوجائے گاجنھوں نے اپنی زندگی کامل طورپر خداکے حوالے کرکے خداکے منصوبۂ ہدایت کی تکمیل کی۔

۞ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِنْ قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ

📘 قوم لوط اپنی لذتیت میں امرد پرستی (pederasty) کی حد تک پہنچ گئی تھی۔ حضرت لوط نے قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ خدا کے بندو، تم کو آنکھ دی گئی ہے کہ دیکھو اور بھلے برُے کی تمیز دی گئی ہے کہ پہچانو۔ پھر کیسے تم وہ کام کرتے ہو جو کھلی ہوئی بے حیائی کا کام ہے۔ قوم کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ پیغمبر کی بات کو دلیل سے رد نہیں کرسکتے تھے۔ اس ليے وہ پیغمبر کے خلاف جارحیت پر آمادہ ہوگئے۔مگر جب یہ نوبت آجائے تو پھر بلا تاخیر خدا کا فیصلہ آجاتاہے۔ چنانچہ خدا نے آتش فشانی مادہ برسا کر انھیں ہلاک کردیا۔ اس خدائی فیصلہ سے حضرت لوط کی بیوی بھی نہ بچی جو مشرکوں سے ملی ہوئی تھی۔ خدا کا معاملہ ہر شخص سے اس کے ذاتی عمل کی بنیادپر ہوتا ہے، نہ کہ رشتہ اور تعلق کی بنیاد پر۔ تاریخ کے مذکورہ واقعات پر جو شخص غور کرے گا وہ پکار اٹھے گا کہ اس خدا کا شکر ہے جس نے ہر دور میں انسان کی رہنمائی کا انتظام کیا اور پھر ان بندوں کی عقیدت سے اس کا سینہ لبریز ہوجائے گاجنھوں نے اپنی زندگی کامل طورپر خداکے حوالے کرکے خداکے منصوبۂ ہدایت کی تکمیل کی۔

فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَاهَا مِنَ الْغَابِرِينَ

📘 قوم لوط اپنی لذتیت میں امرد پرستی (pederasty) کی حد تک پہنچ گئی تھی۔ حضرت لوط نے قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ خدا کے بندو، تم کو آنکھ دی گئی ہے کہ دیکھو اور بھلے برُے کی تمیز دی گئی ہے کہ پہچانو۔ پھر کیسے تم وہ کام کرتے ہو جو کھلی ہوئی بے حیائی کا کام ہے۔ قوم کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ پیغمبر کی بات کو دلیل سے رد نہیں کرسکتے تھے۔ اس ليے وہ پیغمبر کے خلاف جارحیت پر آمادہ ہوگئے۔مگر جب یہ نوبت آجائے تو پھر بلا تاخیر خدا کا فیصلہ آجاتاہے۔ چنانچہ خدا نے آتش فشانی مادہ برسا کر انھیں ہلاک کردیا۔ اس خدائی فیصلہ سے حضرت لوط کی بیوی بھی نہ بچی جو مشرکوں سے ملی ہوئی تھی۔ خدا کا معاملہ ہر شخص سے اس کے ذاتی عمل کی بنیادپر ہوتا ہے، نہ کہ رشتہ اور تعلق کی بنیاد پر۔ تاریخ کے مذکورہ واقعات پر جو شخص غور کرے گا وہ پکار اٹھے گا کہ اس خدا کا شکر ہے جس نے ہر دور میں انسان کی رہنمائی کا انتظام کیا اور پھر ان بندوں کی عقیدت سے اس کا سینہ لبریز ہوجائے گاجنھوں نے اپنی زندگی کامل طورپر خداکے حوالے کرکے خداکے منصوبۂ ہدایت کی تکمیل کی۔

وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا ۖ فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ

📘 قوم لوط اپنی لذتیت میں امرد پرستی (pederasty) کی حد تک پہنچ گئی تھی۔ حضرت لوط نے قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ خدا کے بندو، تم کو آنکھ دی گئی ہے کہ دیکھو اور بھلے برُے کی تمیز دی گئی ہے کہ پہچانو۔ پھر کیسے تم وہ کام کرتے ہو جو کھلی ہوئی بے حیائی کا کام ہے۔ قوم کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ پیغمبر کی بات کو دلیل سے رد نہیں کرسکتے تھے۔ اس ليے وہ پیغمبر کے خلاف جارحیت پر آمادہ ہوگئے۔مگر جب یہ نوبت آجائے تو پھر بلا تاخیر خدا کا فیصلہ آجاتاہے۔ چنانچہ خدا نے آتش فشانی مادہ برسا کر انھیں ہلاک کردیا۔ اس خدائی فیصلہ سے حضرت لوط کی بیوی بھی نہ بچی جو مشرکوں سے ملی ہوئی تھی۔ خدا کا معاملہ ہر شخص سے اس کے ذاتی عمل کی بنیادپر ہوتا ہے، نہ کہ رشتہ اور تعلق کی بنیاد پر۔ تاریخ کے مذکورہ واقعات پر جو شخص غور کرے گا وہ پکار اٹھے گا کہ اس خدا کا شکر ہے جس نے ہر دور میں انسان کی رہنمائی کا انتظام کیا اور پھر ان بندوں کی عقیدت سے اس کا سینہ لبریز ہوجائے گاجنھوں نے اپنی زندگی کامل طورپر خداکے حوالے کرکے خداکے منصوبۂ ہدایت کی تکمیل کی۔

قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ ۗ آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ

📘 قوم لوط اپنی لذتیت میں امرد پرستی (pederasty) کی حد تک پہنچ گئی تھی۔ حضرت لوط نے قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ خدا کے بندو، تم کو آنکھ دی گئی ہے کہ دیکھو اور بھلے برُے کی تمیز دی گئی ہے کہ پہچانو۔ پھر کیسے تم وہ کام کرتے ہو جو کھلی ہوئی بے حیائی کا کام ہے۔ قوم کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ پیغمبر کی بات کو دلیل سے رد نہیں کرسکتے تھے۔ اس ليے وہ پیغمبر کے خلاف جارحیت پر آمادہ ہوگئے۔مگر جب یہ نوبت آجائے تو پھر بلا تاخیر خدا کا فیصلہ آجاتاہے۔ چنانچہ خدا نے آتش فشانی مادہ برسا کر انھیں ہلاک کردیا۔ اس خدائی فیصلہ سے حضرت لوط کی بیوی بھی نہ بچی جو مشرکوں سے ملی ہوئی تھی۔ خدا کا معاملہ ہر شخص سے اس کے ذاتی عمل کی بنیادپر ہوتا ہے، نہ کہ رشتہ اور تعلق کی بنیاد پر۔ تاریخ کے مذکورہ واقعات پر جو شخص غور کرے گا وہ پکار اٹھے گا کہ اس خدا کا شکر ہے جس نے ہر دور میں انسان کی رہنمائی کا انتظام کیا اور پھر ان بندوں کی عقیدت سے اس کا سینہ لبریز ہوجائے گاجنھوں نے اپنی زندگی کامل طورپر خداکے حوالے کرکے خداکے منصوبۂ ہدایت کی تکمیل کی۔

وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ

📘 قبطی کی موت کے واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ مدین کا علاقہ بحراحمر کی اس شاخ کے مشرقی ساحل پر تھا جس کو خلیج عقبہ کہاجاتاہے۔ حضرت موسیٰ نے یہاں تقریباً آٹھ سال گزارے اس کے بعد وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر واپس جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں وہ بحر احمر کی دونوں شاخوں کے درمیان اس پہاڑ کے کنارے پہنچے جس کا قدیم نام طور تھا اور اب اس کو جبل موسیٰ (Gebel Musa) کہاجاتا ہے۔ یہ غالباً سردیوں کی رات تھی۔ حضرت موسیٰ کو دور پہاڑ پر ایک آگ سی چیز نظر آئی۔ وہ اس کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خدا کی تجلی تھی، نہ کہ کوئی انسانی آگ۔ پہاڑ کے اوپر جہاں حضرت موسیٰ نے روشنی دیکھی تھی وہاں آج بھی ایک قدیم درخت موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ درخت ہے جس کے اوپر سے حضرت موسیٰ کو خدا کی آواز سنائی دی تھی۔ یہاں بعد کو عیسائی حضرات نے گرجا اور خانقاہ تعمیر کردیا جو آج بھی لوگوں کے ليے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ

📘 کائنات ناقابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ اس کی عظمت کے آگے وہ الفاظ سراسر ناکافی ہوجاتے ہیں جو گمراہ کن انسان اس کی غیر خدائی توجیہہ کے ليے بولتا رہا ہے۔ خواہ وہ قدیم مشرک انسان کے بت ہوں یا جدید ملحد انسان کے وہ نظریات جو اسباب اور اتفاقات کی اصطلاحوں میں بیان كيے جاتے ہیں۔ بے شمار اجرام کو پیدا کرکے انھیں اتھاہ خلا میں متحرک کرنا، زمین کو نہایت اعلیٰ اہتمام کے ذریعہ زندگی کے موافق بنانا، پانی اور نباتات جیسی نادر چیزوں کو انتہائی افراط کے ساتھ وجود میں لانا، مسلسل حرکت کرتی ہوئی زمین پر کامل سکون کے حالات پیدا کرنا، دریاؤں اور پہاڑوں کے ذریعہ زمین کو جائے رہائش بنانا، پانی کے سطحی تناؤ (surface tension) کے قانون کے ذریعہ کھاری پانی اور میٹھے پانی کو ایک دوسرے سے الگ رکھنا، یہ اور اس طرح کے دوسرے واقعات اس سے زیادہ عظیم ہیں کہ کوئی بت انھیں وقوع میںلائے یا کوئی اندھا طبیعی قانون ان کو وجود دے سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک اللہ کے سوا دوسری بنیادوں پر کائنات کی توجیہ کرنا جھوٹی توجیہ کو توجیہ کے قائم مقام بناناہے۔ یہ انحراف ہے، نہ کہ فی الواقع کوئی توجیہ۔

أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا ۗ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 کائنات ناقابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ اس کی عظمت کے آگے وہ الفاظ سراسر ناکافی ہوجاتے ہیں جو گمراہ کن انسان اس کی غیر خدائی توجیہہ کے ليے بولتا رہا ہے۔ خواہ وہ قدیم مشرک انسان کے بت ہوں یا جدید ملحد انسان کے وہ نظریات جو اسباب اور اتفاقات کی اصطلاحوں میں بیان كيے جاتے ہیں۔ بے شمار اجرام کو پیدا کرکے انھیں اتھاہ خلا میں متحرک کرنا، زمین کو نہایت اعلیٰ اہتمام کے ذریعہ زندگی کے موافق بنانا، پانی اور نباتات جیسی نادر چیزوں کو انتہائی افراط کے ساتھ وجود میں لانا، مسلسل حرکت کرتی ہوئی زمین پر کامل سکون کے حالات پیدا کرنا، دریاؤں اور پہاڑوں کے ذریعہ زمین کو جائے رہائش بنانا، پانی کے سطحی تناؤ (surface tension) کے قانون کے ذریعہ کھاری پانی اور میٹھے پانی کو ایک دوسرے سے الگ رکھنا، یہ اور اس طرح کے دوسرے واقعات اس سے زیادہ عظیم ہیں کہ کوئی بت انھیں وقوع میںلائے یا کوئی اندھا طبیعی قانون ان کو وجود دے سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک اللہ کے سوا دوسری بنیادوں پر کائنات کی توجیہ کرنا جھوٹی توجیہ کو توجیہ کے قائم مقام بناناہے۔ یہ انحراف ہے، نہ کہ فی الواقع کوئی توجیہ۔

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ

📘 ایک حاجت مند کی حاجت پوری ہونا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ تمام کائناتی اسباب اس کے ساتھ موافقت کریں، پھر ایک قادر مطلق خدا کے سوا کون ہے جو اتنے بڑے پیمانہ پر تمام موافق اسباب کو جمع کرسکتا ہو ۔

أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ

📘 ایک حاجت مند کی حاجت پوری ہونا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ تمام کائناتی اسباب اس کے ساتھ موافقت کریں، پھر ایک قادر مطلق خدا کے سوا کون ہے جو اتنے بڑے پیمانہ پر تمام موافق اسباب کو جمع کرسکتا ہو ۔

أَمَّنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 ایک حاجت مند کی حاجت پوری ہونا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ تمام کائناتی اسباب اس کے ساتھ موافقت کریں، پھر ایک قادر مطلق خدا کے سوا کون ہے جو اتنے بڑے پیمانہ پر تمام موافق اسباب کو جمع کرسکتا ہو ۔

قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ

📘 اسی طرح ایک قوم کا ہٹنا اور دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا، سمندری جہاز اور موجودہ زمانہ میں ہوائی جہاز کا امکانات فطرت سے فائدہ اٹھا کر اندھیرے اور اجالے میں سفر کرنا ،سمندر سے بھاپ کا اٹھنا اور پھر بارش بن کر برسنا، چیزوں کو عدم سے وجود میں لانا اور پھر ان کو دوبارہ پیدا کرنا۔ انسان کے لیے وسیع پیمانہ پر ہرقسم کے رزق کا بندوبست کرنا ، یہ سب خدائی سطح کے کام ہیں ۔ اور ایک برتر خدا ہی ان کو انجام دے سکتا ہے ۔ یہی زمین پر ظاہر ہونے والے تمام واقعات کا حال ہے ۔ یہاں ایک واحد واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے بھی اتنے بے شمار عوامل درکار ہوتے ہیں کہ اس کو وہی ہستی ظہور میں لاسکتی ۔ جس کے قبضہ میں ساری کائنات ہو۔ پھر یہ کس قدر بے عقلی کی بات ہے کہ آدمی ایک خدا کے سوا کسی اور کو اپنے جذبات عبودیت کا مرکز بناۓ ۔وہ ایک خدا کے سوا کسی اور کی پرستش کرے۔

بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْهَا ۖ بَلْ هُمْ مِنْهَا عَمُونَ

📘 اسی طرح ایک قوم کا ہٹنا اور دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا، سمندری جہاز اور موجودہ زمانہ میں ہوائی جہاز کا امکانات فطرت سے فائدہ اٹھا کر اندھیرے اور اجالے میں سفر کرنا ،سمندر سے بھاپ کا اٹھنا اور پھر بارش بن کر برسنا، چیزوں کو عدم سے وجود میں لانا اور پھر ان کو دوبارہ پیدا کرنا۔ انسان کے لیے وسیع پیمانہ پر ہرقسم کے رزق کا بندوبست کرنا ، یہ سب خدائی سطح کے کام ہیں ۔ اور ایک برتر خدا ہی ان کو انجام دے سکتا ہے ۔ یہی زمین پر ظاہر ہونے والے تمام واقعات کا حال ہے ۔ یہاں ایک واحد واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے بھی اتنے بے شمار عوامل درکار ہوتے ہیں کہ اس کو وہی ہستی ظہور میں لاسکتی ۔ جس کے قبضہ میں ساری کائنات ہو۔ پھر یہ کس قدر بے عقلی کی بات ہے کہ آدمی ایک خدا کے سوا کسی اور کو اپنے جذبات عبودیت کا مرکز بناۓ ۔وہ ایک خدا کے سوا کسی اور کی پرستش کرے۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا وَآبَاؤُنَا أَئِنَّا لَمُخْرَجُونَ

📘 کسی پیغمبر کے مخاطب آخرت کے مطلق منکر نہ تھے۔ بلکہ وہ اس تصورِ آخرت کے منکر تھے جس کو پیغمبر پیش کرتے تھے۔ لوگ یہ یقین کيے ہوئے تھے کہ آخرت کا مسئلہ ان کے اپنے ليے نہیں ہے بلکہ دوسروں کے ليے ہے۔ پیغمبر نے بتایا کہ آخرت تمھارے ليے بھی ویسا ہی ایک سنگین مسئلہ ہے جیسا کہ وہ دوسروں کے ليے ہے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اپنے بزرگوں سے وابستگی آخرت میں ان کے ليے نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔ پیغمبروں نے بتایا کہ آخرت میں صرف خدا کی رحمت آدمی کے کام آئے گی، نہ کہ کسی بزرگ سے وابستگی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ آخرت کے بارے میں ایک قسم کے ذہنی الجھن میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے بعض سر پھرے کبھی ایسے الفاظ بولتے جیسے کہ وہ آخرت کے منکر ہوں۔ مگر عام لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ نفسِ آخرت کا انکار نہیں کرتے تھے۔البتہ پیغمبر کے تصورِ آخرت کو ماننے میں زندگی کی آزادیاں ختم ہوتی تھیں۔ اس ليے ان کا نفس اس کو ماننے کے ليے تیار نہ تھا۔ چنانچہ اس کے جواب میں وہ ایسی باتیں کرتے تھے جیسے کہ وہ شک میں ہوں۔ اپنی اسی ذہنی کیفیت کی وجہ سے انھوںنے آخرت کے دلائل پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا۔ اس کے بارے میں وہ اندھے بہرے بنے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوموں کا فیصلہ کرنے کے ليے جو طاقتیں درکار ہیں وہ صرف خدائے عالم الغیب کو حاصل ہیں۔ وہ جزئی طورپر موجودہ دنیا میں بھی اپنا فیصلہ نافذ کرتا ہے۔ اور وہی آخرت میں کلی طورپر تمام قوموں کے اوپر اپنا فیصلہ نافذ فرمائے گا۔

لَقَدْ وُعِدْنَا هَٰذَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

📘 کسی پیغمبر کے مخاطب آخرت کے مطلق منکر نہ تھے۔ بلکہ وہ اس تصورِ آخرت کے منکر تھے جس کو پیغمبر پیش کرتے تھے۔ لوگ یہ یقین کيے ہوئے تھے کہ آخرت کا مسئلہ ان کے اپنے ليے نہیں ہے بلکہ دوسروں کے ليے ہے۔ پیغمبر نے بتایا کہ آخرت تمھارے ليے بھی ویسا ہی ایک سنگین مسئلہ ہے جیسا کہ وہ دوسروں کے ليے ہے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اپنے بزرگوں سے وابستگی آخرت میں ان کے ليے نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔ پیغمبروں نے بتایا کہ آخرت میں صرف خدا کی رحمت آدمی کے کام آئے گی، نہ کہ کسی بزرگ سے وابستگی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ آخرت کے بارے میں ایک قسم کے ذہنی الجھن میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے بعض سر پھرے کبھی ایسے الفاظ بولتے جیسے کہ وہ آخرت کے منکر ہوں۔ مگر عام لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ نفسِ آخرت کا انکار نہیں کرتے تھے۔البتہ پیغمبر کے تصورِ آخرت کو ماننے میں زندگی کی آزادیاں ختم ہوتی تھیں۔ اس ليے ان کا نفس اس کو ماننے کے ليے تیار نہ تھا۔ چنانچہ اس کے جواب میں وہ ایسی باتیں کرتے تھے جیسے کہ وہ شک میں ہوں۔ اپنی اسی ذہنی کیفیت کی وجہ سے انھوںنے آخرت کے دلائل پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا۔ اس کے بارے میں وہ اندھے بہرے بنے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوموں کا فیصلہ کرنے کے ليے جو طاقتیں درکار ہیں وہ صرف خدائے عالم الغیب کو حاصل ہیں۔ وہ جزئی طورپر موجودہ دنیا میں بھی اپنا فیصلہ نافذ کرتا ہے۔ اور وہی آخرت میں کلی طورپر تمام قوموں کے اوپر اپنا فیصلہ نافذ فرمائے گا۔

قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ

📘 کسی پیغمبر کے مخاطب آخرت کے مطلق منکر نہ تھے۔ بلکہ وہ اس تصورِ آخرت کے منکر تھے جس کو پیغمبر پیش کرتے تھے۔ لوگ یہ یقین کيے ہوئے تھے کہ آخرت کا مسئلہ ان کے اپنے ليے نہیں ہے بلکہ دوسروں کے ليے ہے۔ پیغمبر نے بتایا کہ آخرت تمھارے ليے بھی ویسا ہی ایک سنگین مسئلہ ہے جیسا کہ وہ دوسروں کے ليے ہے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اپنے بزرگوں سے وابستگی آخرت میں ان کے ليے نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔ پیغمبروں نے بتایا کہ آخرت میں صرف خدا کی رحمت آدمی کے کام آئے گی، نہ کہ کسی بزرگ سے وابستگی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ آخرت کے بارے میں ایک قسم کے ذہنی الجھن میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے بعض سر پھرے کبھی ایسے الفاظ بولتے جیسے کہ وہ آخرت کے منکر ہوں۔ مگر عام لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ نفسِ آخرت کا انکار نہیں کرتے تھے۔البتہ پیغمبر کے تصورِ آخرت کو ماننے میں زندگی کی آزادیاں ختم ہوتی تھیں۔ اس ليے ان کا نفس اس کو ماننے کے ليے تیار نہ تھا۔ چنانچہ اس کے جواب میں وہ ایسی باتیں کرتے تھے جیسے کہ وہ شک میں ہوں۔ اپنی اسی ذہنی کیفیت کی وجہ سے انھوںنے آخرت کے دلائل پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا۔ اس کے بارے میں وہ اندھے بہرے بنے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوموں کا فیصلہ کرنے کے ليے جو طاقتیں درکار ہیں وہ صرف خدائے عالم الغیب کو حاصل ہیں۔ وہ جزئی طورپر موجودہ دنیا میں بھی اپنا فیصلہ نافذ کرتا ہے۔ اور وہی آخرت میں کلی طورپر تمام قوموں کے اوپر اپنا فیصلہ نافذ فرمائے گا۔

إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُمْ مِنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ

📘 قبطی کی موت کے واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ مدین کا علاقہ بحراحمر کی اس شاخ کے مشرقی ساحل پر تھا جس کو خلیج عقبہ کہاجاتاہے۔ حضرت موسیٰ نے یہاں تقریباً آٹھ سال گزارے اس کے بعد وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر واپس جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں وہ بحر احمر کی دونوں شاخوں کے درمیان اس پہاڑ کے کنارے پہنچے جس کا قدیم نام طور تھا اور اب اس کو جبل موسیٰ (Gebel Musa) کہاجاتا ہے۔ یہ غالباً سردیوں کی رات تھی۔ حضرت موسیٰ کو دور پہاڑ پر ایک آگ سی چیز نظر آئی۔ وہ اس کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خدا کی تجلی تھی، نہ کہ کوئی انسانی آگ۔ پہاڑ کے اوپر جہاں حضرت موسیٰ نے روشنی دیکھی تھی وہاں آج بھی ایک قدیم درخت موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ درخت ہے جس کے اوپر سے حضرت موسیٰ کو خدا کی آواز سنائی دی تھی۔ یہاں بعد کو عیسائی حضرات نے گرجا اور خانقاہ تعمیر کردیا جو آج بھی لوگوں کے ليے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ

📘 ’’غم نہ کرو‘‘ کا مطلب داعیٔ حق کو غم سے روکنا نہیں ہے۔ غم تو داعی کی غذا ہے۔ یہ دراصل حق کی بے بسی کی تردید ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے ناموافق حالات کے باوجود بہر حال حق کو اور حق کا ساتھ دینے والوں کو کامیابی حاصل ہوگی۔ حق کے داعی کے مخالفین جب حق کے داعی کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک شخص کی مخالفت کررہے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ خود خدا کی مخالفت ہے، نہ کہ محض ایک شخص کی مخالفت۔ یہ صورت حال صرف اس وقت تک باقی رہـتی ہے جب تک امتحان کی مدت ختم نہ ہوئی ہو۔ امتحان کی مقررہ مدت ختم ہوتے ہی خدا کی طاقتیں ظاہر ہوجاتی ہیں اور وہ مخالفین کا اس طرح خاتمہ کردیتی ہیں جیسے کہ کبھی ان کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔ آدمی کے ليے اس سے بڑی کوئی نادانی نہیں کہ وہ آزمائش کی فرصت کو اپنے ليے سرکشی کی فرصت کے ہم معنی بنالے۔

وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 ’’غم نہ کرو‘‘ کا مطلب داعیٔ حق کو غم سے روکنا نہیں ہے۔ غم تو داعی کی غذا ہے۔ یہ دراصل حق کی بے بسی کی تردید ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے ناموافق حالات کے باوجود بہر حال حق کو اور حق کا ساتھ دینے والوں کو کامیابی حاصل ہوگی۔ حق کے داعی کے مخالفین جب حق کے داعی کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک شخص کی مخالفت کررہے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ خود خدا کی مخالفت ہے، نہ کہ محض ایک شخص کی مخالفت۔ یہ صورت حال صرف اس وقت تک باقی رہـتی ہے جب تک امتحان کی مدت ختم نہ ہوئی ہو۔ امتحان کی مقررہ مدت ختم ہوتے ہی خدا کی طاقتیں ظاہر ہوجاتی ہیں اور وہ مخالفین کا اس طرح خاتمہ کردیتی ہیں جیسے کہ کبھی ان کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔ آدمی کے ليے اس سے بڑی کوئی نادانی نہیں کہ وہ آزمائش کی فرصت کو اپنے ليے سرکشی کی فرصت کے ہم معنی بنالے۔

قُلْ عَسَىٰ أَنْ يَكُونَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِي تَسْتَعْجِلُونَ

📘 ’’غم نہ کرو‘‘ کا مطلب داعیٔ حق کو غم سے روکنا نہیں ہے۔ غم تو داعی کی غذا ہے۔ یہ دراصل حق کی بے بسی کی تردید ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے ناموافق حالات کے باوجود بہر حال حق کو اور حق کا ساتھ دینے والوں کو کامیابی حاصل ہوگی۔ حق کے داعی کے مخالفین جب حق کے داعی کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک شخص کی مخالفت کررہے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ خود خدا کی مخالفت ہے، نہ کہ محض ایک شخص کی مخالفت۔ یہ صورت حال صرف اس وقت تک باقی رہـتی ہے جب تک امتحان کی مدت ختم نہ ہوئی ہو۔ امتحان کی مقررہ مدت ختم ہوتے ہی خدا کی طاقتیں ظاہر ہوجاتی ہیں اور وہ مخالفین کا اس طرح خاتمہ کردیتی ہیں جیسے کہ کبھی ان کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔ آدمی کے ليے اس سے بڑی کوئی نادانی نہیں کہ وہ آزمائش کی فرصت کو اپنے ليے سرکشی کی فرصت کے ہم معنی بنالے۔

وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ

📘 ’’غم نہ کرو‘‘ کا مطلب داعیٔ حق کو غم سے روکنا نہیں ہے۔ غم تو داعی کی غذا ہے۔ یہ دراصل حق کی بے بسی کی تردید ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے ناموافق حالات کے باوجود بہر حال حق کو اور حق کا ساتھ دینے والوں کو کامیابی حاصل ہوگی۔ حق کے داعی کے مخالفین جب حق کے داعی کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک شخص کی مخالفت کررہے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ خود خدا کی مخالفت ہے، نہ کہ محض ایک شخص کی مخالفت۔ یہ صورت حال صرف اس وقت تک باقی رہـتی ہے جب تک امتحان کی مدت ختم نہ ہوئی ہو۔ امتحان کی مقررہ مدت ختم ہوتے ہی خدا کی طاقتیں ظاہر ہوجاتی ہیں اور وہ مخالفین کا اس طرح خاتمہ کردیتی ہیں جیسے کہ کبھی ان کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔ آدمی کے ليے اس سے بڑی کوئی نادانی نہیں کہ وہ آزمائش کی فرصت کو اپنے ليے سرکشی کی فرصت کے ہم معنی بنالے۔

وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ

📘 ’’غم نہ کرو‘‘ کا مطلب داعیٔ حق کو غم سے روکنا نہیں ہے۔ غم تو داعی کی غذا ہے۔ یہ دراصل حق کی بے بسی کی تردید ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے ناموافق حالات کے باوجود بہر حال حق کو اور حق کا ساتھ دینے والوں کو کامیابی حاصل ہوگی۔ حق کے داعی کے مخالفین جب حق کے داعی کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک شخص کی مخالفت کررہے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ خود خدا کی مخالفت ہے، نہ کہ محض ایک شخص کی مخالفت۔ یہ صورت حال صرف اس وقت تک باقی رہـتی ہے جب تک امتحان کی مدت ختم نہ ہوئی ہو۔ امتحان کی مقررہ مدت ختم ہوتے ہی خدا کی طاقتیں ظاہر ہوجاتی ہیں اور وہ مخالفین کا اس طرح خاتمہ کردیتی ہیں جیسے کہ کبھی ان کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔ آدمی کے ليے اس سے بڑی کوئی نادانی نہیں کہ وہ آزمائش کی فرصت کو اپنے ليے سرکشی کی فرصت کے ہم معنی بنالے۔

وَمَا مِنْ غَائِبَةٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ

📘 ’’غم نہ کرو‘‘ کا مطلب داعیٔ حق کو غم سے روکنا نہیں ہے۔ غم تو داعی کی غذا ہے۔ یہ دراصل حق کی بے بسی کی تردید ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے ناموافق حالات کے باوجود بہر حال حق کو اور حق کا ساتھ دینے والوں کو کامیابی حاصل ہوگی۔ حق کے داعی کے مخالفین جب حق کے داعی کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک شخص کی مخالفت کررہے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ خود خدا کی مخالفت ہے، نہ کہ محض ایک شخص کی مخالفت۔ یہ صورت حال صرف اس وقت تک باقی رہـتی ہے جب تک امتحان کی مدت ختم نہ ہوئی ہو۔ امتحان کی مقررہ مدت ختم ہوتے ہی خدا کی طاقتیں ظاہر ہوجاتی ہیں اور وہ مخالفین کا اس طرح خاتمہ کردیتی ہیں جیسے کہ کبھی ان کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔ آدمی کے ليے اس سے بڑی کوئی نادانی نہیں کہ وہ آزمائش کی فرصت کو اپنے ليے سرکشی کی فرصت کے ہم معنی بنالے۔

إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

📘 انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو آنکھ، کان اور دماغ کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ ان صلاحیتوں کو اگر کھلے طریقے سے استعمال کیا جائے تو وہ بے خطا طورپر حقیقتوں کو دیکھنے اور پہچاننے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کسی مصنوعی تصور سے مغلوب کرلے تو اس کی ادراک کی صلاحیتیں معطل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے سامنے حقیقت بے نقاب صورت میں آتی ہے مگر وہ اس سے اس طرح بے خبر رہتا ہے جیسے کہ وہ اندھا بہرا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اسی شخص کو راستہ دکھایا جاسکتا ہے جو راستہ دیکھنا چاہے۔ جس کے اندر خود راستہ کی تڑپ نہ ہو اس کے ليے کسی رہنما کی رہنمائی کام آنے والی نہیں۔ حق پرست بننے کے ليے سب سے زیادہ جو چیز درکار ہے وہ اعتراف ہے۔ اس دنیا میں اسی شخص کو ہدایت ملتی ہے جس کے اندر یہ مادہ ہو کہ جو بات دلائل سے واضح ہو جائے وہ فوراً اس کو مان لے اور اپنی زندگی کو اس کی ماتحتی میں دے دے۔ جو لوگ خدا کی دعوت کے آگے نہ جھکیں۔ انھیں آخر کار خدا کے فیصلے کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ مگر اس وقت کا جھکنا کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔

وَإِنَّهُ لَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ

📘 انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو آنکھ، کان اور دماغ کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ ان صلاحیتوں کو اگر کھلے طریقے سے استعمال کیا جائے تو وہ بے خطا طورپر حقیقتوں کو دیکھنے اور پہچاننے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کسی مصنوعی تصور سے مغلوب کرلے تو اس کی ادراک کی صلاحیتیں معطل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے سامنے حقیقت بے نقاب صورت میں آتی ہے مگر وہ اس سے اس طرح بے خبر رہتا ہے جیسے کہ وہ اندھا بہرا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اسی شخص کو راستہ دکھایا جاسکتا ہے جو راستہ دیکھنا چاہے۔ جس کے اندر خود راستہ کی تڑپ نہ ہو اس کے ليے کسی رہنما کی رہنمائی کام آنے والی نہیں۔ حق پرست بننے کے ليے سب سے زیادہ جو چیز درکار ہے وہ اعتراف ہے۔ اس دنیا میں اسی شخص کو ہدایت ملتی ہے جس کے اندر یہ مادہ ہو کہ جو بات دلائل سے واضح ہو جائے وہ فوراً اس کو مان لے اور اپنی زندگی کو اس کی ماتحتی میں دے دے۔ جو لوگ خدا کی دعوت کے آگے نہ جھکیں۔ انھیں آخر کار خدا کے فیصلے کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ مگر اس وقت کا جھکنا کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔

إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ بِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ

📘 انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو آنکھ، کان اور دماغ کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ ان صلاحیتوں کو اگر کھلے طریقے سے استعمال کیا جائے تو وہ بے خطا طورپر حقیقتوں کو دیکھنے اور پہچاننے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کسی مصنوعی تصور سے مغلوب کرلے تو اس کی ادراک کی صلاحیتیں معطل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے سامنے حقیقت بے نقاب صورت میں آتی ہے مگر وہ اس سے اس طرح بے خبر رہتا ہے جیسے کہ وہ اندھا بہرا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اسی شخص کو راستہ دکھایا جاسکتا ہے جو راستہ دیکھنا چاہے۔ جس کے اندر خود راستہ کی تڑپ نہ ہو اس کے ليے کسی رہنما کی رہنمائی کام آنے والی نہیں۔ حق پرست بننے کے ليے سب سے زیادہ جو چیز درکار ہے وہ اعتراف ہے۔ اس دنیا میں اسی شخص کو ہدایت ملتی ہے جس کے اندر یہ مادہ ہو کہ جو بات دلائل سے واضح ہو جائے وہ فوراً اس کو مان لے اور اپنی زندگی کو اس کی ماتحتی میں دے دے۔ جو لوگ خدا کی دعوت کے آگے نہ جھکیں۔ انھیں آخر کار خدا کے فیصلے کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ مگر اس وقت کا جھکنا کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔

فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۖ إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ

📘 انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو آنکھ، کان اور دماغ کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ ان صلاحیتوں کو اگر کھلے طریقے سے استعمال کیا جائے تو وہ بے خطا طورپر حقیقتوں کو دیکھنے اور پہچاننے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کسی مصنوعی تصور سے مغلوب کرلے تو اس کی ادراک کی صلاحیتیں معطل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے سامنے حقیقت بے نقاب صورت میں آتی ہے مگر وہ اس سے اس طرح بے خبر رہتا ہے جیسے کہ وہ اندھا بہرا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اسی شخص کو راستہ دکھایا جاسکتا ہے جو راستہ دیکھنا چاہے۔ جس کے اندر خود راستہ کی تڑپ نہ ہو اس کے ليے کسی رہنما کی رہنمائی کام آنے والی نہیں۔ حق پرست بننے کے ليے سب سے زیادہ جو چیز درکار ہے وہ اعتراف ہے۔ اس دنیا میں اسی شخص کو ہدایت ملتی ہے جس کے اندر یہ مادہ ہو کہ جو بات دلائل سے واضح ہو جائے وہ فوراً اس کو مان لے اور اپنی زندگی کو اس کی ماتحتی میں دے دے۔ جو لوگ خدا کی دعوت کے آگے نہ جھکیں۔ انھیں آخر کار خدا کے فیصلے کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ مگر اس وقت کا جھکنا کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔

فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِيَ أَنْ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 قبطی کی موت کے واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ مدین کا علاقہ بحراحمر کی اس شاخ کے مشرقی ساحل پر تھا جس کو خلیج عقبہ کہاجاتاہے۔ حضرت موسیٰ نے یہاں تقریباً آٹھ سال گزارے اس کے بعد وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر واپس جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں وہ بحر احمر کی دونوں شاخوں کے درمیان اس پہاڑ کے کنارے پہنچے جس کا قدیم نام طور تھا اور اب اس کو جبل موسیٰ (Gebel Musa) کہاجاتا ہے۔ یہ غالباً سردیوں کی رات تھی۔ حضرت موسیٰ کو دور پہاڑ پر ایک آگ سی چیز نظر آئی۔ وہ اس کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خدا کی تجلی تھی، نہ کہ کوئی انسانی آگ۔ پہاڑ کے اوپر جہاں حضرت موسیٰ نے روشنی دیکھی تھی وہاں آج بھی ایک قدیم درخت موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ درخت ہے جس کے اوپر سے حضرت موسیٰ کو خدا کی آواز سنائی دی تھی۔ یہاں بعد کو عیسائی حضرات نے گرجا اور خانقاہ تعمیر کردیا جو آج بھی لوگوں کے ليے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ

📘 انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو آنکھ، کان اور دماغ کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ ان صلاحیتوں کو اگر کھلے طریقے سے استعمال کیا جائے تو وہ بے خطا طورپر حقیقتوں کو دیکھنے اور پہچاننے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کسی مصنوعی تصور سے مغلوب کرلے تو اس کی ادراک کی صلاحیتیں معطل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے سامنے حقیقت بے نقاب صورت میں آتی ہے مگر وہ اس سے اس طرح بے خبر رہتا ہے جیسے کہ وہ اندھا بہرا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اسی شخص کو راستہ دکھایا جاسکتا ہے جو راستہ دیکھنا چاہے۔ جس کے اندر خود راستہ کی تڑپ نہ ہو اس کے ليے کسی رہنما کی رہنمائی کام آنے والی نہیں۔ حق پرست بننے کے ليے سب سے زیادہ جو چیز درکار ہے وہ اعتراف ہے۔ اس دنیا میں اسی شخص کو ہدایت ملتی ہے جس کے اندر یہ مادہ ہو کہ جو بات دلائل سے واضح ہو جائے وہ فوراً اس کو مان لے اور اپنی زندگی کو اس کی ماتحتی میں دے دے۔ جو لوگ خدا کی دعوت کے آگے نہ جھکیں۔ انھیں آخر کار خدا کے فیصلے کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ مگر اس وقت کا جھکنا کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔

وَمَا أَنْتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَنْ ضَلَالَتِهِمْ ۖ إِنْ تُسْمِعُ إِلَّا مَنْ يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ مُسْلِمُونَ

📘 انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو آنکھ، کان اور دماغ کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ ان صلاحیتوں کو اگر کھلے طریقے سے استعمال کیا جائے تو وہ بے خطا طورپر حقیقتوں کو دیکھنے اور پہچاننے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کسی مصنوعی تصور سے مغلوب کرلے تو اس کی ادراک کی صلاحیتیں معطل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے سامنے حقیقت بے نقاب صورت میں آتی ہے مگر وہ اس سے اس طرح بے خبر رہتا ہے جیسے کہ وہ اندھا بہرا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اسی شخص کو راستہ دکھایا جاسکتا ہے جو راستہ دیکھنا چاہے۔ جس کے اندر خود راستہ کی تڑپ نہ ہو اس کے ليے کسی رہنما کی رہنمائی کام آنے والی نہیں۔ حق پرست بننے کے ليے سب سے زیادہ جو چیز درکار ہے وہ اعتراف ہے۔ اس دنیا میں اسی شخص کو ہدایت ملتی ہے جس کے اندر یہ مادہ ہو کہ جو بات دلائل سے واضح ہو جائے وہ فوراً اس کو مان لے اور اپنی زندگی کو اس کی ماتحتی میں دے دے۔ جو لوگ خدا کی دعوت کے آگے نہ جھکیں۔ انھیں آخر کار خدا کے فیصلے کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ مگر اس وقت کا جھکنا کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔

۞ وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ

📘 جب اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ زمین کی موجودہ تاریخ ختم کردی جائے تو آخری طورپر کچھ غیر معمولی نشانیاں ظاہر ہوں گی۔ انھیں میں سے ایک دابّہ (جانور) کا ظہور ہے۔ انسانی داعیوں کی زبان سے جو بات لوگوں نے نہیں مانی اس کا اعلان ایک غیر انسانی مخلوق کے ذریعہ کرایا جائے گا۔ تاہم یہ امتحان کا وقت ختم ہونے کا گھنٹہ ہوگا، نہ کہ امتحان کا وقت شروع ہونے کا اعلان۔ قیامت میں جب تمام لوگ حاضر ہوں گے تو ان کی جماعتیں بنائی جائیں گی۔ ماننے والے ایک طرف کردیے جائیں گے اور نہ ماننے والے دوسری طرف۔ اس کے بعد منکرین سے پوچھاجائے گاکہ تمھارے پاس کون سی علمی دلیل تھی جس کی بنا پر تم نے صداقت کا انکار کیا۔ اس وقت ان کا لاجواب ہونا ثابت کرے گا کہ ان کا انکار محض ضد اور تعصب پر مبنی تھا۔ اگر چہ اپنے کو برسرِ حق ظاہر کرنے کے ليے وہ جھوٹے دلائل پیش کیا کرتے تھے۔اس وقت ان پر کھلے گا کہ داعی کے ملفوظ کلام کے علاوہ رات اور دن بھی غیر ملفوظ زبان میں ان کو امر حق سے مطلع کررہے تھے۔ رات کی نیند گویا موت کی تمثیل تھی۔ اور صبح کا جاگنا دوبارہ جی اٹھنے کی تمثیل۔ اعلان حق کے اتنے غیر معمولی اہتمام کے باوجود وہ حق کی دریافت سے محروم رہے۔

وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِمَّنْ يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ

📘 جب اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ زمین کی موجودہ تاریخ ختم کردی جائے تو آخری طورپر کچھ غیر معمولی نشانیاں ظاہر ہوں گی۔ انھیں میں سے ایک دابّہ (جانور) کا ظہور ہے۔ انسانی داعیوں کی زبان سے جو بات لوگوں نے نہیں مانی اس کا اعلان ایک غیر انسانی مخلوق کے ذریعہ کرایا جائے گا۔ تاہم یہ امتحان کا وقت ختم ہونے کا گھنٹہ ہوگا، نہ کہ امتحان کا وقت شروع ہونے کا اعلان۔ قیامت میں جب تمام لوگ حاضر ہوں گے تو ان کی جماعتیں بنائی جائیں گی۔ ماننے والے ایک طرف کردیے جائیں گے اور نہ ماننے والے دوسری طرف۔ اس کے بعد منکرین سے پوچھاجائے گاکہ تمھارے پاس کون سی علمی دلیل تھی جس کی بنا پر تم نے صداقت کا انکار کیا۔ اس وقت ان کا لاجواب ہونا ثابت کرے گا کہ ان کا انکار محض ضد اور تعصب پر مبنی تھا۔ اگر چہ اپنے کو برسرِ حق ظاہر کرنے کے ليے وہ جھوٹے دلائل پیش کیا کرتے تھے۔اس وقت ان پر کھلے گا کہ داعی کے ملفوظ کلام کے علاوہ رات اور دن بھی غیر ملفوظ زبان میں ان کو امر حق سے مطلع کررہے تھے۔ رات کی نیند گویا موت کی تمثیل تھی۔ اور صبح کا جاگنا دوبارہ جی اٹھنے کی تمثیل۔ اعلان حق کے اتنے غیر معمولی اہتمام کے باوجود وہ حق کی دریافت سے محروم رہے۔

حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوا قَالَ أَكَذَّبْتُمْ بِآيَاتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا أَمَّاذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 جب اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ زمین کی موجودہ تاریخ ختم کردی جائے تو آخری طورپر کچھ غیر معمولی نشانیاں ظاہر ہوں گی۔ انھیں میں سے ایک دابّہ (جانور) کا ظہور ہے۔ انسانی داعیوں کی زبان سے جو بات لوگوں نے نہیں مانی اس کا اعلان ایک غیر انسانی مخلوق کے ذریعہ کرایا جائے گا۔ تاہم یہ امتحان کا وقت ختم ہونے کا گھنٹہ ہوگا، نہ کہ امتحان کا وقت شروع ہونے کا اعلان۔ قیامت میں جب تمام لوگ حاضر ہوں گے تو ان کی جماعتیں بنائی جائیں گی۔ ماننے والے ایک طرف کردیے جائیں گے اور نہ ماننے والے دوسری طرف۔ اس کے بعد منکرین سے پوچھاجائے گاکہ تمھارے پاس کون سی علمی دلیل تھی جس کی بنا پر تم نے صداقت کا انکار کیا۔ اس وقت ان کا لاجواب ہونا ثابت کرے گا کہ ان کا انکار محض ضد اور تعصب پر مبنی تھا۔ اگر چہ اپنے کو برسرِ حق ظاہر کرنے کے ليے وہ جھوٹے دلائل پیش کیا کرتے تھے۔اس وقت ان پر کھلے گا کہ داعی کے ملفوظ کلام کے علاوہ رات اور دن بھی غیر ملفوظ زبان میں ان کو امر حق سے مطلع کررہے تھے۔ رات کی نیند گویا موت کی تمثیل تھی۔ اور صبح کا جاگنا دوبارہ جی اٹھنے کی تمثیل۔ اعلان حق کے اتنے غیر معمولی اہتمام کے باوجود وہ حق کی دریافت سے محروم رہے۔

وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوا فَهُمْ لَا يَنْطِقُونَ

📘 جب اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ زمین کی موجودہ تاریخ ختم کردی جائے تو آخری طورپر کچھ غیر معمولی نشانیاں ظاہر ہوں گی۔ انھیں میں سے ایک دابّہ (جانور) کا ظہور ہے۔ انسانی داعیوں کی زبان سے جو بات لوگوں نے نہیں مانی اس کا اعلان ایک غیر انسانی مخلوق کے ذریعہ کرایا جائے گا۔ تاہم یہ امتحان کا وقت ختم ہونے کا گھنٹہ ہوگا، نہ کہ امتحان کا وقت شروع ہونے کا اعلان۔ قیامت میں جب تمام لوگ حاضر ہوں گے تو ان کی جماعتیں بنائی جائیں گی۔ ماننے والے ایک طرف کردیے جائیں گے اور نہ ماننے والے دوسری طرف۔ اس کے بعد منکرین سے پوچھاجائے گاکہ تمھارے پاس کون سی علمی دلیل تھی جس کی بنا پر تم نے صداقت کا انکار کیا۔ اس وقت ان کا لاجواب ہونا ثابت کرے گا کہ ان کا انکار محض ضد اور تعصب پر مبنی تھا۔ اگر چہ اپنے کو برسرِ حق ظاہر کرنے کے ليے وہ جھوٹے دلائل پیش کیا کرتے تھے۔اس وقت ان پر کھلے گا کہ داعی کے ملفوظ کلام کے علاوہ رات اور دن بھی غیر ملفوظ زبان میں ان کو امر حق سے مطلع کررہے تھے۔ رات کی نیند گویا موت کی تمثیل تھی۔ اور صبح کا جاگنا دوبارہ جی اٹھنے کی تمثیل۔ اعلان حق کے اتنے غیر معمولی اہتمام کے باوجود وہ حق کی دریافت سے محروم رہے۔

أَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا اللَّيْلَ لِيَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

📘 جب اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ زمین کی موجودہ تاریخ ختم کردی جائے تو آخری طورپر کچھ غیر معمولی نشانیاں ظاہر ہوں گی۔ انھیں میں سے ایک دابّہ (جانور) کا ظہور ہے۔ انسانی داعیوں کی زبان سے جو بات لوگوں نے نہیں مانی اس کا اعلان ایک غیر انسانی مخلوق کے ذریعہ کرایا جائے گا۔ تاہم یہ امتحان کا وقت ختم ہونے کا گھنٹہ ہوگا، نہ کہ امتحان کا وقت شروع ہونے کا اعلان۔ قیامت میں جب تمام لوگ حاضر ہوں گے تو ان کی جماعتیں بنائی جائیں گی۔ ماننے والے ایک طرف کردیے جائیں گے اور نہ ماننے والے دوسری طرف۔ اس کے بعد منکرین سے پوچھاجائے گاکہ تمھارے پاس کون سی علمی دلیل تھی جس کی بنا پر تم نے صداقت کا انکار کیا۔ اس وقت ان کا لاجواب ہونا ثابت کرے گا کہ ان کا انکار محض ضد اور تعصب پر مبنی تھا۔ اگر چہ اپنے کو برسرِ حق ظاہر کرنے کے ليے وہ جھوٹے دلائل پیش کیا کرتے تھے۔اس وقت ان پر کھلے گا کہ داعی کے ملفوظ کلام کے علاوہ رات اور دن بھی غیر ملفوظ زبان میں ان کو امر حق سے مطلع کررہے تھے۔ رات کی نیند گویا موت کی تمثیل تھی۔ اور صبح کا جاگنا دوبارہ جی اٹھنے کی تمثیل۔ اعلان حق کے اتنے غیر معمولی اہتمام کے باوجود وہ حق کی دریافت سے محروم رہے۔

وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ۚ وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ

📘 موجودہ دنیا میں انکار کا اصل سبب انسان کی بے خوفی ہے۔ یہ دراصل بے خوفی کی نفسیات ہے جس کی وجہ سے آدمی حق کو نظر انداز کرتاہے اور اس کے مقابلہ میں سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ مگر جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور اس کی علامت کے طورپر صور پھونک دیا جائے گا تو اچانک لو گ محسوس کریں گے کہ ان کی بے خوفی محض بے خبری کی بناپر تھی۔ اس دن تمام بڑائیاں ریت کی دیوار کی طرح ڈھ جائیں گی۔ یہ ایسا سخت لمحہ ہوگا کہ انسان تو درکنار پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اس وقت سارا عجز ایک طرف ہوجائے گا اور ساری قدرت دوسری طرف۔ اس دن وہ تمام چیزیں بالکل غیر اہم ہوجائیں گی جن کو لوگ دنیا میں اہم سمجھے ہوئے تھے۔ اس دن سارا وزن صرف عمل صالح میں ہوگا۔ اس دن کھونے والے پائیں گے اور پانے والے ابدی طورپر محروم ہو کر رہ جائیں گے۔

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ

📘 موجودہ دنیا میں انکار کا اصل سبب انسان کی بے خوفی ہے۔ یہ دراصل بے خوفی کی نفسیات ہے جس کی وجہ سے آدمی حق کو نظر انداز کرتاہے اور اس کے مقابلہ میں سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ مگر جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور اس کی علامت کے طورپر صور پھونک دیا جائے گا تو اچانک لو گ محسوس کریں گے کہ ان کی بے خوفی محض بے خبری کی بناپر تھی۔ اس دن تمام بڑائیاں ریت کی دیوار کی طرح ڈھ جائیں گی۔ یہ ایسا سخت لمحہ ہوگا کہ انسان تو درکنار پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اس وقت سارا عجز ایک طرف ہوجائے گا اور ساری قدرت دوسری طرف۔ اس دن وہ تمام چیزیں بالکل غیر اہم ہوجائیں گی جن کو لوگ دنیا میں اہم سمجھے ہوئے تھے۔ اس دن سارا وزن صرف عمل صالح میں ہوگا۔ اس دن کھونے والے پائیں گے اور پانے والے ابدی طورپر محروم ہو کر رہ جائیں گے۔

مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ

📘 موجودہ دنیا میں انکار کا اصل سبب انسان کی بے خوفی ہے۔ یہ دراصل بے خوفی کی نفسیات ہے جس کی وجہ سے آدمی حق کو نظر انداز کرتاہے اور اس کے مقابلہ میں سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ مگر جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور اس کی علامت کے طورپر صور پھونک دیا جائے گا تو اچانک لو گ محسوس کریں گے کہ ان کی بے خوفی محض بے خبری کی بناپر تھی۔ اس دن تمام بڑائیاں ریت کی دیوار کی طرح ڈھ جائیں گی۔ یہ ایسا سخت لمحہ ہوگا کہ انسان تو درکنار پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اس وقت سارا عجز ایک طرف ہوجائے گا اور ساری قدرت دوسری طرف۔ اس دن وہ تمام چیزیں بالکل غیر اہم ہوجائیں گی جن کو لوگ دنیا میں اہم سمجھے ہوئے تھے۔ اس دن سارا وزن صرف عمل صالح میں ہوگا۔ اس دن کھونے والے پائیں گے اور پانے والے ابدی طورپر محروم ہو کر رہ جائیں گے۔

يَا مُوسَىٰ إِنَّهُ أَنَا اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 حضرت موسیٰ پہاڑ پر آگ کے ليے گئے تھے۔ مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ پیغمبری کے ليے بلائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کو خصوصی عطیہ دیتاہے تو اچانک اور غیر متوقع طورپر دیتاہے تاکہ وہ اس کو براہِ راست اللہ کی طرف سے سمجھے اور اس کے اندر زیادہ سے زیادہ شکر کا جذبہ پیدا ہو۔ حضرت موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) اگرچہ اس وقت کے لحاظ سے ایک مسلم قوم تھی۔ مگر اب وہ بالکل بے جان ہوچکی تھی۔ دوسری طرف انھیں فرعون جیسے جابر حکمراں کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرنا تھا۔ اس ليے اللہ تعالیٰ نے آغاز ہی میں آپ کو عصا کا معجزہ عطا فرمادیا۔ یہ عصا حضرت موسیٰ کے ليے ایک مستقل خدائی طاقت تھا۔ اس کے ذریعے سے فرعون کے مقابلہ میں 9 معجزات ظاہر ہوئے۔ بنی اسرائیل کے ليے ظاہر ہونے والے معجزات ان کے علاوہ تھے۔حضرت موسیٰ کے معجزات نے آخری حد تک آپ کی صداقت ثابت کردی تھی۔ اس کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے آپ کا اعتراف نہیں کیا۔ اس کی وجہ ان کا ظلم اور علو تھا۔ فرعون اور اس کے ساتھی اپنی آزادی پر قید لگانے کے ليے تیار نہ تھے۔ مزید یہ کہ وہ جانتے تھے کہ موسیٰ کی بات ماننا اپنی بڑائی کی نفی کرنا ہے۔ اور کون ہے جو اپنی بڑائی کی نفی کی قیمت پر سچائی کو مانے۔

وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 موجودہ دنیا میں انکار کا اصل سبب انسان کی بے خوفی ہے۔ یہ دراصل بے خوفی کی نفسیات ہے جس کی وجہ سے آدمی حق کو نظر انداز کرتاہے اور اس کے مقابلہ میں سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ مگر جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور اس کی علامت کے طورپر صور پھونک دیا جائے گا تو اچانک لو گ محسوس کریں گے کہ ان کی بے خوفی محض بے خبری کی بناپر تھی۔ اس دن تمام بڑائیاں ریت کی دیوار کی طرح ڈھ جائیں گی۔ یہ ایسا سخت لمحہ ہوگا کہ انسان تو درکنار پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اس وقت سارا عجز ایک طرف ہوجائے گا اور ساری قدرت دوسری طرف۔ اس دن وہ تمام چیزیں بالکل غیر اہم ہوجائیں گی جن کو لوگ دنیا میں اہم سمجھے ہوئے تھے۔ اس دن سارا وزن صرف عمل صالح میں ہوگا۔ اس دن کھونے والے پائیں گے اور پانے والے ابدی طورپر محروم ہو کر رہ جائیں گے۔

إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ

📘 اس شہر (مکہ) کا حوالہ قرآن کے مخاطب اول کی رعایت سے ہے۔ تاہم یہ ایک اسلوب کلام کی بات ہے۔ آیت کا اصل مدعا انسان کو اس ابدی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ اُس کے ليے ایک ہی صحیح رویہ ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ ایک خدا کا عبادت گزار بنے۔ داعی کا کام ’’سنانا‘‘ ہے، یعنی امر حق کا اعلان۔ آدمی کو داعی کی لفظی پکار میں معنوی حقیقت کا ادراک کرنا ہے۔ بے زور دعوت میں خدائی طاقت کا جلوہ دیکھنا ہے۔ جو لوگ اس صلاحیت کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے ابدی انعامات کے مستحق قرار دئے جائیں گے۔ ’’خدا اپنی نشانیاں دکھائے گا‘‘— اس پیشین گوئی کا ایک پہلو قرآن کے مخاطب اول (قریش مکہ) سے تعلق رکھتا ہے جن کو دور اول میں جنگ بدر اور فتح مکہ کی صورت میں خدا کی نشانیاں دکھائی گئیں۔ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق قرآن کی ابدیت سے ہے۔ اس دوسرے اعتبار سے موجودہ زمانہ میں ظاہر ہونے والی سائنسی نشانیاں بھی اس غیر معمولی پیشین گوئی کے وسیع تر مصداق میں شامل ہیں۔

وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ

📘 اس شہر (مکہ) کا حوالہ قرآن کے مخاطب اول کی رعایت سے ہے۔ تاہم یہ ایک اسلوب کلام کی بات ہے۔ آیت کا اصل مدعا انسان کو اس ابدی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ اُس کے ليے ایک ہی صحیح رویہ ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ ایک خدا کا عبادت گزار بنے۔ داعی کا کام ’’سنانا‘‘ ہے، یعنی امر حق کا اعلان۔ آدمی کو داعی کی لفظی پکار میں معنوی حقیقت کا ادراک کرنا ہے۔ بے زور دعوت میں خدائی طاقت کا جلوہ دیکھنا ہے۔ جو لوگ اس صلاحیت کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے ابدی انعامات کے مستحق قرار دئے جائیں گے۔ ’’خدا اپنی نشانیاں دکھائے گا‘‘— اس پیشین گوئی کا ایک پہلو قرآن کے مخاطب اول (قریش مکہ) سے تعلق رکھتا ہے جن کو دور اول میں جنگ بدر اور فتح مکہ کی صورت میں خدا کی نشانیاں دکھائی گئیں۔ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق قرآن کی ابدیت سے ہے۔ اس دوسرے اعتبار سے موجودہ زمانہ میں ظاہر ہونے والی سائنسی نشانیاں بھی اس غیر معمولی پیشین گوئی کے وسیع تر مصداق میں شامل ہیں۔

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

📘 اس شہر (مکہ) کا حوالہ قرآن کے مخاطب اول کی رعایت سے ہے۔ تاہم یہ ایک اسلوب کلام کی بات ہے۔ آیت کا اصل مدعا انسان کو اس ابدی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ اُس کے ليے ایک ہی صحیح رویہ ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ ایک خدا کا عبادت گزار بنے۔ داعی کا کام ’’سنانا‘‘ ہے، یعنی امر حق کا اعلان۔ آدمی کو داعی کی لفظی پکار میں معنوی حقیقت کا ادراک کرنا ہے۔ بے زور دعوت میں خدائی طاقت کا جلوہ دیکھنا ہے۔ جو لوگ اس صلاحیت کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے ابدی انعامات کے مستحق قرار دئے جائیں گے۔ ’’خدا اپنی نشانیاں دکھائے گا‘‘— اس پیشین گوئی کا ایک پہلو قرآن کے مخاطب اول (قریش مکہ) سے تعلق رکھتا ہے جن کو دور اول میں جنگ بدر اور فتح مکہ کی صورت میں خدا کی نشانیاں دکھائی گئیں۔ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق قرآن کی ابدیت سے ہے۔ اس دوسرے اعتبار سے موجودہ زمانہ میں ظاہر ہونے والی سائنسی نشانیاں بھی اس غیر معمولی پیشین گوئی کے وسیع تر مصداق میں شامل ہیں۔