🕋 تفسير سورة ص
(Sad) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ص ۚ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ
📘 ’’ذکر‘‘ کے اصل معنی یاد دہانی کے ہیں۔یاد دہانی کسی ایسی چیز کی کرائی جاتی ہے جو بطور واقعہ پہلے سے موجود ہو۔ قرآن کے ذی الذکر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ان حقیقتوں کو ماننے کی دعوت دیتاہے جو انسانی فطرت میں پہلے سے موجود ہیں۔ قرآن کی کوئی بات اب تک خلاف واقعہ یا خلاف فطرت نہیں نکلی۔ یہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ قرآن سراسر حق ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ قرآن کو نہ مانیں ان کے نہ ماننے کا سبب یقینی طور پر نفسیاتی ہے، نہ کہ عقلی۔ ان کا نہ ماننا کسی دلیل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس ليے ہے کہ اس کو مان کر ان کی بڑائی ختم ہوجائے گی۔
قرآن اُس دعوت توحید کا تسلسل ہے جو پچھلے ہر دور میں مختلف نبیوں کے ذریعہ جاری رہی ہے۔پچھلے زمانوں میںجن لوگوںنے اس دعوت کا انکار کیا وہ ہلاک کردئے گئے۔ حال کے منکرین کو ماضی کے منکرین کے اس انجام سے سبق لینا چاہيے۔
أَمْ لَهُمْ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبَابِ
📘 دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔
جُنْدٌ مَا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزَابِ
📘 دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ ذُو الْأَوْتَادِ
📘 دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔
وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ ۚ أُولَٰئِكَ الْأَحْزَابُ
📘 دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔
إِنْ كُلٌّ إِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ
📘 دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔
وَمَا يَنْظُرُ هَٰؤُلَاءِ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً مَا لَهَا مِنْ فَوَاقٍ
📘 دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔
وَقَالُوا رَبَّنَا عَجِّلْ لَنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ
📘 دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔
اصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
📘 دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔
إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ
📘 دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔
وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً ۖ كُلٌّ لَهُ أَوَّابٌ
📘 دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔
بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ
📘 ’’ذکر‘‘ کے اصل معنی یاد دہانی کے ہیں۔یاد دہانی کسی ایسی چیز کی کرائی جاتی ہے جو بطور واقعہ پہلے سے موجود ہو۔ قرآن کے ذی الذکر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ان حقیقتوں کو ماننے کی دعوت دیتاہے جو انسانی فطرت میں پہلے سے موجود ہیں۔ قرآن کی کوئی بات اب تک خلاف واقعہ یا خلاف فطرت نہیں نکلی۔ یہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ قرآن سراسر حق ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ قرآن کو نہ مانیں ان کے نہ ماننے کا سبب یقینی طور پر نفسیاتی ہے، نہ کہ عقلی۔ ان کا نہ ماننا کسی دلیل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس ليے ہے کہ اس کو مان کر ان کی بڑائی ختم ہوجائے گی۔
قرآن اُس دعوت توحید کا تسلسل ہے جو پچھلے ہر دور میں مختلف نبیوں کے ذریعہ جاری رہی ہے۔پچھلے زمانوں میںجن لوگوںنے اس دعوت کا انکار کیا وہ ہلاک کردئے گئے۔ حال کے منکرین کو ماضی کے منکرین کے اس انجام سے سبق لینا چاہيے۔
وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ
📘 دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔
۞ وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ
📘 کہا جاتا ہے کہ حضرت داؤد نے تین دن کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ ایک دن دربار اور فصل مقدمات کےلیے۔ دوسرے دن اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہنے کےلیے۔ تیسرے دن الگ رہ کر خالص خدا کی عبادت کےلیے۔ ایک روز جب کہ ان کا عبادتی دن تھا وہ اپنے محل کے مخصوص حصہ میں اکیلے عبادت میں مشغول تھے کہ دو آدمی دیوار پھاند کر اندر داخل ہوگئے اور ان کے کمرهٔ عباد ت میں آکر کھڑے ہوگئے۔ یہ ایک غیر معمولی بات تھی اس ليے آپ کچھ گھبرا اٹھے۔ ان دونوں آدمیوں نے اطمینان دلایا اور کہا کہ ہم دو فریق ہیں۔ آپ سے ایک جھگڑے کا فیصلہ لینے کےلیے یہاں حاضر ہوئے ہیں۔
إِذْ دَخَلُوا عَلَىٰ دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ خَصْمَانِ بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا إِلَىٰ سَوَاءِ الصِّرَاطِ
📘 کہا جاتا ہے کہ حضرت داؤد نے تین دن کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ ایک دن دربار اور فصل مقدمات کےلیے۔ دوسرے دن اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہنے کےلیے۔ تیسرے دن الگ رہ کر خالص خدا کی عبادت کےلیے۔ ایک روز جب کہ ان کا عبادتی دن تھا وہ اپنے محل کے مخصوص حصہ میں اکیلے عبادت میں مشغول تھے کہ دو آدمی دیوار پھاند کر اندر داخل ہوگئے اور ان کے کمرهٔ عباد ت میں آکر کھڑے ہوگئے۔ یہ ایک غیر معمولی بات تھی اس ليے آپ کچھ گھبرا اٹھے۔ ان دونوں آدمیوں نے اطمینان دلایا اور کہا کہ ہم دو فریق ہیں۔ آپ سے ایک جھگڑے کا فیصلہ لینے کےلیے یہاں حاضر ہوئے ہیں۔
إِنَّ هَٰذَا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا وَعَزَّنِي فِي الْخِطَابِ
📘 آنے والے دونوں آدمیوں نے جو مقدمہ پیش کیا وہ کوئی حقیقی مقدمہ نہ تھا بلکہ تمثیل کی زبان میں خودحضرت داؤد علیہ السلام کی کسی بات پر انھیں متنبہ کرنا تھا۔ چنانچہ مقدمہ کا فیصلہ دیتے دیتے آپ کو اپنا وہ معاملہ یاد آگیا جو مذکورہ مثال سے ملتا جلتا تھا۔ آپ نے فوراً اس سے رجوع کرلیا اور اللہ کے آگے سجدہ میں گر پڑے۔
حضرت داؤد کو اس وقت زبردست اقتدار حاصل تھا۔ مگر انھوں نے آنے والوں کو نہ تو کوئی سزا دی اور نہ انھیں برا بھلا کہا۔یہی اللہ کے سچے بندوں کا طریقہ ہے۔ ان کے اندر کسی معاملہ میں ضد نہیں ہوتی۔ انھیں جب ان کی کسی خامی کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ فوراً اس کو مان کر اپنی اصلاح کرلیتے ہیں، خواہ وہ بااقتدار حیثیت کے مالک ہوں اور خواہ متوجہ کرنے والے نے انھیں بے ڈھنگے طریقہ سے متوجہ کیا ہو۔
قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩
📘 آنے والے دونوں آدمیوں نے جو مقدمہ پیش کیا وہ کوئی حقیقی مقدمہ نہ تھا بلکہ تمثیل کی زبان میں خودحضرت داؤد علیہ السلام کی کسی بات پر انھیں متنبہ کرنا تھا۔ چنانچہ مقدمہ کا فیصلہ دیتے دیتے آپ کو اپنا وہ معاملہ یاد آگیا جو مذکورہ مثال سے ملتا جلتا تھا۔ آپ نے فوراً اس سے رجوع کرلیا اور اللہ کے آگے سجدہ میں گر پڑے۔
حضرت داؤد کو اس وقت زبردست اقتدار حاصل تھا۔ مگر انھوں نے آنے والوں کو نہ تو کوئی سزا دی اور نہ انھیں برا بھلا کہا۔یہی اللہ کے سچے بندوں کا طریقہ ہے۔ ان کے اندر کسی معاملہ میں ضد نہیں ہوتی۔ انھیں جب ان کی کسی خامی کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ فوراً اس کو مان کر اپنی اصلاح کرلیتے ہیں، خواہ وہ بااقتدار حیثیت کے مالک ہوں اور خواہ متوجہ کرنے والے نے انھیں بے ڈھنگے طریقہ سے متوجہ کیا ہو۔
فَغَفَرْنَا لَهُ ذَٰلِكَ ۖ وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ
📘 آنے والے دونوں آدمیوں نے جو مقدمہ پیش کیا وہ کوئی حقیقی مقدمہ نہ تھا بلکہ تمثیل کی زبان میں خودحضرت داؤد علیہ السلام کی کسی بات پر انھیں متنبہ کرنا تھا۔ چنانچہ مقدمہ کا فیصلہ دیتے دیتے آپ کو اپنا وہ معاملہ یاد آگیا جو مذکورہ مثال سے ملتا جلتا تھا۔ آپ نے فوراً اس سے رجوع کرلیا اور اللہ کے آگے سجدہ میں گر پڑے۔
حضرت داؤد کو اس وقت زبردست اقتدار حاصل تھا۔ مگر انھوں نے آنے والوں کو نہ تو کوئی سزا دی اور نہ انھیں برا بھلا کہا۔یہی اللہ کے سچے بندوں کا طریقہ ہے۔ ان کے اندر کسی معاملہ میں ضد نہیں ہوتی۔ انھیں جب ان کی کسی خامی کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ فوراً اس کو مان کر اپنی اصلاح کرلیتے ہیں، خواہ وہ بااقتدار حیثیت کے مالک ہوں اور خواہ متوجہ کرنے والے نے انھیں بے ڈھنگے طریقہ سے متوجہ کیا ہو۔
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ
📘 ایک حاکم ہمیشہ دو چیزوں کے درمیان ہوتاہے۔ یا تو وہ معاملات کا فیصلہ اپنی چاہت کے مطابق کرے گا یا اصولِ حق کے مطابق۔ جو حاکم معاملات کا فیصلہ اپنی چاہ اور خواہش کے مطابق کرے وہ راہ سے بھٹک گیا۔ خدا کے یہاں اس کی سخت پکڑ ہوگی۔ اس کے برعکس، جو حاکم معاملات کا فیصلہ حق وانصاف کے اصول کا پابند رہ کر کرے وہی راہِ راست پر ہے۔ خدا کے یہاں اس کو بے حساب انعامات دئے جائیں گے۔
یہ ہدایت جس طرح ایک حاکم کےلیے ہے اسی طرح وہ عام انسانوں کےلیے بھی ہے۔ ہر آدمی کو اپنے دائرہ اختیار میں وہی کرنا ہے جو اس آیت میں بااقتدار حاکم کےلیے بتایا گیا ہے۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ
📘 دنیا کی چیزوں پر غور کیجيے تو معلوم ہوتاہے کہ اس کا پورا نظام نہایت حکیمانہ بنیادوں پر قائم ہے حالانکہ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ ایک الل ٹپ نظام ہو اور اس میں کوئی بات یقینی نہ ہو۔ دو امکان میں سے ایک مناسب تر امکان کا پایا جانا اس بات کا قرینہ ہے کہ اس دنیا کو پیدا کرنے والے نے اس کو ایک با مقصد منصوبہ کے تحت بنایا ہے۔ پھر جو دنیا اپنی ابتدا میں بامقصد ہو وہ اپنی انتہا میں بے مقصد کیوں کر ہوجائے گی۔
اسی طرح اس دنیا میں ہر آدمی آزاد اور خود مختار ہے۔مشاہدہ دوبارہ بتاتا ہے کہ لوگوں میں کوئی شخص وہ ہے جو حقیقت کا اعتراف کرتاہے اور اپنے اختیار سے اپنے آپ کو سچائی اور انصاف کا پابند بناتاہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا شخص وہ ہے جو حقیقت کا اعتراف نہیں کرتا۔ وہ بے قید ہو کر جو چاہے بولتا ہے اور جس طرح چاہے عمل کرتاہے۔ عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی کہ جب یہاں دو قسم کے انسان ہیں تو ان کا انجام یکساں ہو کر رہ جائے۔
دنیا کی اس صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو زندگی کے متعلق قرآن کا بیان ہی زیادہ مطابق حال نظر آئے گا، نہ کہ ان لوگوں کا بیان جو زندگی کی تشریح اس کے برعکس انداز میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ
📘 دنیا کی چیزوں پر غور کیجيے تو معلوم ہوتاہے کہ اس کا پورا نظام نہایت حکیمانہ بنیادوں پر قائم ہے حالانکہ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ ایک الل ٹپ نظام ہو اور اس میں کوئی بات یقینی نہ ہو۔ دو امکان میں سے ایک مناسب تر امکان کا پایا جانا اس بات کا قرینہ ہے کہ اس دنیا کو پیدا کرنے والے نے اس کو ایک با مقصد منصوبہ کے تحت بنایا ہے۔ پھر جو دنیا اپنی ابتدا میں بامقصد ہو وہ اپنی انتہا میں بے مقصد کیوں کر ہوجائے گی۔
اسی طرح اس دنیا میں ہر آدمی آزاد اور خود مختار ہے۔مشاہدہ دوبارہ بتاتا ہے کہ لوگوں میں کوئی شخص وہ ہے جو حقیقت کا اعتراف کرتاہے اور اپنے اختیار سے اپنے آپ کو سچائی اور انصاف کا پابند بناتاہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا شخص وہ ہے جو حقیقت کا اعتراف نہیں کرتا۔ وہ بے قید ہو کر جو چاہے بولتا ہے اور جس طرح چاہے عمل کرتاہے۔ عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی کہ جب یہاں دو قسم کے انسان ہیں تو ان کا انجام یکساں ہو کر رہ جائے۔
دنیا کی اس صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو زندگی کے متعلق قرآن کا بیان ہی زیادہ مطابق حال نظر آئے گا، نہ کہ ان لوگوں کا بیان جو زندگی کی تشریح اس کے برعکس انداز میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ
📘 دنیا کی چیزوں پر غور کیجيے تو معلوم ہوتاہے کہ اس کا پورا نظام نہایت حکیمانہ بنیادوں پر قائم ہے حالانکہ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ ایک الل ٹپ نظام ہو اور اس میں کوئی بات یقینی نہ ہو۔ دو امکان میں سے ایک مناسب تر امکان کا پایا جانا اس بات کا قرینہ ہے کہ اس دنیا کو پیدا کرنے والے نے اس کو ایک با مقصد منصوبہ کے تحت بنایا ہے۔ پھر جو دنیا اپنی ابتدا میں بامقصد ہو وہ اپنی انتہا میں بے مقصد کیوں کر ہوجائے گی۔
اسی طرح اس دنیا میں ہر آدمی آزاد اور خود مختار ہے۔مشاہدہ دوبارہ بتاتا ہے کہ لوگوں میں کوئی شخص وہ ہے جو حقیقت کا اعتراف کرتاہے اور اپنے اختیار سے اپنے آپ کو سچائی اور انصاف کا پابند بناتاہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا شخص وہ ہے جو حقیقت کا اعتراف نہیں کرتا۔ وہ بے قید ہو کر جو چاہے بولتا ہے اور جس طرح چاہے عمل کرتاہے۔ عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی کہ جب یہاں دو قسم کے انسان ہیں تو ان کا انجام یکساں ہو کر رہ جائے۔
دنیا کی اس صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو زندگی کے متعلق قرآن کا بیان ہی زیادہ مطابق حال نظر آئے گا، نہ کہ ان لوگوں کا بیان جو زندگی کی تشریح اس کے برعکس انداز میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ
📘 ’’ذکر‘‘ کے اصل معنی یاد دہانی کے ہیں۔یاد دہانی کسی ایسی چیز کی کرائی جاتی ہے جو بطور واقعہ پہلے سے موجود ہو۔ قرآن کے ذی الذکر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ان حقیقتوں کو ماننے کی دعوت دیتاہے جو انسانی فطرت میں پہلے سے موجود ہیں۔ قرآن کی کوئی بات اب تک خلاف واقعہ یا خلاف فطرت نہیں نکلی۔ یہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ قرآن سراسر حق ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ قرآن کو نہ مانیں ان کے نہ ماننے کا سبب یقینی طور پر نفسیاتی ہے، نہ کہ عقلی۔ ان کا نہ ماننا کسی دلیل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس ليے ہے کہ اس کو مان کر ان کی بڑائی ختم ہوجائے گی۔
قرآن اُس دعوت توحید کا تسلسل ہے جو پچھلے ہر دور میں مختلف نبیوں کے ذریعہ جاری رہی ہے۔پچھلے زمانوں میںجن لوگوںنے اس دعوت کا انکار کیا وہ ہلاک کردئے گئے۔ حال کے منکرین کو ماضی کے منکرین کے اس انجام سے سبق لینا چاہيے۔
وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
📘 حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام ایک عظیم سلطنت کے حکمراں تھے۔ ایک روز ان کی فوج کے اصیل اور تربیت یافتہ گھوڑے ان کے سامنے لائے گئے۔ پھر ان کی دوڑ ہوئی۔ یہاں تک کہ گھوڑے دوڑتے ہوئے دور کے منظر میں گم ہوگئے۔ اورپھر وہ دوبارہ واپس آئے۔
اس قسم کا منظر ہمیشہ نہایت شان دار ہوتا ہے۔ ان کو دیکھ کر عام انسان فخر اور گھمنڈ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر حضرت سلیمان کا حال یہ ہوا کہ وہ اس پرُ فخر منظر کو دیکھ کر خدا کو یاد کرنے لگے۔ انھوںنے کہا کہ میں نے یہ گھوڑے اپنی شان دکھانے کےلیے پسند نہیں کيے ہیں بلکہ صرف خدا کےلیے پسند کيے ہیں۔ گھوڑے کی شکل میں انھیں خدا کی عظیم کاریگری نظر آئی۔ اور وہ خدا کی عظمت کے اعتراف کے طورپر گھوڑوں کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے — مومن ہر چیز میں خدا کی شان دیکھتا ہے اور غیر مومن ہر چیز میں اپنی شان۔
إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصَّافِنَاتُ الْجِيَادُ
📘 حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام ایک عظیم سلطنت کے حکمراں تھے۔ ایک روز ان کی فوج کے اصیل اور تربیت یافتہ گھوڑے ان کے سامنے لائے گئے۔ پھر ان کی دوڑ ہوئی۔ یہاں تک کہ گھوڑے دوڑتے ہوئے دور کے منظر میں گم ہوگئے۔ اورپھر وہ دوبارہ واپس آئے۔
اس قسم کا منظر ہمیشہ نہایت شان دار ہوتا ہے۔ ان کو دیکھ کر عام انسان فخر اور گھمنڈ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر حضرت سلیمان کا حال یہ ہوا کہ وہ اس پرُ فخر منظر کو دیکھ کر خدا کو یاد کرنے لگے۔ انھوںنے کہا کہ میں نے یہ گھوڑے اپنی شان دکھانے کےلیے پسند نہیں کيے ہیں بلکہ صرف خدا کےلیے پسند کيے ہیں۔ گھوڑے کی شکل میں انھیں خدا کی عظیم کاریگری نظر آئی۔ اور وہ خدا کی عظمت کے اعتراف کے طورپر گھوڑوں کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے — مومن ہر چیز میں خدا کی شان دیکھتا ہے اور غیر مومن ہر چیز میں اپنی شان۔
فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ
📘 حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام ایک عظیم سلطنت کے حکمراں تھے۔ ایک روز ان کی فوج کے اصیل اور تربیت یافتہ گھوڑے ان کے سامنے لائے گئے۔ پھر ان کی دوڑ ہوئی۔ یہاں تک کہ گھوڑے دوڑتے ہوئے دور کے منظر میں گم ہوگئے۔ اورپھر وہ دوبارہ واپس آئے۔
اس قسم کا منظر ہمیشہ نہایت شان دار ہوتا ہے۔ ان کو دیکھ کر عام انسان فخر اور گھمنڈ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر حضرت سلیمان کا حال یہ ہوا کہ وہ اس پرُ فخر منظر کو دیکھ کر خدا کو یاد کرنے لگے۔ انھوںنے کہا کہ میں نے یہ گھوڑے اپنی شان دکھانے کےلیے پسند نہیں کيے ہیں بلکہ صرف خدا کےلیے پسند کيے ہیں۔ گھوڑے کی شکل میں انھیں خدا کی عظیم کاریگری نظر آئی۔ اور وہ خدا کی عظمت کے اعتراف کے طورپر گھوڑوں کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے — مومن ہر چیز میں خدا کی شان دیکھتا ہے اور غیر مومن ہر چیز میں اپنی شان۔
رُدُّوهَا عَلَيَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ
📘 حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام ایک عظیم سلطنت کے حکمراں تھے۔ ایک روز ان کی فوج کے اصیل اور تربیت یافتہ گھوڑے ان کے سامنے لائے گئے۔ پھر ان کی دوڑ ہوئی۔ یہاں تک کہ گھوڑے دوڑتے ہوئے دور کے منظر میں گم ہوگئے۔ اورپھر وہ دوبارہ واپس آئے۔
اس قسم کا منظر ہمیشہ نہایت شان دار ہوتا ہے۔ ان کو دیکھ کر عام انسان فخر اور گھمنڈ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر حضرت سلیمان کا حال یہ ہوا کہ وہ اس پرُ فخر منظر کو دیکھ کر خدا کو یاد کرنے لگے۔ انھوںنے کہا کہ میں نے یہ گھوڑے اپنی شان دکھانے کےلیے پسند نہیں کيے ہیں بلکہ صرف خدا کےلیے پسند کيے ہیں۔ گھوڑے کی شکل میں انھیں خدا کی عظیم کاریگری نظر آئی۔ اور وہ خدا کی عظمت کے اعتراف کے طورپر گھوڑوں کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے — مومن ہر چیز میں خدا کی شان دیکھتا ہے اور غیر مومن ہر چیز میں اپنی شان۔
وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَىٰ كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
📘 ہر انسان سے کوتاہی ہوتی ہے۔ مگر خدا کے نیک بندوں کےلیے کوتاہی ایک عظیم بھلائی بن جاتی ہے کیونکہ وہ کوتاہی کے بعد اور زیادہ خشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں اور پھر اور زیادہ انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام سے بھی ایک موقع پر کوئی اجتہادی انداز کی کوتاہی ہوگئی۔ جب آپ پر حقیقت واضح ہوئی تو آپ شدیداِنابت کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے درگزر فرمایا اور مزید یہ انعام کیا کہ آپ کو عظیم سلطنت عطا فرمائی اور آپ کو ایسے غیر معمولی اختیارات دئے جو کسی اور انسان کو حاصل نہیں ہوئے۔
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ
📘 ہر انسان سے کوتاہی ہوتی ہے۔ مگر خدا کے نیک بندوں کےلیے کوتاہی ایک عظیم بھلائی بن جاتی ہے کیونکہ وہ کوتاہی کے بعد اور زیادہ خشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں اور پھر اور زیادہ انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام سے بھی ایک موقع پر کوئی اجتہادی انداز کی کوتاہی ہوگئی۔ جب آپ پر حقیقت واضح ہوئی تو آپ شدیداِنابت کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے درگزر فرمایا اور مزید یہ انعام کیا کہ آپ کو عظیم سلطنت عطا فرمائی اور آپ کو ایسے غیر معمولی اختیارات دئے جو کسی اور انسان کو حاصل نہیں ہوئے۔
فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ
📘 ہر انسان سے کوتاہی ہوتی ہے۔ مگر خدا کے نیک بندوں کےلیے کوتاہی ایک عظیم بھلائی بن جاتی ہے کیونکہ وہ کوتاہی کے بعد اور زیادہ خشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں اور پھر اور زیادہ انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام سے بھی ایک موقع پر کوئی اجتہادی انداز کی کوتاہی ہوگئی۔ جب آپ پر حقیقت واضح ہوئی تو آپ شدیداِنابت کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے درگزر فرمایا اور مزید یہ انعام کیا کہ آپ کو عظیم سلطنت عطا فرمائی اور آپ کو ایسے غیر معمولی اختیارات دئے جو کسی اور انسان کو حاصل نہیں ہوئے۔
وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ
📘 ہر انسان سے کوتاہی ہوتی ہے۔ مگر خدا کے نیک بندوں کےلیے کوتاہی ایک عظیم بھلائی بن جاتی ہے کیونکہ وہ کوتاہی کے بعد اور زیادہ خشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں اور پھر اور زیادہ انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام سے بھی ایک موقع پر کوئی اجتہادی انداز کی کوتاہی ہوگئی۔ جب آپ پر حقیقت واضح ہوئی تو آپ شدیداِنابت کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے درگزر فرمایا اور مزید یہ انعام کیا کہ آپ کو عظیم سلطنت عطا فرمائی اور آپ کو ایسے غیر معمولی اختیارات دئے جو کسی اور انسان کو حاصل نہیں ہوئے۔
وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ
📘 ہر انسان سے کوتاہی ہوتی ہے۔ مگر خدا کے نیک بندوں کےلیے کوتاہی ایک عظیم بھلائی بن جاتی ہے کیونکہ وہ کوتاہی کے بعد اور زیادہ خشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں اور پھر اور زیادہ انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام سے بھی ایک موقع پر کوئی اجتہادی انداز کی کوتاہی ہوگئی۔ جب آپ پر حقیقت واضح ہوئی تو آپ شدیداِنابت کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے درگزر فرمایا اور مزید یہ انعام کیا کہ آپ کو عظیم سلطنت عطا فرمائی اور آپ کو ایسے غیر معمولی اختیارات دئے جو کسی اور انسان کو حاصل نہیں ہوئے۔
هَٰذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ
📘 ہر انسان سے کوتاہی ہوتی ہے۔ مگر خدا کے نیک بندوں کےلیے کوتاہی ایک عظیم بھلائی بن جاتی ہے کیونکہ وہ کوتاہی کے بعد اور زیادہ خشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں اور پھر اور زیادہ انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام سے بھی ایک موقع پر کوئی اجتہادی انداز کی کوتاہی ہوگئی۔ جب آپ پر حقیقت واضح ہوئی تو آپ شدیداِنابت کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے درگزر فرمایا اور مزید یہ انعام کیا کہ آپ کو عظیم سلطنت عطا فرمائی اور آپ کو ایسے غیر معمولی اختیارات دئے جو کسی اور انسان کو حاصل نہیں ہوئے۔
وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ
📘 ’’پیغمبر اسلام‘‘کا نام آج ایک عظیم نام ہے۔ کیوں کہ بعد کی پرعظمت تاریخ نے اس کو عظیم بنادیا ہے۔ مگر ابتدا میں جب آپ نے مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تو لوگوں کو آپ صرف ایک معمولی آدمی دکھائی دیتے تھے۔ لوگوں کےلیے یہ یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ یہی معمولی آدمی وہ شخص ہے جس کو خدا نے اپنے کلام کا مہبط بننے کےلیے چنا ہے— جب تاریخ بن چکی ہو تو ایک اندھا آدمی بھی پیغمبر کو پہچان لیتاہے۔ مگر تاریخ بننے سے پہلے پیغمبر کو پہچاننے کےلیے جوہر شناسی کی صلاحیت درکار ہے، اور یہ صلاحیت وہ ہے جو ہر دور میں سب سے زیادہ کم پائی گئی ہے۔
قرآن کا غیر معمولی طورپر موثر کلام، قرآن کے مخالفین کو مبہوت کردیتا تھا۔ مگر صاحب قرآن کی معمولی تصویر دوبارہ انھیں شبہ میں ڈال دیتی تھی۔ اس ليے وہ اس کو رد کرنے کےلیے طرح طرح کی باتیں کرتے تھے۔ کبھی اس کو جادوگر کہتے، کبھی جھوٹا بتاتے، کبھی کہتے کہ اس کے پیچھے کوئی مادی غرض شامل ہے، کبھی کہتے کہ ایسا کیوںکر ہوسکتاہے کہ ہمارے بڑے بڑے بزرگوں کی بات صحیح نہ ہو اور اس معمولی آدمی کی بات صحیح ہو۔
’’اپنے معبودوں پر جمے رہو‘‘ کا لفظ بتاتاہے کہ دلیل کے میدان میں وہ اپنے آپ کو عاجز پا رہے تھے، اس ليے انھوں نے تعصب کے نعرہ پر اپنے لوگوں کو قرآنی سیلاب سے بچانے کی کوشش کی۔
وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ
📘 ہر انسان سے کوتاہی ہوتی ہے۔ مگر خدا کے نیک بندوں کےلیے کوتاہی ایک عظیم بھلائی بن جاتی ہے کیونکہ وہ کوتاہی کے بعد اور زیادہ خشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں اور پھر اور زیادہ انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام سے بھی ایک موقع پر کوئی اجتہادی انداز کی کوتاہی ہوگئی۔ جب آپ پر حقیقت واضح ہوئی تو آپ شدیداِنابت کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے درگزر فرمایا اور مزید یہ انعام کیا کہ آپ کو عظیم سلطنت عطا فرمائی اور آپ کو ایسے غیر معمولی اختیارات دئے جو کسی اور انسان کو حاصل نہیں ہوئے۔
وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ
📘 حضرت ایوب علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے تھے۔ ان کا زمانہ غالباً نویں صدی قبل مسیح ہے۔ ان کوکافی مال ودولت حاصل تھی۔ مگر مال ودولت میں گم ہونے کے بجائے وہ خدا کی عبادت کرتے اور لوگوں کو خدا کی طرف بلاتے تھے۔کچھ غلط قسم کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ایوب کو جب اتنا زیادہ مال ودولت حاصل ہے تو وہ دین دارنہ بنیں گے تو اور کیا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر حجت قائم کرنے کےلیے حضرت ایوب کو مفلس بنادیا۔ مگر وہ بدستور اللہ کے عبادت گزار بنے رہے۔ انھوںنے کہا کہ ’’خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو‘‘(ايوب 1:21)۔
شریر لوگ اب بھی چپ نہ ہو ئے۔ انھوں نے کہا کہ اصل امتحان تو یہ ہے کہ وہ جسمانی تکلیف میں مبتلا ہوں اور پھر بھی صبر وشکر پر قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ نمونہ بھی دکھایا۔ حضرت ایوب کو سخت جِلدی بیماری لاحق ہوئی اور ان کے تمام جسم پر پھوڑے ہوگئے۔ مگر وہ بدستور صبر وشکر کی تصویر بنے رہے۔ جب لوگوں پر حجت تمام ہوچکی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کےلیے ایک چشمہ جاری کیا جس میں نہانے سے ان کا جسم بالکل تندرست ہوگیا۔ اور مال واولاد بھی دوبارہ مزید اضافہ کے ساتھ عطا فرمائے۔
حضرت ایوب نے بیماری کی حالت میں کسی بات پر قسم کھالی تھی کہ اچھے ہوگئے تو اپنی بیوی کو سو لکڑیاں ماریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کو پورا کرنے کی یہ تدبیر انھیں بتائی کہ ایک جھاڑو لو جس میں ایک سو سینکیں ہو اور اس سے ہلکے طورپر ایک بار اپنی بیوی کو مارو — اس سے معلوم ہوا کہ مخصوص حالات میں حیلہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ وہ کسی شرعی حکم کو باطل نہ کرتاہو۔خدا جب اپنے دین کےلیے کسی کو استعمال کرے اور وہ شخص کسی تحفظ کے بغیر اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردے تو خدا اس کو دوبارہ اس سے زیادہ دے دیتاہے جتنا اس سے مذکورہ عمل کے دوران چھنا تھا۔
ارْكُضْ بِرِجْلِكَ ۖ هَٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ
📘 حضرت ایوب علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے تھے۔ ان کا زمانہ غالباً نویں صدی قبل مسیح ہے۔ ان کوکافی مال ودولت حاصل تھی۔ مگر مال ودولت میں گم ہونے کے بجائے وہ خدا کی عبادت کرتے اور لوگوں کو خدا کی طرف بلاتے تھے۔کچھ غلط قسم کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ایوب کو جب اتنا زیادہ مال ودولت حاصل ہے تو وہ دین دارنہ بنیں گے تو اور کیا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر حجت قائم کرنے کےلیے حضرت ایوب کو مفلس بنادیا۔ مگر وہ بدستور اللہ کے عبادت گزار بنے رہے۔ انھوںنے کہا کہ ’’خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو‘‘(ايوب 1:21)۔
شریر لوگ اب بھی چپ نہ ہو ئے۔ انھوں نے کہا کہ اصل امتحان تو یہ ہے کہ وہ جسمانی تکلیف میں مبتلا ہوں اور پھر بھی صبر وشکر پر قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ نمونہ بھی دکھایا۔ حضرت ایوب کو سخت جِلدی بیماری لاحق ہوئی اور ان کے تمام جسم پر پھوڑے ہوگئے۔ مگر وہ بدستور صبر وشکر کی تصویر بنے رہے۔ جب لوگوں پر حجت تمام ہوچکی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کےلیے ایک چشمہ جاری کیا جس میں نہانے سے ان کا جسم بالکل تندرست ہوگیا۔ اور مال واولاد بھی دوبارہ مزید اضافہ کے ساتھ عطا فرمائے۔
حضرت ایوب نے بیماری کی حالت میں کسی بات پر قسم کھالی تھی کہ اچھے ہوگئے تو اپنی بیوی کو سو لکڑیاں ماریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کو پورا کرنے کی یہ تدبیر انھیں بتائی کہ ایک جھاڑو لو جس میں ایک سو سینکیں ہو اور اس سے ہلکے طورپر ایک بار اپنی بیوی کو مارو — اس سے معلوم ہوا کہ مخصوص حالات میں حیلہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ وہ کسی شرعی حکم کو باطل نہ کرتاہو۔خدا جب اپنے دین کےلیے کسی کو استعمال کرے اور وہ شخص کسی تحفظ کے بغیر اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردے تو خدا اس کو دوبارہ اس سے زیادہ دے دیتاہے جتنا اس سے مذکورہ عمل کے دوران چھنا تھا۔
وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنَّا وَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
📘 حضرت ایوب علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے تھے۔ ان کا زمانہ غالباً نویں صدی قبل مسیح ہے۔ ان کوکافی مال ودولت حاصل تھی۔ مگر مال ودولت میں گم ہونے کے بجائے وہ خدا کی عبادت کرتے اور لوگوں کو خدا کی طرف بلاتے تھے۔کچھ غلط قسم کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ایوب کو جب اتنا زیادہ مال ودولت حاصل ہے تو وہ دین دارنہ بنیں گے تو اور کیا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر حجت قائم کرنے کےلیے حضرت ایوب کو مفلس بنادیا۔ مگر وہ بدستور اللہ کے عبادت گزار بنے رہے۔ انھوںنے کہا کہ ’’خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو‘‘(ايوب 1:21)۔
شریر لوگ اب بھی چپ نہ ہو ئے۔ انھوں نے کہا کہ اصل امتحان تو یہ ہے کہ وہ جسمانی تکلیف میں مبتلا ہوں اور پھر بھی صبر وشکر پر قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ نمونہ بھی دکھایا۔ حضرت ایوب کو سخت جِلدی بیماری لاحق ہوئی اور ان کے تمام جسم پر پھوڑے ہوگئے۔ مگر وہ بدستور صبر وشکر کی تصویر بنے رہے۔ جب لوگوں پر حجت تمام ہوچکی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کےلیے ایک چشمہ جاری کیا جس میں نہانے سے ان کا جسم بالکل تندرست ہوگیا۔ اور مال واولاد بھی دوبارہ مزید اضافہ کے ساتھ عطا فرمائے۔
حضرت ایوب نے بیماری کی حالت میں کسی بات پر قسم کھالی تھی کہ اچھے ہوگئے تو اپنی بیوی کو سو لکڑیاں ماریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کو پورا کرنے کی یہ تدبیر انھیں بتائی کہ ایک جھاڑو لو جس میں ایک سو سینکیں ہو اور اس سے ہلکے طورپر ایک بار اپنی بیوی کو مارو — اس سے معلوم ہوا کہ مخصوص حالات میں حیلہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ وہ کسی شرعی حکم کو باطل نہ کرتاہو۔خدا جب اپنے دین کےلیے کسی کو استعمال کرے اور وہ شخص کسی تحفظ کے بغیر اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردے تو خدا اس کو دوبارہ اس سے زیادہ دے دیتاہے جتنا اس سے مذکورہ عمل کے دوران چھنا تھا۔
وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
📘 حضرت ایوب علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے تھے۔ ان کا زمانہ غالباً نویں صدی قبل مسیح ہے۔ ان کوکافی مال ودولت حاصل تھی۔ مگر مال ودولت میں گم ہونے کے بجائے وہ خدا کی عبادت کرتے اور لوگوں کو خدا کی طرف بلاتے تھے۔کچھ غلط قسم کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ایوب کو جب اتنا زیادہ مال ودولت حاصل ہے تو وہ دین دارنہ بنیں گے تو اور کیا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر حجت قائم کرنے کےلیے حضرت ایوب کو مفلس بنادیا۔ مگر وہ بدستور اللہ کے عبادت گزار بنے رہے۔ انھوںنے کہا کہ ’’خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو‘‘(ايوب 1:21)۔
شریر لوگ اب بھی چپ نہ ہو ئے۔ انھوں نے کہا کہ اصل امتحان تو یہ ہے کہ وہ جسمانی تکلیف میں مبتلا ہوں اور پھر بھی صبر وشکر پر قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ نمونہ بھی دکھایا۔ حضرت ایوب کو سخت جِلدی بیماری لاحق ہوئی اور ان کے تمام جسم پر پھوڑے ہوگئے۔ مگر وہ بدستور صبر وشکر کی تصویر بنے رہے۔ جب لوگوں پر حجت تمام ہوچکی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کےلیے ایک چشمہ جاری کیا جس میں نہانے سے ان کا جسم بالکل تندرست ہوگیا۔ اور مال واولاد بھی دوبارہ مزید اضافہ کے ساتھ عطا فرمائے۔
حضرت ایوب نے بیماری کی حالت میں کسی بات پر قسم کھالی تھی کہ اچھے ہوگئے تو اپنی بیوی کو سو لکڑیاں ماریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کو پورا کرنے کی یہ تدبیر انھیں بتائی کہ ایک جھاڑو لو جس میں ایک سو سینکیں ہو اور اس سے ہلکے طورپر ایک بار اپنی بیوی کو مارو — اس سے معلوم ہوا کہ مخصوص حالات میں حیلہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ وہ کسی شرعی حکم کو باطل نہ کرتاہو۔خدا جب اپنے دین کےلیے کسی کو استعمال کرے اور وہ شخص کسی تحفظ کے بغیر اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردے تو خدا اس کو دوبارہ اس سے زیادہ دے دیتاہے جتنا اس سے مذکورہ عمل کے دوران چھنا تھا۔
وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ
📘 یہاں چند پیغمبروں کا ذکر کرکے ارشاد ہوا ہے کہ وہ ہاتھ والے اور آنکھ والے تھے۔ یعنی ان کو جسمانی قوت اور ذہنی بصیرت دونوں اعلیٰ درجہ میں حاصل تھی۔ ایک طرف وہ عملی صلاحیت کے مالک تھے۔ دوسری طرف انھوںنے اس معرفت کا ثبوت دیا کہ وہ چیزوں کو صحیح نظر سے دیکھنے اور معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ خدا نے ان کو اپنے پیغام کی پیغام بری کےلیے چن لیا۔
خدا کا خاص کام کیا ہے جس کےلیے وہ انسانوں میں سے اپنے پیغمبر چنتا ہے۔ وہ ہے آخرت کے گھر کی یاد دہانی۔ پیغمبروں کا خاص مشن ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ انسان کو اس حقیقت سے باخبر کریں کہ انسان کی اصل منزل آخرت ہے۔ اور انسان کو اسی کی تیاری کرنا چاہيے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور اس دنیا میں سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اس کو اس سنگین مسئلہ سے آگاہ کیا جائے۔
إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ
📘 یہاں چند پیغمبروں کا ذکر کرکے ارشاد ہوا ہے کہ وہ ہاتھ والے اور آنکھ والے تھے۔ یعنی ان کو جسمانی قوت اور ذہنی بصیرت دونوں اعلیٰ درجہ میں حاصل تھی۔ ایک طرف وہ عملی صلاحیت کے مالک تھے۔ دوسری طرف انھوںنے اس معرفت کا ثبوت دیا کہ وہ چیزوں کو صحیح نظر سے دیکھنے اور معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ خدا نے ان کو اپنے پیغام کی پیغام بری کےلیے چن لیا۔
خدا کا خاص کام کیا ہے جس کےلیے وہ انسانوں میں سے اپنے پیغمبر چنتا ہے۔ وہ ہے آخرت کے گھر کی یاد دہانی۔ پیغمبروں کا خاص مشن ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ انسان کو اس حقیقت سے باخبر کریں کہ انسان کی اصل منزل آخرت ہے۔ اور انسان کو اسی کی تیاری کرنا چاہيے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور اس دنیا میں سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اس کو اس سنگین مسئلہ سے آگاہ کیا جائے۔
وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ
📘 یہاں چند پیغمبروں کا ذکر کرکے ارشاد ہوا ہے کہ وہ ہاتھ والے اور آنکھ والے تھے۔ یعنی ان کو جسمانی قوت اور ذہنی بصیرت دونوں اعلیٰ درجہ میں حاصل تھی۔ ایک طرف وہ عملی صلاحیت کے مالک تھے۔ دوسری طرف انھوںنے اس معرفت کا ثبوت دیا کہ وہ چیزوں کو صحیح نظر سے دیکھنے اور معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ خدا نے ان کو اپنے پیغام کی پیغام بری کےلیے چن لیا۔
خدا کا خاص کام کیا ہے جس کےلیے وہ انسانوں میں سے اپنے پیغمبر چنتا ہے۔ وہ ہے آخرت کے گھر کی یاد دہانی۔ پیغمبروں کا خاص مشن ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ انسان کو اس حقیقت سے باخبر کریں کہ انسان کی اصل منزل آخرت ہے۔ اور انسان کو اسی کی تیاری کرنا چاہيے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور اس دنیا میں سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اس کو اس سنگین مسئلہ سے آگاہ کیا جائے۔
وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ وَكُلٌّ مِنَ الْأَخْيَارِ
📘 یہاں چند پیغمبروں کا ذکر کرکے ارشاد ہوا ہے کہ وہ ہاتھ والے اور آنکھ والے تھے۔ یعنی ان کو جسمانی قوت اور ذہنی بصیرت دونوں اعلیٰ درجہ میں حاصل تھی۔ ایک طرف وہ عملی صلاحیت کے مالک تھے۔ دوسری طرف انھوںنے اس معرفت کا ثبوت دیا کہ وہ چیزوں کو صحیح نظر سے دیکھنے اور معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ خدا نے ان کو اپنے پیغام کی پیغام بری کےلیے چن لیا۔
خدا کا خاص کام کیا ہے جس کےلیے وہ انسانوں میں سے اپنے پیغمبر چنتا ہے۔ وہ ہے آخرت کے گھر کی یاد دہانی۔ پیغمبروں کا خاص مشن ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ انسان کو اس حقیقت سے باخبر کریں کہ انسان کی اصل منزل آخرت ہے۔ اور انسان کو اسی کی تیاری کرنا چاہيے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور اس دنیا میں سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اس کو اس سنگین مسئلہ سے آگاہ کیا جائے۔
هَٰذَا ذِكْرٌ ۚ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍ
📘 جنت کے دروازے ان لوگوں کےلیے کھولے جاتے ہیں جو اپنے دل کے دروازے نصیحت کےلیے کھولیں۔ جو خدا کے ظہور سے پہلے خدا سے ڈرنے والے بن جائیں۔ یہی وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو آخرت کی ابدی نعمتوں کے حصہ دار ہوں گے۔
قرآن میں آخرت کی جن نعمتوں کا ذکر ہے وہ سب وہی ہیں جو دنیا میں بھی انسان کو حاصل ہوتی ہیں۔ مگر دونوں میں زبردست فرق ہے۔ وہ یہ کہ دنیا میں یہ نعمتیں وقتی اور ابتدائی شکل میں دی گئی ہیں اور آخرت میں یہ نعمتیں ابدی اور انتہائی شکل میں دی جائیں گی۔ مزید یہ کہ ان اعلیٰ نعمتوں کے ساتھ ہر قسم کے خوف اور اندیشہ کو حذف کردیا جائے گا جن کا حذف ہونا موجودہ دنیامیں کسی طرح ممکن نہیں۔
أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ
📘 ’’پیغمبر اسلام‘‘کا نام آج ایک عظیم نام ہے۔ کیوں کہ بعد کی پرعظمت تاریخ نے اس کو عظیم بنادیا ہے۔ مگر ابتدا میں جب آپ نے مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تو لوگوں کو آپ صرف ایک معمولی آدمی دکھائی دیتے تھے۔ لوگوں کےلیے یہ یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ یہی معمولی آدمی وہ شخص ہے جس کو خدا نے اپنے کلام کا مہبط بننے کےلیے چنا ہے— جب تاریخ بن چکی ہو تو ایک اندھا آدمی بھی پیغمبر کو پہچان لیتاہے۔ مگر تاریخ بننے سے پہلے پیغمبر کو پہچاننے کےلیے جوہر شناسی کی صلاحیت درکار ہے، اور یہ صلاحیت وہ ہے جو ہر دور میں سب سے زیادہ کم پائی گئی ہے۔
قرآن کا غیر معمولی طورپر موثر کلام، قرآن کے مخالفین کو مبہوت کردیتا تھا۔ مگر صاحب قرآن کی معمولی تصویر دوبارہ انھیں شبہ میں ڈال دیتی تھی۔ اس ليے وہ اس کو رد کرنے کےلیے طرح طرح کی باتیں کرتے تھے۔ کبھی اس کو جادوگر کہتے، کبھی جھوٹا بتاتے، کبھی کہتے کہ اس کے پیچھے کوئی مادی غرض شامل ہے، کبھی کہتے کہ ایسا کیوںکر ہوسکتاہے کہ ہمارے بڑے بڑے بزرگوں کی بات صحیح نہ ہو اور اس معمولی آدمی کی بات صحیح ہو۔
’’اپنے معبودوں پر جمے رہو‘‘ کا لفظ بتاتاہے کہ دلیل کے میدان میں وہ اپنے آپ کو عاجز پا رہے تھے، اس ليے انھوں نے تعصب کے نعرہ پر اپنے لوگوں کو قرآنی سیلاب سے بچانے کی کوشش کی۔
جَنَّاتِ عَدْنٍ مُفَتَّحَةً لَهُمُ الْأَبْوَابُ
📘 جنت کے دروازے ان لوگوں کےلیے کھولے جاتے ہیں جو اپنے دل کے دروازے نصیحت کےلیے کھولیں۔ جو خدا کے ظہور سے پہلے خدا سے ڈرنے والے بن جائیں۔ یہی وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو آخرت کی ابدی نعمتوں کے حصہ دار ہوں گے۔
قرآن میں آخرت کی جن نعمتوں کا ذکر ہے وہ سب وہی ہیں جو دنیا میں بھی انسان کو حاصل ہوتی ہیں۔ مگر دونوں میں زبردست فرق ہے۔ وہ یہ کہ دنیا میں یہ نعمتیں وقتی اور ابتدائی شکل میں دی گئی ہیں اور آخرت میں یہ نعمتیں ابدی اور انتہائی شکل میں دی جائیں گی۔ مزید یہ کہ ان اعلیٰ نعمتوں کے ساتھ ہر قسم کے خوف اور اندیشہ کو حذف کردیا جائے گا جن کا حذف ہونا موجودہ دنیامیں کسی طرح ممکن نہیں۔
مُتَّكِئِينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ
📘 جنت کے دروازے ان لوگوں کےلیے کھولے جاتے ہیں جو اپنے دل کے دروازے نصیحت کےلیے کھولیں۔ جو خدا کے ظہور سے پہلے خدا سے ڈرنے والے بن جائیں۔ یہی وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو آخرت کی ابدی نعمتوں کے حصہ دار ہوں گے۔
قرآن میں آخرت کی جن نعمتوں کا ذکر ہے وہ سب وہی ہیں جو دنیا میں بھی انسان کو حاصل ہوتی ہیں۔ مگر دونوں میں زبردست فرق ہے۔ وہ یہ کہ دنیا میں یہ نعمتیں وقتی اور ابتدائی شکل میں دی گئی ہیں اور آخرت میں یہ نعمتیں ابدی اور انتہائی شکل میں دی جائیں گی۔ مزید یہ کہ ان اعلیٰ نعمتوں کے ساتھ ہر قسم کے خوف اور اندیشہ کو حذف کردیا جائے گا جن کا حذف ہونا موجودہ دنیامیں کسی طرح ممکن نہیں۔
۞ وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ
📘 جنت کے دروازے ان لوگوں کےلیے کھولے جاتے ہیں جو اپنے دل کے دروازے نصیحت کےلیے کھولیں۔ جو خدا کے ظہور سے پہلے خدا سے ڈرنے والے بن جائیں۔ یہی وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو آخرت کی ابدی نعمتوں کے حصہ دار ہوں گے۔
قرآن میں آخرت کی جن نعمتوں کا ذکر ہے وہ سب وہی ہیں جو دنیا میں بھی انسان کو حاصل ہوتی ہیں۔ مگر دونوں میں زبردست فرق ہے۔ وہ یہ کہ دنیا میں یہ نعمتیں وقتی اور ابتدائی شکل میں دی گئی ہیں اور آخرت میں یہ نعمتیں ابدی اور انتہائی شکل میں دی جائیں گی۔ مزید یہ کہ ان اعلیٰ نعمتوں کے ساتھ ہر قسم کے خوف اور اندیشہ کو حذف کردیا جائے گا جن کا حذف ہونا موجودہ دنیامیں کسی طرح ممکن نہیں۔
هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِيَوْمِ الْحِسَابِ
📘 جنت کے دروازے ان لوگوں کےلیے کھولے جاتے ہیں جو اپنے دل کے دروازے نصیحت کےلیے کھولیں۔ جو خدا کے ظہور سے پہلے خدا سے ڈرنے والے بن جائیں۔ یہی وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو آخرت کی ابدی نعمتوں کے حصہ دار ہوں گے۔
قرآن میں آخرت کی جن نعمتوں کا ذکر ہے وہ سب وہی ہیں جو دنیا میں بھی انسان کو حاصل ہوتی ہیں۔ مگر دونوں میں زبردست فرق ہے۔ وہ یہ کہ دنیا میں یہ نعمتیں وقتی اور ابتدائی شکل میں دی گئی ہیں اور آخرت میں یہ نعمتیں ابدی اور انتہائی شکل میں دی جائیں گی۔ مزید یہ کہ ان اعلیٰ نعمتوں کے ساتھ ہر قسم کے خوف اور اندیشہ کو حذف کردیا جائے گا جن کا حذف ہونا موجودہ دنیامیں کسی طرح ممکن نہیں۔
إِنَّ هَٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِنْ نَفَادٍ
📘 جنت کے دروازے ان لوگوں کےلیے کھولے جاتے ہیں جو اپنے دل کے دروازے نصیحت کےلیے کھولیں۔ جو خدا کے ظہور سے پہلے خدا سے ڈرنے والے بن جائیں۔ یہی وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو آخرت کی ابدی نعمتوں کے حصہ دار ہوں گے۔
قرآن میں آخرت کی جن نعمتوں کا ذکر ہے وہ سب وہی ہیں جو دنیا میں بھی انسان کو حاصل ہوتی ہیں۔ مگر دونوں میں زبردست فرق ہے۔ وہ یہ کہ دنیا میں یہ نعمتیں وقتی اور ابتدائی شکل میں دی گئی ہیں اور آخرت میں یہ نعمتیں ابدی اور انتہائی شکل میں دی جائیں گی۔ مزید یہ کہ ان اعلیٰ نعمتوں کے ساتھ ہر قسم کے خوف اور اندیشہ کو حذف کردیا جائے گا جن کا حذف ہونا موجودہ دنیامیں کسی طرح ممکن نہیں۔
هَٰذَا ۚ وَإِنَّ لِلطَّاغِينَ لَشَرَّ مَآبٍ
📘 جہنم ان تکلیفوں کی ابدی اورانتہائی شکل ہے جن کا موجودہ دنیا میں کوئی شخص تصور کرسکتاہے۔ دنیا میں سرکشی کرنے والے اور سچائی کو جھٹلانے والے لوگ جب جہنم میں اكٹھاہوں گے تو ان کے لیڈر اور پیرو كار آپس میں تکرار کریں گے۔ وہ پیرو كار جو اپنے لیڈروں کی عظمت پر فخر کرتے تھے وہ وہاں اپنا انجام دیکھ کر ان پر لعنت بھیجیں گے۔ اس کا ایک نقشہ ان آیات میں دکھایا گیا ہے۔
سچائی کا انکار کرنے والے جب آخرت میں اپنا برا انجام دیکھیں گے تو وہاں وہ ان لوگوں کو یاد کریں گے جنھوں نے سچائی کا ساتھ دیا تھا اور اس بنا پر وہ اپنے ماحول میں حقیر بن گئے تھے۔ ان کے متعلق منکرین کہتے تھے کہ یہ اکابر کی توہین کرنے والے ہیں۔ یہ آبائی دین سے منحرف ہوگئے ہیں۔ انھوںنے ملت سے الگ اپنا راستہ بنایا ہے۔یہ منکرین اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور ان کو ناحق پر۔ مگر آخرت میں معاملہ بالکل برعکس ہوجائے گا۔ اس وقت ان پر کھلے گا کہ جن کو حقیر سمجھ کر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، وہی آخرت کی سرفرازی میں سب سے آگے درجہ پائے ہوئے ہیں۔
جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمِهَادُ
📘 جہنم ان تکلیفوں کی ابدی اورانتہائی شکل ہے جن کا موجودہ دنیا میں کوئی شخص تصور کرسکتاہے۔ دنیا میں سرکشی کرنے والے اور سچائی کو جھٹلانے والے لوگ جب جہنم میں اكٹھاہوں گے تو ان کے لیڈر اور پیرو كار آپس میں تکرار کریں گے۔ وہ پیرو كار جو اپنے لیڈروں کی عظمت پر فخر کرتے تھے وہ وہاں اپنا انجام دیکھ کر ان پر لعنت بھیجیں گے۔ اس کا ایک نقشہ ان آیات میں دکھایا گیا ہے۔
سچائی کا انکار کرنے والے جب آخرت میں اپنا برا انجام دیکھیں گے تو وہاں وہ ان لوگوں کو یاد کریں گے جنھوں نے سچائی کا ساتھ دیا تھا اور اس بنا پر وہ اپنے ماحول میں حقیر بن گئے تھے۔ ان کے متعلق منکرین کہتے تھے کہ یہ اکابر کی توہین کرنے والے ہیں۔ یہ آبائی دین سے منحرف ہوگئے ہیں۔ انھوںنے ملت سے الگ اپنا راستہ بنایا ہے۔یہ منکرین اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور ان کو ناحق پر۔ مگر آخرت میں معاملہ بالکل برعکس ہوجائے گا۔ اس وقت ان پر کھلے گا کہ جن کو حقیر سمجھ کر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، وہی آخرت کی سرفرازی میں سب سے آگے درجہ پائے ہوئے ہیں۔
هَٰذَا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ
📘 جہنم ان تکلیفوں کی ابدی اورانتہائی شکل ہے جن کا موجودہ دنیا میں کوئی شخص تصور کرسکتاہے۔ دنیا میں سرکشی کرنے والے اور سچائی کو جھٹلانے والے لوگ جب جہنم میں اكٹھاہوں گے تو ان کے لیڈر اور پیرو كار آپس میں تکرار کریں گے۔ وہ پیرو كار جو اپنے لیڈروں کی عظمت پر فخر کرتے تھے وہ وہاں اپنا انجام دیکھ کر ان پر لعنت بھیجیں گے۔ اس کا ایک نقشہ ان آیات میں دکھایا گیا ہے۔
سچائی کا انکار کرنے والے جب آخرت میں اپنا برا انجام دیکھیں گے تو وہاں وہ ان لوگوں کو یاد کریں گے جنھوں نے سچائی کا ساتھ دیا تھا اور اس بنا پر وہ اپنے ماحول میں حقیر بن گئے تھے۔ ان کے متعلق منکرین کہتے تھے کہ یہ اکابر کی توہین کرنے والے ہیں۔ یہ آبائی دین سے منحرف ہوگئے ہیں۔ انھوںنے ملت سے الگ اپنا راستہ بنایا ہے۔یہ منکرین اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور ان کو ناحق پر۔ مگر آخرت میں معاملہ بالکل برعکس ہوجائے گا۔ اس وقت ان پر کھلے گا کہ جن کو حقیر سمجھ کر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، وہی آخرت کی سرفرازی میں سب سے آگے درجہ پائے ہوئے ہیں۔
وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ
📘 جہنم ان تکلیفوں کی ابدی اورانتہائی شکل ہے جن کا موجودہ دنیا میں کوئی شخص تصور کرسکتاہے۔ دنیا میں سرکشی کرنے والے اور سچائی کو جھٹلانے والے لوگ جب جہنم میں اكٹھاہوں گے تو ان کے لیڈر اور پیرو كار آپس میں تکرار کریں گے۔ وہ پیرو كار جو اپنے لیڈروں کی عظمت پر فخر کرتے تھے وہ وہاں اپنا انجام دیکھ کر ان پر لعنت بھیجیں گے۔ اس کا ایک نقشہ ان آیات میں دکھایا گیا ہے۔
سچائی کا انکار کرنے والے جب آخرت میں اپنا برا انجام دیکھیں گے تو وہاں وہ ان لوگوں کو یاد کریں گے جنھوں نے سچائی کا ساتھ دیا تھا اور اس بنا پر وہ اپنے ماحول میں حقیر بن گئے تھے۔ ان کے متعلق منکرین کہتے تھے کہ یہ اکابر کی توہین کرنے والے ہیں۔ یہ آبائی دین سے منحرف ہوگئے ہیں۔ انھوںنے ملت سے الگ اپنا راستہ بنایا ہے۔یہ منکرین اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور ان کو ناحق پر۔ مگر آخرت میں معاملہ بالکل برعکس ہوجائے گا۔ اس وقت ان پر کھلے گا کہ جن کو حقیر سمجھ کر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، وہی آخرت کی سرفرازی میں سب سے آگے درجہ پائے ہوئے ہیں۔
هَٰذَا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ ۖ لَا مَرْحَبًا بِهِمْ ۚ إِنَّهُمْ صَالُو النَّارِ
📘 جہنم ان تکلیفوں کی ابدی اورانتہائی شکل ہے جن کا موجودہ دنیا میں کوئی شخص تصور کرسکتاہے۔ دنیا میں سرکشی کرنے والے اور سچائی کو جھٹلانے والے لوگ جب جہنم میں اكٹھاہوں گے تو ان کے لیڈر اور پیرو كار آپس میں تکرار کریں گے۔ وہ پیرو كار جو اپنے لیڈروں کی عظمت پر فخر کرتے تھے وہ وہاں اپنا انجام دیکھ کر ان پر لعنت بھیجیں گے۔ اس کا ایک نقشہ ان آیات میں دکھایا گیا ہے۔
سچائی کا انکار کرنے والے جب آخرت میں اپنا برا انجام دیکھیں گے تو وہاں وہ ان لوگوں کو یاد کریں گے جنھوں نے سچائی کا ساتھ دیا تھا اور اس بنا پر وہ اپنے ماحول میں حقیر بن گئے تھے۔ ان کے متعلق منکرین کہتے تھے کہ یہ اکابر کی توہین کرنے والے ہیں۔ یہ آبائی دین سے منحرف ہوگئے ہیں۔ انھوںنے ملت سے الگ اپنا راستہ بنایا ہے۔یہ منکرین اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور ان کو ناحق پر۔ مگر آخرت میں معاملہ بالکل برعکس ہوجائے گا۔ اس وقت ان پر کھلے گا کہ جن کو حقیر سمجھ کر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، وہی آخرت کی سرفرازی میں سب سے آگے درجہ پائے ہوئے ہیں۔
وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ
📘 ’’پیغمبر اسلام‘‘کا نام آج ایک عظیم نام ہے۔ کیوں کہ بعد کی پرعظمت تاریخ نے اس کو عظیم بنادیا ہے۔ مگر ابتدا میں جب آپ نے مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تو لوگوں کو آپ صرف ایک معمولی آدمی دکھائی دیتے تھے۔ لوگوں کےلیے یہ یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ یہی معمولی آدمی وہ شخص ہے جس کو خدا نے اپنے کلام کا مہبط بننے کےلیے چنا ہے— جب تاریخ بن چکی ہو تو ایک اندھا آدمی بھی پیغمبر کو پہچان لیتاہے۔ مگر تاریخ بننے سے پہلے پیغمبر کو پہچاننے کےلیے جوہر شناسی کی صلاحیت درکار ہے، اور یہ صلاحیت وہ ہے جو ہر دور میں سب سے زیادہ کم پائی گئی ہے۔
قرآن کا غیر معمولی طورپر موثر کلام، قرآن کے مخالفین کو مبہوت کردیتا تھا۔ مگر صاحب قرآن کی معمولی تصویر دوبارہ انھیں شبہ میں ڈال دیتی تھی۔ اس ليے وہ اس کو رد کرنے کےلیے طرح طرح کی باتیں کرتے تھے۔ کبھی اس کو جادوگر کہتے، کبھی جھوٹا بتاتے، کبھی کہتے کہ اس کے پیچھے کوئی مادی غرض شامل ہے، کبھی کہتے کہ ایسا کیوںکر ہوسکتاہے کہ ہمارے بڑے بڑے بزرگوں کی بات صحیح نہ ہو اور اس معمولی آدمی کی بات صحیح ہو۔
’’اپنے معبودوں پر جمے رہو‘‘ کا لفظ بتاتاہے کہ دلیل کے میدان میں وہ اپنے آپ کو عاجز پا رہے تھے، اس ليے انھوں نے تعصب کے نعرہ پر اپنے لوگوں کو قرآنی سیلاب سے بچانے کی کوشش کی۔
قَالُوا بَلْ أَنْتُمْ لَا مَرْحَبًا بِكُمْ ۖ أَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوهُ لَنَا ۖ فَبِئْسَ الْقَرَارُ
📘 جہنم ان تکلیفوں کی ابدی اورانتہائی شکل ہے جن کا موجودہ دنیا میں کوئی شخص تصور کرسکتاہے۔ دنیا میں سرکشی کرنے والے اور سچائی کو جھٹلانے والے لوگ جب جہنم میں اكٹھاہوں گے تو ان کے لیڈر اور پیرو كار آپس میں تکرار کریں گے۔ وہ پیرو كار جو اپنے لیڈروں کی عظمت پر فخر کرتے تھے وہ وہاں اپنا انجام دیکھ کر ان پر لعنت بھیجیں گے۔ اس کا ایک نقشہ ان آیات میں دکھایا گیا ہے۔
سچائی کا انکار کرنے والے جب آخرت میں اپنا برا انجام دیکھیں گے تو وہاں وہ ان لوگوں کو یاد کریں گے جنھوں نے سچائی کا ساتھ دیا تھا اور اس بنا پر وہ اپنے ماحول میں حقیر بن گئے تھے۔ ان کے متعلق منکرین کہتے تھے کہ یہ اکابر کی توہین کرنے والے ہیں۔ یہ آبائی دین سے منحرف ہوگئے ہیں۔ انھوںنے ملت سے الگ اپنا راستہ بنایا ہے۔یہ منکرین اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور ان کو ناحق پر۔ مگر آخرت میں معاملہ بالکل برعکس ہوجائے گا۔ اس وقت ان پر کھلے گا کہ جن کو حقیر سمجھ کر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، وہی آخرت کی سرفرازی میں سب سے آگے درجہ پائے ہوئے ہیں۔
قَالُوا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا هَٰذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِي النَّارِ
📘 جہنم ان تکلیفوں کی ابدی اورانتہائی شکل ہے جن کا موجودہ دنیا میں کوئی شخص تصور کرسکتاہے۔ دنیا میں سرکشی کرنے والے اور سچائی کو جھٹلانے والے لوگ جب جہنم میں اكٹھاہوں گے تو ان کے لیڈر اور پیرو كار آپس میں تکرار کریں گے۔ وہ پیرو كار جو اپنے لیڈروں کی عظمت پر فخر کرتے تھے وہ وہاں اپنا انجام دیکھ کر ان پر لعنت بھیجیں گے۔ اس کا ایک نقشہ ان آیات میں دکھایا گیا ہے۔
سچائی کا انکار کرنے والے جب آخرت میں اپنا برا انجام دیکھیں گے تو وہاں وہ ان لوگوں کو یاد کریں گے جنھوں نے سچائی کا ساتھ دیا تھا اور اس بنا پر وہ اپنے ماحول میں حقیر بن گئے تھے۔ ان کے متعلق منکرین کہتے تھے کہ یہ اکابر کی توہین کرنے والے ہیں۔ یہ آبائی دین سے منحرف ہوگئے ہیں۔ انھوںنے ملت سے الگ اپنا راستہ بنایا ہے۔یہ منکرین اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور ان کو ناحق پر۔ مگر آخرت میں معاملہ بالکل برعکس ہوجائے گا۔ اس وقت ان پر کھلے گا کہ جن کو حقیر سمجھ کر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، وہی آخرت کی سرفرازی میں سب سے آگے درجہ پائے ہوئے ہیں۔
وَقَالُوا مَا لَنَا لَا نَرَىٰ رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِنَ الْأَشْرَارِ
📘 جہنم ان تکلیفوں کی ابدی اورانتہائی شکل ہے جن کا موجودہ دنیا میں کوئی شخص تصور کرسکتاہے۔ دنیا میں سرکشی کرنے والے اور سچائی کو جھٹلانے والے لوگ جب جہنم میں اكٹھاہوں گے تو ان کے لیڈر اور پیرو كار آپس میں تکرار کریں گے۔ وہ پیرو كار جو اپنے لیڈروں کی عظمت پر فخر کرتے تھے وہ وہاں اپنا انجام دیکھ کر ان پر لعنت بھیجیں گے۔ اس کا ایک نقشہ ان آیات میں دکھایا گیا ہے۔
سچائی کا انکار کرنے والے جب آخرت میں اپنا برا انجام دیکھیں گے تو وہاں وہ ان لوگوں کو یاد کریں گے جنھوں نے سچائی کا ساتھ دیا تھا اور اس بنا پر وہ اپنے ماحول میں حقیر بن گئے تھے۔ ان کے متعلق منکرین کہتے تھے کہ یہ اکابر کی توہین کرنے والے ہیں۔ یہ آبائی دین سے منحرف ہوگئے ہیں۔ انھوںنے ملت سے الگ اپنا راستہ بنایا ہے۔یہ منکرین اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور ان کو ناحق پر۔ مگر آخرت میں معاملہ بالکل برعکس ہوجائے گا۔ اس وقت ان پر کھلے گا کہ جن کو حقیر سمجھ کر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، وہی آخرت کی سرفرازی میں سب سے آگے درجہ پائے ہوئے ہیں۔
أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ
📘 جہنم ان تکلیفوں کی ابدی اورانتہائی شکل ہے جن کا موجودہ دنیا میں کوئی شخص تصور کرسکتاہے۔ دنیا میں سرکشی کرنے والے اور سچائی کو جھٹلانے والے لوگ جب جہنم میں اكٹھاہوں گے تو ان کے لیڈر اور پیرو كار آپس میں تکرار کریں گے۔ وہ پیرو كار جو اپنے لیڈروں کی عظمت پر فخر کرتے تھے وہ وہاں اپنا انجام دیکھ کر ان پر لعنت بھیجیں گے۔ اس کا ایک نقشہ ان آیات میں دکھایا گیا ہے۔
سچائی کا انکار کرنے والے جب آخرت میں اپنا برا انجام دیکھیں گے تو وہاں وہ ان لوگوں کو یاد کریں گے جنھوں نے سچائی کا ساتھ دیا تھا اور اس بنا پر وہ اپنے ماحول میں حقیر بن گئے تھے۔ ان کے متعلق منکرین کہتے تھے کہ یہ اکابر کی توہین کرنے والے ہیں۔ یہ آبائی دین سے منحرف ہوگئے ہیں۔ انھوںنے ملت سے الگ اپنا راستہ بنایا ہے۔یہ منکرین اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور ان کو ناحق پر۔ مگر آخرت میں معاملہ بالکل برعکس ہوجائے گا۔ اس وقت ان پر کھلے گا کہ جن کو حقیر سمجھ کر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، وہی آخرت کی سرفرازی میں سب سے آگے درجہ پائے ہوئے ہیں۔
إِنَّ ذَٰلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ
📘 جہنم ان تکلیفوں کی ابدی اورانتہائی شکل ہے جن کا موجودہ دنیا میں کوئی شخص تصور کرسکتاہے۔ دنیا میں سرکشی کرنے والے اور سچائی کو جھٹلانے والے لوگ جب جہنم میں اكٹھاہوں گے تو ان کے لیڈر اور پیرو كار آپس میں تکرار کریں گے۔ وہ پیرو كار جو اپنے لیڈروں کی عظمت پر فخر کرتے تھے وہ وہاں اپنا انجام دیکھ کر ان پر لعنت بھیجیں گے۔ اس کا ایک نقشہ ان آیات میں دکھایا گیا ہے۔
سچائی کا انکار کرنے والے جب آخرت میں اپنا برا انجام دیکھیں گے تو وہاں وہ ان لوگوں کو یاد کریں گے جنھوں نے سچائی کا ساتھ دیا تھا اور اس بنا پر وہ اپنے ماحول میں حقیر بن گئے تھے۔ ان کے متعلق منکرین کہتے تھے کہ یہ اکابر کی توہین کرنے والے ہیں۔ یہ آبائی دین سے منحرف ہوگئے ہیں۔ انھوںنے ملت سے الگ اپنا راستہ بنایا ہے۔یہ منکرین اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور ان کو ناحق پر۔ مگر آخرت میں معاملہ بالکل برعکس ہوجائے گا۔ اس وقت ان پر کھلے گا کہ جن کو حقیر سمجھ کر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، وہی آخرت کی سرفرازی میں سب سے آگے درجہ پائے ہوئے ہیں۔
قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنْذِرٌ ۖ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
📘 یہاں جس اختصام (تکرار) کا ذکر ہے وہ وہی ہے جو اگلی آیت میں منقول ہے یعنی آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس کا بحث وتکرار کرنا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ شیطان پہلے روز سے آدم کا دشمن بن گیا ہے۔ وہ پرفریب باتوں کے ذریعہ اولاد آدم کو سیدھے راستہ سے بھٹکاتا ہے۔ اس ليے انسان کو چاہيے کہ وہ ہوشیار رہے اور اس سے پوری طرح بچنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلہ میں آدمی کی پیدائش کے وقت جو اختصام ہوا اور اس کو قرآن میں بیان کیا گیا وہ سراسر وحی تھا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ملأ اعلیٰ میں موجود نہ تھے کہ ذاتی واقفیت کی بنیاد پر اس کو بیان کرسکتے۔
سب سے اہم خبر انسان کےلیے یہ ہے کہ اس کو زندگی کی اس نوعیت سے آگاہ کیا جائے کہ شیطان ہر لمحہ اس کے پیچھے لگا ہوا ہے، وہ اس کی سوچ اور اس کے جذبات میں داخل ہو کر اس کو گمراہ کررہا ہے۔ انسان کو چاہيے کہ وہ اس خطرے سے اپنے آپ کو بچائے۔ پیغمبر ایک اعتبار سے اسی ليے آئے کہ انسان کو اس نازک خطرہ سے آگاہ کردیں۔
رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ
📘 یہاں جس اختصام (تکرار) کا ذکر ہے وہ وہی ہے جو اگلی آیت میں منقول ہے یعنی آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس کا بحث وتکرار کرنا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ شیطان پہلے روز سے آدم کا دشمن بن گیا ہے۔ وہ پرفریب باتوں کے ذریعہ اولاد آدم کو سیدھے راستہ سے بھٹکاتا ہے۔ اس ليے انسان کو چاہيے کہ وہ ہوشیار رہے اور اس سے پوری طرح بچنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلہ میں آدمی کی پیدائش کے وقت جو اختصام ہوا اور اس کو قرآن میں بیان کیا گیا وہ سراسر وحی تھا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ملأ اعلیٰ میں موجود نہ تھے کہ ذاتی واقفیت کی بنیاد پر اس کو بیان کرسکتے۔
سب سے اہم خبر انسان کےلیے یہ ہے کہ اس کو زندگی کی اس نوعیت سے آگاہ کیا جائے کہ شیطان ہر لمحہ اس کے پیچھے لگا ہوا ہے، وہ اس کی سوچ اور اس کے جذبات میں داخل ہو کر اس کو گمراہ کررہا ہے۔ انسان کو چاہيے کہ وہ اس خطرے سے اپنے آپ کو بچائے۔ پیغمبر ایک اعتبار سے اسی ليے آئے کہ انسان کو اس نازک خطرہ سے آگاہ کردیں۔
قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ
📘 یہاں جس اختصام (تکرار) کا ذکر ہے وہ وہی ہے جو اگلی آیت میں منقول ہے یعنی آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس کا بحث وتکرار کرنا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ شیطان پہلے روز سے آدم کا دشمن بن گیا ہے۔ وہ پرفریب باتوں کے ذریعہ اولاد آدم کو سیدھے راستہ سے بھٹکاتا ہے۔ اس ليے انسان کو چاہيے کہ وہ ہوشیار رہے اور اس سے پوری طرح بچنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلہ میں آدمی کی پیدائش کے وقت جو اختصام ہوا اور اس کو قرآن میں بیان کیا گیا وہ سراسر وحی تھا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ملأ اعلیٰ میں موجود نہ تھے کہ ذاتی واقفیت کی بنیاد پر اس کو بیان کرسکتے۔
سب سے اہم خبر انسان کےلیے یہ ہے کہ اس کو زندگی کی اس نوعیت سے آگاہ کیا جائے کہ شیطان ہر لمحہ اس کے پیچھے لگا ہوا ہے، وہ اس کی سوچ اور اس کے جذبات میں داخل ہو کر اس کو گمراہ کررہا ہے۔ انسان کو چاہيے کہ وہ اس خطرے سے اپنے آپ کو بچائے۔ پیغمبر ایک اعتبار سے اسی ليے آئے کہ انسان کو اس نازک خطرہ سے آگاہ کردیں۔
أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ
📘 یہاں جس اختصام (تکرار) کا ذکر ہے وہ وہی ہے جو اگلی آیت میں منقول ہے یعنی آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس کا بحث وتکرار کرنا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ شیطان پہلے روز سے آدم کا دشمن بن گیا ہے۔ وہ پرفریب باتوں کے ذریعہ اولاد آدم کو سیدھے راستہ سے بھٹکاتا ہے۔ اس ليے انسان کو چاہيے کہ وہ ہوشیار رہے اور اس سے پوری طرح بچنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلہ میں آدمی کی پیدائش کے وقت جو اختصام ہوا اور اس کو قرآن میں بیان کیا گیا وہ سراسر وحی تھا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ملأ اعلیٰ میں موجود نہ تھے کہ ذاتی واقفیت کی بنیاد پر اس کو بیان کرسکتے۔
سب سے اہم خبر انسان کےلیے یہ ہے کہ اس کو زندگی کی اس نوعیت سے آگاہ کیا جائے کہ شیطان ہر لمحہ اس کے پیچھے لگا ہوا ہے، وہ اس کی سوچ اور اس کے جذبات میں داخل ہو کر اس کو گمراہ کررہا ہے۔ انسان کو چاہيے کہ وہ اس خطرے سے اپنے آپ کو بچائے۔ پیغمبر ایک اعتبار سے اسی ليے آئے کہ انسان کو اس نازک خطرہ سے آگاہ کردیں۔
مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ إِذْ يَخْتَصِمُونَ
📘 یہاں جس اختصام (تکرار) کا ذکر ہے وہ وہی ہے جو اگلی آیت میں منقول ہے یعنی آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس کا بحث وتکرار کرنا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ شیطان پہلے روز سے آدم کا دشمن بن گیا ہے۔ وہ پرفریب باتوں کے ذریعہ اولاد آدم کو سیدھے راستہ سے بھٹکاتا ہے۔ اس ليے انسان کو چاہيے کہ وہ ہوشیار رہے اور اس سے پوری طرح بچنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلہ میں آدمی کی پیدائش کے وقت جو اختصام ہوا اور اس کو قرآن میں بیان کیا گیا وہ سراسر وحی تھا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ملأ اعلیٰ میں موجود نہ تھے کہ ذاتی واقفیت کی بنیاد پر اس کو بیان کرسکتے۔
سب سے اہم خبر انسان کےلیے یہ ہے کہ اس کو زندگی کی اس نوعیت سے آگاہ کیا جائے کہ شیطان ہر لمحہ اس کے پیچھے لگا ہوا ہے، وہ اس کی سوچ اور اس کے جذبات میں داخل ہو کر اس کو گمراہ کررہا ہے۔ انسان کو چاہيے کہ وہ اس خطرے سے اپنے آپ کو بچائے۔ پیغمبر ایک اعتبار سے اسی ليے آئے کہ انسان کو اس نازک خطرہ سے آگاہ کردیں۔
مَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَٰذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ
📘 ’’پیغمبر اسلام‘‘کا نام آج ایک عظیم نام ہے۔ کیوں کہ بعد کی پرعظمت تاریخ نے اس کو عظیم بنادیا ہے۔ مگر ابتدا میں جب آپ نے مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تو لوگوں کو آپ صرف ایک معمولی آدمی دکھائی دیتے تھے۔ لوگوں کےلیے یہ یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ یہی معمولی آدمی وہ شخص ہے جس کو خدا نے اپنے کلام کا مہبط بننے کےلیے چنا ہے— جب تاریخ بن چکی ہو تو ایک اندھا آدمی بھی پیغمبر کو پہچان لیتاہے۔ مگر تاریخ بننے سے پہلے پیغمبر کو پہچاننے کےلیے جوہر شناسی کی صلاحیت درکار ہے، اور یہ صلاحیت وہ ہے جو ہر دور میں سب سے زیادہ کم پائی گئی ہے۔
قرآن کا غیر معمولی طورپر موثر کلام، قرآن کے مخالفین کو مبہوت کردیتا تھا۔ مگر صاحب قرآن کی معمولی تصویر دوبارہ انھیں شبہ میں ڈال دیتی تھی۔ اس ليے وہ اس کو رد کرنے کےلیے طرح طرح کی باتیں کرتے تھے۔ کبھی اس کو جادوگر کہتے، کبھی جھوٹا بتاتے، کبھی کہتے کہ اس کے پیچھے کوئی مادی غرض شامل ہے، کبھی کہتے کہ ایسا کیوںکر ہوسکتاہے کہ ہمارے بڑے بڑے بزرگوں کی بات صحیح نہ ہو اور اس معمولی آدمی کی بات صحیح ہو۔
’’اپنے معبودوں پر جمے رہو‘‘ کا لفظ بتاتاہے کہ دلیل کے میدان میں وہ اپنے آپ کو عاجز پا رہے تھے، اس ليے انھوں نے تعصب کے نعرہ پر اپنے لوگوں کو قرآنی سیلاب سے بچانے کی کوشش کی۔
إِنْ يُوحَىٰ إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ
📘 یہاں جس اختصام (تکرار) کا ذکر ہے وہ وہی ہے جو اگلی آیت میں منقول ہے یعنی آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس کا بحث وتکرار کرنا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ شیطان پہلے روز سے آدم کا دشمن بن گیا ہے۔ وہ پرفریب باتوں کے ذریعہ اولاد آدم کو سیدھے راستہ سے بھٹکاتا ہے۔ اس ليے انسان کو چاہيے کہ وہ ہوشیار رہے اور اس سے پوری طرح بچنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلہ میں آدمی کی پیدائش کے وقت جو اختصام ہوا اور اس کو قرآن میں بیان کیا گیا وہ سراسر وحی تھا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ملأ اعلیٰ میں موجود نہ تھے کہ ذاتی واقفیت کی بنیاد پر اس کو بیان کرسکتے۔
سب سے اہم خبر انسان کےلیے یہ ہے کہ اس کو زندگی کی اس نوعیت سے آگاہ کیا جائے کہ شیطان ہر لمحہ اس کے پیچھے لگا ہوا ہے، وہ اس کی سوچ اور اس کے جذبات میں داخل ہو کر اس کو گمراہ کررہا ہے۔ انسان کو چاہيے کہ وہ اس خطرے سے اپنے آپ کو بچائے۔ پیغمبر ایک اعتبار سے اسی ليے آئے کہ انسان کو اس نازک خطرہ سے آگاہ کردیں۔
إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ
📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک انتہائی اعلیٰ مخلوق کی حیثیت سے بنایا۔ اور اس کی علامت کے طور پر فرشتوں اور جنوں کو حکم دیاکہ وہ اس کو سجدہ کریں۔ اس کے بعد جب ایسا ہوا کہ ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تو وہ ہمیشہ کےلیے ملعون قرار پاگیا۔ مگر اس سنگین واقعہ کی اہمیت صرف ابلیس کے اعتبار سے نہ تھی بلکہ خود آدم کےلیے بھی اس کی بے حد اہمیت تھی۔
آدم کے آگے جھکنے سے انکار کرکے ابلیس ابدی طور پر نسلِ آدم کا حریف بن گیا۔ اس طرح انسانی تاریخ اول روز سے ایک نئے رخ پر چل پڑی۔ اس واقعہ نے طے کر دیا کہ انسان کےلیے زندگی کا سفر کوئی سادہ سفر نہیں ہوگا بلکہ شدید مزاحمت کا سفر ہوگا۔ اس کو ابلیس کے بہکاؤں اور اس کی پرفریب تدبیروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو صحیح راستہ پر قائم رکھنا ہوگا تاکہ وہ سلامتی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔
انسان اور جنت کے درمیان شیطان کی فریب کاریاں حائل ہیں۔ جو شخص شیطان کی فریب کاریوں سے اپنے آپ کو بچائے وہی جنت کے ابدی باغوں میں داخل ہوگا۔ اور جو لوگ شیطان کی فریب کاریوں کا پردہ پھاڑنے میں ناکام رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت سے محروم رہ گئے۔
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ
📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک انتہائی اعلیٰ مخلوق کی حیثیت سے بنایا۔ اور اس کی علامت کے طور پر فرشتوں اور جنوں کو حکم دیاکہ وہ اس کو سجدہ کریں۔ اس کے بعد جب ایسا ہوا کہ ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تو وہ ہمیشہ کےلیے ملعون قرار پاگیا۔ مگر اس سنگین واقعہ کی اہمیت صرف ابلیس کے اعتبار سے نہ تھی بلکہ خود آدم کےلیے بھی اس کی بے حد اہمیت تھی۔
آدم کے آگے جھکنے سے انکار کرکے ابلیس ابدی طور پر نسلِ آدم کا حریف بن گیا۔ اس طرح انسانی تاریخ اول روز سے ایک نئے رخ پر چل پڑی۔ اس واقعہ نے طے کر دیا کہ انسان کےلیے زندگی کا سفر کوئی سادہ سفر نہیں ہوگا بلکہ شدید مزاحمت کا سفر ہوگا۔ اس کو ابلیس کے بہکاؤں اور اس کی پرفریب تدبیروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو صحیح راستہ پر قائم رکھنا ہوگا تاکہ وہ سلامتی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔
انسان اور جنت کے درمیان شیطان کی فریب کاریاں حائل ہیں۔ جو شخص شیطان کی فریب کاریوں سے اپنے آپ کو بچائے وہی جنت کے ابدی باغوں میں داخل ہوگا۔ اور جو لوگ شیطان کی فریب کاریوں کا پردہ پھاڑنے میں ناکام رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت سے محروم رہ گئے۔
فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ
📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک انتہائی اعلیٰ مخلوق کی حیثیت سے بنایا۔ اور اس کی علامت کے طور پر فرشتوں اور جنوں کو حکم دیاکہ وہ اس کو سجدہ کریں۔ اس کے بعد جب ایسا ہوا کہ ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تو وہ ہمیشہ کےلیے ملعون قرار پاگیا۔ مگر اس سنگین واقعہ کی اہمیت صرف ابلیس کے اعتبار سے نہ تھی بلکہ خود آدم کےلیے بھی اس کی بے حد اہمیت تھی۔
آدم کے آگے جھکنے سے انکار کرکے ابلیس ابدی طور پر نسلِ آدم کا حریف بن گیا۔ اس طرح انسانی تاریخ اول روز سے ایک نئے رخ پر چل پڑی۔ اس واقعہ نے طے کر دیا کہ انسان کےلیے زندگی کا سفر کوئی سادہ سفر نہیں ہوگا بلکہ شدید مزاحمت کا سفر ہوگا۔ اس کو ابلیس کے بہکاؤں اور اس کی پرفریب تدبیروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو صحیح راستہ پر قائم رکھنا ہوگا تاکہ وہ سلامتی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔
انسان اور جنت کے درمیان شیطان کی فریب کاریاں حائل ہیں۔ جو شخص شیطان کی فریب کاریوں سے اپنے آپ کو بچائے وہی جنت کے ابدی باغوں میں داخل ہوگا۔ اور جو لوگ شیطان کی فریب کاریوں کا پردہ پھاڑنے میں ناکام رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت سے محروم رہ گئے۔
إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک انتہائی اعلیٰ مخلوق کی حیثیت سے بنایا۔ اور اس کی علامت کے طور پر فرشتوں اور جنوں کو حکم دیاکہ وہ اس کو سجدہ کریں۔ اس کے بعد جب ایسا ہوا کہ ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تو وہ ہمیشہ کےلیے ملعون قرار پاگیا۔ مگر اس سنگین واقعہ کی اہمیت صرف ابلیس کے اعتبار سے نہ تھی بلکہ خود آدم کےلیے بھی اس کی بے حد اہمیت تھی۔
آدم کے آگے جھکنے سے انکار کرکے ابلیس ابدی طور پر نسلِ آدم کا حریف بن گیا۔ اس طرح انسانی تاریخ اول روز سے ایک نئے رخ پر چل پڑی۔ اس واقعہ نے طے کر دیا کہ انسان کےلیے زندگی کا سفر کوئی سادہ سفر نہیں ہوگا بلکہ شدید مزاحمت کا سفر ہوگا۔ اس کو ابلیس کے بہکاؤں اور اس کی پرفریب تدبیروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو صحیح راستہ پر قائم رکھنا ہوگا تاکہ وہ سلامتی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔
انسان اور جنت کے درمیان شیطان کی فریب کاریاں حائل ہیں۔ جو شخص شیطان کی فریب کاریوں سے اپنے آپ کو بچائے وہی جنت کے ابدی باغوں میں داخل ہوگا۔ اور جو لوگ شیطان کی فریب کاریوں کا پردہ پھاڑنے میں ناکام رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت سے محروم رہ گئے۔
قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ
📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک انتہائی اعلیٰ مخلوق کی حیثیت سے بنایا۔ اور اس کی علامت کے طور پر فرشتوں اور جنوں کو حکم دیاکہ وہ اس کو سجدہ کریں۔ اس کے بعد جب ایسا ہوا کہ ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تو وہ ہمیشہ کےلیے ملعون قرار پاگیا۔ مگر اس سنگین واقعہ کی اہمیت صرف ابلیس کے اعتبار سے نہ تھی بلکہ خود آدم کےلیے بھی اس کی بے حد اہمیت تھی۔
آدم کے آگے جھکنے سے انکار کرکے ابلیس ابدی طور پر نسلِ آدم کا حریف بن گیا۔ اس طرح انسانی تاریخ اول روز سے ایک نئے رخ پر چل پڑی۔ اس واقعہ نے طے کر دیا کہ انسان کےلیے زندگی کا سفر کوئی سادہ سفر نہیں ہوگا بلکہ شدید مزاحمت کا سفر ہوگا۔ اس کو ابلیس کے بہکاؤں اور اس کی پرفریب تدبیروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو صحیح راستہ پر قائم رکھنا ہوگا تاکہ وہ سلامتی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔
انسان اور جنت کے درمیان شیطان کی فریب کاریاں حائل ہیں۔ جو شخص شیطان کی فریب کاریوں سے اپنے آپ کو بچائے وہی جنت کے ابدی باغوں میں داخل ہوگا۔ اور جو لوگ شیطان کی فریب کاریوں کا پردہ پھاڑنے میں ناکام رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت سے محروم رہ گئے۔
قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ ۖ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ
📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک انتہائی اعلیٰ مخلوق کی حیثیت سے بنایا۔ اور اس کی علامت کے طور پر فرشتوں اور جنوں کو حکم دیاکہ وہ اس کو سجدہ کریں۔ اس کے بعد جب ایسا ہوا کہ ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تو وہ ہمیشہ کےلیے ملعون قرار پاگیا۔ مگر اس سنگین واقعہ کی اہمیت صرف ابلیس کے اعتبار سے نہ تھی بلکہ خود آدم کےلیے بھی اس کی بے حد اہمیت تھی۔
آدم کے آگے جھکنے سے انکار کرکے ابلیس ابدی طور پر نسلِ آدم کا حریف بن گیا۔ اس طرح انسانی تاریخ اول روز سے ایک نئے رخ پر چل پڑی۔ اس واقعہ نے طے کر دیا کہ انسان کےلیے زندگی کا سفر کوئی سادہ سفر نہیں ہوگا بلکہ شدید مزاحمت کا سفر ہوگا۔ اس کو ابلیس کے بہکاؤں اور اس کی پرفریب تدبیروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو صحیح راستہ پر قائم رکھنا ہوگا تاکہ وہ سلامتی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔
انسان اور جنت کے درمیان شیطان کی فریب کاریاں حائل ہیں۔ جو شخص شیطان کی فریب کاریوں سے اپنے آپ کو بچائے وہی جنت کے ابدی باغوں میں داخل ہوگا۔ اور جو لوگ شیطان کی فریب کاریوں کا پردہ پھاڑنے میں ناکام رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت سے محروم رہ گئے۔
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ
📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک انتہائی اعلیٰ مخلوق کی حیثیت سے بنایا۔ اور اس کی علامت کے طور پر فرشتوں اور جنوں کو حکم دیاکہ وہ اس کو سجدہ کریں۔ اس کے بعد جب ایسا ہوا کہ ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تو وہ ہمیشہ کےلیے ملعون قرار پاگیا۔ مگر اس سنگین واقعہ کی اہمیت صرف ابلیس کے اعتبار سے نہ تھی بلکہ خود آدم کےلیے بھی اس کی بے حد اہمیت تھی۔
آدم کے آگے جھکنے سے انکار کرکے ابلیس ابدی طور پر نسلِ آدم کا حریف بن گیا۔ اس طرح انسانی تاریخ اول روز سے ایک نئے رخ پر چل پڑی۔ اس واقعہ نے طے کر دیا کہ انسان کےلیے زندگی کا سفر کوئی سادہ سفر نہیں ہوگا بلکہ شدید مزاحمت کا سفر ہوگا۔ اس کو ابلیس کے بہکاؤں اور اس کی پرفریب تدبیروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو صحیح راستہ پر قائم رکھنا ہوگا تاکہ وہ سلامتی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔
انسان اور جنت کے درمیان شیطان کی فریب کاریاں حائل ہیں۔ جو شخص شیطان کی فریب کاریوں سے اپنے آپ کو بچائے وہی جنت کے ابدی باغوں میں داخل ہوگا۔ اور جو لوگ شیطان کی فریب کاریوں کا پردہ پھاڑنے میں ناکام رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت سے محروم رہ گئے۔
وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ
📘 اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک انتہائی اعلیٰ مخلوق کی حیثیت سے بنایا۔ اور اس کی علامت کے طور پر فرشتوں اور جنوں کو حکم دیاکہ وہ اس کو سجدہ کریں۔ اس کے بعد جب ایسا ہوا کہ ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تو وہ ہمیشہ کےلیے ملعون قرار پاگیا۔ مگر اس سنگین واقعہ کی اہمیت صرف ابلیس کے اعتبار سے نہ تھی بلکہ خود آدم کےلیے بھی اس کی بے حد اہمیت تھی۔
آدم کے آگے جھکنے سے انکار کرکے ابلیس ابدی طور پر نسلِ آدم کا حریف بن گیا۔ اس طرح انسانی تاریخ اول روز سے ایک نئے رخ پر چل پڑی۔ اس واقعہ نے طے کر دیا کہ انسان کےلیے زندگی کا سفر کوئی سادہ سفر نہیں ہوگا بلکہ شدید مزاحمت کا سفر ہوگا۔ اس کو ابلیس کے بہکاؤں اور اس کی پرفریب تدبیروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو صحیح راستہ پر قائم رکھنا ہوگا تاکہ وہ سلامتی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔
انسان اور جنت کے درمیان شیطان کی فریب کاریاں حائل ہیں۔ جو شخص شیطان کی فریب کاریوں سے اپنے آپ کو بچائے وہی جنت کے ابدی باغوں میں داخل ہوگا۔ اور جو لوگ شیطان کی فریب کاریوں کا پردہ پھاڑنے میں ناکام رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت سے محروم رہ گئے۔
قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
📘 موجودہ امتحان کی دنیا میں شیطان کو پورا موقع دیا گیا ہے کہ وہ انسان کو بہکائے۔مگر شیطان اسی وقت تک بہکا سکتاہے جب تک حقیقت غیب میں چھپی ہوئی ہو۔ قیامت جب غیب کا پردہ پھاڑے گی تو سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اس کے بعد نہ کوئی بہکانے والا باقی رہے گا اور نہ کوئی بہکنے والا۔
مخلص کا مطلب ہے کھوٹ سے خالی ہونا۔ عبد مخلص وہ ہے جو نفسیاتی بیماریوں سے پاک ہو۔ شیطان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو کوئی عملی زور حاصل نہیں۔ وہ ہمیشہ تزئین کے ذریعہ انسانوں کو بہکاتا ہے۔ یعنی باطل کو حق کے روپ میں دکھانا۔ بے اصل باتوں کو خوبصورت الفاظ میں پیش کرنا۔ سیدھی بات میں شوشہ نکال کر لوگوں کو اس کی طرف سے مشتبہ کردینا۔ تاہم شیطان کی اس تزئین سے وہی لوگ فریب کھاتے ہیں جو اپنے اندر نفسیاتی کھوٹ ليے ہوئے ہوں۔ اور جو لوگ اپنی نفسیات کو اس کی فطری حالت پر باقی رکھیں اور اپنی عقل کو کھلے طورپر استعمال کریں وہ فوراً شیطانی فریب کو پہچان لیتے ہیں۔ وہ کبھی اس کی تزئین سے گمراہ نہیں ہوتے۔
أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْ ذِكْرِي ۖ بَلْ لَمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ
📘 ’’پیغمبر اسلام‘‘کا نام آج ایک عظیم نام ہے۔ کیوں کہ بعد کی پرعظمت تاریخ نے اس کو عظیم بنادیا ہے۔ مگر ابتدا میں جب آپ نے مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تو لوگوں کو آپ صرف ایک معمولی آدمی دکھائی دیتے تھے۔ لوگوں کےلیے یہ یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ یہی معمولی آدمی وہ شخص ہے جس کو خدا نے اپنے کلام کا مہبط بننے کےلیے چنا ہے— جب تاریخ بن چکی ہو تو ایک اندھا آدمی بھی پیغمبر کو پہچان لیتاہے۔ مگر تاریخ بننے سے پہلے پیغمبر کو پہچاننے کےلیے جوہر شناسی کی صلاحیت درکار ہے، اور یہ صلاحیت وہ ہے جو ہر دور میں سب سے زیادہ کم پائی گئی ہے۔
قرآن کا غیر معمولی طورپر موثر کلام، قرآن کے مخالفین کو مبہوت کردیتا تھا۔ مگر صاحب قرآن کی معمولی تصویر دوبارہ انھیں شبہ میں ڈال دیتی تھی۔ اس ليے وہ اس کو رد کرنے کےلیے طرح طرح کی باتیں کرتے تھے۔ کبھی اس کو جادوگر کہتے، کبھی جھوٹا بتاتے، کبھی کہتے کہ اس کے پیچھے کوئی مادی غرض شامل ہے، کبھی کہتے کہ ایسا کیوںکر ہوسکتاہے کہ ہمارے بڑے بڑے بزرگوں کی بات صحیح نہ ہو اور اس معمولی آدمی کی بات صحیح ہو۔
’’اپنے معبودوں پر جمے رہو‘‘ کا لفظ بتاتاہے کہ دلیل کے میدان میں وہ اپنے آپ کو عاجز پا رہے تھے، اس ليے انھوں نے تعصب کے نعرہ پر اپنے لوگوں کو قرآنی سیلاب سے بچانے کی کوشش کی۔
قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ
📘 موجودہ امتحان کی دنیا میں شیطان کو پورا موقع دیا گیا ہے کہ وہ انسان کو بہکائے۔مگر شیطان اسی وقت تک بہکا سکتاہے جب تک حقیقت غیب میں چھپی ہوئی ہو۔ قیامت جب غیب کا پردہ پھاڑے گی تو سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اس کے بعد نہ کوئی بہکانے والا باقی رہے گا اور نہ کوئی بہکنے والا۔
مخلص کا مطلب ہے کھوٹ سے خالی ہونا۔ عبد مخلص وہ ہے جو نفسیاتی بیماریوں سے پاک ہو۔ شیطان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو کوئی عملی زور حاصل نہیں۔ وہ ہمیشہ تزئین کے ذریعہ انسانوں کو بہکاتا ہے۔ یعنی باطل کو حق کے روپ میں دکھانا۔ بے اصل باتوں کو خوبصورت الفاظ میں پیش کرنا۔ سیدھی بات میں شوشہ نکال کر لوگوں کو اس کی طرف سے مشتبہ کردینا۔ تاہم شیطان کی اس تزئین سے وہی لوگ فریب کھاتے ہیں جو اپنے اندر نفسیاتی کھوٹ ليے ہوئے ہوں۔ اور جو لوگ اپنی نفسیات کو اس کی فطری حالت پر باقی رکھیں اور اپنی عقل کو کھلے طورپر استعمال کریں وہ فوراً شیطانی فریب کو پہچان لیتے ہیں۔ وہ کبھی اس کی تزئین سے گمراہ نہیں ہوتے۔
إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ
📘 موجودہ امتحان کی دنیا میں شیطان کو پورا موقع دیا گیا ہے کہ وہ انسان کو بہکائے۔مگر شیطان اسی وقت تک بہکا سکتاہے جب تک حقیقت غیب میں چھپی ہوئی ہو۔ قیامت جب غیب کا پردہ پھاڑے گی تو سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اس کے بعد نہ کوئی بہکانے والا باقی رہے گا اور نہ کوئی بہکنے والا۔
مخلص کا مطلب ہے کھوٹ سے خالی ہونا۔ عبد مخلص وہ ہے جو نفسیاتی بیماریوں سے پاک ہو۔ شیطان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو کوئی عملی زور حاصل نہیں۔ وہ ہمیشہ تزئین کے ذریعہ انسانوں کو بہکاتا ہے۔ یعنی باطل کو حق کے روپ میں دکھانا۔ بے اصل باتوں کو خوبصورت الفاظ میں پیش کرنا۔ سیدھی بات میں شوشہ نکال کر لوگوں کو اس کی طرف سے مشتبہ کردینا۔ تاہم شیطان کی اس تزئین سے وہی لوگ فریب کھاتے ہیں جو اپنے اندر نفسیاتی کھوٹ ليے ہوئے ہوں۔ اور جو لوگ اپنی نفسیات کو اس کی فطری حالت پر باقی رکھیں اور اپنی عقل کو کھلے طورپر استعمال کریں وہ فوراً شیطانی فریب کو پہچان لیتے ہیں۔ وہ کبھی اس کی تزئین سے گمراہ نہیں ہوتے۔
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ
📘 موجودہ امتحان کی دنیا میں شیطان کو پورا موقع دیا گیا ہے کہ وہ انسان کو بہکائے۔مگر شیطان اسی وقت تک بہکا سکتاہے جب تک حقیقت غیب میں چھپی ہوئی ہو۔ قیامت جب غیب کا پردہ پھاڑے گی تو سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اس کے بعد نہ کوئی بہکانے والا باقی رہے گا اور نہ کوئی بہکنے والا۔
مخلص کا مطلب ہے کھوٹ سے خالی ہونا۔ عبد مخلص وہ ہے جو نفسیاتی بیماریوں سے پاک ہو۔ شیطان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو کوئی عملی زور حاصل نہیں۔ وہ ہمیشہ تزئین کے ذریعہ انسانوں کو بہکاتا ہے۔ یعنی باطل کو حق کے روپ میں دکھانا۔ بے اصل باتوں کو خوبصورت الفاظ میں پیش کرنا۔ سیدھی بات میں شوشہ نکال کر لوگوں کو اس کی طرف سے مشتبہ کردینا۔ تاہم شیطان کی اس تزئین سے وہی لوگ فریب کھاتے ہیں جو اپنے اندر نفسیاتی کھوٹ ليے ہوئے ہوں۔ اور جو لوگ اپنی نفسیات کو اس کی فطری حالت پر باقی رکھیں اور اپنی عقل کو کھلے طورپر استعمال کریں وہ فوراً شیطانی فریب کو پہچان لیتے ہیں۔ وہ کبھی اس کی تزئین سے گمراہ نہیں ہوتے۔
إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ
📘 موجودہ امتحان کی دنیا میں شیطان کو پورا موقع دیا گیا ہے کہ وہ انسان کو بہکائے۔مگر شیطان اسی وقت تک بہکا سکتاہے جب تک حقیقت غیب میں چھپی ہوئی ہو۔ قیامت جب غیب کا پردہ پھاڑے گی تو سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اس کے بعد نہ کوئی بہکانے والا باقی رہے گا اور نہ کوئی بہکنے والا۔
مخلص کا مطلب ہے کھوٹ سے خالی ہونا۔ عبد مخلص وہ ہے جو نفسیاتی بیماریوں سے پاک ہو۔ شیطان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو کوئی عملی زور حاصل نہیں۔ وہ ہمیشہ تزئین کے ذریعہ انسانوں کو بہکاتا ہے۔ یعنی باطل کو حق کے روپ میں دکھانا۔ بے اصل باتوں کو خوبصورت الفاظ میں پیش کرنا۔ سیدھی بات میں شوشہ نکال کر لوگوں کو اس کی طرف سے مشتبہ کردینا۔ تاہم شیطان کی اس تزئین سے وہی لوگ فریب کھاتے ہیں جو اپنے اندر نفسیاتی کھوٹ ليے ہوئے ہوں۔ اور جو لوگ اپنی نفسیات کو اس کی فطری حالت پر باقی رکھیں اور اپنی عقل کو کھلے طورپر استعمال کریں وہ فوراً شیطانی فریب کو پہچان لیتے ہیں۔ وہ کبھی اس کی تزئین سے گمراہ نہیں ہوتے۔
قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ
📘 موجودہ امتحان کی دنیا میں شیطان کو پورا موقع دیا گیا ہے کہ وہ انسان کو بہکائے۔مگر شیطان اسی وقت تک بہکا سکتاہے جب تک حقیقت غیب میں چھپی ہوئی ہو۔ قیامت جب غیب کا پردہ پھاڑے گی تو سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اس کے بعد نہ کوئی بہکانے والا باقی رہے گا اور نہ کوئی بہکنے والا۔
مخلص کا مطلب ہے کھوٹ سے خالی ہونا۔ عبد مخلص وہ ہے جو نفسیاتی بیماریوں سے پاک ہو۔ شیطان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو کوئی عملی زور حاصل نہیں۔ وہ ہمیشہ تزئین کے ذریعہ انسانوں کو بہکاتا ہے۔ یعنی باطل کو حق کے روپ میں دکھانا۔ بے اصل باتوں کو خوبصورت الفاظ میں پیش کرنا۔ سیدھی بات میں شوشہ نکال کر لوگوں کو اس کی طرف سے مشتبہ کردینا۔ تاہم شیطان کی اس تزئین سے وہی لوگ فریب کھاتے ہیں جو اپنے اندر نفسیاتی کھوٹ ليے ہوئے ہوں۔ اور جو لوگ اپنی نفسیات کو اس کی فطری حالت پر باقی رکھیں اور اپنی عقل کو کھلے طورپر استعمال کریں وہ فوراً شیطانی فریب کو پہچان لیتے ہیں۔ وہ کبھی اس کی تزئین سے گمراہ نہیں ہوتے۔
لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ
📘 موجودہ امتحان کی دنیا میں شیطان کو پورا موقع دیا گیا ہے کہ وہ انسان کو بہکائے۔مگر شیطان اسی وقت تک بہکا سکتاہے جب تک حقیقت غیب میں چھپی ہوئی ہو۔ قیامت جب غیب کا پردہ پھاڑے گی تو سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اس کے بعد نہ کوئی بہکانے والا باقی رہے گا اور نہ کوئی بہکنے والا۔
مخلص کا مطلب ہے کھوٹ سے خالی ہونا۔ عبد مخلص وہ ہے جو نفسیاتی بیماریوں سے پاک ہو۔ شیطان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو کوئی عملی زور حاصل نہیں۔ وہ ہمیشہ تزئین کے ذریعہ انسانوں کو بہکاتا ہے۔ یعنی باطل کو حق کے روپ میں دکھانا۔ بے اصل باتوں کو خوبصورت الفاظ میں پیش کرنا۔ سیدھی بات میں شوشہ نکال کر لوگوں کو اس کی طرف سے مشتبہ کردینا۔ تاہم شیطان کی اس تزئین سے وہی لوگ فریب کھاتے ہیں جو اپنے اندر نفسیاتی کھوٹ ليے ہوئے ہوں۔ اور جو لوگ اپنی نفسیات کو اس کی فطری حالت پر باقی رکھیں اور اپنی عقل کو کھلے طورپر استعمال کریں وہ فوراً شیطانی فریب کو پہچان لیتے ہیں۔ وہ کبھی اس کی تزئین سے گمراہ نہیں ہوتے۔
قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ
📘 داعی کی ایک لازمی صفت یہ ہے کہ وہ مدعو سے اجر کا طالب نہیں ہوتا۔ وہ اپنے اور مدعو کے درمیان کوئی مادی جھگڑا نہیں کھڑا کرتا۔ قرآن کی دعوت آخرت کی دعوت ہے۔ اس ليے جو شخص ایسا کرے کہ وہ ایک طرف قرآن کی دعوتِ آخرت کا علم بردار ہو، اور اسی کے ساتھ مدعو قوم سے مادی مطالبات کی مہم بھی چلائے وہ مدعو کی نظر میں ایک غیر سنجیدہ آدمی ہے۔ اور جو آدمی خود اپنی غیرسنجیدگی ثابت کردے اس کی بات پر کون دھیان دے گا۔
اسی طرح داعی اپنی طرف سے بنا کر کوئی بات نہیں کہتا۔ وہ بس وہی کہتا ہے جو خدا کی طرف سے اس کو ملا ہے۔ مسروق تابعی کہتے ہیں کہ ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ انھوںنے کہا کہ اے لوگو، جو شخص کچھ جانتا ہو تو اس کو چاہيے کہ بولے۔ اور جو شخص نہ جانتا ہو تو ا س کو یہ کہنا چاہيے کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ یہ علم کی بات ہے کہ آدمی جس چیز کو نہ جانے اس کے بارہ میں کہہ دے کہ اللہ زیادہ جانتا ہے۔ کیونکہ اللہ عزو جل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ کہو کہ میں اس پر تم سے اجر نہیں مانگتا اور میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4809)۔
اسی طرح داعی کی یہ صفت ہے کہ وہ دعوت کو نصیحت کے روپ میں پیش کرے۔ اس کا کلام خیر خواہانہ کلام ہو، نہ کہ مناظرانہ کلام۔
إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ
📘 داعی کی ایک لازمی صفت یہ ہے کہ وہ مدعو سے اجر کا طالب نہیں ہوتا۔ وہ اپنے اور مدعو کے درمیان کوئی مادی جھگڑا نہیں کھڑا کرتا۔ قرآن کی دعوت آخرت کی دعوت ہے۔ اس ليے جو شخص ایسا کرے کہ وہ ایک طرف قرآن کی دعوتِ آخرت کا علم بردار ہو، اور اسی کے ساتھ مدعو قوم سے مادی مطالبات کی مہم بھی چلائے وہ مدعو کی نظر میں ایک غیر سنجیدہ آدمی ہے۔ اور جو آدمی خود اپنی غیرسنجیدگی ثابت کردے اس کی بات پر کون دھیان دے گا۔
اسی طرح داعی اپنی طرف سے بنا کر کوئی بات نہیں کہتا۔ وہ بس وہی کہتا ہے جو خدا کی طرف سے اس کو ملا ہے۔ مسروق تابعی کہتے ہیں کہ ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ انھوںنے کہا کہ اے لوگو، جو شخص کچھ جانتا ہو تو اس کو چاہيے کہ بولے۔ اور جو شخص نہ جانتا ہو تو ا س کو یہ کہنا چاہيے کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ یہ علم کی بات ہے کہ آدمی جس چیز کو نہ جانے اس کے بارہ میں کہہ دے کہ اللہ زیادہ جانتا ہے۔ کیونکہ اللہ عزو جل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ کہو کہ میں اس پر تم سے اجر نہیں مانگتا اور میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4809)۔
اسی طرح داعی کی یہ صفت ہے کہ وہ دعوت کو نصیحت کے روپ میں پیش کرے۔ اس کا کلام خیر خواہانہ کلام ہو، نہ کہ مناظرانہ کلام۔
وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ
📘 داعی کی ایک لازمی صفت یہ ہے کہ وہ مدعو سے اجر کا طالب نہیں ہوتا۔ وہ اپنے اور مدعو کے درمیان کوئی مادی جھگڑا نہیں کھڑا کرتا۔ قرآن کی دعوت آخرت کی دعوت ہے۔ اس ليے جو شخص ایسا کرے کہ وہ ایک طرف قرآن کی دعوتِ آخرت کا علم بردار ہو، اور اسی کے ساتھ مدعو قوم سے مادی مطالبات کی مہم بھی چلائے وہ مدعو کی نظر میں ایک غیر سنجیدہ آدمی ہے۔ اور جو آدمی خود اپنی غیرسنجیدگی ثابت کردے اس کی بات پر کون دھیان دے گا۔
اسی طرح داعی اپنی طرف سے بنا کر کوئی بات نہیں کہتا۔ وہ بس وہی کہتا ہے جو خدا کی طرف سے اس کو ملا ہے۔ مسروق تابعی کہتے ہیں کہ ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ انھوںنے کہا کہ اے لوگو، جو شخص کچھ جانتا ہو تو اس کو چاہيے کہ بولے۔ اور جو شخص نہ جانتا ہو تو ا س کو یہ کہنا چاہيے کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ یہ علم کی بات ہے کہ آدمی جس چیز کو نہ جانے اس کے بارہ میں کہہ دے کہ اللہ زیادہ جانتا ہے۔ کیونکہ اللہ عزو جل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ کہو کہ میں اس پر تم سے اجر نہیں مانگتا اور میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4809)۔
اسی طرح داعی کی یہ صفت ہے کہ وہ دعوت کو نصیحت کے روپ میں پیش کرے۔ اس کا کلام خیر خواہانہ کلام ہو، نہ کہ مناظرانہ کلام۔
أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيزِ الْوَهَّابِ
📘 دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔