slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة القلم

(Al-Qalam) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ

📘 وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ سے مراد تاریخی ریکارڈ ہے۔ تاریخ کی شکل میں انسانی یاد داشت کا جو ریکارڈ جمع ہوا ہے اس میں قرآن ایک استثنائی کتاب ہے۔ اور صاحب قرآن ایک استثنائی شخصیت۔ اس استثناء کی اس کے سوا اور کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی کہ قرآن کو خدا کی کتاب مانا جائے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا پیغمبر۔ اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے جب کہ آدمی دوسروں کے رویہ سے بلند ہو کر عمل کرے۔ اس کا طریقہ یہ نہ ہو کہ برائی کرنے والوں کے ساتھ برائی اور بھلائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی، بلکہ وہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرے،خواہ دوسرے اس کے ساتھ بُرائی ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق یہی دوسرا اخلاق تھا۔ اس قسم کا اخلاق ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک با اصول انسان تھے۔ آپ کی شخصیت حالات کی پیداوار نہ تھی۔ بلکہ خود اپنے اعلیٰ اصولوں کی پیداوار تھی۔ آپ کا یہ اعلیٰ اخلاق آپ کے اس دعوے کے عین مطابق ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

أَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

وَلَا يَسْتَثْنُونَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِنْ رَبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ

📘 وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ سے مراد تاریخی ریکارڈ ہے۔ تاریخ کی شکل میں انسانی یاد داشت کا جو ریکارڈ جمع ہوا ہے اس میں قرآن ایک استثنائی کتاب ہے۔ اور صاحب قرآن ایک استثنائی شخصیت۔ اس استثناء کی اس کے سوا اور کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی کہ قرآن کو خدا کی کتاب مانا جائے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا پیغمبر۔ اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے جب کہ آدمی دوسروں کے رویہ سے بلند ہو کر عمل کرے۔ اس کا طریقہ یہ نہ ہو کہ برائی کرنے والوں کے ساتھ برائی اور بھلائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی، بلکہ وہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرے،خواہ دوسرے اس کے ساتھ بُرائی ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق یہی دوسرا اخلاق تھا۔ اس قسم کا اخلاق ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک با اصول انسان تھے۔ آپ کی شخصیت حالات کی پیداوار نہ تھی۔ بلکہ خود اپنے اعلیٰ اصولوں کی پیداوار تھی۔ آپ کا یہ اعلیٰ اخلاق آپ کے اس دعوے کے عین مطابق ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔

فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

فَتَنَادَوْا مُصْبِحِينَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

أَنِ اغْدُوا عَلَىٰ حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَارِمِينَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

أَنْ لَا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُمْ مِسْكِينٌ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

وَغَدَوْا عَلَىٰ حَرْدٍ قَادِرِينَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ

📘 وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ سے مراد تاریخی ریکارڈ ہے۔ تاریخ کی شکل میں انسانی یاد داشت کا جو ریکارڈ جمع ہوا ہے اس میں قرآن ایک استثنائی کتاب ہے۔ اور صاحب قرآن ایک استثنائی شخصیت۔ اس استثناء کی اس کے سوا اور کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی کہ قرآن کو خدا کی کتاب مانا جائے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا پیغمبر۔ اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے جب کہ آدمی دوسروں کے رویہ سے بلند ہو کر عمل کرے۔ اس کا طریقہ یہ نہ ہو کہ برائی کرنے والوں کے ساتھ برائی اور بھلائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی، بلکہ وہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرے،خواہ دوسرے اس کے ساتھ بُرائی ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق یہی دوسرا اخلاق تھا۔ اس قسم کا اخلاق ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک با اصول انسان تھے۔ آپ کی شخصیت حالات کی پیداوار نہ تھی۔ بلکہ خود اپنے اعلیٰ اصولوں کی پیداوار تھی۔ آپ کا یہ اعلیٰ اخلاق آپ کے اس دعوے کے عین مطابق ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔

فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

عَسَىٰ رَبُّنَا أَنْ يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِنْهَا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا رَاغِبُونَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

كَذَٰلِكَ الْعَذَابُ ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ

📘 خدا سے نہ ڈرنے والا آدمی صرف سامنے کی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں خد اسے ڈرنے والا وہ ہے جو غیبی حقیقت کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے۔ یہ دو بالکل الگ الگ کردار ہیں اور دونوں کا انجام یقینی طور پر یکساں نہیں ہوسکتا۔

أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ

📘 خدا سے نہ ڈرنے والا آدمی صرف سامنے کی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں خد اسے ڈرنے والا وہ ہے جو غیبی حقیقت کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے۔ یہ دو بالکل الگ الگ کردار ہیں اور دونوں کا انجام یقینی طور پر یکساں نہیں ہوسکتا۔

مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ

📘 خدا سے نہ ڈرنے والا آدمی صرف سامنے کی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں خد اسے ڈرنے والا وہ ہے جو غیبی حقیقت کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے۔ یہ دو بالکل الگ الگ کردار ہیں اور دونوں کا انجام یقینی طور پر یکساں نہیں ہوسکتا۔

أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ

📘 خدا سے نہ ڈرنے والا آدمی صرف سامنے کی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں خد اسے ڈرنے والا وہ ہے جو غیبی حقیقت کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے۔ یہ دو بالکل الگ الگ کردار ہیں اور دونوں کا انجام یقینی طور پر یکساں نہیں ہوسکتا۔

إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ

📘 خدا سے نہ ڈرنے والا آدمی صرف سامنے کی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں خد اسے ڈرنے والا وہ ہے جو غیبی حقیقت کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے۔ یہ دو بالکل الگ الگ کردار ہیں اور دونوں کا انجام یقینی طور پر یکساں نہیں ہوسکتا۔

أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۙ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ

📘 خدا سے نہ ڈرنے والا آدمی صرف سامنے کی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں خد اسے ڈرنے والا وہ ہے جو غیبی حقیقت کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے۔ یہ دو بالکل الگ الگ کردار ہیں اور دونوں کا انجام یقینی طور پر یکساں نہیں ہوسکتا۔

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ

📘 وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ سے مراد تاریخی ریکارڈ ہے۔ تاریخ کی شکل میں انسانی یاد داشت کا جو ریکارڈ جمع ہوا ہے اس میں قرآن ایک استثنائی کتاب ہے۔ اور صاحب قرآن ایک استثنائی شخصیت۔ اس استثناء کی اس کے سوا اور کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی کہ قرآن کو خدا کی کتاب مانا جائے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا پیغمبر۔ اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے جب کہ آدمی دوسروں کے رویہ سے بلند ہو کر عمل کرے۔ اس کا طریقہ یہ نہ ہو کہ برائی کرنے والوں کے ساتھ برائی اور بھلائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی، بلکہ وہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرے،خواہ دوسرے اس کے ساتھ بُرائی ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق یہی دوسرا اخلاق تھا۔ اس قسم کا اخلاق ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک با اصول انسان تھے۔ آپ کی شخصیت حالات کی پیداوار نہ تھی۔ بلکہ خود اپنے اعلیٰ اصولوں کی پیداوار تھی۔ آپ کا یہ اعلیٰ اخلاق آپ کے اس دعوے کے عین مطابق ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔

سَلْهُمْ أَيُّهُمْ بِذَٰلِكَ زَعِيمٌ

📘 خدا سے نہ ڈرنے والا آدمی صرف سامنے کی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں خد اسے ڈرنے والا وہ ہے جو غیبی حقیقت کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے۔ یہ دو بالکل الگ الگ کردار ہیں اور دونوں کا انجام یقینی طور پر یکساں نہیں ہوسکتا۔

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ فَلْيَأْتُوا بِشُرَكَائِهِمْ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ

📘 خدا سے نہ ڈرنے والا آدمی صرف سامنے کی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں خد اسے ڈرنے والا وہ ہے جو غیبی حقیقت کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے۔ یہ دو بالکل الگ الگ کردار ہیں اور دونوں کا انجام یقینی طور پر یکساں نہیں ہوسکتا۔

يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ

📘 قیامت میں جب خدا اعیاناً سامنے آجائے گا تو تمام ایمان والے لوگ اپنے رب کے سامنے سجدہ میں گر جائیں گے جس طرح وہ پچھلی زندگی میں اس کے آگے سجدہ میں گرے ہوئے تھے۔ مگر ظہورِ خداوندی کے وقت سجدہ کی یہ توفیق صرف سچے مومنین کو حاصل ہوگی۔ جو لوگ دنیا میں جھوٹا سجدہ کرتے تھے ان کی کمر اس وقت اکڑ جائے گی جس طرح باعتبار حقیقت وہ دنیا میں اکڑی ہوئی تھی۔ ایسے لوگ سجدہ کرنا چاہیں گے مگر وہ سجدہ نہ کرسکیں گے۔ یہ مخلص اہل ایمان کی سب سے بڑی قدردانی ہوگی کہ خدا خود ظاہر ہو کر ان کا سجدہ قبول کرے۔ اس کے مقابلہ میں ایمان کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کے لیے یہ سب سے زیادہ رسوائی کا لمحہ ہوگا کہ ان کا خالق و مالک ان کے سامنے ہے اور وہ اس کے سامنے اپنی بندگی کا اقرار کرنے پر قادر نہیں۔

خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ

📘 قیامت میں جب خدا اعیاناً سامنے آجائے گا تو تمام ایمان والے لوگ اپنے رب کے سامنے سجدہ میں گر جائیں گے جس طرح وہ پچھلی زندگی میں اس کے آگے سجدہ میں گرے ہوئے تھے۔ مگر ظہورِ خداوندی کے وقت سجدہ کی یہ توفیق صرف سچے مومنین کو حاصل ہوگی۔ جو لوگ دنیا میں جھوٹا سجدہ کرتے تھے ان کی کمر اس وقت اکڑ جائے گی جس طرح باعتبار حقیقت وہ دنیا میں اکڑی ہوئی تھی۔ ایسے لوگ سجدہ کرنا چاہیں گے مگر وہ سجدہ نہ کرسکیں گے۔ یہ مخلص اہل ایمان کی سب سے بڑی قدردانی ہوگی کہ خدا خود ظاہر ہو کر ان کا سجدہ قبول کرے۔ اس کے مقابلہ میں ایمان کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کے لیے یہ سب سے زیادہ رسوائی کا لمحہ ہوگا کہ ان کا خالق و مالک ان کے سامنے ہے اور وہ اس کے سامنے اپنی بندگی کا اقرار کرنے پر قادر نہیں۔

فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَٰذَا الْحَدِيثِ ۖ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ

📘 قیامت میں جب خدا اعیاناً سامنے آجائے گا تو تمام ایمان والے لوگ اپنے رب کے سامنے سجدہ میں گر جائیں گے جس طرح وہ پچھلی زندگی میں اس کے آگے سجدہ میں گرے ہوئے تھے۔ مگر ظہورِ خداوندی کے وقت سجدہ کی یہ توفیق صرف سچے مومنین کو حاصل ہوگی۔ جو لوگ دنیا میں جھوٹا سجدہ کرتے تھے ان کی کمر اس وقت اکڑ جائے گی جس طرح باعتبار حقیقت وہ دنیا میں اکڑی ہوئی تھی۔ ایسے لوگ سجدہ کرنا چاہیں گے مگر وہ سجدہ نہ کرسکیں گے۔ یہ مخلص اہل ایمان کی سب سے بڑی قدردانی ہوگی کہ خدا خود ظاہر ہو کر ان کا سجدہ قبول کرے۔ اس کے مقابلہ میں ایمان کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کے لیے یہ سب سے زیادہ رسوائی کا لمحہ ہوگا کہ ان کا خالق و مالک ان کے سامنے ہے اور وہ اس کے سامنے اپنی بندگی کا اقرار کرنے پر قادر نہیں۔

وَأُمْلِي لَهُمْ ۚ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ

📘 قیامت میں جب خدا اعیاناً سامنے آجائے گا تو تمام ایمان والے لوگ اپنے رب کے سامنے سجدہ میں گر جائیں گے جس طرح وہ پچھلی زندگی میں اس کے آگے سجدہ میں گرے ہوئے تھے۔ مگر ظہورِ خداوندی کے وقت سجدہ کی یہ توفیق صرف سچے مومنین کو حاصل ہوگی۔ جو لوگ دنیا میں جھوٹا سجدہ کرتے تھے ان کی کمر اس وقت اکڑ جائے گی جس طرح باعتبار حقیقت وہ دنیا میں اکڑی ہوئی تھی۔ ایسے لوگ سجدہ کرنا چاہیں گے مگر وہ سجدہ نہ کرسکیں گے۔ یہ مخلص اہل ایمان کی سب سے بڑی قدردانی ہوگی کہ خدا خود ظاہر ہو کر ان کا سجدہ قبول کرے۔ اس کے مقابلہ میں ایمان کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کے لیے یہ سب سے زیادہ رسوائی کا لمحہ ہوگا کہ ان کا خالق و مالک ان کے سامنے ہے اور وہ اس کے سامنے اپنی بندگی کا اقرار کرنے پر قادر نہیں۔

أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ

📘 داعی اور مدعو کا رشتہ بے حد نازک رشتہ ہے۔ داعی کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو حسن اخلاق کا پابند بنانا پڑتا ہے۔ مدعو بے دلیل باتیں کرے، وہ داعی کو حقیر سمجھے، وہ داعی پر جھوٹا الزام لگائے۔ وہ خواہ کچھ بھی کرے، داعی کو ہرحال میں اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے بچانا ہے۔ داعی کی کامیابی کا راز دو چیزوں میں چھپا ہوا ہے— مدعو کی زیادتیوں پر صبر اور مدعو سے کوئی مادی غرض نہ رکھنا۔

أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ

📘 داعی اور مدعو کا رشتہ بے حد نازک رشتہ ہے۔ داعی کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو حسن اخلاق کا پابند بنانا پڑتا ہے۔ مدعو بے دلیل باتیں کرے، وہ داعی کو حقیر سمجھے، وہ داعی پر جھوٹا الزام لگائے۔ وہ خواہ کچھ بھی کرے، داعی کو ہرحال میں اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے بچانا ہے۔ داعی کی کامیابی کا راز دو چیزوں میں چھپا ہوا ہے— مدعو کی زیادتیوں پر صبر اور مدعو سے کوئی مادی غرض نہ رکھنا۔

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ

📘 داعی اور مدعو کا رشتہ بے حد نازک رشتہ ہے۔ داعی کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو حسن اخلاق کا پابند بنانا پڑتا ہے۔ مدعو بے دلیل باتیں کرے، وہ داعی کو حقیر سمجھے، وہ داعی پر جھوٹا الزام لگائے۔ وہ خواہ کچھ بھی کرے، داعی کو ہرحال میں اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے بچانا ہے۔ داعی کی کامیابی کا راز دو چیزوں میں چھپا ہوا ہے— مدعو کی زیادتیوں پر صبر اور مدعو سے کوئی مادی غرض نہ رکھنا۔

لَوْلَا أَنْ تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ

📘 داعی اور مدعو کا رشتہ بے حد نازک رشتہ ہے۔ داعی کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو حسن اخلاق کا پابند بنانا پڑتا ہے۔ مدعو بے دلیل باتیں کرے، وہ داعی کو حقیر سمجھے، وہ داعی پر جھوٹا الزام لگائے۔ وہ خواہ کچھ بھی کرے، داعی کو ہرحال میں اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے بچانا ہے۔ داعی کی کامیابی کا راز دو چیزوں میں چھپا ہوا ہے— مدعو کی زیادتیوں پر صبر اور مدعو سے کوئی مادی غرض نہ رکھنا۔

فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ

📘 وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ سے مراد تاریخی ریکارڈ ہے۔ تاریخ کی شکل میں انسانی یاد داشت کا جو ریکارڈ جمع ہوا ہے اس میں قرآن ایک استثنائی کتاب ہے۔ اور صاحب قرآن ایک استثنائی شخصیت۔ اس استثناء کی اس کے سوا اور کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی کہ قرآن کو خدا کی کتاب مانا جائے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا پیغمبر۔ اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے جب کہ آدمی دوسروں کے رویہ سے بلند ہو کر عمل کرے۔ اس کا طریقہ یہ نہ ہو کہ برائی کرنے والوں کے ساتھ برائی اور بھلائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی، بلکہ وہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرے،خواہ دوسرے اس کے ساتھ بُرائی ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق یہی دوسرا اخلاق تھا۔ اس قسم کا اخلاق ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک با اصول انسان تھے۔ آپ کی شخصیت حالات کی پیداوار نہ تھی۔ بلکہ خود اپنے اعلیٰ اصولوں کی پیداوار تھی۔ آپ کا یہ اعلیٰ اخلاق آپ کے اس دعوے کے عین مطابق ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔

فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ

📘 داعی اور مدعو کا رشتہ بے حد نازک رشتہ ہے۔ داعی کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو حسن اخلاق کا پابند بنانا پڑتا ہے۔ مدعو بے دلیل باتیں کرے، وہ داعی کو حقیر سمجھے، وہ داعی پر جھوٹا الزام لگائے۔ وہ خواہ کچھ بھی کرے، داعی کو ہرحال میں اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے بچانا ہے۔ داعی کی کامیابی کا راز دو چیزوں میں چھپا ہوا ہے— مدعو کی زیادتیوں پر صبر اور مدعو سے کوئی مادی غرض نہ رکھنا۔

وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ

📘 داعی اور مدعو کا رشتہ بے حد نازک رشتہ ہے۔ داعی کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو حسن اخلاق کا پابند بنانا پڑتا ہے۔ مدعو بے دلیل باتیں کرے، وہ داعی کو حقیر سمجھے، وہ داعی پر جھوٹا الزام لگائے۔ وہ خواہ کچھ بھی کرے، داعی کو ہرحال میں اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے بچانا ہے۔ داعی کی کامیابی کا راز دو چیزوں میں چھپا ہوا ہے— مدعو کی زیادتیوں پر صبر اور مدعو سے کوئی مادی غرض نہ رکھنا۔

وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ

📘 داعی اور مدعو کا رشتہ بے حد نازک رشتہ ہے۔ داعی کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو حسن اخلاق کا پابند بنانا پڑتا ہے۔ مدعو بے دلیل باتیں کرے، وہ داعی کو حقیر سمجھے، وہ داعی پر جھوٹا الزام لگائے۔ وہ خواہ کچھ بھی کرے، داعی کو ہرحال میں اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے بچانا ہے۔ داعی کی کامیابی کا راز دو چیزوں میں چھپا ہوا ہے— مدعو کی زیادتیوں پر صبر اور مدعو سے کوئی مادی غرض نہ رکھنا۔

بِأَيْيِكُمُ الْمَفْتُونُ

📘 وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ سے مراد تاریخی ریکارڈ ہے۔ تاریخ کی شکل میں انسانی یاد داشت کا جو ریکارڈ جمع ہوا ہے اس میں قرآن ایک استثنائی کتاب ہے۔ اور صاحب قرآن ایک استثنائی شخصیت۔ اس استثناء کی اس کے سوا اور کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی کہ قرآن کو خدا کی کتاب مانا جائے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا پیغمبر۔ اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے جب کہ آدمی دوسروں کے رویہ سے بلند ہو کر عمل کرے۔ اس کا طریقہ یہ نہ ہو کہ برائی کرنے والوں کے ساتھ برائی اور بھلائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی، بلکہ وہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرے،خواہ دوسرے اس کے ساتھ بُرائی ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق یہی دوسرا اخلاق تھا۔ اس قسم کا اخلاق ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک با اصول انسان تھے۔ آپ کی شخصیت حالات کی پیداوار نہ تھی۔ بلکہ خود اپنے اعلیٰ اصولوں کی پیداوار تھی۔ آپ کا یہ اعلیٰ اخلاق آپ کے اس دعوے کے عین مطابق ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

📘 وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ سے مراد تاریخی ریکارڈ ہے۔ تاریخ کی شکل میں انسانی یاد داشت کا جو ریکارڈ جمع ہوا ہے اس میں قرآن ایک استثنائی کتاب ہے۔ اور صاحب قرآن ایک استثنائی شخصیت۔ اس استثناء کی اس کے سوا اور کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی کہ قرآن کو خدا کی کتاب مانا جائے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا پیغمبر۔ اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے جب کہ آدمی دوسروں کے رویہ سے بلند ہو کر عمل کرے۔ اس کا طریقہ یہ نہ ہو کہ برائی کرنے والوں کے ساتھ برائی اور بھلائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی، بلکہ وہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرے،خواہ دوسرے اس کے ساتھ بُرائی ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق یہی دوسرا اخلاق تھا۔ اس قسم کا اخلاق ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک با اصول انسان تھے۔ آپ کی شخصیت حالات کی پیداوار نہ تھی۔ بلکہ خود اپنے اعلیٰ اصولوں کی پیداوار تھی۔ آپ کا یہ اعلیٰ اخلاق آپ کے اس دعوے کے عین مطابق ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔

فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔

وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ

📘 اس دنیا میں آدمی جو کچھ کماتا ہے۔ وہ بظاہر کھیت سے یا اور کسی چیز سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر حقیقۃً وہ خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ جو شخص اس کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اس میں دوسرے بندگان خدا کا حصہ نکالے اس کی کمائی میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنی کمائی کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھے اور دوسروں کا حق انہیں دینے پر راضی نہ ہو۔ اس کی کمائی اس کو فائدہ نہ دے سکے گی۔ یہ خدا کا اٹل قانون ہے۔ کبھی وہ کسی کے لیے دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور آخرت میں تو لازماً وہ ہر ایک کے حق میں ظاہر ہوگا۔