🕋 تفسير سورة الفرقان
(Al-Furqan) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا
📘 آیت 1 تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ ”یہ تیسری سورت ہے جس کے مطلع پہلی آیت میں محمد رسول اللہ ﷺ کا ذکر ”عبد“ کی نسبت سے آیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی دو سورتیں سورة بنی اسرائیل اور سورة الکہف ہیں۔ سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں فرمایا : سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ۔۔ ۔ اس کے بعد سورة الکہف کا آغاز اس طرح ہوا : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ۔۔ ۔”الفرقان“ سے مراد حق و باطل میں امتیاز کردینے والی کتاب یعنی قرآن حکیم ہے۔لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا ”یعنی اس قرآن کے ذریعے سے حضور ﷺ کی رسالت تا قیام قیامت جاری وساری رہے گی۔ جس تک یہ قرآن پہنچ گیا ‘ اس تک گویا آپ ﷺ کا انذار پہنچ گیا۔ سورة الانعام کی آیت 19 میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط ”اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں خبردار کر دوں تمہیں اس کے ذریعے سے اور اس کو بھی جس تک یہ پہنچ جائے“۔ چناچہ آپ ﷺ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد قرآن کے پیغام کو پھیلانا اور اس کے ذریعے سے انذار کے سلسلے کو تاقیام قیامت جاری وساری رکھنا امت کی ذمہ داری ہے۔
تَبَارَكَ الَّذِي إِنْ شَاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِنْ ذَٰلِكَ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُورًا
📘 آیت 10 تَبٰرَکَ الَّذِیْٓ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَکَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِکَ ”یہ لوگ تو آپ ﷺ پر اعتراض کرتے ہوئے اپنی طرف سے بڑی دور کی کوڑی لاتے ہیں اور اپنے فہم و شعور کے مطابق مختلف چیزوں کے نام گنواتے ہیں کہ آپ ﷺ کو فلاں آسائش میسر ہونی چاہیے اور فلاں چیز آپ ﷺ کے تصرف میں ہونی چاہیے۔ ان بےچاروں کو ہماری قدرت کا اندازہ ہی نہیں۔ ہم اگر چاہیں تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے کہیں بہتر ایسی چیزیں آپ ﷺ کے لیے پیدا کردیں جو ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ ہوں۔جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُلا وَیَجْعَلْ لَّکَ قُصُوْرًا ”یہ لوگ تو ایک باغ کی بات کر رہے ہیں۔ ہم آپ ﷺ کے لیے باغات کے ان گنت سلسلے اور بیشمار محلات بنا سکتے ہیں۔
بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيرًا
📘 آیت 10 تَبٰرَکَ الَّذِیْٓ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَکَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِکَ ”یہ لوگ تو آپ ﷺ پر اعتراض کرتے ہوئے اپنی طرف سے بڑی دور کی کوڑی لاتے ہیں اور اپنے فہم و شعور کے مطابق مختلف چیزوں کے نام گنواتے ہیں کہ آپ ﷺ کو فلاں آسائش میسر ہونی چاہیے اور فلاں چیز آپ ﷺ کے تصرف میں ہونی چاہیے۔ ان بےچاروں کو ہماری قدرت کا اندازہ ہی نہیں۔ ہم اگر چاہیں تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے کہیں بہتر ایسی چیزیں آپ ﷺ کے لیے پیدا کردیں جو ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ ہوں۔جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُلا وَیَجْعَلْ لَّکَ قُصُوْرًا ”یہ لوگ تو ایک باغ کی بات کر رہے ہیں۔ ہم آپ ﷺ کے لیے باغات کے ان گنت سلسلے اور بیشمار محلات بنا سکتے ہیں۔
إِذَا رَأَتْهُمْ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا
📘 آیت 12 اِذَا رَاَتْہُمْ مِّنْ مَّکَانٍم بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَہَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا ”جہنم جب دور سے ہی ایسے مجرموں کی صورت میں اپنے شکار کو آتے دیکھے گی تو غضبناک ہو کر جوش مارے گی اور اس کے دھاڑنے اور پھنکارنے کی خوفناک آوازوں کو مجرم لوگ بہت دور سے سن سکیں گے۔
وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا
📘 آیت 13 وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُوْرًا ”اس وقت وہ دعا کریں گے کہ انہیں موت آجائے۔ شعور کی زندگی کا قصہ تمام ہو اور انہیں نسیاً منسیاً کردیاجائے۔
لَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا
📘 آیت 14 لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا کَثِیْرًااب تم موت کو پکارتے رہو ‘ اس کے لیے مسلسل دعائیں مانگتے رہو ‘ مگر تمہاری ان دعاؤں سے تمہیں موت آئے گی نہیں۔ اب تو تمہیں مسلسل زندہ رہنا اور عذاب کی تکلیف کو جھیلنا ہوگا۔ اس عذاب کی شدت میں نہ تو کوئی تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی موت آکر تمہیں اس سے چھٹکارا دلائے گی۔
قُلْ أَذَٰلِكَ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۚ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاءً وَمَصِيرًا
📘 کَانَتْ لَہُمْ جَزَآءً وَّمَصِیْرًا۔ ”وہ ان کے اعمال کا بدلہ اور ان کے سفر کی آخری منزل ہوگی۔
لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ خَالِدِينَ ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ وَعْدًا مَسْئُولًا
📘 کَانَ عَلٰی رَبِّکَ وَعْدًا مَّسْءُوْلًا ”اس وعدہ کے ایفا کی آپ کے رب پر حتمی ذمہ داری ہے۔ اس کے حوالے سے سورة آل عمران کی یہ دعا بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے : رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلاَ تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ”اے ہمارے پروردگار ! تو نے اپنے رسولوں علیہ السلام کے ذریعے ہم سے جو وعدے کیے ہیں وہ پورے فرما اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا ‘ بیشک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا“۔ اللہ تعالیٰ یقیناً اپنے ان وعدوں کو پورا فرمائے گا اور یہ اس کی بےپایاں رحمت کا اظہار ہے کہ وہ ان وعدوں کو اپنی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَقُولُ أَأَنْتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ
📘 آیت 17 وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ”جن جن ہستیوں کے ناموں پر مشرکین نے ُ بت بنا رکھے تھے یا جن کو وہ براہ راست اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے ‘ چاہے وہ فرشتے ہوں ‘ اولیاء اللہ ہوں یا انبیاء ہوں ‘ اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرے گا :
قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَتَّخِذَ مِنْ دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِنْ مَتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا
📘 آیت 18 قَالُوْا سُبْحٰنَکَ مَا کَانَ یَنْبَغِیْ لَنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِکَ مِنْ اَوْلِیَآءَ ”م اللہ اور اہل ایمان کے درمیان ولایت باہمی کا مضبوط رشتہ قائم ہے۔ اللہ اہل ایمان کا ولی ہے اور اہل ایمان اللہ کے ولی ہیں۔ سورة البقرۃ کی آیت 257 میں اس رشتے کا ذکر یوں فرمایا گیا : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط ”اللہ ولی ہے مؤمنین کا ‘ وہ انہیں اندھیروں سے نکالتا ہے نور کی طرف“۔ سورة یونس میں اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کا ذکر اس طرح کرتے ہیں : اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ”آگاہ رہو ! یقیناً جو اللہ کے ولی ہیں نہ انہیں کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے“۔ چناچہ اگر وہ سچے معبود ہوتے تو ضرور اپنے بندوں کے ساتھ ولایت کا رشتہ قائم کیے ہوتے ‘ لیکن وہ تو پوچھنے پر صاف انکار کردیں گے اور کہیں گے کہ ہمارا ولی تو اللہ ہے۔ ہم اللہ کے سوا کسی اور کے ساتھ ولایت کا رشتہ کیسے استوار کرسکتے تھے !وَلٰکِنْ مَّتَّعْتَہُمْ وَاٰبَآءَ ہُمْ ”لیکن اے پروردگار ! ُ ان کو دنیا میں مال و دولت اور حیثیت ووجاہت سے بہرہ مند کیا اور پشت در پشت خوشحالی اور فارغ البالی عطا کیے رکھی۔حَتّٰی نَسُوا الذِّکْرَج وَکَانُوْا قَوْمًام بُوْرًا ”اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان مشرکین کو مخاطب کر کے فرمائیں گے :
فَقَدْ كَذَّبُوكُمْ بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا وَلَا نَصْرًا ۚ وَمَنْ يَظْلِمْ مِنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا
📘 آیت 19 فَقَدْ کَذَّبُوْکُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَلا ”کہ جن ہستیوں کو تم لوگ اپنے معبود اور ولی مانتے تھے انہوں نے تو تمہارے دعو وں کو رد کردیا۔
الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا
📘 وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا ”یہ آیت اپنے مضمون کے اعتبار سے سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت سے بہت مشابہ ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ۗ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ ۗ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا
📘 اَتَصْبِرُوْنَج وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْرًا ”اس مصلحت کو سمجھ لینے کے بعد اب تمہارے لیے صبر و استقامت کی روش ناگزیر ہے۔
۞ وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا
📘 اَوْ نَرٰی رَبَّنَاط ”اللہ کے حضور حاضری پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کی طبیعتوں میں سر کشی اور لاپرواہی پائی جاتی ہے۔ چناچہ ایمان کی دعوت کو قبول کرنے کے بجائے جواب میں وہ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر اللہ نے ہمیں کوئی پیغام بھیجنا ہی تھا تو اپنے فرشتوں کے ذریعے بھجواتا یا وہ خود ہمارے سامنے آجاتا اور ہم اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیتے۔ یا یہ کہ اللہ کی طرف سے ہمیں کوئی ایسا معجزہ دکھایا جاتا جس سے ہم پر واضح ہوجاتا کہ محمد ﷺ واقعی اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ ان کے ایسے مطالبات کا ذکر مکیّ سورتوں میں بار بار کیا گیا ہے۔لَقَدِ اسْتَکْبَرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا کَبِیْرًا ”ان کے یہ مطالبات ان کے استکبار کا ثبوت اور ان کی سر کشی کی دلیل ہیں۔ گویا وہ خود کو اس لائق سمجھتے ہیں کہ ان پر فرشتوں کا نزول ہو اور اللہ خود ان کے روبرو ان سے ہم کلام ہو۔
يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَىٰ يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا
📘 آیت 22 یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلآءِکَۃَ لَا بُشْرٰی یَوْمَءِذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ ”جس دن انہیں فرشتے نظر آئیں گے وہ دراصل قیامت کا دن ہوگا۔ اس دن اللہ تعالیٰ بھی نزول فرمائے گا اور غیب کے سارے پردے بھی اٹھا دیے جائیں گے۔ وہ دن مجرموں کے لیے کڑے احتساب کا دن ہوگا۔ تب ان کے لیے تو بہ کا دروازہ بند ہوچکا ہوگا اور انہیں کہیں سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں مل پائے گی۔وَیَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا ”اس وقت وہ دہائی دے رہے ہوں گے کہ کسی طرح سے انہیں بچایا جائے اور قیامت کے عذاب کو ان پر مسلط ہونے سے روکا جائے۔ کاش ‘ ان کے اور اس عذاب کے مابین کوئی رکاوٹ حائل ہوجائے !
وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا
📘 آیت 23 وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَآءً مَّنْثُوْرًا ”یہ بہت عبرتناک منظر کی تصویر ہے۔ یہ دراصل ایسی نیکیوں کا ذکر ہے جن کی بنیاد ایمان حقیقی پر نہیں رکھی گئی تھی۔ آخرت میں ایسے اعمال کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی فضول اور قابل حقارت چیز کی سی ہوگی جسے کوئی دیکھتے ہی فٹ بال کی طرح ٹھوکر مار کر ہوا میں اچھال دے۔ یہ ان دنیا پرست اور ریاکار لوگوں کے انجام کا نقشہ ہے جو ظاہر کی نیکیوں کے انبار لے کر میدان محشر میں آئیں گے۔ دنیا میں انہوں نے خیراتیں بانٹی تھیں ‘ یتیم خانے کھولے تھے ‘ ہسپتال بنائے تھے ‘ مسجدیں تعمیر کرائی تھیں ‘ مدارس کی سرپرستی کی تھی ‘ حج و عمرے کیے تھے ‘ مگر ان اعمال کو سرانجام دیتے ہوئے اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کے اجر وثواب کو کہیں بھیّ مد نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ کہیں عزت و شہرت حاصل کرنے کا جذبہ نیکی کا محرک بنا تھا تو کہیں پارسائی و پرہیزگاری کا سکہّ جمانے کی خواہش نے عبادات کا معمول اپنایا تھا۔ کبھی الیکشن جیتنے کی منصوبہ بندی نے خدمت خلق کا لبادہ اوڑھا تھا تو کبھی کاروباری ساکھ کو بہتر بنانے کے لالچ نے متقیانہ روپ دھارا تھا۔ غرض ہر نیکی کے پیچھے کوئی نہ کوئی دنیوی مفاد کارفرما تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو علیمٌ بذات الصدورّ ہے ‘ اس کے نزدیک ایسی کسی نیکی کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں۔ چناچہ ایسے بد قسمت لوگوں کی نیکیوں کے انبار اور اعمال صالحہ کے پہاڑ جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو انہیں گرد و غبار کے ذرّات کی طرح تحلیل کردیا جائے گا۔ یہ مضمون یہاں تیسری بار آیا ہے۔ سورة ابراہیم میں ایک تمثیل کے ذریعے ایسے اعمال کی بےبضاعتی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِنِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍط لاَ یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ ط ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ”مثال ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ ایسی ہے کہ ان کے اعمال ہوں راکھ کی مانند ‘ جس پر زور دار ہوا چلے آندھی کے دن۔ انہیں کچھ قدرت نہیں ہوگی ان اعمال میں سے کسی پر بھی جو انہوں نے کمائے ہوں گے۔ یہی تو ہے دور کی گمراہی“۔ پھر سورة ّ النور میں بغیر ایمان کی نیکیوں کی حقیقت ایک دوسری تمثیل میں یوں واضح کی گئی ہے : وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍم بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآءًط حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْءًا وَّوَجَدَ اللّٰہَ عِنْدَہٗ فَوَفّٰٹہُ حِسَابَہٗط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ”اور جو کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے سراب کسی چٹیل میدان میں ‘ پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے ‘ یہاں تک کہ وہ اس کے پاس آیا تو اس نے اسے کچھ نہ پایا ‘ البتہ اس نے اس کے پاس اللہ کو پایا ‘ تو اس نے پورا پورا چکا دیا اسے اس کا حساب۔ اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔“
أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا
📘 آیت 23 وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَآءً مَّنْثُوْرًا ”یہ بہت عبرتناک منظر کی تصویر ہے۔ یہ دراصل ایسی نیکیوں کا ذکر ہے جن کی بنیاد ایمان حقیقی پر نہیں رکھی گئی تھی۔ آخرت میں ایسے اعمال کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی فضول اور قابل حقارت چیز کی سی ہوگی جسے کوئی دیکھتے ہی فٹ بال کی طرح ٹھوکر مار کر ہوا میں اچھال دے۔ یہ ان دنیا پرست اور ریاکار لوگوں کے انجام کا نقشہ ہے جو ظاہر کی نیکیوں کے انبار لے کر میدان محشر میں آئیں گے۔ دنیا میں انہوں نے خیراتیں بانٹی تھیں ‘ یتیم خانے کھولے تھے ‘ ہسپتال بنائے تھے ‘ مسجدیں تعمیر کرائی تھیں ‘ مدارس کی سرپرستی کی تھی ‘ حج و عمرے کیے تھے ‘ مگر ان اعمال کو سرانجام دیتے ہوئے اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کے اجر وثواب کو کہیں بھیّ مد نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ کہیں عزت و شہرت حاصل کرنے کا جذبہ نیکی کا محرک بنا تھا تو کہیں پارسائی و پرہیزگاری کا سکہّ جمانے کی خواہش نے عبادات کا معمول اپنایا تھا۔ کبھی الیکشن جیتنے کی منصوبہ بندی نے خدمت خلق کا لبادہ اوڑھا تھا تو کبھی کاروباری ساکھ کو بہتر بنانے کے لالچ نے متقیانہ روپ دھارا تھا۔ غرض ہر نیکی کے پیچھے کوئی نہ کوئی دنیوی مفاد کارفرما تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو علیمٌ بذات الصدورّ ہے ‘ اس کے نزدیک ایسی کسی نیکی کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں۔ چناچہ ایسے بد قسمت لوگوں کی نیکیوں کے انبار اور اعمال صالحہ کے پہاڑ جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو انہیں گرد و غبار کے ذرّات کی طرح تحلیل کردیا جائے گا۔ یہ مضمون یہاں تیسری بار آیا ہے۔ سورة ابراہیم میں ایک تمثیل کے ذریعے ایسے اعمال کی بےبضاعتی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِنِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍط لاَ یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ ط ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ”مثال ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ ایسی ہے کہ ان کے اعمال ہوں راکھ کی مانند ‘ جس پر زور دار ہوا چلے آندھی کے دن۔ انہیں کچھ قدرت نہیں ہوگی ان اعمال میں سے کسی پر بھی جو انہوں نے کمائے ہوں گے۔ یہی تو ہے دور کی گمراہی“۔ پھر سورة ّ النور میں بغیر ایمان کی نیکیوں کی حقیقت ایک دوسری تمثیل میں یوں واضح کی گئی ہے : وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍم بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآءًط حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْءًا وَّوَجَدَ اللّٰہَ عِنْدَہٗ فَوَفّٰٹہُ حِسَابَہٗط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ”اور جو کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے سراب کسی چٹیل میدان میں ‘ پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے ‘ یہاں تک کہ وہ اس کے پاس آیا تو اس نے اسے کچھ نہ پایا ‘ البتہ اس نے اس کے پاس اللہ کو پایا ‘ تو اس نے پورا پورا چکا دیا اسے اس کا حساب۔ اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔“
وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنْزِيلًا
📘 آیت 23 وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَآءً مَّنْثُوْرًا ”یہ بہت عبرتناک منظر کی تصویر ہے۔ یہ دراصل ایسی نیکیوں کا ذکر ہے جن کی بنیاد ایمان حقیقی پر نہیں رکھی گئی تھی۔ آخرت میں ایسے اعمال کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی فضول اور قابل حقارت چیز کی سی ہوگی جسے کوئی دیکھتے ہی فٹ بال کی طرح ٹھوکر مار کر ہوا میں اچھال دے۔ یہ ان دنیا پرست اور ریاکار لوگوں کے انجام کا نقشہ ہے جو ظاہر کی نیکیوں کے انبار لے کر میدان محشر میں آئیں گے۔ دنیا میں انہوں نے خیراتیں بانٹی تھیں ‘ یتیم خانے کھولے تھے ‘ ہسپتال بنائے تھے ‘ مسجدیں تعمیر کرائی تھیں ‘ مدارس کی سرپرستی کی تھی ‘ حج و عمرے کیے تھے ‘ مگر ان اعمال کو سرانجام دیتے ہوئے اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کے اجر وثواب کو کہیں بھیّ مد نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ کہیں عزت و شہرت حاصل کرنے کا جذبہ نیکی کا محرک بنا تھا تو کہیں پارسائی و پرہیزگاری کا سکہّ جمانے کی خواہش نے عبادات کا معمول اپنایا تھا۔ کبھی الیکشن جیتنے کی منصوبہ بندی نے خدمت خلق کا لبادہ اوڑھا تھا تو کبھی کاروباری ساکھ کو بہتر بنانے کے لالچ نے متقیانہ روپ دھارا تھا۔ غرض ہر نیکی کے پیچھے کوئی نہ کوئی دنیوی مفاد کارفرما تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو علیمٌ بذات الصدورّ ہے ‘ اس کے نزدیک ایسی کسی نیکی کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں۔ چناچہ ایسے بد قسمت لوگوں کی نیکیوں کے انبار اور اعمال صالحہ کے پہاڑ جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو انہیں گرد و غبار کے ذرّات کی طرح تحلیل کردیا جائے گا۔ یہ مضمون یہاں تیسری بار آیا ہے۔ سورة ابراہیم میں ایک تمثیل کے ذریعے ایسے اعمال کی بےبضاعتی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِنِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍط لاَ یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ ط ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ”مثال ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ ایسی ہے کہ ان کے اعمال ہوں راکھ کی مانند ‘ جس پر زور دار ہوا چلے آندھی کے دن۔ انہیں کچھ قدرت نہیں ہوگی ان اعمال میں سے کسی پر بھی جو انہوں نے کمائے ہوں گے۔ یہی تو ہے دور کی گمراہی“۔ پھر سورة ّ النور میں بغیر ایمان کی نیکیوں کی حقیقت ایک دوسری تمثیل میں یوں واضح کی گئی ہے : وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍم بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآءًط حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْءًا وَّوَجَدَ اللّٰہَ عِنْدَہٗ فَوَفّٰٹہُ حِسَابَہٗط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ”اور جو کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے سراب کسی چٹیل میدان میں ‘ پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے ‘ یہاں تک کہ وہ اس کے پاس آیا تو اس نے اسے کچھ نہ پایا ‘ البتہ اس نے اس کے پاس اللہ کو پایا ‘ تو اس نے پورا پورا چکا دیا اسے اس کا حساب۔ اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔“
الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَٰنِ ۚ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا
📘 آیت 26 اَلْمُلْکُ یَوْمَءِذِنِ الْحَقُّ للرَّحْمٰنِ ط ”بادشاہی اور حکمرانی تو آج بھی اللہ ہی کی ہے ‘ لیکن دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے حقیقت کو مختلف پردوں میں چھپا رکھا ہے۔ آج بظاہر کئی صاحبان اختیار و اقتدار نظر آتے ہیں ‘ لیکن اس دن ہر طرح کا اختیار صرف اس بادشاہ حقیقی کے پاس ہی ہوگا۔
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا
📘 آیت 27 وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ ”عَضَّ یَعُضُّکے معنی دانتوں سے پکڑنا یا کاٹنا کے ہیں۔ سورة النور کی آیت 55 کے ضمن میں جو حدیث بیان ہوئی ہے اس میں مُلْکًا عَاضًّا کا لفظ اسی مادے سے مشتق ہے ‘ یعنی کاٹ کھانے والی ملوکیت۔ اس دن ہر گنہگار اور مجرم شخص حسرت و یاس کی تصویر بنا جھنجھلاہٹ اور پچھتاوے میں اپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے کاٹے گا۔یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا ”حسرت سے کہے گا کہ کاش میں نے رسول ﷺ کا ساتھ دیا ہوتا ‘ ان کا اتباعّ کیا ہوتا۔ ان کے ساتھیوں میں شامل ہوگیا ہوتا !
يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا
📘 آیت 28 یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا ”کہ میری زندگی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا تھا کہ میرے دل پر رسول اللہ ﷺ کی دعوت کی سچائی منکشف ہونا شروع ہوگئی تھی ‘ لیکن میرے فلاں دوست نے مجھے ورغلا کر پھر اس رستے سے بھٹکا دیا۔ کاش میں نے ایسے شخص کی دوستی اختیار نہ کی ہوتی !
لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنْسَانِ خَذُولًا
📘 آیت 29 لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَ نِیْ ط ذکر کے پہنچ جانے سے مراد ایک تو یہ ہے کہ مجھے اللہ کے رسول ﷺ نے پوری بات سنادی تھی اور دوسرے یہ کہ میری زندگی کے فلاں لمحے میں پیغامِ حق میرے دل کے تاروں کو چھیڑنے لگا تھا اور اس کی حقانیت میرے دل کی گہرائیوں میں اترنے لگی تھی۔ جیسے سورة النساء میں فرمایا گیا : وَقُلْ لَّہُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلاً م بَلِیْغًا کہ اے نبی ﷺ ! ان سے ایسی بات کہیے جو ان کی روح کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ چناچہ مذکورہ شخص اپنی ایسی ہی کیفیت کا اعتراف کرے گا کہ اس نصیحت ‘ یاد دہانی اور ہدایت کا ابلاغ میرے دل تک ہوچکا تھا ‘ لیکن افسوس کہ میرے ساتھی نے مجھے پھر سے گمراہ کردیا۔وَکَان الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا ”اور شیطان تو انسان کو آخر دغا دینے والا ہے۔“شیطان انسان کے ساتھ بڑا ہی بےوفائی کرنے والا اور آخر کار اسے اکیلا چھوڑ جانے والا ہے۔
وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا
📘 وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا ”یہ آیت اپنے مضمون کے اعتبار سے سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت سے بہت مشابہ ہے۔
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا
📘 آیت 30 وَقَال الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا ”تاویل خاص کے مطابق حضور ﷺ کی یہ شکایت قریش مکہّ کے بارے میں ہے کہ اے میرے پروردگار ! میں نے تیرا پیغام ان تک پہنچانے اور انہیں قرآن سنانے کی ہر امکانی کوشش کی ہے ‘ لیکن یہ لوگ کسی طرح اسے سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ‘ جبکہ اس آیت کی تاویل عام یہ ہے کہ حضور ﷺ کی یہ شکایت قیامت کے دن اپنی امت کے ان افراد کے خلاف ہوگی جو اس ”مہجوری“ کے مصداق ہیں ‘ کہ ان لوگوں نے قرآن کو لائقِ التفات ہی نہ سمجھا۔ علامہ اقبال کے اس مصرعے میں اسی آیت کی تلمیح پائی جاتی ہے : ع ”خوار از مہجورئ قرآں شدی“ کہ اے مسلمان آج تو اگر ذلیل و خوار ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔اس سلسلے میں ایک بہت اہم اور قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ قریش مکہّ نے تو اپنی خاص ضد اور ڈھٹائی میں قرآن کو اس موقف کے تحت ترک کیا تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ہی نہیں اور محمد ﷺ نے خود اپنی طرف سے اسے گھڑلیا ہے۔ لیکن آج اگر کوئی شخص کہے کہ میں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں اور اسے اللہ کا کلام مانتا ہوں ‘ مگر عملی طور پر اس کا رویہ ایسا ہو کہ وہ قرآن کو لائقِ اعتناء نہ سمجھے ‘ نہ اسے پڑھنا سیکھے ‘ نہ کبھی اس کے پیغام کو جاننے کی کوشش کرے تو گویا اس کے حال یا عمل نے اس کے ایمان کے دعوے کی تکذیب کردی۔ چناچہ اس آیت کے حاشیے ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسن رح میں مولانا شبیر احمد عثمانی رح اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں : ”آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا ‘ اس میں تدبر نہ کرنا ‘ اس پر عمل نہ کرنا ‘ اس کی تلاوت نہ کرنا ‘ اس کی تصحیح قراءت کی طرف توجہ نہ کرنا ‘ اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا ‘ یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجران قرآن کے تحت میں داخل ہوسکتی ہیں۔“ مقام غور ہے کہ آج اگر ہم اپنی دنیا سنوارنے کے لیے انگریزی زبان میں تو مہارت حاصل کرلیں لیکن قرآن کا مفہوم سمجھنے کے لیے عربی زبان کے بنیادی قواعد سیکھنے کی ضرورت تک محسوس نہ کریں ‘ تو قرآن پر ہمارے ایمان کے دعوے اور اس کو اللہ کا کلام ماننے کی عملی حیثیت کیا رہ جائے گی ؟ چناچہ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآن کے حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل کرے ‘ اس سلسلے میں عملی تقاضوں کو سمجھے اور ان تقاضوں پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتا رہے۔ اس موضوع پر میرا ایک نہایت جامع کتابچہ ”مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق“ دستیاب ہے۔ اس کا انگلش ‘ عربی ‘ فارسی اور ملایا زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ قرآن کے حقوق کا ادراک حاصل کرنے کے لیے اس کتابچے کا مطالعہ ان شاء اللہ بہت مفید ثابت ہوگا۔
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ ۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا
📘 آیت 31 وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ ط ”یہ مضمون سورة الانعام کی آیت 112 میں بھی آچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی آزمائش کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کی مخالفت کی بھٹی خوب گرم ہو ‘ ان کے خلاف کشمکش اور تصادم کا ماحول بنے اور باطل کے مقابلے میں انہیں عملی طور پر میدان کارزار میں اترنا پڑے تاکہ کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہو اور ایمان کے سچے دعویدار نکھر کر سامنے آجائیں۔ ورنہ اگر ٹھنڈی سڑک پرچہل قدمی کرتے ہوئے جنت تک پہنچنا ہو تو کوئی بھی اس سعادت میں پیچھے نہیں رہے گا۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے : حُجِبَتِ النَّار بالشَّھَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بالْمَکَارِہِ 1یعنی جہنم کو انسان کے مرغوبات نفس سے ڈھانپ دیا گیا ہے ‘ جبکہ جنت کو ایسی چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے جو انسان کو ناپسند اور ناگوار ہیں۔حق کے راستے پر چلتے ہوئے انسان کو طرح طرح کی تکلیفیں اٹھانا پڑتی ہیں ‘ مصائب جھیلنے پڑتے ہیں اور کٹھن آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس مضمون کو سورة البقرۃ ‘ آیت 155 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط ”اور ہم ضرور آزمائیں گے تمہیں کسی قدر خوف سے ‘ بھوک سے اور جان و مال اور فصلوں کے نقصان سے“۔ مصیبتوں اور آزمائشوں کی اس چھلنی کے ذریعے اللہ اپنے ان بندوں کو چھانٹ کر الگ کرلیتا ہے جو جنت کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوں اور پھر ان لوگوں سے جنت کا سودا کرتا ہے : اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ ط التوبۃ : 111 ”یقیناً اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔“وَکَفٰی بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَّنَصِیْرًا ”جو شخص ہدایت کا طلب گار ہو اسے اللہ ہدایت بھی دیتا ہے اور پھر اس رستے پر چلانے کے لیے اس کی مدد بھی کرتا ہے۔
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا
📘 آیت 32 وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً ج ” قریش مکہّ کا قرآن پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر واقعی یہ اللہ کا کلام ہے تو پھر اکٹھا ایک ساتھ ہی نازل کیوں نہیں ہوجاتا ؟ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پوری کی پوری تورات تختیوں پر لکھی ہوئی ایک ہی دفعہ دے دی گئی تھی۔ قرآن کو تھوڑا تھوڑا پیش کرنے سے مشرکین کو حضور ﷺ پر ایک شاعر کا گمان ہوتا تھا ‘ کیونکہ شاعر لوگ بھی ایک دم سے اپنا پورا کلام پیش نہیں کرسکتے۔ وہ ایک ایک دو دو غزلیں یا نظمیں لکھتے رہتے ہیں اور مدت کے بعد جا کر کہیں ان کے دیوان مکمل ہوتے ہیں۔کَذٰلِکَج لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ ”اس کو ہم اچھی طرح آپ ﷺ کے ذہن نشین کرتے رہیں اور اس پر آپ ﷺ کا دل پوری طرح ٹھک جائے۔وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا ”قرآن کو تھوڑا تھوڑا نازل کرنے میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان کو ہر موقع محل کے مطابق بر وقت راہنمائی ملتی رہے۔ اس کے علاوہ اس میں اہل ایمان کے لیے تسلی اور تسکین کا پہلو بھی تھا کہ اللہ ہمارے حالات کو دیکھ رہا ہے۔ مشکل حالات میں سابقہ قوموں کے حالات پڑھ کر ان کے دلوں کو سہارا ملتا تھا کہ جس طرح اللہ نے حضرت نوح ‘ حضرت ہود اور حضرت صالح f کے ساتھیوں کی مدد کی تھی اور ان کے دشمنوں کو ملیا میٹ کردیا تھا اسی طرح وہ ہمیں بھی کامیاب کرے گا۔
وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا
📘 آیت 33 وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِءْنٰکَ بالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا ”قرآن حکیم کو جزءً ا جزءً ا نازل کرنے میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ جب کبھی بھی مخالفین اور معترضین کی طرف سے کوئی اعتراض یا سوال اٹھایا جاتا ہے تو وحی کے ذریعے اس کا مبنی برحق اور مفصل جواب آپ ﷺ کو بتادیا جاتا ہے۔
الَّذِينَ يُحْشَرُونَ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ إِلَىٰ جَهَنَّمَ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ سَبِيلًا
📘 آیت 33 وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِءْنٰکَ بالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا ”قرآن حکیم کو جزءً ا جزءً ا نازل کرنے میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ جب کبھی بھی مخالفین اور معترضین کی طرف سے کوئی اعتراض یا سوال اٹھایا جاتا ہے تو وحی کے ذریعے اس کا مبنی برحق اور مفصل جواب آپ ﷺ کو بتادیا جاتا ہے۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَارُونَ وَزِيرًا
📘 آیت 35 وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنَا مَعَہٗٓ اَخَاہُ ہٰرُوْنَ وَزِیْرًا ”حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد اور معاونت کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام کو ان کے مددگار کے طور پر رسالت کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔ وزیر ”وِزر“ بوجھ سے ہے ‘ یعنی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے میں معین و مددگار۔
فَقُلْنَا اذْهَبَا إِلَى الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَدَمَّرْنَاهُمْ تَدْمِيرًا
📘 آیت 36 فَقُلْنَا اذْہَبَآ اِلَی الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاط فَدَمَّرْنٰہُمْ تَدْمِیْرًا ”یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا گیا اور ان لوگوں کے مسلسل انکار کے باعث بالآخر انہیں سمندر میں غرق کر کے نیست و نابود کردیا گیا۔
وَقَوْمَ نُوحٍ لَمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ أَغْرَقْنَاهُمْ وَجَعَلْنَاهُمْ لِلنَّاسِ آيَةً ۖ وَأَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ عَذَابًا أَلِيمًا
📘 وَاَعْتَدْنَا للظّٰلِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا ”یعنی پیغمبروں کی تکذیب کرنے والی ان قوموں کو عذاب استیصال کی صورت میں نقد سزا تو دنیا ہی میں مل گئی تھی مگر اصل عذاب ابھی ان کا منتظر ہے۔ یہ عذاب انہیں آخرت میں ملے گا اور وہ بیحد تکلیف دہ ہوگا۔
وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَيْنَ ذَٰلِكَ كَثِيرًا
📘 آیت 38 وَّعَادًا وَّثَمُوْدَا وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًام بَیْنَ ذٰلِکَ کَثِیْرًا ””اصحاب الرس“ کے بارے میں صراحت نہیں ملتی کہ یہ کون سی قوم تھی اور ان کا زمانہ اور علاقہ کون سا تھا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کو کسی کنویں میں بند کردیا تھا۔ اس لیے انہیں کنویں والے کہا گیا ہے۔
وَكُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْأَمْثَالَ ۖ وَكُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِيرًا
📘 آیت 39 وَکُلًّا ضَرَبْنَا لَہُ الْاَمْثَالَز ”اپنے اپنے وقت پر ان سب قوموں کو راہ ہدایت پر لانے کے لیے ان کے ماحول اور حالات کے مطابق ہم ٹھوس دلائل اور واضح حقائق پر مبنی تعلیمات ان کے سامنے پیش کرتے رہے۔
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ ۖ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا
📘 آیت 4 وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اِفْکُ نِ افْتَرٰٹہُ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ ج ”قرآن مجید میں فراہم کردہ معلومات اور تفصیلات کو دیکھتے ہوئے مشرکین مکہ یہ سمجھتے تھے کہ کوئی بھی اکیلا آدمی ایسا کلام مرتب نہیں کرسکتا۔ چناچہ وہ حضور ﷺ پر یہ الزام لگاتے تھے کہ آپ ﷺ کے پیچھے کچھ اور لوگ بھی ہیں جو خفیہ طور پر اس کتاب کی تصنیف میں آپ ﷺ کی مدد کر رہے ہیں۔ گویا آپ ﷺ نے اس کام کے لیے ایک ادارۂ تحریر تشکیل دے رکھا ہے۔فَقَدْ جَآءُ وْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا ”یعنی ایسی باتیں کر کے یہ لوگ یقینی طور پر افترا اور ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ۚ أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَوْنَهَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ نُشُورًا
📘 آیت 40 وَلَقَدْ اَتَوْا عَلَی الْقَرْیَۃِ الَّتِیْٓ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ط ”اس سے سدوم اور عامورہ کی بستیاں مراد ہیں جن کی طرف حضرت لوط علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ بدترین بارش سے مراد پتھروں کی بارش ہے ‘ جس کا ذکر قرآن حکیم میں کئی جگہ آیا ہے۔اَفَلَمْ یَکُوْنُوْا یَرَوْنَہَا ج ”سفر شام کے دوران آتے جاتے قریش کے تجارتی قافلے جب ان بستیوں کے کھنڈرات کے پاس سے گزرتے ہیں تو کیا یہ لوگ انہیں نگاہ عبرت سے نہیں دیکھتے ؟بَلْ کَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا ”اصل بات یہ ہے کہ انہیں بعث بعد الموت پر یقین نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایسے عبرت انگیز حقائق پر سے یہ لوگ بغیر کوئی سبق حاصل کیے اندھوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔
وَإِذَا رَأَوْكَ إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا
📘 آیت 41 وَاِذَا رَاَوْکَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ہُزُوًا ط ”قریش مکہ کے ہاں حضور ﷺ کی دعوت کی مخالفت کا یہ بھی ایک طریقہ تھا کہ وہ بات سننے کے لیے کبھی سنجیدہ نہ ہوتے اور آپ ﷺ کی دعوت کو ہمیشہ مذاق میں اڑا دیتے۔ نہ وہ آپ ﷺ کی بات کو کبھی سنجیدگی سے سنتے ‘ نہ کبھی اس پر غور کرتے اور نہ ہی اس کا کوئی سنجیدہ جواب دیتے۔اَہٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ رَسُوْلًا۔ ”یہ اور اس طرح کے دوسرے جملوں کے ذریعے وہ لوگ آپ ﷺ کا تمسخر اڑاتے تھے۔
إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَنْ صَبَرْنَا عَلَيْهَا ۚ وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا
📘 آیت 42 اِنْ کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ اٰلِہَتِنَا لَوْلَآ اَنْ صَبَرْنَا عَلَیْہَا ط ”اگر ہم نے اپنے ان معبودوں کے ساتھ وفاداری کا رشتہ استوار نہ کر رکھا ہوتا تو یہ شخص ضرور ہمیں ان سے برگشتہ کر کے راستے سے بھٹکا دیتا۔ وَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ حِیْنَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ اَضَلُّ سَبِیْلًا ”انہیں بہت جلد یہ حقیقت معلوم ہوجائے گی کہ اصل گمراہ کون تھا ؟ جنہیں یہ گمراہی کا الزام دیتے ہیں وہ یا یہ خود !
أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا
📘 آیت 43 اَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰٹہُ ط ”یہاں شرک کی ایک بہت اہم قسم بیان ہوئی ہے ‘ جو ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس پر بڑے بڑے موحدینّ کو غور کرنا چاہیے کہ دراصل شرک صرف ”یا علی مدد !“ کا نعرہ لگانے یا قبر پرستی تک ہی محدود نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ کے کسی واضح حکم کے مقابلے میں خواہش نفس پر عمل پیرا ہونا بھی شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ انسان کو اس کا نفس ہر وقت دنیا سمیٹنے اور زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کے حسین خواب دکھاتا ہے۔ وہ حرام کو اپنانے کے لیے ُ پر کشش تو جیہات پیش کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ آج کے بینک کا سود حرام نہیں ہے ‘ پرانے دور میں تو سود کو اس لیے حرام کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے سے غرباء کا استحاصل ہوتا تھا ‘ آج کے بینکنگ نظام پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ‘ آج تو بینک کی معاونت کے بغیر کوئی کاروبار چل ہی نہیں سکتا ‘ اس لیے بینک کے تعاون سے فلاں کاروبار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ چناچہ اگر کسی شخص نے اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال کر اپنے نفس کی بات مان لی تو گویا وہ اپنے نفس کا بندہ بن گیا۔ اب اس کا نفس ہی اس کا ”مطاع“ ہے اور جو کوئی بھی کسی کا اصل مطاع ہوگا وہی اس کا معبود ہوگا۔عبادت در اصل مکمل غلامی کا نام ہے۔ جس طرح ایک غلام اپنے آقا کا ہر حکم ماننے کا پابند ہے اسی طرح ایک بندے عبد پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے معبود کی مکمل فرمانبرداری کرے اور اس کے کسی بھی حکم سے سرتابی نہ کرے۔ عبادت کا یہ مفہوم سورة المؤمنون میں درج فرعون کے اس جملے سے اور بھی واضح ہوجاتا ہے : وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ کہ ان دونوں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی قوم ہماری غلام اور اطاعت شعار ہے۔ اب اگر کوئی شخص زبان سے توحید پرستی کا دعویٰ کرے ‘ لَا اِلٰہ الاَّ اللّٰہ کے وظیفے کرے اور چلے ّ کاٹے ‘ لیکن عملاً اطاعت اور فرمانبرداری اپنے نفس کی کرے تو حقیقت میں وہ توحید پرست نہیں بلکہ نفس پرست ہے اور اس کا نفس ہی اصل میں اس کا معبود ہے۔
أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا
📘 آیت 44 اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ ط ”یہ لوگ آپ ﷺ کی محفل میں کچھ سننے اور سمجھنے کے لیے نہیں آتے بلکہ یہ تو اپنے عوام کو دھوکا دینے کے لیے آتے ہیں تاکہ واپس جا کر انہیں بتاسکیں کہ ہم تو بڑے اہتمام کے ساتھ گئے تھے کہ محمد ﷺ کی باتوں کو خود سنیں اور سمجھیں لیکن ان سے تو ہمیں کوئی خاص بات سننے کو ملی ہی نہیں۔اِنْ ہُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا ”چوپائے تو کسی کلام کے مفہوم کو سمجھنے سے اس لیے معذور ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اس سطح کا شعور ہی نہیں دیا ‘ لیکن یہ لوگ انسان ہو کر بھی عقل اور شعور سے کام نہیں لیتے۔ اس لحاظ سے یہ لوگ چوپایوں اور جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں۔
أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا
📘 آیت 45 اَلَمْ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ ج ”جب رات ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے پوری زمین پر ایک سیاہ چادر اوڑھا دی گئی ہے۔وَلَوْ شَآءَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا ج ”اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو پوری زمین پر ہمیشہ رات ہی رہتی ‘ دن کا اجالا کبھی نمودار ہی نہ ہوتا۔ جیسے کہ سورة القصص میں فرمایا گیا : قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِضِیَآءٍط اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ ”اے نبی ﷺ ! ان لوگوں سے پوچھئے : کیا تم نے غور کیا کہ اگر اللہ روز قیامت تک ہمیشہ کے لیے تم پر رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں روشنی لادے ؟ کیا تم سنتے نہیں ہو ؟“ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلًا ”تُعْرَفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِھَا چیزیں اپنی مخالف چیزوں سے پہچانی جاتی ہیں کے مصداق سورج کے وجود سے ہی ہمیں روشنی اور تاریکی کا پتاچلتا ہے۔
ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا
📘 آیت 46 ثُمَّ قَبَضْنٰہُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا ”جب سورج طلوع ہوتا ہے تو سائے بہت لمبے ہوتے ہیں۔ پھر جوں جوں سورج اوپر اٹھتا ہے تو آہستہ آہستہ سمٹنا شروع ہوجاتے ہیں جیسے کوئی ان کی طنابیں کھینچ رہا ہو۔
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا
📘 آیت 47 وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِبَاسًا وَّالنَّوْمَ سُبَاتًا وَّجَعَلَ النَّہَارَ نُشُوْرًا ”رات کو انسانوں کے آرام کرنے کے لیے موزوں کیا ‘ اور دن کے ماحول کو ان کے کام کاج کرنے کے لیے سازگار بنایا۔
وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا
📘 آیت 48 وَہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًام بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ ج ”بادلوں کے آگے آگے ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے گویا باران رحمت کی نوید سناتے جاتے ہیں۔وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَہُوْرًا ”بارش کا پانی پاک بھی ہے اور پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی۔ جب یہ پانی برستا ہے تو سب سے پہلے فضا کی آلودگی کو صاف کرتا ہے۔ پھر زمین کی بہت سی آلودگیوں کو سمندر میں بہا لے جاتا ہے۔ سمندر کے پانی سے بخارات کی صورت میں بالکل صاف اور ہر آلودگی سے پاک پانی پھر سے فضا میں پہنچ کر بادل کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ cycle چلتا رہتا ہے۔
لِنُحْيِيَ بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا وَنُسْقِيَهُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا
📘 آیت 49 لِّنُحْیِیَ بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا وَّنُسْقِیَہٗ مِمَّا خَلَقْنَآ اَنْعَامًا وَّاَنَاسِیَّ کَثِیْرًا ”جہاں یہ پانی بہت سی آلودگیوں کو صاف کرتا ہے وہاں یہ جانوروں اور انسانوں کے پینے کے کام بھی آتا ہے۔ میڈیکل سائنس کی نظر سے دیکھا جائے تو انسانی یا حیوانی جسم کے اندر استعمال ہو کر پانی کہیں ختم consume نہیں ہوجاتا بلکہ یہاں بھی وہ جسم کے اندرونی نظام کو چلانے اور اس کی صفائی کرنے کا کام کرتا ہے۔ پانی کے ذریعے سے ہی جسم کے اندر خون کی گردش circulation ممکن ہوتی ہے اور metabolism کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فاضل اور نقصان دہ فضلات کا معدے ‘ گردوں ‘ پھیپھڑوں وغیرہ سے اخراج ممکن ہوتا ہے۔
وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
📘 آیت 5 وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا ”کَتَبَ یَکْتُبُ : لکھنا۔ اس سے اِکْتَتَبَ باب افتعال ہے ‘ یعنی کسی سے لکھوا لینا۔فَہِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا ”ان کے پیچھے خفیہ طور پر جو لوگ یہ قصے کہانیاں گھڑ رہے ہیں وہ صبح شام ان سے ملتے ہیں اور اپنی گھڑی ہوئی باتیں انہیں لکھوا دیتے ہیں۔ پھر وہی باتیں یہ ہمیں سنا کر دھونس جماتے ہیں کہ مجھ پر وحی آئی ہے۔
وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا
📘 آیت 50 وَلَقَدْ صَرَّفْنٰہُ بَیْنَہُمْ لِیَذَّکَّرُوْاز ”سمندر کے بخارات سے بادلوں کا بننا ‘ اربوں ٹن پانی کا ہواؤں کے دوش پر ہزاروں میلوں کے فاصلے طے کر کے مختلف علاقوں میں بارش برسانا ‘ ان بارشوں سے ندی نالوں اور دریاؤں کے سلسلوں کا جنم لینا ‘ انسانی آبادیوں سے میلوں کی بلندیوں پر گلیشیرز کی صورت میں پانی کے کبھی نہ ختم ہونے والے ذخائر over head tanks کا وجود میں آنا ‘ پھر گلیشیرز کا پگھل پگھل کر ایک تسلسل کے ساتھ انسانی ضرورتوں کی سیرابی کا ذریعہ بننا ‘ اور اس سب کچھ کے بعد فالتو پانی کا پھر سے سمندر میں پہنچ جانا ! یہ ہے پانی کی گردش water cycle کا عظیم الشان نظام جو قدرت کے بڑے بڑے عجائبات میں سے ہے اور زبان حال سے انسانی عقل و شعور کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اس کے خالق کو پہچانے اور اس پر ایمان لائے۔ فَاَبآی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا ”اس سب کے باوجود اکثر لوگ ناشکری ہی پر اڑے ہوئے ہیں اور اس کے سوا کوئی دوسرا طرزعمل اختیار کرنے سے انکاری ہیں۔
وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ نَذِيرًا
📘 آیت 51 وَلَوْ شِءْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ نَّذِیْرًا ”اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر بستی میں بھی پیغمبر بھیج سکتے تھے ‘ لیکن عام طور پر ایک قوم کی طرف ایک پیغمبر ہی مبعوث کیا جاتا رہا ہے۔ جیسا کہ سورة الرعد میں فرمایا گیا : وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ کہ ہر قوم کی طرف ایک پیغمبر بھیجا گیا۔ اور یہ پیغمبر ہمیشہ ایسے شہر میں مبعوث کیا جاتا تھا جو متعلقہ قوم یا علاقے کے ثقافتی ‘ علمی ‘ تہذیبی اور سیاسی مرکز کی حیثیت سے معروف ہوتا تھا۔ کیونکہ کسی بھی علاقے کے عوام ہر پہلو سے اپنے مرکزی شہر میں پروان چڑھنے والے رجحانات کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی قانون اور اصول سورة القصص کی آیت 59 میں اس طرح بیان ہوا ہے : وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا ”اور آپ کا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھا جب تک کہ وہ ان کی مرکزی بڑی بستی میں کوئی رسول نہ بھیج دیتا۔“
فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا
📘 آیت 52 فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ ”یہاں پر لفظ اطاعت حکم کی تعمیل کے مفہوم میں نہیں آیا ‘ بلکہ اس فقرے کا مفہوم سمجھنے کے لیے ان حالات کے بارے میں جاننا ضروری ہے جو اس سورت کے نزول کے وقت حضور ﷺ کو مکہّ میں درپیش تھے۔ اس وقت مکہ کی فضا انتہائی کشیدہ تھی اور حضور ﷺ پر ہر طرف سے شدید دباؤ تھا۔ ان حالات میں اکثر لوگ آپ ﷺ کو مشورے دیتے تھے اور بار بار سمجھاتے تھے کہ آپ ﷺ نے اپنی پوری قوم کے ساتھ جو لڑائی مول لے رکھی ہے یہ مناسب حکمت عملی نہیں ہے۔ اس سے قبیلے میں پھوٹ پڑجائے گئی ‘ بھائی بھائی سے کٹ جائے گا ‘ اولاد والدین سے ُ جدا ہوجائے گی ‘ قبیلے کی بنی بنائی ساکھ برباد ہوجائے گی اور اس کے نتائج سب کے لیے بہت بھیانک ہوں گے۔ اگر آپ ﷺ اپنے موقف میں تھوڑی سی لچک پیدا کرلیں تو صلح صفائی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے اور حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ چناچہ کشمکش کے اس ماحول میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب ولید بن مغیرہ سمیت قریش کے اکثر اکابرین چاہتے تھے کہ آپ ﷺ کی کچھ باتیں تسلیم کرلی جائیں ‘ اس کے جواب میں آپ ﷺ بھی اپنے موقف میں کچھ لچک پیدا کریں ‘ اس طرح کوئی درمیانی راہ نکل آئے اور تصادم کا خطرہ ٹل جائے۔ لیکن اہل مکہّ کی اس سوچ اور کوشش کے باوجود آپ ﷺ اپنے موقف پر پوری تندہی اور دل جمعی سے ڈٹے ہوئے تھے۔ ان حالات میں ایک طرف اہل ایمان پر عرصۂ حیات تنگ ہو رہا تھا تو دوسری طرف آپ ﷺ پر شدید نوعیت کا معاشرتی دباؤ تھا۔ اس صورت حال کی نزاکت اور شدت کی ایک جھلک سورة بنی اسرائیل کی ان آیات سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے : وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗق وَاِذًا لاَّتَّخَذُوْکَ خَلِیْلاً وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْہِمْ شَیْءًا قَلِیْلاً ”اے نبی ﷺ ! ! یہ لوگ تو تلے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کو فتنے میں ڈال کر اس سے بچلا دیں جو ہم نے آپ ﷺ کی طرف وحی کی ہے تاکہ آپ ﷺ کچھ اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیں۔ اور اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ آپ ﷺ کو اپنا گاڑھادوست بنا لیتے۔ اور اگر ہم نے آپ ﷺ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ آپ ﷺ ان کی طرف کچھ نہ کچھ مائل ہو ہی جاتے“۔ اس سیاق وسباق میں آیت زیر نظر کے ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی کسی بات کو قبول کرنا تو درکنار آپ ﷺ ان لوگوں کی باتوں کی طرف بالکل دھیان ہی نہ دیں۔ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا ”ان مشکل حالات میں آپ ﷺ کو قرآن کے ذریعے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ چناچہ مکہّ میں بارہ سال تک آپ ﷺ نے جو جہاد کیا وہ جہاد بالسیف نہیں تھا بلکہ جہاد بالقرآن تھا۔ اس جہاد کی آج پھر ہمارے معاشرے میں شدید ضرورت ہے۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے میری کتاب ”جہاد بالقرآن اور اس کے پانچ محاذ“ کا مطالعہ مفید رہے گا ‘ جو میری دو تقاریر پر مشتمل ہے۔ بہر حال آج ہمیں اپنے قومی و ملکی مسائل کے حل کے لیے قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر جہاد کرنے اور قرآنی دعوت ‘ تربیت ‘ تزکیہ ‘ انذار اور تبشیر کے ذریعے سے ِ اقامت دین کے لیے ایک بھر پور انقلابیّ جدوجہد برپا کرنے کی ضروت ہے۔ ہمارے اجتماعی مسائل کا حل بھی یہی ہے اور ہمارے اندرونی امراض کی دوا وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ یونس : 57 بھی اسی میں ہے۔
۞ وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا
📘 ہٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّہٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ج ”اس کی قدرت سے نمکین اور کھارے سمندر کے اندر میٹھے پانی کی رو بھی بہہ رہی ہے۔وَجَعَلَ بَیْنَہُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا ”یہ پردہ ‘ آڑ یا روک نظر آنے والی کوئی چیز تو نہیں ہے ‘ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی صناعیّ کا شاہکار ہے کہ میٹھا پانی کڑوے پانی کے ساتھ سمندر کے اندر دور تک ملنے نہیں پاتا۔
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
📘 آیت 54 وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا ”پانی سے یہاں انسان کا مادۂ تولید بھی مراد ہوسکتا ہے اور عام پانی بھی ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار چیز پانی سے ہی پیدا کی ہے۔فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًاط وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا ”انسان کا نسب تو اس کے والدین سے چلتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی بیوی کے حوالے سے دوسرے خاندان کے ساتھ بھی اس کا رشتہ اور تعلق جوڑا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ساس اور سسر کو بھی اللہ تعالیٰ نے والدین جیسا تقدس اور احترام عطا کیا ہے۔ سسرالی رشتہ داریاں اگر نہ ہوتیں تو قبیلوں اور خاندانوں کا معاشرے میں باہمی ارتباط و اختلاط ممکن نہ ہوتا اور ہر خاندان دوسرے خاندان سے الگ تھلگ رہتا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے سسرالی رشتوں کا تانا بانا اس طرح سے ُ بن رکھا ہے کہ اس سے نوع انسانی باہم مربوط ہوتی چلی جاتی ہے۔
وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ ۗ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَىٰ رَبِّهِ ظَهِيرًا
📘 وَکَانَ الْکَافِرُ عَلٰی رَبِّہٖ ظَہِیْرًا ”یہ لوگ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہی نہیں۔ ظھیر کا معنی مددگار بھی ہے اور علٰی مخالفت کے لیے آتا ہے۔ اس طرح ان الفاظ کا مفہوم ہوگا کہ کافر لوگ اپنے رب کے خلاف دوسروں کے مددگار بنتے ہیں۔
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
📘 آیت 56 وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ”تا کہ جو لوگ حق کا راستہ اختیار کرلیں انہیں اللہ کی رحمتوں اور جنت کی نعمتوں کی بشارت دیں : فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌلا وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ الواقعہ۔ اور جو لوگ انکار پر مصر رہیں انہیں جہنم کے عذاب سے خبردار کریں۔
قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا
📘 آیت 57 قُلْ مَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا ”آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ میں تمہیں دعوت دینے اور قرآن سنانے میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہوں ‘ لیکن میں نے اس کے عوض تم لوگوں سے کبھی کوئی اجرت نہیں مانگی ‘ کبھی کسی معاوضے کا مطالبہ نہیں کیا۔ تم لوگ مجھ پر شاعر ‘ کاہن اور جادوگر ہونے کا الزام تو دھرتے ہو ‘ مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ شاعر ‘ کاہن ‘ جادوگر وغیرہ سب تو ہر وقت معاوضے اور انعام کے لالچ میں رہتے ہیں ‘ جبکہ میں تو محض اخلاص اور تمہاری خیر خواہی کی بنیاد پر دعوت دین کی خدمت سر انجام دے رہا ہوں۔ اس میں میرا اجر یا معاوضہ ہے تو صرف اس قدر کہ تم میں سے کسی کو اپنے رب کے راستے پر آنے کی توفیق مل جائے ‘ اور اس میں بھی تمہارا ہی فائدہ ہے نہ کہ میری کوئی غرض یا منفعت !
وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ ۚ وَكَفَىٰ بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا
📘 وَکَفٰی بِہٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِیْرَا ”کافر لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے کرتوتوں کو کوئی دیکھ نہیں رہا ہے۔ وہ اللہ جو الحی اور القیوم ہے اور اپنے بندوں کے حال پر ہر آن نظر رکھے ہوئے ہے۔ ان لوگوں کی ایک ایک حرکت اور ایک ایک بات جواب دہی کے لیے اس کے ہاں ریکارڈ ہو رہی ہے۔ دوسری طرف اہل ایمان کے نیک اعمال کی بھی ایک ایک تفصیل لکھی جا رہی ہے تاکہ انہیں ان کا بھر پور بدلہ دیا جاسکے۔
الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا
📘 اَلرَّحْمٰنُ فَسْءَلْ بِہٖ خَبِیْرًا ”اللہ تعالیٰ کی صفات اور شان کے بارے میں جاننا چاہتے ہو تو کسی صاحب علم سے پوچھو ! جب کبھی انسان اپنے متعلق سوچتا ہے یا اس کائنات کی تخلیق کے بارے میں غور کرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے ‘ اس کائنات کو پیدا کیا ہے۔ چناچہ وہ اپنے خالق کے بارے میں جاننا چاہتا ہے ‘ اس تک رسائی چاہتا ہے ‘ اسے پانا چاہتا ہے۔ یہ سوچ اور یہ تجسسّ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ انسانی فطرت کی اسی آواز کو کسی شاعر نے الفاظ کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے : مجھ کو ہے تیری جستجو ‘ مجھ کو تری تلاش ہے خالق مرے کہاں ہے تو ؟ مجھ کو تری تلاش ہے !انسانی فطرت کی اسی جستجو اور اسی تلاش کی راہنمائی کے لیے فرمایا گیا کہ اس کے بارے میں ایسے لوگوں سے پوچھو جو اس سے آشنائی رکھتے ہوں ‘ اسے پانے کے لیے ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرو جن کی اس کے ساتھ دوستی ہو : وَکُوْنُوْا مَعَ الصّدِقین۔ التوبۃ کہ ایسے لوگوں کی صحبت سے ہی تمہیں اللہ کی معرفت حاصل ہوگی۔
قُلْ أَنْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا
📘 آیت 5 وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا ”کَتَبَ یَکْتُبُ : لکھنا۔ اس سے اِکْتَتَبَ باب افتعال ہے ‘ یعنی کسی سے لکھوا لینا۔فَہِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا ”ان کے پیچھے خفیہ طور پر جو لوگ یہ قصے کہانیاں گھڑ رہے ہیں وہ صبح شام ان سے ملتے ہیں اور اپنی گھڑی ہوئی باتیں انہیں لکھوا دیتے ہیں۔ پھر وہی باتیں یہ ہمیں سنا کر دھونس جماتے ہیں کہ مجھ پر وحی آئی ہے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا ۩
📘 آیت 60 وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا للرَّحْمٰنِج قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُق ” مشرکین مکہّ کے لیے اللہ کا لفظ تو معروف تھا مگر رحمن سے وہ واقف نہیں تھے۔ چناچہ وہ حضور ﷺ پر یہ اعتراض بھی کرتے تھے کہ اللہ کے بجائے آپ رحمن کا نام کیوں لیتے ہیں ؟ یہ نیا نام ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا ”یعنی ہم آپ ﷺ کے کہنے پر اسے سجدہ کیوں کریں ؟ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ہم نے آپ ﷺ کی بات تسلیم کرلی اور آپ ﷺ جیت گئے۔ یہی وہ ضد ہے جسے قرآن میں ”شِقَاق“ کہا گیا ہے۔ اس ضد اور تعصب میں وہ لوگ آپ ﷺ کی مبنی بر حقیقت بات بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔وَزَادَہُمْ نُفُوْرًا ”یعنی اس طرح حق سے ان کی نفرت مزید بڑھ رہی ہے اور ان کے جذبۂ فرار میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا
📘 اب اس سورة کا آخری رکوع شروع ہو رہا ہے جو ہمارے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا ایک اہم درس درس نمبر 11 بھی ہے۔ منتخب نصاب کے حصہ اول میں چار جامع اسباق ہیں۔ ان میں سے دوسرا درس آیت البر سورۃ البقرۃ کی آیت 177 پر مشتمل ہے ‘ جس کا مطالعہ ہم کرچکے ہیں۔ حصہ دوم میں ”مباحث ایمان“ کے عنوان کے تحت پانچ دروس ہیں جن میں سے تین مقامات سورۃ الفاتحہ ‘ سورة آل عمران کے آخری رکوع کی آیات اور سورة النور کی آیات نور یعنی پانچواں رکوع کا مطالعہ ہم اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ منتخب نصاب کا تیسرا حصہ ”مباحث عمل صالح“ پر مشتمل ہے اور اس حصے کا پہلا درس سورة المؤمنون کی ابتدائی آیات کے حوالے سے ہے ‘ جن کا مطالعہ ہم کرچکے ہیں۔ ان آیات میں ایک بندۂ مؤمن کی سیرت کی تعمیر کے لیے بنیادی اساسات کے بارے میں راہنمائی کی گئی ہے ‘ جبکہ سورة الفرقان کے آخری رکوع کی جن آیات کا مطالعہ اب ہم کرنے چلے ہیں منتخب نصاب کے تیسرے حصے کا دوسرا درس ان آیات کے حوالے سے ہے ان میں بندۂ مؤمن کی تعمیر شدہ mature شخصیت و سیرت کے خصائص اور خدوخال کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ لیکن اس موضوع کو شروع کرنے سے پہلے رکوع کی ابتدائی دو آیات میں ایمان کے بارے میں قرآن حکیم کے فطری استدلال کا خلاصہ بیان ہوا ہے :آیت 61 تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْہَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِیْرًا ”یہاں سورج کے لیے ”سراج“ یعنی چراغ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور چاند کو روشن بتایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اب تک یہ حقیقت انسان کے علم میں آچکی ہے کہ سورج کے اندر جلنے یا تحریق combustion کا عمل جاری ہے ‘ جس کی وجہ سے وہ روشنی کے ساتھ ساتھ حرارت کا منبع بھی ہے ‘ جبکہ چاند محض سورج کی روشنی کے انعطاف reflection کی وجہ سے روشن نظر آتا ہے اور اس میں کسی قسم کا عمل تحریق نہیں پایا جاتا۔ اس کی سطح ہماری زمین کی سطح سے ملتی جلتی ہے۔ اب تو انسان خود چاند کی سطح کا عملی طور پر مشاہدہ بھی کرچکا ہے۔
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا
📘 آیت 62 وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَ اَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا ”دن ‘ رات اور ان کا الٹ پھیر آیات الٰہیہ میں سے ہیں اور آیات الٰہیہ پر غور کرنے سے انسان کو اللہ کی ذات ‘ اس کے علم اور اس کی قدرت و حکمت کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ پھر جب انسان اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے تو اسے کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کی توحید ‘ اس کی صناعی اور اس کی قدرت پر دلالت کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایمان کے ضمن میں یہ دو آیات گویا اس مضمون کی تمہید ہے جس میں ”عباد الرحمن“ یعنی اللہ کے محبوب اور چہیتے بندوں کی سیرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر بندۂ مسلمان کو اپنے دل میں ایک خواہش اور امنگ ضرور پیدا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی اپنے ان خاص بندوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور پھر اسے ان بندوں کی صف میں شامل ہونے کے لیے عملی طور پر کوشش بھی کرنی چاہیے۔
وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
📘 آیت 63 وَعِبَاد الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا ”وہ اپنے آپ کو آقا اور مالک نہیں بلکہ اللہ کے بندے اور غلام سمجھتے ہیں۔ وہ چلتے بھی غلاموں ہی کی طرح ہیں۔ ان کی چال میں اکڑ کی بجائے عاجزی اور فروتنی ہوتی ہے۔وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ”عربی میں جاہل کا معنی اَن پڑھ یا بےعلم آدمی نہیں ‘ بلکہ اس سے مراد اجڈ اور مشتعل مزاج شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بدتمیزی کا برتاؤ کرے۔ ”عباد الرحمن“ کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ جاہل اور اجڈ قسم کے لوگ ان کی بات کو سمجھنے اور اس سے اثر لینے کی بجائے پنجابی محاورہ کے مطابق ان سے محض سینگ پھنسانا چاہتے ہیں یعنی انہیں خواہ مخواہ بحث و مباحثہ میں الجھانا چاہتے ہیں تو انہیں سلام کرکے وہ اپنی راہ لیتے ہیں۔ کیونکہ ایسی گفتگو یا بحث سے وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ حاصل ہونے کی توقع نہیں ہوتی۔ چناچہ ایک سمجھدار اور معقول آدمی کو چاہیے کہ وہ مناسب انداز میں دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرے ‘ لیکن جب اسے محسوس ہو کہ اس کا مخاطب جان بوجھ کر بات کو سمجھنا نہیں چاہتا اور خواہ مخواہ کی بحث میں الجھنا چاہتا ہے تو وہ کسی قسم کی بد مزگی پیدا کیے بغیر خود کو ایسی صورت حال سے الگ کرلے۔
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا
📘 آیت 64 وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ”جہاں تک پانچ نمازوں کا تعلق ہے وہ تو فرائض میں شامل ہیں۔ ان نمازوں کی پابندی بندۂ مؤمن کی سیرت کی بنیاد ہے۔ چناچہ سورة المؤمنون کے آغاز میں جب بندۂ مؤمن کے کردار کی اساسات پر بات ہوئی تو وہاں نماز پنج گانہ کی محافظت کا ذکر ہوا : وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ۔ لیکن یہاں چونکہ اللہ کے ان خصوصی بندوں کا ذکر ہو رہا ہے جنہیں اللہ سے دوستی کا شرف اور اس کا قرب نصیب ہوچکا ہے ‘ اس لیے یہاں جس نماز کا ذکر ہوا ہے وہ نماز بھی خصوصی ہے یعنی نماز تہجد۔ چناچہ اللہ کے یہ نیک بندے اپنے رب کے حضور راتوں کی تنہائیوں میں اس وقت حاضر ہوتے ہیں جب دوسرے لوگ سو رہے ہوتے ہیں اور یوں وہ اپنی راتیں اس کے سامنے اس طرح گزار دیتے ہیں کہ کبھی حالت قیام میں ہیں اور کبھی سربسجود ہیں۔
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا
📘 آیت 65 وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَق اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ”سورۃ النور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں کی ایسی ہی کیفیت بیان فرمائی ہے : یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ”وہ ڈرتے رہتے ہیں اس دن کے خیال سے جس میں دل اور نگاہیں الٹ دیے جائیں گے“۔ یعنی اگرچہ وہ اپنی ہر مصروفیت پر اللہ کے ذکر کو ترجیح دیتے ہیں اور ہر حالت میں نماز قائم کرتے ہیں ‘ مگر اس سب کچھ کے باوجود بھی وہ احتساب آخرت کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔
إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا
📘 آیت 66 اِنَّہَا سَآءَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ”دنیا میں عام طور پر انسانی طبیعت کا خاصہّ ہے کہ وہ ہر دم تبدیلی چاہتا ہے۔ تبدیلی کے طور پر وہ تھوڑی دیر کے لیے بری سے بری جگہ پر بھی تفریح محسوس کرتا ہے اور اگر اسے اچھی سے اچھی جگہ پر بھی مستقل رہنا پڑے تو وہاں اسے بہت جلد اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس کے برعکس جنت اور جہنم کی کیفیت یکسر مختلف ہے۔ قرآن کے مطابق جنت ایسی پر کشش جگہ ہے کہ وہاں مستقل رہنے کے باوجود اہل جنت کو اس کی دلچسپیوں اور رعنائیوں میں ذرہ بھر کمی محسوس نہیں ہوگی اور جہنم میں اگر کوئی انسان ایک لمحہ کے لیے بھی چلا گیا تو وہ اپنی ساری سختیاں اس پر اسی ایک لمحے میں ظاہر کر دے گی۔
وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا
📘 آیت 67 وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا۔ ”اگرچہ کسی بھی معاملے میں اعتدال قائم رکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے مگر اللہ کے ان بندوں کی سیرت ایسی پختہ mature ہوتی ہے کہ انہیں اپنے اخراجات کے اندر اعتدال اور توازن قائم رکھنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا
📘 وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ ط ”حق سے مراد یہاں وہ قانونی صورتیں ہیں جن صورتوں میں کسی انسان کی جان لی جاسکتی ہے ‘ یعنی قتل کے بدلے قتل ‘ مرتد کا قتل ‘ حربی کافر کا قتل اور شادی شدہ زانی کا رجم۔ اس آیت میں تین کبیرہ گناہوں کا ذکر ہوا ہے : شرک ‘ قتلِ ناحق اور زنا۔ شرک کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دو دفعہ فرما دیا کہ مشرک کو ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ اور قتل ایسا بھیانک گناہ اور جرم ہے جس سے تمدن کی جڑ کٹتی ہے ‘ جبکہ زنا سے معاشرہ گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة النساء میں ایسے کبیرہ گناہوں سے بچنے والوں کے لیے چھوٹے گناہوں سے معافی کی خوشخبری سنائی ہے : اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبآءِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْمًا النساء ”اگر تم لوگ بچتے رہو کبیرہ گناہوں سے جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ بخش دیں گے اور تمہیں عزت والی جگہ داخل کریں گے۔“
يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا
📘 آیت 69 یُّضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُہَانًا ”یہ آیت اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس سے قیامت کے دن سے پہلے کا عذاب ثابت ہوتا ہے ‘ یعنی جو عذاب اس شخص کو اس سے پہلے دیا جا رہا ہوگا قیامت کے دن اس عذاب کو دو گنا کردیا جائے گا۔ منکرین حدیث عذاب قبر کو نہیں مانتے۔ ان کا اصرار ہے کہ قرآن مجید میں عذاب قبر کا ثبوت نہیں ملتا۔ اگرچہ قرآن میں صراحتاً عذاب قبر کا ذکر نہیں ہے ‘ لیکن بعض آیات سے واضح طور پر برزخی زندگی کا عذاب ثابت ہوتا ہے۔ِ آیت زیر مطالعہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے مجرمین عذاب جھیل رہے ہوں گے اور یقیناً اس عذاب سے عذاب قبر یا عذاب برزخ ہی مراد ہے۔ بہر حال احادیث میں عذاب قبر کے بارے میں بہت تفصیلات ملتی ہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔ اور یہ کہ قبر میں یا تو جنت کی ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے جہاں سے ٹھنڈی ہوا اور خوشبو آتی ہے ‘ یا پھر دوزخ کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس سے آگ کی لپٹ اور لو آتی ہے۔
وَقَالُوا مَالِ هَٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا
📘 آیت 7 وَقَالُوْا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ط ”کہ ایک ایسا شخص اللہ کا بھیجا ہوا رسول کیسے ہوسکتا ہے جس کو کھانے کی حاجت بھی ہو اور وہ عام انسانوں کی طرح بازاروں میں خریدو فروخت بھی کرتا پھرتا ہو۔لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا ”ہاں اگر یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا جو ہماری آنکھوں کے سامنے پرواز کرتے ہوئے نازل ہوتا ‘ ان کے رسول ہونے کی گواہی دیتا اور پھر یہ جدھر بھی جاتے ‘ وہ فرشتہ لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے ہٹو بچو کا نعرہ لگاتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ چلتا اور نہ ماننے والوں کو دھمکاتا !
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا
📘 آیت 70 اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا ”گویا جو شخص اس طرح کے کبیرہ گناہوں میں ملوث ہوتا ہے اگرچہ قانوناً اس کا شمار کافروں میں نہیں ہوتا مگر حقیقی ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ اس لیے یہاں توبہ کے بعد ایمان کی شرط بھی رکھی گئی ہے۔ چناچہ ایسے شخص کی توبہ دراصل از سر نو ایمان لانے کے مترادف ہے۔ بہر حال اگر اس نے موت کے آثار نظر آنے سے پہلے پہلے مَا لَمْ یُغَرْغِرْ توبہ کرلی تو اس کو عذاب سے استثناء مل سکتا ہے۔فَاُولٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ط ”اس کے دو معنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نامۂ اعمال میں جو برائیوں کا اندراج تھا وہ صاف کردیا جائے گا اور اس کی جگہ نیکیوں کا اندراج ہوجائے گا۔ اور دوسرے یہ کہ توبہ کرنے سے انسان کے دامن اخلاق کے دھبےّ دُھل جاتے ہیں اور اس کا دامن صاف شفافّ ہوجاتا ہے۔
وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا
📘 آیت 71 وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا ”یعنی توبہ کے بعد گناہوں سے کنارہ کش ہوگیا اور تقویٰ کی روش اختیار کرلی تو یہی اصل توبہ ہے۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص زبان سے توبہ توبہ کے الفاظ ادا کرتا رہے اور استغفار کی تسبیحات پڑھتا رہے ‘ سوا لاکھ مرتبہ آیت کریمہ پڑھوا کر ختم بھی دلائے مگر اس کی حرام خوری جوں کی توں رہے اور وہ گناہوں سے باز نہ آئے تو اس کی توبہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا
📘 آیت 72 وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَلا ”یہ صرف جھوٹ کی گواہی سے بچنے کی بات نہیں بلکہ اس سے ایسی بلند تر کیفیت کا ذکر ہے جس کے اندر جھوٹی گواہی سے بچنے کا مفہوم ضمنی طور پر خود بخود آجاتا ہے۔ یعنی اللہ کے یہ نیک بندے حق و صداقت کی غیرت و حمیت میں اس قدر پختہ ہوتے ہیں کہ کسی ایسی جگہ پر وہ اپنی موجودگی بھی گوارا نہیں کرتے جہاں جھوٹ بولا جا رہا ہو یا جھوٹ پر مبنی کوئی دھندا ہو رہا ہو۔وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا ”اگر ان لوگوں کا کہیں اتفاق سے کسی کھیل تماشے اور لغو کام پر سے گزر ہو تو وہ اس سے اپنا دامن بچا کر بےنیازی سے گزر جاتے ہیں۔ یہی مضمون سورة المؤمنون میں اس طرح آیا ہے : وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ کہ مؤمنین ہر قسم کی لغویات سے اعراض کرتے ہیں۔
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا
📘 آیت 73 وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا ”اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ ایسے لوگ جب قرآنی آیات کو پڑھتے یا سنتے ہیں تو ان کا رویہ اندھوں یا بہروں جیسا نہیں ہوتا ‘ بلکہ وہ ان پر غور و فکر اور تدبر کرتے ہیں۔ اور دوسرا مفہوم یہ کہ وہ قریش مکہّ کی طرح اندھے اور بہرے بن کر اللہ کی آیات کی مخالفت پر کمر نہیں کس لیتے۔ اس مفہوم میں اس آیت کا انداز طنزیہ ہوگا کہ جو رویہ مشرکین مکہّ نے کلام اللہ کے ساتھ اپنا رکھا ہے ‘ اللہ کے نیک بندوں کا ایسا رویہ نہیں ہوتا۔ سورة محمد میں کفار کے اس رویے کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے : اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا ”کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑگئے ہیں ؟“ بہر حال ”عبادالرحمن“ کے مقام و مرتبہ سے یہ بات فروتر ہے کہ وہ قرآن کو اندھے اور بہرے ہو کر مانیں یا پڑھیں۔
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
📘 آیت 74 وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ ”یعنی جس راستے پر ہم چل رہے ہیں ‘ ہمارے اہل و عیال کو بھی اسی راستے پر چلنے والا بنادے تاکہ ان کی طرف سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں ‘ کیونکہ اللہ کے ان نیک بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک تو اسی میں ہوگی کہ ان کے گھر والے بھی اللہ کے فرمانبردار بندے بنیں اور اللہ کی بندگی کے راستے کو اختیار کریں۔ اس کے برعکس اگر گھر کا سربراہ اللہ کے دین پر چلنے والا ہو اور اس کے اہل و عیال کی ترجیحات کچھ اور ہوں تو گھر کے اندر کشیدگی اور کش مکش کا ماحول پیدا ہوجائے گا جو ان میں سے کسی کے لیے بھی باعث سکون نہیں ہوگا۔وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا ”اس کا یہ مطلب نہیں کہ ”عباد الرحمن“ امامت اور پیشوائی کے لیے بےقرار ہیں بلکہ اس دعا کو اس حوالے سے سمجھنا چاہیے کہ مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے اور اس کے بیوی بچے اس کے تابع اور پیروکار ہوتے ہیں۔ چناچہ گھر کے سربراہ کی دعا اور خواہش ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اہل و عیال کو بھی متقی بنا دے۔ اس امامت کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ میدان حشر میں ہر انسان کے اہل و عیال اور اس کی نسل کے لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہوں گے۔ عباد الرحمن کی یہ دعا اس لحاظ سے بھی برمحل ہے کہ اے اللہ ! میدان حشر میں ہم جن لوگوں کے سربراہ یا لیڈر بنیں ان کو بھی نیک اور پرہیزگار بنا دے ‘ تاکہ وہ لوگ بھی ہمارے ساتھ جنت میں داخل ہو کر ہماری خوشی اور اطمینان کا باعث بنیں۔ ایسانہ ہو کہ ہمارے پیچھے آنے والی نسلوں کے لوگ جہنم کے مستحق ٹھہریں۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے : کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ 1 کہ تم میں سے ہر شخص کی حیثیت ایک چرواہے کی سی ہے اور تم میں سے ہر کوئی اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہوگا۔ اس لحاظ سے ہر آدمی کے اہل و عیال اس کی رعیت ہیں اور اپنی اس رعیت کے بارے میں وہ مسؤل ہوگا۔ چناچہ ان کی ہدایت کے لیے اسے کوشش بھی کرنی چاہیے اور دعا بھی۔
أُولَٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا
📘 آیت 75 اُولٰٓءِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا ”اللہ تعالیٰ دنیا میں بندوں کو آزماتا رہتا ہے۔ ایک نیک انسان کی زندگی میں ایسے بیشمار مواقع آتے ہیں جب اس کے سامنے گناہ اور اللہ کی نافرمانی کا راستہ کھلا ہوتا ہے۔ یہ راستہ بےحد پر کشش بھی ہے اور آسان بھی۔ دوسری طرف نیکی اور اللہ کی فرمانبرداری کے راستے پر استقامت کے ساتھ چلنے کے لیے قدم قدم پر انسان کو صبر کرنا پڑتا ہے اور شہوات نفسانی کو قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے ایک بندۂ مؤمن کی پوری زندگی ہی صبر سے عبارت ہے۔ چناچہ اس کے اس صبر کا بدلہ اسے آخرت میں جنت اور اس کی نعمتوں کی صورت میں دیا جائے گا۔
خَالِدِينَ فِيهَا ۚ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا
📘 آیت 76 خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ”یہ گویا ان الفاظ کا تقابل contrast ہے جو آیت 66 میں وارد ہوئے : سَآءَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا
قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ۖ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا
📘 آیت 77 قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ ج ”بنی نوع انسان کو راہ ہدایت دکھانے اور اس سلسلے میں ان پر اتمام حجت کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ اس قانون کی وضاحت سورة بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے : وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً کہ ہم کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نہیں بھیجتے جب تک ان کے درمیان رسول مبعوث نہ کردیں۔ اسی حوالے سے یہاں حضور ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ تم لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانا اور حق کی دعوت دینا مشیت الٰہی کے تحت ضروری نہ ہوتا تو میرے رب کو تم لوگوں کی کچھ بھی پروا نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسی ضرورت اور قانون کے تحت تمہاری طرف مبعوث فرما کر مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ میں اس کا پیغام تم لوگوں تک پہنچاؤں۔ اس کے لیے میں سالہا سال سے تمہارے پیچھے خود کو ہلکان کر رہا ہوں۔ گلیوں اور بازاروں میں تمہارے پیچھے پیچھے پھرتا ہوں ‘ تمہارے گھروں میں جا کر تم لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا ہوں۔ خفیہ اور علانیہ ہر طرح سے تم لوگوں کو سمجھاتا ہوں۔ تم لوگ اس سے کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ اس میں میری کوئی ذاتی غرض ہے یا تمہارے بغیر میرے رب کا کوئی کام ادھورا پڑا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میرے رب کے حضور تمہاری حیثیت پرکاہ کے برابر بھی نہیں۔ اگر اللہ کو تمہیں راہ ہدایت دکھا کر اتمام حجت کرنا منظور نہ ہوتا ‘ اور اس کے لیے میرا تمہیں مخاطب کرنا نا گزیر نہ ہوتا تو میں ہرگز تمہارے پیچھے پیچھے نہ پھرتا۔فَقَدْ کَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا ”یعنی تمہارے اس انکار کی پاداش میں تم لوگوں کو سزا مل کر رہے گی۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم
أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنْزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا
📘 آیت 8 اَوْ یُلْقٰٓی اِلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ تَکُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاْکُلُ مِنْہَا ط ”اور کچھ نہیں تو ان کے لیے زر و جواہر کا کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا ‘ یا پھر معجزانہ طور پر اس ”وادئ غیر ذی زرع“ میں پھلوں سے لدا ہوا ایک باغ ہی ان کے لیے وجود میں آجاتا اور یہ اس باغ کے پھل کھاتے ہوئے ہمیں نظر آتے۔ اس باغ سے یہ بافراغت روزی حاصل کرتے۔ یہ مشرکین مکہ کا وہی اعتراض ہے جس کا ذکر اس سے پہلے سورة بنی اسرائیل میں بھی آچکا ہے۔وَقَال الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا ”کہ یہ جو کہتے ہیں کہ مجھ پر فرشتہ نازل ہوتا ہے ان کے اس دعوے میں کوئی سچائی نہیں۔ یہ سب جادو اور آسیب کا اثر ہے۔
انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا
📘 آیت 9 اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا ”یہ لوگ ایک ضد پر اڑ گئے ہیں ‘ لہٰذا اب ان کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان نہیں۔ ان الفاظ کو پڑھتے ہوئے یہ بھی معلوم رہنا چاہیے کہ یہ سورت مکی دور کے درمیانی چار سالوں میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔ مکی سورتوں کی ترتیب نزولی اور ترتیب مصحف کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ مکی دور کے ابتدائی چار سال کے دوران میں نازل ہونے والی سورتیں مصحف کی ترتیب میں ساتویں یعنی آخری منزل میں شامل کی گئی ہیں۔ آخری منزل میں کچھ مدنی سورتیں بھی شامل ہیں اور اس اعتبار سے اس منزل کی مکی مدنی سورتوں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ آخری چارسال میں نازل شدہ سورتوں کو مصحف کے پہلے حصے میں رکھا گیا ہے۔ ان میں سورة الانعام ‘ سورة الاعراف ‘ اور سورة یونس سے لے کر سورة المؤمنون تک کل سولہ سورتیں شامل ہیں۔ البتہ زیرمطالعہ سورت یعنی سورة الفرقان سے شروع ہونے والے گروپ اور اس کے بعد والے گروپ کی سورتیں مکی دور کے درمیانی چار سالوں میں نازل ہوئی ہیں اور مصحف کے اندر بھی انہیں درمیان میں رکھا گیا ہے۔