🕋 تفسير سورة النازعات
(An-Naziat) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا
📘 آیت 1{ وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا۔ } ”قسم ہے ان فرشتوں کی جو غوطہ لگا کر کھینچتے ہیں۔“ نزع کے معنی سختی سے کھینچنے کے ہیں۔ یعنی ان فرشتوں کی قسم جو انسان کے وجود کی گہرائی میں اتر کر بڑی سختی اور شدت سے اس کی جان کو کھینچ نکالتے ہیں۔
يَقُولُونَ أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحَافِرَةِ
📘 آیت 10{ یَقُوْلُوْنَ ئَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْْحَافِرَۃِ۔ } ”یہ لوگ کہتے ہیں : کیا ہمیں لوٹا دیا جائے گا الٹے پائوں ؟“ کہ کیا مرنے کے بعد ہمیں پھر سے زندہ کر دیاجائے گا ؟
أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا نَخِرَةً
📘 آیت 10{ یَقُوْلُوْنَ ئَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْْحَافِرَۃِ۔ } ”یہ لوگ کہتے ہیں : کیا ہمیں لوٹا دیا جائے گا الٹے پائوں ؟“ کہ کیا مرنے کے بعد ہمیں پھر سے زندہ کر دیاجائے گا ؟
قَالُوا تِلْكَ إِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ
📘 آیت 12{ قَالُوْا تِلْکَ اِذًا کَرَّۃٌ خَاسِرَۃٌ۔ } ”کہتے ہیں : تب تو یہ لوٹنا بہت گھاٹے کا سودا ہوگا۔“ قیامت سے متعلق خبروں پر وہ لوگ طنزیہ انداز میں ایسے تبصرے کرتے تھے۔
فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ
📘 آیت 12{ قَالُوْا تِلْکَ اِذًا کَرَّۃٌ خَاسِرَۃٌ۔ } ”کہتے ہیں : تب تو یہ لوٹنا بہت گھاٹے کا سودا ہوگا۔“ قیامت سے متعلق خبروں پر وہ لوگ طنزیہ انداز میں ایسے تبصرے کرتے تھے۔
فَإِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ
📘 آیت 14{ فَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ۔ } ”تو وہ سب کے سب ایک چٹیل میدان میں ہوں گے۔“ نفخہ ثانیہ کے بعد سب کے سب انسان زندہ ہو کر میدانِ حشر میں جمع ہوجائیں گے۔
هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ
📘 آیت 14{ فَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ۔ } ”تو وہ سب کے سب ایک چٹیل میدان میں ہوں گے۔“ نفخہ ثانیہ کے بعد سب کے سب انسان زندہ ہو کر میدانِ حشر میں جمع ہوجائیں گے۔
إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى
📘 آیت 16{ اِذْ نَادٰٹہُ رَبُّـہٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی۔ } ”جب اس کو پکارا تھا اس کے پروردگار نے طویٰ کی مقدس وادی میں۔“ یہ واقعہ سورة الاعراف ‘ سورة طٰہ اور سورة القصص میں بہت تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ یہاں اس چھوٹی سورت میں اس کا ذکر نہایت اختصار کے ساتھ آیا ہے۔
اذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ
📘 آیت 17{ اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی۔ } ”کہ جائو فرعون کے پاس ‘ وہ بہت سرکش ہوگیا ہے۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس حکم کے تحت اللہ تعالیٰ کے رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس گئے تھے۔
فَقُلْ هَلْ لَكَ إِلَىٰ أَنْ تَزَكَّىٰ
📘 آیت 18{ فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰٓی اَنْ تَزَکّٰی۔ } ”اور اسے کہو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہوجائے ؟“ آپ علیہ السلام اس کے پاس جا کر اسے باقاعدہ دعوت دیں ‘ تاکہ اگر وہ راہ راست پر آنا چاہے تو آجائے اور اپنے عقائد و اعمال کو درست کرلے۔
وَأَهْدِيَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ فَتَخْشَىٰ
📘 آیت 18{ فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰٓی اَنْ تَزَکّٰی۔ } ”اور اسے کہو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہوجائے ؟“ آپ علیہ السلام اس کے پاس جا کر اسے باقاعدہ دعوت دیں ‘ تاکہ اگر وہ راہ راست پر آنا چاہے تو آجائے اور اپنے عقائد و اعمال کو درست کرلے۔
وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا
📘 آیت 2{ وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا۔ } ”اور ان فرشتوں کی قسم جو گرہیں کھولتے ہیں آسانی سے۔“ یہ بھی انسان کی جان قبض ہونے کی ہی ایک کیفیت کا ذکر ہے۔ حضور ﷺ کے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ جب فرشتہ بندئہ مومن کی جان قبض کرتا ہے تو اسے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے مشک کے بند منہ سے پانی کا ایک قطرہ ٹپک گیا ہے اور جب وہ کسی کافر کی جان قبض کرتا ہے تو اسے ایسی سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے سیخ پر سے کباب کھینچا جا رہا ہے اَعاَذنَا اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ ۔ بہرحال یہاں یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان دونوں کیفیات کا تعلق انسان کی روح سے ہے ‘ اس کے ظاہری جسم سے نہیں۔ جسمانی طور پر تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے نیک بندوں پر بھی نزع کا وقت سخت انداز میں وارد ہوتا ہے۔ اس معاملے میں ظاہری تکلیف تو خود حضور ﷺ پر بھی طاری ہوئی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت فاطمہ رض حضور ﷺ کی تکلیف کو دیکھ کر بار بار روتی تھیں اور ان رض کے منہ سے بےاختیار یا ابتاہ ! یا ابتاہ ! ہائے میرے ابا جان ﷺ کی یہ تکلیف ! کے الفاظ نکلتے تھے۔ حضور ﷺ یہ سن کر فرماتے کہ بیٹی آج کے بعد تیرے باپ ﷺ کے لیے کوئی سختی نہیں ہے۔ فداہ آبائنا وامھاتنا !
فَأَرَاهُ الْآيَةَ الْكُبْرَىٰ
📘 آیت 20{ فَاَرٰٹہُ الْاٰیَۃَ الْکُبْرٰی۔ } ”تو موسیٰ علیہ السلام نے اس کو دکھائی بہت بڑی نشانی۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو اپنی رسالت کے بارے میں بھی بتایا ‘ اللہ تعالیٰ کا پیغام بھی اس تک پہنچایا اور عصا کے اژدھا بن جانے والا معجزہ بھی اسے دکھا دیا۔
فَكَذَّبَ وَعَصَىٰ
📘 آیت 20{ فَاَرٰٹہُ الْاٰیَۃَ الْکُبْرٰی۔ } ”تو موسیٰ علیہ السلام نے اس کو دکھائی بہت بڑی نشانی۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو اپنی رسالت کے بارے میں بھی بتایا ‘ اللہ تعالیٰ کا پیغام بھی اس تک پہنچایا اور عصا کے اژدھا بن جانے والا معجزہ بھی اسے دکھا دیا۔
ثُمَّ أَدْبَرَ يَسْعَىٰ
📘 آیت 22{ ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی۔ } ”پھر وہ پلٹا بھاگ دوڑ کرنے کے لیے۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے ملک بھر سے ماہر جادوگروں کو اکٹھا کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔
فَحَشَرَ فَنَادَىٰ
📘 آیت 22{ ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی۔ } ”پھر وہ پلٹا بھاگ دوڑ کرنے کے لیے۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے ملک بھر سے ماہر جادوگروں کو اکٹھا کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔
فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَىٰ
📘 آیت 24{ فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی۔ } ”پس کہا کہ میں ہوں تمہارا سب سے بڑا ربّ !“ ظاہر ہے فرعون نے خود کو ”ربّ“ اس معنی میں نہیں کہا تھا کہ وہ اس کائنات کا یا اپنے ملک کے لوگوں کا خالق ہے ‘ بلکہ وہ تو خود باطل معبودوں کو پوجتا تھا سورة الاعراف کی آیت 127 سے ثابت ہوتا ہے کہ فرعون اور اس کی قوم کے لوگوں نے پوجا پاٹ کے لیے اپنے کچھ معبود بھی بنا رکھے تھے۔ پھر اس کی رعیت میں بہت سے بڑے بوڑھے لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کے سامنے وہ پیدا ہوا ہوگا اور جنہوں نے اس کا بچپن بھی دیکھا ہوگا۔ گویا اسے خود بھی معلوم تھا اور اس کی رعیت کے تمام لوگ بھی جانتے تھے کہ وہ عام انسانوں کی طرح پیدا ہوا ہے اور بحیثیت انسان وہ دوسرے عام انسانوں جیسا ہی ہے۔ چناچہ اس کا مذکورہ دعویٰ دراصل حکومت اوراقتدارِ اعلیٰ کے مالک ہونے کا دعویٰ تھا۔ اپنے اس دعوے کی مزید وضاحت اس نے ان الفاظ میں کی تھی : { یٰـــقَوْمِ اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْج } الزخرف : 51 ”اے میری قوم کے لوگو ! کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟ اور کیا یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟“ کہ دیکھو اس پورے ملک پر میرا حکم چلتا ہے ‘ پورے ملک کا نہری نظام بھی میرے تابع ہے ‘ میں جسے جو چاہوں عطا کروں اور جسے چاہوں محروم رکھوں ‘ میں مطلق اختیار اور اقتدار کا مالک ہوں۔ یہ تھا اس کا اصل دعویٰ اور یہی دعویٰ اپنے زمانے میں نمرود کا بھی تھا۔ یہ دعویٰ دراصل اللہ تعالیٰ کے اقتدار و اختیار کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور اس لحاظ سے بہت بڑا شرک ہے۔ آج بدقسمتی سے یہ سیاسی شرک ”عوام کی حکومت“ کے لیبل کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ نمرودی اور فرعونی دور میں تو شرک کی گندگی کا یہ ٹوکرا کوئی ایک شخص اٹھائے پھرتا تھا ‘ یعنی ”حاکمیت“ کا دعوے دار کوئی ایک شخص ہوا کرتا تھا ‘ جبکہ آج اس گندگی کو تولوں اور ماشوں میں بانٹ کر ملک کے ہر شہری کو اس میں حصہ دار بنا دیا گیا ہے۔ ”جدید دور“ میں اس سیاسی شرک کو نئے بھیس میں متعارف کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس کی تعبیر علامہ اقبال نے اپنی نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ میں ابلیس کی زبان سے اس طرح کی ہے : ؎ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَىٰ
📘 آیت 25{ فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلٰی۔ } ”تو پکڑ لیا اس کو اللہ نے آخرت اور دنیا کی سزا میں۔“ دنیا کی سزا کے طور پر تو اسے اپنے لائو لشکر سمیت غرق کردیا گیا۔ جہاں تک اس کی آخرت کی سزا کا تعلق ہے اس کا ذکر قرآن میں جابجا ہوا ہے کہ وہ بہت بھیانک ہوگی۔
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَخْشَىٰ
📘 آیت 26{ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی۔ } ”یقینا اس میں عبرت ہے اس کے لیے جو ڈرتا ہے۔“ اشتقاقی اعتبار سے لفظ ”عبرت“ کا تعلق ”عبور“ سے ہے ‘ اور عبور کے معنی ہیں دریا وغیرہ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانا۔ اس حوالے سے لفظ عبرت کے معنی ایک چیز کو دیکھ کر اس سے ملتی جلتی کسی دوسری چیز کی حقیقت کو سمجھنے اور اس خاص معاملے میں سبق حاصل کرنے کے ہیں۔
أَأَنْتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا
📘 اب اگلی آیات میں بعث بعد الموت کے حوالے سے مشرکین کے طنزیہ تبصروں کا تفصیلی جواب دیا جارہا ہے :
رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا
📘 اب اگلی آیات میں بعث بعد الموت کے حوالے سے مشرکین کے طنزیہ تبصروں کا تفصیلی جواب دیا جارہا ہے :
وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا
📘 اب اگلی آیات میں بعث بعد الموت کے حوالے سے مشرکین کے طنزیہ تبصروں کا تفصیلی جواب دیا جارہا ہے :
وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا
📘 آیت 3{ وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا۔ } ”اور ان فرشتوں کی قسم جو تیزی سے تیرتے ہوئے جاتے ہیں۔“ فرشتے تیرتے ہوئے ان ارواح کو لے کر کہاں جاتے ہیں اور انہیں کہاں رکھا جاتا ہے ؟ اس بارے میں وضاحت آگے سورة المُطفِّفین میں آئے گی۔
وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا
📘 آیت 31{ اَخْرَجَ مِنْہَا مَآئَ ہَا وَمَرْعٰٹہَا۔ } ”اس میں سے نکالا اس کا پانی اور اس کا چارہ۔“ یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق توجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنا پانی موجود ہے اس کا منبع خود زمین ہے۔ آج سائنسی معلومات کی روشنی میں ہم اس کی وضاحت یوں کرسکتے ہیں کہ ابتدا میں زمین آگ کا ایک گولا تھی۔ جوں جوں یہ ٹھنڈی ہوتی گئی اس کے بخارات نکل کر فضا میں جمع ہوتے رہے۔ اس طرح زمین کے ارد گرد مختلف گیسوں پر مشتمل ایک غلاف سا بن گیا ‘ جسے آج ہم فضا atmosphere کہتے ہیں۔ پھر کسی مرحلے پر فضا میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پانی بنا۔ یہ پانی فضا سے بارش کی شکل میں سالہا سال تک زمین پر برستا رہا۔ اس کے بعد سورج کی تپش سے بخارات اٹھنے ‘ بادل بننے اور بارش برسنے کے معمول پر مشتمل پانی کا وہ مربوط نظام بنا جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل water cycle کا نام دیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقدار کے مطابق دنیا میں پانی پیدا فرما کر زمین پر موجود ”زندگی“ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کی رسد اور ترسیل کا ایک خوبصورت نظام cycle تشکیل دے دیا ہے۔ اس نظام کے تحت سمندروں کے بخارات سے بادل بنتے ہیں۔ ان بادلوں سے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت کے تحت مختلف علاقوں میں بارش برستی ہے اور برفباری ہوتی ہے۔ پھر پہاڑوں پر برف کے وسیع ذخائر سے نالوں اور دریائوں کے ذریعے نشیبی علاقوں کو سارا سال پانی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ گویا بارشوں اور پہاڑی گلیشیرز کے overhead tanks سے حاصل ہونے والے پانی سے پوری دنیا میں زیرزمین پانی کے ذخیرے کو رسد بھی مہیا ہوتی رہتی ہے اور ہر طرح کی ”زندگی“ کی تمام ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو پانی بچ رہتا ہے وہ واپس سمندر میں چلا جاتا ہے۔
أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا
📘 آیت 31{ اَخْرَجَ مِنْہَا مَآئَ ہَا وَمَرْعٰٹہَا۔ } ”اس میں سے نکالا اس کا پانی اور اس کا چارہ۔“ یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق توجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنا پانی موجود ہے اس کا منبع خود زمین ہے۔ آج سائنسی معلومات کی روشنی میں ہم اس کی وضاحت یوں کرسکتے ہیں کہ ابتدا میں زمین آگ کا ایک گولا تھی۔ جوں جوں یہ ٹھنڈی ہوتی گئی اس کے بخارات نکل کر فضا میں جمع ہوتے رہے۔ اس طرح زمین کے ارد گرد مختلف گیسوں پر مشتمل ایک غلاف سا بن گیا ‘ جسے آج ہم فضا atmosphere کہتے ہیں۔ پھر کسی مرحلے پر فضا میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پانی بنا۔ یہ پانی فضا سے بارش کی شکل میں سالہا سال تک زمین پر برستا رہا۔ اس کے بعد سورج کی تپش سے بخارات اٹھنے ‘ بادل بننے اور بارش برسنے کے معمول پر مشتمل پانی کا وہ مربوط نظام بنا جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل water cycle کا نام دیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقدار کے مطابق دنیا میں پانی پیدا فرما کر زمین پر موجود ”زندگی“ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کی رسد اور ترسیل کا ایک خوبصورت نظام cycle تشکیل دے دیا ہے۔ اس نظام کے تحت سمندروں کے بخارات سے بادل بنتے ہیں۔ ان بادلوں سے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت کے تحت مختلف علاقوں میں بارش برستی ہے اور برفباری ہوتی ہے۔ پھر پہاڑوں پر برف کے وسیع ذخائر سے نالوں اور دریائوں کے ذریعے نشیبی علاقوں کو سارا سال پانی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ گویا بارشوں اور پہاڑی گلیشیرز کے overhead tanks سے حاصل ہونے والے پانی سے پوری دنیا میں زیرزمین پانی کے ذخیرے کو رسد بھی مہیا ہوتی رہتی ہے اور ہر طرح کی ”زندگی“ کی تمام ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو پانی بچ رہتا ہے وہ واپس سمندر میں چلا جاتا ہے۔
وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا
📘 آیت 31{ اَخْرَجَ مِنْہَا مَآئَ ہَا وَمَرْعٰٹہَا۔ } ”اس میں سے نکالا اس کا پانی اور اس کا چارہ۔“ یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق توجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنا پانی موجود ہے اس کا منبع خود زمین ہے۔ آج سائنسی معلومات کی روشنی میں ہم اس کی وضاحت یوں کرسکتے ہیں کہ ابتدا میں زمین آگ کا ایک گولا تھی۔ جوں جوں یہ ٹھنڈی ہوتی گئی اس کے بخارات نکل کر فضا میں جمع ہوتے رہے۔ اس طرح زمین کے ارد گرد مختلف گیسوں پر مشتمل ایک غلاف سا بن گیا ‘ جسے آج ہم فضا atmosphere کہتے ہیں۔ پھر کسی مرحلے پر فضا میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پانی بنا۔ یہ پانی فضا سے بارش کی شکل میں سالہا سال تک زمین پر برستا رہا۔ اس کے بعد سورج کی تپش سے بخارات اٹھنے ‘ بادل بننے اور بارش برسنے کے معمول پر مشتمل پانی کا وہ مربوط نظام بنا جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل water cycle کا نام دیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقدار کے مطابق دنیا میں پانی پیدا فرما کر زمین پر موجود ”زندگی“ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کی رسد اور ترسیل کا ایک خوبصورت نظام cycle تشکیل دے دیا ہے۔ اس نظام کے تحت سمندروں کے بخارات سے بادل بنتے ہیں۔ ان بادلوں سے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت کے تحت مختلف علاقوں میں بارش برستی ہے اور برفباری ہوتی ہے۔ پھر پہاڑوں پر برف کے وسیع ذخائر سے نالوں اور دریائوں کے ذریعے نشیبی علاقوں کو سارا سال پانی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ گویا بارشوں اور پہاڑی گلیشیرز کے overhead tanks سے حاصل ہونے والے پانی سے پوری دنیا میں زیرزمین پانی کے ذخیرے کو رسد بھی مہیا ہوتی رہتی ہے اور ہر طرح کی ”زندگی“ کی تمام ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو پانی بچ رہتا ہے وہ واپس سمندر میں چلا جاتا ہے۔
مَتَاعًا لَكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ
📘 آیت 31{ اَخْرَجَ مِنْہَا مَآئَ ہَا وَمَرْعٰٹہَا۔ } ”اس میں سے نکالا اس کا پانی اور اس کا چارہ۔“ یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق توجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنا پانی موجود ہے اس کا منبع خود زمین ہے۔ آج سائنسی معلومات کی روشنی میں ہم اس کی وضاحت یوں کرسکتے ہیں کہ ابتدا میں زمین آگ کا ایک گولا تھی۔ جوں جوں یہ ٹھنڈی ہوتی گئی اس کے بخارات نکل کر فضا میں جمع ہوتے رہے۔ اس طرح زمین کے ارد گرد مختلف گیسوں پر مشتمل ایک غلاف سا بن گیا ‘ جسے آج ہم فضا atmosphere کہتے ہیں۔ پھر کسی مرحلے پر فضا میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پانی بنا۔ یہ پانی فضا سے بارش کی شکل میں سالہا سال تک زمین پر برستا رہا۔ اس کے بعد سورج کی تپش سے بخارات اٹھنے ‘ بادل بننے اور بارش برسنے کے معمول پر مشتمل پانی کا وہ مربوط نظام بنا جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل water cycle کا نام دیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقدار کے مطابق دنیا میں پانی پیدا فرما کر زمین پر موجود ”زندگی“ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کی رسد اور ترسیل کا ایک خوبصورت نظام cycle تشکیل دے دیا ہے۔ اس نظام کے تحت سمندروں کے بخارات سے بادل بنتے ہیں۔ ان بادلوں سے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت کے تحت مختلف علاقوں میں بارش برستی ہے اور برفباری ہوتی ہے۔ پھر پہاڑوں پر برف کے وسیع ذخائر سے نالوں اور دریائوں کے ذریعے نشیبی علاقوں کو سارا سال پانی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ گویا بارشوں اور پہاڑی گلیشیرز کے overhead tanks سے حاصل ہونے والے پانی سے پوری دنیا میں زیرزمین پانی کے ذخیرے کو رسد بھی مہیا ہوتی رہتی ہے اور ہر طرح کی ”زندگی“ کی تمام ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو پانی بچ رہتا ہے وہ واپس سمندر میں چلا جاتا ہے۔
فَإِذَا جَاءَتِ الطَّامَّةُ الْكُبْرَىٰ
📘 آیت 31{ اَخْرَجَ مِنْہَا مَآئَ ہَا وَمَرْعٰٹہَا۔ } ”اس میں سے نکالا اس کا پانی اور اس کا چارہ۔“ یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق توجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنا پانی موجود ہے اس کا منبع خود زمین ہے۔ آج سائنسی معلومات کی روشنی میں ہم اس کی وضاحت یوں کرسکتے ہیں کہ ابتدا میں زمین آگ کا ایک گولا تھی۔ جوں جوں یہ ٹھنڈی ہوتی گئی اس کے بخارات نکل کر فضا میں جمع ہوتے رہے۔ اس طرح زمین کے ارد گرد مختلف گیسوں پر مشتمل ایک غلاف سا بن گیا ‘ جسے آج ہم فضا atmosphere کہتے ہیں۔ پھر کسی مرحلے پر فضا میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پانی بنا۔ یہ پانی فضا سے بارش کی شکل میں سالہا سال تک زمین پر برستا رہا۔ اس کے بعد سورج کی تپش سے بخارات اٹھنے ‘ بادل بننے اور بارش برسنے کے معمول پر مشتمل پانی کا وہ مربوط نظام بنا جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل water cycle کا نام دیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقدار کے مطابق دنیا میں پانی پیدا فرما کر زمین پر موجود ”زندگی“ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کی رسد اور ترسیل کا ایک خوبصورت نظام cycle تشکیل دے دیا ہے۔ اس نظام کے تحت سمندروں کے بخارات سے بادل بنتے ہیں۔ ان بادلوں سے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت کے تحت مختلف علاقوں میں بارش برستی ہے اور برفباری ہوتی ہے۔ پھر پہاڑوں پر برف کے وسیع ذخائر سے نالوں اور دریائوں کے ذریعے نشیبی علاقوں کو سارا سال پانی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ گویا بارشوں اور پہاڑی گلیشیرز کے overhead tanks سے حاصل ہونے والے پانی سے پوری دنیا میں زیرزمین پانی کے ذخیرے کو رسد بھی مہیا ہوتی رہتی ہے اور ہر طرح کی ”زندگی“ کی تمام ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو پانی بچ رہتا ہے وہ واپس سمندر میں چلا جاتا ہے۔
يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ مَا سَعَىٰ
📘 آیت 35{ یَوْمَ یَتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰی۔ } ”اس دن انسان یاد کرے گا جو کچھ اس نے بھاگ دوڑ کی تھی۔“ اس دن انسان کی آنکھیں کھلیں گی اور جس شخص نے اپنی ساری زندگی دنیا کے مال و متاع کے پیچھے بھاگتے بھاگتے برباد کردی تھی اسے معلوم ہوجائے گا کہ اب آخرت کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ سورة الکہف کی اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے : { قُلْ ہَلْ نُـنَـبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا - اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۔ } ”آپ ﷺ کہیے : کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں ؟ وہ لوگ جن کی سعی و ُ جہد دنیا ہی کی زندگی میں گم ہو کر رہ گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔“
وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِمَنْ يَرَىٰ
📘 آیت 35{ یَوْمَ یَتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰی۔ } ”اس دن انسان یاد کرے گا جو کچھ اس نے بھاگ دوڑ کی تھی۔“ اس دن انسان کی آنکھیں کھلیں گی اور جس شخص نے اپنی ساری زندگی دنیا کے مال و متاع کے پیچھے بھاگتے بھاگتے برباد کردی تھی اسے معلوم ہوجائے گا کہ اب آخرت کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ سورة الکہف کی اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے : { قُلْ ہَلْ نُـنَـبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا - اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۔ } ”آپ ﷺ کہیے : کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں ؟ وہ لوگ جن کی سعی و ُ جہد دنیا ہی کی زندگی میں گم ہو کر رہ گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔“
فَأَمَّا مَنْ طَغَىٰ
📘 آیت 35{ یَوْمَ یَتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰی۔ } ”اس دن انسان یاد کرے گا جو کچھ اس نے بھاگ دوڑ کی تھی۔“ اس دن انسان کی آنکھیں کھلیں گی اور جس شخص نے اپنی ساری زندگی دنیا کے مال و متاع کے پیچھے بھاگتے بھاگتے برباد کردی تھی اسے معلوم ہوجائے گا کہ اب آخرت کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ سورة الکہف کی اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے : { قُلْ ہَلْ نُـنَـبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا - اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۔ } ”آپ ﷺ کہیے : کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں ؟ وہ لوگ جن کی سعی و ُ جہد دنیا ہی کی زندگی میں گم ہو کر رہ گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔“
وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
📘 آیت 35{ یَوْمَ یَتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰی۔ } ”اس دن انسان یاد کرے گا جو کچھ اس نے بھاگ دوڑ کی تھی۔“ اس دن انسان کی آنکھیں کھلیں گی اور جس شخص نے اپنی ساری زندگی دنیا کے مال و متاع کے پیچھے بھاگتے بھاگتے برباد کردی تھی اسے معلوم ہوجائے گا کہ اب آخرت کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ سورة الکہف کی اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے : { قُلْ ہَلْ نُـنَـبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا - اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۔ } ”آپ ﷺ کہیے : کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں ؟ وہ لوگ جن کی سعی و ُ جہد دنیا ہی کی زندگی میں گم ہو کر رہ گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔“
فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَىٰ
📘 آیت 39{ فَاِنَّ الْجَحِیْمَ ہِیَ الْمَاْوٰی۔ } ”تو یقینا اس کا ٹھکانہ اب جہنم ہی ہے۔“ ایک بندئہ مومن کو چاہیے کہ یہ تین آیات ہمیشہ کے لیے اپنی گرہ میں باندھ لے اور اپنی عملی زندگی میں ان کے مفہوم اور پیغام کو اپنے دل و دماغ میں ہر وقت مستحضر رکھے۔ طَغٰی کے معنی ہیں کسی کا اپنی حدود سے تجاوز کرنا۔ اسی معنی میں ہمارے ہاں طغیانی کا لفظ معروف ہے اور اسی مفہوم میں اس مادہ سے لفظ ”طاغوت“ مشتق ہے۔ چناچہ ان آیات کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے : { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ } الذّٰریت یعنی جنوں اور انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ اس کے ”بندے“ بن کر رہیں۔ اب جب کوئی انسان ”بندگی“ کی حدود سے آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنے قانون ‘ اپنے اختیار اور اپنی مرضی کی بات کرے گا تو وہ ”بندے“ کے بجائے ”طاغوت“ بن جائے گا۔ چناچہ جو ”بندہ“ بندگی کی حدود سے تجاوز کر کے طاغوت بن گیا اور پھر اس نے اپنی سوچ ‘ اپنی مرضی ‘ اپنی منصوبہ بندی اور اپنے فیصلوں میں آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینے کی روش اپنا لی تو آخرت میں اس کے لیے جہنم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔
فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا
📘 آیت 3{ وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا۔ } ”اور ان فرشتوں کی قسم جو تیزی سے تیرتے ہوئے جاتے ہیں۔“ فرشتے تیرتے ہوئے ان ارواح کو لے کر کہاں جاتے ہیں اور انہیں کہاں رکھا جاتا ہے ؟ اس بارے میں وضاحت آگے سورة المُطفِّفین میں آئے گی۔
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ
📘 آیت 40{ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ } ”اور جو کوئی ڈرتا رہا اپنے ربّ کے حضور کھڑا ہونے کے خیال سے“ سورة الحاقہ میں اس پیشی کی کیفیت یوں بیان کی گئی ہے : { یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰی مِنْکُمْ خَافِیَۃٌ۔ } ”جس دن تم پیش کیے جائو گے تمہاری کوئی مخفی سے مخفی شے بھی چھپی نہیں رہے گی۔“ { وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی۔ } ”اور اس نے روکے رکھا اپنے نفس کو خواہشات سے۔“ اس نے اپنی زندگی میں اپنے نفس کی باگیں ہمیشہ کھینچ کر رکھیں اور غلط خواہشات کے معاملے میں اسے منہ زوری نہ کرنے دی۔
فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ
📘 آیت 41{ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْوٰی۔ } ”تو یقینااُس کا ٹھکانہ جنت ہی ہے۔“ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ‘ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ آمین !
يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا
📘 آیت 41{ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْوٰی۔ } ”تو یقینااُس کا ٹھکانہ جنت ہی ہے۔“ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ‘ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ آمین !
فِيمَ أَنْتَ مِنْ ذِكْرَاهَا
📘 آیت 43{ فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِکْرٰٹہَا۔ } ”آپ ﷺ کا کیا تعلق ہے اس کے بیان کرنے سے ؟“ آپ ﷺ کو اس لیے تو نہیں بھیجا گیا کہ آپ ﷺ قیامت کے دن اور تاریخ کا تعین کر کے انہیں بتائیں ‘ بلکہ آپ ﷺ تو بشیر و نذیر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
إِلَىٰ رَبِّكَ مُنْتَهَاهَا
📘 آیت 44{ اِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہٰٹہَا۔ } ”اس کا انجام تو آپ کے رب ہی کی طرف ہے۔“ یہ معاملہ تو آپ ﷺ کے رب ہی کے حوالے ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی۔
إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا
📘 آیت 45{ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰٹہَا۔ } ”آپ ﷺ تو بس خبردار کرنے والے ہیں ‘ ہر اس شخص کو جو اس سے ڈرتا ہو۔“ جو لوگ قیامت کے تصور سے ڈرتے ہوں یا جو اس کے ذکر سے ڈر جائیں آپ ﷺ انہیں خبردار کرتے رہیں ‘ آپ ﷺ کے خبردار کرنے سے ایسے لوگوں کا خوف اور تقویٰ مزید بڑھے گا۔ ظاہر ہے جس شخص کی روح میں زندگی کی کوئی رمق موجود ہے اس کے دل میں قیامت کے ذکر سے ضرور خشیت پیدا ہوگی۔
كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا
📘 آیت 46{ کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِیَّۃً اَوْ ضُحٰٹہَا۔ } ”جس دن وہ اسے دیکھیں گے انہیں یوں لگے گا گویا وہ نہیں رہے دنیا میں مگر ایک شام یا اس کی ایک صبح۔“ قیامت کے دن انسان جب اپنی دنیوی زندگی کو یاد کرے گا تو اسے اپنی پوری زندگی ایسے نظر آئے گی جیسے وہ ایک دن کی بھی صرف چند گھڑیاں دنیا میں رہا تھا۔
فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا
📘 آیت 5{ فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا۔ } ”پھر حسب حکم معاملات کی تدبیر کرتے ہیں۔“ یعنی ہر مرنے والے کی روح کو فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سِجِّین یا عِلِّیّین میں لے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان قسموں کا جواب یا مقسم علیہ چونکہ محذوف ہے ‘ اس لیے ان قسموں کا مقسم علیہ بھی وہی تصور ہوگا جو سورة الذاریات اور سورة المرسلات میں مذکور ہے۔ یعنی : { اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ - وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ۔ } الذّٰرِیٰت ”جو وعدہ تمہیں دیا جا رہا ہے وہ یقینا سچ ہے۔ اور جزا و سزا ضرور واقع ہو کر رہے گی“۔ اور { اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَـوَاقِعٌ۔ } المرسلٰت ”جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ یقینا واقع ہو کر رہے گی۔“
يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ
📘 آیت 6 { یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ۔ } ”جس دن کانپے گی کانپنے والی۔“ یعنی قیامت کے دن شدید زلزلے کی وجہ سے پوری زمین لرز اٹھے گی۔ قیامت کے زلزلے اور اس دن کی ہولناک کیفیات کا ذکر قرآن مجید میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ سورة الحج کی ابتدائی آیات کا یہ انداز بہت عبرت آموز ہے :{ یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمْج اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ - یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰـکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ۔ } ”اے لوگو ! تقویٰ اختیار کروا پنے رب کا ‘ یقینا قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہوگا۔ جس دن تم اس کو دیکھو گے ‘ اس دن حال یہ ہوگا کہ بھول جائے گی ہر دودھ پلانے والی جسے وہ دودھ پلاتی تھی اور دہشت کا عالم یہ ہوگا کہ ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور تم دیکھو گے لوگوں کو جیسے وہ نشے میں ہوں ‘ حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے ‘ بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہے۔“
تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ
📘 آیت 7{ تَتْبَعُہَا الرَّادِفَۃُ۔ } ”اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا آئے گا۔“ اس سے نفخہ ثانیہ مراد ہے ‘ جس کے بعد سب ُ مردے دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔
قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ
📘 آیت 7{ تَتْبَعُہَا الرَّادِفَۃُ۔ } ”اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا آئے گا۔“ اس سے نفخہ ثانیہ مراد ہے ‘ جس کے بعد سب ُ مردے دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔
أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ
📘 آیت 9{ اَبْصَارُہَا خَاشِعَۃٌ۔ } ”ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔“ فرطِ خوف سے آنکھیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی ‘ اوپر آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ ہوگی۔