🕋 تفسير سورة الأعلى
(Al-Ala) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى
📘 آیت 1{ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی۔ } ”پاکی بیان کرو اپنے رب کے نام کی جو بہت بلند وبالا ہے۔“ یہ حکم یوں بھی ہوسکتا تھا کہ ”اپنے رب کی پاکی بیان کرو“ لیکن یہاں خصوصی طور پر اسم نام کا لفظ اس لیے آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے تصور سے وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ہے۔ اس کی ذات کے ساتھ ہمارا ذہنی و قلبی تعلق صرف اور صرف اس کے ناموں کے حوالے سے ہے۔ اسی لیے ہمیں حکم دیا گیا ہے : { وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَاص } الاعراف : 180 ”اور تمام اچھے نام اللہ ہی کے ہیں ‘ تو پکارو اسے اُن اچھے ناموں سے“۔ چناچہ ہم انسان اگر اللہ کا ذکر کرنا چاہیں یا اس کی تسبیح وتحمید کرنا چاہیں تو ظاہر ہے اس کے اسماء کے حوالے سے ہی کرسکتے ہیں۔
سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَخْشَىٰ
📘 آیت 10{ سَیَذَّکَّرُ مَنْ یَّخْشٰی۔ } ”وہ نصیحت حاصل کرلے گا جو ڈرتا ہے۔“ آپ ﷺ لوگوں کو تذکیر و نصیحت کرتے جایئے ‘ جس کے دل میں اللہ کا خوف ہوگا وہ اس کا اثر ضرور قبول کرے گا اور اسے فائدہ بھی ہوگا۔ چناچہ اے نبی ﷺ جب بھی آپ پر کوئی نئی وحی آئے تو آپ وہ نیا کلام پڑھ کر لوگوں کو ضرور سنائیں۔ آپ ﷺ کے اہل ایمان ساتھیوں کے علم اور ایمان میں اس سے ضرور اضافہ ہوگا۔
وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى
📘 آیت 10{ سَیَذَّکَّرُ مَنْ یَّخْشٰی۔ } ”وہ نصیحت حاصل کرلے گا جو ڈرتا ہے۔“ آپ ﷺ لوگوں کو تذکیر و نصیحت کرتے جایئے ‘ جس کے دل میں اللہ کا خوف ہوگا وہ اس کا اثر ضرور قبول کرے گا اور اسے فائدہ بھی ہوگا۔ چناچہ اے نبی ﷺ جب بھی آپ پر کوئی نئی وحی آئے تو آپ وہ نیا کلام پڑھ کر لوگوں کو ضرور سنائیں۔ آپ ﷺ کے اہل ایمان ساتھیوں کے علم اور ایمان میں اس سے ضرور اضافہ ہوگا۔
الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَىٰ
📘 آیت 10{ سَیَذَّکَّرُ مَنْ یَّخْشٰی۔ } ”وہ نصیحت حاصل کرلے گا جو ڈرتا ہے۔“ آپ ﷺ لوگوں کو تذکیر و نصیحت کرتے جایئے ‘ جس کے دل میں اللہ کا خوف ہوگا وہ اس کا اثر ضرور قبول کرے گا اور اسے فائدہ بھی ہوگا۔ چناچہ اے نبی ﷺ جب بھی آپ پر کوئی نئی وحی آئے تو آپ وہ نیا کلام پڑھ کر لوگوں کو ضرور سنائیں۔ آپ ﷺ کے اہل ایمان ساتھیوں کے علم اور ایمان میں اس سے ضرور اضافہ ہوگا۔
ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ
📘 آیت 13{ ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی۔ } ”پھر نہ اس میں وہ مرے گا نہ زندہ رہے گا۔“ جہنم کی یہی خصوصیت سورة المدثر میں بایں الفاظ بیان ہوئی ہے : { لَا تُبْقِیْ وَلَا تَذَرُ۔ } ”وہ انسان کو نہ تو باقی رہنے دے گی اور نہ ہی اسے چھوڑے گی۔“
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّىٰ
📘 آیت 14{ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی۔ } ”یقینا وہ کامیاب ہوگیا جس نے خود کو پاک کرلیا۔“ ان آیات میں بہت اہم اور بنیادی نوعیت کے مضامین بیان ہوئے ہیں۔ اگلی سورتوں میں مختلف مقامات پر ان مضامین کی مزید وضاحت آئے گی۔ تَزَکّٰیسے مراد یہاں روح کی پاکیزگی ہے۔ بنیادی طور پر انسان کی روح بہت بلند اور اعلیٰ چیز ہے۔ سورة التین کی اس آیت میں دراصل انسان کی روح کی تخلیق ہی کا ذکر ہے : { لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ } کہ ہم نے انسان کو بہت عمدہ تخلیق پر بنایا ہے۔ لیکن جب اس روح کو جسد حیوانی میں قید کر کے دنیا میں بھیجا گیا تو وقتی طور پر روح اپنے اعلیٰ مقام سے گر کر پستی میں چلی گئی ‘ جس کا ذکر سورة التین کی اگلی آیت میں بایں الفاظ آیا ہے : { ثُمَّ رَدَدْنٰـہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ۔ } کہ پھر ہم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف لوٹا دیا۔ چناچہ انسان کی دنیوی زندگی کا اصل ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ خود کو پستی سے نکال کر دوبارہ بلندی کی طرف لے جائے۔ اگر تو اس نے یہ ہدف حاصل کرلیا تو وہ کامیاب ہے ورنہ ناکام۔ اس کامیابی کے لیے اسے ایک طرف جسد حیوانی کے داعیات یعنی اپنی نفسانی خواہشات کو دبانا ہوگا اور دوسری طرف اپنی روح کو زیادہ سے زیادہ غذا فراہم کرنے کا سامان کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے حیوانی داعیات کمزور ہوں گے تو تبھی روح کو تقویت ملے گی۔ ماہ ِ رمضان کے چوبیس گھنٹے کے معمولات کے ذریعے سے اہل ایمان کو دراصل اسی ”دو طرفہ“ پروگرام کی مشق کرائی جاتی ہے کہ دن کو روزہ رکھ کر حیوانی جسم اور اس کے داعیات کو کمزور کرو اور رات کو قیام اللیل کے دوران انوارِ قرآن کی بارش سے اپنی روح کو سیراب کرو تاکہ تمہاری روح کو ترفع اور اللہ کا قرب حاصل ہو سکے۔ یہ ہے تَزَکّٰی کا اصل مفہوم اور اس کا بنیادی فلسفہ۔
وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ
📘 آیت 15{ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی۔ } ”اور اس نے اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔“ اس آیت کے الفاظ کی عملی تصویر جمعہ کا اجتماع ہے۔ اجتماعِ جمعہ میں بھی پہلے خطبہ کی صورت میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے پھر نماز پڑھی جاتی ہے۔ مسلم شریف کی ایک حدیث میں اجتماعِ جمعہ کے حوالے سے حضور ﷺ کا یہ معمول نقل ہوا ہے : کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ خُطْبَتَانِ کَانَ یَجْلِسُ بَیْنَھُمَا ‘ یَـقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیُذَکِّرُ النَّاسَ 1”اللہ کے رسول ﷺ کے دو خطبے ہوتے تھے ‘ ان کے دوران آپ ﷺ بیٹھا کرتے تھے۔ آپ ﷺ قرآن حکیم پڑھ کر سناتے اور لوگوں کو نصیحت فرماتے۔“ حضور ﷺ کے دونوں خطبات بہت مختصر ہوتے تھے۔ اس لیے صاف ظاہر ہے کہ ان کے درمیان حضور ﷺ تھکان کی وجہ سے تو نہیں بیٹھتے تھے۔ میری رائے اس حوالے سے یہ ہے کہ یہ دو خطبات نماز ظہر کی دو رکعتوں کے قائم مقام ہیں۔ نماز ظہر میں فرضوں کی چار رکعتیں ہیں جبکہ نماز جمعہ میں دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں چناچہ اس دوران حضور ﷺ کا بیٹھنا دراصل اپنے خطاب کو باقاعدہ دو خطبوں کی شکل دینے کے لیے ہوتا تھا۔ ان خطبات میں جیسا کہ حدیث میں ذکر ہوا ہے ‘ حضور ﷺ آیاتِ قرآنی کے ذریعے تذکیر فرماتے تھے۔ آپ ﷺ کے تمام سامعین چونکہ قرآن کی زبان کو بخوبی سمجھتے تھے اس لیے ”از دل خیزد بر دل ریزد“ کے مصداق قرآن مجید کا مفہوم بغیر کسی وضاحت اور تشریح کے دلوں میں اترتا چلا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں چونکہ عام سامعین عربی خطبہ کو نہیں سمجھ سکتے اس لیے ان کی تذکیر کے لیے خطبہ سے پہلے ”خطاب“ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اجتماعِ جمعہ کے موقع پر ذکر و تذکیر کی اسلام میں کیا اہمیت ہے ‘ اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے ہوتا ہے۔ اجتماعِ جمعہ میں بروقت حاضری کو یقینی بنانے کی ترغیب دیتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا : اِذَا کَانَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ کَانَ عَلٰی کُلِّ بَابٍ مِنْ اَبْوَابِ الْمَسْجِدِ الْمَلَائِکَۃُ ، یَکْتُبُوْنَ الْاَوَّلَ فَالْاَوَّلَ ، فَاِذَا جَلَسَ الْاِمَامُ طَوَوُا الصُّحُفَ ، وَجَاؤُوا یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ 1”جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ وہ پہلے آنے والوں کو پہلے لکھتے ہیں۔ پھر جب امام منبر پر بیٹھ جاتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر سمیٹ لیتے ہیں اور ذکر سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔“ حضور ﷺ کے دوسرے فرمان میں جمعہ کے لیے جلدی مسجد آنے والوں کے لیے درجہ بدرجہ فضیلت کی وضاحت بھی ملتی ہے : مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ غُسْلَ الْجَنَابَۃِ ثُمَّ رَاحَ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَۃً ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الثَّانِیَۃِ فَکَاََنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَۃً ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الثَّالِثَۃِ فَکَاَنَّمَا قَرَّبَ کَبْشًا أَقْرَنَ ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الرَّابِعَۃِ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ دُجَاجَۃً ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الْخَامِسَۃِ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ بَیْضَۃً فَإِذَا خَرَجَ الْاِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِکَۃُ یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ 2”جو آدمی جمعہ کے دن غسل ِجنابت کی طرح اہتمام کے ساتھ غسل کرے پھر وہ صبح صبح مسجد میں جائے تو وہ اس طرح ہے گویا اس نے ایک اونٹ قربان کیا ‘ اور جو آدمی دوسری ساعت میں جائے تو گویا اس نے ایک گائے قربان کی ‘ اور جو آدمی تیسری ساعت میں گیا تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا قربان کیا ‘ اور جو چوتھی ساعت میں گیا تو گویا اس نے ایک مر غی قربان کی ‘ اور جو پانچویں ساعت میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈا قربان کر کے اللہ کا قرب حاصل کیا۔ پھر جب امام خطبہ کے لیے نکلے تو فرشتے بھی اندراج کا سلسلہ ختم کر کے ذکر سننے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں۔“اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علماء نے لفظ ”ساعت“ کی مختلف تاویلیں کی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رح کی رائے اس ضمن میں یہ ہے ذاتی طور پر مجھے اس رائے سے اختلاف ہے کہ اس لفظ کا تعلق وقت کی ظاہری تقسیم سے نہیں بلکہ ان ”ساعتوں“ سے مخفی ساعتیں مراد ہیں۔ البتہ اس حدیث میں جس خطبہ کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد مسنون خطبہ ہے۔ اس حکم کا اطلاق ہمارے ائمہ اور خطباء کی مقامی زبانوں میں کی جانے والی تقاریر پر نہیں ہوتا۔ خطبہ شروع ہونے کے بعد حاضری کا اندراج نہ ہونے کے حوالے سے شاہ ولی اللہ رح کی رائے یہ ہے کہ اس کے بعد آنے والے جمعہ کی فضیلت سے محروم رہیں گے ‘ البتہ ان کے فرض کی ادائیگی ہوجائے گی ‘ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص خطبہ کے دوران بھی شامل ہوگا تو فرض کی ادائیگی کی حد تک اس کی حاضری بھی قبول سمجھی جائے گی۔
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
📘 آیت 16{ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا۔ } ”بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔“ دراصل انسان کی اخروی کامیابی یا ناکامی کا تمام تر انحصار اس کی ترجیحات پر ہے۔ اگر تو وہ اپنے معاملات کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے آخرت کی کامیابی کو مقدم رکھتا ہے اور دنیوی مفادات کے حوالے سے قناعت پسندی کی حکمت عملی پر کاربند رہتا ہے تو وہ کامیاب ہے اور اگر اس کا معاملہ اس کے برعکس ہے تو اس کا راستہ تباہی اور بربادی کا راستہ ہے۔ اس آیت میں اس حوالے سے ہم جیسے دنیادار مسلمانوں کے اصل مرض کی نشاندہی کردی گئی ہے کہ ہم دنیوی زندگی کے مفادات کو آخرت کے معاملات پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا نفع اور نقصان ہمیں نقد نظر آتا ہے جبکہ آخرت کی راحت اور تکلیف ہمیں سامنے نظر نہیں آتی۔ اس لیے دنیا کا معمولی سا مفاد ہم آخرت کے بہت بڑے عذاب کے بدلے میں بھی حاصل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ جیسے سورة النساء کی آیت 10 میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ جو لوگ ظلم و زیادتی سے یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں۔ لیکن آج دنیا میں جو کوئی ایسا مال کھاتا ہے اسے ایسا کرتے ہوئے تو محسوس نہیں ہو تاکہ وہ آگ کے انگارے پیٹ میں بھر رہا ہے ‘ اس لیے جب وہ ایسے مال کو اپنی پہنچ میں دیکھتا ہے تو اسے غصب کرنے سے باز نہیں رہتا۔ انسان کی اس طبعی اور جبلی کمزوری یا خامی کا ذکر سورة القیامہ میں بایں الفاظ آیا ہے : { کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ - وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ۔ } ”ہرگز نہیں ! اصل میں تم لوگ عاجلہ جلد ملنے والی چیز سے محبت کرتے ہو۔ اور تم آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔“
وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ
📘 آیت 16{ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا۔ } ”بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔“ دراصل انسان کی اخروی کامیابی یا ناکامی کا تمام تر انحصار اس کی ترجیحات پر ہے۔ اگر تو وہ اپنے معاملات کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے آخرت کی کامیابی کو مقدم رکھتا ہے اور دنیوی مفادات کے حوالے سے قناعت پسندی کی حکمت عملی پر کاربند رہتا ہے تو وہ کامیاب ہے اور اگر اس کا معاملہ اس کے برعکس ہے تو اس کا راستہ تباہی اور بربادی کا راستہ ہے۔ اس آیت میں اس حوالے سے ہم جیسے دنیادار مسلمانوں کے اصل مرض کی نشاندہی کردی گئی ہے کہ ہم دنیوی زندگی کے مفادات کو آخرت کے معاملات پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا نفع اور نقصان ہمیں نقد نظر آتا ہے جبکہ آخرت کی راحت اور تکلیف ہمیں سامنے نظر نہیں آتی۔ اس لیے دنیا کا معمولی سا مفاد ہم آخرت کے بہت بڑے عذاب کے بدلے میں بھی حاصل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ جیسے سورة النساء کی آیت 10 میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ جو لوگ ظلم و زیادتی سے یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں۔ لیکن آج دنیا میں جو کوئی ایسا مال کھاتا ہے اسے ایسا کرتے ہوئے تو محسوس نہیں ہو تاکہ وہ آگ کے انگارے پیٹ میں بھر رہا ہے ‘ اس لیے جب وہ ایسے مال کو اپنی پہنچ میں دیکھتا ہے تو اسے غصب کرنے سے باز نہیں رہتا۔ انسان کی اس طبعی اور جبلی کمزوری یا خامی کا ذکر سورة القیامہ میں بایں الفاظ آیا ہے : { کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ - وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ۔ } ”ہرگز نہیں ! اصل میں تم لوگ عاجلہ جلد ملنے والی چیز سے محبت کرتے ہو۔ اور تم آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔“
إِنَّ هَٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ
📘 آیت 18{ اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی۔ } ”یقینا یہی بات اگلے صحیفوں میں بھی۔“ یعنی تذکیر اور ہدایت کا اصل جوہر اور خلاصہ یہی ہے کہ انسان آخرت کو دنیا پر ترجیح دے ‘ کیونکہ دنیا فانی اور وقتی ہے جبکہ آخرت اس سے کہیں بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ہدایت کے حوالے سے یہ بنیادی نکتہ پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی مذکور تھا۔
صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ
📘 آیت 19{ صُحُفِ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی۔ } ”یعنی ابراہیم اور موسیٰ e کے صحیفوں میں۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صحائف تو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں ‘ البتہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحائف کا آج بظاہر کہیں نشان نہیں ملتا۔ اس حوالے سے میری رائے یہ ہے اور میں اپنی اس رائے کا اظہار قبل ازیں بھی متعدد بار کرچکا ہوں کہ ہندوئوں کے اپنشد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحائف ہی کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔
الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ
📘 آیت 2 ‘ 3{ الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی - وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی۔ } ”جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ‘ پھر تناسب قائم کیا۔ اور جس نے ہر شے کا اندازہ مقرر کیا ‘ پھر اسے فطری ہدایت عطا فرمائی۔“ ان چار الفاظ خَلَقَ ‘ فَسَوّٰی ‘ قَدَّرَ ‘ فَھَدٰی میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان بھی ہے اور تخلیقی عمل کے مختلف مراحل کا ذکر بھی۔ اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق کے حوالے سے تین اسمائے حسنیٰ اَلْخَالِقُ ‘ اَلْـبَارِیٔ‘ اَلْمُصَوِّرُ کا ایک ساتھ ذکر قبل ازیں سورة الحشر کی آخری آیت میں بھی آچکا ہے۔ سورة الحشر کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی یہ تین صفات ایک خاص منطقی ترتیب سے بیان ہوئی ہیں۔ یہ ترتیب دراصل تخلیقی عمل کے مرحلہ وار ارتقاء کی نشاندہی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے کسی چیز کا نقشہ یا نمونہ بناتا ہے ‘ اس لحاظ سے وہ اَلْخَالِقُہے۔ پھر وہ مطلوبہ چیز کو طے شدہ نمونے کے مطابق عدم سے عالم وجود میں ظاہر فرماتا ہے ‘ اس اعتبار سے وہ اَلْـبَارِیہے۔ تیسرے مرحلے میں وہ اس تخلیق کو ظاہری صورت یا شکل عطا فرماتا ہے ‘ اس مفہوم میں وہ اَلْمُصَوِّرُہے۔ سورة الحشر کی مذکورہ آیت میں تخلیقی عمل کے جن تین مراحل کا ذکر ہوا ہے ان کا تعلق چیزوں کے ظاہری یا مادی وجود سے ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیات میں مادی وجود کی تخلیق کے ساتھ ساتھ چیزوں کے باطنی خصائص کی تخلیق کا ذکر بھی ہے۔ خَلَقَ فَسَوّٰیکے الفاظ میں چیزوں کے مادی وجود کی تخلیق کے مراحل کا بیان ہے ‘ جبکہ قَدَّرَ فَھَدٰی کے الفاظ کسی تخلیق کے باطنی پہلوئوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اب ہم ان الفاظ کے معانی و مفہوم کو انسانی ماحول کی مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چناچہ پہلے دو مراحل تخلیق اور تسویہ کو ایک عمارت کی مثال کے حوالے سے یوں سمجھئے کہ کسی عمارت کا ڈھانچہ کھڑا کردینا اس کی ”تخلیق“ ہے ‘ جبکہ اس کو سجانا ‘ سنوارنا finishing وغیرہ اس کا ”تسویہ“ ہے۔ تخلیق کا تیسرا مرحلہ جس کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ ”قدر“ ہے۔ قدر کے لغوی معنی اندازہ مقرر کرنے کے ہیں ‘ جسے عرفِ عام میں ہمارے ہاں تقدیر کہا جاتا ہے۔ اس مفہوم میں کسی تخلیق کے معیار ‘ اس کی صلاحیت ‘ استعداد اور حدود limitations سمیت جملہ خصوصیات کو اس کی قدر یا تقدیر کہا جائے گا۔ مثلاً انسان اشرف المخلوقات تو ہے لیکن وہ ہوا میں اڑنے سے معذور ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی چڑیا آسانی سے ہوا میں اڑتی پھرتی ہے۔ تو گویا ہوا میں اڑنے کی یہ صلاحیت رکھنا چڑیا کی تقدیر کا خاصہ ہے اور اس اعتبار سے معذور ہونا انسان کی تقدیر کا حصہ ہے۔ اس کے بعد تخلیق کے اگلے مرحلے کے طور پر یہاں ”ہدایت“ کا ذکر آیا ہے۔ اس سے مراد وہ فطری اور جبلی ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کو پیدائشی طور پر عطا کر رکھی ہے۔ اسی ”ہدایت“ کی روشنی میں بکری کو معلوم ہوا ہے کہ اسے گھاس کھانا ہے اور شیر جانتا ہے کہ اس کی غذا گوشت ہے۔ غرض ہر جاندار اپنی زندگی اسی طریقے اور اسی لائحہ عمل کے مطابق گزار رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے طے کردیا ہے۔ تخلیق کے ان چار مراحل کے حوالے سے اگر ہم انسانی زندگی کا جائزہ لیں تو پہلے دو مراحل یعنی تخلیق اور تسویہ کے اعتبار سے تو انسان میں اور اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن اگلے دو مراحل تقدیر اور ہدایت کے حوالے سے انسان کا معاملہ دوسری مخلوقات سے الگ ہے۔ اس لحاظ سے ہر انسان کی قدر ‘ صلاحیت اور استعداد اللہ تعالیٰ کے ہاں دو طرح سے طے پاتی ہے۔ اس کا ایک پہلو یا ایک حصہ تو وہ ہے جو اسے پیدائشی طور پر جینز genes کی صورت میں عطا ہوا given ہے اور دوسرا پہلو یا دوسرا حصہ اس کے ماحول کا ہے جس میں وہ آنکھ کھولتا اور پرورش پاتا ہے۔ ان دونوں پہلوئوں کے اچھے برے اور مثبت و منفی عوامل کے ملنے سے ہر انسان کی شخصیت کا ایک سانچہ تیار ہوتا ہے جسے سورة بنی اسرائیل کی آیت 84 میں ”شاکلہ“ کا نام دیا گیا ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل کی اس آیت کے تحت اس اصطلاح کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ اسی سانچہ یا شاکلہ سے ہر انسان کی استعداد کی حدود متعین ہوتی ہیں۔ اور کوئی انسان انگریزی محاورہ " one cannot out grow ones skin" کوئی انسان اپنی کھال سے باہر نہیں نکل سکتا کے مصداق ان حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ ہر انسان نیکی کرے گا تو اپنی اسی استعداد کے مطابق کرے گا اور اگر برائی کمائے گا تو انہی حدود کے اندر رہ کر ایسا کرے گا۔ غرض ہر انسان کی عملی زندگی کی ساری محنت ‘ کوشش اور بھاگ دوڑ اپنے شاکلہ کے مطابق ہی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جانچ evaluation بھی اسی حوالے سے کی جائے گی۔ مثلاً ایک شخص کی صلاحیت پچاس درجے تک پہنچنے کی تھی ‘ اگر وہ چالیس درجے تک پہنچ گیا تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ کامیاب قرار پائے۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص جو سو درجے تک جانے کی استعداد رکھتا تھا ‘ وہ ممکن ہے پچاس درجے تک پہنچنے کے بعد بھی ناکام رہے۔ بہرحال اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ایک اصول طے فرمادیا کہ { لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَاط } البقرۃ : 286 ”اللہ تعالیٰ نہیں ذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔“ اسی طرح انسان کی ”ہدایت“ کے بھی دو درجے ہیں۔ پہلا درجہ تو جبلی ہدایت کا ہے۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کو جبلی ہدایت سے نواز رکھا ہے اسی طرح اس نے ہر انسان کو بھی فطری اور جبلی طور پر ہدایت کا ایک حصہ عطا فرمایا ہے۔ جبکہ انسان کی ہدایت کا دوسرا حصہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے وحی کے ذریعے عطا فرمایا ہے۔ یعنی انسان کی فطرت میں پہلے سے ودیعت شدہ بنیادی ہدایت کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پیغمبر بھی بھیجے اور کتابیں بھی نازل کیں۔
وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ
📘 آیت 2 ‘ 3{ الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی - وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی۔ } ”جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ‘ پھر تناسب قائم کیا۔ اور جس نے ہر شے کا اندازہ مقرر کیا ‘ پھر اسے فطری ہدایت عطا فرمائی۔“ ان چار الفاظ خَلَقَ ‘ فَسَوّٰی ‘ قَدَّرَ ‘ فَھَدٰی میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان بھی ہے اور تخلیقی عمل کے مختلف مراحل کا ذکر بھی۔ اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق کے حوالے سے تین اسمائے حسنیٰ اَلْخَالِقُ ‘ اَلْـبَارِیٔ‘ اَلْمُصَوِّرُ کا ایک ساتھ ذکر قبل ازیں سورة الحشر کی آخری آیت میں بھی آچکا ہے۔ سورة الحشر کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی یہ تین صفات ایک خاص منطقی ترتیب سے بیان ہوئی ہیں۔ یہ ترتیب دراصل تخلیقی عمل کے مرحلہ وار ارتقاء کی نشاندہی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے کسی چیز کا نقشہ یا نمونہ بناتا ہے ‘ اس لحاظ سے وہ اَلْخَالِقُہے۔ پھر وہ مطلوبہ چیز کو طے شدہ نمونے کے مطابق عدم سے عالم وجود میں ظاہر فرماتا ہے ‘ اس اعتبار سے وہ اَلْـبَارِیہے۔ تیسرے مرحلے میں وہ اس تخلیق کو ظاہری صورت یا شکل عطا فرماتا ہے ‘ اس مفہوم میں وہ اَلْمُصَوِّرُہے۔ سورة الحشر کی مذکورہ آیت میں تخلیقی عمل کے جن تین مراحل کا ذکر ہوا ہے ان کا تعلق چیزوں کے ظاہری یا مادی وجود سے ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیات میں مادی وجود کی تخلیق کے ساتھ ساتھ چیزوں کے باطنی خصائص کی تخلیق کا ذکر بھی ہے۔ خَلَقَ فَسَوّٰیکے الفاظ میں چیزوں کے مادی وجود کی تخلیق کے مراحل کا بیان ہے ‘ جبکہ قَدَّرَ فَھَدٰی کے الفاظ کسی تخلیق کے باطنی پہلوئوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اب ہم ان الفاظ کے معانی و مفہوم کو انسانی ماحول کی مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چناچہ پہلے دو مراحل تخلیق اور تسویہ کو ایک عمارت کی مثال کے حوالے سے یوں سمجھئے کہ کسی عمارت کا ڈھانچہ کھڑا کردینا اس کی ”تخلیق“ ہے ‘ جبکہ اس کو سجانا ‘ سنوارنا finishing وغیرہ اس کا ”تسویہ“ ہے۔ تخلیق کا تیسرا مرحلہ جس کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ ”قدر“ ہے۔ قدر کے لغوی معنی اندازہ مقرر کرنے کے ہیں ‘ جسے عرفِ عام میں ہمارے ہاں تقدیر کہا جاتا ہے۔ اس مفہوم میں کسی تخلیق کے معیار ‘ اس کی صلاحیت ‘ استعداد اور حدود limitations سمیت جملہ خصوصیات کو اس کی قدر یا تقدیر کہا جائے گا۔ مثلاً انسان اشرف المخلوقات تو ہے لیکن وہ ہوا میں اڑنے سے معذور ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی چڑیا آسانی سے ہوا میں اڑتی پھرتی ہے۔ تو گویا ہوا میں اڑنے کی یہ صلاحیت رکھنا چڑیا کی تقدیر کا خاصہ ہے اور اس اعتبار سے معذور ہونا انسان کی تقدیر کا حصہ ہے۔ اس کے بعد تخلیق کے اگلے مرحلے کے طور پر یہاں ”ہدایت“ کا ذکر آیا ہے۔ اس سے مراد وہ فطری اور جبلی ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کو پیدائشی طور پر عطا کر رکھی ہے۔ اسی ”ہدایت“ کی روشنی میں بکری کو معلوم ہوا ہے کہ اسے گھاس کھانا ہے اور شیر جانتا ہے کہ اس کی غذا گوشت ہے۔ غرض ہر جاندار اپنی زندگی اسی طریقے اور اسی لائحہ عمل کے مطابق گزار رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے طے کردیا ہے۔ تخلیق کے ان چار مراحل کے حوالے سے اگر ہم انسانی زندگی کا جائزہ لیں تو پہلے دو مراحل یعنی تخلیق اور تسویہ کے اعتبار سے تو انسان میں اور اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن اگلے دو مراحل تقدیر اور ہدایت کے حوالے سے انسان کا معاملہ دوسری مخلوقات سے الگ ہے۔ اس لحاظ سے ہر انسان کی قدر ‘ صلاحیت اور استعداد اللہ تعالیٰ کے ہاں دو طرح سے طے پاتی ہے۔ اس کا ایک پہلو یا ایک حصہ تو وہ ہے جو اسے پیدائشی طور پر جینز genes کی صورت میں عطا ہوا given ہے اور دوسرا پہلو یا دوسرا حصہ اس کے ماحول کا ہے جس میں وہ آنکھ کھولتا اور پرورش پاتا ہے۔ ان دونوں پہلوئوں کے اچھے برے اور مثبت و منفی عوامل کے ملنے سے ہر انسان کی شخصیت کا ایک سانچہ تیار ہوتا ہے جسے سورة بنی اسرائیل کی آیت 84 میں ”شاکلہ“ کا نام دیا گیا ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل کی اس آیت کے تحت اس اصطلاح کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ اسی سانچہ یا شاکلہ سے ہر انسان کی استعداد کی حدود متعین ہوتی ہیں۔ اور کوئی انسان انگریزی محاورہ " one cannot out grow ones skin" کوئی انسان اپنی کھال سے باہر نہیں نکل سکتا کے مصداق ان حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ ہر انسان نیکی کرے گا تو اپنی اسی استعداد کے مطابق کرے گا اور اگر برائی کمائے گا تو انہی حدود کے اندر رہ کر ایسا کرے گا۔ غرض ہر انسان کی عملی زندگی کی ساری محنت ‘ کوشش اور بھاگ دوڑ اپنے شاکلہ کے مطابق ہی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جانچ evaluation بھی اسی حوالے سے کی جائے گی۔ مثلاً ایک شخص کی صلاحیت پچاس درجے تک پہنچنے کی تھی ‘ اگر وہ چالیس درجے تک پہنچ گیا تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ کامیاب قرار پائے۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص جو سو درجے تک جانے کی استعداد رکھتا تھا ‘ وہ ممکن ہے پچاس درجے تک پہنچنے کے بعد بھی ناکام رہے۔ بہرحال اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ایک اصول طے فرمادیا کہ { لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَاط } البقرۃ : 286 ”اللہ تعالیٰ نہیں ذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔“ اسی طرح انسان کی ”ہدایت“ کے بھی دو درجے ہیں۔ پہلا درجہ تو جبلی ہدایت کا ہے۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کو جبلی ہدایت سے نواز رکھا ہے اسی طرح اس نے ہر انسان کو بھی فطری اور جبلی طور پر ہدایت کا ایک حصہ عطا فرمایا ہے۔ جبکہ انسان کی ہدایت کا دوسرا حصہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے وحی کے ذریعے عطا فرمایا ہے۔ یعنی انسان کی فطرت میں پہلے سے ودیعت شدہ بنیادی ہدایت کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پیغمبر بھی بھیجے اور کتابیں بھی نازل کیں۔
وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَىٰ
📘 آیت 2 ‘ 3{ الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی - وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی۔ } ”جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ‘ پھر تناسب قائم کیا۔ اور جس نے ہر شے کا اندازہ مقرر کیا ‘ پھر اسے فطری ہدایت عطا فرمائی۔“ ان چار الفاظ خَلَقَ ‘ فَسَوّٰی ‘ قَدَّرَ ‘ فَھَدٰی میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان بھی ہے اور تخلیقی عمل کے مختلف مراحل کا ذکر بھی۔ اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق کے حوالے سے تین اسمائے حسنیٰ اَلْخَالِقُ ‘ اَلْـبَارِیٔ‘ اَلْمُصَوِّرُ کا ایک ساتھ ذکر قبل ازیں سورة الحشر کی آخری آیت میں بھی آچکا ہے۔ سورة الحشر کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی یہ تین صفات ایک خاص منطقی ترتیب سے بیان ہوئی ہیں۔ یہ ترتیب دراصل تخلیقی عمل کے مرحلہ وار ارتقاء کی نشاندہی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے کسی چیز کا نقشہ یا نمونہ بناتا ہے ‘ اس لحاظ سے وہ اَلْخَالِقُہے۔ پھر وہ مطلوبہ چیز کو طے شدہ نمونے کے مطابق عدم سے عالم وجود میں ظاہر فرماتا ہے ‘ اس اعتبار سے وہ اَلْـبَارِیہے۔ تیسرے مرحلے میں وہ اس تخلیق کو ظاہری صورت یا شکل عطا فرماتا ہے ‘ اس مفہوم میں وہ اَلْمُصَوِّرُہے۔ سورة الحشر کی مذکورہ آیت میں تخلیقی عمل کے جن تین مراحل کا ذکر ہوا ہے ان کا تعلق چیزوں کے ظاہری یا مادی وجود سے ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیات میں مادی وجود کی تخلیق کے ساتھ ساتھ چیزوں کے باطنی خصائص کی تخلیق کا ذکر بھی ہے۔ خَلَقَ فَسَوّٰیکے الفاظ میں چیزوں کے مادی وجود کی تخلیق کے مراحل کا بیان ہے ‘ جبکہ قَدَّرَ فَھَدٰی کے الفاظ کسی تخلیق کے باطنی پہلوئوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اب ہم ان الفاظ کے معانی و مفہوم کو انسانی ماحول کی مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چناچہ پہلے دو مراحل تخلیق اور تسویہ کو ایک عمارت کی مثال کے حوالے سے یوں سمجھئے کہ کسی عمارت کا ڈھانچہ کھڑا کردینا اس کی ”تخلیق“ ہے ‘ جبکہ اس کو سجانا ‘ سنوارنا finishing وغیرہ اس کا ”تسویہ“ ہے۔ تخلیق کا تیسرا مرحلہ جس کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ ”قدر“ ہے۔ قدر کے لغوی معنی اندازہ مقرر کرنے کے ہیں ‘ جسے عرفِ عام میں ہمارے ہاں تقدیر کہا جاتا ہے۔ اس مفہوم میں کسی تخلیق کے معیار ‘ اس کی صلاحیت ‘ استعداد اور حدود limitations سمیت جملہ خصوصیات کو اس کی قدر یا تقدیر کہا جائے گا۔ مثلاً انسان اشرف المخلوقات تو ہے لیکن وہ ہوا میں اڑنے سے معذور ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی چڑیا آسانی سے ہوا میں اڑتی پھرتی ہے۔ تو گویا ہوا میں اڑنے کی یہ صلاحیت رکھنا چڑیا کی تقدیر کا خاصہ ہے اور اس اعتبار سے معذور ہونا انسان کی تقدیر کا حصہ ہے۔ اس کے بعد تخلیق کے اگلے مرحلے کے طور پر یہاں ”ہدایت“ کا ذکر آیا ہے۔ اس سے مراد وہ فطری اور جبلی ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کو پیدائشی طور پر عطا کر رکھی ہے۔ اسی ”ہدایت“ کی روشنی میں بکری کو معلوم ہوا ہے کہ اسے گھاس کھانا ہے اور شیر جانتا ہے کہ اس کی غذا گوشت ہے۔ غرض ہر جاندار اپنی زندگی اسی طریقے اور اسی لائحہ عمل کے مطابق گزار رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے طے کردیا ہے۔ تخلیق کے ان چار مراحل کے حوالے سے اگر ہم انسانی زندگی کا جائزہ لیں تو پہلے دو مراحل یعنی تخلیق اور تسویہ کے اعتبار سے تو انسان میں اور اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن اگلے دو مراحل تقدیر اور ہدایت کے حوالے سے انسان کا معاملہ دوسری مخلوقات سے الگ ہے۔ اس لحاظ سے ہر انسان کی قدر ‘ صلاحیت اور استعداد اللہ تعالیٰ کے ہاں دو طرح سے طے پاتی ہے۔ اس کا ایک پہلو یا ایک حصہ تو وہ ہے جو اسے پیدائشی طور پر جینز genes کی صورت میں عطا ہوا given ہے اور دوسرا پہلو یا دوسرا حصہ اس کے ماحول کا ہے جس میں وہ آنکھ کھولتا اور پرورش پاتا ہے۔ ان دونوں پہلوئوں کے اچھے برے اور مثبت و منفی عوامل کے ملنے سے ہر انسان کی شخصیت کا ایک سانچہ تیار ہوتا ہے جسے سورة بنی اسرائیل کی آیت 84 میں ”شاکلہ“ کا نام دیا گیا ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل کی اس آیت کے تحت اس اصطلاح کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ اسی سانچہ یا شاکلہ سے ہر انسان کی استعداد کی حدود متعین ہوتی ہیں۔ اور کوئی انسان انگریزی محاورہ " one cannot out grow ones skin" کوئی انسان اپنی کھال سے باہر نہیں نکل سکتا کے مصداق ان حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ ہر انسان نیکی کرے گا تو اپنی اسی استعداد کے مطابق کرے گا اور اگر برائی کمائے گا تو انہی حدود کے اندر رہ کر ایسا کرے گا۔ غرض ہر انسان کی عملی زندگی کی ساری محنت ‘ کوشش اور بھاگ دوڑ اپنے شاکلہ کے مطابق ہی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جانچ evaluation بھی اسی حوالے سے کی جائے گی۔ مثلاً ایک شخص کی صلاحیت پچاس درجے تک پہنچنے کی تھی ‘ اگر وہ چالیس درجے تک پہنچ گیا تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ کامیاب قرار پائے۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص جو سو درجے تک جانے کی استعداد رکھتا تھا ‘ وہ ممکن ہے پچاس درجے تک پہنچنے کے بعد بھی ناکام رہے۔ بہرحال اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ایک اصول طے فرمادیا کہ { لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَاط } البقرۃ : 286 ”اللہ تعالیٰ نہیں ذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔“ اسی طرح انسان کی ”ہدایت“ کے بھی دو درجے ہیں۔ پہلا درجہ تو جبلی ہدایت کا ہے۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کو جبلی ہدایت سے نواز رکھا ہے اسی طرح اس نے ہر انسان کو بھی فطری اور جبلی طور پر ہدایت کا ایک حصہ عطا فرمایا ہے۔ جبکہ انسان کی ہدایت کا دوسرا حصہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے وحی کے ذریعے عطا فرمایا ہے۔ یعنی انسان کی فطرت میں پہلے سے ودیعت شدہ بنیادی ہدایت کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پیغمبر بھی بھیجے اور کتابیں بھی نازل کیں۔
فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَىٰ
📘 آیت 5{ فَجَعَلَہٗ غُثَآئً اَحْوٰی۔ } ”پھر اس کو کردیا سیاہ چورا۔“ یعنی اسی کے طے کردہ نظام کے تحت گھاس اور نباتات وغیرہ زمین سے اگتے ہیں اور پھر گل سڑ کر ختم ہوجاتے ہیں۔
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَىٰ
📘 آیت 6{ سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی۔ } ”اے نبی ﷺ ! ہم آپ کو پڑھا دیں گے ‘ پھر آپ بھولیں گے نہیں۔“ یعنی قرآن مجید میں سے کوئی چیز آپ کو بھولے گی نہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورة القیامہ کی ان آیات میں آیا ہے : { لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ - اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ - فَاِذَا قَرَاْنٰــہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۔ } ”آپ اس قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیں۔ اسے جمع کرنا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر جب ہم اسے پڑھوا دیں تو آپ اس کی قراءت کی پیروی کیجیے۔“
إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَىٰ
📘 آیت 7{ اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ } ”سوائے اس کے کہ جو اللہ چاہے۔“ یہاں یہ کلمہ استثناء صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کے لیے آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے ‘ اس کے حکم اور اذن کے بغیر کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کے حافظہ سے کوئی چیز محو کرنا چاہے تو وہ لاکھ اسے یاد کرتا رہے ‘ یاد نہیں رکھ سکے گا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قرآن مجید کی کوئی آیت حضور ﷺ بھول بھی گئے تھے۔ اس لحاظ سے اس جملے کی مثال سورة الزخرف کی اس آیت جیسی ہے : { قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَـدٌق فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ۔ } ”اے نبی ﷺ ! آپ ان سے کہیے کہ اگر رحمن کا کوئی بیٹا ہوتا تو سب سے پہلا اس کی عبادت کرنے والا میں ہوتا“۔ ظاہر ہے یہ کلام پرزور دینے کا ایک انداز ہے اور اس کا مقصد انتہائی ُ پرزور انداز میں یہ ثابت کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرگز ہرگز کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا۔ { اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَہْرَ وَمَا یَخْفٰی۔ } ”یقینا وہ جانتا ہے اونچی آواز میں کہی گئی بات کو بھی اور جو مخفی رکھی جائے اسے بھی۔“
وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرَىٰ
📘 آیت 8{ وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرٰی۔ } ”اور ہم رفتہ رفتہ پہنچائیں گے آپ کو آسانی تک۔“ تَیْسِیْر یُسر سے باب تفعیل ہے۔ اس باب میں تدریج کے معنی پائے جاتے ہیں۔ چناچہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے نبی ﷺ ! ہم مشکلات میں سے رفتہ رفتہ آپ کے لیے راستہ بناتے چلے جائیں گے اور اس آسان راستے پر آپ ﷺ کو تدریجاً ایک بڑی آسانی کی طرف لے جائیں گے۔ اس سے مراد اس دنیا میں غلبہ دین کی جدوجہد کی کامیابی اور آخرت میں جنت اور اس کی آسائشیں ہیں۔ ہم چاہیں تو آنِ واحد میں آپ ﷺ کے تمام دشمنوں کو آپ ﷺ کے سامنے سرنگوں کردیں اور تمام جن و انس کو ایمان کی توفیق بخش دیں ‘ لیکن ہماری حکمت اور مشیت میں اس معاملے کی ایک تدریج ہے۔ چناچہ ہم آپ ﷺ کی جدوجہد کو مرحلہ وار اور رفتہ رفتہ کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔ اس فلسفے کی مزید وضاحت آگے چل کر سورة الشمس میں آئے گی۔
فَذَكِّرْ إِنْ نَفَعَتِ الذِّكْرَىٰ
📘 آیت 9{ فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی۔ } ”تو آپ ﷺ یاد دہانی کراتے رہیے ‘ اگر یاد دہانی فائدہ دے۔“ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ﷺ انذار و تذکیر کا فریضہ تبھی سرانجام دیں جب مخاطب کو اس سے کچھ فائدہ ہو رہا ہو یعنی وہ اس تذکیر کا اثر قبول کر رہا ہو۔ چناچہ اگلی آیت میں اس حوالے سے وضاحت کردی گئی ہے۔