🕋 تفسير سورة القمر
(Al-Qamar) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ
📘 خدا موجودہ دنیا میں ایسے واقعات برپا کرتا ہے جو قیامت کو پیشگی طور پر قابلِ فہم بنانے والے ہوں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہجرت سے چند سال پہلے پیش آیا۔ جب کہ لوگوں نے دیکھا کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو، جس طرح چاند ٹوٹا ہے اسی طرح پوری دنیا ٹوٹے گی اور پھر نئی دنیا بنائی جائے گی۔
اس طرح کے واقعات میں بلاشبہ سبق ہے۔ مگر ان واقعات سے سبق لینا اسی وقت ممکن ہے جبکہ آدمی اپنی عقل سے اس کے بارے میں سوچے۔ جن لوگوں کے اوپر ان کی خواہشات غالب آگئی ہوں وہ ان کو دیکھ کر کہہ دیں گے کہ ’’یہ جادو ہے‘‘ وہ واقعات کی توجیہہ اپنی خواہش کے مطابق کرکے ان کو اپنے لیے غیر موثر بنا لیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑی سے بڑی دلیل بھی بے معنی ہے۔ وہ اسی وقت ہوش میں آئیں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ظاہر ہو اور ان سے ہوش میں آنے کا موقع چھین لے۔
فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِمَنْ كَانَ كُفِرَ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ
📘 خدا موجودہ دنیا میں ایسے واقعات برپا کرتا ہے جو قیامت کو پیشگی طور پر قابلِ فہم بنانے والے ہوں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہجرت سے چند سال پہلے پیش آیا۔ جب کہ لوگوں نے دیکھا کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو، جس طرح چاند ٹوٹا ہے اسی طرح پوری دنیا ٹوٹے گی اور پھر نئی دنیا بنائی جائے گی۔
اس طرح کے واقعات میں بلاشبہ سبق ہے۔ مگر ان واقعات سے سبق لینا اسی وقت ممکن ہے جبکہ آدمی اپنی عقل سے اس کے بارے میں سوچے۔ جن لوگوں کے اوپر ان کی خواہشات غالب آگئی ہوں وہ ان کو دیکھ کر کہہ دیں گے کہ ’’یہ جادو ہے‘‘ وہ واقعات کی توجیہہ اپنی خواہش کے مطابق کرکے ان کو اپنے لیے غیر موثر بنا لیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑی سے بڑی دلیل بھی بے معنی ہے۔ وہ اسی وقت ہوش میں آئیں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ظاہر ہو اور ان سے ہوش میں آنے کا موقع چھین لے۔
تَنْزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔
كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِالنُّذُرِ
📘 پیغمبر ہمیشہ عام انسان کے روپ میں آتا ہے، اس لیے انسان اس کو پہچان نہیں پاتا، اسی طرح خدا کی اونٹنی بھی بظاہر عام اونٹنی کی طرح تھی۔ اس لیے ثمود کے لوگ اس کو پہچان نہ سکے، اور اس کو مار ڈالا۔ موجودہ دنیا اسی بات کا امتحان ہے۔ یہاں لوگوں کو بظاہر ایک عام آدمی میں خدا کے نمائندہ کو دیکھنا ہے۔ بظاہر ایک عام اونٹنی میں خدا کی اونٹنی کو پہچان لینا ہے۔ جو لوگ اس امتحان میں ناکام رہیں وہ کبھی ہدایت کے راستہ کو نہیں پا سکتے۔
قرآن اگرچہ گہرے معانی کی کتاب ہے۔ مگر اس کے انداز بیان میں حد درجہ وضوح (Clarity) ہے۔ اس وضوح کی بنا پر قرآن کا سمجھنا ہر آدمی کے لیے آسان ہوگیا ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک اعلی تعلیم یافتہ آدمی۔
فَقَالُوا أَبَشَرًا مِنَّا وَاحِدًا نَتَّبِعُهُ إِنَّا إِذًا لَفِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ
📘 پیغمبر ہمیشہ عام انسان کے روپ میں آتا ہے، اس لیے انسان اس کو پہچان نہیں پاتا، اسی طرح خدا کی اونٹنی بھی بظاہر عام اونٹنی کی طرح تھی۔ اس لیے ثمود کے لوگ اس کو پہچان نہ سکے، اور اس کو مار ڈالا۔ موجودہ دنیا اسی بات کا امتحان ہے۔ یہاں لوگوں کو بظاہر ایک عام آدمی میں خدا کے نمائندہ کو دیکھنا ہے۔ بظاہر ایک عام اونٹنی میں خدا کی اونٹنی کو پہچان لینا ہے۔ جو لوگ اس امتحان میں ناکام رہیں وہ کبھی ہدایت کے راستہ کو نہیں پا سکتے۔
قرآن اگرچہ گہرے معانی کی کتاب ہے۔ مگر اس کے انداز بیان میں حد درجہ وضوح (Clarity) ہے۔ اس وضوح کی بنا پر قرآن کا سمجھنا ہر آدمی کے لیے آسان ہوگیا ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک اعلی تعلیم یافتہ آدمی۔
أَأُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ
📘 پیغمبر ہمیشہ عام انسان کے روپ میں آتا ہے، اس لیے انسان اس کو پہچان نہیں پاتا، اسی طرح خدا کی اونٹنی بھی بظاہر عام اونٹنی کی طرح تھی۔ اس لیے ثمود کے لوگ اس کو پہچان نہ سکے، اور اس کو مار ڈالا۔ موجودہ دنیا اسی بات کا امتحان ہے۔ یہاں لوگوں کو بظاہر ایک عام آدمی میں خدا کے نمائندہ کو دیکھنا ہے۔ بظاہر ایک عام اونٹنی میں خدا کی اونٹنی کو پہچان لینا ہے۔ جو لوگ اس امتحان میں ناکام رہیں وہ کبھی ہدایت کے راستہ کو نہیں پا سکتے۔
قرآن اگرچہ گہرے معانی کی کتاب ہے۔ مگر اس کے انداز بیان میں حد درجہ وضوح (Clarity) ہے۔ اس وضوح کی بنا پر قرآن کا سمجھنا ہر آدمی کے لیے آسان ہوگیا ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک اعلی تعلیم یافتہ آدمی۔
سَيَعْلَمُونَ غَدًا مَنِ الْكَذَّابُ الْأَشِرُ
📘 پیغمبر ہمیشہ عام انسان کے روپ میں آتا ہے، اس لیے انسان اس کو پہچان نہیں پاتا، اسی طرح خدا کی اونٹنی بھی بظاہر عام اونٹنی کی طرح تھی۔ اس لیے ثمود کے لوگ اس کو پہچان نہ سکے، اور اس کو مار ڈالا۔ موجودہ دنیا اسی بات کا امتحان ہے۔ یہاں لوگوں کو بظاہر ایک عام آدمی میں خدا کے نمائندہ کو دیکھنا ہے۔ بظاہر ایک عام اونٹنی میں خدا کی اونٹنی کو پہچان لینا ہے۔ جو لوگ اس امتحان میں ناکام رہیں وہ کبھی ہدایت کے راستہ کو نہیں پا سکتے۔
قرآن اگرچہ گہرے معانی کی کتاب ہے۔ مگر اس کے انداز بیان میں حد درجہ وضوح (Clarity) ہے۔ اس وضوح کی بنا پر قرآن کا سمجھنا ہر آدمی کے لیے آسان ہوگیا ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک اعلی تعلیم یافتہ آدمی۔
إِنَّا مُرْسِلُو النَّاقَةِ فِتْنَةً لَهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ
📘 پیغمبر ہمیشہ عام انسان کے روپ میں آتا ہے، اس لیے انسان اس کو پہچان نہیں پاتا، اسی طرح خدا کی اونٹنی بھی بظاہر عام اونٹنی کی طرح تھی۔ اس لیے ثمود کے لوگ اس کو پہچان نہ سکے، اور اس کو مار ڈالا۔ موجودہ دنیا اسی بات کا امتحان ہے۔ یہاں لوگوں کو بظاہر ایک عام آدمی میں خدا کے نمائندہ کو دیکھنا ہے۔ بظاہر ایک عام اونٹنی میں خدا کی اونٹنی کو پہچان لینا ہے۔ جو لوگ اس امتحان میں ناکام رہیں وہ کبھی ہدایت کے راستہ کو نہیں پا سکتے۔
قرآن اگرچہ گہرے معانی کی کتاب ہے۔ مگر اس کے انداز بیان میں حد درجہ وضوح (Clarity) ہے۔ اس وضوح کی بنا پر قرآن کا سمجھنا ہر آدمی کے لیے آسان ہوگیا ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک اعلی تعلیم یافتہ آدمی۔
وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ ۖ كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ
📘 پیغمبر ہمیشہ عام انسان کے روپ میں آتا ہے، اس لیے انسان اس کو پہچان نہیں پاتا، اسی طرح خدا کی اونٹنی بھی بظاہر عام اونٹنی کی طرح تھی۔ اس لیے ثمود کے لوگ اس کو پہچان نہ سکے، اور اس کو مار ڈالا۔ موجودہ دنیا اسی بات کا امتحان ہے۔ یہاں لوگوں کو بظاہر ایک عام آدمی میں خدا کے نمائندہ کو دیکھنا ہے۔ بظاہر ایک عام اونٹنی میں خدا کی اونٹنی کو پہچان لینا ہے۔ جو لوگ اس امتحان میں ناکام رہیں وہ کبھی ہدایت کے راستہ کو نہیں پا سکتے۔
قرآن اگرچہ گہرے معانی کی کتاب ہے۔ مگر اس کے انداز بیان میں حد درجہ وضوح (Clarity) ہے۔ اس وضوح کی بنا پر قرآن کا سمجھنا ہر آدمی کے لیے آسان ہوگیا ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک اعلی تعلیم یافتہ آدمی۔
فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَىٰ فَعَقَرَ
📘 پیغمبر ہمیشہ عام انسان کے روپ میں آتا ہے، اس لیے انسان اس کو پہچان نہیں پاتا، اسی طرح خدا کی اونٹنی بھی بظاہر عام اونٹنی کی طرح تھی۔ اس لیے ثمود کے لوگ اس کو پہچان نہ سکے، اور اس کو مار ڈالا۔ موجودہ دنیا اسی بات کا امتحان ہے۔ یہاں لوگوں کو بظاہر ایک عام آدمی میں خدا کے نمائندہ کو دیکھنا ہے۔ بظاہر ایک عام اونٹنی میں خدا کی اونٹنی کو پہچان لینا ہے۔ جو لوگ اس امتحان میں ناکام رہیں وہ کبھی ہدایت کے راستہ کو نہیں پا سکتے۔
قرآن اگرچہ گہرے معانی کی کتاب ہے۔ مگر اس کے انداز بیان میں حد درجہ وضوح (Clarity) ہے۔ اس وضوح کی بنا پر قرآن کا سمجھنا ہر آدمی کے لیے آسان ہوگیا ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک اعلی تعلیم یافتہ آدمی۔
وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَكُلُّ أَمْرٍ مُسْتَقِرٌّ
📘 خدا موجودہ دنیا میں ایسے واقعات برپا کرتا ہے جو قیامت کو پیشگی طور پر قابلِ فہم بنانے والے ہوں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہجرت سے چند سال پہلے پیش آیا۔ جب کہ لوگوں نے دیکھا کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو، جس طرح چاند ٹوٹا ہے اسی طرح پوری دنیا ٹوٹے گی اور پھر نئی دنیا بنائی جائے گی۔
اس طرح کے واقعات میں بلاشبہ سبق ہے۔ مگر ان واقعات سے سبق لینا اسی وقت ممکن ہے جبکہ آدمی اپنی عقل سے اس کے بارے میں سوچے۔ جن لوگوں کے اوپر ان کی خواہشات غالب آگئی ہوں وہ ان کو دیکھ کر کہہ دیں گے کہ ’’یہ جادو ہے‘‘ وہ واقعات کی توجیہہ اپنی خواہش کے مطابق کرکے ان کو اپنے لیے غیر موثر بنا لیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑی سے بڑی دلیل بھی بے معنی ہے۔ وہ اسی وقت ہوش میں آئیں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ظاہر ہو اور ان سے ہوش میں آنے کا موقع چھین لے۔
فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ
📘 پیغمبر ہمیشہ عام انسان کے روپ میں آتا ہے، اس لیے انسان اس کو پہچان نہیں پاتا، اسی طرح خدا کی اونٹنی بھی بظاہر عام اونٹنی کی طرح تھی۔ اس لیے ثمود کے لوگ اس کو پہچان نہ سکے، اور اس کو مار ڈالا۔ موجودہ دنیا اسی بات کا امتحان ہے۔ یہاں لوگوں کو بظاہر ایک عام آدمی میں خدا کے نمائندہ کو دیکھنا ہے۔ بظاہر ایک عام اونٹنی میں خدا کی اونٹنی کو پہچان لینا ہے۔ جو لوگ اس امتحان میں ناکام رہیں وہ کبھی ہدایت کے راستہ کو نہیں پا سکتے۔
قرآن اگرچہ گہرے معانی کی کتاب ہے۔ مگر اس کے انداز بیان میں حد درجہ وضوح (Clarity) ہے۔ اس وضوح کی بنا پر قرآن کا سمجھنا ہر آدمی کے لیے آسان ہوگیا ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک اعلی تعلیم یافتہ آدمی۔
إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَاحِدَةً فَكَانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ
📘 پیغمبر ہمیشہ عام انسان کے روپ میں آتا ہے، اس لیے انسان اس کو پہچان نہیں پاتا، اسی طرح خدا کی اونٹنی بھی بظاہر عام اونٹنی کی طرح تھی۔ اس لیے ثمود کے لوگ اس کو پہچان نہ سکے، اور اس کو مار ڈالا۔ موجودہ دنیا اسی بات کا امتحان ہے۔ یہاں لوگوں کو بظاہر ایک عام آدمی میں خدا کے نمائندہ کو دیکھنا ہے۔ بظاہر ایک عام اونٹنی میں خدا کی اونٹنی کو پہچان لینا ہے۔ جو لوگ اس امتحان میں ناکام رہیں وہ کبھی ہدایت کے راستہ کو نہیں پا سکتے۔
قرآن اگرچہ گہرے معانی کی کتاب ہے۔ مگر اس کے انداز بیان میں حد درجہ وضوح (Clarity) ہے۔ اس وضوح کی بنا پر قرآن کا سمجھنا ہر آدمی کے لیے آسان ہوگیا ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک اعلی تعلیم یافتہ آدمی۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ
📘 پیغمبر ہمیشہ عام انسان کے روپ میں آتا ہے، اس لیے انسان اس کو پہچان نہیں پاتا، اسی طرح خدا کی اونٹنی بھی بظاہر عام اونٹنی کی طرح تھی۔ اس لیے ثمود کے لوگ اس کو پہچان نہ سکے، اور اس کو مار ڈالا۔ موجودہ دنیا اسی بات کا امتحان ہے۔ یہاں لوگوں کو بظاہر ایک عام آدمی میں خدا کے نمائندہ کو دیکھنا ہے۔ بظاہر ایک عام اونٹنی میں خدا کی اونٹنی کو پہچان لینا ہے۔ جو لوگ اس امتحان میں ناکام رہیں وہ کبھی ہدایت کے راستہ کو نہیں پا سکتے۔
قرآن اگرچہ گہرے معانی کی کتاب ہے۔ مگر اس کے انداز بیان میں حد درجہ وضوح (Clarity) ہے۔ اس وضوح کی بنا پر قرآن کا سمجھنا ہر آدمی کے لیے آسان ہوگیا ہے، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک اعلی تعلیم یافتہ آدمی۔
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ
📘 حضرت لوط کی دعوت اٹھی تو کچھ لوگوں نے اس کا اعتراف کرلیا، وہ حق کو بڑا مان کر اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں چھوٹا کرنے پر راضی ہوگئے۔ مگر اکثر افراد نے ایسا نہیں کیا۔ وہ دلائل کا اعتراف کرنے کے بجائے اس کو رد کرنے کے لیے جھوٹی بحثیں نکالتے رہے۔ دعوت حق کے مقابلہ میں اس قسم کی روش بہت بڑا جرم ہے، چنانچہ اعتراف کرنے والوں کو چھوڑ کر انکار کرنے والے پکڑ لیے گئے۔ یہ ایک مثال ہے کہ اس دنیا میں حق کا انکار کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے اور حق کا اعتراف کرنے والوں کے لیے نجات۔
إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ ۖ نَجَّيْنَاهُمْ بِسَحَرٍ
📘 حضرت لوط کی دعوت اٹھی تو کچھ لوگوں نے اس کا اعتراف کرلیا، وہ حق کو بڑا مان کر اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں چھوٹا کرنے پر راضی ہوگئے۔ مگر اکثر افراد نے ایسا نہیں کیا۔ وہ دلائل کا اعتراف کرنے کے بجائے اس کو رد کرنے کے لیے جھوٹی بحثیں نکالتے رہے۔ دعوت حق کے مقابلہ میں اس قسم کی روش بہت بڑا جرم ہے، چنانچہ اعتراف کرنے والوں کو چھوڑ کر انکار کرنے والے پکڑ لیے گئے۔ یہ ایک مثال ہے کہ اس دنیا میں حق کا انکار کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے اور حق کا اعتراف کرنے والوں کے لیے نجات۔
نِعْمَةً مِنْ عِنْدِنَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي مَنْ شَكَرَ
📘 حضرت لوط کی دعوت اٹھی تو کچھ لوگوں نے اس کا اعتراف کرلیا، وہ حق کو بڑا مان کر اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں چھوٹا کرنے پر راضی ہوگئے۔ مگر اکثر افراد نے ایسا نہیں کیا۔ وہ دلائل کا اعتراف کرنے کے بجائے اس کو رد کرنے کے لیے جھوٹی بحثیں نکالتے رہے۔ دعوت حق کے مقابلہ میں اس قسم کی روش بہت بڑا جرم ہے، چنانچہ اعتراف کرنے والوں کو چھوڑ کر انکار کرنے والے پکڑ لیے گئے۔ یہ ایک مثال ہے کہ اس دنیا میں حق کا انکار کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے اور حق کا اعتراف کرنے والوں کے لیے نجات۔
وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنَا فَتَمَارَوْا بِالنُّذُرِ
📘 حضرت لوط کی دعوت اٹھی تو کچھ لوگوں نے اس کا اعتراف کرلیا، وہ حق کو بڑا مان کر اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں چھوٹا کرنے پر راضی ہوگئے۔ مگر اکثر افراد نے ایسا نہیں کیا۔ وہ دلائل کا اعتراف کرنے کے بجائے اس کو رد کرنے کے لیے جھوٹی بحثیں نکالتے رہے۔ دعوت حق کے مقابلہ میں اس قسم کی روش بہت بڑا جرم ہے، چنانچہ اعتراف کرنے والوں کو چھوڑ کر انکار کرنے والے پکڑ لیے گئے۔ یہ ایک مثال ہے کہ اس دنیا میں حق کا انکار کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے اور حق کا اعتراف کرنے والوں کے لیے نجات۔
وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَنْ ضَيْفِهِ فَطَمَسْنَا أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ
📘 حضرت لوط کی دعوت اٹھی تو کچھ لوگوں نے اس کا اعتراف کرلیا، وہ حق کو بڑا مان کر اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں چھوٹا کرنے پر راضی ہوگئے۔ مگر اکثر افراد نے ایسا نہیں کیا۔ وہ دلائل کا اعتراف کرنے کے بجائے اس کو رد کرنے کے لیے جھوٹی بحثیں نکالتے رہے۔ دعوت حق کے مقابلہ میں اس قسم کی روش بہت بڑا جرم ہے، چنانچہ اعتراف کرنے والوں کو چھوڑ کر انکار کرنے والے پکڑ لیے گئے۔ یہ ایک مثال ہے کہ اس دنیا میں حق کا انکار کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے اور حق کا اعتراف کرنے والوں کے لیے نجات۔
وَلَقَدْ صَبَّحَهُمْ بُكْرَةً عَذَابٌ مُسْتَقِرٌّ
📘 حضرت لوط کی دعوت اٹھی تو کچھ لوگوں نے اس کا اعتراف کرلیا، وہ حق کو بڑا مان کر اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں چھوٹا کرنے پر راضی ہوگئے۔ مگر اکثر افراد نے ایسا نہیں کیا۔ وہ دلائل کا اعتراف کرنے کے بجائے اس کو رد کرنے کے لیے جھوٹی بحثیں نکالتے رہے۔ دعوت حق کے مقابلہ میں اس قسم کی روش بہت بڑا جرم ہے، چنانچہ اعتراف کرنے والوں کو چھوڑ کر انکار کرنے والے پکڑ لیے گئے۔ یہ ایک مثال ہے کہ اس دنیا میں حق کا انکار کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے اور حق کا اعتراف کرنے والوں کے لیے نجات۔
فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ
📘 حضرت لوط کی دعوت اٹھی تو کچھ لوگوں نے اس کا اعتراف کرلیا، وہ حق کو بڑا مان کر اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں چھوٹا کرنے پر راضی ہوگئے۔ مگر اکثر افراد نے ایسا نہیں کیا۔ وہ دلائل کا اعتراف کرنے کے بجائے اس کو رد کرنے کے لیے جھوٹی بحثیں نکالتے رہے۔ دعوت حق کے مقابلہ میں اس قسم کی روش بہت بڑا جرم ہے، چنانچہ اعتراف کرنے والوں کو چھوڑ کر انکار کرنے والے پکڑ لیے گئے۔ یہ ایک مثال ہے کہ اس دنیا میں حق کا انکار کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے اور حق کا اعتراف کرنے والوں کے لیے نجات۔
وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنَ الْأَنْبَاءِ مَا فِيهِ مُزْدَجَرٌ
📘 خدا موجودہ دنیا میں ایسے واقعات برپا کرتا ہے جو قیامت کو پیشگی طور پر قابلِ فہم بنانے والے ہوں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہجرت سے چند سال پہلے پیش آیا۔ جب کہ لوگوں نے دیکھا کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو، جس طرح چاند ٹوٹا ہے اسی طرح پوری دنیا ٹوٹے گی اور پھر نئی دنیا بنائی جائے گی۔
اس طرح کے واقعات میں بلاشبہ سبق ہے۔ مگر ان واقعات سے سبق لینا اسی وقت ممکن ہے جبکہ آدمی اپنی عقل سے اس کے بارے میں سوچے۔ جن لوگوں کے اوپر ان کی خواہشات غالب آگئی ہوں وہ ان کو دیکھ کر کہہ دیں گے کہ ’’یہ جادو ہے‘‘ وہ واقعات کی توجیہہ اپنی خواہش کے مطابق کرکے ان کو اپنے لیے غیر موثر بنا لیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑی سے بڑی دلیل بھی بے معنی ہے۔ وہ اسی وقت ہوش میں آئیں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ظاہر ہو اور ان سے ہوش میں آنے کا موقع چھین لے۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ
📘 حضرت لوط کی دعوت اٹھی تو کچھ لوگوں نے اس کا اعتراف کرلیا، وہ حق کو بڑا مان کر اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں چھوٹا کرنے پر راضی ہوگئے۔ مگر اکثر افراد نے ایسا نہیں کیا۔ وہ دلائل کا اعتراف کرنے کے بجائے اس کو رد کرنے کے لیے جھوٹی بحثیں نکالتے رہے۔ دعوت حق کے مقابلہ میں اس قسم کی روش بہت بڑا جرم ہے، چنانچہ اعتراف کرنے والوں کو چھوڑ کر انکار کرنے والے پکڑ لیے گئے۔ یہ ایک مثال ہے کہ اس دنیا میں حق کا انکار کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے اور حق کا اعتراف کرنے والوں کے لیے نجات۔
وَلَقَدْ جَاءَ آلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ
📘 فرعون اپنے وقت کا انتہائی طاقت ور بادشاہ تھا۔ مگر حق کا انکار کرنے کے بعد وہ اللہ کی نظر میں بے قیمت ہوگیا۔ اس کے بعد وہ ایک عاجز انسان کی طرح ہلاک کردیا گیا۔ اس دنیا میں حق کے ساتھ کھڑا ہونے والا آدمی زور آور ہے اور حق کے خلاف کھڑا ہونے والا آدمی بے زور۔
كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كُلِّهَا فَأَخَذْنَاهُمْ أَخْذَ عَزِيزٍ مُقْتَدِرٍ
📘 فرعون اپنے وقت کا انتہائی طاقت ور بادشاہ تھا۔ مگر حق کا انکار کرنے کے بعد وہ اللہ کی نظر میں بے قیمت ہوگیا۔ اس کے بعد وہ ایک عاجز انسان کی طرح ہلاک کردیا گیا۔ اس دنیا میں حق کے ساتھ کھڑا ہونے والا آدمی زور آور ہے اور حق کے خلاف کھڑا ہونے والا آدمی بے زور۔
أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَٰئِكُمْ أَمْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ
📘 پچھلے پیغمبروں کا انکار کرنے والوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ان میں پیغمبر آخر الزماں کا انکار کرنے والوں کے لیے نصیحت تھی۔ مگر انہوں نے اس سے نصیحت نہ لی۔ یہی تمام قوموں کا حال ہے۔ کھلی نشانیوں کے باوجود ہر قوم نے اپنے آپ کو محفوظ اور مستثنی قوم سمجھ لیتی ہے۔ ہر قوم دوبارہ وہی سرکشی کرتی ہے جو پچھلی قوموں نے کی اور اس کے نتیجہ میں وہ خدائی عذاب کی مستحق ہوگئیں۔
أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُنْتَصِرٌ
📘 پچھلے پیغمبروں کا انکار کرنے والوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ان میں پیغمبر آخر الزماں کا انکار کرنے والوں کے لیے نصیحت تھی۔ مگر انہوں نے اس سے نصیحت نہ لی۔ یہی تمام قوموں کا حال ہے۔ کھلی نشانیوں کے باوجود ہر قوم نے اپنے آپ کو محفوظ اور مستثنی قوم سمجھ لیتی ہے۔ ہر قوم دوبارہ وہی سرکشی کرتی ہے جو پچھلی قوموں نے کی اور اس کے نتیجہ میں وہ خدائی عذاب کی مستحق ہوگئیں۔
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ
📘 پچھلے پیغمبروں کا انکار کرنے والوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ان میں پیغمبر آخر الزماں کا انکار کرنے والوں کے لیے نصیحت تھی۔ مگر انہوں نے اس سے نصیحت نہ لی۔ یہی تمام قوموں کا حال ہے۔ کھلی نشانیوں کے باوجود ہر قوم نے اپنے آپ کو محفوظ اور مستثنی قوم سمجھ لیتی ہے۔ ہر قوم دوبارہ وہی سرکشی کرتی ہے جو پچھلی قوموں نے کی اور اس کے نتیجہ میں وہ خدائی عذاب کی مستحق ہوگئیں۔
بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَىٰ وَأَمَرُّ
📘 پچھلے پیغمبروں کا انکار کرنے والوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ان میں پیغمبر آخر الزماں کا انکار کرنے والوں کے لیے نصیحت تھی۔ مگر انہوں نے اس سے نصیحت نہ لی۔ یہی تمام قوموں کا حال ہے۔ کھلی نشانیوں کے باوجود ہر قوم نے اپنے آپ کو محفوظ اور مستثنی قوم سمجھ لیتی ہے۔ ہر قوم دوبارہ وہی سرکشی کرتی ہے جو پچھلی قوموں نے کی اور اس کے نتیجہ میں وہ خدائی عذاب کی مستحق ہوگئیں۔
إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ
📘 پچھلے پیغمبروں کا انکار کرنے والوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ان میں پیغمبر آخر الزماں کا انکار کرنے والوں کے لیے نصیحت تھی۔ مگر انہوں نے اس سے نصیحت نہ لی۔ یہی تمام قوموں کا حال ہے۔ کھلی نشانیوں کے باوجود ہر قوم نے اپنے آپ کو محفوظ اور مستثنی قوم سمجھ لیتی ہے۔ ہر قوم دوبارہ وہی سرکشی کرتی ہے جو پچھلی قوموں نے کی اور اس کے نتیجہ میں وہ خدائی عذاب کی مستحق ہوگئیں۔
يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ
📘 پچھلے پیغمبروں کا انکار کرنے والوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ان میں پیغمبر آخر الزماں کا انکار کرنے والوں کے لیے نصیحت تھی۔ مگر انہوں نے اس سے نصیحت نہ لی۔ یہی تمام قوموں کا حال ہے۔ کھلی نشانیوں کے باوجود ہر قوم نے اپنے آپ کو محفوظ اور مستثنی قوم سمجھ لیتی ہے۔ ہر قوم دوبارہ وہی سرکشی کرتی ہے جو پچھلی قوموں نے کی اور اس کے نتیجہ میں وہ خدائی عذاب کی مستحق ہوگئیں۔
إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ
📘 دنیا کی ہر چیز کا ایک مقرر ضابطہ ہے۔ یہی اصول انسان کے معاملہ میں بھی ہے۔ انسان کو ایک مقرر ضابطہ کے تحت موجودہ دنیا میں عمل کا موقع دیا گیا ہے۔ اور مقرر ضابطہ ہی کے تحت اس کو عمل کے مقام سے ہٹا کر انجام کے مقام میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ خالق کی قدرت جو موجودہ کائنات میں ظاہر ہوئی ہے وہ یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ معاملہ عین اپنے وقت پر بلا تاخیر پیش آئے گا۔ اسی طرح موجودہ دنیا میں ریکارڈنگ کا نظام اس حقیقت کا پیشگی اعلان ہے کہ ہر ایک کے ساتھ عین وہی معاملہ کیا جائے گا جو اس کے عمل کے مطابق ہو۔ تاهم یہ باتیں اسی شخص کی سمجھ میں آئیں گی جو اپنے اندر یہ مزاج رکھتا ہو کہ وہ واقعات پر غور کرے۔ اور ظاہر سے گزر کر باطن میں چھپی ہوئی حقیقتوں کو دیکھ سکے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک کو پوری آزادی حاصل ہے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں یہ ممکن ہے آدمی مقعدِ کِذب (جھوٹی نشست) پر بھی بیٹھ کر نمایاں ہوسکے۔ وہ جھوٹ کی زمین پر عزت اور مرتبہ کا مقام حاصل کرلے۔ مگر آخرت میں کسی کے لیے ایسا ممکن نہ ہوگا۔ آخرت میں عزت اور کامیابی صرف ان لوگوں کو ملے گی جو مقعد صدق (سچی نشست) پر بیٹھنے والے ہوں۔ جنہوں نے فی الواقع اپنے آپ کو سچ کی زمین پر کھڑاکیا ہو۔ آخرت میں خدا کی قدرت کامل کا ظہور اس بات کی ضمانت بن جائے گا کہ وہاں مقعد صدق کے سوا کسی اور مقعد پر بیٹھنا کسی کے کچھ کام نہ آسکے۔
حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ ۖ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ
📘 خدا موجودہ دنیا میں ایسے واقعات برپا کرتا ہے جو قیامت کو پیشگی طور پر قابلِ فہم بنانے والے ہوں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہجرت سے چند سال پہلے پیش آیا۔ جب کہ لوگوں نے دیکھا کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو، جس طرح چاند ٹوٹا ہے اسی طرح پوری دنیا ٹوٹے گی اور پھر نئی دنیا بنائی جائے گی۔
اس طرح کے واقعات میں بلاشبہ سبق ہے۔ مگر ان واقعات سے سبق لینا اسی وقت ممکن ہے جبکہ آدمی اپنی عقل سے اس کے بارے میں سوچے۔ جن لوگوں کے اوپر ان کی خواہشات غالب آگئی ہوں وہ ان کو دیکھ کر کہہ دیں گے کہ ’’یہ جادو ہے‘‘ وہ واقعات کی توجیہہ اپنی خواہش کے مطابق کرکے ان کو اپنے لیے غیر موثر بنا لیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑی سے بڑی دلیل بھی بے معنی ہے۔ وہ اسی وقت ہوش میں آئیں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ظاہر ہو اور ان سے ہوش میں آنے کا موقع چھین لے۔
وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ
📘 دنیا کی ہر چیز کا ایک مقرر ضابطہ ہے۔ یہی اصول انسان کے معاملہ میں بھی ہے۔ انسان کو ایک مقرر ضابطہ کے تحت موجودہ دنیا میں عمل کا موقع دیا گیا ہے۔ اور مقرر ضابطہ ہی کے تحت اس کو عمل کے مقام سے ہٹا کر انجام کے مقام میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ خالق کی قدرت جو موجودہ کائنات میں ظاہر ہوئی ہے وہ یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ معاملہ عین اپنے وقت پر بلا تاخیر پیش آئے گا۔ اسی طرح موجودہ دنیا میں ریکارڈنگ کا نظام اس حقیقت کا پیشگی اعلان ہے کہ ہر ایک کے ساتھ عین وہی معاملہ کیا جائے گا جو اس کے عمل کے مطابق ہو۔ تاهم یہ باتیں اسی شخص کی سمجھ میں آئیں گی جو اپنے اندر یہ مزاج رکھتا ہو کہ وہ واقعات پر غور کرے۔ اور ظاہر سے گزر کر باطن میں چھپی ہوئی حقیقتوں کو دیکھ سکے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک کو پوری آزادی حاصل ہے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں یہ ممکن ہے آدمی مقعدِ کِذب (جھوٹی نشست) پر بھی بیٹھ کر نمایاں ہوسکے۔ وہ جھوٹ کی زمین پر عزت اور مرتبہ کا مقام حاصل کرلے۔ مگر آخرت میں کسی کے لیے ایسا ممکن نہ ہوگا۔ آخرت میں عزت اور کامیابی صرف ان لوگوں کو ملے گی جو مقعد صدق (سچی نشست) پر بیٹھنے والے ہوں۔ جنہوں نے فی الواقع اپنے آپ کو سچ کی زمین پر کھڑاکیا ہو۔ آخرت میں خدا کی قدرت کامل کا ظہور اس بات کی ضمانت بن جائے گا کہ وہاں مقعد صدق کے سوا کسی اور مقعد پر بیٹھنا کسی کے کچھ کام نہ آسکے۔
وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا أَشْيَاعَكُمْ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ
📘 دنیا کی ہر چیز کا ایک مقرر ضابطہ ہے۔ یہی اصول انسان کے معاملہ میں بھی ہے۔ انسان کو ایک مقرر ضابطہ کے تحت موجودہ دنیا میں عمل کا موقع دیا گیا ہے۔ اور مقرر ضابطہ ہی کے تحت اس کو عمل کے مقام سے ہٹا کر انجام کے مقام میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ خالق کی قدرت جو موجودہ کائنات میں ظاہر ہوئی ہے وہ یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ معاملہ عین اپنے وقت پر بلا تاخیر پیش آئے گا۔ اسی طرح موجودہ دنیا میں ریکارڈنگ کا نظام اس حقیقت کا پیشگی اعلان ہے کہ ہر ایک کے ساتھ عین وہی معاملہ کیا جائے گا جو اس کے عمل کے مطابق ہو۔ تاهم یہ باتیں اسی شخص کی سمجھ میں آئیں گی جو اپنے اندر یہ مزاج رکھتا ہو کہ وہ واقعات پر غور کرے۔ اور ظاہر سے گزر کر باطن میں چھپی ہوئی حقیقتوں کو دیکھ سکے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک کو پوری آزادی حاصل ہے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں یہ ممکن ہے آدمی مقعدِ کِذب (جھوٹی نشست) پر بھی بیٹھ کر نمایاں ہوسکے۔ وہ جھوٹ کی زمین پر عزت اور مرتبہ کا مقام حاصل کرلے۔ مگر آخرت میں کسی کے لیے ایسا ممکن نہ ہوگا۔ آخرت میں عزت اور کامیابی صرف ان لوگوں کو ملے گی جو مقعد صدق (سچی نشست) پر بیٹھنے والے ہوں۔ جنہوں نے فی الواقع اپنے آپ کو سچ کی زمین پر کھڑاکیا ہو۔ آخرت میں خدا کی قدرت کامل کا ظہور اس بات کی ضمانت بن جائے گا کہ وہاں مقعد صدق کے سوا کسی اور مقعد پر بیٹھنا کسی کے کچھ کام نہ آسکے۔
وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوهُ فِي الزُّبُرِ
📘 دنیا کی ہر چیز کا ایک مقرر ضابطہ ہے۔ یہی اصول انسان کے معاملہ میں بھی ہے۔ انسان کو ایک مقرر ضابطہ کے تحت موجودہ دنیا میں عمل کا موقع دیا گیا ہے۔ اور مقرر ضابطہ ہی کے تحت اس کو عمل کے مقام سے ہٹا کر انجام کے مقام میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ خالق کی قدرت جو موجودہ کائنات میں ظاہر ہوئی ہے وہ یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ معاملہ عین اپنے وقت پر بلا تاخیر پیش آئے گا۔ اسی طرح موجودہ دنیا میں ریکارڈنگ کا نظام اس حقیقت کا پیشگی اعلان ہے کہ ہر ایک کے ساتھ عین وہی معاملہ کیا جائے گا جو اس کے عمل کے مطابق ہو۔ تاهم یہ باتیں اسی شخص کی سمجھ میں آئیں گی جو اپنے اندر یہ مزاج رکھتا ہو کہ وہ واقعات پر غور کرے۔ اور ظاہر سے گزر کر باطن میں چھپی ہوئی حقیقتوں کو دیکھ سکے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک کو پوری آزادی حاصل ہے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں یہ ممکن ہے آدمی مقعدِ کِذب (جھوٹی نشست) پر بھی بیٹھ کر نمایاں ہوسکے۔ وہ جھوٹ کی زمین پر عزت اور مرتبہ کا مقام حاصل کرلے۔ مگر آخرت میں کسی کے لیے ایسا ممکن نہ ہوگا۔ آخرت میں عزت اور کامیابی صرف ان لوگوں کو ملے گی جو مقعد صدق (سچی نشست) پر بیٹھنے والے ہوں۔ جنہوں نے فی الواقع اپنے آپ کو سچ کی زمین پر کھڑاکیا ہو۔ آخرت میں خدا کی قدرت کامل کا ظہور اس بات کی ضمانت بن جائے گا کہ وہاں مقعد صدق کے سوا کسی اور مقعد پر بیٹھنا کسی کے کچھ کام نہ آسکے۔
وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ
📘 دنیا کی ہر چیز کا ایک مقرر ضابطہ ہے۔ یہی اصول انسان کے معاملہ میں بھی ہے۔ انسان کو ایک مقرر ضابطہ کے تحت موجودہ دنیا میں عمل کا موقع دیا گیا ہے۔ اور مقرر ضابطہ ہی کے تحت اس کو عمل کے مقام سے ہٹا کر انجام کے مقام میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ خالق کی قدرت جو موجودہ کائنات میں ظاہر ہوئی ہے وہ یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ معاملہ عین اپنے وقت پر بلا تاخیر پیش آئے گا۔ اسی طرح موجودہ دنیا میں ریکارڈنگ کا نظام اس حقیقت کا پیشگی اعلان ہے کہ ہر ایک کے ساتھ عین وہی معاملہ کیا جائے گا جو اس کے عمل کے مطابق ہو۔ تاهم یہ باتیں اسی شخص کی سمجھ میں آئیں گی جو اپنے اندر یہ مزاج رکھتا ہو کہ وہ واقعات پر غور کرے۔ اور ظاہر سے گزر کر باطن میں چھپی ہوئی حقیقتوں کو دیکھ سکے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک کو پوری آزادی حاصل ہے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں یہ ممکن ہے آدمی مقعدِ کِذب (جھوٹی نشست) پر بھی بیٹھ کر نمایاں ہوسکے۔ وہ جھوٹ کی زمین پر عزت اور مرتبہ کا مقام حاصل کرلے۔ مگر آخرت میں کسی کے لیے ایسا ممکن نہ ہوگا۔ آخرت میں عزت اور کامیابی صرف ان لوگوں کو ملے گی جو مقعد صدق (سچی نشست) پر بیٹھنے والے ہوں۔ جنہوں نے فی الواقع اپنے آپ کو سچ کی زمین پر کھڑاکیا ہو۔ آخرت میں خدا کی قدرت کامل کا ظہور اس بات کی ضمانت بن جائے گا کہ وہاں مقعد صدق کے سوا کسی اور مقعد پر بیٹھنا کسی کے کچھ کام نہ آسکے۔
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ
📘 دنیا کی ہر چیز کا ایک مقرر ضابطہ ہے۔ یہی اصول انسان کے معاملہ میں بھی ہے۔ انسان کو ایک مقرر ضابطہ کے تحت موجودہ دنیا میں عمل کا موقع دیا گیا ہے۔ اور مقرر ضابطہ ہی کے تحت اس کو عمل کے مقام سے ہٹا کر انجام کے مقام میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ خالق کی قدرت جو موجودہ کائنات میں ظاہر ہوئی ہے وہ یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ معاملہ عین اپنے وقت پر بلا تاخیر پیش آئے گا۔ اسی طرح موجودہ دنیا میں ریکارڈنگ کا نظام اس حقیقت کا پیشگی اعلان ہے کہ ہر ایک کے ساتھ عین وہی معاملہ کیا جائے گا جو اس کے عمل کے مطابق ہو۔ تاهم یہ باتیں اسی شخص کی سمجھ میں آئیں گی جو اپنے اندر یہ مزاج رکھتا ہو کہ وہ واقعات پر غور کرے۔ اور ظاہر سے گزر کر باطن میں چھپی ہوئی حقیقتوں کو دیکھ سکے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک کو پوری آزادی حاصل ہے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں یہ ممکن ہے آدمی مقعدِ کِذب (جھوٹی نشست) پر بھی بیٹھ کر نمایاں ہوسکے۔ وہ جھوٹ کی زمین پر عزت اور مرتبہ کا مقام حاصل کرلے۔ مگر آخرت میں کسی کے لیے ایسا ممکن نہ ہوگا۔ آخرت میں عزت اور کامیابی صرف ان لوگوں کو ملے گی جو مقعد صدق (سچی نشست) پر بیٹھنے والے ہوں۔ جنہوں نے فی الواقع اپنے آپ کو سچ کی زمین پر کھڑاکیا ہو۔ آخرت میں خدا کی قدرت کامل کا ظہور اس بات کی ضمانت بن جائے گا کہ وہاں مقعد صدق کے سوا کسی اور مقعد پر بیٹھنا کسی کے کچھ کام نہ آسکے۔
فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ
📘 دنیا کی ہر چیز کا ایک مقرر ضابطہ ہے۔ یہی اصول انسان کے معاملہ میں بھی ہے۔ انسان کو ایک مقرر ضابطہ کے تحت موجودہ دنیا میں عمل کا موقع دیا گیا ہے۔ اور مقرر ضابطہ ہی کے تحت اس کو عمل کے مقام سے ہٹا کر انجام کے مقام میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ خالق کی قدرت جو موجودہ کائنات میں ظاہر ہوئی ہے وہ یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ معاملہ عین اپنے وقت پر بلا تاخیر پیش آئے گا۔ اسی طرح موجودہ دنیا میں ریکارڈنگ کا نظام اس حقیقت کا پیشگی اعلان ہے کہ ہر ایک کے ساتھ عین وہی معاملہ کیا جائے گا جو اس کے عمل کے مطابق ہو۔ تاهم یہ باتیں اسی شخص کی سمجھ میں آئیں گی جو اپنے اندر یہ مزاج رکھتا ہو کہ وہ واقعات پر غور کرے۔ اور ظاہر سے گزر کر باطن میں چھپی ہوئی حقیقتوں کو دیکھ سکے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک کو پوری آزادی حاصل ہے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں یہ ممکن ہے آدمی مقعدِ کِذب (جھوٹی نشست) پر بھی بیٹھ کر نمایاں ہوسکے۔ وہ جھوٹ کی زمین پر عزت اور مرتبہ کا مقام حاصل کرلے۔ مگر آخرت میں کسی کے لیے ایسا ممکن نہ ہوگا۔ آخرت میں عزت اور کامیابی صرف ان لوگوں کو ملے گی جو مقعد صدق (سچی نشست) پر بیٹھنے والے ہوں۔ جنہوں نے فی الواقع اپنے آپ کو سچ کی زمین پر کھڑاکیا ہو۔ آخرت میں خدا کی قدرت کامل کا ظہور اس بات کی ضمانت بن جائے گا کہ وہاں مقعد صدق کے سوا کسی اور مقعد پر بیٹھنا کسی کے کچھ کام نہ آسکے۔
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ ۘ يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ إِلَىٰ شَيْءٍ نُكُرٍ
📘 خدا موجودہ دنیا میں ایسے واقعات برپا کرتا ہے جو قیامت کو پیشگی طور پر قابلِ فہم بنانے والے ہوں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہجرت سے چند سال پہلے پیش آیا۔ جب کہ لوگوں نے دیکھا کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو، جس طرح چاند ٹوٹا ہے اسی طرح پوری دنیا ٹوٹے گی اور پھر نئی دنیا بنائی جائے گی۔
اس طرح کے واقعات میں بلاشبہ سبق ہے۔ مگر ان واقعات سے سبق لینا اسی وقت ممکن ہے جبکہ آدمی اپنی عقل سے اس کے بارے میں سوچے۔ جن لوگوں کے اوپر ان کی خواہشات غالب آگئی ہوں وہ ان کو دیکھ کر کہہ دیں گے کہ ’’یہ جادو ہے‘‘ وہ واقعات کی توجیہہ اپنی خواہش کے مطابق کرکے ان کو اپنے لیے غیر موثر بنا لیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑی سے بڑی دلیل بھی بے معنی ہے۔ وہ اسی وقت ہوش میں آئیں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ظاہر ہو اور ان سے ہوش میں آنے کا موقع چھین لے۔
خُشَّعًا أَبْصَارُهُمْ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُنْتَشِرٌ
📘 خدا موجودہ دنیا میں ایسے واقعات برپا کرتا ہے جو قیامت کو پیشگی طور پر قابلِ فہم بنانے والے ہوں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہجرت سے چند سال پہلے پیش آیا۔ جب کہ لوگوں نے دیکھا کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو، جس طرح چاند ٹوٹا ہے اسی طرح پوری دنیا ٹوٹے گی اور پھر نئی دنیا بنائی جائے گی۔
اس طرح کے واقعات میں بلاشبہ سبق ہے۔ مگر ان واقعات سے سبق لینا اسی وقت ممکن ہے جبکہ آدمی اپنی عقل سے اس کے بارے میں سوچے۔ جن لوگوں کے اوپر ان کی خواہشات غالب آگئی ہوں وہ ان کو دیکھ کر کہہ دیں گے کہ ’’یہ جادو ہے‘‘ وہ واقعات کی توجیہہ اپنی خواہش کے مطابق کرکے ان کو اپنے لیے غیر موثر بنا لیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑی سے بڑی دلیل بھی بے معنی ہے۔ وہ اسی وقت ہوش میں آئیں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ظاہر ہو اور ان سے ہوش میں آنے کا موقع چھین لے۔
مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ ۖ يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَٰذَا يَوْمٌ عَسِرٌ
📘 خدا موجودہ دنیا میں ایسے واقعات برپا کرتا ہے جو قیامت کو پیشگی طور پر قابلِ فہم بنانے والے ہوں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہجرت سے چند سال پہلے پیش آیا۔ جب کہ لوگوں نے دیکھا کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو، جس طرح چاند ٹوٹا ہے اسی طرح پوری دنیا ٹوٹے گی اور پھر نئی دنیا بنائی جائے گی۔
اس طرح کے واقعات میں بلاشبہ سبق ہے۔ مگر ان واقعات سے سبق لینا اسی وقت ممکن ہے جبکہ آدمی اپنی عقل سے اس کے بارے میں سوچے۔ جن لوگوں کے اوپر ان کی خواہشات غالب آگئی ہوں وہ ان کو دیکھ کر کہہ دیں گے کہ ’’یہ جادو ہے‘‘ وہ واقعات کی توجیہہ اپنی خواہش کے مطابق کرکے ان کو اپنے لیے غیر موثر بنا لیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑی سے بڑی دلیل بھی بے معنی ہے۔ وہ اسی وقت ہوش میں آئیں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ظاہر ہو اور ان سے ہوش میں آنے کا موقع چھین لے۔
۞ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ
📘 قوم عاد جب خدا کے عذاب کی مستحق ہوگئی تو خدا نے ان پر ایسی تیز آندھی بھیجی جس میں لوگوں کا زمین پر ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ آندھی انہیں اس طرح اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی کہ کوئی دیوار سے جا کر ٹکراتا تھا اور کوئی درخت سے۔ کسی کی چھت اس کے سر پر گر پڑی۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ انسان بالکل بے بس ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔