slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الممتحنة

(Al-Mumtahana) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنْتُمْ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ کی طرف اقدام کرنے کا فیصلہ کیا تو آپ نے اس کا پورا منصوبہ نہایت خاموشی کے ساتھ بنایا تاکہ مکہ والے مقابلہ کی تیاری نہ کرسکیں۔ اس وقت ایک بدری صحابی حاطب بن ابی بلتعہ نے اس منصوبہ کو ایک خط میں لکھا اور اس کو خفیہ طور پر مکہ والوں کے نام روانہ کردیا۔ تاکہ مکہ والے ان سے خوش ہوجائیں اور ان کے اہل وعیال کو نہ ستائیں جو مکہ میں مقیم ہیں۔ مگر وحی کے ذریعہ آپ كو اس کی اطلاع ہوگئی اور قاصد کو راستہ ہی میں پکڑ لیا گیا۔ اس قسم کا ہر فعل ایمانی تقاضے کے خلاف ہے۔ جب یہ صورت حال ہو کہ اسلام اور غیر اسلام کے الگ الگ محاذ بن جائیں تو اس وقت اہل اسلام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ غیر اسلامی محاذ سے دل چسپی کا تعلق توڑ لیں۔ خواہ غیر اسلامی محاذ میں ان کے عزیز اور رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ حق کو ماننا اور حق کا انکار کرنے والوں سے قلبی تعلق رکھنا دو متضاد چیزیں ہیں جو ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُمْ مَا أَنْفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنْفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

📘 یہاں صلح حدیبیہ کے بعد پیدا شدہ حالات کی روشنی میں اسلام کے بعض ان قوانین کو بتایا گیا ہے جن کا تعلق مسلمان اور غير مسلموں کے درمیان پیش آنے والے عائلی مسائل سے ہے۔

وَإِنْ فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَآتُوا الَّذِينَ ذَهَبَتْ أَزْوَاجُهُمْ مِثْلَ مَا أَنْفَقُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ

📘 یہاں صلح حدیبیہ کے بعد پیدا شدہ حالات کی روشنی میں اسلام کے بعض ان قوانین کو بتایا گیا ہے جن کا تعلق مسلمان اور غير مسلموں کے درمیان پیش آنے والے عائلی مسائل سے ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 اس آیت میں وہ شرطیں بتائی گئی ہیں جن کا اقرار لے کر کسی عورت کو اسلام میں داخل کیا جاتا ہے۔ ان شرطوں میں دو شرط کی حیثیت بنیادی ہے۔ یعنی شرک نہ کرنا اور رسول کی نافرمانی نہ کرنا۔ باقی تمام مذکور اور غیرمذکور تقاضے اپنے آپ ان دو شرطوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ

📘 آسمانی کتاب کو ماننے والے یہود اور اس کو نہ ماننے والے کافر آخرت کے اعتبار سے ایک سطح پر ہیں۔ کھلے ہوئے کافروں کو امید نہیں ہوتی کہ کوئی شخص دوبارہ اپنی قبر سے اٹھے گا۔ یہی حال ان لوگوں کا بھی ہوتا ہے جو یہود کی طرح ایمان لانے کے بعد غفلت اور بے حسی میں مبتلا ہوگئے ہوں۔ آخرت کا لفظی اقرار کرنے کے باوجود ان کی عملی زندگی ویسی ہی ہوجاتی ہے جیسی کھلے ہوئے منکرین کی زندگی۔

إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ کی طرف اقدام کرنے کا فیصلہ کیا تو آپ نے اس کا پورا منصوبہ نہایت خاموشی کے ساتھ بنایا تاکہ مکہ والے مقابلہ کی تیاری نہ کرسکیں۔ اس وقت ایک بدری صحابی حاطب بن ابی بلتعہ نے اس منصوبہ کو ایک خط میں لکھا اور اس کو خفیہ طور پر مکہ والوں کے نام روانہ کردیا۔ تاکہ مکہ والے ان سے خوش ہوجائیں اور ان کے اہل وعیال کو نہ ستائیں جو مکہ میں مقیم ہیں۔ مگر وحی کے ذریعہ آپ كو اس کی اطلاع ہوگئی اور قاصد کو راستہ ہی میں پکڑ لیا گیا۔ اس قسم کا ہر فعل ایمانی تقاضے کے خلاف ہے۔ جب یہ صورت حال ہو کہ اسلام اور غیر اسلام کے الگ الگ محاذ بن جائیں تو اس وقت اہل اسلام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ غیر اسلامی محاذ سے دل چسپی کا تعلق توڑ لیں۔ خواہ غیر اسلامی محاذ میں ان کے عزیز اور رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ حق کو ماننا اور حق کا انکار کرنے والوں سے قلبی تعلق رکھنا دو متضاد چیزیں ہیں جو ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں۔

لَنْ تَنْفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ ۚ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ کی طرف اقدام کرنے کا فیصلہ کیا تو آپ نے اس کا پورا منصوبہ نہایت خاموشی کے ساتھ بنایا تاکہ مکہ والے مقابلہ کی تیاری نہ کرسکیں۔ اس وقت ایک بدری صحابی حاطب بن ابی بلتعہ نے اس منصوبہ کو ایک خط میں لکھا اور اس کو خفیہ طور پر مکہ والوں کے نام روانہ کردیا۔ تاکہ مکہ والے ان سے خوش ہوجائیں اور ان کے اہل وعیال کو نہ ستائیں جو مکہ میں مقیم ہیں۔ مگر وحی کے ذریعہ آپ كو اس کی اطلاع ہوگئی اور قاصد کو راستہ ہی میں پکڑ لیا گیا۔ اس قسم کا ہر فعل ایمانی تقاضے کے خلاف ہے۔ جب یہ صورت حال ہو کہ اسلام اور غیر اسلام کے الگ الگ محاذ بن جائیں تو اس وقت اہل اسلام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ غیر اسلامی محاذ سے دل چسپی کا تعلق توڑ لیں۔ خواہ غیر اسلامی محاذ میں ان کے عزیز اور رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ حق کو ماننا اور حق کا انکار کرنے والوں سے قلبی تعلق رکھنا دو متضاد چیزیں ہیں جو ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں۔

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ۖ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ

📘 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابتداء ً خیر خواہانہ انداز میں اپنے خاندان کو توحید کا پیغام دیا۔جب اتمام حجت کے با وجود وہ لوگ منکر بنے رہے تو آپ ان سے بالکل جدا ہوگئے۔ مگر یہ بڑا سخت مرحلہ تھا۔ کیوں کہ اعلان براءت کا مطلب منکرینِ حق کو یہ دعوت دینا تھا کہ وہ ہر ممکن طریقہ سے اہل ایمان کو ستائیں۔ دلیل کے میدان میں شکست کھانے کے بعد طاقت کے میدان میں اہل ایمان کو ذلیل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد حضرت ابراہیم نے جو دعا کی اس میں خاص طور سے فرمایا کہ — اے ہمارے رب ہم کو ان ظالموں کے ظلم کا تختہ مشق نہ بنا۔ عزیزوں اور رشتہ داروں سے اعلان براءت عام معنوں میں اعلان عداوت نہیں ہے۔ یہ داعی کی طرف سے اپنے یقین کا آخری اظہار ہے۔ اس اعتبار سے اس میں بھی ایک دعوتی قدر شامل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص ’’پیغام‘‘ کی زبان سے متاثر نہیں ہوا تھا، ’’یقین‘‘ کی زبان اس کو جیتنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔

رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابتداء ً خیر خواہانہ انداز میں اپنے خاندان کو توحید کا پیغام دیا۔جب اتمام حجت کے با وجود وہ لوگ منکر بنے رہے تو آپ ان سے بالکل جدا ہوگئے۔ مگر یہ بڑا سخت مرحلہ تھا۔ کیوں کہ اعلان براءت کا مطلب منکرینِ حق کو یہ دعوت دینا تھا کہ وہ ہر ممکن طریقہ سے اہل ایمان کو ستائیں۔ دلیل کے میدان میں شکست کھانے کے بعد طاقت کے میدان میں اہل ایمان کو ذلیل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد حضرت ابراہیم نے جو دعا کی اس میں خاص طور سے فرمایا کہ — اے ہمارے رب ہم کو ان ظالموں کے ظلم کا تختہ مشق نہ بنا۔ عزیزوں اور رشتہ داروں سے اعلان براءت عام معنوں میں اعلان عداوت نہیں ہے۔ یہ داعی کی طرف سے اپنے یقین کا آخری اظہار ہے۔ اس اعتبار سے اس میں بھی ایک دعوتی قدر شامل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص ’’پیغام‘‘ کی زبان سے متاثر نہیں ہوا تھا، ’’یقین‘‘ کی زبان اس کو جیتنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ

📘 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابتداء ً خیر خواہانہ انداز میں اپنے خاندان کو توحید کا پیغام دیا۔جب اتمام حجت کے با وجود وہ لوگ منکر بنے رہے تو آپ ان سے بالکل جدا ہوگئے۔ مگر یہ بڑا سخت مرحلہ تھا۔ کیوں کہ اعلان براءت کا مطلب منکرینِ حق کو یہ دعوت دینا تھا کہ وہ ہر ممکن طریقہ سے اہل ایمان کو ستائیں۔ دلیل کے میدان میں شکست کھانے کے بعد طاقت کے میدان میں اہل ایمان کو ذلیل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد حضرت ابراہیم نے جو دعا کی اس میں خاص طور سے فرمایا کہ — اے ہمارے رب ہم کو ان ظالموں کے ظلم کا تختہ مشق نہ بنا۔ عزیزوں اور رشتہ داروں سے اعلان براءت عام معنوں میں اعلان عداوت نہیں ہے۔ یہ داعی کی طرف سے اپنے یقین کا آخری اظہار ہے۔ اس اعتبار سے اس میں بھی ایک دعوتی قدر شامل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص ’’پیغام‘‘ کی زبان سے متاثر نہیں ہوا تھا، ’’یقین‘‘ کی زبان اس کو جیتنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔

۞ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً ۚ وَاللَّهُ قَدِيرٌ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابتداء ً خیر خواہانہ انداز میں اپنے خاندان کو توحید کا پیغام دیا۔جب اتمام حجت کے با وجود وہ لوگ منکر بنے رہے تو آپ ان سے بالکل جدا ہوگئے۔ مگر یہ بڑا سخت مرحلہ تھا۔ کیوں کہ اعلان براءت کا مطلب منکرینِ حق کو یہ دعوت دینا تھا کہ وہ ہر ممکن طریقہ سے اہل ایمان کو ستائیں۔ دلیل کے میدان میں شکست کھانے کے بعد طاقت کے میدان میں اہل ایمان کو ذلیل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد حضرت ابراہیم نے جو دعا کی اس میں خاص طور سے فرمایا کہ — اے ہمارے رب ہم کو ان ظالموں کے ظلم کا تختہ مشق نہ بنا۔ عزیزوں اور رشتہ داروں سے اعلان براءت عام معنوں میں اعلان عداوت نہیں ہے۔ یہ داعی کی طرف سے اپنے یقین کا آخری اظہار ہے۔ اس اعتبار سے اس میں بھی ایک دعوتی قدر شامل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص ’’پیغام‘‘ کی زبان سے متاثر نہیں ہوا تھا، ’’یقین‘‘ کی زبان اس کو جیتنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔

لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ

📘 جہاں تک عدل و انصاف کا تعلق ہے وہ ہر ایک سے کیا جائے گا، خواہ فریق ثانی دشمن ہو یا غیر دشمن۔ مگر دوستی کا تعلق ہر ایک سے درست نہیں۔ دوستی صرف اسی کے ساتھ جائز ہے جو اللہ کا دوست ہو یا کم از کم یہ کہ وہ اللہ کا دشمن نہ ہو۔

إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

📘 جہاں تک عدل و انصاف کا تعلق ہے وہ ہر ایک سے کیا جائے گا، خواہ فریق ثانی دشمن ہو یا غیر دشمن۔ مگر دوستی کا تعلق ہر ایک سے درست نہیں۔ دوستی صرف اسی کے ساتھ جائز ہے جو اللہ کا دوست ہو یا کم از کم یہ کہ وہ اللہ کا دشمن نہ ہو۔