🕋 تفسير سورة التحريم
(At-Tahrim) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 بیویوں کے پیدا کردہ بعض اندرونی مسائل کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں قسم کھالی کہ میں شہد نہیں کھاؤں گا۔ مگر پیغمبر کا عمل اس کی امت کے لیے نمونہ بن جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالی نے حکم دیا کہ آپ شرعی طریقہ کے مطابق کفارہ ادا کر کے اپنی قسم کو توڑ دیں۔ اور شہد نہ کھانے کے عہد سے اپنے آپ کو آزادکرلیں ۔تا کہ ایسا نہ ہو کہ آئندہ آپ کے امتی اس کو تقوی کا معیار سمجھ کر شہد کھانے سے پرہیز کرنے لگیں۔
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ
📘 فرعون ایک کافر اور ظالم شخص تھا۔ مگر اس کی بیوی آسیہ بنت مزاحم ایمان دار اور باعمل خاتون تھی۔ بیوی نے جب اپنے آپ کو صحیح روش پر قائم رکھا تو شوہر کی غلط روش اس کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکی۔ شوہر جہنم میں داخل کیا گیا اور بیوی کو جنت کے باغوں میں جگہ ملی۔
أَحْصَنَتْ فَرْجَهَادر اصل کنایہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا۔ بچپن سے جوانی تک وہ پوری طرح بے داغ رہیں۔ چنانچہ اللہ نے ان کو معجزاتی پیغمبر کی پیدائش کے لیے چنا۔ بعض روایات کے مطابق جبریل فرشتہ نے ان کے گریبان میں پھونک ماری، جس سے استقرار حمل ہوا اور پھر حضرت مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے۔
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
📘 فرعون ایک کافر اور ظالم شخص تھا۔ مگر اس کی بیوی آسیہ بنت مزاحم ایمان دار اور باعمل خاتون تھی۔ بیوی نے جب اپنے آپ کو صحیح روش پر قائم رکھا تو شوہر کی غلط روش اس کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکی۔ شوہر جہنم میں داخل کیا گیا اور بیوی کو جنت کے باغوں میں جگہ ملی۔
أَحْصَنَتْ فَرْجَهَادر اصل کنایہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا۔ بچپن سے جوانی تک وہ پوری طرح بے داغ رہیں۔ چنانچہ اللہ نے ان کو معجزاتی پیغمبر کی پیدائش کے لیے چنا۔ بعض روایات کے مطابق جبریل فرشتہ نے ان کے گریبان میں پھونک ماری، جس سے استقرار حمل ہوا اور پھر حضرت مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے۔
وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ
📘 فرعون ایک کافر اور ظالم شخص تھا۔ مگر اس کی بیوی آسیہ بنت مزاحم ایمان دار اور باعمل خاتون تھی۔ بیوی نے جب اپنے آپ کو صحیح روش پر قائم رکھا تو شوہر کی غلط روش اس کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکی۔ شوہر جہنم میں داخل کیا گیا اور بیوی کو جنت کے باغوں میں جگہ ملی۔
أَحْصَنَتْ فَرْجَهَادر اصل کنایہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا۔ بچپن سے جوانی تک وہ پوری طرح بے داغ رہیں۔ چنانچہ اللہ نے ان کو معجزاتی پیغمبر کی پیدائش کے لیے چنا۔ بعض روایات کے مطابق جبریل فرشتہ نے ان کے گریبان میں پھونک ماری، جس سے استقرار حمل ہوا اور پھر حضرت مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے۔
قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
📘 بیویوں کے پیدا کردہ بعض اندرونی مسائل کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں قسم کھالی کہ میں شہد نہیں کھاؤں گا۔ مگر پیغمبر کا عمل اس کی امت کے لیے نمونہ بن جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالی نے حکم دیا کہ آپ شرعی طریقہ کے مطابق کفارہ ادا کر کے اپنی قسم کو توڑ دیں۔ اور شہد نہ کھانے کے عہد سے اپنے آپ کو آزادکرلیں ۔تا کہ ایسا نہ ہو کہ آئندہ آپ کے امتی اس کو تقوی کا معیار سمجھ کر شہد کھانے سے پرہیز کرنے لگیں۔
وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ
📘 بیویوں کے پیدا کردہ بعض اندرونی مسائل کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں یہ قسم کھالی کہ میں شہد نہیں کھاؤں گا۔ مگر پیغمبر کا عمل اس کی امت کے لیے نمونہ بن جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ شرعی طریقہ کے مطابق کفارہ ادا کرکے اپنی قسم کو توڑ دیں۔ اور شہد نہ کھانے کے عہد سے اپنے آپ کو آزاد کرلیں۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ آئندہ آپ کے امتی اس کو تقوی کا معیار سمجھ کر شہد کھانے سے پرہیز کرنے لگیں۔
إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ
📘 بیویوں کے پیدا کردہ بعض اندرونی مسائل کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں یہ قسم کھالی کہ میں شہد نہیں کھاؤں گا۔ مگر پیغمبر کا عمل اس کی امت کے لیے نمونہ بن جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ شرعی طریقہ کے مطابق کفارہ ادا کرکے اپنی قسم کو توڑ دیں۔ اور شہد نہ کھانے کے عہد سے اپنے آپ کو آزاد کرلیں۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ آئندہ آپ کے امتی اس کو تقوی کا معیار سمجھ کر شہد کھانے سے پرہیز کرنے لگیں۔
عَسَىٰ رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا
📘 بیویوں کے پیدا کردہ بعض اندرونی مسائل کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں یہ قسم کھالی کہ میں شہد نہیں کھاؤں گا۔ مگر پیغمبر کا عمل اس کی امت کے لیے نمونہ بن جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ شرعی طریقہ کے مطابق کفارہ ادا کرکے اپنی قسم کو توڑ دیں۔ اور شہد نہ کھانے کے عہد سے اپنے آپ کو آزاد کرلیں۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ آئندہ آپ کے امتی اس کو تقوی کا معیار سمجھ کر شہد کھانے سے پرہیز کرنے لگیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
📘 مذکورہ معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج نے آپ کے گھر میں جو پیچیدگی پیدا کی تھی، اس پر متنبہ کرنے کے لیے آپ کی ازواج سے الٹی میٹم کے انداز میں کلام کیا گیا۔ اس سے زندگی کے معاملات میں عورتوں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورتیں اگر صحیح معنوں میں اپنے شوہروں کی رفاقت کریں تو وہ ان کا ’’نصف بہتر‘‘بن جاتی ہیں۔ اور اگر وہ سچی رفیق ثابت نہ ہوں تو وہ ایک با مقصد انسان کے پورے منصوبہ کو خاک میں ملا سکتی ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
📘 مذکورہ معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج نے آپ کے گھر میں جو پیچیدگی پیدا کی تھی، اس پر متنبہ کرنے کے لیے آپ کی ازواج سے الٹی میٹم کے انداز میں کلام کیا گیا۔ اس سے زندگی کے معاملات میں عورتوں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورتیں اگر صحیح معنوں میں اپنے شوہروں کی رفاقت کریں تو وہ ان کا ’’نصف بہتر‘‘بن جاتی ہیں۔ اور اگر وہ سچی رفیق ثابت نہ ہوں تو وہ ایک با مقصد انسان کے پورے منصوبہ کو خاک میں ملا سکتی ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 موجودہ دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز کو حق سمجھتا ہے۔ مگر بیوی بچوں سے بڑھا ہوا تعلق اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ حق کے طریقے کو چھوڑ دے اور وہی کرے جو اس کے بیوی بچے چاہتے ہیں۔ مگر یہ زبردست بھول ہے۔ انسان کو یاد رکھنا چاہيے کہ آج جن بچوں کی رعایت کرنے میں وہ اس حد تک جاتا ہے کہ حق کی رعایت کرنا بھول جاتا ہے، وہ بچے اپنی اس روش کے نتیجہ میں کل ایسے جہنمی کارندوں کے حوالے کیے جائیں گے جو مشینی انسان (Robot) کی طرح بے رحم ہوں گے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں کریں گے۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
📘 فرعون ایک کافر اور ظالم شخص تھا۔ مگر اس کی بیوی آسیہ بنت مزاحم ایمان دار اور باعمل خاتون تھی۔ بیوی نے جب اپنے آپ کو صحیح روش پر قائم رکھا تو شوہر کی غلط روش اس کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکی۔ شوہر جہنم میں داخل کیا گیا اور بیوی کو جنت کے باغوں میں جگہ ملی۔
أَحْصَنَتْ فَرْجَهَادر اصل کنایہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا۔ بچپن سے جوانی تک وہ پوری طرح بے داغ رہیں۔ چنانچہ اللہ نے ان کو معجزاتی پیغمبر کی پیدائش کے لیے چنا۔ بعض روایات کے مطابق جبریل فرشتہ نے ان کے گریبان میں پھونک ماری، جس سے استقرار حمل ہوا اور پھر حضرت مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے۔