🕋 تفسير سورة فاطر
(Fatir) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 آیت 1 { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ”کل حمد اور کل شکر اللہ کے لیے ہے جو پید ا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا“ فَاطِرکے لغوی معنی ہیں : عدم کے پردے کو چاک کر کے کسی چیز کو وجود بخشنے والا۔ یہاں پر ایک اہم لغوی نکتہ ضمنی طور پر نوٹ کرلیں کہ ”ف“ سے شروع ہونے والے عربی کے اکثر الفاظ میں توڑنے ‘ چاک کرنے ‘ پھاڑنے وغیرہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ مثلاً فَطَرَکے علاوہ فَلَقَ ‘ فَرَطَ ‘ فَلَحَ ‘ فَتَحَ ‘ فَصَلَ ‘ فَتَرَوغیرہ الفاظ میں یہی مفہوم پایا جاتا ہے۔ فَترۃ الوحی سے وہ عرصہ مراد ہے جس میں وحی رکی رہی ‘ یعنی وحی کا تسلسل ٹوٹ گیا اور فترۃ من الرسل سے مراد چھ سو برس کا وہ زمانہ ہے جس کے دوران پیغمبروں کا سلسلہ رکا رہا۔ { جَاعِلِ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ } ”فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ‘ جو دو دو ‘ تین تین اور چار چار َپروں والے ہیں۔“ فرشتوں کے پروں کی ہیئت اور کیفیت کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن تمثیل کے انداز میں سمجھنے کے لیے مختلف اقسام کے طیاروں کا تصور ذہن میں رکھا جاسکتا ہے ‘ جیسے کسی طیارے میں دو انجن ہوتے ہیں اور کسی میں چار۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مختلف فرشتوں کو اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق مختلف نوعیت کی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ { یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآئُط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} ”اللہ اضافہ کرتا رہتا ہے تخلیق میں جو چاہتا ہے۔ یقینا اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔“ آج سائنس بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ تخلیق کا سلسلہ جاری وساری ہے ‘ مسلسل نئے نئے ستارے وجود میں آرہے ہیں اور نئی نئی کہکشائیں بن رہی ہیں۔ اقبالؔ نے اس نکتے کو یوں بیان کیا ہے : یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فیکُون
مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ
📘 آیت 10 { مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا } ”جو کوئی عزت کا طالب ہے تو وہ جان لے کہ عزت سب کی سب اللہ کے پاس ہے۔“ جو شخص اللہ کے جتنا قریب ہوگا اسی قدر وہ سزا وار عزت اور صاحب ِتوقیر ہوگا۔ اس کے برعکس جو شخص اللہ سے جتنا دور ہوگا اسی قدر وہ ذلیل ہوگا ‘ چاہے دنیا میں وہ بظاہر کتنا ہی با عزت اور صاحب ثروت ہو۔ سورة المنافقون میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا : { وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ } ”اور عزت تو اللہ کے لیے ہے اور اس کے رسول ﷺ کے لیے اور مومنین کے لیے ‘ لیکن منافقین یہ بات نہیں جانتے۔“ { اِلَـیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ } ”اسی کی طرف اٹھتی ہیں اچھی باتیں“ ہر اچھی بات ‘ ہر اچھا نظریہ ‘ اچھا خیال ‘ دعوت ِحسنہ اور موعظہ حسنہ گویا ”کلمہ طیبہ“ ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ”الْکَلِمُ الطَّیِّبُ“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا ذکر ‘ دعا ‘ تلاوتِ قرآن اور علم و نصیحت کی باتیں ہیں۔ چناچہ ”ایمان“ بھی کلمہ طیبہ ہے۔ ظاہر ہے اگر کہیں کسی خیال یا نظریہ کا اظہار کیا جائے گا تو لامحالہ اس کا اظہار ایک ”کلمہ“ ہی کی شکل میں پیش کرنا ممکن ہوگا۔ بہر حال ہر کلمہ طیبہ پاکیزہ بات میں ترفع ّ اوپر اٹھنے کی خداد ادصلاحیت موجود ہوتی ہے اور یوں ہر کلمہ طیبہ اللہ کے حضور پیش ہوتا ہے ‘ لیکن ترفع کی اس صلاحیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے محنت اور کوشش کی بھی ضرورت ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا : { وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ } ”اور عمل ِصالح اسے اوپر اٹھاتا ہے۔“ یعنی ایمان ‘ یقین ‘ اچھے خیالات ‘ اچھے نظریات اور اچھے عزائم اکیلے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے جب تک ان کے ساتھ محنت اور تگ و دو نہیں ہوگی۔ گویا حقیقی کامیابی کے لیے ایمان اور عمل صالح دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ { وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ} ”اور جو لوگ بری سازشیں کر رہے ہیں ان کے لیے سخت سزا ہوگی۔“ { وَمَکْرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوْرُ } ”اور ان کی سازشیں ناکام ہو کر رہ جائیں گی۔
وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
📘 آیت 11 { وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا } ”اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ‘ پھر نطفے سے ‘ پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنا دیا۔“ { وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ } ”اور نہ ہی کسی مادہ کو کوئی حمل ہوتا ہے اور نہ ہی وہ جنتی ہے مگر یہ اس کے علم میں ہوتا ہے۔“ انسان ہو یا حیوان ‘ اس حوالے سے کوئی چیز اللہ کے علم سے باہر نہیں۔ { وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ } ”اور کسی عمر والے کو عمر نہیں دی جاتی اور نہ ہی کسی کی عمر میں کمی کی جاتی ہے مگر یہ سب ایک کتاب میں لکھا ہوا ہے۔“ { اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ} ”یقینا یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔“ یعنی اپنی نوع species کے اعتبار سے انسان کی ایک اوسط average عمر ہے ‘ لیکن کوئی شخص اس اوسط عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے جبکہ ایک دوسرا شخص اوسط عمر کے بعد بھی طویل عرصہ تک زندہ رہتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ایک طے شدہ نظام کے تحت وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کون طویل عمر پائے گا ‘ کون چھوٹی عمر میں فوت ہوجائے گا اور کس کو کب موت آئے گی ‘ اس بارے میں تمام فیصلے اللہ کے ہاں پہلے سے طے شدہ ہیں۔
وَمَا يَسْتَوِي الْبَحْرَانِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُهُ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ ۖ وَمِنْ كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا ۖ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
📘 آیت 12 { وَمَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِق } ”اور دو سمندر ایک جیسے نہیں ہیں“ { ہٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُہٗ وَہٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ} ”یہ میٹھا ہے فرحت بخش ‘ اس کا پینا خوشگوار ہے اور یہ کھاری ہے سخت کڑوا۔“ { وَمِنْ کُلٍّ تَاْکُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا } ”اور ان سب سے تم کھاتے ہو تازہ گوشت“ دونوں طرح کے سمندروں سے تم لوگ مچھلیاں شکار کر کے کھاتے ہو۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کھاری سمندر کی مچھلیوں کا گوشت کڑوا ہو اور میٹھے پانی کی مچھلیاں کھانے میں خوش ذائقہ ہوں۔ { وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَہَاج } ”اور دونوں سے ہی تم نکالتے ہو زیورات جنہیں تم پہنتے ہو۔“ { وَتَرَی الْفُلْکَ فِیْہِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ } ”اور تم دیکھتے ہوکشتیوں کو کہ چلتی ہیں اس کے سینے کو چیرتے ہوئے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر اداکرو۔“
يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ
📘 آیت 13 { یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ لا } ”وہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں“ { وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَز } ”اور اس نے مسخر کیا ہے سورج اور چاند کو۔“ { کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی } ”ہرچیز چل رہی ہے ایک معین ّوقت تک۔“ { ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ } ”یہ اللہ ہے تمہارا ربّ ! ُ کل بادشاہی اسی کی ہے۔“ { وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ } ”اور جنہیں تم پکارتے ہو اس کے سوا ‘ وہ ایک ذرّہ بھر اختیار نہیں رکھتے۔“ عرب میں کھجور عام پائی جاتی تھی بلکہ یہ ان کی بنیادی غذائی جنس تھی ‘ اس لیے اس کے حوالے سے مختلف مثالیں بھی دی جاتیں۔ چناچہ کسی حقیر چیز کا ذکر کرنے کے لیے قرآن میں کھجور سے متعلق دو الفاظ قِطمِیر اور فَتِیلاستعمال ہوئے ہیں۔ کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو باریک سی جھلی ہوتی ہے اسے قِطمِیر کہا جاتا ہے ‘ جبکہ فَتِیل وہ باریک سا دھاگا ہے جو کھجور کی گٹھلی کی ناف کے اندر ہوتا ہے۔
إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ
📘 آیت 14 { اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآئَ کُمْ } ”اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار کو نہیں سنتے۔“ { وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَـکُمْ } ”اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری دعا قبول نہیں کرسکتے۔“ جیسے کہ وہ لوگ فرشتوں کو بھی اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے۔ چناچہ اگر فرشتہ سن بھی لے کہ مجھے پکارا جا رہا ہے تو وہ اس پکارنے والے کی حاجت روائی تو نہیں کرسکتا۔ { وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ } ”اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کردیں گے۔“ { وَلَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ } ”اور نہیں آگاہ کرے گا کوئی بھی آپ کو اس اللہ کی طرح جو ہرچیز سے باخبر ہے۔“ اللہ تعالیٰ چونکہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے اس لیے جس طرح وہ آپ ﷺ کو حقائق سے آگاہ کر رہا ہے کوئی دوسرا اس طرح کی آگاہی فراہم نہیں کرسکتا۔
۞ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
📘 آیت 15 { یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہِج وَاللّٰہُ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ } ”اے لوگو ! تم سب اللہ کے محتاج ہو ‘ اور اللہ تو الغنی اور الحمید ہے۔“ تمہاری بیشمار احتیاجات ہیں جو اللہ تعالیٰ پوری کرتا ہے ‘ لیکن وہ خود بےنیاز ہے ‘ اس کی کوئی حاجت نہیں جو تمہیں پوری کرنا ہو۔ اور وہ ستودہ صفات ہے ‘ اپنی ذات میں خود محمود ہے ‘ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے ‘ مگر حمد شکر و تعریف کا استحقاق اسی کو پہنچتا ہے۔
إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ
📘 آیت 16 { اِنْ یَّشَاْ یُذْہِبْکُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ } ”اگر وہ چاہے تو تم سب کو لے جائے ختم کردے اور ایک نئی مخلوق لے آئے۔“
وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ
📘 آیت 17 { وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ } ”اور یہ اللہ پر ہرگز بھاری نہیں ہے۔“
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَنْ تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
📘 آیت 18 { وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی } ”اور کوئی جان نہیں اٹھائے گی کسی دوسری جان کا بوجھ۔“ { وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِہَا } ”اور اگر بوجھ تلے دبی کوئی جان کسی کو پکارے گی اپنے بوجھ کے ہٹانے کے لیے“ { لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْئٌ وَّلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی } ”تو نہیں اٹھائے گا کوئی اس میں سے کچھ بھی اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہو۔“ میدانِ حشر میں اگر کوئی گنہگار اپنے گناہوں کے بوجھ کو ناقابل برداشت پا کر اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو بھی مدد کے لیے پکارے گا تو وہ بھی بیگانوں کی طرح اس کے قریب سے گزر جائے گا اور اس کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ { اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ } ”اے نبی ﷺ ! آپ تو انہی لوگوں کو خبردار کرسکتے ہیں جو ڈرتے ہیں اپنے ربّ سے غیب میں رہتے ہوئے اور نماز قائم کرتے ہیں۔“ اللہ پر ایمان لانے اور اس سے ڈرنے کی اہمیت تو اسی وقت تک ہے جب تک کہ غیب کے پردے حائل ہیں۔ جب یہ پردے اٹھ جائیں گے اس وقت کسی کا ایمان لانا اس کے لیے مفید نہیں ہوگا۔ اس وقت تو بڑے بڑے سر کش اور نافرمان لوگ بھی سر تسلیم خم کردیں گے۔ { وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ } ”اور جو کوئی بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ہی بھلے کے لیے کرتا ہے۔“ { وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ } ”اور اللہ ہی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔“
وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ
📘 آیت 19 { وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ } ”اور برابر نہیں ہوسکتے اندھا اور دیکھنے والا۔“
مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
📘 آیت 2 { مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا } ”جو رحمت کا دروازہ بھی اللہ لوگوں کے لیے کھول دے تو اسے بند کرنے والا کوئی نہیں۔“ یہاں ”رحمت“ سے مراد نبوت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لیے وحی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ اللہ کی رحمت کا بہت بڑا مظہر ہے۔ اسی لیے سورة الانبیاء میں نبی اکرم ﷺ کے بارے میں فرمایا گیا : { وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ ”اور اے نبی ﷺ ! ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر“۔ بنی نوع انسان کو چونکہ ایک بہت بڑے امتحان سے سابقہ ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی آسانی کے لیے نبوت کا دروازہ کھول دیا ہے اور اپنے رسول کی شخصیت اور سیرت کو ان کے سامنے رکھ دیا ہے ‘ جو بذات خود اللہ کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے ‘ تاکہ لوگ احکامِ وحی سے راہنمائی حاصل کریں اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت کی پیروی کر کے اس امتحان میں سرخرو ہونے کی کوشش کریں۔ بہر حال یہاں پر اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کی حکمت ‘ مشیت اور اختیار کا ذکر اس طرح فرمایا گیا کہ انسانیت کی راہنمائی کے لیے اس نے نبوت کی صورت میں اپنی رحمت کا جو دروازہ کھولا ہے اسے کوئی بند نہیں کرسکتا۔ { وَمَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ } ”اور جسے وہ روک لے تو پھر اسے کوئی جاری کرنے والا نہیں ہے اس کے بعد۔“ جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور مشیت سے نبوت کا دروازہ بند فرما دے گا تو پھر اسے کوئی کھول نہیں سکے گا۔ چناچہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے ‘ اس لیے اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ البتہ مختلف ادوار میں نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی صورت میں دجالوں کا ظہور ہوتا رہے گا۔ { وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } ”اور یقینا وہ زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا ہے۔“
وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ
📘 آیت 20 { وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ } ”اور نہ اندھیرے اور روشنی برابر ہوسکتے ہیں۔“
وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ
📘 آیت 21 { وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُوْرُ } ”اور نہ سایہ اور دھوپ برابر ہوسکتے ہیں۔“
وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ
📘 آیت 22 { وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآئُ وَلَا الْاَمْوَاتُ } ”اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندہ اور مردہ لوگ۔“ یہاں مردوں سے مراد وہ مردے نہیں جو قبروں میں دفن ہیں ‘ بلکہ یہ ان جیتے جاگتے انسانوں کا تذکرہ ہے جن کی روحیں مردہ ہوچکی ہیں۔ اگرچہ جسمانی اعتبار سے تو ایسے لوگ زندوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ چلتے پھرتے مقبرے اور تعزیے ہیں ‘ کیونکہ ان کی انسانیت مر کر ان کے جسموں کے اندر دفن ہوچکی ہے۔ اسی طرح یہاں زندوں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی روحیں اور جن کے دل زندہ ہیں۔ زندگی کے اس فلسفے کو میر در ؔد نے اس طرح بیان کیا ہے : ؎مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے ! اگر کسی شخص کا دل مرگیا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ اس کی روح دم توڑ گئی تو انسانی سطح پر اس شخص کی موت واقع ہوگئی۔ اب اگر وہ زندہ ہے تو حیوانی سطح پر زندہ ہے۔ جس طرح حیوان کھاتے پیتے ہیں اور زندگی کی دوسری ضروریات و خواہشات پوری کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں اسی طرح اب وہ بھی زندگی بسر کر رہا ہے ‘ مگر یہ زندگی ایک انسان کی زندگی ہرگز نہیں ہے۔ مثلاً ابو جہل بظاہر اچھی بھلی زندگی بسر کر رہا تھا مگر اس کے اندر کا انسان چونکہ زندہ نہیں تھا اس لیے نہ تو وہ آفتابِ نبوت کو دیکھ سکا ‘ نہ اس کی تمازت محسوس کرسکا اور نہ ہی اس کی روشنی سے مستفیض ہوسکا۔ { اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُط وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْْقُبُوْرِ } ”یقینا اللہ سناتا ہے جس کو چاہتا ہے ‘ اور اے نبی ﷺ ! آپ نہیں سنا سکتے انہیں جو قبروں کے اندر ہیں۔“ قبروں میں مدفون سے مراد یہاں وہی لوگ ہیں جن کے جسم اپنی ُ مردہ روحوں کے چلتے پھرتے مقبرے بن چکے ہیں۔
إِنْ أَنْتَ إِلَّا نَذِيرٌ
📘 آیت 23 { اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِیْرٌ } ”آپ ﷺ نہیں ہیں مگر صرف خبردار کرنے والے !“ آپ ﷺ کا کام تو بس لوگوں کو خبردار کردینا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی ہوش میں نہیں آتا اور اپنی گمراہیوں میں بھٹکتا رہتا ہے تو اس کی کوئی ذمہ داری آپ ﷺ پر نہیں ہے۔
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۚ وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ
📘 آیت 24 { اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا } ”یقینا ہم نے بھیجا ہے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر۔“ { وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ} ”اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی خبردار کرنے والا نہ گزرا ہو۔“
وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ
📘 آیت 25 { وَاِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ } ”اور اگر یہ لوگ آپ ﷺ کو جھٹلائیں تو جھٹلا چکے ہیں وہ لوگ بھی جو ان سے پہلے تھے۔“ { جَآئَ تْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْکِتٰبِ الْمُنِیْرِ } ”ان کے پاس آئے تھے ان کے رسول علیہ السلام واضح نشانیاں ‘ صحیفے اور روشن کتابیں لے کر۔“ آپ ﷺ سے پہلے بہت سے انبیاء و رسل علیہ السلام کو ان کی قومیں جھٹلا چکی ہیں ‘ حالانکہ وہ ان کے پاس بہت واضح معجزات ‘ صحیفے اور کتابیں لے کر آئے تھے۔ سورة الاعلیٰ کی آخری آیت میں حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ ﷺ کے صحائف کا ذکر ہے جبکہ تین الہامی کتابوں تورات ‘ زبور اور انجیل کا ذکر قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔
ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ
📘 آیت 26 { ثُمَّ اَخَذْتُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ } ”پھر میں نے پکڑ لیا ان کو جنہوں نے کفر کیا ‘ تو دیکھ لو کیسی رہی میری سزا ؟“
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا ۚ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ
📘 آیت 27{ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً } ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی ؟“ { فَاَخْرَجْنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہَا } ”پھر ہم نے نکالے اس سے پھل جن کے رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہیں !“ { وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌم بِیْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِیْبُ سُوْدٌ} ”اور پہاڑوں میں بھی دھاریاں ہیں سفید اور سرخ ‘ ان کے مختلف رنگ ہیں اور کو وں جیسے سیاہ بھی۔“ پہاڑوں کے اندر مختلف رنگوں کی دھاریاں layers اور چٹانیں کا غان کے راستے میں بہت نظر آتی ہیں۔
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ
📘 آیت 28{ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ کَذٰلِکَ } ”اور اسی طرح انسانوں ‘ جانوروں اور چوپایوں کے بھی مختلف رنگ ہیں۔“ { اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُاط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ} ”یقینا اللہ سے ڈرتے تو اس کے بندوں میں سے وہی ہیں جو اہل علم ہیں۔ یقینا اللہ بہت زبردست ہے ‘ نہایت بخشنے والا۔“ انسان کے دل میں اگر ایمان موجود ہے تو اس کے اندر لازماً خوفِ خدا بھی ہوگا۔ پھر جس قدر اس کے علم میں اضافہ ہوگا ‘ ارضیات ‘ حیوانات ‘ نباتات وغیرہ سے متعلق اس کی معلومات بڑھیں گی اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز کے بارے میں اس کا مطالعہ وسیع ہوتا چلا جائے گا اسی قدر اس کے دل میں اللہ کی عظمت اور خشیت بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ لیکن اگر کوئی شخص بنیادی طور پر صاحب ایمان نہیں ہے تو اللہ کی معرفت کے حوالے سے اس کی سماعت و بصارت اور سمجھ بوجھ سب بےکار ہیں۔ اس حوالے سے آج کے سائنسدانوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ آئے دن نئے نئے مشاہدات کرتے ہیں ‘ اور کائنات کے عجیب و غریب رازوں سے پردے اٹھاتے ہیں مگر اس ساری تدقیق و تحقیق کے دوران انہیں اللہ کی ذات کہیں نظر نہیں آتی۔ چناچہ اللہ کی عظمت وکبریائی اور حکمت و صناعی کی پہچان صرف وہی دل کرسکتا ہے جس کے اندر ایمان کی روشنی موجود ہے۔ ایسے دل میں اللہ کی معرفت جیسے جیسے بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے اس کی خشیت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ
📘 آیت 29{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ } ”یقینا وہ لوگ جو تلاوت کرتے ہیں اللہ کی کتاب کی اور نماز قائم کرتے ہیں“ { وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً } ”اور خرچ کرتے ہیں اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا ہے خفیہ اور اعلانیہ“ { یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَ } ”وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوگا۔“ اللہ کے راستے میں جان و مال خرچ کرنے کو قرآن میں تجارت سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ سورة الصف میں اس حوالے سے پہلے اہل ِایمان سے سوال کیا گیا : { یٰٓــاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ ”اے اہل ایمان ! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کے بارے میں بتائوں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچا لے ؟“ اور پھر جواب میں یوں فرمایا گیا : { تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْط } آیت 11 ”وہ تجارت یہ ہے کہ تم ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر اور اس کے راستے میں جہاد کرو اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ۔“ کسی بھی کاروبار اور تجارت کو کامیاب کرنے کے لیے سرمایہ اور محنت دونوں چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چناچہ جس طرح دنیا میں تم اپنی تجارت کو فروغ دینے اور زیادہ منافع کمانے کے لیے بڑھ چڑھ کر سرمایہ لگاتے ہو اور پھر اس میں دن رات کی محنت سے جان بھی کھپاتے ہو ‘ اسی طرح جان و مال لگا کر اگر تم اللہ کے ساتھ تجارت کرو گے تو اس میں تمہیں کبھی نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا اور منافع بھی ایسا ملے گا کہ تم آخرت کے عذاب سے چھٹکارا پا کر ہمیشہ کی کامیابی سے ہمکنار ہو جائو گے۔ آیت زیر مطالعہ میں نیک اعمال کی ترغیب کو عام فہم بنانے کے لیے تجارت کی تشبیہہ کا استعمال کیا گیا ہے۔ دراصل قرآن مجید بنیادی باتوں کو سمجھانے کے لیے عموماً ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو عام لوگوں کی سمجھ میں بھی آسانی سے آجائیں۔ جیسے سورة التوبہ کی آیت 111 میں فرمایا گیا : { اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط } ”یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔“ اس آیت میں بھی ایک ”سودے“ کی بات کی گئی ہے تاکہ ہر آدمی مضمون کے اصل مدعا کو سمجھ سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرلے جو اس کے ساتھ اپنے مال و جان کا سودا کرنے والے ہیں !
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
📘 آیت 3 { یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ } ”اے لوگو ! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر ہوئی ہے۔“ اللہ کے جو احسانات تم پر ہوئے ہیں انہیں یاد کرو اور ان کی قدر کرو ! { ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ } ”کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں رزق بہم پہنچاتا ہو آسمان سے اور زمین سے ؟“ { لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَز فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ } ”نہیں ہے کوئی معبود سوائے اس کے ‘ تو تم کہاں سے الٹے پھرائے جا رہے ہو !“
لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ
📘 آیت 30{ لِیُوَفِّیَہُمْ اُجُوْرَہُمْ وَیَزِیْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖط اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ} ”تاکہ اللہ ان کو ان کے اعمال کے بھرپور اجر دے اور اپنے فضل سے انہیں مزید عطا کرے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا ‘ بہت قدر دان ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی غلطیوں کو معاف کرنے والا اور ان کے اعمال کی بہت قدر افزائی فرمانے والا ہے۔
وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ
📘 آیت 31{ وَالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ ہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ } ”اور اے نبی ﷺ ! ہم نے جو وحی بھیجی ہے آپ کی طرف کتاب میں سے ‘ وہی حق ہے ‘ تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اس کتاب کی جو اس سے پہلے موجود ہے۔“ { اِنَّ اللّٰہَ بِعِبَادِہٖ لَخَبِیْرٌم بَصِیْرٌ} ”یقینا اللہ اپنے بندوں سے خوب باخبر ‘ انہیں دیکھنے والا ہے۔“
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ
📘 آیت 32{ ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاج } ”پھر ہم نے کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے ُ چن لیا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کو کتاب کی وراثت کے لیے چن لیا ہے۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة الحج کی آخری آیت میں واضح تر انداز میں آچکا ہے : { وَجَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖط ہُوَ اجْتَبٰٹکُمْ } ”اور جہاد کرو اللہ کے لیے جیسے کہ اس کے لیے جہاد کا حق ہے ‘ اس نے تمہیں چن لیا ہے“۔ سورة الحج میں اس مفہوم کے لیے لفظ ”اِجْتَبٰی“ استعمال ہوا ہے جبکہ آیت زیر مطالعہ میں لفظ ”اِصْطَفٰی“ آیا ہے۔ سورة الحج کے مطالعے کے دوران بھی ذکر ہوا تھا کہ اجتباء اور اصطفاء دونوں قریب المفہوم الفاظ ہیں ‘ لیکن لغوی مفہوم کے اعتبار سے ان دونوں میں ایک لطیف سا فرق بھی ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے آپ انگریزی کے دو الفاظ to select اور to choose کو ذہن میں رکھیے۔ choose میں پسند choice کارفرما ہوتی ہے اور اس کا تعلق ”ذوق“ سے ہے کہ کوئی اپنے ذوق کے مطابق کیا پسند choose کرتا ہے ‘ جبکہ انتخاب selection ہمیشہ کسی مقصد کے لیے ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس فرق کو اس طرح واضح کیا جاسکتا ہے : A and B choice out of something selection for something ان دونوں الفاظ کے مذکورہ معانی کو اگر امت مسلمہ پر منطبق کریں تو یہ اہم حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس امت کے اجتباء selection میں ایک عظیم مقصد کارفرما ہے جبکہ اصطفاء choice کے حوالے سے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ دونوں الفاظ نبی اکرم ﷺ کے لیے بھی آئے ہیں محمد مصطفیٰ اور احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مذکورہ دونوں آیات زیرمطالعہ آیت اور سورة الحج کی آخری آیت کے حوالے سے حضور ﷺ کی امت کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ بہر حال اس امت کو پسندیدہ chosen قرار دے کر اجتباء selection کے اعزاز سے نواز تو دیا گیا لیکن بعد میں کیا ہوا ؟ { فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ ج } ”تو ان میں سے کچھ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔“ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو اللہ کی کتاب اور محمد ﷺ کو اللہ کا رسول تو مانتے ہیں ‘ مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت ِرسول ﷺ کی پیروی میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سورة الشورٰی میں اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے : { وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُوا الْکِتٰبَ مِنْم بَعْدِہِمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ } یعنی انبیاء علیہ السلام کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے جاتے ہیں وہ اس کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ { وَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌج } ”اور ان میں کچھ درمیانی راہ پر چلنے والے ہیں۔“ یعنی ایسے لوگ جو نیکی بھی کرتے ہیں اور ان سے برائی بھی سرزد ہوجاتی ہے۔ سورة التوبہ میں ایسے اہل ِایمان کا ذکر بایں الفاظ ہوا ہے : { خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًا } آیت 102 ”انہوں نے اچھے اور برے اعمال کو گڈمڈ کردیا ہے۔“ { وَمِنْہُمْ سَابِقٌم بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ } ”اور ان میں سے کچھ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں ‘ اللہ کی توفیق سے۔“ ان میں سے کچھ ایسے خوش قسمت بھی ہوتے ہیں جو اللہ کی عطا کردہ توفیق سے دین کی خدمت کرنے ‘ حق کی دعوت کو پھیلانے ‘ اللہ کی کتاب کا حق ادا کرنے اور ہر اچھے عمل میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ { ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ } ”یہی بہت بڑی فضیلت ہے۔“
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
📘 آیت 33{ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا } ”ان کے لیے باغات ہوں گے رہنے کے جن میں وہ داخل ہوں گے“ ”جَنّٰتُ عَدْنٍ“ کا ترجمہ ”ہمیشگی کے باغات“ بھی کیا گیا ہے اور ”رہنے کے باغات“ residential gardens بھی۔ { یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُؤْلُؤًاج وَلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ} ”ان میں انہیں پہنائے جائیں گے سونے کے کنگن اور موتی ‘ اور ان میں ان کا لباس ریشم ہوگا۔“ سورة الحج کی آیت 23 میں بھی بالکل یہی الفاظ آئے ہیں۔
وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۖ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ
📘 آیت 34{ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ } ”اور وہ جب جنت میں داخل ہوں گے تو کہیں گے کہ ُ کل حمد اور کل شکر اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے غم کو دور کردیا۔“ واضح رہے کہ یہ ان لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جنہیں قبل ازیں آیت 32 میں ”سَابِقٌم بِالْخَیْرٰتِ“ کا لقب ملا ہے۔ آیت ماقبل میں اس امت کے تین گروہوں کا ذکر ہوا ہے ‘ یعنی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ‘ درمیانی راہ پر چلنے والے اور بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے۔ یہاں پر ربط ِکلام کو مدنظر رکھا جائے تو آیات 33 ‘ 34 اور 35 کے مضمون کا تعلق آیت 32 کے آخری الفاظ سے ہے۔ یعنی ان آیات میں امت کے مذکورہ آخری گروہ سَابِقٌم بِالْخَیْرٰتِ کو عطا کیے جانے والے انعامات کا ذکر ہے۔ البتہ کچھ لوگ اس کی تعبیر یوں بھی کرتے ہیں کہ یہ نعمتیں اور خوشخبریاں امت کے ان تینوں گروہوں کے لیے ہیں جن کا ذکر آیت ماقبل میں ہوا ہے۔ یہ تعبیر گویا ان لوگوں کے دل کی آواز ہے جو چاہتے ہیں کہ انہیں بغیر کوئی محنت اور کوشش کیے اور بغیر کوئی قربانی دیے جنت کے انعامات اور اونچے اونچے مقامات مل جائیں۔ { اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرُ } ”یقینا ہمارا رب بہت بخشنے والا اور بہت قدر افزائی فرمانے والا ہے۔“
الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهِ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ
📘 آیت 35{ نِ الَّذِیْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِنْ فَضْلِہٖ } ”جس نے ہمیں ہمیشہ آباد رہنے والے گھر میں لااتارا ہے اپنے خاص فضل سے۔“ اللہ تعالیٰ نے ہم پر خاص فضل اور کرم فرمایا ہے کہ اس نے ہمیں جنت میں جگہ عطا کی ہے۔ اہل جنت کی اس سے ملتی جلتی دعا اس سے پہلے ہم سورة الاعراف کی آیت 43 میں بھی پڑھ چکے ہیں : { وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدٰٹنَا لِہٰذَاقف وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰٹنَا اللّٰہُج } ”کل ُ تعریف اور کل شکر اس اللہ کا ہے جس نے ہمیں یہاں پہنچا دیا ‘ اور ہم ہرگز نہ پہنچ پاتے اگر اللہ ہی ہمیں نہ پہنچاتا۔“ { لَا یَمَسُّنَا فِیْہَانَصَبٌ وَّلَا یَمَسُّنَا فِیْہَا لُغُوْبٌ} ”اب ہمیں اس میں نہ تو کوئی مشقت جھیلنی پڑے گی اور نہ ہی اس میں ہمیں کوئی تکان لاحق ہوگی۔“
وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ
📘 آیت 36{ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَہُمْ نَارُ جَہَنَّمَ } ”اس کے برعکس جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہوگی۔“ { لَا یُقْضٰی عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَفَّفُ عَنْہُمْ مِّنْ عَذَابِہَا } ”نہ تو ان کا قصہ چکایا جائے گا کہ وہ مرجائیں اور نہ ہی ان کے لیے اس کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔“ اس وقت اہل جہنم کی سب سے بڑی خواہش تو یہی ہوگی کہ انہیں موت آجائے اور وہ اس کے لیے دعا بھی کریں گے۔ سورة الفرقان میں ان کی اس خواہش اور دعا کا جواب ان الفاظ میں دیا گیا ہے : { لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُـبُوْرًا کَثِیْرًا۔ ”تب ان سے کہا جائے گا کہ آج ایک موت نہ مانگو بلکہ بہت سی موتیں مانگو !“ { کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْرٍ } ”اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ہر ناشکرے انسان کو۔“
وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ
📘 آیت 37{ وَہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَاج رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ } ”اور وہ اس میں چیخ و پکار کریں گے : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں یہاں سے نکال لے ! اب ہم نیک اعمال کریں گے ‘ ان اعمال سے مختلف جو ہم پہلے کیا کرتے تھے۔“ { اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ } ”کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں سبق حاصل کرلیا جس نے سبق حاصل کرنا چاہا“ ہم نے تمہیں عمر کی مناسب مہلت دی تھی۔ اسی مہلت میں کچھ لوگوں نے دنیا میں رہتے ہوئے غیب کے پردوں میں ہمیں پہچانا۔ وہ ہم پر ایمان لائے اور بھلائی کا راستہ اختیار کر کے جنت میں پہنچ گئے۔ عمر کی اس مہلت میں اگر وہ لوگ راہ راست پر آسکتے تھے تو تم لوگ ایسا کیوں نہیں کرسکتے تھے ؟ { وَجَآئَ کُمُ النَّذِیْرُط } ”اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی تو آیا تھا !“ { فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ } ”تو اب چکھو مزہ اس عذاب کا اور یاد رکھو کہ ظالموں کے لیے کوئی مدد گار نہیں ہے۔“
إِنَّ اللَّهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
📘 آیت 38{ اِنَّ اللّٰہَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ”یقینا اللہ خوب جاننے والا ہے آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کا۔“ { اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ } ”یقینا وہ واقف ہے سینوں میں چھپے رازوں سے۔“
هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ ۚ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ ۖ وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِلَّا مَقْتًا ۖ وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ إِلَّا خَسَارًا
📘 آیت 39{ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ } ”وہی تو ہے جس نے تمہیں جانشین بنایا زمین میں۔“ { فَمَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہٗ } ”تو جس کسی نے کفر کیا تو اس کے کفر کا وبال اسی پر ہوگا۔“ { وَلَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِلَّا مَقْتًاج } ”اور کافروں کے لیے ان کا کفر ان کے رب کے نزدیک سوائے غضب کے کسی چیز میں اضافہ نہیں کرے گا۔“ { وَلَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُہُمْ اِلَّا خَسَارًا } ”اور کافروں کے لیے ان کا کفر سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں بڑھائے گا۔“ ان کے کفر کے سبب ان کے خلاف اللہ کے غصے اور اس کی بےزاری میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ اس طرح ان کی تباہی اور بربادی بڑھتی ہی چلی جائے گی۔
وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
📘 آیت 4 { وَاِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ } ”اور اے نبی ﷺ ! اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں علیہ السلام کو جھٹلایا گیا ہے۔“ { وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ } ”اور بالآخر تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹا دیے جائیں گے۔“
قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءَكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَىٰ بَيِّنَتٍ مِنْهُ ۚ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا
📘 آیت 40{ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ شُرَکَآئَ کُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ } ”آپ ﷺ کہیے کہ کیا تم نے اپنے ان شریکوں کے بارے میں کبھی غور کیا جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ؟“ { اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ } ”ذرا مجھے دکھائو کہ انہوں نے زمین میں کونسی چیز پیدا کی ہے یا ان کی کوئی شراکت ہے آسمانوں میں !“ { اَمْ اٰتَیْنٰہُمْ کِتٰبًا فَہُمْ عَلٰی بَیِّنَتٍ مِّنْہُ } ”یا ہم نے انہیں کوئی کتاب عطا کی تھی اور وہ اس کی کسی واضح دلیل پر ہیں !“ کیا ان کے پاس ہماری نازل کردہ کوئی کتاب موجود ہے جس کی کسی واضح دلیل کی بنیاد پر انہوں نے اپنے اعتقادات اخذ کیے ہیں ؟ { بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا } ”بلکہ یہ ظالم آپس میں ایک دوسرے کو وعدے نہیں دے رہے مگر فریب کے۔“ یہ ظالم ایک دوسرے سے محض ُ پرفریب وعدے کر رہے ہیں۔
۞ إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا ۚ وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا
📘 آیت 41{ اِنَّ اللّٰہَ یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا } ”یقینا اللہ ہی تھامے ہوئے ہے آسمانوں اور زمین کو کہ وہ اپنے راستے سے ہٹ نہ جائیں۔“ { وَلَئِنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَکَہُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْم بَعْدِہٖ } ”اور اگر وہ ہٹ جائیں تو کوئی نہیں جو ان کو تھام سکے اس کے بعد !“ { اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا } ”یقینا وہ بہت بردبار ‘ بہت بخشنے والا ہے۔“ یہی وجہ ہے کہ وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی لوگوں کی غلطیوں پر فوراً پکڑ نہیں کرتا اور انہیں مہلت دیے جاتا ہے۔
وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا
📘 آیت 42{ وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَئِنْ جَآئَ ہُمْ نَذِیْـرٌ لَّـیَکُوْنُنَّ اَہْدٰی مِنْ اِحْدَی الْاُمَمِ } ”اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائی تھیں کہ اگر ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والاآیا تو وہ لازماً ہدایت یافتہ ہوجائیں گے کسی بھی امت سے بڑھ کر۔“ { فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَہُمْ اِلَّا نُفُوْرَا } ”پھر جب آگئے ان کے پاس خبردار کرنے والے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اس چیز نے ان کے اندر حق سے فرار کے سوا کوئی اضافہ نہیں کیا۔“ جب محمد عربی ﷺ نے اللہ کے رسول کی حیثیت سے انہیں دعوت دینا شروع کی تو وہ آپ ﷺ کی دعوت سے بدکنے اور دور بھاگنے لگے۔
اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا
📘 آیت 43{ نِ اسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَمَکْرَ السَّیِّیِٔ } ”زمین میں تکبر کرتے ہوئے اور ُ بری چالیں چلتے ہوئے۔“ انہوں نے حضور ﷺ کے خلاف متکبرانہ رویہ بھی اختیار کیا اور آپ ﷺ کی دعوت کا راستہ روکنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں بھی کیں۔ { وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ } ”اور ُ بری چال کا وبال نہیں پڑتا مگر اس کے چلنے والے پر ہی۔“ { فَہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ } ”تو وہ کس چیز کے انتظار میں ہیں سوائے پہلے والوں کے انجام کے !“ ”سُنّتُ الاَوّلیْن“ سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق پچھلی نافرمان قومیں ہلاک ہوئیں۔ گویا اب یہ لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ قانونِ خداوندی کا انطباق جس طرح پچھلی اقوام پر ہوا تھا اسی طرح اب ان پر بھی ہو اور جس طرح ماضی میں نافرمان اقوام کو ہلاک کیا جاتا رہا اسی طرح انہیں بھی ہلاک کردیا جائے۔ { فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا } ”تو تم ہرگز نہیں پائو گے اللہ کے قانون میں کوئی تبدیلی ‘ اور تم ہرگز نہیں پائو گے اللہ کے قانون کو رخ پھیرتے ہوئے۔“ تبدیل اور تحویل دو الگ الگ لیکن قریب المعانی الفاظ ہیں۔ تبدیل یا تبدیلی کا مفہوم تو عام فہم ہے ‘ جبکہ تحویل کے معنی رخ پھیرنے یا سمت بدلنے کے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کا قانون کسی کے لیے اپنا رخ نہیں بدلتا اور اگر کوئی شخص یا کوئی قوم اللہ کے قانون کی زد میں آنے والی ہو تو اس قانون کے رخ کو کسی طور سے پھیرا نہیں جاسکتا۔ چناچہ اگر یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں تو اللہ کا قانون بھی بدلنے والا نہیں۔ ان سے پہلے کی قومیں اگر ایسی روش کو اپنا کر نشان عبرت بنتی رہی ہیں تو یہ لوگ بھی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔
أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا
📘 آیت 44{ اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ } ”کیا یہ لوگ زمین میں گھومے پھرے نہیں ہیں ‘ پس یہ دیکھتے کہ کیسا ہوا انجام ان کا جو ان سے پہلے تھے“ { وَکَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّۃً } ”حالانکہ وہ طاقت میں ان سے کہیں بڑھ کر تھے !“ { وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہٗ مِنْ شَیْئٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ } ”اور اللہ کی شان ایسی نہیں کہ اسے کوئی بھی چیز آسمانوں میں یا زمین میں عاجز کرسکے۔“ { اِنَّہٗ کَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًا } ”یقینا وہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ‘ ہرچیز پر قادر ہے۔“
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَٰكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا
📘 آیت 45{ وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہْرِہَا مِنْ دَآبَّۃٍ } ”اور اگر اللہ فوری گرفت کرتا لوگوں کی ان کے اعمال کے سبب تو اس زمین کی پشت پر کوئی جاندار بھی باقی نہ چھوڑتا“ { وَّلٰکِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی } ”لیکن وہ موخر کرتا رہتا ہے ان کو ایک وقت مقرر تک۔“ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہی ہے کہ وہ کسی مجرم یا نافرمان کی فوری طور پر پکڑ کرنے کے بجائے اسے ایک طے شدہ وقت تک مہلت دیتا رہتا ہے۔ { فَاِذَا جَآئَ اَجَلُہُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِعِبَادِہٖ بَصِیْرًا } ”پھر جب ان کا وقت ِمعین ّآ جائے گا تو اللہ یقینا اپنے بندوں کے حالات کو خود دیکھنے والا ہے۔“ اللہ کی مشیت کے مطابق طے شدہ وقت پر جب بھی کسی مجرم کی گرفت ہوگی تو اسے اپنے ایک ایک جرم کا حساب دینا پڑے گا ‘ کیونکہ ان کا کوئی معاملہ بھی اللہ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ
📘 آیت 5 { یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَاوقفۃ } ”اے لوگو ! اللہ کا وعدہ سچا ہے ‘ تو دیکھو دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے“ { وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ } ”اور نہ ہی تمہیں دھوکے میں ڈالے اللہ کے بارے میں وہ بڑا دھوکے باز۔“ اس سے پہلے ہم یہی الفاظ سورة لقمان کی آیت 33 میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ لفظ ”غرور“ اگر ”غ“ کی پیش کے ساتھ ہو تو مصدر ہے ‘ اور اگر ”غ“ کی زبر کے ساتھ فَعول کے وزن پر ہوتویہ مبالغے کا صیغہ ہوگا۔ چناچہ ”الـغَرُور“ کے معنی ہیں بہت بڑا دھوکے باز ‘ یعنی ابلیس لعین جو اکثر لوگوں کو اللہ کے بارے میں اس طرح بھی ورغلاتا ہے کہ اللہ بڑا رحیم ‘ کریم ‘ شفیق اور مغفرت کرنے والا ہے۔ تمہیں کا ہے کی فکر ہے ؟ تم نے کون سے ایسے بڑے گناہ کیے ہیں۔ اور یہ سودی کاروبار ! اس کا کیا ہے ؟ یہ تو سب کرتے ہیں۔ اور وہ فلاں غلط کام اگر تم سے ہوگیا ہے تو کیا ہوا ؟ اللہ غفورٌ رحیم ہے ‘ وہ تو بڑے بڑے گناہگاروں کو بخش دیتا ہے ‘ چناچہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ‘ تم جو کچھ کر رہے ہو کرتے جائو اور جس راستے پر چل رہے ہو چلتے جائو ! اللہ کی شان کریمی اور صفت ِغفاری کے نام پر انسان کو دھوکے میں ڈالنے کا یہ ایک ابلیسی حربہ ہے جس سے یہاں خبردار کیا گیا ہے کہ دیکھو ! یہ ابلیس بہت بڑا دھوکے باز ہے ‘ یہ کہیں تمہیں اللہ کی رحمت کے حوالے سے ہی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے بہلاوے میں آکر تم دنیوی زندگی کی رنگینیوں میں گم ہو کر اللہ کو بھول جائو اور اس طرح تمہاری یہ زندگی تمہارے لیے ایک بہت بڑا دھوکہ بن جائے۔ اور دیکھو ! دُنیوی زندگی کے بارے میں یہ حقیقت کبھی تمہاری نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائے : { وَما الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ } آل عمران ”اور دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔“
إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ
📘 آیت 6 { اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَـکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا } ”یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے ‘ چناچہ تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو !“ { اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ } ”یہ تو بلاتا ہے اپنے ہی گروہ کے لوگوں کو تاکہ وہ جہنم والوں میں سے ہوجائیں۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایسا انسان جس کی نیت درست نہیں اور اس کے اندر شیطانی رجحانات بالقوہ potentially موجود ہیں وہ شیطان کا آسان شکار ہے۔ چناچہ شیطان ہر ایسے انسان کی طرف خصوصی طور پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑنے کے بعد اسے راستے میں نہیں چھوڑتا ‘ بلکہ اس کی منزل جہنم تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ ”برے“ کو اس کے گھر تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔ اس حوالے سے سورة الاعراف کے 22 ویں رکوع میں بلعم بن باعوراء کا واقعہ بڑا عبرت انگیز ہے۔ وہ اللہ کے نیک بندوں میں سے تھا۔ صرف عابد و زاہد نہیں ‘ عالم بھی تھا۔ لیکن جب وہ غلطی کا ارتکاب کر کے اللہ کی اطاعت سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا کیا اور اسے دھکے دیتا ہوا گمراہی اور بےحیائی میں آگے سے آگے بڑھاتا چلا گیا : { فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ۔ الاعراف ”پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تو وہ ہوگیا گمراہوں میں سے“۔ گویا جن لوگوں کے دلوں میں کھوٹ اور ارادوں میں فتور ہو ‘ شیطان انہیں چن ُ چن کر ڈھونڈتا ہے ‘ انہیں اپنی طرف بلاتا ہے اور اپنے گروہ حزب الشیطان میں شامل کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ اولیاء الرحمن اور عباد الرحمن کے زمرے میں آتے ہیں ان پر شیطان کا بس نہیں چلتا۔ اس حوالے سے یہ بات بھی نوٹ کرلیجئے کہ جس طرح بعض لوگوں میں حزب الشیطان سے موافقت کا رجحان potential پہلے سے موجود ہوتا ہے اسی طرح کچھ لوگ بالقوہ potentially حزب اللہ والے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً حضرت عمر اور حضرت حمزہ میں شروع ہی سے حزب اللہ میں شامل ہونے کی صلاحیت موجود تھی۔ چناچہ اگرچہ ان کے فیصلے میں کچھ تاخیر ہوئی ‘ قبولِ اسلام میں چھ سال لگ گئے ‘ لیکن بالآخر وہ صلاحیت ظاہر ہوگئی۔ -۔ ”حزب اللہ“ اور ”حزب الشیطان“ قرآنی اصطلاحات ہیں ‘ ان کی وضاحت سورة المجادلہ کی آخری آیات میں آئی ہے۔
الَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ
📘 آیت 7 { اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ} ”وہ لوگ جو کفر کی روش اختیار کریں گے ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے۔“ { وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَبِیْرٌ} ”اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ‘ ان کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔“ اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ !
أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
📘 آیت 8 { اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہٗ سُوْٓئُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا } ”تو کیا وہ شخص جس کے لیے مزین ّکر دی گئی ہو اس کے عمل کی برائی اور وہ اسے اچھاسمجھ رہا ہو ہدایت پاسکتا ہے !“ آج من حیث القوم ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ آج ہم فحاشی اور بےحیائی کو کلچر اور ثقافت کے خوبصورت ناموں کے ساتھ نہ صرف معاشرے میں ترویج دے رہے ہیں بلکہ اس ”ترقی“ پر فخر بھی کرتے ہیں۔ ٹیوی ‘ کیبل اور انٹر نیٹ نے اس فحاشی کو گھر گھر میں پہنچا دیا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ کسی کو اس ”اشاعت ِفاحشہ“ میں کوئی قباحت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ امریکہ میں تو ایسی societies nudists بھی پائی جاتی ہیں جن سے تعلق رکھنے والے لوگ نہ صرف لباس کو محض ایک تکلف سمجھتے ہیں بلکہ مادرزاد برہنہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی حالت میں مخلوط محفلیں بھی سجاتے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں ہم جنس پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان بھی فحاشی اور بےحیائی کی زندہ مثال ہے۔ ہم جنس پرست مرد gays ہوں یا عورتیں lesbians وہ نہ صرف انتہائی بےشرمی اور بےباکی سے اس فعل شنیع میں ملوث ہیں بلکہ انہوں نے باقاعدہ تنظی میں بنا رکھی ہیں اور ان تنظیموں کے پلیٹ فارم سے وہ سر عام اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور اپنے قانونی و معاشرتی ”حقوق“ کے لیے سینہ تان کر مظاہرے کرتے ہیں۔ بہر حال آج کی دنیا میں بیشمار لوگ اس آیت کے الفاظ کا مصداق نظر آتے ہیں جن کے برے اعمال ان کی نگاہوں میں مزین کردیے گئے ہیں اور وہ ان برے اعمال کو نہ صرف اچھا سمجھتے ہیں بلکہ ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔ { فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآئُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ } ”تو اللہ گمراہ کردیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔“ یہاں پر ”مَنْ“ کا تعلق دو طرفہ ہے۔ چناچہ اس کے دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جو ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے اور گمراہ کرتا ہے اسے جو گمراہ ہونا چاہتا ہے۔ { فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرٰتٍ } ”تو اے نبی ﷺ ! آپ کی جان نہ گھلے ان لوگوں پر رنج کی وجہ سے۔“ اب جبکہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ ﷺ ان کے انجام کے تصور سے ان پر افسوس کرتے ہوئے اپنی جان مت گھلائیں ‘ اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔ -۔ یہ مضمون سورة الکہف میں بایں الفاظ بیان ہوا ہے : { فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا۔ ”تو اے نبی ﷺ ! آپ شاید اپنے آپ کو غم سے ہلاک کرلیں گے ان کے پیچھے ‘ اگر وہ ایمان نہ لائے اس بات قرآن پر“۔ پھر یہی مضمون سورة الشعراء میں بھی مذکور ہے : { لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔ ”اے نبی ﷺ ! شاید آپ ہلاک کردیں گے اپنے آپ کو ‘ اس لیے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے۔“ { اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ } ”یقینا اللہ خوب جاننے والا ہے جو کچھ کہ یہ لوگ کر رہے ہیں۔“
وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ
📘 آیت 9 { وَاللّٰہُ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ } ”اور اللہ ہی ہے جو ہوائوں کو بھیجتا ہے“ { فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰہُ اِلٰی بَلَدٍ مَّیِّتٍ } ”پھر وہ اٹھا لیتی ہیں بادلوں کو ‘ پھر ہم ہانک دیتے ہیں اس بادل کو ایک ُ مردہ زمین کی طرف“ { فَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا } ”پھر ہم اس سے اس زمین کو زندہ کردیتے ہیں اس کے مردہ ہوجانے کے بعد۔“ { کَذٰلِکَ النُّشُوْرُ } ”اسی طرح سے ہوگا تمہارا اٹھایا جانا بھی !“ جس طرح بےآب وگیاہ بنجر زمین پر بارش کے برستے ہی زندگی کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے طرح طرح کا سبزہ اس میں سے نمودار ہونے لگتا ہے ‘ اسی طرح وقت آنے پر تم بھی اللہ کے حکم سے زمین سے نکل کھڑے ہو گے۔