slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة مريم

(Maryam) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ كهيعص

📘 حضرت زکریا حضرت مریم کے بہنوئی تھے۔ حضرت مریم کے والد کا نام عمران تھا۔ حضرت مریم ابھی صرف چند سال کی تھیں کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ وہ ہیکل کے ناظم اعلی تھے۔ ان کے بعد حضرت زکریا ہیکل کے ناظم اعلیٰ (کاہنوں کے سردار) مقرر ہوئے۔ اس زمانہ میں حضرت مریم اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ہیکل کی خدمت میں دے دی گئی تھیں۔ حضرت زکریا چوں کہ حضرت مریم کے قریبی عزیز تھے اور ہیکل کے سردار بھی اس لیے وہی حضرت مریم کی تربیت کے ذمہ دار قرار پائے۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے ’’چھپی آواز‘‘ میں خدا سے دعا کی۔ یہ دعا حیرت انگیز طورپر پوری ہوئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سچی دعا کیا ہے۔ سچی دعا دراصل اس یقین کا بے تابانہ اظہار ہے کہ سارا اختیار صرف خدا کے پاس ہے۔ اسی کے دینے سے آدمی کو ملے گا اور وہ نہ دے تو کبھی کسی کو کچھ نہیں مل سکتا۔ سچی دعا کا سارا رخ صرف ایک خدا کی طرف ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ سچی دعا سب سے زیادہ اس وقت ابلتی ہے جب کہ آدمی تنہائی میں ہو۔ جہاںاس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسرا نہ پایا جائے۔

قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا

📘 پہلے انسان کا باپ اور ماں کے بغیر پیدا ہونا جس طرح ایک خدائی معجزہ ہے اسی طرح باپ اور ماں کے ذریعہ بچہ کا پیدا ہونا بھی ایک خدائی معجزہ ہے ۔ خواہ یہ ماں باپ بوڑھے ہوں یا جوان۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خدا ہے جو انسان کو پیدا کرتا ہے ۔اسی نے پہلے پیدا کیا اور وہی آج بھی پیدا کرنے والا ہے۔ دوسری ہر چیز محض ایک ظاہری بہانہ ہے،نہ کہ حقیقی وجہ ۔ حضرت زکریا نے رحمتِ خداوندی کے ملنے کی علامت دریافت کی۔ بتایا گیا کہ تندرست ہونے کے باوجود جب کامل تین رات دن تک لوگوں سے زبان کے ذریعہ بات نہ کرسکو، اس وقت سمجھ لینا کہ حمل قرار پاگیاہے۔ چنانچہ جب وہ وقت آیا تو زبان بات چیت سے رک گئی۔ حضرت زکریا اپنے عبادت خانے سے باہر نکلے اور لوگوں سے اشارہ کے ساتھ کہا کہ صبح و شام اللہ کو یاد کرو اور اس کی عبادت و اطاعت میں مشغول رہو۔ حضرت زکریا کا غالباً یہ معمول تھا کہ وہ روزانہ لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔ جب زبان بولنے سے رک گئی تب بھی آپ مقام اجتماع پر آئے اور لوگوں کو نصیحت کی۔ البتہ چونکہ زبان چل نہیں رہی تھی ،آپ نے اشارہ کے ساتھ لوگوں کو تلقین فرمائی۔

فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا

📘 پہلے انسان کا باپ اور ماں کے بغیر پیدا ہونا جس طرح ایک خدائی معجزہ ہے اسی طرح باپ اور ماں کے ذریعہ بچہ کا پیدا ہونا بھی ایک خدائی معجزہ ہے ۔ خواہ یہ ماں باپ بوڑھے ہوں یا جوان۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خدا ہے جو انسان کو پیدا کرتا ہے ۔اسی نے پہلے پیدا کیا اور وہی آج بھی پیدا کرنے والا ہے۔ دوسری ہر چیز محض ایک ظاہری بہانہ ہے،نہ کہ حقیقی وجہ ۔ حضرت زکریا نے رحمتِ خداوندی کے ملنے کی علامت دریافت کی۔ بتایا گیا کہ تندرست ہونے کے باوجود جب کامل تین رات دن تک لوگوں سے زبان کے ذریعہ بات نہ کرسکو، اس وقت سمجھ لینا کہ حمل قرار پاگیاہے۔ چنانچہ جب وہ وقت آیا تو زبان بات چیت سے رک گئی۔ حضرت زکریا اپنے عبادت خانے سے باہر نکلے اور لوگوں سے اشارہ کے ساتھ کہا کہ صبح و شام اللہ کو یاد کرو اور اس کی عبادت و اطاعت میں مشغول رہو۔ حضرت زکریا کا غالباً یہ معمول تھا کہ وہ روزانہ لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔ جب زبان بولنے سے رک گئی تب بھی آپ مقام اجتماع پر آئے اور لوگوں کو نصیحت کی۔ البتہ چونکہ زبان چل نہیں رہی تھی ،آپ نے اشارہ کے ساتھ لوگوں کو تلقین فرمائی۔

يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا

📘 کہا جاتا ہےکہ حضرت یحییٰ جب چھوٹے تھے تو لڑکوں نے ایک بار انھیں کھیلنے کے ليے بلایا۔ انھوںنے انکار کردیا اور کہاکہ’’ ہم اس ليے نہیں بنائے گئے ہیں‘‘۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو بچپن سے یہ شعور حاصل تھا کہ زندگی کو بامقصد ہونا چاہيے۔ اسی طرح ان کے اندر پیدائشی طورپر سوز و گداز موجود تھا۔ وہ نفسیاتی گرہوں سے آزاد تھے۔ وہ اپنے والدین کے حقوق ادا کرنے والے تھے ۔ وہ سرکشی اور نافرمانی سے بالکل خالی تھے۔ یہی وہ اوصاف ہیں جو آدمی کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ کسی حال میں خدا کی کتاب سے نہ ہٹے۔ اور انہیں اوصاف والا آدمی وہ ہے جس پر دنیا میں بھی خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اور آخرت میں بھی خدا کی رحمت۔

وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا

📘 کہا جاتا ہےکہ حضرت یحییٰ جب چھوٹے تھے تو لڑکوں نے ایک بار انھیں کھیلنے کے ليے بلایا۔ انھوںنے انکار کردیا اور کہاکہ’’ ہم اس ليے نہیں بنائے گئے ہیں‘‘۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو بچپن سے یہ شعور حاصل تھا کہ زندگی کو بامقصد ہونا چاہيے۔ اسی طرح ان کے اندر پیدائشی طورپر سوز و گداز موجود تھا۔ وہ نفسیاتی گرہوں سے آزاد تھے۔ وہ اپنے والدین کے حقوق ادا کرنے والے تھے ۔ وہ سرکشی اور نافرمانی سے بالکل خالی تھے۔ یہی وہ اوصاف ہیں جو آدمی کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ کسی حال میں خدا کی کتاب سے نہ ہٹے۔ اور انہیں اوصاف والا آدمی وہ ہے جس پر دنیا میں بھی خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اور آخرت میں بھی خدا کی رحمت۔

وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا

📘 کہا جاتا ہےکہ حضرت یحییٰ جب چھوٹے تھے تو لڑکوں نے ایک بار انھیں کھیلنے کے ليے بلایا۔ انھوںنے انکار کردیا اور کہاکہ’’ ہم اس ليے نہیں بنائے گئے ہیں‘‘۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو بچپن سے یہ شعور حاصل تھا کہ زندگی کو بامقصد ہونا چاہيے۔ اسی طرح ان کے اندر پیدائشی طورپر سوز و گداز موجود تھا۔ وہ نفسیاتی گرہوں سے آزاد تھے۔ وہ اپنے والدین کے حقوق ادا کرنے والے تھے ۔ وہ سرکشی اور نافرمانی سے بالکل خالی تھے۔ یہی وہ اوصاف ہیں جو آدمی کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ کسی حال میں خدا کی کتاب سے نہ ہٹے۔ اور انہیں اوصاف والا آدمی وہ ہے جس پر دنیا میں بھی خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اور آخرت میں بھی خدا کی رحمت۔

وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا

📘 کہا جاتا ہےکہ حضرت یحییٰ جب چھوٹے تھے تو لڑکوں نے ایک بار انھیں کھیلنے کے ليے بلایا۔ انھوںنے انکار کردیا اور کہاکہ’’ ہم اس ليے نہیں بنائے گئے ہیں‘‘۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو بچپن سے یہ شعور حاصل تھا کہ زندگی کو بامقصد ہونا چاہيے۔ اسی طرح ان کے اندر پیدائشی طورپر سوز و گداز موجود تھا۔ وہ نفسیاتی گرہوں سے آزاد تھے۔ وہ اپنے والدین کے حقوق ادا کرنے والے تھے ۔ وہ سرکشی اور نافرمانی سے بالکل خالی تھے۔ یہی وہ اوصاف ہیں جو آدمی کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ کسی حال میں خدا کی کتاب سے نہ ہٹے۔ اور انہیں اوصاف والا آدمی وہ ہے جس پر دنیا میں بھی خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اور آخرت میں بھی خدا کی رحمت۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا

📘 حضرت مریم اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ہیکل (بیت المقدس) کی خدمت کے لیے دے دی گئی تھیں۔ قدیم ہیکل کا مشرقی حصہ عورتوں کے لیے خاص تھا۔ وہ اس حصہ میں ایک طرف پردہ ڈال کر معتکف ہوگئیں۔ اس کے بعد اچانک ایک روز ایسا ہوا کہ انھوں نے دیکھا کہ ایک تندرست وتوانا آدمی ان کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ اس منظر سے ان کا گھبرا اٹھنا بالکل فطری تھا۔ مگر آدمی نے بتایا کہ وہ فرشتہ ہے۔ اور خدا کی طرف سے اس لیے آیا ہے کہ حضرت مریم کو معجزاتی طورپر ایک بچہ عطا کرے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا اس طرح معجزاتی طورپر پیدا ہونا خدا کی ایک عظیم نشانی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہود آپ کے فرستادۂ خدا ہونے پر شک نہ کریں اور آپ خدا کی طرف سے جو باتیں بتائیں ان کو مان لیں۔ مگر اتنی کھلی ہوئی نشانی کے باوجود انھو ںنے حضرت مسیح کا انکار کردیا۔

فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا

📘 حضرت مریم اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ہیکل (بیت المقدس) کی خدمت کے لیے دے دی گئی تھیں۔ قدیم ہیکل کا مشرقی حصہ عورتوں کے لیے خاص تھا۔ وہ اس حصہ میں ایک طرف پردہ ڈال کر معتکف ہوگئیں۔ اس کے بعد اچانک ایک روز ایسا ہوا کہ انھوں نے دیکھا کہ ایک تندرست وتوانا آدمی ان کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ اس منظر سے ان کا گھبرا اٹھنا بالکل فطری تھا۔ مگر آدمی نے بتایا کہ وہ فرشتہ ہے۔ اور خدا کی طرف سے اس لیے آیا ہے کہ حضرت مریم کو معجزاتی طورپر ایک بچہ عطا کرے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا اس طرح معجزاتی طورپر پیدا ہونا خدا کی ایک عظیم نشانی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہود آپ کے فرستادۂ خدا ہونے پر شک نہ کریں اور آپ خدا کی طرف سے جو باتیں بتائیں ان کو مان لیں۔ مگر اتنی کھلی ہوئی نشانی کے باوجود انھو ںنے حضرت مسیح کا انکار کردیا۔

قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَٰنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِيًّا

📘 حضرت مریم اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ہیکل (بیت المقدس) کی خدمت کے لیے دے دی گئی تھیں۔ قدیم ہیکل کا مشرقی حصہ عورتوں کے لیے خاص تھا۔ وہ اس حصہ میں ایک طرف پردہ ڈال کر معتکف ہوگئیں۔ اس کے بعد اچانک ایک روز ایسا ہوا کہ انھوں نے دیکھا کہ ایک تندرست وتوانا آدمی ان کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ اس منظر سے ان کا گھبرا اٹھنا بالکل فطری تھا۔ مگر آدمی نے بتایا کہ وہ فرشتہ ہے۔ اور خدا کی طرف سے اس لیے آیا ہے کہ حضرت مریم کو معجزاتی طورپر ایک بچہ عطا کرے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا اس طرح معجزاتی طورپر پیدا ہونا خدا کی ایک عظیم نشانی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہود آپ کے فرستادۂ خدا ہونے پر شک نہ کریں اور آپ خدا کی طرف سے جو باتیں بتائیں ان کو مان لیں۔ مگر اتنی کھلی ہوئی نشانی کے باوجود انھو ںنے حضرت مسیح کا انکار کردیا۔

قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا

📘 حضرت مریم اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ہیکل (بیت المقدس) کی خدمت کے لیے دے دی گئی تھیں۔ قدیم ہیکل کا مشرقی حصہ عورتوں کے لیے خاص تھا۔ وہ اس حصہ میں ایک طرف پردہ ڈال کر معتکف ہوگئیں۔ اس کے بعد اچانک ایک روز ایسا ہوا کہ انھوں نے دیکھا کہ ایک تندرست وتوانا آدمی ان کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ اس منظر سے ان کا گھبرا اٹھنا بالکل فطری تھا۔ مگر آدمی نے بتایا کہ وہ فرشتہ ہے۔ اور خدا کی طرف سے اس لیے آیا ہے کہ حضرت مریم کو معجزاتی طورپر ایک بچہ عطا کرے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا اس طرح معجزاتی طورپر پیدا ہونا خدا کی ایک عظیم نشانی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہود آپ کے فرستادۂ خدا ہونے پر شک نہ کریں اور آپ خدا کی طرف سے جو باتیں بتائیں ان کو مان لیں۔ مگر اتنی کھلی ہوئی نشانی کے باوجود انھو ںنے حضرت مسیح کا انکار کردیا۔

ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا

📘 حضرت زکریا حضرت مریم کے بہنوئی تھے۔ حضرت مریم کے والد کا نام عمران تھا۔ حضرت مریم ابھی صرف چند سال کی تھیں کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ وہ ہیکل کے ناظم اعلی تھے۔ ان کے بعد حضرت زکریا ہیکل کے ناظم اعلیٰ (کاہنوں کے سردار) مقرر ہوئے۔ اس زمانہ میں حضرت مریم اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ہیکل کی خدمت میں دے دی گئی تھیں۔ حضرت زکریا چوں کہ حضرت مریم کے قریبی عزیز تھے اور ہیکل کے سردار بھی اس لیے وہی حضرت مریم کی تربیت کے ذمہ دار قرار پائے۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے ’’چھپی آواز‘‘ میں خدا سے دعا کی۔ یہ دعا حیرت انگیز طورپر پوری ہوئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سچی دعا کیا ہے۔ سچی دعا دراصل اس یقین کا بے تابانہ اظہار ہے کہ سارا اختیار صرف خدا کے پاس ہے۔ اسی کے دینے سے آدمی کو ملے گا اور وہ نہ دے تو کبھی کسی کو کچھ نہیں مل سکتا۔ سچی دعا کا سارا رخ صرف ایک خدا کی طرف ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ سچی دعا سب سے زیادہ اس وقت ابلتی ہے جب کہ آدمی تنہائی میں ہو۔ جہاںاس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسرا نہ پایا جائے۔

قَالَتْ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا

📘 حضرت مریم اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ہیکل (بیت المقدس) کی خدمت کے لیے دے دی گئی تھیں۔ قدیم ہیکل کا مشرقی حصہ عورتوں کے لیے خاص تھا۔ وہ اس حصہ میں ایک طرف پردہ ڈال کر معتکف ہوگئیں۔ اس کے بعد اچانک ایک روز ایسا ہوا کہ انھوں نے دیکھا کہ ایک تندرست وتوانا آدمی ان کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ اس منظر سے ان کا گھبرا اٹھنا بالکل فطری تھا۔ مگر آدمی نے بتایا کہ وہ فرشتہ ہے۔ اور خدا کی طرف سے اس لیے آیا ہے کہ حضرت مریم کو معجزاتی طورپر ایک بچہ عطا کرے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا اس طرح معجزاتی طورپر پیدا ہونا خدا کی ایک عظیم نشانی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہود آپ کے فرستادۂ خدا ہونے پر شک نہ کریں اور آپ خدا کی طرف سے جو باتیں بتائیں ان کو مان لیں۔ مگر اتنی کھلی ہوئی نشانی کے باوجود انھو ںنے حضرت مسیح کا انکار کردیا۔

قَالَ كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ ۖ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا ۚ وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا

📘 حضرت مریم اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ہیکل (بیت المقدس) کی خدمت کے لیے دے دی گئی تھیں۔ قدیم ہیکل کا مشرقی حصہ عورتوں کے لیے خاص تھا۔ وہ اس حصہ میں ایک طرف پردہ ڈال کر معتکف ہوگئیں۔ اس کے بعد اچانک ایک روز ایسا ہوا کہ انھوں نے دیکھا کہ ایک تندرست وتوانا آدمی ان کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ اس منظر سے ان کا گھبرا اٹھنا بالکل فطری تھا۔ مگر آدمی نے بتایا کہ وہ فرشتہ ہے۔ اور خدا کی طرف سے اس لیے آیا ہے کہ حضرت مریم کو معجزاتی طورپر ایک بچہ عطا کرے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا اس طرح معجزاتی طورپر پیدا ہونا خدا کی ایک عظیم نشانی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہود آپ کے فرستادۂ خدا ہونے پر شک نہ کریں اور آپ خدا کی طرف سے جو باتیں بتائیں ان کو مان لیں۔ مگر اتنی کھلی ہوئی نشانی کے باوجود انھو ںنے حضرت مسیح کا انکار کردیا۔

۞ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا

📘 حضرت مریم ایک معزز مذہبی گھرانے کی غیر شادی شدہ خاتون تھیں۔ ایسی ایک خاتون کا حاملہ ہونا اس کے لیے ایک ایسی آزمائش ہے جس سے بڑی کوئی آزمائش نہیں۔ اس پریشانی میں مبتلا ہونے کے بعد وہ خاموشی کے ساتھ ہیکل سے نکلیں اور دور کے ایک مقام ( بیت لحم ) چلی گئیں۔ جب وقت پورا ہوا اور درد زہ کی کیفیت پیدا ہوئی تو وہ بستی سے باہر ایک کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھ گئیں۔ایک

فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا

📘 حضرت مریم ایک معزز مذہبی گھرانے کی غیر شادی شدہ خاتون تھیں۔ ایسی ایک خاتون کا حاملہ ہونا اس کے لیے ایک ایسی آزمائش ہے جس سے بڑی کوئی آزمائش نہیں۔ اس پریشانی میں مبتلا ہونے کے بعد وہ خاموشی کے ساتھ ہیکل سے نکلیں اور دور کے ایک مقام ( بیت لحم ) چلی گئیں۔ جب وقت پورا ہوا اور درد زہ کی کیفیت پیدا ہوئی تو وہ بستی سے باہر ایک کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھ گئیں۔ایک

فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا

📘 پاک با ز غیر شادی شدہ خاتون پر ایسے وقت میں جو کیفیت گزرے گی اس کی تصویر ان الفاظ میں ملتی ہے۔ کاش میں اس سے پہلے ختم ہو جاتی اورلوگوں کے حافظے میں میرا کوئی وجود نہ ہوتا۔

وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا

📘 اتنی نازک آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد حضرت مریم کے لیے تسکین کا صرف ایک ہی ذریعہ ہوسکتا تھا۔ وہ یہ کہ خدا کا فرشتہ ظاہر ہو کر انھیں یقین دلائے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ عین اس وقت فرشتے نے آکر آواز دی کہ گھبراؤ مت۔ یہ سب جو ہورہا ہے یہ خدا کے منصوبہ کے تحت ہو رہا ہے۔ تمھارے قریب صاف پانی کا چشمہ رواں کردیاگیا ہے۔ اور کھجور کا یہ درخت تم کو ہر وقت تازہ پھل مہیا کرے گا۔ اس سے کھاؤ اور پیو۔ بچہ کے سلسلہ میں فرشتہ نے یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ خدا کے معجزہ سے پیدا ہونے والا یہ خود تمھارے دفاع کے لیے کافی ہے۔ تم بنی اسرائیل کے رواج کے مطابق چپ کا روزہ رکھ لو۔ اور جب کسی آدمی سے تمھارا سامنا ہو اور وہ تم سے پوچھے تو تم بچے کی طرف اشارہ کردو۔ وہ خود جواب دے کر تم کو بری الذمہ کردے گا۔

فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا ۖ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا

📘 اتنی نازک آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد حضرت مریم کے لیے تسکین کا صرف ایک ہی ذریعہ ہوسکتا تھا۔ وہ یہ کہ خدا کا فرشتہ ظاہر ہو کر انھیں یقین دلائے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ عین اس وقت فرشتے نے آکر آواز دی کہ گھبراؤ مت۔ یہ سب جو ہورہا ہے یہ خدا کے منصوبہ کے تحت ہو رہا ہے۔ تمھارے قریب صاف پانی کا چشمہ رواں کردیاگیا ہے۔ اور کھجور کا یہ درخت تم کو ہر وقت تازہ پھل مہیا کرے گا۔ اس سے کھاؤ اور پیو۔ بچہ کے سلسلہ میں فرشتہ نے یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ خدا کے معجزہ سے پیدا ہونے والا یہ خود تمھارے دفاع کے لیے کافی ہے۔ تم بنی اسرائیل کے رواج کے مطابق چپ کا روزہ رکھ لو۔ اور جب کسی آدمی سے تمھارا سامنا ہو اور وہ تم سے پوچھے تو تم بچے کی طرف اشارہ کردو۔ وہ خود جواب دے کر تم کو بری الذمہ کردے گا۔

فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا

📘 فرشتے کی بات سننے کے بعد حضرت مریم کے اندر اعتماد پیدا ہوگیا۔ وہ بچہ کو لے کر اپنے خاندان والوں میں واپس آئیں۔ ان کو اس حال میں دیکھ کر یہود کے تمام لوگ انھیں ملامت کرنے لگے۔ حضرت مریم نے وہی کیا جو فرشتہ نے انھیں بتایا تھا۔ انھوںنے خود خاموش رہتے ہوئے بچہ کی طرف اشارہ کردیا۔ مطلب یہ تھاکہ یہ لڑکا کوئی عام قسم کا لڑکا نہیں ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ تم اس سے کلام کرو، وہ گود کا بچہ ہونے کے باوجود تمھارے کلام کو سمجھے گا اور صاف زبان میں تمھارا جواب دے گا۔

يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا

📘 فرشتے کی بات سننے کے بعد حضرت مریم کے اندر اعتماد پیدا ہوگیا۔ وہ بچہ کو لے کر اپنے خاندان والوں میں واپس آئیں۔ ان کو اس حال میں دیکھ کر یہود کے تمام لوگ انھیں ملامت کرنے لگے۔ حضرت مریم نے وہی کیا جو فرشتہ نے انھیں بتایا تھا۔ انھوںنے خود خاموش رہتے ہوئے بچہ کی طرف اشارہ کردیا۔ مطلب یہ تھاکہ یہ لڑکا کوئی عام قسم کا لڑکا نہیں ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ تم اس سے کلام کرو، وہ گود کا بچہ ہونے کے باوجود تمھارے کلام کو سمجھے گا اور صاف زبان میں تمھارا جواب دے گا۔

فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ ۖ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا

📘 حضرت مریم کے اشارہ کے باوجود یہود کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ایک چھوٹے بچہ سے کس طرح بات کریں۔ اس وقت حضرت مسیح خود بول پڑے۔ ان کی معجزانہ گفتگو میں ایک طرف حضرت مریم کی کامل برأت تھی۔ دوسری طرف یہ ایک پیشگی شہادت تھی۔ تاکہ یہ نومولود جب بڑا ہو کر نبوت کا اعلان کرے تو لوگوں کے لیے آپ کی نبوت پر شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔

إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا

📘 حضرت زکریا حضرت مریم کے بہنوئی تھے۔ حضرت مریم کے والد کا نام عمران تھا۔ حضرت مریم ابھی صرف چند سال کی تھیں کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ وہ ہیکل کے ناظم اعلی تھے۔ ان کے بعد حضرت زکریا ہیکل کے ناظم اعلیٰ (کاہنوں کے سردار) مقرر ہوئے۔ اس زمانہ میں حضرت مریم اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ہیکل کی خدمت میں دے دی گئی تھیں۔ حضرت زکریا چوں کہ حضرت مریم کے قریبی عزیز تھے اور ہیکل کے سردار بھی اس لیے وہی حضرت مریم کی تربیت کے ذمہ دار قرار پائے۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے ’’چھپی آواز‘‘ میں خدا سے دعا کی۔ یہ دعا حیرت انگیز طورپر پوری ہوئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سچی دعا کیا ہے۔ سچی دعا دراصل اس یقین کا بے تابانہ اظہار ہے کہ سارا اختیار صرف خدا کے پاس ہے۔ اسی کے دینے سے آدمی کو ملے گا اور وہ نہ دے تو کبھی کسی کو کچھ نہیں مل سکتا۔ سچی دعا کا سارا رخ صرف ایک خدا کی طرف ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ سچی دعا سب سے زیادہ اس وقت ابلتی ہے جب کہ آدمی تنہائی میں ہو۔ جہاںاس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسرا نہ پایا جائے۔

قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا

📘 حضرت مریم کے اشارہ کے باوجود یہود کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ایک چھوٹے بچہ سے کس طرح بات کریں۔ اس وقت حضرت مسیح خود بول پڑے۔ ان کی معجزانہ گفتگو میں ایک طرف حضرت مریم کی کامل برأت تھی۔ دوسری طرف یہ ایک پیشگی شہادت تھی۔ تاکہ یہ نومولود جب بڑا ہو کر نبوت کا اعلان کرے تو لوگوں کے لیے آپ کی نبوت پر شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔

وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا

📘 حضرت مریم کے اشارہ کے باوجود یہود کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ایک چھوٹے بچہ سے کس طرح بات کریں۔ اس وقت حضرت مسیح خود بول پڑے۔ ان کی معجزانہ گفتگو میں ایک طرف حضرت مریم کی کامل برأت تھی۔ دوسری طرف یہ ایک پیشگی شہادت تھی۔ تاکہ یہ نومولود جب بڑا ہو کر نبوت کا اعلان کرے تو لوگوں کے لیے آپ کی نبوت پر شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔

وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا

📘 حضرت مریم کے اشارہ کے باوجود یہود کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ایک چھوٹے بچہ سے کس طرح بات کریں۔ اس وقت حضرت مسیح خود بول پڑے۔ ان کی معجزانہ گفتگو میں ایک طرف حضرت مریم کی کامل برأت تھی۔ دوسری طرف یہ ایک پیشگی شہادت تھی۔ تاکہ یہ نومولود جب بڑا ہو کر نبوت کا اعلان کرے تو لوگوں کے لیے آپ کی نبوت پر شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔

وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا

📘 حضرت مریم کے اشارہ کے باوجود یہود کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ایک چھوٹے بچہ سے کس طرح بات کریں۔ اس وقت حضرت مسیح خود بول پڑے۔ ان کی معجزانہ گفتگو میں ایک طرف حضرت مریم کی کامل برأت تھی۔ دوسری طرف یہ ایک پیشگی شہادت تھی۔ تاکہ یہ نومولود جب بڑا ہو کر نبوت کا اعلان کرے تو لوگوں کے لیے آپ کی نبوت پر شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔

ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ

📘 حضرت مسیح کی غیر معمولی پیدائش ایک انوکھا واقعہ تھا۔ اس انوکھے واقعہ کی توجیہہ میں مسیحی علماء نے عجیب عجیب عقیدے بنا لیے۔ مگر ہمیشہ توجیہہ کی ایک حد ہوتی ہے۔ اور اس حد کے اندر رہ کر ہی کسی چیز کی توجیہہ کی جاسکتی ہے۔ حضرت مسیح کی غیر معمولی پیدائش کی توجیہہ میں ان کو خدا کا بیٹا بنا دینا حد سے باہر جانا ہے۔ کیوں کہ یہ خدا کی یکتائی کے منافی ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ نیز یہ کہ کائنات میں بے شمار انوکھے واقعات ہیں جن کو ہم روزانہ دیکھتے ہیں۔ اس دنیا کی ہر چیز ایک انوکھا واقعہ ہے۔ اب اگر مزید ایک انوکھی چیز سامنے آئے تو انسان کو یہ کہنا چاہيے کہ خدا نے جس طرح دوسری بے شمار انوکھی چیزیں پیدا کی ہیں اسی طرح وہ اس انوکھی چیز کا بھی خالق ہے جو آج ہمارے سامنے ظاہر ہوئی ہے۔

مَا كَانَ لِلَّهِ أَنْ يَتَّخِذَ مِنْ وَلَدٍ ۖ سُبْحَانَهُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

📘 حضرت مسیح کی غیر معمولی پیدائش ایک انوکھا واقعہ تھا۔ اس انوکھے واقعہ کی توجیہہ میں مسیحی علماء نے عجیب عجیب عقیدے بنا لیے۔ مگر ہمیشہ توجیہہ کی ایک حد ہوتی ہے۔ اور اس حد کے اندر رہ کر ہی کسی چیز کی توجیہہ کی جاسکتی ہے۔ حضرت مسیح کی غیر معمولی پیدائش کی توجیہہ میں ان کو خدا کا بیٹا بنا دینا حد سے باہر جانا ہے۔ کیوں کہ یہ خدا کی یکتائی کے منافی ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ نیز یہ کہ کائنات میں بے شمار انوکھے واقعات ہیں جن کو ہم روزانہ دیکھتے ہیں۔ اس دنیا کی ہر چیز ایک انوکھا واقعہ ہے۔ اب اگر مزید ایک انوکھی چیز سامنے آئے تو انسان کو یہ کہنا چاہيے کہ خدا نے جس طرح دوسری بے شمار انوکھی چیزیں پیدا کی ہیں اسی طرح وہ اس انوکھی چیز کا بھی خالق ہے جو آج ہمارے سامنے ظاہر ہوئی ہے۔

وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ

📘 حضرت مسیح اور دوسرے تمام پیغمبروں نے ایک ہی صراطِ مستقیم کی طرف لوگوں کو بلایا۔ وہ یہ کہ آدمی خدا کو اپنا رب بنائے اور اسی کي عبادت کرے۔ مگر ہمیشہ یہ ہوا کہ خود ساختہ تاویلات وتشریحات کے ذریعہ اس صراطِ مستقیم سے انحراف کیاگیا۔ کسی نے ایک بات نکالی اور کسی نے دوسری بات۔ اس طرح اختلاف پیداہوا اور ایک دین کئی دینوں میں تقسیم ہوگیا۔ دنیا میں حق بات پوری طرح واضح ہے مگر یہاں انسان کو امتحان کی وجہ سے آزادی حاصل ہے۔ وہ چاہے تو مانے اور چاہے تو نہ مانے۔اس وقتی آزادی کی وجہ سے انسان غلط فہمی میں پڑجاتا ہے۔ اور سرکشی کرنے لگتا ہے۔ اس کو دلائل کے ذریعہ بتایا جاتا ہے کہ خدا کی صراط مستقیم کیا ہے۔ مگر وہ اس کو نہیں مانتا۔ لیکن آخرت میں جب آزادی چھن چکی ہوگی، انسان کی وہی آنکھیں اور وہی کان خوب دیکھنے اور سننے والے بن جائیں گے۔ جو آج ایسے معلوم ہوتے ہیں گویا کہ وہ دیکھنا اور سننا جانتے ہی نہ ہوں۔

فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِنْ بَيْنِهِمْ ۖ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ مَشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ

📘 حضرت مسیح اور دوسرے تمام پیغمبروں نے ایک ہی صراطِ مستقیم کی طرف لوگوں کو بلایا۔ وہ یہ کہ آدمی خدا کو اپنا رب بنائے اور اسی کي عبادت کرے۔ مگر ہمیشہ یہ ہوا کہ خود ساختہ تاویلات وتشریحات کے ذریعہ اس صراطِ مستقیم سے انحراف کیاگیا۔ کسی نے ایک بات نکالی اور کسی نے دوسری بات۔ اس طرح اختلاف پیداہوا اور ایک دین کئی دینوں میں تقسیم ہوگیا۔ دنیا میں حق بات پوری طرح واضح ہے مگر یہاں انسان کو امتحان کی وجہ سے آزادی حاصل ہے۔ وہ چاہے تو مانے اور چاہے تو نہ مانے۔اس وقتی آزادی کی وجہ سے انسان غلط فہمی میں پڑجاتا ہے۔ اور سرکشی کرنے لگتا ہے۔ اس کو دلائل کے ذریعہ بتایا جاتا ہے کہ خدا کی صراط مستقیم کیا ہے۔ مگر وہ اس کو نہیں مانتا۔ لیکن آخرت میں جب آزادی چھن چکی ہوگی، انسان کی وہی آنکھیں اور وہی کان خوب دیکھنے اور سننے والے بن جائیں گے۔ جو آج ایسے معلوم ہوتے ہیں گویا کہ وہ دیکھنا اور سننا جانتے ہی نہ ہوں۔

أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا ۖ لَٰكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 حضرت مسیح اور دوسرے تمام پیغمبروں نے ایک ہی صراطِ مستقیم کی طرف لوگوں کو بلایا۔ وہ یہ کہ آدمی خدا کو اپنا رب بنائے اور اسی کي عبادت کرے۔ مگر ہمیشہ یہ ہوا کہ خود ساختہ تاویلات وتشریحات کے ذریعہ اس صراطِ مستقیم سے انحراف کیاگیا۔ کسی نے ایک بات نکالی اور کسی نے دوسری بات۔ اس طرح اختلاف پیداہوا اور ایک دین کئی دینوں میں تقسیم ہوگیا۔ دنیا میں حق بات پوری طرح واضح ہے مگر یہاں انسان کو امتحان کی وجہ سے آزادی حاصل ہے۔ وہ چاہے تو مانے اور چاہے تو نہ مانے۔اس وقتی آزادی کی وجہ سے انسان غلط فہمی میں پڑجاتا ہے۔ اور سرکشی کرنے لگتا ہے۔ اس کو دلائل کے ذریعہ بتایا جاتا ہے کہ خدا کی صراط مستقیم کیا ہے۔ مگر وہ اس کو نہیں مانتا۔ لیکن آخرت میں جب آزادی چھن چکی ہوگی، انسان کی وہی آنکھیں اور وہی کان خوب دیکھنے اور سننے والے بن جائیں گے۔ جو آج ایسے معلوم ہوتے ہیں گویا کہ وہ دیکھنا اور سننا جانتے ہی نہ ہوں۔

وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 آدمی دنیا میں ناکامی سے دوچار ہوتا ہے تو اس کو موقع ہوتاہے کہ وہ دوبارہ نئی زندگی شروع کرسکے۔ اس کے پاس ساتھی اور مدد گار ہوتے ہیں جو اس کو سنبھالنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مگر آخرت کی ناکامی ایسی ناکامی ہے جس کے بعد دوبارہ سنبھلنے کاکوئی امکان نہیں۔ کیسا عجیب حسرت کا لمحہ ہوگا جب آدمی یہ جانے گا کہ وہ سب کچھ کرسکتا تھا مگر اس نے نہیں کیا۔ یہاں تک کہ کرنے کا وقت ہی ختم ہوگیا۔ ساری خرابیوں کی جڑ یہ ہے کہ آدمی یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اپنا مالک آپ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک درمیانی وقفہ ہے۔ پہلے بھی صرف خدا تمام چیزوں کا مالک تھا اور آخر میں بھی یہ صرف خدا ہے جو تمام چیزوں کا مالک ہوگا۔ خداکے سوا کوئی نہیں جس کو یہاں حقیقی معنوں میں کوئی مالکانہ حیثیت حاصل ہو۔

قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا

📘 یہ اس بندہ کی زبان سے نکلی ہوئی دعا ہے جو دین کا مشن چلاتے ہوئے بالکل بوڑھا ہوگیا تھا۔ اور اہل خاندان میں کوئی شخص اس کو نظر نہیں آتا تھا جو اس کے بعد اس کے مشن کو جاری رکھے۔ ایک طرف اپنا عجزاور دوسری طرف مشن کی اہمیت۔ یہ دونوں احساسات اس کی زبان پر اس دعا کی صورت میں ڈھل گئے جو مذکورہ آیات میں نظر آتے ہیں۔ گویا یہ عام معنوں میں محض ایک بیٹے کی دعا نہ تھی۔ بلکہ اس بات کی دعا تھی کہ مجھے ایک ایسا لائق شخص حاصل ہوجائے جو میرے بعد میرے پیغمبرانہ مشن کو جاری رکھے۔

إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ

📘 آدمی دنیا میں ناکامی سے دوچار ہوتا ہے تو اس کو موقع ہوتاہے کہ وہ دوبارہ نئی زندگی شروع کرسکے۔ اس کے پاس ساتھی اور مدد گار ہوتے ہیں جو اس کو سنبھالنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مگر آخرت کی ناکامی ایسی ناکامی ہے جس کے بعد دوبارہ سنبھلنے کاکوئی امکان نہیں۔ کیسا عجیب حسرت کا لمحہ ہوگا جب آدمی یہ جانے گا کہ وہ سب کچھ کرسکتا تھا مگر اس نے نہیں کیا۔ یہاں تک کہ کرنے کا وقت ہی ختم ہوگیا۔ ساری خرابیوں کی جڑ یہ ہے کہ آدمی یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اپنا مالک آپ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک درمیانی وقفہ ہے۔ پہلے بھی صرف خدا تمام چیزوں کا مالک تھا اور آخر میں بھی یہ صرف خدا ہے جو تمام چیزوں کا مالک ہوگا۔ خداکے سوا کوئی نہیں جس کو یہاں حقیقی معنوں میں کوئی مالکانہ حیثیت حاصل ہو۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا

📘 حضرت ابراہیم عراق میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد آزر بت پرست تھے۔ آپ کو نبوت ملی تو آپ نے اپنے والد کو نصیحت کی کہ بتوں کی عبادت چھوڑ دو اور خدا کی عبادت کرو۔ ورنہ تم خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے۔ شیطان کی عبادت کا مطلب خود شیطان کی عبادت نہیں ہے بلکہ شیطان کی بتائی ہوئی چیز کی عبادت ہے۔ انسان کے اندر فطری طورپر یہ جذبہ رکھاگیا ہے کہ وہ کسی کو اونچا درجہ دے کر اس کے آگے اپنے جذباتِ عقیدت کو نثار کرے۔اس جذبہ کا حقیقی مرکز خدا ہے۔ مگر شیطان مختلف طریقہ سے لوگوں کے ذہن کو پھیرتاہے تاکہ وہ انسان کو مشرک بنادے، تاکہ انسان غیر خدا کو وہ چیز دے دے جو اس کو صرف خدا کو دینا چاہیے۔

إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا

📘 حضرت ابراہیم عراق میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد آزر بت پرست تھے۔ آپ کو نبوت ملی تو آپ نے اپنے والد کو نصیحت کی کہ بتوں کی عبادت چھوڑ دو اور خدا کی عبادت کرو۔ ورنہ تم خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے۔ شیطان کی عبادت کا مطلب خود شیطان کی عبادت نہیں ہے بلکہ شیطان کی بتائی ہوئی چیز کی عبادت ہے۔ انسان کے اندر فطری طورپر یہ جذبہ رکھاگیا ہے کہ وہ کسی کو اونچا درجہ دے کر اس کے آگے اپنے جذباتِ عقیدت کو نثار کرے۔اس جذبہ کا حقیقی مرکز خدا ہے۔ مگر شیطان مختلف طریقہ سے لوگوں کے ذہن کو پھیرتاہے تاکہ وہ انسان کو مشرک بنادے، تاکہ انسان غیر خدا کو وہ چیز دے دے جو اس کو صرف خدا کو دینا چاہیے۔

يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا

📘 حضرت ابراہیم عراق میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد آزر بت پرست تھے۔ آپ کو نبوت ملی تو آپ نے اپنے والد کو نصیحت کی کہ بتوں کی عبادت چھوڑ دو اور خدا کی عبادت کرو۔ ورنہ تم خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے۔ شیطان کی عبادت کا مطلب خود شیطان کی عبادت نہیں ہے بلکہ شیطان کی بتائی ہوئی چیز کی عبادت ہے۔ انسان کے اندر فطری طورپر یہ جذبہ رکھاگیا ہے کہ وہ کسی کو اونچا درجہ دے کر اس کے آگے اپنے جذباتِ عقیدت کو نثار کرے۔اس جذبہ کا حقیقی مرکز خدا ہے۔ مگر شیطان مختلف طریقہ سے لوگوں کے ذہن کو پھیرتاہے تاکہ وہ انسان کو مشرک بنادے، تاکہ انسان غیر خدا کو وہ چیز دے دے جو اس کو صرف خدا کو دینا چاہیے۔

يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ عَصِيًّا

📘 حضرت ابراہیم عراق میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد آزر بت پرست تھے۔ آپ کو نبوت ملی تو آپ نے اپنے والد کو نصیحت کی کہ بتوں کی عبادت چھوڑ دو اور خدا کی عبادت کرو۔ ورنہ تم خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے۔ شیطان کی عبادت کا مطلب خود شیطان کی عبادت نہیں ہے بلکہ شیطان کی بتائی ہوئی چیز کی عبادت ہے۔ انسان کے اندر فطری طورپر یہ جذبہ رکھاگیا ہے کہ وہ کسی کو اونچا درجہ دے کر اس کے آگے اپنے جذباتِ عقیدت کو نثار کرے۔اس جذبہ کا حقیقی مرکز خدا ہے۔ مگر شیطان مختلف طریقہ سے لوگوں کے ذہن کو پھیرتاہے تاکہ وہ انسان کو مشرک بنادے، تاکہ انسان غیر خدا کو وہ چیز دے دے جو اس کو صرف خدا کو دینا چاہیے۔

يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِنَ الرَّحْمَٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا

📘 حضرت ابراہیم عراق میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد آزر بت پرست تھے۔ آپ کو نبوت ملی تو آپ نے اپنے والد کو نصیحت کی کہ بتوں کی عبادت چھوڑ دو اور خدا کی عبادت کرو۔ ورنہ تم خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے۔ شیطان کی عبادت کا مطلب خود شیطان کی عبادت نہیں ہے بلکہ شیطان کی بتائی ہوئی چیز کی عبادت ہے۔ انسان کے اندر فطری طورپر یہ جذبہ رکھاگیا ہے کہ وہ کسی کو اونچا درجہ دے کر اس کے آگے اپنے جذباتِ عقیدت کو نثار کرے۔اس جذبہ کا حقیقی مرکز خدا ہے۔ مگر شیطان مختلف طریقہ سے لوگوں کے ذہن کو پھیرتاہے تاکہ وہ انسان کو مشرک بنادے، تاکہ انسان غیر خدا کو وہ چیز دے دے جو اس کو صرف خدا کو دینا چاہیے۔

قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا

📘 حضرت ابراہیم نے جن بتوں پر تنقید کی، وہ سادہ معنوں میں محض پتھر کے ٹکڑے نہ تھے بلکہ وہ ان ہستیوں کے نمائندے تھے جن کی طلسماتی عظمت ماضی کی طویل روایات کے نتیجہ میں لوگوں کے ذہنوں پر قائم ہوچکی تھی۔ اس تقابل میں ’’نوجوان ابراہیم ‘‘ ایک معمولی شخص نظر آئے اور عراق کے بت عظمتوں کے پہاڑ دکھائی دئے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابرہیم کے والدنے حقارت کے ساتھ ان کی نصیحت کو نظر انداز کردیا۔ حق کی دعوت ایک مقام پر شروع کی جائے اور پھر وہ اس مرحلہ میں پہنچ جائے کہ لوگ اس کو اچھی طرح سمجھ چکے ہوں مگر وہ ماننے کے بجائے جارحیت پر اتر آئیں تو اس وقت داعی اپنے مقام عمل کو تبدیل کردیتاہے۔ اسی کا دوسرا نام ہجرت ہے۔ مقام عمل کی یہ تبدیلی کبھی قریب کے دائرہ میں ہوتی ہے اور کبھی دور کے دائرہ میں۔ دعوت کا عمل ایک خدائی عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی شروع ہوتاہے ربانی نفسیات کے ساتھ شروع ہوتاہے ۔ مدعو اگر داعی کے ساتھ ظلم وحقارت کا معاملہ کرے تب بھی داعی کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ موجود رہتاہے۔ اسی طرح داعی اگر اپنے ماحول میں بے یارومددگار ہوجائے تب بھی وہ مایوس نہیں ہوتا کیوں کہ اس کا اصل سہارا خدا ہوتاہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ وہ بدستور اس کے ساتھ موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔

قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا

📘 حضرت ابراہیم نے جن بتوں پر تنقید کی، وہ سادہ معنوں میں محض پتھر کے ٹکڑے نہ تھے بلکہ وہ ان ہستیوں کے نمائندے تھے جن کی طلسماتی عظمت ماضی کی طویل روایات کے نتیجہ میں لوگوں کے ذہنوں پر قائم ہوچکی تھی۔ اس تقابل میں ’’نوجوان ابراہیم ‘‘ ایک معمولی شخص نظر آئے اور عراق کے بت عظمتوں کے پہاڑ دکھائی دئے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابرہیم کے والدنے حقارت کے ساتھ ان کی نصیحت کو نظر انداز کردیا۔ حق کی دعوت ایک مقام پر شروع کی جائے اور پھر وہ اس مرحلہ میں پہنچ جائے کہ لوگ اس کو اچھی طرح سمجھ چکے ہوں مگر وہ ماننے کے بجائے جارحیت پر اتر آئیں تو اس وقت داعی اپنے مقام عمل کو تبدیل کردیتاہے۔ اسی کا دوسرا نام ہجرت ہے۔ مقام عمل کی یہ تبدیلی کبھی قریب کے دائرہ میں ہوتی ہے اور کبھی دور کے دائرہ میں۔ دعوت کا عمل ایک خدائی عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی شروع ہوتاہے ربانی نفسیات کے ساتھ شروع ہوتاہے ۔ مدعو اگر داعی کے ساتھ ظلم وحقارت کا معاملہ کرے تب بھی داعی کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ موجود رہتاہے۔ اسی طرح داعی اگر اپنے ماحول میں بے یارومددگار ہوجائے تب بھی وہ مایوس نہیں ہوتا کیوں کہ اس کا اصل سہارا خدا ہوتاہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ وہ بدستور اس کے ساتھ موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔

وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا

📘 حضرت ابراہیم نے جن بتوں پر تنقید کی، وہ سادہ معنوں میں محض پتھر کے ٹکڑے نہ تھے بلکہ وہ ان ہستیوں کے نمائندے تھے جن کی طلسماتی عظمت ماضی کی طویل روایات کے نتیجہ میں لوگوں کے ذہنوں پر قائم ہوچکی تھی۔ اس تقابل میں ’’نوجوان ابراہیم ‘‘ ایک معمولی شخص نظر آئے اور عراق کے بت عظمتوں کے پہاڑ دکھائی دئے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابرہیم کے والدنے حقارت کے ساتھ ان کی نصیحت کو نظر انداز کردیا۔ حق کی دعوت ایک مقام پر شروع کی جائے اور پھر وہ اس مرحلہ میں پہنچ جائے کہ لوگ اس کو اچھی طرح سمجھ چکے ہوں مگر وہ ماننے کے بجائے جارحیت پر اتر آئیں تو اس وقت داعی اپنے مقام عمل کو تبدیل کردیتاہے۔ اسی کا دوسرا نام ہجرت ہے۔ مقام عمل کی یہ تبدیلی کبھی قریب کے دائرہ میں ہوتی ہے اور کبھی دور کے دائرہ میں۔ دعوت کا عمل ایک خدائی عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی شروع ہوتاہے ربانی نفسیات کے ساتھ شروع ہوتاہے ۔ مدعو اگر داعی کے ساتھ ظلم وحقارت کا معاملہ کرے تب بھی داعی کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ موجود رہتاہے۔ اسی طرح داعی اگر اپنے ماحول میں بے یارومددگار ہوجائے تب بھی وہ مایوس نہیں ہوتا کیوں کہ اس کا اصل سہارا خدا ہوتاہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ وہ بدستور اس کے ساتھ موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔

فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا

📘 آدمی اپنے خاندان اور اپنے گروہ کے ساتھ جیتاہے۔ ایسی حالت میں کسی شخص کو اس کے خاندان اور اس کے گروہ سے نکال دینا گویا اس کو بربادی کے صحرا میں دھکیل دیناہے۔ مگر حضرت ابراہیم کے واقعہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے دکھادیا کہ جو بندہ خالص اللہ کے لیے بے گھر کیاجائے اس کو اللہ اپنی طرف سے زیادہ اچھا گھر عطا کردیتاہے۔ جو شخص خالص اللہ کے لیے گم نامی میں ڈال دیا جائے اس کو اللہ زیادہ بڑے پیمانہ پر نیک نام بنا دیتاہے۔

وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا

📘 یہ اس بندہ کی زبان سے نکلی ہوئی دعا ہے جو دین کا مشن چلاتے ہوئے بالکل بوڑھا ہوگیا تھا۔ اور اہل خاندان میں کوئی شخص اس کو نظر نہیں آتا تھا جو اس کے بعد اس کے مشن کو جاری رکھے۔ ایک طرف اپنا عجزاور دوسری طرف مشن کی اہمیت۔ یہ دونوں احساسات اس کی زبان پر اس دعا کی صورت میں ڈھل گئے جو مذکورہ آیات میں نظر آتے ہیں۔ گویا یہ عام معنوں میں محض ایک بیٹے کی دعا نہ تھی۔ بلکہ اس بات کی دعا تھی کہ مجھے ایک ایسا لائق شخص حاصل ہوجائے جو میرے بعد میرے پیغمبرانہ مشن کو جاری رکھے۔

وَوَهَبْنَا لَهُمْ مِنْ رَحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا

📘 آدمی اپنے خاندان اور اپنے گروہ کے ساتھ جیتاہے۔ ایسی حالت میں کسی شخص کو اس کے خاندان اور اس کے گروہ سے نکال دینا گویا اس کو بربادی کے صحرا میں دھکیل دیناہے۔ مگر حضرت ابراہیم کے واقعہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے دکھادیا کہ جو بندہ خالص اللہ کے لیے بے گھر کیاجائے اس کو اللہ اپنی طرف سے زیادہ اچھا گھر عطا کردیتاہے۔ جو شخص خالص اللہ کے لیے گم نامی میں ڈال دیا جائے اس کو اللہ زیادہ بڑے پیمانہ پر نیک نام بنا دیتاہے۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَىٰ ۚ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا

📘 حضرت موسیٰ مدین سے چل کر مصر جارہے تھے۔ اس سفر میں وہ کوہ طور سے گزرے۔ وہاں خدا نے انھیں پیغمبری عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے پچھلے ہر دور میں اپنے پیغمبر منتخب کيے اور ان کے پاس اپنا کلام بھیجا۔ یہ کلام ہمیشہ جبریل فرشتہ کے ذریعہ آیا۔ مگر حضرت موسیٰ کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ اللہ نے ان سے براہِ راست کلام کیا۔ نیز یہ بھی حضرت موسیٰ کی خصوصیت ہے کہ آپ کے لیے خدا نے ایک مزید پیغمبر (حضرت ہارون ) مقرر فرمایا جو آپ کا مدد گار ہو۔ اس خصوصیت کی وجہ شاید وہ مخصوص حالات ہوں جن میں آپ کو اپنا پیغمبرانہ فرض انجام دینا تھا۔ کیوں کہ آپ کے سامنے ایک طرف فرعون جیسا جابر بادشاہ تھا اور دوسری طرف یہود جیسی قوم جو اپنے زوال کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی۔ رحمت و نصرت کے یہ معاملات اپنی انتہائی صورت میں صرف پیغمبروں کے لیے خاص ہیں۔ تاہم اللہ اپنے مومن بندوں کے ساتھ بھی درجہ بدرجہ اسی قسم کا معاملہ فرماتا ہے۔ وہ ان کے حسب استعداد انھیں اپنے کسی کام کو کرنے کی توفیق دیتاہے۔ وہ ان پر خاموشی سے اپنی بات القاء کرتا ہے۔ وہ ان کے لیے ایسی خصوصی تائید کا انتظام کرتاہے جو عام حالات میں کسی کو نہیں ملتیں۔

وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا

📘 حضرت موسیٰ مدین سے چل کر مصر جارہے تھے۔ اس سفر میں وہ کوہ طور سے گزرے۔ وہاں خدا نے انھیں پیغمبری عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے پچھلے ہر دور میں اپنے پیغمبر منتخب کيے اور ان کے پاس اپنا کلام بھیجا۔ یہ کلام ہمیشہ جبریل فرشتہ کے ذریعہ آیا۔ مگر حضرت موسیٰ کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ اللہ نے ان سے براہِ راست کلام کیا۔ نیز یہ بھی حضرت موسیٰ کی خصوصیت ہے کہ آپ کے لیے خدا نے ایک مزید پیغمبر (حضرت ہارون ) مقرر فرمایا جو آپ کا مدد گار ہو۔ اس خصوصیت کی وجہ شاید وہ مخصوص حالات ہوں جن میں آپ کو اپنا پیغمبرانہ فرض انجام دینا تھا۔ کیوں کہ آپ کے سامنے ایک طرف فرعون جیسا جابر بادشاہ تھا اور دوسری طرف یہود جیسی قوم جو اپنے زوال کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی۔ رحمت و نصرت کے یہ معاملات اپنی انتہائی صورت میں صرف پیغمبروں کے لیے خاص ہیں۔ تاہم اللہ اپنے مومن بندوں کے ساتھ بھی درجہ بدرجہ اسی قسم کا معاملہ فرماتا ہے۔ وہ ان کے حسب استعداد انھیں اپنے کسی کام کو کرنے کی توفیق دیتاہے۔ وہ ان پر خاموشی سے اپنی بات القاء کرتا ہے۔ وہ ان کے لیے ایسی خصوصی تائید کا انتظام کرتاہے جو عام حالات میں کسی کو نہیں ملتیں۔

وَوَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا

📘 حضرت موسیٰ مدین سے چل کر مصر جارہے تھے۔ اس سفر میں وہ کوہ طور سے گزرے۔ وہاں خدا نے انھیں پیغمبری عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے پچھلے ہر دور میں اپنے پیغمبر منتخب کيے اور ان کے پاس اپنا کلام بھیجا۔ یہ کلام ہمیشہ جبریل فرشتہ کے ذریعہ آیا۔ مگر حضرت موسیٰ کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ اللہ نے ان سے براہِ راست کلام کیا۔ نیز یہ بھی حضرت موسیٰ کی خصوصیت ہے کہ آپ کے لیے خدا نے ایک مزید پیغمبر (حضرت ہارون ) مقرر فرمایا جو آپ کا مدد گار ہو۔ اس خصوصیت کی وجہ شاید وہ مخصوص حالات ہوں جن میں آپ کو اپنا پیغمبرانہ فرض انجام دینا تھا۔ کیوں کہ آپ کے سامنے ایک طرف فرعون جیسا جابر بادشاہ تھا اور دوسری طرف یہود جیسی قوم جو اپنے زوال کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی۔ رحمت و نصرت کے یہ معاملات اپنی انتہائی صورت میں صرف پیغمبروں کے لیے خاص ہیں۔ تاہم اللہ اپنے مومن بندوں کے ساتھ بھی درجہ بدرجہ اسی قسم کا معاملہ فرماتا ہے۔ وہ ان کے حسب استعداد انھیں اپنے کسی کام کو کرنے کی توفیق دیتاہے۔ وہ ان پر خاموشی سے اپنی بات القاء کرتا ہے۔ وہ ان کے لیے ایسی خصوصی تائید کا انتظام کرتاہے جو عام حالات میں کسی کو نہیں ملتیں۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا

📘 حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم کے فرزند تھے۔حضرت ادریس ایک پیغمبر ہیں جو غالباً حضرت نوح سے پہلے پیداہوئے۔ ان پیغمبروں کی دو خاص صفتیں یہاں بیان کی گئی ہیں— سچا ہونا، لوگوں کو نماز (خدا کی عبادت) اور زکوٰۃ (بندوں کے حقوق کی ادائيگی) کی تلقین کرنا۔ ارشاد ہوا ہے کہ ان صفتوں نے ان کو خدا کا پسندیدہ بنا دیا اور وہ انتہائی اعلیٰ درجہ پر پہنچا دئے گئے۔ جن شخصیتوں کو خدا نے اپنی پیغمبری کے لیے چنا۔ ان کے اندر یہ صفتیں کمال درجہ میں موجود ہوتی تھیں۔ تاہم عام اہلِ ایمان سے بھی یہی صفات مطلوب ہیں اور ان کو بھی درجہ بدرجہ اس کے وہ ثمرات حاصل ہوتے ہیں جو خدا نے ان صفتوں کے لیے ابدی طورپر مقرر کيے ہیں۔

وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا

📘 حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم کے فرزند تھے۔حضرت ادریس ایک پیغمبر ہیں جو غالباً حضرت نوح سے پہلے پیداہوئے۔ ان پیغمبروں کی دو خاص صفتیں یہاں بیان کی گئی ہیں— سچا ہونا، لوگوں کو نماز (خدا کی عبادت) اور زکوٰۃ (بندوں کے حقوق کی ادائيگی) کی تلقین کرنا۔ ارشاد ہوا ہے کہ ان صفتوں نے ان کو خدا کا پسندیدہ بنا دیا اور وہ انتہائی اعلیٰ درجہ پر پہنچا دئے گئے۔ جن شخصیتوں کو خدا نے اپنی پیغمبری کے لیے چنا۔ ان کے اندر یہ صفتیں کمال درجہ میں موجود ہوتی تھیں۔ تاہم عام اہلِ ایمان سے بھی یہی صفات مطلوب ہیں اور ان کو بھی درجہ بدرجہ اس کے وہ ثمرات حاصل ہوتے ہیں جو خدا نے ان صفتوں کے لیے ابدی طورپر مقرر کيے ہیں۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا

📘 حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم کے فرزند تھے۔حضرت ادریس ایک پیغمبر ہیں جو غالباً حضرت نوح سے پہلے پیداہوئے۔ ان پیغمبروں کی دو خاص صفتیں یہاں بیان کی گئی ہیں— سچا ہونا، لوگوں کو نماز (خدا کی عبادت) اور زکوٰۃ (بندوں کے حقوق کی ادائيگی) کی تلقین کرنا۔ ارشاد ہوا ہے کہ ان صفتوں نے ان کو خدا کا پسندیدہ بنا دیا اور وہ انتہائی اعلیٰ درجہ پر پہنچا دئے گئے۔ جن شخصیتوں کو خدا نے اپنی پیغمبری کے لیے چنا۔ ان کے اندر یہ صفتیں کمال درجہ میں موجود ہوتی تھیں۔ تاہم عام اہلِ ایمان سے بھی یہی صفات مطلوب ہیں اور ان کو بھی درجہ بدرجہ اس کے وہ ثمرات حاصل ہوتے ہیں جو خدا نے ان صفتوں کے لیے ابدی طورپر مقرر کيے ہیں۔

وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا

📘 حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم کے فرزند تھے۔حضرت ادریس ایک پیغمبر ہیں جو غالباً حضرت نوح سے پہلے پیداہوئے۔ ان پیغمبروں کی دو خاص صفتیں یہاں بیان کی گئی ہیں— سچا ہونا، لوگوں کو نماز (خدا کی عبادت) اور زکوٰۃ (بندوں کے حقوق کی ادائيگی) کی تلقین کرنا۔ ارشاد ہوا ہے کہ ان صفتوں نے ان کو خدا کا پسندیدہ بنا دیا اور وہ انتہائی اعلیٰ درجہ پر پہنچا دئے گئے۔ جن شخصیتوں کو خدا نے اپنی پیغمبری کے لیے چنا۔ ان کے اندر یہ صفتیں کمال درجہ میں موجود ہوتی تھیں۔ تاہم عام اہلِ ایمان سے بھی یہی صفات مطلوب ہیں اور ان کو بھی درجہ بدرجہ اس کے وہ ثمرات حاصل ہوتے ہیں جو خدا نے ان صفتوں کے لیے ابدی طورپر مقرر کيے ہیں۔

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِنْ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩

📘 یہاں ان پیغمبروں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جو آدم کی نسل، نوح کی نسل اور ابراہیم کی نسل میں خصوصیت سے پیدا ہوئے جن کو خدا نے اس کا اہل پایا کہ ان کو اپنی خاص ہدایت سے نوازے اور ان کو لوگوں کے سامنے اپنی نمائندگی کے لیے چن لے۔ ان حضرات پر خدا نے اتنے بڑے بڑے انعامات کیوں كيے۔ فرمایا کہ اس کی وجہ ان کا یہ مشترک وصف تھاکہ وہ خدا کی خدائی کے احساس میں اتنا بڑھے ہوئے تھے کہ اس کا کلام سن کر ان کا سینہ ہل جاتا تھا اور وہ روتے ہوئے اس کے آگے زمین پر گر پڑتے تھے۔ ’’روتے ہوئے سجدہ میں گرنا‘‘ خداکے عظمت وجلال کے اعتراف کا آخری درجہ ہے۔ جس کو یہ درجہ ملے اس نے گویا اس ایمان کا ذائقہ چکھا جو نبیوں اور رسولوں کے لیے خاص ہے۔

۞ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا

📘 پیغمبر کی دعوت کے ذریعہ جو افراد بنتے ہیں ان کی نمایاں خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہش پرستی سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ اللہ کو یاد کرنے والے بن جاتے ہیں جس کی ایک متعین صورت کا نام نماز ہے۔ دین کی اصل خداکی یاد ہے۔ اور نماز اسی خدا کی یاد کی ایک منظم صورت۔ پیغمبروں کو ماننے والوں کی اگلی نسلیں اگر خدا سے غافل ہوجائیںاور خواہش کے پیچھے چلنے لگیں تو خدا کے نزدیک وہ گمراہ لوگ ہیں۔ پیغمبروں سے وابستگی ان کو کوئی فائدہ دینے والی نہیں۔ ایسے لوگ یقیناً اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ ان میں سے صرف وہی لوگ بچیں گے جو دوبارہ اصل دین کی طرف لوٹیں اور حقیقی معنوں میں ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کریں۔ آخرت کے لیے کوشش کرنے والے کو فوراً اپنی محنتوں اور قربانیوں کا انجام نہیں ملتا۔ اس لیے کوئی شخص شبہ کرسکتا ہے کہ یہ راستہ ایسا ہے جس میں عمل ہے مگر عمل کا انجام نہیں۔ مگر یہ محض غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دنیا کے لیے عمل کرنے والے اپنے عمل کا بدلہ پاتے ہیں اسی طرح آخرت کے لیے عمل کرنے والے بھی اپنے عمل کا بھر پور بدلہ پائیں گے۔ اس معاملہ میںکسی شک میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔

يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا

📘 یہ اس بندہ کی زبان سے نکلی ہوئی دعا ہے جو دین کا مشن چلاتے ہوئے بالکل بوڑھا ہوگیا تھا۔ اور اہل خاندان میں کوئی شخص اس کو نظر نہیں آتا تھا جو اس کے بعد اس کے مشن کو جاری رکھے۔ ایک طرف اپنا عجزاور دوسری طرف مشن کی اہمیت۔ یہ دونوں احساسات اس کی زبان پر اس دعا کی صورت میں ڈھل گئے جو مذکورہ آیات میں نظر آتے ہیں۔ گویا یہ عام معنوں میں محض ایک بیٹے کی دعا نہ تھی۔ بلکہ اس بات کی دعا تھی کہ مجھے ایک ایسا لائق شخص حاصل ہوجائے جو میرے بعد میرے پیغمبرانہ مشن کو جاری رکھے۔

إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا

📘 پیغمبر کی دعوت کے ذریعہ جو افراد بنتے ہیں ان کی نمایاں خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہش پرستی سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ اللہ کو یاد کرنے والے بن جاتے ہیں جس کی ایک متعین صورت کا نام نماز ہے۔ دین کی اصل خداکی یاد ہے۔ اور نماز اسی خدا کی یاد کی ایک منظم صورت۔ پیغمبروں کو ماننے والوں کی اگلی نسلیں اگر خدا سے غافل ہوجائیںاور خواہش کے پیچھے چلنے لگیں تو خدا کے نزدیک وہ گمراہ لوگ ہیں۔ پیغمبروں سے وابستگی ان کو کوئی فائدہ دینے والی نہیں۔ ایسے لوگ یقیناً اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ ان میں سے صرف وہی لوگ بچیں گے جو دوبارہ اصل دین کی طرف لوٹیں اور حقیقی معنوں میں ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کریں۔ آخرت کے لیے کوشش کرنے والے کو فوراً اپنی محنتوں اور قربانیوں کا انجام نہیں ملتا۔ اس لیے کوئی شخص شبہ کرسکتا ہے کہ یہ راستہ ایسا ہے جس میں عمل ہے مگر عمل کا انجام نہیں۔ مگر یہ محض غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دنیا کے لیے عمل کرنے والے اپنے عمل کا بدلہ پاتے ہیں اسی طرح آخرت کے لیے عمل کرنے والے بھی اپنے عمل کا بھر پور بدلہ پائیں گے۔ اس معاملہ میںکسی شک میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔

جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا

📘 موجودہ دنیا میں امتحان کی وجہ سے ہر ایک کو آزادی ملی ہوئی ہے۔ یہاںاچھائی کرنے والے بھی آزاد ہیں اور برائی کرنے والے بھی آزاد۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا میںایک سچے انسان کو کبھی سکون حاصل نہیں ہوتا۔ وہ ذاتی طورپر خواہ کتنا ہی ٹھیک ہو مگر دوسرے لوگوں کی بے ٹھیک باتیں اس کو سکون لینے نہیں دیتیں۔ لوگ اپنی آزادی سے غلط فائدہ اٹھا کر ماحول کو گندی باتوںاور بری آوازوں سے بھر دیتے ہیں۔ جنت وہ بستی ہے جس سے اس قسم کے تمام انسان خارج کردئے جائیں گے۔ وہاں صرف وہ اعلیٰ ذوق کے لوگ آباد کيے جائیںگے جنھوںنے دنیا میں یہ ثبوت دیا تھا کہ وہ کانٹوں کی مانند نہیں جیتے بلکہ پھول کی مانند رہنا جانتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ماحول میں جو زندگی بنے گی وہ بلاشبہ ابدی سلامتی کی جنت ہوگی۔ دنیا میں لغو چیزوں سے بچنا اور سلامتی کا پیکر بن کر زندگی گزارنا ایک سخت ترین عمل ہے۔ اس کے لیے اپنی آزاد زندگی کو خود اپنے ارادہ سے پابند زندگی بنا لینا پڑتاہے۔ یہ مشکل ترین قربانی ہے جس کا ثبوت صرف وہ شخص دے سکتا ہے جو فی الواقع اللہ سے ڈرتا ہو۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی دنیا میں جنتی انسان بن کر رہ سکتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی ابدی جنتوں میں داخل کيے جائیں گے۔

لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا ۖ وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا

📘 موجودہ دنیا میں امتحان کی وجہ سے ہر ایک کو آزادی ملی ہوئی ہے۔ یہاںاچھائی کرنے والے بھی آزاد ہیں اور برائی کرنے والے بھی آزاد۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا میںایک سچے انسان کو کبھی سکون حاصل نہیں ہوتا۔ وہ ذاتی طورپر خواہ کتنا ہی ٹھیک ہو مگر دوسرے لوگوں کی بے ٹھیک باتیں اس کو سکون لینے نہیں دیتیں۔ لوگ اپنی آزادی سے غلط فائدہ اٹھا کر ماحول کو گندی باتوںاور بری آوازوں سے بھر دیتے ہیں۔ جنت وہ بستی ہے جس سے اس قسم کے تمام انسان خارج کردئے جائیں گے۔ وہاں صرف وہ اعلیٰ ذوق کے لوگ آباد کيے جائیںگے جنھوںنے دنیا میں یہ ثبوت دیا تھا کہ وہ کانٹوں کی مانند نہیں جیتے بلکہ پھول کی مانند رہنا جانتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ماحول میں جو زندگی بنے گی وہ بلاشبہ ابدی سلامتی کی جنت ہوگی۔ دنیا میں لغو چیزوں سے بچنا اور سلامتی کا پیکر بن کر زندگی گزارنا ایک سخت ترین عمل ہے۔ اس کے لیے اپنی آزاد زندگی کو خود اپنے ارادہ سے پابند زندگی بنا لینا پڑتاہے۔ یہ مشکل ترین قربانی ہے جس کا ثبوت صرف وہ شخص دے سکتا ہے جو فی الواقع اللہ سے ڈرتا ہو۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی دنیا میں جنتی انسان بن کر رہ سکتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی ابدی جنتوں میں داخل کيے جائیں گے۔

تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا

📘 موجودہ دنیا میں امتحان کی وجہ سے ہر ایک کو آزادی ملی ہوئی ہے۔ یہاںاچھائی کرنے والے بھی آزاد ہیں اور برائی کرنے والے بھی آزاد۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا میںایک سچے انسان کو کبھی سکون حاصل نہیں ہوتا۔ وہ ذاتی طورپر خواہ کتنا ہی ٹھیک ہو مگر دوسرے لوگوں کی بے ٹھیک باتیں اس کو سکون لینے نہیں دیتیں۔ لوگ اپنی آزادی سے غلط فائدہ اٹھا کر ماحول کو گندی باتوںاور بری آوازوں سے بھر دیتے ہیں۔ جنت وہ بستی ہے جس سے اس قسم کے تمام انسان خارج کردئے جائیں گے۔ وہاں صرف وہ اعلیٰ ذوق کے لوگ آباد کيے جائیںگے جنھوںنے دنیا میں یہ ثبوت دیا تھا کہ وہ کانٹوں کی مانند نہیں جیتے بلکہ پھول کی مانند رہنا جانتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ماحول میں جو زندگی بنے گی وہ بلاشبہ ابدی سلامتی کی جنت ہوگی۔ دنیا میں لغو چیزوں سے بچنا اور سلامتی کا پیکر بن کر زندگی گزارنا ایک سخت ترین عمل ہے۔ اس کے لیے اپنی آزاد زندگی کو خود اپنے ارادہ سے پابند زندگی بنا لینا پڑتاہے۔ یہ مشکل ترین قربانی ہے جس کا ثبوت صرف وہ شخص دے سکتا ہے جو فی الواقع اللہ سے ڈرتا ہو۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی دنیا میں جنتی انسان بن کر رہ سکتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی ابدی جنتوں میں داخل کيے جائیں گے۔

وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا

📘 اسلامی دعوت جب مخالفت کے دور میں ہو تو یہ داعی کے لیے بڑا سخت مرحلہ ہوتاہے۔ داعی ہر روز چاہتا ہے کہ موجودہ کیفیت کو ختم کرنے کے لیے کوئی نیا اقدام کیا جائے۔ جب کہ خدا کا حکم یہ ہوتا ہے کہ صبر اور انتظار کا طریقہ اختیار کرو۔ ایسی ہی کیفیت ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آئی۔ حالات کی شدت کے پیش نظر آپ خدا کی طرف سے مزید ہدایت کے منتظر تھے۔ مگر ایک روایت کے مطابق تقریباً چالیس دن تک جبریل نہیں آئے۔ پھر جب وہ آئے تو آپ نے کہا کہ اے جبریل ، اتنی دیر کیوں کردی۔ انھوںنے جواب دیا کہ ہم خدا کی مرضی کے پابند ہیں۔ جب خدا کی طرف سے کوئی ہدایت ملتی ہے تو آتے ہیں اور جب ہدایت نہیں ملتی تو نہیںآتے۔ یہ واقعہ بیان کرکے یہاں صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ جو صورت حال جاری ہے اس کوخدا پوری طرح دیکھ رہاہے۔ اس کے باوجود اگر اس کی طرف سے نئی ہدایت نہیں آرہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت یہی مطلوب ہے کہ اس صورت حال کو برداشت کیاجائے۔ اگر حکمت کا تقاضا کچھ اور ہوتا تو یقیناً کوئی اور حکم آتا۔ خدا سے زیادہ کوئی جاننے والا نہیں اس لیے خدا سے بہتر کسی کی رہنمائی بھی نہیں ہوسکتی۔ ’’رکنے‘‘ والے حالات میں ’’اقدام‘‘ کی آیت تلاش کرنا صحیح نہیں۔ ایسا کرنا گویا اس حکم کو قبل از وقت اتارنے کی کوشش کرناہے، جو ابھی آدمی کے لیے نہیں اترا۔

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا

📘 اسلامی دعوت جب مخالفت کے دور میں ہو تو یہ داعی کے لیے بڑا سخت مرحلہ ہوتاہے۔ داعی ہر روز چاہتا ہے کہ موجودہ کیفیت کو ختم کرنے کے لیے کوئی نیا اقدام کیا جائے۔ جب کہ خدا کا حکم یہ ہوتا ہے کہ صبر اور انتظار کا طریقہ اختیار کرو۔ ایسی ہی کیفیت ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آئی۔ حالات کی شدت کے پیش نظر آپ خدا کی طرف سے مزید ہدایت کے منتظر تھے۔ مگر ایک روایت کے مطابق تقریباً چالیس دن تک جبریل نہیں آئے۔ پھر جب وہ آئے تو آپ نے کہا کہ اے جبریل ، اتنی دیر کیوں کردی۔ انھوںنے جواب دیا کہ ہم خدا کی مرضی کے پابند ہیں۔ جب خدا کی طرف سے کوئی ہدایت ملتی ہے تو آتے ہیں اور جب ہدایت نہیں ملتی تو نہیںآتے۔ یہ واقعہ بیان کرکے یہاں صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ جو صورت حال جاری ہے اس کوخدا پوری طرح دیکھ رہاہے۔ اس کے باوجود اگر اس کی طرف سے نئی ہدایت نہیں آرہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت یہی مطلوب ہے کہ اس صورت حال کو برداشت کیاجائے۔ اگر حکمت کا تقاضا کچھ اور ہوتا تو یقیناً کوئی اور حکم آتا۔ خدا سے زیادہ کوئی جاننے والا نہیں اس لیے خدا سے بہتر کسی کی رہنمائی بھی نہیں ہوسکتی۔ ’’رکنے‘‘ والے حالات میں ’’اقدام‘‘ کی آیت تلاش کرنا صحیح نہیں۔ ایسا کرنا گویا اس حکم کو قبل از وقت اتارنے کی کوشش کرناہے، جو ابھی آدمی کے لیے نہیں اترا۔

وَيَقُولُ الْإِنْسَانُ أَإِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا

📘 عرب کے لوگ جو قرآن کے پہلے مخاطب تھے وہ زندگی بعد موت کو مانتے تھے۔ مگر یہ ماننا صرف رسمی ماننا تھا، وہ حقیقی ماننا نہ تھا۔ قرآن میں آخرت سے متعلق جتنے الفاظ ہیں وہ سب پہلے سے ان کی زبان میں موجود تھے۔ مگر ان کی زندگی پر اس ماننے کا کوئی اثر نہ تھا۔ ان کی عملی زندگی ایسی تھی گویا کہ وہ زبان حال سے کہہ رہے ہوں کہ— زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے۔ مرنے کے بعد کون ہم کو اٹھائے گا اور کون ہمارا حساب لے گا۔ مگر یہ غفلت یا انکار صرف اس لیے ہے کہ آدمی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتا۔ اگر وہ غور کرے تو اس کی پہلی پیدائش ہی اس کے لیے اس کی دوسری پیدائش کی دلیل بن جائے۔ یہاں ’’شیاطین‘‘ سے مراد برے لیڈر ہیں۔ یہ لیڈر پر فریب الفاظ بول کر عوام کو بہکاتے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ وہی کام کرتے ہیں جو شیطان کرتاہے۔ موجودہ دنیا میں یہ لیڈر عظمت کے مقام پر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس لیے لوگ ان کو نظر انداز نہیں کرپاتے۔ مگر آخرت میں ان کی عظمت ختم ہوجائے گی۔ وہاں یہ بڑے لوگ بھی اسی طرح ذلت کے گڑھے میں ڈال دئے جائیں گے جس طرح ان کے چھوٹے لوگ۔

أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا

📘 عرب کے لوگ جو قرآن کے پہلے مخاطب تھے وہ زندگی بعد موت کو مانتے تھے۔ مگر یہ ماننا صرف رسمی ماننا تھا، وہ حقیقی ماننا نہ تھا۔ قرآن میں آخرت سے متعلق جتنے الفاظ ہیں وہ سب پہلے سے ان کی زبان میں موجود تھے۔ مگر ان کی زندگی پر اس ماننے کا کوئی اثر نہ تھا۔ ان کی عملی زندگی ایسی تھی گویا کہ وہ زبان حال سے کہہ رہے ہوں کہ— زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے۔ مرنے کے بعد کون ہم کو اٹھائے گا اور کون ہمارا حساب لے گا۔ مگر یہ غفلت یا انکار صرف اس لیے ہے کہ آدمی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتا۔ اگر وہ غور کرے تو اس کی پہلی پیدائش ہی اس کے لیے اس کی دوسری پیدائش کی دلیل بن جائے۔ یہاں ’’شیاطین‘‘ سے مراد برے لیڈر ہیں۔ یہ لیڈر پر فریب الفاظ بول کر عوام کو بہکاتے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ وہی کام کرتے ہیں جو شیطان کرتاہے۔ موجودہ دنیا میں یہ لیڈر عظمت کے مقام پر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس لیے لوگ ان کو نظر انداز نہیں کرپاتے۔ مگر آخرت میں ان کی عظمت ختم ہوجائے گی۔ وہاں یہ بڑے لوگ بھی اسی طرح ذلت کے گڑھے میں ڈال دئے جائیں گے جس طرح ان کے چھوٹے لوگ۔

فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيَاطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا

📘 عرب کے لوگ جو قرآن کے پہلے مخاطب تھے وہ زندگی بعد موت کو مانتے تھے۔ مگر یہ ماننا صرف رسمی ماننا تھا، وہ حقیقی ماننا نہ تھا۔ قرآن میں آخرت سے متعلق جتنے الفاظ ہیں وہ سب پہلے سے ان کی زبان میں موجود تھے۔ مگر ان کی زندگی پر اس ماننے کا کوئی اثر نہ تھا۔ ان کی عملی زندگی ایسی تھی گویا کہ وہ زبان حال سے کہہ رہے ہوں کہ— زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے۔ مرنے کے بعد کون ہم کو اٹھائے گا اور کون ہمارا حساب لے گا۔ مگر یہ غفلت یا انکار صرف اس لیے ہے کہ آدمی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتا۔ اگر وہ غور کرے تو اس کی پہلی پیدائش ہی اس کے لیے اس کی دوسری پیدائش کی دلیل بن جائے۔ یہاں ’’شیاطین‘‘ سے مراد برے لیڈر ہیں۔ یہ لیڈر پر فریب الفاظ بول کر عوام کو بہکاتے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ وہی کام کرتے ہیں جو شیطان کرتاہے۔ موجودہ دنیا میں یہ لیڈر عظمت کے مقام پر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس لیے لوگ ان کو نظر انداز نہیں کرپاتے۔ مگر آخرت میں ان کی عظمت ختم ہوجائے گی۔ وہاں یہ بڑے لوگ بھی اسی طرح ذلت کے گڑھے میں ڈال دئے جائیں گے جس طرح ان کے چھوٹے لوگ۔

ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَٰنِ عِتِيًّا

📘 حق کو نہ ماننا جرم ہے، مگر حق کو نہ ماننے کی تحریک چلانا اس سے بھی زیادہ بڑا جرم ہے۔ جو لوگ حق کے خلاف تحریک کے قائد بنیں وہ خدا کی نظر میں بدترین سزاکے مستحق ہیں۔ان کو آخرت میں عام لوگوں کے مقابلہ میں دگنی سزا دی جائے گی۔ قرآن کے الفاظ سے اور بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو جہنم سے گزارے گا۔ یہ گزرنا جہنم کے اندر سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے اوپر سے ہوگا۔ یہ ایسا ہی ہوگا جیسے گہرے دریا کے اوپر آدمی کھلے پل کے ذریعہ گزر جاتاہے۔ وہ دریا کی خطرناک موجوں کو دیکھتا ہے مگر وہ اس میں غرق نہیں ہوتا۔ اسی طرح قیامت میں تمام لوگ جہنم کے اوپر سے گزریں گے۔ جو نیک لوگ ہیں وہ آگے جاکر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ اور جوبرے لوگ ہیں وہ آگے نہ بڑھ سکیں گے جہنم انھیں پہچان کر ان کو اپنی طرف کھینچ لے گی۔ اس تجربہ کا مقصد یہ ہوگا کہ جنت میں داخل کيے جانے والے لوگ خدا کی اس عظیم نعمت کا واقعی احساس کرسکیں کہ اس نے کیسی بری جگہ سے بچا کر انھیں کیسی بہتر جگہ پہنچا دیاہے۔

يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَىٰ لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا

📘 یہ دعا بیٹے کی صورت میں قبول ہوئی۔ ایک ایسا بیٹا جیسا بیٹا عام طورپر لوگوں کے یہاں پیدا نہیں ہوتا۔ ایک شخص جو آخری حد تک بوڑھا ہوچکا ہو ا ور جس کی بیوی پوری عمر تک بانجھ رہی ہو۔ اس کے یہاں بچہ پیدا ہونا یقیناً ایک انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ اس بنا پر حضرت زکریا کو اس خبر پر خوشی کے ساتھ تعجب بھی ہوا۔ ملنے والی نعمت کے غیر متوقع ہونے کا احساس ان کی زبان سے ان الفاظ میں نکل پڑا کہ میرے یہاںکیسے بچہ پیدا ہوگا جب کہ میں اور میری بیوی دونوںاس اعتبار سے از کار رفتہ ہوچکے ہیں۔

ثُمَّ لَنَحْنُ أَعْلَمُ بِالَّذِينَ هُمْ أَوْلَىٰ بِهَا صِلِيًّا

📘 حق کو نہ ماننا جرم ہے، مگر حق کو نہ ماننے کی تحریک چلانا اس سے بھی زیادہ بڑا جرم ہے۔ جو لوگ حق کے خلاف تحریک کے قائد بنیں وہ خدا کی نظر میں بدترین سزاکے مستحق ہیں۔ان کو آخرت میں عام لوگوں کے مقابلہ میں دگنی سزا دی جائے گی۔ قرآن کے الفاظ سے اور بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو جہنم سے گزارے گا۔ یہ گزرنا جہنم کے اندر سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے اوپر سے ہوگا۔ یہ ایسا ہی ہوگا جیسے گہرے دریا کے اوپر آدمی کھلے پل کے ذریعہ گزر جاتاہے۔ وہ دریا کی خطرناک موجوں کو دیکھتا ہے مگر وہ اس میں غرق نہیں ہوتا۔ اسی طرح قیامت میں تمام لوگ جہنم کے اوپر سے گزریں گے۔ جو نیک لوگ ہیں وہ آگے جاکر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ اور جوبرے لوگ ہیں وہ آگے نہ بڑھ سکیں گے جہنم انھیں پہچان کر ان کو اپنی طرف کھینچ لے گی۔ اس تجربہ کا مقصد یہ ہوگا کہ جنت میں داخل کيے جانے والے لوگ خدا کی اس عظیم نعمت کا واقعی احساس کرسکیں کہ اس نے کیسی بری جگہ سے بچا کر انھیں کیسی بہتر جگہ پہنچا دیاہے۔

وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا

📘 حق کو نہ ماننا جرم ہے، مگر حق کو نہ ماننے کی تحریک چلانا اس سے بھی زیادہ بڑا جرم ہے۔ جو لوگ حق کے خلاف تحریک کے قائد بنیں وہ خدا کی نظر میں بدترین سزاکے مستحق ہیں۔ان کو آخرت میں عام لوگوں کے مقابلہ میں دگنی سزا دی جائے گی۔ قرآن کے الفاظ سے اور بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو جہنم سے گزارے گا۔ یہ گزرنا جہنم کے اندر سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے اوپر سے ہوگا۔ یہ ایسا ہی ہوگا جیسے گہرے دریا کے اوپر آدمی کھلے پل کے ذریعہ گزر جاتاہے۔ وہ دریا کی خطرناک موجوں کو دیکھتا ہے مگر وہ اس میں غرق نہیں ہوتا۔ اسی طرح قیامت میں تمام لوگ جہنم کے اوپر سے گزریں گے۔ جو نیک لوگ ہیں وہ آگے جاکر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ اور جوبرے لوگ ہیں وہ آگے نہ بڑھ سکیں گے جہنم انھیں پہچان کر ان کو اپنی طرف کھینچ لے گی۔ اس تجربہ کا مقصد یہ ہوگا کہ جنت میں داخل کيے جانے والے لوگ خدا کی اس عظیم نعمت کا واقعی احساس کرسکیں کہ اس نے کیسی بری جگہ سے بچا کر انھیں کیسی بہتر جگہ پہنچا دیاہے۔

ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا

📘 حق کو نہ ماننا جرم ہے، مگر حق کو نہ ماننے کی تحریک چلانا اس سے بھی زیادہ بڑا جرم ہے۔ جو لوگ حق کے خلاف تحریک کے قائد بنیں وہ خدا کی نظر میں بدترین سزاکے مستحق ہیں۔ان کو آخرت میں عام لوگوں کے مقابلہ میں دگنی سزا دی جائے گی۔ قرآن کے الفاظ سے اور بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو جہنم سے گزارے گا۔ یہ گزرنا جہنم کے اندر سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے اوپر سے ہوگا۔ یہ ایسا ہی ہوگا جیسے گہرے دریا کے اوپر آدمی کھلے پل کے ذریعہ گزر جاتاہے۔ وہ دریا کی خطرناک موجوں کو دیکھتا ہے مگر وہ اس میں غرق نہیں ہوتا۔ اسی طرح قیامت میں تمام لوگ جہنم کے اوپر سے گزریں گے۔ جو نیک لوگ ہیں وہ آگے جاکر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ اور جوبرے لوگ ہیں وہ آگے نہ بڑھ سکیں گے جہنم انھیں پہچان کر ان کو اپنی طرف کھینچ لے گی۔ اس تجربہ کا مقصد یہ ہوگا کہ جنت میں داخل کيے جانے والے لوگ خدا کی اس عظیم نعمت کا واقعی احساس کرسکیں کہ اس نے کیسی بری جگہ سے بچا کر انھیں کیسی بہتر جگہ پہنچا دیاہے۔

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا

📘 جو لوگ حق ناحق کی بحث میں نہ پڑیں، جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی مصلحتوں کو اہمیت دیں، جو خدا کو خوش کرنے سے زیادہ عوام کو خوش کرنے کا اہتمام کرتے ہوں۔ ایسے لوگ ہمیشہ زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ ان کے گرد زیادہ رونق اور شان جمع ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف جو لوگ ہر معاملہ میں یہ دیکھیں کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ جو دنیا کی مصلحتوں کو نظر انداز کریں اور آخرت کی مصلحتوں کو ترجیح دیں۔جو عوامی رجحان سے زیادہ خدا کا لحاظ کریں۔ ایسے لوگ اکثر ظاہری شان وشوکت والی چیزوں سے محروم رہتے ہیں۔ یہ فرق بہت سے لوگوں کے لیے غلط فہمی کا سبب بن جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ دنیوی اعتبار سے بہتر ہیں وہ خدا کے پسندیدہ ہیں اور جو لوگ دنیوی اعتبار سے بہترنہیں وہ خدا کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔ مگر یہ معیار سراسر غلط ہے۔ اور ماضی کی تاریخ اس کی تردید کرنے کے لیے کافی ہے۔ کتنے پر فخر سرزمین کے نیچے دفن ہوگئے۔ کتنے محل ہیں جوآج کھنڈر کے سوا کسی اور صورت میں دیکھنے والوں کو نظر نہیں آتے۔

وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثًا وَرِئْيًا

📘 جو لوگ حق ناحق کی بحث میں نہ پڑیں، جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی مصلحتوں کو اہمیت دیں، جو خدا کو خوش کرنے سے زیادہ عوام کو خوش کرنے کا اہتمام کرتے ہوں۔ ایسے لوگ ہمیشہ زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ ان کے گرد زیادہ رونق اور شان جمع ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف جو لوگ ہر معاملہ میں یہ دیکھیں کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ جو دنیا کی مصلحتوں کو نظر انداز کریں اور آخرت کی مصلحتوں کو ترجیح دیں۔جو عوامی رجحان سے زیادہ خدا کا لحاظ کریں۔ ایسے لوگ اکثر ظاہری شان وشوکت والی چیزوں سے محروم رہتے ہیں۔ یہ فرق بہت سے لوگوں کے لیے غلط فہمی کا سبب بن جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ دنیوی اعتبار سے بہتر ہیں وہ خدا کے پسندیدہ ہیں اور جو لوگ دنیوی اعتبار سے بہترنہیں وہ خدا کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔ مگر یہ معیار سراسر غلط ہے۔ اور ماضی کی تاریخ اس کی تردید کرنے کے لیے کافی ہے۔ کتنے پر فخر سرزمین کے نیچے دفن ہوگئے۔ کتنے محل ہیں جوآج کھنڈر کے سوا کسی اور صورت میں دیکھنے والوں کو نظر نہیں آتے۔

قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَٰنُ مَدًّا ۚ حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضْعَفُ جُنْدًا

📘 سرکش آدمی کو سرکشی کا موقع ملنا مہلت امتحان کی وجہ سے ہوتاہے، نہ کہ کسی حق کی بنا پر۔ مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اس فرق کو سمجھ نہیں پاتا۔ وہ وقتی مہلت کو اپنی مستقل حالت سمجھ لیتاہے۔ اس کی آنکھ اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک مدت کے خاتمہ کا اعلان نہ ہوجائے اور اس سے سرکشی کا حق چھین نہ لیا جائے۔ خدا اپنی مصلحت کے تحت کسی کو دنیا ہی میں یہ تجربہ کرادیتاہے۔ کوئی اسی حال پر باقی رہتا ہے۔ یہاں تک کہ موت اس کو وہ چیز دکھادیتی ہے جس کو وہ زندگی میں دیکھنے پر تیار نہ ہوا تھا۔

وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى ۗ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَرَدًّا

📘 ہدایت یاب ہونا یہ ہے کہ آدمی کا شعور صحیح رخ پر جاگ اٹھے۔ ایسے آدمی کے سامنے کوئی صورتِ حال آتی ہے تو وہ اس کی صحیح توجیہہ کرکے اس کو اپنی غذا بنا لیتاہے۔ اس طرح اس کی ہدایت میں یقین اور کیفیت کے اعتبار سے برابر اضافہ ہوتا رہتاہے۔ اس کی ہدایت جامد چٹان کی طرح نہیں ہوتی بلکہ زندہ درخت کی مانند ہوتی ہے جو برابر بڑھتا چلا جائے۔ جس طرح دنیا کے پیشِ نظر عمل کرنے والا برابر ترقی کرتا رہتا ہے، اسی طرح آخرت کو سامنے رکھ کر عمل کرنے والے کا عمل بھی مسلسل اضافہ پذیر ہے۔ یہ اضافہ پذیری چونکہ آخرت میں ذخیرہ ہورہی ہے۔ اس لیے وہ دنیا میں نظر نہیں آتی۔ مگر قیامت جب پردہ پھاڑ دے گی تو ہر آدمی دیکھ لے گا کہ ہدایت پانے والے کی ہدایت کس طرح بڑھ رہی تھی اور اسی کے ساتھ اس کا عمل بھی۔

أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا

📘 جب آدمی کے پاس دولت اور طاقت کا کوئی حصہ آتا ہے تو اس کے اندر غلط قسم کی خود اعتمادی پیداہوجاتی ہے۔ وہ ایسی روش اختیار کرتاہے جو ا س کی واقعی حیثیت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ وہ ایسی باتیں بولنے لگتا ہے جو اس کو نہیں بولنا چاہیے۔ ایسا ہی ایک واقعہ مکہ میں ہوا۔ عاص بن وائل مکہ کا ایک مشرک سردار تھا۔ حضرت خباب بن الارت کی کچھ رقم اس کے ذمہ باقی تھی۔ انھوںنے رقم کا مطالبہ کیا تو عاص بن وائل نے کہا کہ میںتمھاری رقم اس وقت دوں گا جب کہ تم محمدؐ کا انکار کرو۔ ان کی زبان سے نکلا کہ میں ہر گز محمدؐ کا انکار نہیں کروں گا یہاںتک کہ تم مرو اور پھر پیدا ہو۔ عاص بن وائل نے یہ سن کر کہا کہ جب میں دوبارہ پیداہوں گا (دَعْنِي حَتَّى أَمُوتَ وَأُبْعَثَ)تو وہاں بھی میں مال اور اولاد کا مالک رہوں گا، اس وقت تم مجھ سے اپنی رقم لے لینا۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2091) یہ سب جھوٹی خود اعتمادی کی باتیں ہیں اور جھوٹی خود اعتمادی کسی کے کچھ کام آنے والی نہیں۔

أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا

📘 جب آدمی کے پاس دولت اور طاقت کا کوئی حصہ آتا ہے تو اس کے اندر غلط قسم کی خود اعتمادی پیداہوجاتی ہے۔ وہ ایسی روش اختیار کرتاہے جو ا س کی واقعی حیثیت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ وہ ایسی باتیں بولنے لگتا ہے جو اس کو نہیں بولنا چاہیے۔ ایسا ہی ایک واقعہ مکہ میں ہوا۔ عاص بن وائل مکہ کا ایک مشرک سردار تھا۔ حضرت خباب بن الارت کی کچھ رقم اس کے ذمہ باقی تھی۔ انھوںنے رقم کا مطالبہ کیا تو عاص بن وائل نے کہا کہ میںتمھاری رقم اس وقت دوں گا جب کہ تم محمدؐ کا انکار کرو۔ ان کی زبان سے نکلا کہ میں ہر گز محمدؐ کا انکار نہیں کروں گا یہاںتک کہ تم مرو اور پھر پیدا ہو۔ عاص بن وائل نے یہ سن کر کہا کہ جب میں دوبارہ پیداہوں گا (دَعْنِي حَتَّى أَمُوتَ وَأُبْعَثَ)تو وہاں بھی میں مال اور اولاد کا مالک رہوں گا، اس وقت تم مجھ سے اپنی رقم لے لینا۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2091) یہ سب جھوٹی خود اعتمادی کی باتیں ہیں اور جھوٹی خود اعتمادی کسی کے کچھ کام آنے والی نہیں۔

كَلَّا ۚ سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا

📘 جب آدمی کے پاس دولت اور طاقت کا کوئی حصہ آتا ہے تو اس کے اندر غلط قسم کی خود اعتمادی پیداہوجاتی ہے۔ وہ ایسی روش اختیار کرتاہے جو ا س کی واقعی حیثیت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ وہ ایسی باتیں بولنے لگتا ہے جو اس کو نہیں بولنا چاہیے۔ ایسا ہی ایک واقعہ مکہ میں ہوا۔ عاص بن وائل مکہ کا ایک مشرک سردار تھا۔ حضرت خباب بن الارت کی کچھ رقم اس کے ذمہ باقی تھی۔ انھوںنے رقم کا مطالبہ کیا تو عاص بن وائل نے کہا کہ میںتمھاری رقم اس وقت دوں گا جب کہ تم محمدؐ کا انکار کرو۔ ان کی زبان سے نکلا کہ میں ہر گز محمدؐ کا انکار نہیں کروں گا یہاںتک کہ تم مرو اور پھر پیدا ہو۔ عاص بن وائل نے یہ سن کر کہا کہ جب میں دوبارہ پیداہوں گا (دَعْنِي حَتَّى أَمُوتَ وَأُبْعَثَ)تو وہاں بھی میں مال اور اولاد کا مالک رہوں گا، اس وقت تم مجھ سے اپنی رقم لے لینا۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2091) یہ سب جھوٹی خود اعتمادی کی باتیں ہیں اور جھوٹی خود اعتمادی کسی کے کچھ کام آنے والی نہیں۔

قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا

📘 یہ دعا بیٹے کی صورت میں قبول ہوئی۔ ایک ایسا بیٹا جیسا بیٹا عام طورپر لوگوں کے یہاں پیدا نہیں ہوتا۔ ایک شخص جو آخری حد تک بوڑھا ہوچکا ہو ا ور جس کی بیوی پوری عمر تک بانجھ رہی ہو۔ اس کے یہاں بچہ پیدا ہونا یقیناً ایک انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ اس بنا پر حضرت زکریا کو اس خبر پر خوشی کے ساتھ تعجب بھی ہوا۔ ملنے والی نعمت کے غیر متوقع ہونے کا احساس ان کی زبان سے ان الفاظ میں نکل پڑا کہ میرے یہاںکیسے بچہ پیدا ہوگا جب کہ میں اور میری بیوی دونوںاس اعتبار سے از کار رفتہ ہوچکے ہیں۔

وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا

📘 جب آدمی کے پاس دولت اور طاقت کا کوئی حصہ آتا ہے تو اس کے اندر غلط قسم کی خود اعتمادی پیداہوجاتی ہے۔ وہ ایسی روش اختیار کرتاہے جو ا س کی واقعی حیثیت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ وہ ایسی باتیں بولنے لگتا ہے جو اس کو نہیں بولنا چاہیے۔ ایسا ہی ایک واقعہ مکہ میں ہوا۔ عاص بن وائل مکہ کا ایک مشرک سردار تھا۔ حضرت خباب بن الارت کی کچھ رقم اس کے ذمہ باقی تھی۔ انھوںنے رقم کا مطالبہ کیا تو عاص بن وائل نے کہا کہ میںتمھاری رقم اس وقت دوں گا جب کہ تم محمدؐ کا انکار کرو۔ ان کی زبان سے نکلا کہ میں ہر گز محمدؐ کا انکار نہیں کروں گا یہاںتک کہ تم مرو اور پھر پیدا ہو۔ عاص بن وائل نے یہ سن کر کہا کہ جب میں دوبارہ پیداہوں گا (دَعْنِي حَتَّى أَمُوتَ وَأُبْعَثَ)تو وہاں بھی میں مال اور اولاد کا مالک رہوں گا، اس وقت تم مجھ سے اپنی رقم لے لینا۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2091) یہ سب جھوٹی خود اعتمادی کی باتیں ہیں اور جھوٹی خود اعتمادی کسی کے کچھ کام آنے والی نہیں۔

وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لِيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا

📘 انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں جو چاہے کرے، مگر اس کو اس کی بدعملی کا انجام نہ بھگتنا پڑے۔ اس قسم کی حفاظت کسی کو اللہ سے نہیں مل سکتی تھی۔اس لیے اس نے ایسی ہستیاں تجویز کرلیں جو اللہ کی محبوب ہوں اور اس کی طرف سے اللہ کے یہاں سفارشی بن سکیں۔ مگر یہ سب بے بنیاد قیاسات ہیں، جو کسی کے کچھ کام آنے والے نہیں۔ حتی کہ وہ ہستیاں جن کو آدمی نے شریک فرض کرکے ان کے لیے عبادتی مراسم ادا کيے تھے وہ بھی قیامت کے دن اس سے برأت کریں گی۔ انسان کو ان سے نفرت کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوسکے گا۔

كَلَّا ۚ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا

📘 انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں جو چاہے کرے، مگر اس کو اس کی بدعملی کا انجام نہ بھگتنا پڑے۔ اس قسم کی حفاظت کسی کو اللہ سے نہیں مل سکتی تھی۔اس لیے اس نے ایسی ہستیاں تجویز کرلیں جو اللہ کی محبوب ہوں اور اس کی طرف سے اللہ کے یہاں سفارشی بن سکیں۔ مگر یہ سب بے بنیاد قیاسات ہیں، جو کسی کے کچھ کام آنے والے نہیں۔ حتی کہ وہ ہستیاں جن کو آدمی نے شریک فرض کرکے ان کے لیے عبادتی مراسم ادا کيے تھے وہ بھی قیامت کے دن اس سے برأت کریں گی۔ انسان کو ان سے نفرت کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوسکے گا۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا

📘 آدمی کے سامنے حق اپنی واضح صورت میں آئے مگر وہ اس کو نظر انداز کردے تو ایسا عمل شیطان کو اپنے اندر راہ دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے بعد آدمی کا ذہن بالکل مخالف سمت میں چل پڑتاہے۔ اب ہر دلیل اس کے ذہن میں جاکر الٹ جاتی ہے۔ خدا کی نشانیاں اس کے سامنے آتی ہیں۔ مگر وہ ان کی خود ساختہ توجیہہ کرکے ان کو اپنی سرکشی کی غذا بنا لیتاہے۔ جو شخص جھوٹے سہاروں کو اپنا سہارا سمجھ لے وہ ہمیشہ اسی قسم کی نادانی میں مبتلا ہوجاتاہے۔ مگر جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہ صرف اللہ کو اپنا سہارا سمجھتے ہیں۔ اللہ کا ڈر ان کی نظر میں ان تمام ہستیوں کو حذف کردیتاہے جن کو جھوٹا سہارا بنا کر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آخرت میںاللہ کے باعزت مہمان بنائے جائیںگے۔

فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا

📘 آدمی کے سامنے حق اپنی واضح صورت میں آئے مگر وہ اس کو نظر انداز کردے تو ایسا عمل شیطان کو اپنے اندر راہ دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے بعد آدمی کا ذہن بالکل مخالف سمت میں چل پڑتاہے۔ اب ہر دلیل اس کے ذہن میں جاکر الٹ جاتی ہے۔ خدا کی نشانیاں اس کے سامنے آتی ہیں۔ مگر وہ ان کی خود ساختہ توجیہہ کرکے ان کو اپنی سرکشی کی غذا بنا لیتاہے۔ جو شخص جھوٹے سہاروں کو اپنا سہارا سمجھ لے وہ ہمیشہ اسی قسم کی نادانی میں مبتلا ہوجاتاہے۔ مگر جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہ صرف اللہ کو اپنا سہارا سمجھتے ہیں۔ اللہ کا ڈر ان کی نظر میں ان تمام ہستیوں کو حذف کردیتاہے جن کو جھوٹا سہارا بنا کر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آخرت میںاللہ کے باعزت مہمان بنائے جائیںگے۔

يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَٰنِ وَفْدًا

📘 آدمی کے سامنے حق اپنی واضح صورت میں آئے مگر وہ اس کو نظر انداز کردے تو ایسا عمل شیطان کو اپنے اندر راہ دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے بعد آدمی کا ذہن بالکل مخالف سمت میں چل پڑتاہے۔ اب ہر دلیل اس کے ذہن میں جاکر الٹ جاتی ہے۔ خدا کی نشانیاں اس کے سامنے آتی ہیں۔ مگر وہ ان کی خود ساختہ توجیہہ کرکے ان کو اپنی سرکشی کی غذا بنا لیتاہے۔ جو شخص جھوٹے سہاروں کو اپنا سہارا سمجھ لے وہ ہمیشہ اسی قسم کی نادانی میں مبتلا ہوجاتاہے۔ مگر جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہ صرف اللہ کو اپنا سہارا سمجھتے ہیں۔ اللہ کا ڈر ان کی نظر میں ان تمام ہستیوں کو حذف کردیتاہے جن کو جھوٹا سہارا بنا کر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آخرت میںاللہ کے باعزت مہمان بنائے جائیںگے۔

وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ وِرْدًا

📘 آدمی کے سامنے حق اپنی واضح صورت میں آئے مگر وہ اس کو نظر انداز کردے تو ایسا عمل شیطان کو اپنے اندر راہ دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے بعد آدمی کا ذہن بالکل مخالف سمت میں چل پڑتاہے۔ اب ہر دلیل اس کے ذہن میں جاکر الٹ جاتی ہے۔ خدا کی نشانیاں اس کے سامنے آتی ہیں۔ مگر وہ ان کی خود ساختہ توجیہہ کرکے ان کو اپنی سرکشی کی غذا بنا لیتاہے۔ جو شخص جھوٹے سہاروں کو اپنا سہارا سمجھ لے وہ ہمیشہ اسی قسم کی نادانی میں مبتلا ہوجاتاہے۔ مگر جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہ صرف اللہ کو اپنا سہارا سمجھتے ہیں۔ اللہ کا ڈر ان کی نظر میں ان تمام ہستیوں کو حذف کردیتاہے جن کو جھوٹا سہارا بنا کر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آخرت میںاللہ کے باعزت مہمان بنائے جائیںگے۔

لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا

📘 آدمی کے سامنے حق اپنی واضح صورت میں آئے مگر وہ اس کو نظر انداز کردے تو ایسا عمل شیطان کو اپنے اندر راہ دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے بعد آدمی کا ذہن بالکل مخالف سمت میں چل پڑتاہے۔ اب ہر دلیل اس کے ذہن میں جاکر الٹ جاتی ہے۔ خدا کی نشانیاں اس کے سامنے آتی ہیں۔ مگر وہ ان کی خود ساختہ توجیہہ کرکے ان کو اپنی سرکشی کی غذا بنا لیتاہے۔ جو شخص جھوٹے سہاروں کو اپنا سہارا سمجھ لے وہ ہمیشہ اسی قسم کی نادانی میں مبتلا ہوجاتاہے۔ مگر جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہ صرف اللہ کو اپنا سہارا سمجھتے ہیں۔ اللہ کا ڈر ان کی نظر میں ان تمام ہستیوں کو حذف کردیتاہے جن کو جھوٹا سہارا بنا کر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آخرت میںاللہ کے باعزت مہمان بنائے جائیںگے۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا

📘 خدا کے لیے اولاد ماننا دو وجہوں سے ہوسکتا ہے۔ یا تو یہ کہ خدا کو اپنے لیے مددگار کی ضرورت ہے۔ یا وہ عام انسانوں کی طرح اولاد کی تمنا رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے اپنی اولاد بنائی ہے۔ یہ دونوں باتیں بے بنیاد ہیں۔ زمین وآسمان کی بناوٹ اتنی کامل ہے کہ یہ بالکل ناقابل تصور ہے کہ اس کو بنانے اور چلانے والا خدا ایسا ہو جو انسانوں کی طرح کی کمیاں اپنے اندر رکھتا ہو۔ مخلوقات اپنے خالق کا جو تعارف کرا رہی ہیں اس میں خدا کی اولاد کا تصور کسی طرح چسپاں نہیں ہوتا۔

لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا

📘 خدا کے لیے اولاد ماننا دو وجہوں سے ہوسکتا ہے۔ یا تو یہ کہ خدا کو اپنے لیے مددگار کی ضرورت ہے۔ یا وہ عام انسانوں کی طرح اولاد کی تمنا رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے اپنی اولاد بنائی ہے۔ یہ دونوں باتیں بے بنیاد ہیں۔ زمین وآسمان کی بناوٹ اتنی کامل ہے کہ یہ بالکل ناقابل تصور ہے کہ اس کو بنانے اور چلانے والا خدا ایسا ہو جو انسانوں کی طرح کی کمیاں اپنے اندر رکھتا ہو۔ مخلوقات اپنے خالق کا جو تعارف کرا رہی ہیں اس میں خدا کی اولاد کا تصور کسی طرح چسپاں نہیں ہوتا۔

قَالَ كَذَٰلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا

📘 پہلے انسان کا باپ اور ماں کے بغیر پیدا ہونا جس طرح ایک خدائی معجزہ ہے اسی طرح باپ اور ماں کے ذریعہ بچہ کا پیدا ہونا بھی ایک خدائی معجزہ ہے ۔ خواہ یہ ماں باپ بوڑھے ہوں یا جوان۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خدا ہے جو انسان کو پیدا کرتا ہے ۔اسی نے پہلے پیدا کیا اور وہی آج بھی پیدا کرنے والا ہے۔ دوسری ہر چیز محض ایک ظاہری بہانہ ہے،نہ کہ حقیقی وجہ ۔ حضرت زکریا نے رحمتِ خداوندی کے ملنے کی علامت دریافت کی۔ بتایا گیا کہ تندرست ہونے کے باوجود جب کامل تین رات دن تک لوگوں سے زبان کے ذریعہ بات نہ کرسکو، اس وقت سمجھ لینا کہ حمل قرار پاگیاہے۔ چنانچہ جب وہ وقت آیا تو زبان بات چیت سے رک گئی۔ حضرت زکریا اپنے عبادت خانے سے باہر نکلے اور لوگوں سے اشارہ کے ساتھ کہا کہ صبح و شام اللہ کو یاد کرو اور اس کی عبادت و اطاعت میں مشغول رہو۔ حضرت زکریا کا غالباً یہ معمول تھا کہ وہ روزانہ لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔ جب زبان بولنے سے رک گئی تب بھی آپ مقام اجتماع پر آئے اور لوگوں کو نصیحت کی۔ البتہ چونکہ زبان چل نہیں رہی تھی ،آپ نے اشارہ کے ساتھ لوگوں کو تلقین فرمائی۔

تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا

📘 خدا کے لیے اولاد ماننا دو وجہوں سے ہوسکتا ہے۔ یا تو یہ کہ خدا کو اپنے لیے مددگار کی ضرورت ہے۔ یا وہ عام انسانوں کی طرح اولاد کی تمنا رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے اپنی اولاد بنائی ہے۔ یہ دونوں باتیں بے بنیاد ہیں۔ زمین وآسمان کی بناوٹ اتنی کامل ہے کہ یہ بالکل ناقابل تصور ہے کہ اس کو بنانے اور چلانے والا خدا ایسا ہو جو انسانوں کی طرح کی کمیاں اپنے اندر رکھتا ہو۔ مخلوقات اپنے خالق کا جو تعارف کرا رہی ہیں اس میں خدا کی اولاد کا تصور کسی طرح چسپاں نہیں ہوتا۔

أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا

📘 خدا کے لیے اولاد ماننا دو وجہوں سے ہوسکتا ہے۔ یا تو یہ کہ خدا کو اپنے لیے مددگار کی ضرورت ہے۔ یا وہ عام انسانوں کی طرح اولاد کی تمنا رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے اپنی اولاد بنائی ہے۔ یہ دونوں باتیں بے بنیاد ہیں۔ زمین وآسمان کی بناوٹ اتنی کامل ہے کہ یہ بالکل ناقابل تصور ہے کہ اس کو بنانے اور چلانے والا خدا ایسا ہو جو انسانوں کی طرح کی کمیاں اپنے اندر رکھتا ہو۔ مخلوقات اپنے خالق کا جو تعارف کرا رہی ہیں اس میں خدا کی اولاد کا تصور کسی طرح چسپاں نہیں ہوتا۔

وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا

📘 خدا کے لیے اولاد ماننا دو وجہوں سے ہوسکتا ہے۔ یا تو یہ کہ خدا کو اپنے لیے مددگار کی ضرورت ہے۔ یا وہ عام انسانوں کی طرح اولاد کی تمنا رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے اپنی اولاد بنائی ہے۔ یہ دونوں باتیں بے بنیاد ہیں۔ زمین وآسمان کی بناوٹ اتنی کامل ہے کہ یہ بالکل ناقابل تصور ہے کہ اس کو بنانے اور چلانے والا خدا ایسا ہو جو انسانوں کی طرح کی کمیاں اپنے اندر رکھتا ہو۔ مخلوقات اپنے خالق کا جو تعارف کرا رہی ہیں اس میں خدا کی اولاد کا تصور کسی طرح چسپاں نہیں ہوتا۔

إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا

📘 اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ بے آمیزحق کو لے کر اٹھتے ہیں وہ عوام کے نزدیک مبغوض ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ملاوٹی سچائی پر قائم ہونے والے لوگ بے ملاوٹ والی سچائی کے علم بردار کو وحشت کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ مگر یہ صرف موجودہ دنیا کا معاملہ ہے۔ آخرت کا معاملہ اس کے بالکل مختلف ہوگا۔ وہاں کا سارا ماحول انھیں لوگوں کے ساتھ ہوگا جو بے آمیز حق پر اپنے آپ کو کھڑا کریں۔ آخرت کی دنیا میں عزت اور مقبولیت تمام تر ان اشخاص کے حصہ میں آئے گی جنھوںنے موجودہ دنیا کی عزت ومقبولیت سے بے پروا ہو کر اپنے آپ کو بے آمیز سچائی کے ساتھ وابستہ کیا تھا۔ ملاوٹی سچائی کی دنیا میں ملاوٹی سچائی پر کھڑا ہونے والا عزت پاتا ہے۔ اسی طرح بے آمیز سچائی کی دنیا میں اس کو عزت ملے گی جو بے آمیز سچائی کی زمین پر کھڑا ہوا تھا۔

لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا

📘 اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ بے آمیزحق کو لے کر اٹھتے ہیں وہ عوام کے نزدیک مبغوض ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ملاوٹی سچائی پر قائم ہونے والے لوگ بے ملاوٹ والی سچائی کے علم بردار کو وحشت کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ مگر یہ صرف موجودہ دنیا کا معاملہ ہے۔ آخرت کا معاملہ اس کے بالکل مختلف ہوگا۔ وہاں کا سارا ماحول انھیں لوگوں کے ساتھ ہوگا جو بے آمیز حق پر اپنے آپ کو کھڑا کریں۔ آخرت کی دنیا میں عزت اور مقبولیت تمام تر ان اشخاص کے حصہ میں آئے گی جنھوںنے موجودہ دنیا کی عزت ومقبولیت سے بے پروا ہو کر اپنے آپ کو بے آمیز سچائی کے ساتھ وابستہ کیا تھا۔ ملاوٹی سچائی کی دنیا میں ملاوٹی سچائی پر کھڑا ہونے والا عزت پاتا ہے۔ اسی طرح بے آمیز سچائی کی دنیا میں اس کو عزت ملے گی جو بے آمیز سچائی کی زمین پر کھڑا ہوا تھا۔

وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا

📘 اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ بے آمیزحق کو لے کر اٹھتے ہیں وہ عوام کے نزدیک مبغوض ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ملاوٹی سچائی پر قائم ہونے والے لوگ بے ملاوٹ والی سچائی کے علم بردار کو وحشت کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ مگر یہ صرف موجودہ دنیا کا معاملہ ہے۔ آخرت کا معاملہ اس کے بالکل مختلف ہوگا۔ وہاں کا سارا ماحول انھیں لوگوں کے ساتھ ہوگا جو بے آمیز حق پر اپنے آپ کو کھڑا کریں۔ آخرت کی دنیا میں عزت اور مقبولیت تمام تر ان اشخاص کے حصہ میں آئے گی جنھوںنے موجودہ دنیا کی عزت ومقبولیت سے بے پروا ہو کر اپنے آپ کو بے آمیز سچائی کے ساتھ وابستہ کیا تھا۔ ملاوٹی سچائی کی دنیا میں ملاوٹی سچائی پر کھڑا ہونے والا عزت پاتا ہے۔ اسی طرح بے آمیز سچائی کی دنیا میں اس کو عزت ملے گی جو بے آمیز سچائی کی زمین پر کھڑا ہوا تھا۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا

📘 اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ بے آمیزحق کو لے کر اٹھتے ہیں وہ عوام کے نزدیک مبغوض ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ملاوٹی سچائی پر قائم ہونے والے لوگ بے ملاوٹ والی سچائی کے علم بردار کو وحشت کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ مگر یہ صرف موجودہ دنیا کا معاملہ ہے۔ آخرت کا معاملہ اس کے بالکل مختلف ہوگا۔ وہاں کا سارا ماحول انھیں لوگوں کے ساتھ ہوگا جو بے آمیز حق پر اپنے آپ کو کھڑا کریں۔ آخرت کی دنیا میں عزت اور مقبولیت تمام تر ان اشخاص کے حصہ میں آئے گی جنھوںنے موجودہ دنیا کی عزت ومقبولیت سے بے پروا ہو کر اپنے آپ کو بے آمیز سچائی کے ساتھ وابستہ کیا تھا۔ ملاوٹی سچائی کی دنیا میں ملاوٹی سچائی پر کھڑا ہونے والا عزت پاتا ہے۔ اسی طرح بے آمیز سچائی کی دنیا میں اس کو عزت ملے گی جو بے آمیز سچائی کی زمین پر کھڑا ہوا تھا۔

فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْمًا لُدًّا

📘 خدا کی کتاب انسان کی قابلِ فہم زبان میں ہے۔ اسی کے ساتھ اس کے مضامین میں ان تمام پہلوؤں کی پوری رعایت موجود ہے جو کسی کتاب کو اس قابل بناتے ہیں کہ اس سے رہنمائی لي جا سکے۔ مگر ان سب کے باوجود قرآن انھیں لوگوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنتا ہے جو سنجیدہ ہوں اور جن کو یہ کھٹک ہو کہ وہ حق اور ناحق کو جانیں۔ وہ ناحق سے بچیں اور حق کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ جو لوگ سنجیدگی اور طلب سے خالی ہوں وہ قرآن کی تعلیمات کو سن کر صرف بے معنی بحثیں کریں گے، وہ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ جو لوگ دعوتِ حق کے مخالف بن کر کھڑے ہوتے ہیں وہ ہمیشہ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کا کچھ بگڑنے والا نہیں۔ ان کے گرد و پیش مخالفینِ حق کی تباہی کے واقعات موجود ہوتے ہیں مگر وہ ان سے عبرت نہیںلیتے۔ وہ آخر وقت تک یہی سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہوا وہ صرف دوسروں کے لیے تھا۔ان کے اپنے ساتھ کچھ ہونے والا نہیں۔ مگر اللہ کے قانون میں کوئی استثناء نہیں۔ یہاں ہر آدمی کے ساتھ وہی ہونے والا ہے جو دوسرے کے ساتھ ہوا، اچھوں کے لیے اچھا اور بروں کے لیے برا۔

وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا

📘 خدا کی کتاب انسان کی قابلِ فہم زبان میں ہے۔ اسی کے ساتھ اس کے مضامین میں ان تمام پہلوؤں کی پوری رعایت موجود ہے جو کسی کتاب کو اس قابل بناتے ہیں کہ اس سے رہنمائی لي جا سکے۔ مگر ان سب کے باوجود قرآن انھیں لوگوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنتا ہے جو سنجیدہ ہوں اور جن کو یہ کھٹک ہو کہ وہ حق اور ناحق کو جانیں۔ وہ ناحق سے بچیں اور حق کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ جو لوگ سنجیدگی اور طلب سے خالی ہوں وہ قرآن کی تعلیمات کو سن کر صرف بے معنی بحثیں کریں گے، وہ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ جو لوگ دعوتِ حق کے مخالف بن کر کھڑے ہوتے ہیں وہ ہمیشہ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کا کچھ بگڑنے والا نہیں۔ ان کے گرد و پیش مخالفینِ حق کی تباہی کے واقعات موجود ہوتے ہیں مگر وہ ان سے عبرت نہیںلیتے۔ وہ آخر وقت تک یہی سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہوا وہ صرف دوسروں کے لیے تھا۔ان کے اپنے ساتھ کچھ ہونے والا نہیں۔ مگر اللہ کے قانون میں کوئی استثناء نہیں۔ یہاں ہر آدمی کے ساتھ وہی ہونے والا ہے جو دوسرے کے ساتھ ہوا، اچھوں کے لیے اچھا اور بروں کے لیے برا۔