slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة لقمان

(Luqman) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الم

📘 احسان کا اصل مفہوم ہے کسی کام کو اچھی طرح کرنا۔ محسن کے معنی ہیں اچھی طرح کرنے والا۔ اس دنیا میں کسی کام کے اچھے ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ حقیقت ِ واقعہ کے مطابق ہو۔ اس اعتبار سے محسن وہ شخص ہے جو حقیقت واقعہ کا اعتراف کرے، جس کاعمل وہی ہو جو ہونا چاہيے اور وہ نہ ہو جو نہیں ہونا چاہيے۔ جو لوگ اپنے آپ کو حقیقتِ واقعہ کے مطابق ڈھالنے کا مزاج رکھیں وہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے صداقت آتی ہے تو وہ کسی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوئے بغیر اس کو مان لیتے ہیں۔ وہ فوراً ہی اس کے عملی تقاضے پورے کرنے لگتے ہیں— وہ نمازی بن جاتے ہیں جو خدا کا حق ادا کرنے کی ایک علامت ہے۔ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو گویا مال کے دائرے میں بندوں کاحق ادا کرنا ہے۔ وہ دنیا پرستی کو چھوڑ کر آخرت پسند بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کامیابی اور ناکامیابی کا فیصلہ آخر کار جہاں ہونا چاہيے وہ آخرت ہی ہے۔

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ ۚ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ

📘 کائنات لامتناہی خلا ہے۔ اس کے اندر بے شمار نہایت بڑے بڑے اجرام مسلسل گردش کررہے ہیں۔ ان اجرام کا اس طرح خلا میں گردش کرتے ہوئے قائم رہنا دہشت ناک حد تک عظیم واقعہ ہے۔ پھر ہماری زمین موجودہ کائنات میں ایک انتہائی استثنائی کرہ ہے جس میں اَن گنت انتظامات نے اس کے اوپر انسانی زندگی کو ممکن بنا دیا ہے۔ انھیں انتظامات میں سے چند یہ ہیں — زمین کی سطح پر پہاڑوں کے ابھار سے توازن قائم ہونا۔ پھر پانی اور زندگی اور نباتات جیسی عجیب چیزوں کی زمین پر افراط کے ساتھ موجودگی۔ ایک خدائے برتر کے سوا کوئی نہیں جو اس عظیم نظام کو قائم رکھ سکے۔ پھر انسان کےلیے کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ خدا کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز پرستش بنائے۔

هَٰذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ ۚ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 کائنات لامتناہی خلا ہے۔ اس کے اندر بے شمار نہایت بڑے بڑے اجرام مسلسل گردش کررہے ہیں۔ ان اجرام کا اس طرح خلا میں گردش کرتے ہوئے قائم رہنا دہشت ناک حد تک عظیم واقعہ ہے۔ پھر ہماری زمین موجودہ کائنات میں ایک انتہائی استثنائی کرہ ہے جس میں اَن گنت انتظامات نے اس کے اوپر انسانی زندگی کو ممکن بنا دیا ہے۔ انھیں انتظامات میں سے چند یہ ہیں — زمین کی سطح پر پہاڑوں کے ابھار سے توازن قائم ہونا۔ پھر پانی اور زندگی اور نباتات جیسی عجیب چیزوں کی زمین پر افراط کے ساتھ موجودگی۔ ایک خدائے برتر کے سوا کوئی نہیں جو اس عظیم نظام کو قائم رکھ سکے۔ پھر انسان کےلیے کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ خدا کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز پرستش بنائے۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

📘 لقمان حکیم کی تاریخی حیثیت کے بارے میں ابھی تک قطعی معلومات حاصل نہیں ہوسکی ہیں۔ تاہم وہ ایک دانش مند اور خدا پرست آدمی تھے۔ قرآن بتاتا ہے کہ لقمان حکیم خدا کے ایک شکر گزار بندے تھے۔ اور اپنے بیٹے کو انھوں نے شرک سے بچنے کی تلقین کی۔ یہ دونوںباتیں ایک ہیں۔ توحید اللہ کو اپنا محسن سمجھنے کے احساس سے ابھرتی ہے۔ اور شرک یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا محسن سمجھ لے اور اس کےلیے اپنے احسان مندی کے جذبات نچھاور کرنے لگے۔ جب دینے والا صرف ایک ہے تو شکر گزاری بھی صرف ایک ہی کی ہونی چاہيے۔

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ

📘 لقمان حکیم کی تاریخی حیثیت کے بارے میں ابھی تک قطعی معلومات حاصل نہیں ہوسکی ہیں۔ تاہم وہ ایک دانش مند اور خدا پرست آدمی تھے۔ قرآن بتاتا ہے کہ لقمان حکیم خدا کے ایک شکر گزار بندے تھے۔ اور اپنے بیٹے کو انھوں نے شرک سے بچنے کی تلقین کی۔ یہ دونوںباتیں ایک ہیں۔ توحید اللہ کو اپنا محسن سمجھنے کے احساس سے ابھرتی ہے۔ اور شرک یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا محسن سمجھ لے اور اس کےلیے اپنے احسان مندی کے جذبات نچھاور کرنے لگے۔ جب دینے والا صرف ایک ہے تو شکر گزاری بھی صرف ایک ہی کی ہونی چاہيے۔

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ

📘 خدا کے بعدانسان کے اوپر سب سے زیادہ حق ماں باپ کا ہے۔ البتہ اگر ماں باپ کا حکم خدا کے حکم سے ٹکرائے تو اس وقت خدا کا حکم لینا ہے اور ماں باپ کا حکم چھوڑ دینا ہے۔ تاہم اس وقت بھی یہ ضروری ہے کہ ماں باپ کی خدمت کو بدستور جاری رکھا جائے۔ دو مختلف تقاضوں میں یہ توازن حکمت اسلام کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ اور اسی اعلیٰ حکمت میں تمام اعلیٰ کامیابیوں کا راز چھپا ہوا ہے۔

وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 خدا کے بعدانسان کے اوپر سب سے زیادہ حق ماں باپ کا ہے۔ البتہ اگر ماں باپ کا حکم خدا کے حکم سے ٹکرائے تو اس وقت خدا کا حکم لینا ہے اور ماں باپ کا حکم چھوڑ دینا ہے۔ تاہم اس وقت بھی یہ ضروری ہے کہ ماں باپ کی خدمت کو بدستور جاری رکھا جائے۔ دو مختلف تقاضوں میں یہ توازن حکمت اسلام کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ اور اسی اعلیٰ حکمت میں تمام اعلیٰ کامیابیوں کا راز چھپا ہوا ہے۔

يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ

📘 موجودہ زمانہ میں سائنس کی ترقی نے ثابت کیا ہے کہ آڑ اور فاصلہ اضافی الفاظ ہیں۔ ايکسرے شعائیں جسم کے اندر تک دیکھ لیتی ہیں۔ دور بین اور خورد بین کے ذریعہ وہ چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں جو خالی آنکھ سے نظر نہیں آتیں۔ یہ امکان جس کا تجربہ ہم کو محدود سطح پر ہورہا ہے یہی خدا کے یہاں لامحدود طور پر موجود ہے۔ دین پر خود عمل کرنا یا دوسروں کو دین کی طرف بلانا، دونوں ہی صبر چاہتے ہیں۔ اس کےلیے کرنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے۔ نفس کی خواہش پر چلنے کے بجائے نفس کے خلاف چلنا پڑتا ہے۔ اپنی بڑائی کو محفوظ کرنے کے بجائے اپنی بڑائی کو کھودینا پڑتا ہے۔ دوسروں کی طرف سے پیش آنے والی تکلیفوں کو یک طرفہ طورپر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب حوصلہ مندی کے کام ہیں، اور حوصلہ مند کردار ہی کا دوسرا نام اسلامی کردار ہے۔

يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

📘 موجودہ زمانہ میں سائنس کی ترقی نے ثابت کیا ہے کہ آڑ اور فاصلہ اضافی الفاظ ہیں۔ ايکسرے شعائیں جسم کے اندر تک دیکھ لیتی ہیں۔ دور بین اور خورد بین کے ذریعہ وہ چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں جو خالی آنکھ سے نظر نہیں آتیں۔ یہ امکان جس کا تجربہ ہم کو محدود سطح پر ہورہا ہے یہی خدا کے یہاں لامحدود طور پر موجود ہے۔ دین پر خود عمل کرنا یا دوسروں کو دین کی طرف بلانا، دونوں ہی صبر چاہتے ہیں۔ اس کےلیے کرنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے۔ نفس کی خواہش پر چلنے کے بجائے نفس کے خلاف چلنا پڑتا ہے۔ اپنی بڑائی کو محفوظ کرنے کے بجائے اپنی بڑائی کو کھودینا پڑتا ہے۔ دوسروں کی طرف سے پیش آنے والی تکلیفوں کو یک طرفہ طورپر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب حوصلہ مندی کے کام ہیں، اور حوصلہ مند کردار ہی کا دوسرا نام اسلامی کردار ہے۔

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ

📘 موجودہ زمانہ میں سائنس کی ترقی نے ثابت کیا ہے کہ آڑ اور فاصلہ اضافی الفاظ ہیں۔ ايکسرے شعائیں جسم کے اندر تک دیکھ لیتی ہیں۔ دور بین اور خورد بین کے ذریعہ وہ چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں جو خالی آنکھ سے نظر نہیں آتیں۔ یہ امکان جس کا تجربہ ہم کو محدود سطح پر ہورہا ہے یہی خدا کے یہاں لامحدود طور پر موجود ہے۔ دین پر خود عمل کرنا یا دوسروں کو دین کی طرف بلانا، دونوں ہی صبر چاہتے ہیں۔ اس کےلیے کرنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے۔ نفس کی خواہش پر چلنے کے بجائے نفس کے خلاف چلنا پڑتا ہے۔ اپنی بڑائی کو محفوظ کرنے کے بجائے اپنی بڑائی کو کھودینا پڑتا ہے۔ دوسروں کی طرف سے پیش آنے والی تکلیفوں کو یک طرفہ طورپر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب حوصلہ مندی کے کام ہیں، اور حوصلہ مند کردار ہی کا دوسرا نام اسلامی کردار ہے۔

وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ

📘 موجودہ زمانہ میں سائنس کی ترقی نے ثابت کیا ہے کہ آڑ اور فاصلہ اضافی الفاظ ہیں۔ ايکسرے شعائیں جسم کے اندر تک دیکھ لیتی ہیں۔ دور بین اور خورد بین کے ذریعہ وہ چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں جو خالی آنکھ سے نظر نہیں آتیں۔ یہ امکان جس کا تجربہ ہم کو محدود سطح پر ہورہا ہے یہی خدا کے یہاں لامحدود طور پر موجود ہے۔ دین پر خود عمل کرنا یا دوسروں کو دین کی طرف بلانا، دونوں ہی صبر چاہتے ہیں۔ اس کےلیے کرنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے۔ نفس کی خواہش پر چلنے کے بجائے نفس کے خلاف چلنا پڑتا ہے۔ اپنی بڑائی کو محفوظ کرنے کے بجائے اپنی بڑائی کو کھودینا پڑتا ہے۔ دوسروں کی طرف سے پیش آنے والی تکلیفوں کو یک طرفہ طورپر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب حوصلہ مندی کے کام ہیں، اور حوصلہ مند کردار ہی کا دوسرا نام اسلامی کردار ہے۔

تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ

📘 احسان کا اصل مفہوم ہے کسی کام کو اچھی طرح کرنا۔ محسن کے معنی ہیں اچھی طرح کرنے والا۔ اس دنیا میں کسی کام کے اچھے ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ حقیقت ِ واقعہ کے مطابق ہو۔ اس اعتبار سے محسن وہ شخص ہے جو حقیقت واقعہ کا اعتراف کرے، جس کاعمل وہی ہو جو ہونا چاہيے اور وہ نہ ہو جو نہیں ہونا چاہيے۔ جو لوگ اپنے آپ کو حقیقتِ واقعہ کے مطابق ڈھالنے کا مزاج رکھیں وہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے صداقت آتی ہے تو وہ کسی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوئے بغیر اس کو مان لیتے ہیں۔ وہ فوراً ہی اس کے عملی تقاضے پورے کرنے لگتے ہیں— وہ نمازی بن جاتے ہیں جو خدا کا حق ادا کرنے کی ایک علامت ہے۔ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو گویا مال کے دائرے میں بندوں کاحق ادا کرنا ہے۔ وہ دنیا پرستی کو چھوڑ کر آخرت پسند بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کامیابی اور ناکامیابی کا فیصلہ آخر کار جہاں ہونا چاہيے وہ آخرت ہی ہے۔

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍ

📘 موجودہ دنیا اس طرح بنی ہے کہ وہ انسان کےلیے کامل طورپر سازگار ہے۔ نیز یہ کہ موجودہ دنیا میں ہر وہ چیز افراط کے ساتھ موجود ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ اس کے باوجود انسان کا یہ حال ہے کہ وہ خالق کائنات کا شکر نہیں کرتا۔ وہ بے معنی بحثیں پیدا کرکے چاہتا ہے کہ لوگوں کی توجہ خدا کی طرف سے پھیر دے۔ انسان کے بے راہ ہونے کا سبب اکثر حالات میں یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی عقل کو کام میں نہیں لاتا۔ وہ رواج عام سے ہٹ کر نہیں سوچتا۔ آدمی اگر رواج سے اوپر اٹھ جائے تو خدا کی دی ہوئی عقل خود اس کو صحیح سمت میں رہنمائی کےلیے کافی ہوجائے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِيرِ

📘 موجودہ دنیا اس طرح بنی ہے کہ وہ انسان کےلیے کامل طورپر سازگار ہے۔ نیز یہ کہ موجودہ دنیا میں ہر وہ چیز افراط کے ساتھ موجود ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ اس کے باوجود انسان کا یہ حال ہے کہ وہ خالق کائنات کا شکر نہیں کرتا۔ وہ بے معنی بحثیں پیدا کرکے چاہتا ہے کہ لوگوں کی توجہ خدا کی طرف سے پھیر دے۔ انسان کے بے راہ ہونے کا سبب اکثر حالات میں یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی عقل کو کام میں نہیں لاتا۔ وہ رواج عام سے ہٹ کر نہیں سوچتا۔ آدمی اگر رواج سے اوپر اٹھ جائے تو خدا کی دی ہوئی عقل خود اس کو صحیح سمت میں رہنمائی کےلیے کافی ہوجائے۔

۞ وَمَنْ يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ

📘 ہر آدمی کا ایک رخ ہوتا ہے جدھر وہ اپنے پورے فکری اور عملی وجود کے ساتھ متوجہ رہتا ہے۔ مومن وہ ہے جس کا رخ پوری طرح خدا کی طرف ہو جائے۔ مومنانہ زندگی دوسرے لفظوں میں خدا رخی (God-oriented) زندگی کا نام ہے۔ اور غیر مومنانہ زندگی غیر خدا رخی زندگی کا۔ جس شخص نے خدا کی طرف رخ کیا اس نے صحیح منزل کی طرف رخ کیا۔ وہ یقیناً اچھے انجام کو پہنچے گا، اس کے برعکس، جو شخص خدا سے غافل ہو کر کسی اور طرف متوجہ ہوجائے وہ بے رخ اور بے منزل ہوگیا۔ اس کوآج کی وقتی زندگی میںکچھ فائدے ہوسکتے ہیں۔ مگر آخرت کی مستقل زندگی میںاس کےلیے عذاب کے سوا اور کچھ نہیں۔

وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُهُ ۚ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

📘 ہر آدمی کا ایک رخ ہوتا ہے جدھر وہ اپنے پورے فکری اور عملی وجود کے ساتھ متوجہ رہتا ہے۔ مومن وہ ہے جس کا رخ پوری طرح خدا کی طرف ہو جائے۔ مومنانہ زندگی دوسرے لفظوں میں خدا رخی (God-oriented) زندگی کا نام ہے۔ اور غیر مومنانہ زندگی غیر خدا رخی زندگی کا۔ جس شخص نے خدا کی طرف رخ کیا اس نے صحیح منزل کی طرف رخ کیا۔ وہ یقیناً اچھے انجام کو پہنچے گا، اس کے برعکس، جو شخص خدا سے غافل ہو کر کسی اور طرف متوجہ ہوجائے وہ بے رخ اور بے منزل ہوگیا۔ اس کوآج کی وقتی زندگی میںکچھ فائدے ہوسکتے ہیں۔ مگر آخرت کی مستقل زندگی میںاس کےلیے عذاب کے سوا اور کچھ نہیں۔

نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَىٰ عَذَابٍ غَلِيظٍ

📘 ہر آدمی کا ایک رخ ہوتا ہے جدھر وہ اپنے پورے فکری اور عملی وجود کے ساتھ متوجہ رہتا ہے۔ مومن وہ ہے جس کا رخ پوری طرح خدا کی طرف ہو جائے۔ مومنانہ زندگی دوسرے لفظوں میں خدا رخی (God-oriented) زندگی کا نام ہے۔ اور غیر مومنانہ زندگی غیر خدا رخی زندگی کا۔ جس شخص نے خدا کی طرف رخ کیا اس نے صحیح منزل کی طرف رخ کیا۔ وہ یقیناً اچھے انجام کو پہنچے گا، اس کے برعکس، جو شخص خدا سے غافل ہو کر کسی اور طرف متوجہ ہوجائے وہ بے رخ اور بے منزل ہوگیا۔ اس کوآج کی وقتی زندگی میںکچھ فائدے ہوسکتے ہیں۔ مگر آخرت کی مستقل زندگی میںاس کےلیے عذاب کے سوا اور کچھ نہیں۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 کائنات اتنی وسیع اور اتنی عظیم ہے کہ کوئی بھی شخص ہوش و حواس کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کو خدا کے سوا کسی اور نے بنایاہے۔ مگر اس حقیقت کو ماننے کے باوجود انسان کا حال یہ ہے کہ وہ خدا کے سوا دوسری چیزوں کو عظمت کا مقام دیتاہے۔ یہی وہ غیر معقول رویہ ہے جس کا دوسرا نام شرک ہے۔ خدا کی عظمت اس سے زیادہ ہے کہ وہ لفظوں میں بیان کی جاسکے۔ علوم طبیعی کی تاریخ ہزاروں برس کے دائرہ میں پھیلی ہوئی ہے۔ مگر بے شمار تحقیقات کے باوجود ابھی تک کسی ایک چیز کے بارے میں بھی پوری معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔ انسان کو آج بھی یہ نہیں معلوم کہ خلا میں کتنے ستارے ہیں۔ زمین میں نباتات اور حیوانات کی کتنی قسمیں ہیں۔ درخت کی ایک پتی اور ریت کے ایک ذرّے کی ماہیت کیا ہے۔ سمندر کے اندر کتنے عجائبات چھپے ہوئے ہیں۔ غرض اس دنیا کی کوئی بھی چھوٹی یابڑی چیز ایسی نہیں جس کے بارے میں انسان کو پوری معلومات حاصل ہوچکی ہوں، یہی واقعہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ درختوں کے قلم اور سمندروں کی سیاہی بھی خدا کے اَن گنت کرشموںکو تحریرکرنے کےلیے کافی نہیں۔

لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ

📘 کائنات اتنی وسیع اور اتنی عظیم ہے کہ کوئی بھی شخص ہوش و حواس کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کو خدا کے سوا کسی اور نے بنایاہے۔ مگر اس حقیقت کو ماننے کے باوجود انسان کا حال یہ ہے کہ وہ خدا کے سوا دوسری چیزوں کو عظمت کا مقام دیتاہے۔ یہی وہ غیر معقول رویہ ہے جس کا دوسرا نام شرک ہے۔ خدا کی عظمت اس سے زیادہ ہے کہ وہ لفظوں میں بیان کی جاسکے۔ علوم طبیعی کی تاریخ ہزاروں برس کے دائرہ میں پھیلی ہوئی ہے۔ مگر بے شمار تحقیقات کے باوجود ابھی تک کسی ایک چیز کے بارے میں بھی پوری معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔ انسان کو آج بھی یہ نہیں معلوم کہ خلا میں کتنے ستارے ہیں۔ زمین میں نباتات اور حیوانات کی کتنی قسمیں ہیں۔ درخت کی ایک پتی اور ریت کے ایک ذرّے کی ماہیت کیا ہے۔ سمندر کے اندر کتنے عجائبات چھپے ہوئے ہیں۔ غرض اس دنیا کی کوئی بھی چھوٹی یابڑی چیز ایسی نہیں جس کے بارے میں انسان کو پوری معلومات حاصل ہوچکی ہوں، یہی واقعہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ درختوں کے قلم اور سمندروں کی سیاہی بھی خدا کے اَن گنت کرشموںکو تحریرکرنے کےلیے کافی نہیں۔

وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 کائنات اتنی وسیع اور اتنی عظیم ہے کہ کوئی بھی شخص ہوش و حواس کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کو خدا کے سوا کسی اور نے بنایاہے۔ مگر اس حقیقت کو ماننے کے باوجود انسان کا حال یہ ہے کہ وہ خدا کے سوا دوسری چیزوں کو عظمت کا مقام دیتاہے۔ یہی وہ غیر معقول رویہ ہے جس کا دوسرا نام شرک ہے۔ خدا کی عظمت اس سے زیادہ ہے کہ وہ لفظوں میں بیان کی جاسکے۔ علوم طبیعی کی تاریخ ہزاروں برس کے دائرہ میں پھیلی ہوئی ہے۔ مگر بے شمار تحقیقات کے باوجود ابھی تک کسی ایک چیز کے بارے میں بھی پوری معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔ انسان کو آج بھی یہ نہیں معلوم کہ خلا میں کتنے ستارے ہیں۔ زمین میں نباتات اور حیوانات کی کتنی قسمیں ہیں۔ درخت کی ایک پتی اور ریت کے ایک ذرّے کی ماہیت کیا ہے۔ سمندر کے اندر کتنے عجائبات چھپے ہوئے ہیں۔ غرض اس دنیا کی کوئی بھی چھوٹی یابڑی چیز ایسی نہیں جس کے بارے میں انسان کو پوری معلومات حاصل ہوچکی ہوں، یہی واقعہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ درختوں کے قلم اور سمندروں کی سیاہی بھی خدا کے اَن گنت کرشموںکو تحریرکرنے کےلیے کافی نہیں۔

مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ

📘 انسان اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک زندگی کا وجود میں آنا ممکن ہے۔ اور جب ایک زندگی کا وجود ممکن ہو تو اسی قسم کی دوسری زندگیوں کا وجود میںآنا بدرجۂ اولیٰ ممکن ہوجاتاہے۔ اسی طرح ہر آدمی اس واقعہ کا تجربہ کررہا ہے کہ وہ ایک آواز کو سن سکتا ہے۔ وہ ایک منظر کو دیکھ سکتا ہے پھر جب ایک آواز کا سننا اور ایک منظر کا دیکھنا ممکن ہو تو بہت سی آوازوں کو سننا اور بہت سے مناظر کو دیکھنا ناممکن کیوں ہوگا۔ رات کو دن میں داخل کرنا اور دن کو رات میں داخل کرنا کنایہ کی زبان میںاس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس کو موجودہ زمانہ میں زمین کی محوری گردش کہاجاتا ہے۔ اپنے محور پر کامل صحت کے ساتھ زمین کی مسلسل گردش اور اس طرح کے دوسرے واقعات بتاتے ہیں کہ اس کائنات کا خالق ومالک ناقابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ ایسی حالت میں اس کے سواکون ہے جس کی عبادت کی جائے۔ جس کو اپنی زندگی میں بڑائی کا مقام دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک خدا کو چھوڑ کر جس کو بھی عظمت کا مقام دیا جاتا ہے وہ صرف ایک جھوٹ ہوتاہے۔ کیوں کہ ایک خدا کے سوا کسی کو کوئی عظمت حاصل نہیں۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

📘 انسان اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک زندگی کا وجود میں آنا ممکن ہے۔ اور جب ایک زندگی کا وجود ممکن ہو تو اسی قسم کی دوسری زندگیوں کا وجود میںآنا بدرجۂ اولیٰ ممکن ہوجاتاہے۔ اسی طرح ہر آدمی اس واقعہ کا تجربہ کررہا ہے کہ وہ ایک آواز کو سن سکتا ہے۔ وہ ایک منظر کو دیکھ سکتا ہے پھر جب ایک آواز کا سننا اور ایک منظر کا دیکھنا ممکن ہو تو بہت سی آوازوں کو سننا اور بہت سے مناظر کو دیکھنا ناممکن کیوں ہوگا۔ رات کو دن میں داخل کرنا اور دن کو رات میں داخل کرنا کنایہ کی زبان میںاس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس کو موجودہ زمانہ میں زمین کی محوری گردش کہاجاتا ہے۔ اپنے محور پر کامل صحت کے ساتھ زمین کی مسلسل گردش اور اس طرح کے دوسرے واقعات بتاتے ہیں کہ اس کائنات کا خالق ومالک ناقابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ ایسی حالت میں اس کے سواکون ہے جس کی عبادت کی جائے۔ جس کو اپنی زندگی میں بڑائی کا مقام دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک خدا کو چھوڑ کر جس کو بھی عظمت کا مقام دیا جاتا ہے وہ صرف ایک جھوٹ ہوتاہے۔ کیوں کہ ایک خدا کے سوا کسی کو کوئی عظمت حاصل نہیں۔

هُدًى وَرَحْمَةً لِلْمُحْسِنِينَ

📘 احسان کا اصل مفہوم ہے کسی کام کو اچھی طرح کرنا۔ محسن کے معنی ہیں اچھی طرح کرنے والا۔ اس دنیا میں کسی کام کے اچھے ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ حقیقت ِ واقعہ کے مطابق ہو۔ اس اعتبار سے محسن وہ شخص ہے جو حقیقت واقعہ کا اعتراف کرے، جس کاعمل وہی ہو جو ہونا چاہيے اور وہ نہ ہو جو نہیں ہونا چاہيے۔ جو لوگ اپنے آپ کو حقیقتِ واقعہ کے مطابق ڈھالنے کا مزاج رکھیں وہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے صداقت آتی ہے تو وہ کسی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوئے بغیر اس کو مان لیتے ہیں۔ وہ فوراً ہی اس کے عملی تقاضے پورے کرنے لگتے ہیں— وہ نمازی بن جاتے ہیں جو خدا کا حق ادا کرنے کی ایک علامت ہے۔ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو گویا مال کے دائرے میں بندوں کاحق ادا کرنا ہے۔ وہ دنیا پرستی کو چھوڑ کر آخرت پسند بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کامیابی اور ناکامیابی کا فیصلہ آخر کار جہاں ہونا چاہيے وہ آخرت ہی ہے۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ

📘 انسان اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک زندگی کا وجود میں آنا ممکن ہے۔ اور جب ایک زندگی کا وجود ممکن ہو تو اسی قسم کی دوسری زندگیوں کا وجود میںآنا بدرجۂ اولیٰ ممکن ہوجاتاہے۔ اسی طرح ہر آدمی اس واقعہ کا تجربہ کررہا ہے کہ وہ ایک آواز کو سن سکتا ہے۔ وہ ایک منظر کو دیکھ سکتا ہے پھر جب ایک آواز کا سننا اور ایک منظر کا دیکھنا ممکن ہو تو بہت سی آوازوں کو سننا اور بہت سے مناظر کو دیکھنا ناممکن کیوں ہوگا۔ رات کو دن میں داخل کرنا اور دن کو رات میں داخل کرنا کنایہ کی زبان میںاس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس کو موجودہ زمانہ میں زمین کی محوری گردش کہاجاتا ہے۔ اپنے محور پر کامل صحت کے ساتھ زمین کی مسلسل گردش اور اس طرح کے دوسرے واقعات بتاتے ہیں کہ اس کائنات کا خالق ومالک ناقابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ ایسی حالت میں اس کے سواکون ہے جس کی عبادت کی جائے۔ جس کو اپنی زندگی میں بڑائی کا مقام دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک خدا کو چھوڑ کر جس کو بھی عظمت کا مقام دیا جاتا ہے وہ صرف ایک جھوٹ ہوتاہے۔ کیوں کہ ایک خدا کے سوا کسی کو کوئی عظمت حاصل نہیں۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُمْ مِنْ آيَاتِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

📘 سمندر میں کوئی چیز ڈالی جائے تو وہ فوراً ڈوب جائے گی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پانی کو ایک خاص قانون کا پابند بنا رکھا ہے۔ اس وجہ سے کشتی اور جہاز اتھاہ سمندروں میں نہیں ڈوبتے، وہ انسان کو اور اس کے سامان کو بحفاظت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیتے ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک عظیم نشانی ہے۔ مگر اس نشانی سے صرف صابر اور شاکر انسان سبق لیتے ہیں۔ صابر وہ ہے جو اپنے آپ کو غلط احساسات کے زیر اثر جانے سے روکے۔ اور شاکر وہ ہے جو اپنے باہر پائی جانے والی حقیقت کا اعتراف کرسکے۔ تاہم جب سمندر میں طوفان آتاہے تو آدمی کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کس قدر بے بس ہے۔ اس وقت وہ ہر ایک کی بڑائی کو بھول کر صرف خدا کو پکارنے لگتاہے۔ یہ تجربہ جو کشتی کے مسافروں کو پیش آتاہے اس سے لوگوں کو سبق لینا چاہیے۔ مگر بہت کم لوگ ہیں جو ان واقعات سے سبق لیں اور حق اور عدل کی راہ پر قائم رہیں۔ بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت میں پڑے تو خداکو یاد کرلیا اور مصیبت ہٹی تو دوبارہ سرکش اور احسان فراموش بن گئے۔

وَإِذَا غَشِيَهُمْ مَوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ

📘 سمندر میں کوئی چیز ڈالی جائے تو وہ فوراً ڈوب جائے گی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پانی کو ایک خاص قانون کا پابند بنا رکھا ہے۔ اس وجہ سے کشتی اور جہاز اتھاہ سمندروں میں نہیں ڈوبتے، وہ انسان کو اور اس کے سامان کو بحفاظت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیتے ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک عظیم نشانی ہے۔ مگر اس نشانی سے صرف صابر اور شاکر انسان سبق لیتے ہیں۔ صابر وہ ہے جو اپنے آپ کو غلط احساسات کے زیر اثر جانے سے روکے۔ اور شاکر وہ ہے جو اپنے باہر پائی جانے والی حقیقت کا اعتراف کرسکے۔ تاہم جب سمندر میں طوفان آتاہے تو آدمی کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کس قدر بے بس ہے۔ اس وقت وہ ہر ایک کی بڑائی کو بھول کر صرف خدا کو پکارنے لگتاہے۔ یہ تجربہ جو کشتی کے مسافروں کو پیش آتاہے اس سے لوگوں کو سبق لینا چاہیے۔ مگر بہت کم لوگ ہیں جو ان واقعات سے سبق لیں اور حق اور عدل کی راہ پر قائم رہیں۔ بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت میں پڑے تو خداکو یاد کرلیا اور مصیبت ہٹی تو دوبارہ سرکش اور احسان فراموش بن گئے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ

📘 موجودہ دنیا میںامتحان کی مصلحت سے لوگوں کو آزادی دی گئی ہے۔ اس امتحانی آزادی کو آدمی حقیقی آزادی سمجھ لیتاہے۔ یہی سب سے بڑا دھوکا ہے۔ تمام انسانی برائیاں اسی دھوکہ کی وجہ سے پیداہوتی ہیں۔ یہاں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان جو چاہے کرے کوئی اس کو پکڑنے والا نہیں۔ حالاں کہ آخر کار آدمی کے اوپر اتنا کٹھن وقت آنے والا ہے کہ باپ بیٹا بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے نہ بن سکیں گے۔ ’’قیامت آنے والی ہے تو وہ کب آئے گی‘‘ ایسا سوال کرنا اپنی حد سے تجاوز کرناہے۔ انسان اپنی قریبی اور معلوم دنیا کے بارے میں بھی کل کی خبر نہیں رکھتا۔ مثلاً بارش، پیٹ کا بچہ، معاشی مستقبل، موت، ان چیزوں کے بارے میں کوئی قطعی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ تاہم اس علمی محدودیت کے باوجود انسان ان حقیقتوں کے واقعہ ہونے کو مانتا ہے۔ اسی طرح قیامت کی گھڑی کے بارے میں بھی اس کو مجمل خبر کی بنیاد پر یقین کرنا چاہيے۔

إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

📘 موجودہ دنیا میںامتحان کی مصلحت سے لوگوں کو آزادی دی گئی ہے۔ اس امتحانی آزادی کو آدمی حقیقی آزادی سمجھ لیتاہے۔ یہی سب سے بڑا دھوکا ہے۔ تمام انسانی برائیاں اسی دھوکہ کی وجہ سے پیداہوتی ہیں۔ یہاں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان جو چاہے کرے کوئی اس کو پکڑنے والا نہیں۔ حالاں کہ آخر کار آدمی کے اوپر اتنا کٹھن وقت آنے والا ہے کہ باپ بیٹا بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے نہ بن سکیں گے۔ ’’قیامت آنے والی ہے تو وہ کب آئے گی‘‘ ایسا سوال کرنا اپنی حد سے تجاوز کرناہے۔ انسان اپنی قریبی اور معلوم دنیا کے بارے میں بھی کل کی خبر نہیں رکھتا۔ مثلاً بارش، پیٹ کا بچہ، معاشی مستقبل، موت، ان چیزوں کے بارے میں کوئی قطعی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ تاہم اس علمی محدودیت کے باوجود انسان ان حقیقتوں کے واقعہ ہونے کو مانتا ہے۔ اسی طرح قیامت کی گھڑی کے بارے میں بھی اس کو مجمل خبر کی بنیاد پر یقین کرنا چاہيے۔

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ

📘 احسان کا اصل مفہوم ہے کسی کام کو اچھی طرح کرنا۔ محسن کے معنی ہیں اچھی طرح کرنے والا۔ اس دنیا میں کسی کام کے اچھے ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ حقیقت ِ واقعہ کے مطابق ہو۔ اس اعتبار سے محسن وہ شخص ہے جو حقیقت واقعہ کا اعتراف کرے، جس کاعمل وہی ہو جو ہونا چاہيے اور وہ نہ ہو جو نہیں ہونا چاہيے۔ جو لوگ اپنے آپ کو حقیقتِ واقعہ کے مطابق ڈھالنے کا مزاج رکھیں وہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے صداقت آتی ہے تو وہ کسی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوئے بغیر اس کو مان لیتے ہیں۔ وہ فوراً ہی اس کے عملی تقاضے پورے کرنے لگتے ہیں— وہ نمازی بن جاتے ہیں جو خدا کا حق ادا کرنے کی ایک علامت ہے۔ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو گویا مال کے دائرے میں بندوں کاحق ادا کرنا ہے۔ وہ دنیا پرستی کو چھوڑ کر آخرت پسند بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کامیابی اور ناکامیابی کا فیصلہ آخر کار جہاں ہونا چاہيے وہ آخرت ہی ہے۔

أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

📘 احسان کا اصل مفہوم ہے کسی کام کو اچھی طرح کرنا۔ محسن کے معنی ہیں اچھی طرح کرنے والا۔ اس دنیا میں کسی کام کے اچھے ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ حقیقت ِ واقعہ کے مطابق ہو۔ اس اعتبار سے محسن وہ شخص ہے جو حقیقت واقعہ کا اعتراف کرے، جس کاعمل وہی ہو جو ہونا چاہيے اور وہ نہ ہو جو نہیں ہونا چاہيے۔ جو لوگ اپنے آپ کو حقیقتِ واقعہ کے مطابق ڈھالنے کا مزاج رکھیں وہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے صداقت آتی ہے تو وہ کسی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوئے بغیر اس کو مان لیتے ہیں۔ وہ فوراً ہی اس کے عملی تقاضے پورے کرنے لگتے ہیں— وہ نمازی بن جاتے ہیں جو خدا کا حق ادا کرنے کی ایک علامت ہے۔ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو گویا مال کے دائرے میں بندوں کاحق ادا کرنا ہے۔ وہ دنیا پرستی کو چھوڑ کر آخرت پسند بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کامیابی اور ناکامیابی کا فیصلہ آخر کار جہاں ہونا چاہيے وہ آخرت ہی ہے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ

📘 باتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک نصیحت اور دوسري تفریح۔ نصیحت کی بات ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔ وہ آدمی سے کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے کےلیے کہتی ہے۔ اس ليے ہر دور میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نصیحت کی باتوں سے دلچسپی لیں۔ انسان کا عام مزاج ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ تفریح کی باتوں کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ وہ نصیحت کی ’’کتاب‘‘ کے مقابلہ میں اس کتاب کا زیادہ خریدار بنتا ہے جس میں اس کےلیے ذہنی تفریح کا سامان ہو اور وہ اس سے کچھ کرنے کےلیے نہ کہے۔ جس شخص کا حال یہ ہو کہ وہ اپنی ذات سے آگے بڑھ کر دوسروں کو اس قسم کی تفریحی باتوں میں مشغول کرنے لگے وہ زیادہ بڑا مجرم ہے۔ کیوں کہ وہ اس ذہنی بے راہ روی کا قائد بنا۔ اس نے لوگوں کے ذہن کو بے فائدہ باتوں میں مشغول کرکے انھیں اس قابل نہ رکھا کہ وہ زیادہ سنجیدہ باتوں میں دھیان دے سکیں۔ سب سے بری نفسيات گھمنڈ کی نفسیات ہے۔ جو شخص گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا ہو اس کے سامنے حق آئے گا مگر وہ اپنے کو بلند سمجھنے کی وجہ سے اس کا اعتراف نہیں کرے گا۔ وہ اس کو حقارت کے ساتھ نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائے گا۔ اس کے برعکس معاملہ اہلِ ایمان کا ہے۔ ان کا نصیحت پسند مزاج انھیں مجبور کرتاہے کہ وہ سچائی کا اعتراف کریں، وہ اپنی زندگی کو تمام تر اس کے حوالہ کردیں۔

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

📘 باتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک نصیحت اور دوسري تفریح۔ نصیحت کی بات ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔ وہ آدمی سے کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے کےلیے کہتی ہے۔ اس ليے ہر دور میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نصیحت کی باتوں سے دلچسپی لیں۔ انسان کا عام مزاج ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ تفریح کی باتوں کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ وہ نصیحت کی ’’کتاب‘‘ کے مقابلہ میں اس کتاب کا زیادہ خریدار بنتا ہے جس میں اس کےلیے ذہنی تفریح کا سامان ہو اور وہ اس سے کچھ کرنے کےلیے نہ کہے۔ جس شخص کا حال یہ ہو کہ وہ اپنی ذات سے آگے بڑھ کر دوسروں کو اس قسم کی تفریحی باتوں میں مشغول کرنے لگے وہ زیادہ بڑا مجرم ہے۔ کیوں کہ وہ اس ذہنی بے راہ روی کا قائد بنا۔ اس نے لوگوں کے ذہن کو بے فائدہ باتوں میں مشغول کرکے انھیں اس قابل نہ رکھا کہ وہ زیادہ سنجیدہ باتوں میں دھیان دے سکیں۔ سب سے بری نفسيات گھمنڈ کی نفسیات ہے۔ جو شخص گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا ہو اس کے سامنے حق آئے گا مگر وہ اپنے کو بلند سمجھنے کی وجہ سے اس کا اعتراف نہیں کرے گا۔ وہ اس کو حقارت کے ساتھ نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائے گا۔ اس کے برعکس معاملہ اہلِ ایمان کا ہے۔ ان کا نصیحت پسند مزاج انھیں مجبور کرتاہے کہ وہ سچائی کا اعتراف کریں، وہ اپنی زندگی کو تمام تر اس کے حوالہ کردیں۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيمِ

📘 باتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک نصیحت اور دوسري تفریح۔ نصیحت کی بات ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔ وہ آدمی سے کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے کےلیے کہتی ہے۔ اس ليے ہر دور میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نصیحت کی باتوں سے دلچسپی لیں۔ انسان کا عام مزاج ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ تفریح کی باتوں کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ وہ نصیحت کی ’’کتاب‘‘ کے مقابلہ میں اس کتاب کا زیادہ خریدار بنتا ہے جس میں اس کےلیے ذہنی تفریح کا سامان ہو اور وہ اس سے کچھ کرنے کےلیے نہ کہے۔ جس شخص کا حال یہ ہو کہ وہ اپنی ذات سے آگے بڑھ کر دوسروں کو اس قسم کی تفریحی باتوں میں مشغول کرنے لگے وہ زیادہ بڑا مجرم ہے۔ کیوں کہ وہ اس ذہنی بے راہ روی کا قائد بنا۔ اس نے لوگوں کے ذہن کو بے فائدہ باتوں میں مشغول کرکے انھیں اس قابل نہ رکھا کہ وہ زیادہ سنجیدہ باتوں میں دھیان دے سکیں۔ سب سے بری نفسيات گھمنڈ کی نفسیات ہے۔ جو شخص گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا ہو اس کے سامنے حق آئے گا مگر وہ اپنے کو بلند سمجھنے کی وجہ سے اس کا اعتراف نہیں کرے گا۔ وہ اس کو حقارت کے ساتھ نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائے گا۔ اس کے برعکس معاملہ اہلِ ایمان کا ہے۔ ان کا نصیحت پسند مزاج انھیں مجبور کرتاہے کہ وہ سچائی کا اعتراف کریں، وہ اپنی زندگی کو تمام تر اس کے حوالہ کردیں۔

خَالِدِينَ فِيهَا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 باتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک نصیحت اور دوسري تفریح۔ نصیحت کی بات ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔ وہ آدمی سے کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے کےلیے کہتی ہے۔ اس ليے ہر دور میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نصیحت کی باتوں سے دلچسپی لیں۔ انسان کا عام مزاج ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ تفریح کی باتوں کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ وہ نصیحت کی ’’کتاب‘‘ کے مقابلہ میں اس کتاب کا زیادہ خریدار بنتا ہے جس میں اس کےلیے ذہنی تفریح کا سامان ہو اور وہ اس سے کچھ کرنے کےلیے نہ کہے۔ جس شخص کا حال یہ ہو کہ وہ اپنی ذات سے آگے بڑھ کر دوسروں کو اس قسم کی تفریحی باتوں میں مشغول کرنے لگے وہ زیادہ بڑا مجرم ہے۔ کیوں کہ وہ اس ذہنی بے راہ روی کا قائد بنا۔ اس نے لوگوں کے ذہن کو بے فائدہ باتوں میں مشغول کرکے انھیں اس قابل نہ رکھا کہ وہ زیادہ سنجیدہ باتوں میں دھیان دے سکیں۔ سب سے بری نفسيات گھمنڈ کی نفسیات ہے۔ جو شخص گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا ہو اس کے سامنے حق آئے گا مگر وہ اپنے کو بلند سمجھنے کی وجہ سے اس کا اعتراف نہیں کرے گا۔ وہ اس کو حقارت کے ساتھ نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائے گا۔ اس کے برعکس معاملہ اہلِ ایمان کا ہے۔ ان کا نصیحت پسند مزاج انھیں مجبور کرتاہے کہ وہ سچائی کا اعتراف کریں، وہ اپنی زندگی کو تمام تر اس کے حوالہ کردیں۔