slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة فصلت

(Fussilat) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ حم

📘 پیغمبر کی دعوت بے آمیز دین کی دعوت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس لوگوں کا حال یہ ہے کہ اکثر وہ اپنے اکابر کے دین پر ہوتے ہیں۔ ان کے اوپر ان کی قومی روایات اور زمانی افکار کا غلبہ ہوتاہے۔ اس بنا پر پیغمبر کا بے آمیز دین ان کے فکری ڈھانچہ میں نہیں بیٹھتا۔ وہ ان کو اجنبی دکھائی دیتاہے۔ یہ فرق پیغمبر اور لوگوں کے درمیان ایک ذہنی دیوار کی طرح حائل ہوجاتا ہے۔ لوگ پیغمبر کی دعوت کو اس کے اصل روپ میں دیکھ نہیں پاتے۔ اس ليے وہ اس کو ماننے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔ پیغمبر کی دعوت بجائے خود انتہائی مدلّل ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی بات ہے ۔ مگر مذکورہ ذہنی دیوار اتنی طاقت ور ثابت ہوتی ہے کہ انسان اس سے نکل کر پیغمبر کی دعوت کو دیکھ نہیں پاتا۔ خدا انسان کےلیے اپنی رحمت کے دروازے کھولتا ہے مگر انسان اس کے اندر داخل نہیں ہوتا۔

وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ

📘 دعوت حق کا انکار خدا کے نزدیک سب سے بڑا جرم ہے۔ یہ انکار اگر پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں ہو تو اس کی سزا اسی موجودہ دنیا سے شروع ہوجاتی ہے، جیسا کہ عاد و ثمود وغیرہ قوموں کے ساتھ پیش آیا۔اور اگر عام داعیوں کا معاملہ ہو تو ان کے انکار کا انجام آخرت میں سامنے آئے گا۔ دعوت حق کا اصل نکتہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ انسان خدا کا عبادت گزار بنے۔ وہ غیراللہ کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ سے اپنے خوف و محبت کے جذبات وابستہ کرے۔ مگر ہر دور میں ایسا ہو ا کہ پیغمبر کی شخصیت ان کے معاصرین کو اس سے کم نظر آئی کہ خدا انہیں اپنے پیغام کی پیغام رسانی کےلیے چنے۔ اس ليے انھوں نے پیغمبروں کو ماننے سے انکار کردیا۔

ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ

📘 دعوت حق کا انکار خدا کے نزدیک سب سے بڑا جرم ہے۔ یہ انکار اگر پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں ہو تو اس کی سزا اسی موجودہ دنیا سے شروع ہوجاتی ہے، جیسا کہ عاد و ثمود وغیرہ قوموں کے ساتھ پیش آیا۔اور اگر عام داعیوں کا معاملہ ہو تو ان کے انکار کا انجام آخرت میں سامنے آئے گا۔ دعوت حق کا اصل نکتہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ انسان خدا کا عبادت گزار بنے۔ وہ غیراللہ کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ سے اپنے خوف و محبت کے جذبات وابستہ کرے۔ مگر ہر دور میں ایسا ہو ا کہ پیغمبر کی شخصیت ان کے معاصرین کو اس سے کم نظر آئی کہ خدا انہیں اپنے پیغام کی پیغام رسانی کےلیے چنے۔ اس ليے انھوں نے پیغمبروں کو ماننے سے انکار کردیا۔

فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

📘 دعوت حق کا انکار خدا کے نزدیک سب سے بڑا جرم ہے۔ یہ انکار اگر پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں ہو تو اس کی سزا اسی موجودہ دنیا سے شروع ہوجاتی ہے، جیسا کہ عاد و ثمود وغیرہ قوموں کے ساتھ پیش آیا۔اور اگر عام داعیوں کا معاملہ ہو تو ان کے انکار کا انجام آخرت میں سامنے آئے گا۔ دعوت حق کا اصل نکتہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ انسان خدا کا عبادت گزار بنے۔ وہ غیراللہ کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ سے اپنے خوف و محبت کے جذبات وابستہ کرے۔ مگر ہر دور میں ایسا ہو ا کہ پیغمبر کی شخصیت ان کے معاصرین کو اس سے کم نظر آئی کہ خدا انہیں اپنے پیغام کی پیغام رسانی کےلیے چنے۔ اس ليے انھوں نے پیغمبروں کو ماننے سے انکار کردیا۔

فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ

📘 دعوت حق کا انکار خدا کے نزدیک سب سے بڑا جرم ہے۔ یہ انکار اگر پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں ہو تو اس کی سزا اسی موجودہ دنیا سے شروع ہوجاتی ہے، جیسا کہ عاد و ثمود وغیرہ قوموں کے ساتھ پیش آیا۔اور اگر عام داعیوں کا معاملہ ہو تو ان کے انکار کا انجام آخرت میں سامنے آئے گا۔ دعوت حق کا اصل نکتہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ انسان خدا کا عبادت گزار بنے۔ وہ غیراللہ کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ سے اپنے خوف و محبت کے جذبات وابستہ کرے۔ مگر ہر دور میں ایسا ہو ا کہ پیغمبر کی شخصیت ان کے معاصرین کو اس سے کم نظر آئی کہ خدا انہیں اپنے پیغام کی پیغام رسانی کےلیے چنے۔ اس ليے انھوں نے پیغمبروں کو ماننے سے انکار کردیا۔

إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۖ قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ

📘 دعوت حق کا انکار خدا کے نزدیک سب سے بڑا جرم ہے۔ یہ انکار اگر پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں ہو تو اس کی سزا اسی موجودہ دنیا سے شروع ہوجاتی ہے، جیسا کہ عاد و ثمود وغیرہ قوموں کے ساتھ پیش آیا۔اور اگر عام داعیوں کا معاملہ ہو تو ان کے انکار کا انجام آخرت میں سامنے آئے گا۔ دعوت حق کا اصل نکتہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ انسان خدا کا عبادت گزار بنے۔ وہ غیراللہ کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ سے اپنے خوف و محبت کے جذبات وابستہ کرے۔ مگر ہر دور میں ایسا ہو ا کہ پیغمبر کی شخصیت ان کے معاصرین کو اس سے کم نظر آئی کہ خدا انہیں اپنے پیغام کی پیغام رسانی کےلیے چنے۔ اس ليے انھوں نے پیغمبروں کو ماننے سے انکار کردیا۔

فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ

📘 آدمی ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں زمین وآسمان کی عظمتیں اس کی بڑائی کی نفی کررہی ہیں۔ جہاں موت کا واقعہ ہر روز انسان کو حقیر اور بے زور ثابت کررہا ہے۔ اس کے باوجود آدمی بڑا بنتا ہے۔ پھر بھی وہ اس گمان میں رہتا ہے کہ وہ زور والا ہے۔ خدابار بار حقیقت کا اعلان کراتا ہے۔ وہ بار بار انسان کی بڑائی کے دعوے کو باطل ثابت کررہا ہے۔ مگر کوئی اس وقت تک نصیحت نہیں لیتا جب تک اسے مٹا نہ دیا جائے۔ عاد وثمود اور دوسری قوموں کے کھنڈر اسی کی مثال ہیں۔ انھوں نے جن دنوں کو اپنے ليے مبارک سمجھ رکھا تھا وہی دن خدا کے حکم سے ان کےلیے منحوس دن بن کررہ گئے۔

فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَحِسَاتٍ لِنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنْصَرُونَ

📘 آدمی ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں زمین وآسمان کی عظمتیں اس کی بڑائی کی نفی کررہی ہیں۔ جہاں موت کا واقعہ ہر روز انسان کو حقیر اور بے زور ثابت کررہا ہے۔ اس کے باوجود آدمی بڑا بنتا ہے۔ پھر بھی وہ اس گمان میں رہتا ہے کہ وہ زور والا ہے۔ خدابار بار حقیقت کا اعلان کراتا ہے۔ وہ بار بار انسان کی بڑائی کے دعوے کو باطل ثابت کررہا ہے۔ مگر کوئی اس وقت تک نصیحت نہیں لیتا جب تک اسے مٹا نہ دیا جائے۔ عاد وثمود اور دوسری قوموں کے کھنڈر اسی کی مثال ہیں۔ انھوں نے جن دنوں کو اپنے ليے مبارک سمجھ رکھا تھا وہی دن خدا کے حکم سے ان کےلیے منحوس دن بن کررہ گئے۔

وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

📘 آدمی ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں زمین وآسمان کی عظمتیں اس کی بڑائی کی نفی کررہی ہیں۔ جہاں موت کا واقعہ ہر روز انسان کو حقیر اور بے زور ثابت کررہا ہے۔ اس کے باوجود آدمی بڑا بنتا ہے۔ پھر بھی وہ اس گمان میں رہتا ہے کہ وہ زور والا ہے۔ خدابار بار حقیقت کا اعلان کراتا ہے۔ وہ بار بار انسان کی بڑائی کے دعوے کو باطل ثابت کررہا ہے۔ مگر کوئی اس وقت تک نصیحت نہیں لیتا جب تک اسے مٹا نہ دیا جائے۔ عاد وثمود اور دوسری قوموں کے کھنڈر اسی کی مثال ہیں۔ انھوں نے جن دنوں کو اپنے ليے مبارک سمجھ رکھا تھا وہی دن خدا کے حکم سے ان کےلیے منحوس دن بن کررہ گئے۔

وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ

📘 آدمی ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں زمین وآسمان کی عظمتیں اس کی بڑائی کی نفی کررہی ہیں۔ جہاں موت کا واقعہ ہر روز انسان کو حقیر اور بے زور ثابت کررہا ہے۔ اس کے باوجود آدمی بڑا بنتا ہے۔ پھر بھی وہ اس گمان میں رہتا ہے کہ وہ زور والا ہے۔ خدابار بار حقیقت کا اعلان کراتا ہے۔ وہ بار بار انسان کی بڑائی کے دعوے کو باطل ثابت کررہا ہے۔ مگر کوئی اس وقت تک نصیحت نہیں لیتا جب تک اسے مٹا نہ دیا جائے۔ عاد وثمود اور دوسری قوموں کے کھنڈر اسی کی مثال ہیں۔ انھوں نے جن دنوں کو اپنے ليے مبارک سمجھ رکھا تھا وہی دن خدا کے حکم سے ان کےلیے منحوس دن بن کررہ گئے۔

وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ

📘 قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان کی کھال اور اس کے اعضاء اس کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ موجودہ زمانہ میں نطقِ جلدی (skin speech) کے نظریے نے اس کو عملی طور پر ثابت کردیاہے۔ اب یہ معلوم کیاگیا ہے کہ انسان کا ہر بول اس کے جسم کی کھال پر مرتسم ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کو دوبارہ اسی طرح سنا جاسکتا ہے جس طرح مشینی طورپر ریکارڈ کی ہوئی آواز کو دوبارہ سنا جاتاہے۔خدا چونکہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا اس ليے انسان سمجھتا ہے کہ خدا اس کو دیکھتا نہیں ہے۔ یہی غلط فہمی آدمی کے اندر سرکشی پیدا کرتی ہے۔ اگر آدمی جان لے کہ خدا ہر لمحہ اس کو دیکھ رہا ہے تو اس کا سارا رویہ بالکل بدل جائے۔آخرت میں خدا کے سامنے آنے کے بعد آدمی اطاعت کا اظہار کرے گا۔ مگر وہ اس کےلیے بے فائدہ ہوگا۔ کیونکہ اطاعت حالت غیب میں قابل اعتبار ہے، نہ کہ حالت شہود میں۔

تَنْزِيلٌ مِنَ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

📘 پیغمبر کی دعوت بے آمیز دین کی دعوت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس لوگوں کا حال یہ ہے کہ اکثر وہ اپنے اکابر کے دین پر ہوتے ہیں۔ ان کے اوپر ان کی قومی روایات اور زمانی افکار کا غلبہ ہوتاہے۔ اس بنا پر پیغمبر کا بے آمیز دین ان کے فکری ڈھانچہ میں نہیں بیٹھتا۔ وہ ان کو اجنبی دکھائی دیتاہے۔ یہ فرق پیغمبر اور لوگوں کے درمیان ایک ذہنی دیوار کی طرح حائل ہوجاتا ہے۔ لوگ پیغمبر کی دعوت کو اس کے اصل روپ میں دیکھ نہیں پاتے۔ اس ليے وہ اس کو ماننے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔ پیغمبر کی دعوت بجائے خود انتہائی مدلّل ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی بات ہے ۔ مگر مذکورہ ذہنی دیوار اتنی طاقت ور ثابت ہوتی ہے کہ انسان اس سے نکل کر پیغمبر کی دعوت کو دیکھ نہیں پاتا۔ خدا انسان کےلیے اپنی رحمت کے دروازے کھولتا ہے مگر انسان اس کے اندر داخل نہیں ہوتا۔

حَتَّىٰ إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان کی کھال اور اس کے اعضاء اس کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ موجودہ زمانہ میں نطقِ جلدی (skin speech) کے نظریے نے اس کو عملی طور پر ثابت کردیاہے۔ اب یہ معلوم کیاگیا ہے کہ انسان کا ہر بول اس کے جسم کی کھال پر مرتسم ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کو دوبارہ اسی طرح سنا جاسکتا ہے جس طرح مشینی طورپر ریکارڈ کی ہوئی آواز کو دوبارہ سنا جاتاہے۔خدا چونکہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا اس ليے انسان سمجھتا ہے کہ خدا اس کو دیکھتا نہیں ہے۔ یہی غلط فہمی آدمی کے اندر سرکشی پیدا کرتی ہے۔ اگر آدمی جان لے کہ خدا ہر لمحہ اس کو دیکھ رہا ہے تو اس کا سارا رویہ بالکل بدل جائے۔آخرت میں خدا کے سامنے آنے کے بعد آدمی اطاعت کا اظہار کرے گا۔ مگر وہ اس کےلیے بے فائدہ ہوگا۔ کیونکہ اطاعت حالت غیب میں قابل اعتبار ہے، نہ کہ حالت شہود میں۔

وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

📘 قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان کی کھال اور اس کے اعضاء اس کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ موجودہ زمانہ میں نطقِ جلدی (skin speech) کے نظریے نے اس کو عملی طور پر ثابت کردیاہے۔ اب یہ معلوم کیاگیا ہے کہ انسان کا ہر بول اس کے جسم کی کھال پر مرتسم ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کو دوبارہ اسی طرح سنا جاسکتا ہے جس طرح مشینی طورپر ریکارڈ کی ہوئی آواز کو دوبارہ سنا جاتاہے۔خدا چونکہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا اس ليے انسان سمجھتا ہے کہ خدا اس کو دیکھتا نہیں ہے۔ یہی غلط فہمی آدمی کے اندر سرکشی پیدا کرتی ہے۔ اگر آدمی جان لے کہ خدا ہر لمحہ اس کو دیکھ رہا ہے تو اس کا سارا رویہ بالکل بدل جائے۔آخرت میں خدا کے سامنے آنے کے بعد آدمی اطاعت کا اظہار کرے گا۔ مگر وہ اس کےلیے بے فائدہ ہوگا۔ کیونکہ اطاعت حالت غیب میں قابل اعتبار ہے، نہ کہ حالت شہود میں۔

وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَٰكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ

📘 قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان کی کھال اور اس کے اعضاء اس کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ موجودہ زمانہ میں نطقِ جلدی (skin speech) کے نظریے نے اس کو عملی طور پر ثابت کردیاہے۔ اب یہ معلوم کیاگیا ہے کہ انسان کا ہر بول اس کے جسم کی کھال پر مرتسم ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کو دوبارہ اسی طرح سنا جاسکتا ہے جس طرح مشینی طورپر ریکارڈ کی ہوئی آواز کو دوبارہ سنا جاتاہے۔خدا چونکہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا اس ليے انسان سمجھتا ہے کہ خدا اس کو دیکھتا نہیں ہے۔ یہی غلط فہمی آدمی کے اندر سرکشی پیدا کرتی ہے۔ اگر آدمی جان لے کہ خدا ہر لمحہ اس کو دیکھ رہا ہے تو اس کا سارا رویہ بالکل بدل جائے۔آخرت میں خدا کے سامنے آنے کے بعد آدمی اطاعت کا اظہار کرے گا۔ مگر وہ اس کےلیے بے فائدہ ہوگا۔ کیونکہ اطاعت حالت غیب میں قابل اعتبار ہے، نہ کہ حالت شہود میں۔

وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ

📘 قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان کی کھال اور اس کے اعضاء اس کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ موجودہ زمانہ میں نطقِ جلدی (skin speech) کے نظریے نے اس کو عملی طور پر ثابت کردیاہے۔ اب یہ معلوم کیاگیا ہے کہ انسان کا ہر بول اس کے جسم کی کھال پر مرتسم ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کو دوبارہ اسی طرح سنا جاسکتا ہے جس طرح مشینی طورپر ریکارڈ کی ہوئی آواز کو دوبارہ سنا جاتاہے۔خدا چونکہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا اس ليے انسان سمجھتا ہے کہ خدا اس کو دیکھتا نہیں ہے۔ یہی غلط فہمی آدمی کے اندر سرکشی پیدا کرتی ہے۔ اگر آدمی جان لے کہ خدا ہر لمحہ اس کو دیکھ رہا ہے تو اس کا سارا رویہ بالکل بدل جائے۔آخرت میں خدا کے سامنے آنے کے بعد آدمی اطاعت کا اظہار کرے گا۔ مگر وہ اس کےلیے بے فائدہ ہوگا۔ کیونکہ اطاعت حالت غیب میں قابل اعتبار ہے، نہ کہ حالت شہود میں۔

فَإِنْ يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ ۖ وَإِنْ يَسْتَعْتِبُوا فَمَا هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ

📘 قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان کی کھال اور اس کے اعضاء اس کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ موجودہ زمانہ میں نطقِ جلدی (skin speech) کے نظریے نے اس کو عملی طور پر ثابت کردیاہے۔ اب یہ معلوم کیاگیا ہے کہ انسان کا ہر بول اس کے جسم کی کھال پر مرتسم ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کو دوبارہ اسی طرح سنا جاسکتا ہے جس طرح مشینی طورپر ریکارڈ کی ہوئی آواز کو دوبارہ سنا جاتاہے۔خدا چونکہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا اس ليے انسان سمجھتا ہے کہ خدا اس کو دیکھتا نہیں ہے۔ یہی غلط فہمی آدمی کے اندر سرکشی پیدا کرتی ہے۔ اگر آدمی جان لے کہ خدا ہر لمحہ اس کو دیکھ رہا ہے تو اس کا سارا رویہ بالکل بدل جائے۔آخرت میں خدا کے سامنے آنے کے بعد آدمی اطاعت کا اظہار کرے گا۔ مگر وہ اس کےلیے بے فائدہ ہوگا۔ کیونکہ اطاعت حالت غیب میں قابل اعتبار ہے، نہ کہ حالت شہود میں۔

۞ وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُمْ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ

📘 موجودہ دنیامیں ایک طرف خدا کے داعی ہیں جو انسان کو حق کی نصیحت کرتے ہیں۔ دوسری طرف استحصال پسند لیڈر ہیں جو خوشنما باتیں کرکے انسان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں جو لوگ خدا کی نصیحت پر توجہ نہ دیں وہ ان لیڈروں کی باتوں میں آکر غیر حقیقی راستوں میں دوڑ پڑتے ہیں۔ یہ استحصال پسند لیڈر لوگوں کو ان کے ماضی کا حسین خواب دکھاتے ہیں۔ وہ ان کے سامنے ان کے مستقبل کا خوبصورت نقشہ پیش کرتے ہیں۔ جو لوگ ایسے لیڈروں کے جھوٹے الفاظ سے دھوکا کھا کر ان کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں ان کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ ہمیشہ کے لیے تباہ ہو کر رہ جائیں۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ

📘 وَٱلْغَوْا۟ فِيهِ کی تشریح حضرت عبد اللہ بن عباس نے عَيِّبُوهُ (تفسیر ابن کثیر، جلد7، صفحہ 174 )کے لفظ سے کی ہے۔ یعنی قرآن اور صاحب قرآن میں عیب لگاؤ اور اس طرح لوگوں کو اس سے دور کردو۔ کسی بات یا کسی شخص کے بارے میں اظہار رائے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تنقید، دوسرا تعییب۔ تنقید کا مطلب ہے حقائق کی بنیاد پر زیر بحث امر کا تجزیہ کرنا۔ اس کے برعکس، تعییب یہ ہے کہ آدمی زیر بحث مسئلہ پر دلائل پیش نہ کرے۔ وہ صرف اس میں عیب نکالے وہ اس پر الزام لگا کر اس کو مطعون کرے۔ تنقید کا طریقہ سراسر جائز طریقہ ہے۔ مگر تعییب کا طریقہ اہلِ کفر کا طریقہ ہے۔ مزید یہ کہ تعییب کا طریقہ خدا کی نشانیوں کا انکار ہے۔ کیوں کہ ہر سچی دلیل خدا کی ایک نشانی ہے۔ جو لوگ دلیل کے آگے نہ جھکیں اور عیب جوئی اور الزام تراشی کا طریقہ اختیار کرکے اس کو دبانا چاہیں وہ گویا خدا کی نشانی کا انکار کررہے ہیں۔ ایسے لوگ آخرت میں نہایت سخت سزا کے مستحق قرار دئے جائیں گے۔

فَلَنُذِيقَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا عَذَابًا شَدِيدًا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 وَٱلْغَوْا۟ فِيهِ کی تشریح حضرت عبد اللہ بن عباس نے عَيِّبُوهُ (تفسیر ابن کثیر، جلد7، صفحہ 174 )کے لفظ سے کی ہے۔ یعنی قرآن اور صاحب قرآن میں عیب لگاؤ اور اس طرح لوگوں کو اس سے دور کردو۔ کسی بات یا کسی شخص کے بارے میں اظہار رائے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تنقید، دوسرا تعییب۔ تنقید کا مطلب ہے حقائق کی بنیاد پر زیر بحث امر کا تجزیہ کرنا۔ اس کے برعکس، تعییب یہ ہے کہ آدمی زیر بحث مسئلہ پر دلائل پیش نہ کرے۔ وہ صرف اس میں عیب نکالے وہ اس پر الزام لگا کر اس کو مطعون کرے۔ تنقید کا طریقہ سراسر جائز طریقہ ہے۔ مگر تعییب کا طریقہ اہلِ کفر کا طریقہ ہے۔ مزید یہ کہ تعییب کا طریقہ خدا کی نشانیوں کا انکار ہے۔ کیوں کہ ہر سچی دلیل خدا کی ایک نشانی ہے۔ جو لوگ دلیل کے آگے نہ جھکیں اور عیب جوئی اور الزام تراشی کا طریقہ اختیار کرکے اس کو دبانا چاہیں وہ گویا خدا کی نشانی کا انکار کررہے ہیں۔ ایسے لوگ آخرت میں نہایت سخت سزا کے مستحق قرار دئے جائیں گے۔

ذَٰلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ ۖ لَهُمْ فِيهَا دَارُ الْخُلْدِ ۖ جَزَاءً بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ

📘 وَٱلْغَوْا۟ فِيهِ کی تشریح حضرت عبد اللہ بن عباس نے عَيِّبُوهُ (تفسیر ابن کثیر، جلد7، صفحہ 174 )کے لفظ سے کی ہے۔ یعنی قرآن اور صاحب قرآن میں عیب لگاؤ اور اس طرح لوگوں کو اس سے دور کردو۔ کسی بات یا کسی شخص کے بارے میں اظہار رائے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تنقید، دوسرا تعییب۔ تنقید کا مطلب ہے حقائق کی بنیاد پر زیر بحث امر کا تجزیہ کرنا۔ اس کے برعکس، تعییب یہ ہے کہ آدمی زیر بحث مسئلہ پر دلائل پیش نہ کرے۔ وہ صرف اس میں عیب نکالے وہ اس پر الزام لگا کر اس کو مطعون کرے۔ تنقید کا طریقہ سراسر جائز طریقہ ہے۔ مگر تعییب کا طریقہ اہلِ کفر کا طریقہ ہے۔ مزید یہ کہ تعییب کا طریقہ خدا کی نشانیوں کا انکار ہے۔ کیوں کہ ہر سچی دلیل خدا کی ایک نشانی ہے۔ جو لوگ دلیل کے آگے نہ جھکیں اور عیب جوئی اور الزام تراشی کا طریقہ اختیار کرکے اس کو دبانا چاہیں وہ گویا خدا کی نشانی کا انکار کررہے ہیں۔ ایسے لوگ آخرت میں نہایت سخت سزا کے مستحق قرار دئے جائیں گے۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ

📘 انسانوں میں دو قسم کے انسان ہیں۔ ایک وہ جو شیطانوں اور جھوٹے لیڈروں کو اپنا رہنما بناتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا میں خوب ایک دوسرے سے دوستی رکھتے ہیں۔ مگر آخرت میں صورت حال بالکل برعکس ہوگی۔ وہاں پیروی کرنے والے لوگ جب دیکھیں گے کہ ان کے جھوٹے رہنماؤں نے ان کو صرف جہنم میں پہنچایا ہے تو وہ ان سے سخت متنفر ہوجائیں گے۔ اور چاہیں گے کہ انھیں حقیر وذلیل کرکے اپنے دل کی تسکین حاصل کریں۔ دوسرے انسان وہ ہیں جو خدا کے فرشتوں کو اپنا ساتھی بنائیں۔ ایسے لوگ دنیا سے لے کر آخرت تک فرشتوں کو اپنا ہم نشین پاتے ہیں۔ فرشتے ان کے دل پر ربانی احساسات اتارتے ہیں۔ وہ مشکل حالات میں ان کو قلبی سکون عطا کرتے ہیں۔ وہ لطیف تجربات کے ذریعہ انھیں خدا کی بشارتیں سناتے ہیں۔ پھر یہی فرشتے آخرت میں ان کا استقبال کرکے ان کو جنت کے باغات میں داخل کریں گے۔

كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

📘 پیغمبر کی دعوت بے آمیز دین کی دعوت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس لوگوں کا حال یہ ہے کہ اکثر وہ اپنے اکابر کے دین پر ہوتے ہیں۔ ان کے اوپر ان کی قومی روایات اور زمانی افکار کا غلبہ ہوتاہے۔ اس بنا پر پیغمبر کا بے آمیز دین ان کے فکری ڈھانچہ میں نہیں بیٹھتا۔ وہ ان کو اجنبی دکھائی دیتاہے۔ یہ فرق پیغمبر اور لوگوں کے درمیان ایک ذہنی دیوار کی طرح حائل ہوجاتا ہے۔ لوگ پیغمبر کی دعوت کو اس کے اصل روپ میں دیکھ نہیں پاتے۔ اس ليے وہ اس کو ماننے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔ پیغمبر کی دعوت بجائے خود انتہائی مدلّل ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی بات ہے ۔ مگر مذکورہ ذہنی دیوار اتنی طاقت ور ثابت ہوتی ہے کہ انسان اس سے نکل کر پیغمبر کی دعوت کو دیکھ نہیں پاتا۔ خدا انسان کےلیے اپنی رحمت کے دروازے کھولتا ہے مگر انسان اس کے اندر داخل نہیں ہوتا۔

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ

📘 انسانوں میں دو قسم کے انسان ہیں۔ ایک وہ جو شیطانوں اور جھوٹے لیڈروں کو اپنا رہنما بناتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا میں خوب ایک دوسرے سے دوستی رکھتے ہیں۔ مگر آخرت میں صورت حال بالکل برعکس ہوگی۔ وہاں پیروی کرنے والے لوگ جب دیکھیں گے کہ ان کے جھوٹے رہنماؤں نے ان کو صرف جہنم میں پہنچایا ہے تو وہ ان سے سخت متنفر ہوجائیں گے۔ اور چاہیں گے کہ انھیں حقیر وذلیل کرکے اپنے دل کی تسکین حاصل کریں۔ دوسرے انسان وہ ہیں جو خدا کے فرشتوں کو اپنا ساتھی بنائیں۔ ایسے لوگ دنیا سے لے کر آخرت تک فرشتوں کو اپنا ہم نشین پاتے ہیں۔ فرشتے ان کے دل پر ربانی احساسات اتارتے ہیں۔ وہ مشکل حالات میں ان کو قلبی سکون عطا کرتے ہیں۔ وہ لطیف تجربات کے ذریعہ انھیں خدا کی بشارتیں سناتے ہیں۔ پھر یہی فرشتے آخرت میں ان کا استقبال کرکے ان کو جنت کے باغات میں داخل کریں گے۔

نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ

📘 انسانوں میں دو قسم کے انسان ہیں۔ ایک وہ جو شیطانوں اور جھوٹے لیڈروں کو اپنا رہنما بناتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا میں خوب ایک دوسرے سے دوستی رکھتے ہیں۔ مگر آخرت میں صورت حال بالکل برعکس ہوگی۔ وہاں پیروی کرنے والے لوگ جب دیکھیں گے کہ ان کے جھوٹے رہنماؤں نے ان کو صرف جہنم میں پہنچایا ہے تو وہ ان سے سخت متنفر ہوجائیں گے۔ اور چاہیں گے کہ انھیں حقیر وذلیل کرکے اپنے دل کی تسکین حاصل کریں۔ دوسرے انسان وہ ہیں جو خدا کے فرشتوں کو اپنا ساتھی بنائیں۔ ایسے لوگ دنیا سے لے کر آخرت تک فرشتوں کو اپنا ہم نشین پاتے ہیں۔ فرشتے ان کے دل پر ربانی احساسات اتارتے ہیں۔ وہ مشکل حالات میں ان کو قلبی سکون عطا کرتے ہیں۔ وہ لطیف تجربات کے ذریعہ انھیں خدا کی بشارتیں سناتے ہیں۔ پھر یہی فرشتے آخرت میں ان کا استقبال کرکے ان کو جنت کے باغات میں داخل کریں گے۔

نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ

📘 انسانوں میں دو قسم کے انسان ہیں۔ ایک وہ جو شیطانوں اور جھوٹے لیڈروں کو اپنا رہنما بناتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا میں خوب ایک دوسرے سے دوستی رکھتے ہیں۔ مگر آخرت میں صورت حال بالکل برعکس ہوگی۔ وہاں پیروی کرنے والے لوگ جب دیکھیں گے کہ ان کے جھوٹے رہنماؤں نے ان کو صرف جہنم میں پہنچایا ہے تو وہ ان سے سخت متنفر ہوجائیں گے۔ اور چاہیں گے کہ انھیں حقیر وذلیل کرکے اپنے دل کی تسکین حاصل کریں۔ دوسرے انسان وہ ہیں جو خدا کے فرشتوں کو اپنا ساتھی بنائیں۔ ایسے لوگ دنیا سے لے کر آخرت تک فرشتوں کو اپنا ہم نشین پاتے ہیں۔ فرشتے ان کے دل پر ربانی احساسات اتارتے ہیں۔ وہ مشکل حالات میں ان کو قلبی سکون عطا کرتے ہیں۔ وہ لطیف تجربات کے ذریعہ انھیں خدا کی بشارتیں سناتے ہیں۔ پھر یہی فرشتے آخرت میں ان کا استقبال کرکے ان کو جنت کے باغات میں داخل کریں گے۔

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

📘 قرآن کی دعوت اللہ کی طرف بلانے کی دعوت ہے۔ انسان کو اس کے رب سے جوڑنا، انسان کو خدا کی یاد میں جینے والا بنانا، انسان کے اندر یہ شعور ابھارنا کہ وہ ایک خدا کو اپنا مرکز توجہ بنالے۔ یہی قرآنی دعوت کا اصل نشانہ ہے۔ اور بلاشبہ اس پکارسےبہتر کوئی پکار نہیں۔ مگر خدا کا داعی صرف وہ شخص بنتا ہے جو اپنی دعوت میں اس حد تک سنجیدہ ہو کہ جو کچھ دوسروں سے منوانا چاہتا ہے اس کو وہ خود سب سے پہلے مان چکا ہو، وہ دوسروں سے جو کچھ کرنے کےلیے کہہ رہا ہے، خود سب سے پہلے اس کا کرنے والا بن جائے۔ داعی کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کرے۔ دوسرے لوگ برائی کریں تب بھی وہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرے۔ وہ اشتعال کے مقابلہ میں اعراض اور اذیت رسانی کے مقابلہ میں صبر کا طریقہ اختیار کرے۔ یک طرفہ حسن سلوک میں اللہ تعالیٰ نے زبردست تسخیری طاقت رکھی ہے۔ خدا کا داعی خدا کی بنائی ہوئی اس فطرت کو جانتا ہے اور اس کو آخری حد تک استعمال کرتا ہے، خواہ اس کےلیے اس کو اپنے جذبات کو کچلنا پڑے، خواہ اس کی خاطر اپنے اندر پیدا ہونے والے رد عمل کو ذبح کرنے کی نوبت آجائے۔ جب بھی داعی کے اندر اس قسم کا خیال آئے کہ فلاں بات کا جواب دینا ضروری ہے، فلاں ظلم کے خلاف ضرور کارروائی كي جاني چاہيے ورنہ دشمن دلیر ہو کر اور زیادہ زیادتیاں کرے گا تو سمجھ لینا چاہيے کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ مومن اور داعی کا فرض ہے کہ وہ ایسے خیال سے خدا کی پناہ مانگے، نہ کہ اس کے پیچھے دوڑنا شروع کردے۔

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ

📘 قرآن کی دعوت اللہ کی طرف بلانے کی دعوت ہے۔ انسان کو اس کے رب سے جوڑنا، انسان کو خدا کی یاد میں جینے والا بنانا، انسان کے اندر یہ شعور ابھارنا کہ وہ ایک خدا کو اپنا مرکز توجہ بنالے۔ یہی قرآنی دعوت کا اصل نشانہ ہے۔ اور بلاشبہ اس پکارسےبہتر کوئی پکار نہیں۔ مگر خدا کا داعی صرف وہ شخص بنتا ہے جو اپنی دعوت میں اس حد تک سنجیدہ ہو کہ جو کچھ دوسروں سے منوانا چاہتا ہے اس کو وہ خود سب سے پہلے مان چکا ہو، وہ دوسروں سے جو کچھ کرنے کےلیے کہہ رہا ہے، خود سب سے پہلے اس کا کرنے والا بن جائے۔ داعی کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کرے۔ دوسرے لوگ برائی کریں تب بھی وہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرے۔ وہ اشتعال کے مقابلہ میں اعراض اور اذیت رسانی کے مقابلہ میں صبر کا طریقہ اختیار کرے۔ یک طرفہ حسن سلوک میں اللہ تعالیٰ نے زبردست تسخیری طاقت رکھی ہے۔ خدا کا داعی خدا کی بنائی ہوئی اس فطرت کو جانتا ہے اور اس کو آخری حد تک استعمال کرتا ہے، خواہ اس کےلیے اس کو اپنے جذبات کو کچلنا پڑے، خواہ اس کی خاطر اپنے اندر پیدا ہونے والے رد عمل کو ذبح کرنے کی نوبت آجائے۔ جب بھی داعی کے اندر اس قسم کا خیال آئے کہ فلاں بات کا جواب دینا ضروری ہے، فلاں ظلم کے خلاف ضرور کارروائی كي جاني چاہيے ورنہ دشمن دلیر ہو کر اور زیادہ زیادتیاں کرے گا تو سمجھ لینا چاہيے کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ مومن اور داعی کا فرض ہے کہ وہ ایسے خیال سے خدا کی پناہ مانگے، نہ کہ اس کے پیچھے دوڑنا شروع کردے۔

وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ

📘 قرآن کی دعوت اللہ کی طرف بلانے کی دعوت ہے۔ انسان کو اس کے رب سے جوڑنا، انسان کو خدا کی یاد میں جینے والا بنانا، انسان کے اندر یہ شعور ابھارنا کہ وہ ایک خدا کو اپنا مرکز توجہ بنالے۔ یہی قرآنی دعوت کا اصل نشانہ ہے۔ اور بلاشبہ اس پکارسےبہتر کوئی پکار نہیں۔ مگر خدا کا داعی صرف وہ شخص بنتا ہے جو اپنی دعوت میں اس حد تک سنجیدہ ہو کہ جو کچھ دوسروں سے منوانا چاہتا ہے اس کو وہ خود سب سے پہلے مان چکا ہو، وہ دوسروں سے جو کچھ کرنے کےلیے کہہ رہا ہے، خود سب سے پہلے اس کا کرنے والا بن جائے۔ داعی کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کرے۔ دوسرے لوگ برائی کریں تب بھی وہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرے۔ وہ اشتعال کے مقابلہ میں اعراض اور اذیت رسانی کے مقابلہ میں صبر کا طریقہ اختیار کرے۔ یک طرفہ حسن سلوک میں اللہ تعالیٰ نے زبردست تسخیری طاقت رکھی ہے۔ خدا کا داعی خدا کی بنائی ہوئی اس فطرت کو جانتا ہے اور اس کو آخری حد تک استعمال کرتا ہے، خواہ اس کےلیے اس کو اپنے جذبات کو کچلنا پڑے، خواہ اس کی خاطر اپنے اندر پیدا ہونے والے رد عمل کو ذبح کرنے کی نوبت آجائے۔ جب بھی داعی کے اندر اس قسم کا خیال آئے کہ فلاں بات کا جواب دینا ضروری ہے، فلاں ظلم کے خلاف ضرور کارروائی كي جاني چاہيے ورنہ دشمن دلیر ہو کر اور زیادہ زیادتیاں کرے گا تو سمجھ لینا چاہيے کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ مومن اور داعی کا فرض ہے کہ وہ ایسے خیال سے خدا کی پناہ مانگے، نہ کہ اس کے پیچھے دوڑنا شروع کردے۔

وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 قرآن کی دعوت اللہ کی طرف بلانے کی دعوت ہے۔ انسان کو اس کے رب سے جوڑنا، انسان کو خدا کی یاد میں جینے والا بنانا، انسان کے اندر یہ شعور ابھارنا کہ وہ ایک خدا کو اپنا مرکز توجہ بنالے۔ یہی قرآنی دعوت کا اصل نشانہ ہے۔ اور بلاشبہ اس پکارسےبہتر کوئی پکار نہیں۔ مگر خدا کا داعی صرف وہ شخص بنتا ہے جو اپنی دعوت میں اس حد تک سنجیدہ ہو کہ جو کچھ دوسروں سے منوانا چاہتا ہے اس کو وہ خود سب سے پہلے مان چکا ہو، وہ دوسروں سے جو کچھ کرنے کےلیے کہہ رہا ہے، خود سب سے پہلے اس کا کرنے والا بن جائے۔ داعی کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کرے۔ دوسرے لوگ برائی کریں تب بھی وہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرے۔ وہ اشتعال کے مقابلہ میں اعراض اور اذیت رسانی کے مقابلہ میں صبر کا طریقہ اختیار کرے۔ یک طرفہ حسن سلوک میں اللہ تعالیٰ نے زبردست تسخیری طاقت رکھی ہے۔ خدا کا داعی خدا کی بنائی ہوئی اس فطرت کو جانتا ہے اور اس کو آخری حد تک استعمال کرتا ہے، خواہ اس کےلیے اس کو اپنے جذبات کو کچلنا پڑے، خواہ اس کی خاطر اپنے اندر پیدا ہونے والے رد عمل کو ذبح کرنے کی نوبت آجائے۔ جب بھی داعی کے اندر اس قسم کا خیال آئے کہ فلاں بات کا جواب دینا ضروری ہے، فلاں ظلم کے خلاف ضرور کارروائی كي جاني چاہيے ورنہ دشمن دلیر ہو کر اور زیادہ زیادتیاں کرے گا تو سمجھ لینا چاہيے کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ مومن اور داعی کا فرض ہے کہ وہ ایسے خیال سے خدا کی پناہ مانگے، نہ کہ اس کے پیچھے دوڑنا شروع کردے۔

وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ

📘 انسان کی سب سے بڑی گمراہی اس کی ظاہر پرستی ہے۔ قدیم زمانہ کے انسان کو سورج اور چاند اور ستارے سب سے زیادہ نمایاں نظر آئے ۔ اس لیے اس نے ان مظاہر کو خدا سمجھ لیا اور ان کو پوجنا شروع کر دیا۔ موجودہ زمانہ میں مادی تہذیب کی جگمگاہٹ لوگوں کو نمایاں دکھائی دے رہی ہے ۔اس لیے اب مادی تہذیب کو وہ مقام دے دیا گیا ہے جو قدیم زمانہ میں سورج اور چاند کو حاصل تھا۔ حالانکہ خواہ سورج اور چاند ہوں یا دوسرے مظاہر سب کے سب خدا کی مخلوق ہیں۔انسان کو چاہیے کہ وہ خالق کا پرستار رہے نہ کہ اس کی مخلوقات کا۔ تکبر کرنے والوں کا تکبر دعوت کے مقابلے میں نہیں ہوتا، بلکہ ہمیشہ داعی کے مقابلے میں ہوتا ہے ۔ وقت کے بڑوں کو بظاہر داعی اپنے سے چھوٹا نظر آتا ہے ۔اس لیے وہ اس کو چھوٹا سمجھ لیتے ہیں اور اسی کے ساتھ اس کی طرف سے پیش کئے جانے والے پیغام کو بھی ۔

فَإِنِ اسْتَكْبَرُوا فَالَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ ۩

📘 انسان کی سب سے بڑی گمراہی اس کی ظاہر پرستی ہے۔ قدیم زمانہ کے انسان کو سورج اور چاند اور ستارے سب سے زیادہ نمایاں نظر آئے ۔ اس لیے اس نے ان مظاہر کو خدا سمجھ لیا اور ان کو پوجنا شروع کر دیا۔ موجودہ زمانہ میں مادی تہذیب کی جگمگاہٹ لوگوں کو نمایاں دکھائی دے رہی ہے ۔اس لیے اب مادی تہذیب کو وہ مقام دے دیا گیا ہے جو قدیم زمانہ میں سورج اور چاند کو حاصل تھا۔ حالانکہ خواہ سورج اور چاند ہوں یا دوسرے مظاہر سب کے سب خدا کی مخلوق ہیں۔انسان کو چاہیے کہ وہ خالق کا پرستار رہے نہ کہ اس کی مخلوقات کا۔ تکبر کرنے والوں کا تکبر دعوت کے مقابلے میں نہیں ہوتا، بلکہ ہمیشہ داعی کے مقابلے میں ہوتا ہے ۔ وقت کے بڑوں کو بظاہر داعی اپنے سے چھوٹا نظر آتا ہے ۔اس لیے وہ اس کو چھوٹا سمجھ لیتے ہیں اور اسی کے ساتھ اس کی طرف سے پیش کئے جانے والے پیغام کو بھی ۔

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّكَ تَرَى الْأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۚ إِنَّ الَّذِي أَحْيَاهَا لَمُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۚ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 سوكھي زمين ميں بارش كا برسنا اور اس سے سبزه كا اگنا ايك ايسا مظهر هے جو هر آدمي كے سامنے بار بار آتا هے۔ يه ايك معنوي حقيقت كي مادي تمثيل هے۔ اس طرح انسان كو بتايا جاتا هے كه خدا نے يهاں اس كے خشك وجود كو سرسبز وشاداب كرنے كا وسيع انتظام كرركھا هے۔ زمين كي مٹي پاني كو اپنے اندر داخل هونے ديتي هے اس وقت يه ممكن هوتا هے كه بارش اس كو سرسبز وشاداب كرنے كا ذريعه بنے۔ اِسي طرح انسان اگر خدا كي هدايت كو اپنے اندر اترنے دے تو اس كا وجود بھي هدايت پاكر لهلها اٹھے گا۔ خدا كي هدايت سے فيض ياب نه هونے كي سب سے بڑي وجه يه هوتي هے كه انسان خدا كي باتوں ميں الحاد (انحراف) كرتا هے۔ خدا كي رهنمائي اس كے سامنے آتي هے تو وه اس كو سيدھے مفهوم ميں نهيں ليتا۔بلكه اس ميں ٹيڑھ نكال كر اس كو منحرف كرديتاهے۔ اس طرح خدا كي رهنمائي اس كے ذهن كا جزء نهيں بنتي۔ وه اس كي روح كو غذا دينے والي ثابت نهيں هوتي۔ خدا كي رهنمائي كو سيدھي طرح قبول كرنے والوں كے ليے جنت كا انعام هے، اور خدا كي رهنمائي ميں ٹيڑھا مفهوم نكالنے والوں كے لیے جهنم كا عذاب۔

بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ

📘 پیغمبر کی دعوت بے آمیز دین کی دعوت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس لوگوں کا حال یہ ہے کہ اکثر وہ اپنے اکابر کے دین پر ہوتے ہیں۔ ان کے اوپر ان کی قومی روایات اور زمانی افکار کا غلبہ ہوتاہے۔ اس بنا پر پیغمبر کا بے آمیز دین ان کے فکری ڈھانچہ میں نہیں بیٹھتا۔ وہ ان کو اجنبی دکھائی دیتاہے۔ یہ فرق پیغمبر اور لوگوں کے درمیان ایک ذہنی دیوار کی طرح حائل ہوجاتا ہے۔ لوگ پیغمبر کی دعوت کو اس کے اصل روپ میں دیکھ نہیں پاتے۔ اس ليے وہ اس کو ماننے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔ پیغمبر کی دعوت بجائے خود انتہائی مدلّل ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی بات ہے ۔ مگر مذکورہ ذہنی دیوار اتنی طاقت ور ثابت ہوتی ہے کہ انسان اس سے نکل کر پیغمبر کی دعوت کو دیکھ نہیں پاتا۔ خدا انسان کےلیے اپنی رحمت کے دروازے کھولتا ہے مگر انسان اس کے اندر داخل نہیں ہوتا۔

إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ أَفَمَنْ يُلْقَىٰ فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

📘 سوكھي زمين ميں بارش كا برسنا اور اس سے سبزه كا اگنا ايك ايسا مظهر هے جو هر آدمي كے سامنے بار بار آتا هے۔ يه ايك معنوي حقيقت كي مادي تمثيل هے۔ اس طرح انسان كو بتايا جاتا هے كه خدا نے يهاں اس كے خشك وجود كو سرسبز وشاداب كرنے كا وسيع انتظام كرركھا هے۔ زمين كي مٹي پاني كو اپنے اندر داخل هونے ديتي هے اس وقت يه ممكن هوتا هے كه بارش اس كو سرسبز وشاداب كرنے كا ذريعه بنے۔ اِسي طرح انسان اگر خدا كي هدايت كو اپنے اندر اترنے دے تو اس كا وجود بھي هدايت پاكر لهلها اٹھے گا۔ خدا كي هدايت سے فيض ياب نه هونے كي سب سے بڑي وجه يه هوتي هے كه انسان خدا كي باتوں ميں الحاد (انحراف) كرتا هے۔ خدا كي رهنمائي اس كے سامنے آتي هے تو وه اس كو سيدھے مفهوم ميں نهيں ليتا۔بلكه اس ميں ٹيڑھ نكال كر اس كو منحرف كرديتاهے۔ اس طرح خدا كي رهنمائي اس كے ذهن كا جزء نهيں بنتي۔ وه اس كي روح كو غذا دينے والي ثابت نهيں هوتي۔ خدا كي رهنمائي كو سيدھي طرح قبول كرنے والوں كے ليے جنت كا انعام هے، اور خدا كي رهنمائي ميں ٹيڑھا مفهوم نكالنے والوں كے لیے جهنم كا عذاب۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ

📘 قرآن ايك زبردست كتاب هے اور اس كے زبردست هونے كا ثبوت يه هے كه باطل نه آگے سے اس ميں آسكتا هے اور نه پيچھے سے۔ يعني اس ميں كسي طرف سے دخل اندازي كا كوئي امكان نهيں، نه براهِ راست اس ميں كوئي بگاڑ پيدا كيا جاسكتا هے اور نه بالواسطه۔ يه ايك انتهائي غير معمولي پيشين گوئي هے۔ اس عالم اسباب ميں اس پيشين گوئي كے پورا هونے كے ليے ضروري هے كه قرآن كي حامل ايك طاقتور قوم مستقل طورپر موجود رهے۔ پچھلے نبيوں كي تعليمات سے اس كي عدم مطابقت ظاهر نه هوسكے۔ كوئي شخص كبھي قرآن كا جواب لكھنے پر قادر نه هو۔ علوم كا ارتقا اس كي كسي بات كو كبھي غلط ثابت نه كرے۔ تاريخ كا اتار چڑھاؤ كبھي اس پر اثرانداز نه هونے پائے۔ قرآن كي زبان (عربي) هميشه ايك زنده زبان كے طورپر باقي رهے۔ قرآن كے نزول كے بعد كي لمبي تاريخ بتاتي هے كه يه تمام اسباب حيرت انگيز طور پر اس كے حق ميں جمع رهے هيں۔ ان تمام واقعات كي يكجائي اس قدر غير معمولي هے كه قرآن كے سوا كوئي بھي دوسري كتاب نهيں جس كے حق ميں وه ڈيڑھ هزار برس كي مدت تك مسلسل جمع رهے هوں۔ يهي اس بات كي كافي دليل هے كه قرآن خدا كي كتاب هے۔ قرآن كي عظمت كو دليل كي سطح پر پانا مطلوب هے،نه كه طاقت كي سطح پر۔ طاقت كي سطح پر اس كي عظمت قيامت ميں ظاهر هوگي۔ مگر يه ظهور صرف اس ليے هوگا كه جن لوگوں نے دليل كي سطح پر خدا كي سچائي كو نهيں مانا تھا انھيں ذليل كركے خدا كي سچائي كو ماننے پر مجبور كيا جائے۔

لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ

📘 قرآن ايك زبردست كتاب هے اور اس كے زبردست هونے كا ثبوت يه هے كه باطل نه آگے سے اس ميں آسكتا هے اور نه پيچھے سے۔ يعني اس ميں كسي طرف سے دخل اندازي كا كوئي امكان نهيں، نه براهِ راست اس ميں كوئي بگاڑ پيدا كيا جاسكتا هے اور نه بالواسطه۔ يه ايك انتهائي غير معمولي پيشين گوئي هے۔ اس عالم اسباب ميں اس پيشين گوئي كے پورا هونے كے ليے ضروري هے كه قرآن كي حامل ايك طاقتور قوم مستقل طورپر موجود رهے۔ پچھلے نبيوں كي تعليمات سے اس كي عدم مطابقت ظاهر نه هوسكے۔ كوئي شخص كبھي قرآن كا جواب لكھنے پر قادر نه هو۔ علوم كا ارتقا اس كي كسي بات كو كبھي غلط ثابت نه كرے۔ تاريخ كا اتار چڑھاؤ كبھي اس پر اثرانداز نه هونے پائے۔ قرآن كي زبان (عربي) هميشه ايك زنده زبان كے طورپر باقي رهے۔ قرآن كے نزول كے بعد كي لمبي تاريخ بتاتي هے كه يه تمام اسباب حيرت انگيز طور پر اس كے حق ميں جمع رهے هيں۔ ان تمام واقعات كي يكجائي اس قدر غير معمولي هے كه قرآن كے سوا كوئي بھي دوسري كتاب نهيں جس كے حق ميں وه ڈيڑھ هزار برس كي مدت تك مسلسل جمع رهے هوں۔ يهي اس بات كي كافي دليل هے كه قرآن خدا كي كتاب هے۔ قرآن كي عظمت كو دليل كي سطح پر پانا مطلوب هے،نه كه طاقت كي سطح پر۔ طاقت كي سطح پر اس كي عظمت قيامت ميں ظاهر هوگي۔ مگر يه ظهور صرف اس ليے هوگا كه جن لوگوں نے دليل كي سطح پر خدا كي سچائي كو نهيں مانا تھا انھيں ذليل كركے خدا كي سچائي كو ماننے پر مجبور كيا جائے۔

مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ

📘 قرآن ايك زبردست كتاب هے اور اس كے زبردست هونے كا ثبوت يه هے كه باطل نه آگے سے اس ميں آسكتا هے اور نه پيچھے سے۔ يعني اس ميں كسي طرف سے دخل اندازي كا كوئي امكان نهيں، نه براهِ راست اس ميں كوئي بگاڑ پيدا كيا جاسكتا هے اور نه بالواسطه۔ يه ايك انتهائي غير معمولي پيشين گوئي هے۔ اس عالم اسباب ميں اس پيشين گوئي كے پورا هونے كے ليے ضروري هے كه قرآن كي حامل ايك طاقتور قوم مستقل طورپر موجود رهے۔ پچھلے نبيوں كي تعليمات سے اس كي عدم مطابقت ظاهر نه هوسكے۔ كوئي شخص كبھي قرآن كا جواب لكھنے پر قادر نه هو۔ علوم كا ارتقا اس كي كسي بات كو كبھي غلط ثابت نه كرے۔ تاريخ كا اتار چڑھاؤ كبھي اس پر اثرانداز نه هونے پائے۔ قرآن كي زبان (عربي) هميشه ايك زنده زبان كے طورپر باقي رهے۔ قرآن كے نزول كے بعد كي لمبي تاريخ بتاتي هے كه يه تمام اسباب حيرت انگيز طور پر اس كے حق ميں جمع رهے هيں۔ ان تمام واقعات كي يكجائي اس قدر غير معمولي هے كه قرآن كے سوا كوئي بھي دوسري كتاب نهيں جس كے حق ميں وه ڈيڑھ هزار برس كي مدت تك مسلسل جمع رهے هوں۔ يهي اس بات كي كافي دليل هے كه قرآن خدا كي كتاب هے۔ قرآن كي عظمت كو دليل كي سطح پر پانا مطلوب هے،نه كه طاقت كي سطح پر۔ طاقت كي سطح پر اس كي عظمت قيامت ميں ظاهر هوگي۔ مگر يه ظهور صرف اس ليے هوگا كه جن لوگوں نے دليل كي سطح پر خدا كي سچائي كو نهيں مانا تھا انھيں ذليل كركے خدا كي سچائي كو ماننے پر مجبور كيا جائے۔

وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ

📘 قرآن عربي زبان ميں اتراتو مخالفين نےكها يه تو محمد كي اپني مادري زبان هے، عربي ميں كوئي كتاب بنا كر پيش كردينا ان كے ليے كيا مشكل هے۔ اگر وه واقعي پيغمبر هوتے تو خدا كي مدد سے وه اچانك كسي اجنبي زبان ميں كلام كرنے لگتے۔ اس طرح كي بات هميشه غير سنجيده لوگ كرتے هيں۔ اور جو لوگ غير سنجيده هوں ان كي زبان كبھي بند نهيں كي جاسكتي۔ مثلاً اگر ايسا هو كه پيغمبر آكر عرب كے لوگوں سے يوناني يا سُرياني يا فارسي زبان ميں كلام كرنے لگے تو اس وقت لوگوں كو كهنے کے ليے يه الفاظ مل جائيں گے— كيسا عجيب هے يه پيغمبر۔ اس كا كهنا هے كه وه لوگوں كي هدايت كے ليے آيا هے۔ مگر وه ايسي زبان ميں بولتا هے جس كو اس كے مخاطبين سمجھ هي نه سكتے هوں۔ حقيقت يه هے كه حق كو صرف وه لوگ قبول كرپاتے هيں جو حق كے معامله ميں سنجيده هوں۔ جو لوگ حق كے معامله ميں سنجيده نه هوں وه واضح ترين بات كو بھي سمجھ نهيں سكتے۔ ان كي مثال ايسي هي هے جيسے كسي كو بهت دور سے پكار اجائے۔ ايسا شخص كچھ آواز تو سنے گا مگر وه اصل بات كو سمجھنے سے محروم رهے گا۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۗ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ

📘 پچھلے پيغمبروں كے ذريعه جب خدائي سچائي منكشف كي گئي تو كچھ لوگوں نے اس کو مانا اور کچھ لوگوں نے نهيں مانا۔ يهي معامله اس وقت بھي پيش آيا جب كه پيغمبر آخر الزماں كي بعثت هوئي۔ خدائي سچائي كے ساتھ يه اختلافي معامله انسان كيوں كرتا هے۔ اس كي وجه موجوده امتحاني حالت هے۔ موجوده امتحان كي دنيا ميں سچائي جب بھي ظاهر هوتي هے تو اس كے ساتھ ايك پرده بھي لگا رهتا هے۔ لوگ اسي پرده ميں اٹك كر ره جاتے هيں۔ جس پرده كو انھيں پھاڑناتھا اس كو وه اپنے ليے شك و شبه كا سبب بنا ليتے هيں۔ مگر يه شك قيامت ميں كسي كے لیے عذر نهيں بن سكتا۔ كيونكه يه صرف اس بات كا ثبوت هے كه انسان حق كے معامله ميں سنجيده نهيں تھا۔ انسان اپنے دنيا كے مفاد كے معامله ميں پوري طرح سنجيده هوتا هے۔ اس ليے وه تمام پردوں كو پھاڑ كر اس كي حقيقت تك پهنچ جاتا هے۔ اسي طرح اگر وه اپنے آخرت كے مفاد كے بارے ميں سنجيده هوجائے تو وه شك كے تمام پردوں كو پھاڑ كر حقيقت كو اس كي بے نقاب صورت ميں ديكھ لے۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ

📘 پچھلے پيغمبروں كے ذريعه جب خدائي سچائي منكشف كي گئي تو كچھ لوگوں نے اس کو مانا اور کچھ لوگوں نے نهيں مانا۔ يهي معامله اس وقت بھي پيش آيا جب كه پيغمبر آخر الزماں كي بعثت هوئي۔ خدائي سچائي كے ساتھ يه اختلافي معامله انسان كيوں كرتا هے۔ اس كي وجه موجوده امتحاني حالت هے۔ موجوده امتحان كي دنيا ميں سچائي جب بھي ظاهر هوتي هے تو اس كے ساتھ ايك پرده بھي لگا رهتا هے۔ لوگ اسي پرده ميں اٹك كر ره جاتے هيں۔ جس پرده كو انھيں پھاڑناتھا اس كو وه اپنے ليے شك و شبه كا سبب بنا ليتے هيں۔ مگر يه شك قيامت ميں كسي كے لیے عذر نهيں بن سكتا۔ كيونكه يه صرف اس بات كا ثبوت هے كه انسان حق كے معامله ميں سنجيده نهيں تھا۔ انسان اپنے دنيا كے مفاد كے معامله ميں پوري طرح سنجيده هوتا هے۔ اس ليے وه تمام پردوں كو پھاڑ كر اس كي حقيقت تك پهنچ جاتا هے۔ اسي طرح اگر وه اپنے آخرت كے مفاد كے بارے ميں سنجيده هوجائے تو وه شك كے تمام پردوں كو پھاڑ كر حقيقت كو اس كي بے نقاب صورت ميں ديكھ لے۔

۞ إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرَاتٍ مِنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِنْ شَهِيدٍ

📘 درخت سے ايك پھل كا نكلنا يا ماں كے پيٹ سے ايك زنده وجود كا پيدا هونا اپني نوعيت كے اعتبار سے ويسا هي واقعه هے جيسا موجوده دنيا كے اندر سے آخرت كي دنيا كا برآمد هونا۔ پھل كيا هے، وه بے پھل كا پھل ميں تبديل هونا هے۔ انسان كيا هے، وه بے انسان كا انسان كي صورت اختيار كرنا هے۔ يهي آخرت كا معامله بھي هے۔ آخرت بھي دراصل غير آخرت كا آخرت ميں تبديل هونے كا دوسرا نام هے۔ پهلي قسم كي تبديلي هر روز همارے سامنے واقعه بن رهي هے۔ پھر اسي نوعيت كے ايك اور واقعه (موجوده دنيا كا آخرت ميں تبديل هونا) ناقابل قياس كيوں هو۔ آخرت كا دن حقيقتوں كے آخري ظهور كا دن هوگا۔ جب وه دن آئے گا تو تمام جھوٹي بنياديں ڈھ پڑيں گي جن پر لوگوں نے موجوده دنيا ميں اپني زندگيوں كو كھڑا كرركھا تھا۔

وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَدْعُونَ مِنْ قَبْلُ ۖ وَظَنُّوا مَا لَهُمْ مِنْ مَحِيصٍ

📘 درخت سے ايك پھل كا نكلنا يا ماں كے پيٹ سے ايك زنده وجود كا پيدا هونا اپني نوعيت كے اعتبار سے ويسا هي واقعه هے جيسا موجوده دنيا كے اندر سے آخرت كي دنيا كا برآمد هونا۔ پھل كيا هے، وه بے پھل كا پھل ميں تبديل هونا هے۔ انسان كيا هے، وه بے انسان كا انسان كي صورت اختيار كرنا هے۔ يهي آخرت كا معامله بھي هے۔ آخرت بھي دراصل غير آخرت كا آخرت ميں تبديل هونے كا دوسرا نام هے۔ پهلي قسم كي تبديلي هر روز همارے سامنے واقعه بن رهي هے۔ پھر اسي نوعيت كے ايك اور واقعه (موجوده دنيا كا آخرت ميں تبديل هونا) ناقابل قياس كيوں هو۔ آخرت كا دن حقيقتوں كے آخري ظهور كا دن هوگا۔ جب وه دن آئے گا تو تمام جھوٹي بنياديں ڈھ پڑيں گي جن پر لوگوں نے موجوده دنيا ميں اپني زندگيوں كو كھڑا كرركھا تھا۔

لَا يَسْأَمُ الْإِنْسَانُ مِنْ دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ

📘 مصيبت كا لمحه انسان كے ليے اپني دريافت كا لمحه هوتا هے۔ چنانچه جب مصيبت پڑتي هے تو وه خودسري كو بھول كر خدا كو ياد كرنے لگتا هے۔ اس وقت وه جان ليتا هے كه وه عبد هے اور خدا اس كا معبود۔ مگر جب خدا اس كي مصيبت كو اس سے دور كرديتا هے اور اس كو آسائش كا سامان عطا كرتا هےتو اس كے بعد وه فوراً اپني سابقه حالت كو بھول جاتا هے۔ وه ملي هوئي نعمت كو اسباب كے ساتھ جوڑ ديتاهے اور اِس كو اپني تدبير اور لياقت كا نتيجه سمجھنے لگتا هے۔ اس كي نفسيات ايسي هوجاتي هے گويا كه زندگي بس اسي دنيا كي زندگي هے۔ اس كے بعد نه دوباره اٹھنا هے اور نه خدا كي عدالت ميں كھڑا هونا هے۔ مزيد يه كه اس كي آسوده حالي اس كو اس غلط فهمي ميں ڈال ديتي هے كه يهاں جب ميرا حال اچھا هے تو اگلي دنيا ميں بھي ضرورميرا حال اچھا هوگا۔

وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِنْ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ

📘 پیغمبر کی دعوت بے آمیز دین کی دعوت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس لوگوں کا حال یہ ہے کہ اکثر وہ اپنے اکابر کے دین پر ہوتے ہیں۔ ان کے اوپر ان کی قومی روایات اور زمانی افکار کا غلبہ ہوتاہے۔ اس بنا پر پیغمبر کا بے آمیز دین ان کے فکری ڈھانچہ میں نہیں بیٹھتا۔ وہ ان کو اجنبی دکھائی دیتاہے۔ یہ فرق پیغمبر اور لوگوں کے درمیان ایک ذہنی دیوار کی طرح حائل ہوجاتا ہے۔ لوگ پیغمبر کی دعوت کو اس کے اصل روپ میں دیکھ نہیں پاتے۔ اس ليے وہ اس کو ماننے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔ پیغمبر کی دعوت بجائے خود انتہائی مدلّل ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی بات ہے ۔ مگر مذکورہ ذہنی دیوار اتنی طاقت ور ثابت ہوتی ہے کہ انسان اس سے نکل کر پیغمبر کی دعوت کو دیکھ نہیں پاتا۔ خدا انسان کےلیے اپنی رحمت کے دروازے کھولتا ہے مگر انسان اس کے اندر داخل نہیں ہوتا۔

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِنْدَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ

📘 مصيبت كا لمحه انسان كے ليے اپني دريافت كا لمحه هوتا هے۔ چنانچه جب مصيبت پڑتي هے تو وه خودسري كو بھول كر خدا كو ياد كرنے لگتا هے۔ اس وقت وه جان ليتا هے كه وه عبد هے اور خدا اس كا معبود۔ مگر جب خدا اس كي مصيبت كو اس سے دور كرديتا هے اور اس كو آسائش كا سامان عطا كرتا هےتو اس كے بعد وه فوراً اپني سابقه حالت كو بھول جاتا هے۔ وه ملي هوئي نعمت كو اسباب كے ساتھ جوڑ ديتاهے اور اِس كو اپني تدبير اور لياقت كا نتيجه سمجھنے لگتا هے۔ اس كي نفسيات ايسي هوجاتي هے گويا كه زندگي بس اسي دنيا كي زندگي هے۔ اس كے بعد نه دوباره اٹھنا هے اور نه خدا كي عدالت ميں كھڑا هونا هے۔ مزيد يه كه اس كي آسوده حالي اس كو اس غلط فهمي ميں ڈال ديتي هے كه يهاں جب ميرا حال اچھا هے تو اگلي دنيا ميں بھي ضرورميرا حال اچھا هوگا۔

وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ

📘 انسان كو نعمت اس ليے دي جاتي هے كه وه اس كو خدا كا عطيه قرار دے كر اس كا شكر ادا كرے۔ مگر انسان کا حال يه هے كه وه نعمت پاكر سركش بن جاتا هے۔ البته جب انسان پر كوئي تكليف پڑتي هے تو اس وقت وه خدا كو پكارنے لگتا هے۔ مگر مجبورانه پكار كي خدا كے يهاں كوئي قيمت نهيں۔ انسان كي خوبي يه هے كه وه نعمت كے وقت بھي خدا كے آگے جھكے اور تكليف كے وقت بھي۔ انسان كي يهي نفسيات هے جو اس كو حق كے انكار پر آماده كرتي هے۔ حق كسي كو مجبور نهيں كرتا، وه اختيارانه جھكاؤ كا طالب هوتا هے۔ چنانچه جن لوگوں كے اندر اختيارانه جھكاؤ كا ماده نهيں هوتا وه ايسے حق كو نظر انداز كرديتے هيں جس كو نظر انداز كردينے سے بظاهر ان كے اوپر كوئي آفت ٹوٹ پڑنے والي نه هو۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ

📘 انسان كو نعمت اس ليے دي جاتي هے كه وه اس كو خدا كا عطيه قرار دے كر اس كا شكر ادا كرے۔ مگر انسان کا حال يه هے كه وه نعمت پاكر سركش بن جاتا هے۔ البته جب انسان پر كوئي تكليف پڑتي هے تو اس وقت وه خدا كو پكارنے لگتا هے۔ مگر مجبورانه پكار كي خدا كے يهاں كوئي قيمت نهيں۔ انسان كي خوبي يه هے كه وه نعمت كے وقت بھي خدا كے آگے جھكے اور تكليف كے وقت بھي۔ انسان كي يهي نفسيات هے جو اس كو حق كے انكار پر آماده كرتي هے۔ حق كسي كو مجبور نهيں كرتا، وه اختيارانه جھكاؤ كا طالب هوتا هے۔ چنانچه جن لوگوں كے اندر اختيارانه جھكاؤ كا ماده نهيں هوتا وه ايسے حق كو نظر انداز كرديتے هيں جس كو نظر انداز كردينے سے بظاهر ان كے اوپر كوئي آفت ٹوٹ پڑنے والي نه هو۔

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

📘 دنيا ميں جتنے لوگ بھي اٹھے هيں سب كي كهاني حال كي كهاني هے، كسي كي كهاني مستقبل كي كهاني نهيں۔ كيونكه كسي كا مستقبل بھي اس كے حال كي تصديق كرنے والا نه بن سكا۔ ايسي دنيا ميں ڈيڑھ هزار سال پهلے يه پيشين گوئي كي گئي كه قرآن كے بعد ظاهر هونے والے واقعات وحقائق قرآن كي تصديق كرتے چلے جائيں گے۔ قرآن آئنده آنے والے تمام زمانوں ميں اپني صداقت كو نه صرف باقي ركھے گا بلكه مزيد واضح اور مدلل كرتا چلا جائے گا۔ قرآن هميشه وقت كي كتاب رهے گا۔ يه بات حيرت انگيز طورپر صد في صد درست ثابت هوئي هے۔ علمي تحقيقات، تاريخي واقعات، زماني انقلابات سب قرآن كے حق ميں جمع هوتے چلے گئے۔ حتي كه آج غير مسلم محققين بھي گواهي دے رهے هيں كه قرآن اپني نادر خصوصيات كي بنا پر خود اس بات كا ثبوت هے كه وه خدا كي كتاب هے۔ كسي انساني تصنيف ميں ايسي ابدي خصوصيات پائي نهيں جاسكتيں۔تفصيل كے ليے ديكھيے ’’عظمتِ قرآن‘‘۔ اس كھلي هوئي حقيقت كے باوجود جو لوگ قرآن كي صداقت كے آگے نه جھكيں وه صرف يه ثابت كررهے هيں كه ان كي بے خوفي كي نفسيات نے ان كو غير سنجيده بنا ديا هے۔ كيوں كه غير سنجيده انسان هي سے اس قسم كي غير معقول روش ظاهر هوسكتي هے كه وه كھلے كھلے شواهد كو ديكھے اور اس كے باوجود اس كا اقرار نه كرے۔

أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَاءِ رَبِّهِمْ ۗ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ

📘 دنيا ميں جتنے لوگ بھي اٹھے هيں سب كي كهاني حال كي كهاني هے، كسي كي كهاني مستقبل كي كهاني نهيں۔ كيونكه كسي كا مستقبل بھي اس كے حال كي تصديق كرنے والا نه بن سكا۔ ايسي دنيا ميں ڈيڑھ هزار سال پهلے يه پيشين گوئي كي گئي كه قرآن كے بعد ظاهر هونے والے واقعات وحقائق قرآن كي تصديق كرتے چلے جائيں گے۔ قرآن آئنده آنے والے تمام زمانوں ميں اپني صداقت كو نه صرف باقي ركھے گا بلكه مزيد واضح اور مدلل كرتا چلا جائے گا۔ قرآن هميشه وقت كي كتاب رهے گا۔ يه بات حيرت انگيز طورپر صد في صد درست ثابت هوئي هے۔ علمي تحقيقات، تاريخي واقعات، زماني انقلابات سب قرآن كے حق ميں جمع هوتے چلے گئے۔ حتي كه آج غير مسلم محققين بھي گواهي دے رهے هيں كه قرآن اپني نادر خصوصيات كي بنا پر خود اس بات كا ثبوت هے كه وه خدا كي كتاب هے۔ كسي انساني تصنيف ميں ايسي ابدي خصوصيات پائي نهيں جاسكتيں۔تفصيل كے ليے ديكھيے ’’عظمتِ قرآن‘‘۔ اس كھلي هوئي حقيقت كے باوجود جو لوگ قرآن كي صداقت كے آگے نه جھكيں وه صرف يه ثابت كررهے هيں كه ان كي بے خوفي كي نفسيات نے ان كو غير سنجيده بنا ديا هے۔ كيوں كه غير سنجيده انسان هي سے اس قسم كي غير معقول روش ظاهر هوسكتي هے كه وه كھلے كھلے شواهد كو ديكھے اور اس كے باوجود اس كا اقرار نه كرے۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ

📘 حق کی دعوت جب اٹھتی ہے ’’بشر‘‘ کی سطح پراٹھتی ہے۔ لوگوںکی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بشر خدا کی زبان میں کلام کرے۔ اس ليے وہ اس کے منکر بن جاتے ہیں مگر خدا کی سنّت یہی ہے کہ وہ بشر کی زبان سے اپنی بات کا اعلان کرائے۔ جو شخص داعی کی بشریت سے گزر کر اس کے الٰہی کلام کو نہ پہچان سکے وہ موجودہ امتحان کی دنیا میں ہدایت سے محروم رہے گا۔ آخرت کو ماننا وہی معتبر ہے جس کے ساتھ کامل توحید اور انفاق فی سبیل اللہ پایا جائے۔ جو شخص اللہ کو حقیقی طورپر پالے وہ کسی اور عظمت میں اٹکا ہوا نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح جو شخص اللہ کو حقیقی طورپر پالے وہ اپنے مال کو خدا سے بچا کر نہیں رکھ سکتا۔ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِکا مطلب ہے أَخْلِصُوا لَهُ الْعِبَادَةَ (تفسیر ابن کثیر، جلد7، صفحہ 164 )یعنی، تمہاری ساری توجہ صرف اللہ کی طرف ہو تمھاری دعا اور عبادت کا مرجع صرف ایک اللہ ہو۔ تمھاری سوچ تمام تر خدا رخی سوچ بن جائے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا کے ابدی انعامات دئے جائیں گے۔

الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ

📘 حق کی دعوت جب اٹھتی ہے ’’بشر‘‘ کی سطح پراٹھتی ہے۔ لوگوںکی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بشر خدا کی زبان میں کلام کرے۔ اس ليے وہ اس کے منکر بن جاتے ہیں مگر خدا کی سنّت یہی ہے کہ وہ بشر کی زبان سے اپنی بات کا اعلان کرائے۔ جو شخص داعی کی بشریت سے گزر کر اس کے الٰہی کلام کو نہ پہچان سکے وہ موجودہ امتحان کی دنیا میں ہدایت سے محروم رہے گا۔ آخرت کو ماننا وہی معتبر ہے جس کے ساتھ کامل توحید اور انفاق فی سبیل اللہ پایا جائے۔ جو شخص اللہ کو حقیقی طورپر پالے وہ کسی اور عظمت میں اٹکا ہوا نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح جو شخص اللہ کو حقیقی طورپر پالے وہ اپنے مال کو خدا سے بچا کر نہیں رکھ سکتا۔ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِکا مطلب ہے أَخْلِصُوا لَهُ الْعِبَادَةَ (تفسیر ابن کثیر، جلد7، صفحہ 164 )یعنی، تمہاری ساری توجہ صرف اللہ کی طرف ہو تمھاری دعا اور عبادت کا مرجع صرف ایک اللہ ہو۔ تمھاری سوچ تمام تر خدا رخی سوچ بن جائے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا کے ابدی انعامات دئے جائیں گے۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ

📘 حق کی دعوت جب اٹھتی ہے ’’بشر‘‘ کی سطح پراٹھتی ہے۔ لوگوںکی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بشر خدا کی زبان میں کلام کرے۔ اس ليے وہ اس کے منکر بن جاتے ہیں مگر خدا کی سنّت یہی ہے کہ وہ بشر کی زبان سے اپنی بات کا اعلان کرائے۔ جو شخص داعی کی بشریت سے گزر کر اس کے الٰہی کلام کو نہ پہچان سکے وہ موجودہ امتحان کی دنیا میں ہدایت سے محروم رہے گا۔ آخرت کو ماننا وہی معتبر ہے جس کے ساتھ کامل توحید اور انفاق فی سبیل اللہ پایا جائے۔ جو شخص اللہ کو حقیقی طورپر پالے وہ کسی اور عظمت میں اٹکا ہوا نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح جو شخص اللہ کو حقیقی طورپر پالے وہ اپنے مال کو خدا سے بچا کر نہیں رکھ سکتا۔ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِکا مطلب ہے أَخْلِصُوا لَهُ الْعِبَادَةَ (تفسیر ابن کثیر، جلد7، صفحہ 164 )یعنی، تمہاری ساری توجہ صرف اللہ کی طرف ہو تمھاری دعا اور عبادت کا مرجع صرف ایک اللہ ہو۔ تمھاری سوچ تمام تر خدا رخی سوچ بن جائے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا کے ابدی انعامات دئے جائیں گے۔

۞ قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ

📘 دعوت حق کا انکار خدا کے نزدیک سب سے بڑا جرم ہے۔ یہ انکار اگر پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں ہو تو اس کی سزا اسی موجودہ دنیا سے شروع ہوجاتی ہے، جیسا کہ عاد و ثمود وغیرہ قوموں کے ساتھ پیش آیا۔اور اگر عام داعیوں کا معاملہ ہو تو ان کے انکار کا انجام آخرت میں سامنے آئے گا۔ دعوت حق کا اصل نکتہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ انسان خدا کا عبادت گزار بنے۔ وہ غیراللہ کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ سے اپنے خوف و محبت کے جذبات وابستہ کرے۔ مگر ہر دور میں ایسا ہو ا کہ پیغمبر کی شخصیت ان کے معاصرین کو اس سے کم نظر آئی کہ خدا انہیں اپنے پیغام کی پیغام رسانی کےلیے چنے۔ اس ليے انھوں نے پیغمبروں کو ماننے سے انکار کردیا۔