slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة محمد

(Muhammad) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ

📘 قدیم عرب میں جن لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا اور آپ کی مخالفت کی ان کے اعمال ضائع ہوگئے۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ انہوں نے چوں کہ شعوری سطح پر دین داری کا ثبوت نہیں دیا اس لیے ان کے وہ اعمال بھی بے قیمت قرار پائے جو وہ روایتی دینداری کی سطح پر انجام دے رہے تھے۔ قدیم عرب کے لوگ اپنے آپ کو ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی امت سمجھتے تھے۔ انہیں خانہ کعبہ کا منتظم ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ ان کے یہاں کسی نہ کسی شکل میں نماز، روزہ، حج کا رواج بھی موجود تھا۔ حاجیوں کی خدمت، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، مہمانوں کی تواضع کا بھی ان کے یہاں چرچا تھا۔ یہ سب کام اگرچہ وہ بظاہر کر رہے تھے مگر وہ ان کی شعوری دینداری کا حصہ نہ تھے۔ وہ محض روایتی طور پر ان کی زندگی کا جزء بنے ہوئے تھے۔ ان اعمال کو وہ اس لیے کر رہے تھے کہ وہ صدیوں سے ان کے درمیان رائج چلے آ رہے تھے۔ مگر وقت کے پیغمبر کو پہچاننے کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے شعور کو متحرک کریں۔ وہ ذاتی معرفت کی سطح پر اسے پائیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت قدیم روایات کا زور شامل نہ تھا اس لیے آپ کو وہی شخص پہچان سکتا تھا جو ذاتی شعور کی سطح پر حقیقت کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جب انہوں نے وقت کے پیغمبر کا انکار کیا تو یہ ثابت ہوگیا کہ ان کی دینداری محض روایت کے تحت ہے، نہ کہ شعور کے تحت۔ اور اللہ کو شعوری دین داری مطلوب ہے، نہ کہ محض روایتی دینداری۔ اس کے برعکس، جو لوگ وقت کے پیغمبر پر ایمان لائے ۔ انہوں نے یہ ثبوت دیا کہ وہ شعور کی سطح پر دین دار بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ خدا کے یہاں قابل قبول اور قابل انعام قرار پائے۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ ماضی کے زور پر ماننے والے لوگ حال کی معرفت کے امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کی نظر سے دیکھنے والے اپنی نظر سے دیکھنے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔

۞ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۖ وَلِلْكَافِرِينَ أَمْثَالُهَا

📘 عرب میں جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ان کو آپ نے یہ پیشگی خبر دی کہ تم جو کھاپی رہے ہو تو یہ مت سمجھو کہ تم آزاد ہو تم پوری طرح خدا کی گرفت میں ہو۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر تم اپنے انکار پر قائم رہے تو خدا کے قانون کے مطابق تم تباہ کردیے جاؤگے۔ یہ واقعہ عین پیشین گوئی کے مطابق ظہور میں آیا۔ توحید کے علم بردار غالب آئے اور جو لوگ شرک کے علم بردار بنے ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لیے نابود ہوگئے۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَىٰ لَهُمْ

📘 عرب میں جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ان کو آپ نے یہ پیشگی خبر دی کہ تم جو کھاپی رہے ہو تو یہ مت سمجھو کہ تم آزاد ہو تم پوری طرح خدا کی گرفت میں ہو۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر تم اپنے انکار پر قائم رہے تو خدا کے قانون کے مطابق تم تباہ کردیے جاؤگے۔ یہ واقعہ عین پیشین گوئی کے مطابق ظہور میں آیا۔ توحید کے علم بردار غالب آئے اور جو لوگ شرک کے علم بردار بنے ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لیے نابود ہوگئے۔

إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ

📘 عرب میں جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ان کو آپ نے یہ پیشگی خبر دی کہ تم جو کھاپی رہے ہو تو یہ مت سمجھو کہ تم آزاد ہو تم پوری طرح خدا کی گرفت میں ہو۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر تم اپنے انکار پر قائم رہے تو خدا کے قانون کے مطابق تم تباہ کردیے جاؤگے۔ یہ واقعہ عین پیشین گوئی کے مطابق ظہور میں آیا۔ توحید کے علم بردار غالب آئے اور جو لوگ شرک کے علم بردار بنے ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لیے نابود ہوگئے۔

وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ هِيَ أَشَدُّ قُوَّةً مِنْ قَرْيَتِكَ الَّتِي أَخْرَجَتْكَ أَهْلَكْنَاهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ

📘 عرب میں جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ان کو آپ نے یہ پیشگی خبر دی کہ تم جو کھاپی رہے ہو تو یہ مت سمجھو کہ تم آزاد ہو تم پوری طرح خدا کی گرفت میں ہو۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر تم اپنے انکار پر قائم رہے تو خدا کے قانون کے مطابق تم تباہ کردیے جاؤگے۔ یہ واقعہ عین پیشین گوئی کے مطابق ظہور میں آیا۔ توحید کے علم بردار غالب آئے اور جو لوگ شرک کے علم بردار بنے ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لیے نابود ہوگئے۔

أَفَمَنْ كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ كَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ

📘 بینہ (دلیل) پر کھڑا ہونا اپنی زندگی کی تعمیر حقیقت واقعہ کی بنیاد پر کرنا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص اہواء (اپنی خواہشات) پر کھڑا ہوتا ہے وہ حقیقت واقعہ سے انحراف کرتا ہے، وہ خدا کی دنیا میں خدا کی مرضی کے خلاف اپنی دنیا بنانا چاہتا ہے۔ موجودہ امتحان کی دنیا میں دونوں گروہ بظاہر یکساں مواقع پا رہے ہیں۔ مگر آخرت کی حقیقی دنیا میں صرف پہلا گروہ خدا کی ابدی نعمتوں میں سے حصہ پائےگا اور دوسرا گروہ ہمیشہ کے لیے ذلیل و ناکام ہو کر رہ جائے گا۔

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ فِيهَا أَنْهَارٌ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى ۖ وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ ۖ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ

📘 بینہ (دلیل) پر کھڑا ہونا اپنی زندگی کی تعمیر حقیقت واقعہ کی بنیاد پر کرنا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص اہواء (اپنی خواہشات) پر کھڑا ہوتا ہے وہ حقیقت واقعہ سے انحراف کرتا ہے، وہ خدا کی دنیا میں خدا کی مرضی کے خلاف اپنی دنیا بنانا چاہتا ہے۔ موجودہ امتحان کی دنیا میں دونوں گروہ بظاہر یکساں مواقع پا رہے ہیں۔ مگر آخرت کی حقیقی دنیا میں صرف پہلا گروہ خدا کی ابدی نعمتوں میں سے حصہ پائےگا اور دوسرا گروہ ہمیشہ کے لیے ذلیل و ناکام ہو کر رہ جائے گا۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّىٰ إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ

📘 منافق آدمی کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ سنجیدہ مجلس میں بیٹھتا ہے تو بظاہر بہت با ادب نظر آتا ہے مگر اس کا ذہن دوسری دوسری چیزوں میں لگا رہتا ہے وہ مجلس میں بیٹھ کر بھی مجلس کی بات نہیں سن پاتا۔ چنانچہ جب وہ مجلس سے باہر آتا ہے تو دوسرے اصحاب علم سے پوچھتا ہے کہ ’’حضرت نے کیا فرمایا‘‘۔ یہ وہ قیمت ہے جو اپنی خواہش پرستی کی بنا پر انہیں ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ اپنے اوپر اپنی خواہش کو غالب کرلیتے ہیں۔ وہ دلیل کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دھیرے دھیرے ان کے احساسات کند ہوجاتے ہیں۔ ان کی عقل اس قابل نہیں رہتی کہ وہ بلند حقیقتوں کا ادراک کرسکے۔ اس کے برعکس، جو لوگ حقیقتوں کو اہمیت دیں، جو سچی دلیل کے آگے جھک جائیں، وہ اس عمل سے اپنی فکری صلاحیت کو زندہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی معرفت میں دن بدن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ان کو ابدی طور پر جمود سے نا آشنا ایمان حاصل ہوجاتا ہے۔

وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ

📘 منافق آدمی کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ سنجیدہ مجلس میں بیٹھتا ہے تو بظاہر بہت با ادب نظر آتا ہے مگر اس کا ذہن دوسری دوسری چیزوں میں لگا رہتا ہے وہ مجلس میں بیٹھ کر بھی مجلس کی بات نہیں سن پاتا۔ چنانچہ جب وہ مجلس سے باہر آتا ہے تو دوسرے اصحاب علم سے پوچھتا ہے کہ ’’حضرت نے کیا فرمایا‘‘۔ یہ وہ قیمت ہے جو اپنی خواہش پرستی کی بنا پر انہیں ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ اپنے اوپر اپنی خواہش کو غالب کرلیتے ہیں۔ وہ دلیل کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دھیرے دھیرے ان کے احساسات کند ہوجاتے ہیں۔ ان کی عقل اس قابل نہیں رہتی کہ وہ بلند حقیقتوں کا ادراک کرسکے۔ اس کے برعکس، جو لوگ حقیقتوں کو اہمیت دیں، جو سچی دلیل کے آگے جھک جائیں، وہ اس عمل سے اپنی فکری صلاحیت کو زندہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی معرفت میں دن بدن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ان کو ابدی طور پر جمود سے نا آشنا ایمان حاصل ہوجاتا ہے۔

فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ

📘 زلزلہ کے آنے کی پیشگی اطلاع سے جو شخص چوکنّا نہ ہو وہ گویا زلزلہ کے آنے کا منتظر ہے۔ کیوں کہ ہر اگلا لمحہ زلزلہ کو اس کے قریب لا رہا ہے۔ اسی طرح قیامت کی چیتاونی سے آدمی متنبہ نہیں ہوتا مگر جب قیامت اس کے سر پر ٹوٹ پڑے گی تو وہ اعتراف کرنے لگے گا۔ مگر اس وقت کا اعتراف اسے فائدہ نہ دے گا۔ کیونکہ اعتراف وہ ہے جو پردہ اٹھنے سے پہلے کیا جائے۔ پردہ اٹھنے کے بعد اعتراف کی کوئی قیمت نہیں۔ استغفار در اصل احساس عجز کا ایک اظہار ہے۔ قیامت کی ہولناکی کا یقین اور اللہ کی قدرت اور اس کے ہر چیز سے باخبر ہونے کا احساس آدمی کے اندر جو نفسیاتی ہیجان پیدا کرتا ہے وہ ہر لمحہ لطیف کلمات میں ڈھلتا رہتا ہے۔ انہیں کلمات کو ذکر اور دعا اور استغفار کہا جاتا ہے۔

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ

📘 زلزلہ کے آنے کی پیشگی اطلاع سے جو شخص چوکنّا نہ ہو وہ گویا زلزلہ کے آنے کا منتظر ہے۔ کیوں کہ ہر اگلا لمحہ زلزلہ کو اس کے قریب لا رہا ہے۔ اسی طرح قیامت کی چیتاونی سے آدمی متنبہ نہیں ہوتا مگر جب قیامت اس کے سر پر ٹوٹ پڑے گی تو وہ اعتراف کرنے لگے گا۔ مگر اس وقت کا اعتراف اسے فائدہ نہ دے گا۔ کیونکہ اعتراف وہ ہے جو پردہ اٹھنے سے پہلے کیا جائے۔ پردہ اٹھنے کے بعد اعتراف کی کوئی قیمت نہیں۔ استغفار در اصل احساس عجز کا ایک اظہار ہے۔ قیامت کی ہولناکی کا یقین اور اللہ کی قدرت اور اس کے ہر چیز سے باخبر ہونے کا احساس آدمی کے اندر جو نفسیاتی ہیجان پیدا کرتا ہے وہ ہر لمحہ لطیف کلمات میں ڈھلتا رہتا ہے۔ انہیں کلمات کو ذکر اور دعا اور استغفار کہا جاتا ہے۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ

📘 قدیم عرب میں جن لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا اور آپ کی مخالفت کی ان کے اعمال ضائع ہوگئے۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ انہوں نے چوں کہ شعوری سطح پر دین داری کا ثبوت نہیں دیا اس لیے ان کے وہ اعمال بھی بے قیمت قرار پائے جو وہ روایتی دینداری کی سطح پر انجام دے رہے تھے۔ قدیم عرب کے لوگ اپنے آپ کو ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی امت سمجھتے تھے۔ انہیں خانہ کعبہ کا منتظم ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ ان کے یہاں کسی نہ کسی شکل میں نماز، روزہ، حج کا رواج بھی موجود تھا۔ حاجیوں کی خدمت، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، مہمانوں کی تواضع کا بھی ان کے یہاں چرچا تھا۔ یہ سب کام اگرچہ وہ بظاہر کر رہے تھے مگر وہ ان کی شعوری دینداری کا حصہ نہ تھے۔ وہ محض روایتی طور پر ان کی زندگی کا جزء بنے ہوئے تھے۔ ان اعمال کو وہ اس لیے کر رہے تھے کہ وہ صدیوں سے ان کے درمیان رائج چلے آ رہے تھے۔ مگر وقت کے پیغمبر کو پہچاننے کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے شعور کو متحرک کریں۔ وہ ذاتی معرفت کی سطح پر اسے پائیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت قدیم روایات کا زور شامل نہ تھا اس لیے آپ کو وہی شخص پہچان سکتا تھا جو ذاتی شعور کی سطح پر حقیقت کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جب انہوں نے وقت کے پیغمبر کا انکار کیا تو یہ ثابت ہوگیا کہ ان کی دینداری محض روایت کے تحت ہے، نہ کہ شعور کے تحت۔ اور اللہ کو شعوری دین داری مطلوب ہے، نہ کہ محض روایتی دینداری۔ اس کے برعکس، جو لوگ وقت کے پیغمبر پر ایمان لائے ۔ انہوں نے یہ ثبوت دیا کہ وہ شعور کی سطح پر دین دار بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ خدا کے یہاں قابل قبول اور قابل انعام قرار پائے۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ ماضی کے زور پر ماننے والے لوگ حال کی معرفت کے امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کی نظر سے دیکھنے والے اپنی نظر سے دیکھنے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔

وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ۖ فَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مُحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ۙ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ

📘 منافق کی پہچان یہ ہے کہ وہ الفاظ میں سب سے آگے اور عمل میں سب سے پیچھے ہو۔ جہاد سے پہلے وہ جہاد کی باتیں کرے اور جب جہاد واقعۃً پیش آجائے تو وہ اس سے بھاگ کھڑا ہو۔ سچے اہل ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہروقت سننے اور ماننے کے لیے تیار رہے اور جب کسی سخت اقدام کا فیصلہ ہوجائے تو اپنے عمل سے ثابت کردے کہ اس نے خدا کو گواہ بنا کر جو عہد کیا تھا اس عہد میں وہ پورا اترا۔ منافق لوگ جہاد سے بچنے کے لیے بظاہر امن پسندی کی باتیں کرتے ہیں۔ مگر عملاً صورت حال یہ ہے کہ جہاں انہیں موقع ملتا ہے وہ فوراً شر پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ حتی کہ جن مسلمانوں سے ان کی قرابتیں ہیں ان کی مطلق پروا نہ کرتے ہوئے ان کے دشمنوں کے مددگار بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خدا کی نظر میں ملعون ہیں۔ ملعون ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس سے چھن جائے۔ وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی نہ دیکھے اور کان رکھتے ہوئے بھی کچھ نہ سنے۔

طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ ۚ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ

📘 منافق کی پہچان یہ ہے کہ وہ الفاظ میں سب سے آگے اور عمل میں سب سے پیچھے ہو۔ جہاد سے پہلے وہ جہاد کی باتیں کرے اور جب جہاد واقعۃً پیش آجائے تو وہ اس سے بھاگ کھڑا ہو۔ سچے اہل ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہروقت سننے اور ماننے کے لیے تیار رہے اور جب کسی سخت اقدام کا فیصلہ ہوجائے تو اپنے عمل سے ثابت کردے کہ اس نے خدا کو گواہ بنا کر جو عہد کیا تھا اس عہد میں وہ پورا اترا۔ منافق لوگ جہاد سے بچنے کے لیے بظاہر امن پسندی کی باتیں کرتے ہیں۔ مگر عملاً صورت حال یہ ہے کہ جہاں انہیں موقع ملتا ہے وہ فوراً شر پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ حتی کہ جن مسلمانوں سے ان کی قرابتیں ہیں ان کی مطلق پروا نہ کرتے ہوئے ان کے دشمنوں کے مددگار بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خدا کی نظر میں ملعون ہیں۔ ملعون ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس سے چھن جائے۔ وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی نہ دیکھے اور کان رکھتے ہوئے بھی کچھ نہ سنے۔

فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ

📘 منافق کی پہچان یہ ہے کہ وہ الفاظ میں سب سے آگے اور عمل میں سب سے پیچھے ہو۔ جہاد سے پہلے وہ جہاد کی باتیں کرے اور جب جہاد واقعۃً پیش آجائے تو وہ اس سے بھاگ کھڑا ہو۔ سچے اہل ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہروقت سننے اور ماننے کے لیے تیار رہے اور جب کسی سخت اقدام کا فیصلہ ہوجائے تو اپنے عمل سے ثابت کردے کہ اس نے خدا کو گواہ بنا کر جو عہد کیا تھا اس عہد میں وہ پورا اترا۔ منافق لوگ جہاد سے بچنے کے لیے بظاہر امن پسندی کی باتیں کرتے ہیں۔ مگر عملاً صورت حال یہ ہے کہ جہاں انہیں موقع ملتا ہے وہ فوراً شر پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ حتی کہ جن مسلمانوں سے ان کی قرابتیں ہیں ان کی مطلق پروا نہ کرتے ہوئے ان کے دشمنوں کے مددگار بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خدا کی نظر میں ملعون ہیں۔ ملعون ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس سے چھن جائے۔ وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی نہ دیکھے اور کان رکھتے ہوئے بھی کچھ نہ سنے۔

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ

📘 منافق کی پہچان یہ ہے کہ وہ الفاظ میں سب سے آگے اور عمل میں سب سے پیچھے ہو۔ جہاد سے پہلے وہ جہاد کی باتیں کرے اور جب جہاد واقعۃً پیش آجائے تو وہ اس سے بھاگ کھڑا ہو۔ سچے اہل ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہروقت سننے اور ماننے کے لیے تیار رہے اور جب کسی سخت اقدام کا فیصلہ ہوجائے تو اپنے عمل سے ثابت کردے کہ اس نے خدا کو گواہ بنا کر جو عہد کیا تھا اس عہد میں وہ پورا اترا۔ منافق لوگ جہاد سے بچنے کے لیے بظاہر امن پسندی کی باتیں کرتے ہیں۔ مگر عملاً صورت حال یہ ہے کہ جہاں انہیں موقع ملتا ہے وہ فوراً شر پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ حتی کہ جن مسلمانوں سے ان کی قرابتیں ہیں ان کی مطلق پروا نہ کرتے ہوئے ان کے دشمنوں کے مددگار بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خدا کی نظر میں ملعون ہیں۔ ملعون ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس سے چھن جائے۔ وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی نہ دیکھے اور کان رکھتے ہوئے بھی کچھ نہ سنے۔

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا

📘 قرآن نصیحت کی کتاب ہے مگر کسی چیز سے نصیحت لینے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نصیحت کے بارے میں سنجیدہ ہو۔ اگر کوئی غلط جذبہ آدمی کے اندر داخل ہو کر اس کو نصیحت کے بارے میں غیر سنجیدہ بنا دے تو وہ کبھی نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا، خواہ نصیحت کو کتنا ہی اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہو۔ دین کا کوئی ایسا حکم سامنے آئے جس میں آدمی کو اپنی خواہشات اور مفادات کی قربانی دینی ہو تو شیطان فوراً آدمی کو کوئی جھوٹاعذر سمجھا دیتا ہے۔ اور موجودہ دنیا میں مہلت امتحان کی وجہ سے آدمی کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اس جھوٹے عذر کو عملاً بھی اختیار کرلے۔ مگر یہ سب کچھ صرف چند دنوں تک کے لیے ہے۔ موت کا وقت آتے ہی ساری صورت حال بالکل مختلف ہوجائے گی۔ یہاں نفاق کے لیے ارتداد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مگر معلوم ہے کہ مدینہ کے ان منافقین کو ارتداد کی مقررہ سزا نہیں دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ارتداد ایک فوجداری جرم نہیں ہے، بلکہ وہ ایک فکری جرم ہے، اور فکری انحراف کرنے والا تبلیغ ودعوت کا موضوع ہوتا ہے، نہ کہ سزا کا موضوع۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب حکمتِ اسلام کا مضمون ’’مرتد اور ارتداد‘‘)

إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَىٰ لَهُمْ

📘 قرآن نصیحت کی کتاب ہے مگر کسی چیز سے نصیحت لینے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نصیحت کے بارے میں سنجیدہ ہو۔ اگر کوئی غلط جذبہ آدمی کے اندر داخل ہو کر اس کو نصیحت کے بارے میں غیر سنجیدہ بنا دے تو وہ کبھی نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا، خواہ نصیحت کو کتنا ہی اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہو۔ دین کا کوئی ایسا حکم سامنے آئے جس میں آدمی کو اپنی خواہشات اور مفادات کی قربانی دینی ہو تو شیطان فوراً آدمی کو کوئی جھوٹاعذر سمجھا دیتا ہے۔ اور موجودہ دنیا میں مہلت امتحان کی وجہ سے آدمی کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اس جھوٹے عذر کو عملاً بھی اختیار کرلے۔ مگر یہ سب کچھ صرف چند دنوں تک کے لیے ہے۔ موت کا وقت آتے ہی ساری صورت حال بالکل مختلف ہوجائے گی۔ یہاں نفاق کے لیے ارتداد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مگر معلوم ہے کہ مدینہ کے ان منافقین کو ارتداد کی مقررہ سزا نہیں دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ارتداد ایک فوجداری جرم نہیں ہے، بلکہ وہ ایک فکری جرم ہے، اور فکری انحراف کرنے والا تبلیغ ودعوت کا موضوع ہوتا ہے، نہ کہ سزا کا موضوع۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب حکمتِ اسلام کا مضمون ’’مرتد اور ارتداد‘‘)

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ ۖ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ

📘 قرآن نصیحت کی کتاب ہے مگر کسی چیز سے نصیحت لینے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نصیحت کے بارے میں سنجیدہ ہو۔ اگر کوئی غلط جذبہ آدمی کے اندر داخل ہو کر اس کو نصیحت کے بارے میں غیر سنجیدہ بنا دے تو وہ کبھی نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا، خواہ نصیحت کو کتنا ہی اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہو۔ دین کا کوئی ایسا حکم سامنے آئے جس میں آدمی کو اپنی خواہشات اور مفادات کی قربانی دینی ہو تو شیطان فوراً آدمی کو کوئی جھوٹاعذر سمجھا دیتا ہے۔ اور موجودہ دنیا میں مہلت امتحان کی وجہ سے آدمی کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اس جھوٹے عذر کو عملاً بھی اختیار کرلے۔ مگر یہ سب کچھ صرف چند دنوں تک کے لیے ہے۔ موت کا وقت آتے ہی ساری صورت حال بالکل مختلف ہوجائے گی۔ یہاں نفاق کے لیے ارتداد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مگر معلوم ہے کہ مدینہ کے ان منافقین کو ارتداد کی مقررہ سزا نہیں دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ارتداد ایک فوجداری جرم نہیں ہے، بلکہ وہ ایک فکری جرم ہے، اور فکری انحراف کرنے والا تبلیغ ودعوت کا موضوع ہوتا ہے، نہ کہ سزا کا موضوع۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب حکمتِ اسلام کا مضمون ’’مرتد اور ارتداد‘‘)

فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ

📘 قرآن نصیحت کی کتاب ہے مگر کسی چیز سے نصیحت لینے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نصیحت کے بارے میں سنجیدہ ہو۔ اگر کوئی غلط جذبہ آدمی کے اندر داخل ہو کر اس کو نصیحت کے بارے میں غیر سنجیدہ بنا دے تو وہ کبھی نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا، خواہ نصیحت کو کتنا ہی اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہو۔ دین کا کوئی ایسا حکم سامنے آئے جس میں آدمی کو اپنی خواہشات اور مفادات کی قربانی دینی ہو تو شیطان فوراً آدمی کو کوئی جھوٹاعذر سمجھا دیتا ہے۔ اور موجودہ دنیا میں مہلت امتحان کی وجہ سے آدمی کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اس جھوٹے عذر کو عملاً بھی اختیار کرلے۔ مگر یہ سب کچھ صرف چند دنوں تک کے لیے ہے۔ موت کا وقت آتے ہی ساری صورت حال بالکل مختلف ہوجائے گی۔ یہاں نفاق کے لیے ارتداد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مگر معلوم ہے کہ مدینہ کے ان منافقین کو ارتداد کی مقررہ سزا نہیں دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ارتداد ایک فوجداری جرم نہیں ہے، بلکہ وہ ایک فکری جرم ہے، اور فکری انحراف کرنے والا تبلیغ ودعوت کا موضوع ہوتا ہے، نہ کہ سزا کا موضوع۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب حکمتِ اسلام کا مضمون ’’مرتد اور ارتداد‘‘)

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ

📘 قرآن نصیحت کی کتاب ہے مگر کسی چیز سے نصیحت لینے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نصیحت کے بارے میں سنجیدہ ہو۔ اگر کوئی غلط جذبہ آدمی کے اندر داخل ہو کر اس کو نصیحت کے بارے میں غیر سنجیدہ بنا دے تو وہ کبھی نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا، خواہ نصیحت کو کتنا ہی اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہو۔ دین کا کوئی ایسا حکم سامنے آئے جس میں آدمی کو اپنی خواہشات اور مفادات کی قربانی دینی ہو تو شیطان فوراً آدمی کو کوئی جھوٹاعذر سمجھا دیتا ہے۔ اور موجودہ دنیا میں مہلت امتحان کی وجہ سے آدمی کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اس جھوٹے عذر کو عملاً بھی اختیار کرلے۔ مگر یہ سب کچھ صرف چند دنوں تک کے لیے ہے۔ موت کا وقت آتے ہی ساری صورت حال بالکل مختلف ہوجائے گی۔ یہاں نفاق کے لیے ارتداد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مگر معلوم ہے کہ مدینہ کے ان منافقین کو ارتداد کی مقررہ سزا نہیں دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ارتداد ایک فوجداری جرم نہیں ہے، بلکہ وہ ایک فکری جرم ہے، اور فکری انحراف کرنے والا تبلیغ ودعوت کا موضوع ہوتا ہے، نہ کہ سزا کا موضوع۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب حکمتِ اسلام کا مضمون ’’مرتد اور ارتداد‘‘)

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ

📘 منافقین کی بیماری یہ تھی کہ ان کے سینوں میں حسد (ضغن) تھا۔ منافق مسلمانوں کو اپنے مخلص برادران دین سے یہ حسد کیوں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام کی ہر ترقی انہیں مخلص مسلمانوں کے حصہ میں جاتی ہوئی نظر آتی تھی۔ یہ چیز منافقین کے لیے بے حد شاق تھی۔ وہ سوچتے تھے کہ ہم ایسی مہم میں اپنا جان و مال کیوں کھپائیں جس میں دوسروں کی حیثیت بڑھے، جس میں دوسروں کو بڑائی حاصل ہوتی ہو۔ منافقین اپنے ظاہری رویہ میں اپنی اس اندرونی حالت کو چھپاتے تھے مگر سمجھ دار لوگوں کے لیے وہ چھپا ہوا نہ تھا۔ منافقین کا مصنوعی لہجہ، ان کی درد سے خالی آواز بتا دیتی تھی کہ اسلام سے ان کا تعلق محض دکھاوے کا تعلق ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں قلبی تعلق۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَبِّهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ

📘 قدیم عرب میں جن لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا اور آپ کی مخالفت کی ان کے اعمال ضائع ہوگئے۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ انہوں نے چوں کہ شعوری سطح پر دین داری کا ثبوت نہیں دیا اس لیے ان کے وہ اعمال بھی بے قیمت قرار پائے جو وہ روایتی دینداری کی سطح پر انجام دے رہے تھے۔ قدیم عرب کے لوگ اپنے آپ کو ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی امت سمجھتے تھے۔ انہیں خانہ کعبہ کا منتظم ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ ان کے یہاں کسی نہ کسی شکل میں نماز، روزہ، حج کا رواج بھی موجود تھا۔ حاجیوں کی خدمت، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، مہمانوں کی تواضع کا بھی ان کے یہاں چرچا تھا۔ یہ سب کام اگرچہ وہ بظاہر کر رہے تھے مگر وہ ان کی شعوری دینداری کا حصہ نہ تھے۔ وہ محض روایتی طور پر ان کی زندگی کا جزء بنے ہوئے تھے۔ ان اعمال کو وہ اس لیے کر رہے تھے کہ وہ صدیوں سے ان کے درمیان رائج چلے آ رہے تھے۔ مگر وقت کے پیغمبر کو پہچاننے کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے شعور کو متحرک کریں۔ وہ ذاتی معرفت کی سطح پر اسے پائیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت قدیم روایات کا زور شامل نہ تھا اس لیے آپ کو وہی شخص پہچان سکتا تھا جو ذاتی شعور کی سطح پر حقیقت کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جب انہوں نے وقت کے پیغمبر کا انکار کیا تو یہ ثابت ہوگیا کہ ان کی دینداری محض روایت کے تحت ہے، نہ کہ شعور کے تحت۔ اور اللہ کو شعوری دین داری مطلوب ہے، نہ کہ محض روایتی دینداری۔ اس کے برعکس، جو لوگ وقت کے پیغمبر پر ایمان لائے ۔ انہوں نے یہ ثبوت دیا کہ وہ شعور کی سطح پر دین دار بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ خدا کے یہاں قابل قبول اور قابل انعام قرار پائے۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ ماضی کے زور پر ماننے والے لوگ حال کی معرفت کے امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کی نظر سے دیکھنے والے اپنی نظر سے دیکھنے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔

وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَيْنَاكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيمَاهُمْ ۚ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ

📘 منافقین کی بیماری یہ تھی کہ ان کے سینوں میں حسد (ضغن) تھا۔ منافق مسلمانوں کو اپنے مخلص برادران دین سے یہ حسد کیوں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام کی ہر ترقی انہیں مخلص مسلمانوں کے حصہ میں جاتی ہوئی نظر آتی تھی۔ یہ چیز منافقین کے لیے بے حد شاق تھی۔ وہ سوچتے تھے کہ ہم ایسی مہم میں اپنا جان و مال کیوں کھپائیں جس میں دوسروں کی حیثیت بڑھے، جس میں دوسروں کو بڑائی حاصل ہوتی ہو۔ منافقین اپنے ظاہری رویہ میں اپنی اس اندرونی حالت کو چھپاتے تھے مگر سمجھ دار لوگوں کے لیے وہ چھپا ہوا نہ تھا۔ منافقین کا مصنوعی لہجہ، ان کی درد سے خالی آواز بتا دیتی تھی کہ اسلام سے ان کا تعلق محض دکھاوے کا تعلق ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں قلبی تعلق۔

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ

📘 آدمی جب ایمان کو لے کر کھڑا ہوتا ہے تو اس پر مختلف حالات پیش آتے ہیں۔ یہ حالات اس کے ایمان کا امتحان ہوتے ہیں۔ وہ تقاضا کرتے ہیں کہ وہ قربانی کی قیمت پر اپنے مومن ہونے کا ثبوت دے۔ وہ اپنے نفس کو کچلے۔ وہ اپنے مادی مفادات کو نظر انداز کرے۔ وہ لوگوں کی ایذا رسانی کو برداشت کرے۔ حتیٰ کہ جان و مال کو کھپا کر اپنے ایمان پر قائم رہے۔ مومن کو اس قسم کے حالات میں ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ غیر مومنین کو کھلی آزادی حاصل ہو تاکہ وہ اہل ایمان کے خلاف ہر قسم کی کارروائیاں کرسکیں۔ ان کارروائیوں کے ذریعہ ایک طرف مخالفین کا جرم ثابت شدہ بنتا ہے۔ دوسری طرف ان شدید حالات میں اہل ایمان ثابت قدم رہ کر دکھا دیتے ہیں کہ وہ واقعی مومن ہیں اور اس قابل ہیں کہ خدا کی معیاری دنیا میں بسانے کے لیے ان کا انتخاب کیا جائے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَىٰ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَسَيُحْبِطُ أَعْمَالَهُمْ

📘 آدمی جب ایمان کو لے کر کھڑا ہوتا ہے تو اس پر مختلف حالات پیش آتے ہیں۔ یہ حالات اس کے ایمان کا امتحان ہوتے ہیں۔ وہ تقاضا کرتے ہیں کہ وہ قربانی کی قیمت پر اپنے مومن ہونے کا ثبوت دے۔ وہ اپنے نفس کو کچلے۔ وہ اپنے مادی مفادات کو نظر انداز کرے۔ وہ لوگوں کی ایذا رسانی کو برداشت کرے۔ حتیٰ کہ جان و مال کو کھپا کر اپنے ایمان پر قائم رہے۔ مومن کو اس قسم کے حالات میں ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ غیر مومنین کو کھلی آزادی حاصل ہو تاکہ وہ اہل ایمان کے خلاف ہر قسم کی کارروائیاں کرسکیں۔ ان کارروائیوں کے ذریعہ ایک طرف مخالفین کا جرم ثابت شدہ بنتا ہے۔ دوسری طرف ان شدید حالات میں اہل ایمان ثابت قدم رہ کر دکھا دیتے ہیں کہ وہ واقعی مومن ہیں اور اس قابل ہیں کہ خدا کی معیاری دنیا میں بسانے کے لیے ان کا انتخاب کیا جائے۔

۞ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ

📘 ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض مسلمانوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اگر وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرلیں تو کوئی گناہ ان کو نقصان نہ پہنچائے گا۔ اس پر یہ آیت 33 اتری۔ اس کی روشنی میں آیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو چاہيے کہ وہ ایمان کے ساتھ اطاعت کو جمع کرے۔ وہ نہ صرف بے ضرر احکام کی پیروی کرے بلکہ وہ ان احکام کا بھی پیرو بنے جن کے لیے اپنے نفس کو کچلنا اور اپنے مفاد کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کے سابقہ اعمال اس کو کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔ کمزور مسلمانوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ حق کا ساتھ اس شرط پر دیتے ہیں کہ وقت کے بڑوں کی ناراضگی مول نہ لینی پڑے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ حق کا ساتھ دینا وقت کے بڑوں کو ناراض کرنے کا سبب بن رہا ہے تو وہ ان کی طرف جھک جاتے ہیں، خواہ یہ بڑے حق کے منکر ہوں اور خواہ وہ حق کو روکنے والے بنے ہوئے ہوں۔ جو لوگ حق کا انکار کریں اور اس کے مخالف بن کر کھڑے ہوجائیں وہ کبھی اللہ کی رحمت نہیں پا سکتے۔ پھر جو لوگ ایسے منکرین کا ساتھ دیں، ان کا انجام ان سے مختلف کیوں ہوگا۔ اسلام میں جنگ بھی ہے اور صلح بھی۔ مگر وہ جنگ اسلامی جنگ نہیں جو اشتعال کی بنا پر لڑی جائے۔ اسی طرح وہ صلح بھی اسلامی صلح نہیں جس کا محرک بزدلی اور کم ہمتی ہو۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں چیزیں سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت کی جائیں، نہ کہ محض جذباتی رد عمل کے تحت۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ

📘 ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض مسلمانوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اگر وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرلیں تو کوئی گناہ ان کو نقصان نہ پہنچائے گا۔ اس پر یہ آیت 33 اتری۔ اس کی روشنی میں آیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو چاہيے کہ وہ ایمان کے ساتھ اطاعت کو جمع کرے۔ وہ نہ صرف بے ضرر احکام کی پیروی کرے بلکہ وہ ان احکام کا بھی پیرو بنے جن کے لیے اپنے نفس کو کچلنا اور اپنے مفاد کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کے سابقہ اعمال اس کو کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔ کمزور مسلمانوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ حق کا ساتھ اس شرط پر دیتے ہیں کہ وقت کے بڑوں کی ناراضگی مول نہ لینی پڑے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ حق کا ساتھ دینا وقت کے بڑوں کو ناراض کرنے کا سبب بن رہا ہے تو وہ ان کی طرف جھک جاتے ہیں، خواہ یہ بڑے حق کے منکر ہوں اور خواہ وہ حق کو روکنے والے بنے ہوئے ہوں۔ جو لوگ حق کا انکار کریں اور اس کے مخالف بن کر کھڑے ہوجائیں وہ کبھی اللہ کی رحمت نہیں پا سکتے۔ پھر جو لوگ ایسے منکرین کا ساتھ دیں، ان کا انجام ان سے مختلف کیوں ہوگا۔ اسلام میں جنگ بھی ہے اور صلح بھی۔ مگر وہ جنگ اسلامی جنگ نہیں جو اشتعال کی بنا پر لڑی جائے۔ اسی طرح وہ صلح بھی اسلامی صلح نہیں جس کا محرک بزدلی اور کم ہمتی ہو۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں چیزیں سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت کی جائیں، نہ کہ محض جذباتی رد عمل کے تحت۔

فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ

📘 ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض مسلمانوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اگر وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرلیں تو کوئی گناہ ان کو نقصان نہ پہنچائے گا۔ اس پر یہ آیت 33 اتری۔ اس کی روشنی میں آیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو چاہيے کہ وہ ایمان کے ساتھ اطاعت کو جمع کرے۔ وہ نہ صرف بے ضرر احکام کی پیروی کرے بلکہ وہ ان احکام کا بھی پیرو بنے جن کے لیے اپنے نفس کو کچلنا اور اپنے مفاد کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کے سابقہ اعمال اس کو کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔ کمزور مسلمانوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ حق کا ساتھ اس شرط پر دیتے ہیں کہ وقت کے بڑوں کی ناراضگی مول نہ لینی پڑے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ حق کا ساتھ دینا وقت کے بڑوں کو ناراض کرنے کا سبب بن رہا ہے تو وہ ان کی طرف جھک جاتے ہیں، خواہ یہ بڑے حق کے منکر ہوں اور خواہ وہ حق کو روکنے والے بنے ہوئے ہوں۔ جو لوگ حق کا انکار کریں اور اس کے مخالف بن کر کھڑے ہوجائیں وہ کبھی اللہ کی رحمت نہیں پا سکتے۔ پھر جو لوگ ایسے منکرین کا ساتھ دیں، ان کا انجام ان سے مختلف کیوں ہوگا۔ اسلام میں جنگ بھی ہے اور صلح بھی۔ مگر وہ جنگ اسلامی جنگ نہیں جو اشتعال کی بنا پر لڑی جائے۔ اسی طرح وہ صلح بھی اسلامی صلح نہیں جس کا محرک بزدلی اور کم ہمتی ہو۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں چیزیں سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت کی جائیں، نہ کہ محض جذباتی رد عمل کے تحت۔

إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۚ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ

📘 ایمان اور تقوی کی زندگی اختیار کرنے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ دنیا کے فائدے اور دنیا کی رونقیں ہیں۔ آدمی جانتا ہے کہ وہ کون سا رویہ ہے جو آخرت میں اس کو کامیاب بنانے والا ہے۔ مگر وقتی مصلحتوں کا خیال اس کے اوپر غالب آتا ہے اور وہ بے راہ روی کی طرف چلا جاتا ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے حق میں بے حد مہربان ہے۔ وہ کبھی انسان سے اتنا بڑا مطالبہ نہیں کرتا جو اس کے لیے ناقابل برداشت ہو۔ جس کے نتیجہ میں یہ ہو کہ اس کا بھرم کھل جائے اور اس کی چھپی ہوئی بشری کمزوریاں لوگوں کے سامنے آجائیں۔ اسلام خدا کا دین ہے۔ مگر اس کی اشاعت اور حفاظت کا کام اس عالم اسباب میں انسانی گروہ کے ذریعہ انجام پانا ہے۔ مسلمان یہی انسانی گروہ ہیں۔ مسلمان اگر اپنے فریضہ کو انجام دیں تو وہ خدا کی نظر میں باقیمت ٹھہریں گے۔ لیکن اگر وہ اس فریضہ کو انجام دینے میں ناکام رہیں تو اللہ دوسری قوموں کو ایمان کی توفیق دے گا اور ان کے ذریعہ اپنے دین کا تسلسل باقی رکھے گا۔

إِنْ يَسْأَلْكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا وَيُخْرِجْ أَضْغَانَكُمْ

📘 ایمان اور تقوی کی زندگی اختیار کرنے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ دنیا کے فائدے اور دنیا کی رونقیں ہیں۔ آدمی جانتا ہے کہ وہ کون سا رویہ ہے جو آخرت میں اس کو کامیاب بنانے والا ہے۔ مگر وقتی مصلحتوں کا خیال اس کے اوپر غالب آتا ہے اور وہ بے راہ روی کی طرف چلا جاتا ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے حق میں بے حد مہربان ہے۔ وہ کبھی انسان سے اتنا بڑا مطالبہ نہیں کرتا جو اس کے لیے ناقابل برداشت ہو۔ جس کے نتیجہ میں یہ ہو کہ اس کا بھرم کھل جائے اور اس کی چھپی ہوئی بشری کمزوریاں لوگوں کے سامنے آجائیں۔ اسلام خدا کا دین ہے۔ مگر اس کی اشاعت اور حفاظت کا کام اس عالم اسباب میں انسانی گروہ کے ذریعہ انجام پانا ہے۔ مسلمان یہی انسانی گروہ ہیں۔ مسلمان اگر اپنے فریضہ کو انجام دیں تو وہ خدا کی نظر میں باقیمت ٹھہریں گے۔ لیکن اگر وہ اس فریضہ کو انجام دینے میں ناکام رہیں تو اللہ دوسری قوموں کو ایمان کی توفیق دے گا اور ان کے ذریعہ اپنے دین کا تسلسل باقی رکھے گا۔

هَا أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ ۖ وَمَنْ يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ ۚ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ ۚ وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ

📘 ایمان اور تقوی کی زندگی اختیار کرنے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ دنیا کے فائدے اور دنیا کی رونقیں ہیں۔ آدمی جانتا ہے کہ وہ کون سا رویہ ہے جو آخرت میں اس کو کامیاب بنانے والا ہے۔ مگر وقتی مصلحتوں کا خیال اس کے اوپر غالب آتا ہے اور وہ بے راہ روی کی طرف چلا جاتا ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے حق میں بے حد مہربان ہے۔ وہ کبھی انسان سے اتنا بڑا مطالبہ نہیں کرتا جو اس کے لیے ناقابل برداشت ہو۔ جس کے نتیجہ میں یہ ہو کہ اس کا بھرم کھل جائے اور اس کی چھپی ہوئی بشری کمزوریاں لوگوں کے سامنے آجائیں۔ اسلام خدا کا دین ہے۔ مگر اس کی اشاعت اور حفاظت کا کام اس عالم اسباب میں انسانی گروہ کے ذریعہ انجام پانا ہے۔ مسلمان یہی انسانی گروہ ہیں۔ مسلمان اگر اپنے فریضہ کو انجام دیں تو وہ خدا کی نظر میں باقیمت ٹھہریں گے۔ لیکن اگر وہ اس فریضہ کو انجام دینے میں ناکام رہیں تو اللہ دوسری قوموں کو ایمان کی توفیق دے گا اور ان کے ذریعہ اپنے دین کا تسلسل باقی رکھے گا۔

فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِنْ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ

📘 یہاں انکار کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اتمام حجت کے باوجود ایمان نہیں لائے اور مزید یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ناحق جنگ چھیڑ دی اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفاعی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حکم دیا گیا کہ جب ان سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو ان سے لڑ کر ان کا زور توڑ دو، تاکہ وہ آئندہ دعوت حق کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون رہا ہے کہ جن قوموں نے اپنے پیغمبروں کا انکار کیا وہ اتمام حجت کے بعد ہلاک کردی گئیں۔ مگر پیغمبر آخر الزماں کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب تھا کہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے ذریعہ شرک کا دور ختم کیا جائے اور توحید کی بنیاد پر ایک نئی تاریخ وجود میں لائی جائے۔ ایسے تاریخ ساز انسانوں کا انتخاب سخت ترین حالات ہی میں ہوسکتا تھا۔ چنانچہ مخالفین کی طرف سے چھیڑی ہوئی جنگ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھیوں کو داخل کرکے یہی فائدہ حاصل کیا گیا۔ جنت مومن کی ایک انتہائی معلوم چیز ہے۔ وہ نہ صرف پیغمبر سے اس کی خبر سنتا ہے بلکہ اپنی بڑھی ہوئی معرفت کے ذریعہ وہ اس کا تصوراتی ادراک بھی کرلیتا ہے۔ غیب میں چھپی ہوئی جنت کا یہی گہرا ادراک ہے جو آدمی کو یہ حوصلہ دیتا ہے کہ وہ قربانی کی قیمت پر اس کا طالب بن سکے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کوئی شخص آج کی دنیا کو قربان کرکے کل کی جنت کا امیدوار نہ بنے۔

سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ

📘 یہاں انکار کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اتمام حجت کے باوجود ایمان نہیں لائے اور مزید یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ناحق جنگ چھیڑ دی اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفاعی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حکم دیا گیا کہ جب ان سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو ان سے لڑ کر ان کا زور توڑ دو، تاکہ وہ آئندہ دعوت حق کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون رہا ہے کہ جن قوموں نے اپنے پیغمبروں کا انکار کیا وہ اتمام حجت کے بعد ہلاک کردی گئیں۔ مگر پیغمبر آخر الزماں کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب تھا کہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے ذریعہ شرک کا دور ختم کیا جائے اور توحید کی بنیاد پر ایک نئی تاریخ وجود میں لائی جائے۔ ایسے تاریخ ساز انسانوں کا انتخاب سخت ترین حالات ہی میں ہوسکتا تھا۔ چنانچہ مخالفین کی طرف سے چھیڑی ہوئی جنگ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھیوں کو داخل کرکے یہی فائدہ حاصل کیا گیا۔ جنت مومن کی ایک انتہائی معلوم چیز ہے۔ وہ نہ صرف پیغمبر سے اس کی خبر سنتا ہے بلکہ اپنی بڑھی ہوئی معرفت کے ذریعہ وہ اس کا تصوراتی ادراک بھی کرلیتا ہے۔ غیب میں چھپی ہوئی جنت کا یہی گہرا ادراک ہے جو آدمی کو یہ حوصلہ دیتا ہے کہ وہ قربانی کی قیمت پر اس کا طالب بن سکے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کوئی شخص آج کی دنیا کو قربان کرکے کل کی جنت کا امیدوار نہ بنے۔

وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ

📘 یہاں انکار کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اتمام حجت کے باوجود ایمان نہیں لائے اور مزید یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ناحق جنگ چھیڑ دی اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفاعی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حکم دیا گیا کہ جب ان سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو ان سے لڑ کر ان کا زور توڑ دو، تاکہ وہ آئندہ دعوت حق کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون رہا ہے کہ جن قوموں نے اپنے پیغمبروں کا انکار کیا وہ اتمام حجت کے بعد ہلاک کردی گئیں۔ مگر پیغمبر آخر الزماں کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب تھا کہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے ذریعہ شرک کا دور ختم کیا جائے اور توحید کی بنیاد پر ایک نئی تاریخ وجود میں لائی جائے۔ ایسے تاریخ ساز انسانوں کا انتخاب سخت ترین حالات ہی میں ہوسکتا تھا۔ چنانچہ مخالفین کی طرف سے چھیڑی ہوئی جنگ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھیوں کو داخل کرکے یہی فائدہ حاصل کیا گیا۔ جنت مومن کی ایک انتہائی معلوم چیز ہے۔ وہ نہ صرف پیغمبر سے اس کی خبر سنتا ہے بلکہ اپنی بڑھی ہوئی معرفت کے ذریعہ وہ اس کا تصوراتی ادراک بھی کرلیتا ہے۔ غیب میں چھپی ہوئی جنت کا یہی گہرا ادراک ہے جو آدمی کو یہ حوصلہ دیتا ہے کہ وہ قربانی کی قیمت پر اس کا طالب بن سکے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کوئی شخص آج کی دنیا کو قربان کرکے کل کی جنت کا امیدوار نہ بنے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ

📘 عرب میں جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ان کو آپ نے یہ پیشگی خبر دی کہ تم جو کھاپی رہے ہو تو یہ مت سمجھو کہ تم آزاد ہو تم پوری طرح خدا کی گرفت میں ہو۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر تم اپنے انکار پر قائم رہے تو خدا کے قانون کے مطابق تم تباہ کردیے جاؤگے۔ یہ واقعہ عین پیشین گوئی کے مطابق ظہور میں آیا۔ توحید کے علم بردار غالب آئے اور جو لوگ شرک کے علم بردار بنے ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لیے نابود ہوگئے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ

📘 عرب میں جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ان کو آپ نے یہ پیشگی خبر دی کہ تم جو کھاپی رہے ہو تو یہ مت سمجھو کہ تم آزاد ہو تم پوری طرح خدا کی گرفت میں ہو۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر تم اپنے انکار پر قائم رہے تو خدا کے قانون کے مطابق تم تباہ کردیے جاؤگے۔ یہ واقعہ عین پیشین گوئی کے مطابق ظہور میں آیا۔ توحید کے علم بردار غالب آئے اور جو لوگ شرک کے علم بردار بنے ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لیے نابود ہوگئے۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ

📘 عرب میں جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ان کو آپ نے یہ پیشگی خبر دی کہ تم جو کھاپی رہے ہو تو یہ مت سمجھو کہ تم آزاد ہو تم پوری طرح خدا کی گرفت میں ہو۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر تم اپنے انکار پر قائم رہے تو خدا کے قانون کے مطابق تم تباہ کردیے جاؤگے۔ یہ واقعہ عین پیشین گوئی کے مطابق ظہور میں آیا۔ توحید کے علم بردار غالب آئے اور جو لوگ شرک کے علم بردار بنے ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لیے نابود ہوگئے۔