🕋 تفسير سورة ق
(Qaf) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ
📘 پیغمبروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے ہم زمانہ لوگ ان کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ البتہ جب بعد کا زمانہ آتا ہے تو لوگ آسانی کے ساتھ ان کی پیغمبرانہ حیثیت کو تسلیم کرلیتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنے ہم زمانہ لوگوں کو’’اپنے برابر کا ایک شخص‘‘ نظر آتا ہے۔ یہ بات ان کے لیے تعجب خیز بن جاتی ہے کہ جس شخص کو وہ اپنے برابر کا سمجھے ہوئے تھے وہ اچانک بڑا بن کر ان کو نصیحت کرنے لگے۔ مگر بعد کے زمانہ میں پیغمبر کے ساتھ عظمتوں کی تاریخ وابستہ ہوچکی ہوتی ہے۔ اس لیے بعد کے لوگوں کو وہ "اپنے سے برتر شخص" دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے زمانے میں پیغمبر کی پیغمبرانہ حیثیت کو ماننا لوگوں کے لیے مشکل نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر، ابتدائی دور کے لوگوں کے سامنے پیغمبر ایک نزاعی شخصیت کے روپ میں ہوتا ہے۔ اور بعد کے لوگوں کے سامنے ثابت شدہ شخصیت کے روپ میں۔ دور اول کے لوگوں کو اپنے اور پیغمبر کے درمیان خلا کو پر کرنے کے لیے شعوری سفر طے کرنا پڑتا ہے، جب کہ بعد کے زمانہ میں یہ خلا خود تاریخ پر کرچکی ہوتی ہے۔
جو لوگ پیغمبر کی پیغمبری پر شبہ کر رہے ہوں ان کی نظر میں پیغمبر کی ہر بات مشتبہ ہوجاتی ہے حتی کہ وہ بات بھی جس کا عقیدہ روایتی طور پر ان کے یہاں موجود ہوتا ہے۔ تاہم یہ باتیں لوگوں کے لیے عذر نہیں بن سکتیں۔ پیغمبر کو نہ ماننے والے اگر اس کی کتاب کی ناقابلِ تقلید ادبی عظمت پر غور کریں تو وہ اس کے لانے والے کو خدا کا پیغمبر ماننے پر مجبور ہوجائیں گے۔
وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ
📘 قرآن نے تاریخ کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کے مطابق یہاں بار بار ایسا ہوا ہے کہ پیغمبروں کے انکار کے نتیجہ میں ان کی مخاطب قومیں ہلاک کردی گئیں۔ یہاں انہیں ہلاک شدہ قوموں میں سے کچھ قوموں کا ذکر بطور مثال فرمایا گیا ہے۔ قوموں کی یہ ہلاکت در اصل آخرت کا ایک حصہ ہے۔ منکرین حق کے لیے جو عذاب آخرت میں مقدر ہے اس کا ایک جزء اسی آج کی دنیا میں دکھا دیا جاتا ہے۔
دنیا کی پہلی تخلیق اس کی دوسری تخلیق کے امکان کو ثابت کر رہی ہے۔ اگر آدمی سنجیدہ ہو تو آخرت کو ماننے کے لیے اس کے بعد اسے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔
رِزْقًا لِلْعِبَادِ ۖ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ الْخُرُوجُ
📘 قرآن نے تاریخ کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کے مطابق یہاں بار بار ایسا ہوا ہے کہ پیغمبروں کے انکار کے نتیجہ میں ان کی مخاطب قومیں ہلاک کردی گئیں۔ یہاں انہیں ہلاک شدہ قوموں میں سے کچھ قوموں کا ذکر بطور مثال فرمایا گیا ہے۔ قوموں کی یہ ہلاکت در اصل آخرت کا ایک حصہ ہے۔ منکرین حق کے لیے جو عذاب آخرت میں مقدر ہے اس کا ایک جزء اسی آج کی دنیا میں دکھا دیا جاتا ہے۔
دنیا کی پہلی تخلیق اس کی دوسری تخلیق کے امکان کو ثابت کر رہی ہے۔ اگر آدمی سنجیدہ ہو تو آخرت کو ماننے کے لیے اس کے بعد اسے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ
📘 قرآن نے تاریخ کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کے مطابق یہاں بار بار ایسا ہوا ہے کہ پیغمبروں کے انکار کے نتیجہ میں ان کی مخاطب قومیں ہلاک کردی گئیں۔ یہاں انہیں ہلاک شدہ قوموں میں سے کچھ قوموں کا ذکر بطور مثال فرمایا گیا ہے۔ قوموں کی یہ ہلاکت در اصل آخرت کا ایک حصہ ہے۔ منکرین حق کے لیے جو عذاب آخرت میں مقدر ہے اس کا ایک جزء اسی آج کی دنیا میں دکھا دیا جاتا ہے۔
دنیا کی پہلی تخلیق اس کی دوسری تخلیق کے امکان کو ثابت کر رہی ہے۔ اگر آدمی سنجیدہ ہو تو آخرت کو ماننے کے لیے اس کے بعد اسے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔
وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ
📘 قرآن نے تاریخ کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کے مطابق یہاں بار بار ایسا ہوا ہے کہ پیغمبروں کے انکار کے نتیجہ میں ان کی مخاطب قومیں ہلاک کردی گئیں۔ یہاں انہیں ہلاک شدہ قوموں میں سے کچھ قوموں کا ذکر بطور مثال فرمایا گیا ہے۔ قوموں کی یہ ہلاکت در اصل آخرت کا ایک حصہ ہے۔ منکرین حق کے لیے جو عذاب آخرت میں مقدر ہے اس کا ایک جزء اسی آج کی دنیا میں دکھا دیا جاتا ہے۔
دنیا کی پہلی تخلیق اس کی دوسری تخلیق کے امکان کو ثابت کر رہی ہے۔ اگر آدمی سنجیدہ ہو تو آخرت کو ماننے کے لیے اس کے بعد اسے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔
وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ
📘 قرآن نے تاریخ کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کے مطابق یہاں بار بار ایسا ہوا ہے کہ پیغمبروں کے انکار کے نتیجہ میں ان کی مخاطب قومیں ہلاک کردی گئیں۔ یہاں انہیں ہلاک شدہ قوموں میں سے کچھ قوموں کا ذکر بطور مثال فرمایا گیا ہے۔ قوموں کی یہ ہلاکت در اصل آخرت کا ایک حصہ ہے۔ منکرین حق کے لیے جو عذاب آخرت میں مقدر ہے اس کا ایک جزء اسی آج کی دنیا میں دکھا دیا جاتا ہے۔
دنیا کی پہلی تخلیق اس کی دوسری تخلیق کے امکان کو ثابت کر رہی ہے۔ اگر آدمی سنجیدہ ہو تو آخرت کو ماننے کے لیے اس کے بعد اسے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔
أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ
📘 قرآن نے تاریخ کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کے مطابق یہاں بار بار ایسا ہوا ہے کہ پیغمبروں کے انکار کے نتیجہ میں ان کی مخاطب قومیں ہلاک کردی گئیں۔ یہاں انہیں ہلاک شدہ قوموں میں سے کچھ قوموں کا ذکر بطور مثال فرمایا گیا ہے۔ قوموں کی یہ ہلاکت در اصل آخرت کا ایک حصہ ہے۔ منکرین حق کے لیے جو عذاب آخرت میں مقدر ہے اس کا ایک جزء اسی آج کی دنیا میں دکھا دیا جاتا ہے۔
دنیا کی پہلی تخلیق اس کی دوسری تخلیق کے امکان کو ثابت کر رہی ہے۔ اگر آدمی سنجیدہ ہو تو آخرت کو ماننے کے لیے اس کے بعد اسے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
📘 دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں’’ریکارڈنگ‘‘ کا ناقابلِ خطا نظام موجود ہے۔ انسان کی سوچ اس کے ذہنی پردہ پر ہمیشہ کے لیے نقش ہورہی ہے۔ انسان کا ہر بول ہوائی لہروں کی صورت میں مستقل طور پر باقی رہتا ہے۔ انسان کا عمل حرارتی لہروں کے ذریعہ خارجی دنیا میں اس طرح محفوظ ہوجاتا ہے کہ اس کو کسی بھی وقت دہرایا جا سکے۔ یہ سب آج کی معلوم حقیقتیں ہیں۔ اور یہ معلوم حقیقتیں قرآن کی اس خبر کو قابل فہم بنا رہی ہیں کہ انسان کی نیت، اس کا قول اور اس کا عمل سب کچھ خالق کے علم میں ہے۔ انسان کی ہر چیز فرشتوں کے رجسٹر میں درج کی جا رہی ہے۔
إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ
📘 دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں’’ریکارڈنگ‘‘ کا ناقابلِ خطا نظام موجود ہے۔ انسان کی سوچ اس کے ذہنی پردہ پر ہمیشہ کے لیے نقش ہورہی ہے۔ انسان کا ہر بول ہوائی لہروں کی صورت میں مستقل طور پر باقی رہتا ہے۔ انسان کا عمل حرارتی لہروں کے ذریعہ خارجی دنیا میں اس طرح محفوظ ہوجاتا ہے کہ اس کو کسی بھی وقت دہرایا جا سکے۔ یہ سب آج کی معلوم حقیقتیں ہیں۔ اور یہ معلوم حقیقتیں قرآن کی اس خبر کو قابل فہم بنا رہی ہیں کہ انسان کی نیت، اس کا قول اور اس کا عمل سب کچھ خالق کے علم میں ہے۔ انسان کی ہر چیز فرشتوں کے رجسٹر میں درج کی جا رہی ہے۔
مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ
📘 دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں’’ریکارڈنگ‘‘ کا ناقابلِ خطا نظام موجود ہے۔ انسان کی سوچ اس کے ذہنی پردہ پر ہمیشہ کے لیے نقش ہورہی ہے۔ انسان کا ہر بول ہوائی لہروں کی صورت میں مستقل طور پر باقی رہتا ہے۔ انسان کا عمل حرارتی لہروں کے ذریعہ خارجی دنیا میں اس طرح محفوظ ہوجاتا ہے کہ اس کو کسی بھی وقت دہرایا جا سکے۔ یہ سب آج کی معلوم حقیقتیں ہیں۔ اور یہ معلوم حقیقتیں قرآن کی اس خبر کو قابل فہم بنا رہی ہیں کہ انسان کی نیت، اس کا قول اور اس کا عمل سب کچھ خالق کے علم میں ہے۔ انسان کی ہر چیز فرشتوں کے رجسٹر میں درج کی جا رہی ہے۔
وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ
📘 ان آیات میں موت اور اس کے بعد قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں پر کیا بیتے گی جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے کو آزاد پا کر سرکش بنے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر کشی اتنی بھیانک ہے کہ زندہ آدمی کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔
بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ
📘 پیغمبروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے ہم زمانہ لوگ ان کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ البتہ جب بعد کا زمانہ آتا ہے تو لوگ آسانی کے ساتھ ان کی پیغمبرانہ حیثیت کو تسلیم کرلیتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنے ہم زمانہ لوگوں کو’’اپنے برابر کا ایک شخص‘‘ نظر آتا ہے۔ یہ بات ان کے لیے تعجب خیز بن جاتی ہے کہ جس شخص کو وہ اپنے برابر کا سمجھے ہوئے تھے وہ اچانک بڑا بن کر ان کو نصیحت کرنے لگے۔ مگر بعد کے زمانہ میں پیغمبر کے ساتھ عظمتوں کی تاریخ وابستہ ہوچکی ہوتی ہے۔ اس لیے بعد کے لوگوں کو وہ "اپنے سے برتر شخص" دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے زمانے میں پیغمبر کی پیغمبرانہ حیثیت کو ماننا لوگوں کے لیے مشکل نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر، ابتدائی دور کے لوگوں کے سامنے پیغمبر ایک نزاعی شخصیت کے روپ میں ہوتا ہے۔ اور بعد کے لوگوں کے سامنے ثابت شدہ شخصیت کے روپ میں۔ دور اول کے لوگوں کو اپنے اور پیغمبر کے درمیان خلا کو پر کرنے کے لیے شعوری سفر طے کرنا پڑتا ہے، جب کہ بعد کے زمانہ میں یہ خلا خود تاریخ پر کرچکی ہوتی ہے۔
جو لوگ پیغمبر کی پیغمبری پر شبہ کر رہے ہوں ان کی نظر میں پیغمبر کی ہر بات مشتبہ ہوجاتی ہے حتی کہ وہ بات بھی جس کا عقیدہ روایتی طور پر ان کے یہاں موجود ہوتا ہے۔ تاہم یہ باتیں لوگوں کے لیے عذر نہیں بن سکتیں۔ پیغمبر کو نہ ماننے والے اگر اس کی کتاب کی ناقابلِ تقلید ادبی عظمت پر غور کریں تو وہ اس کے لانے والے کو خدا کا پیغمبر ماننے پر مجبور ہوجائیں گے۔
وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِ
📘 ان آیات میں موت اور اس کے بعد قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں پر کیا بیتے گی جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے کو آزاد پا کر سرکش بنے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر کشی اتنی بھیانک ہے کہ زندہ آدمی کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔
وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ
📘 ان آیات میں موت اور اس کے بعد قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں پر کیا بیتے گی جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے کو آزاد پا کر سرکش بنے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر کشی اتنی بھیانک ہے کہ زندہ آدمی کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔
لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ
📘 ان آیات میں موت اور اس کے بعد قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں پر کیا بیتے گی جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے کو آزاد پا کر سرکش بنے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر کشی اتنی بھیانک ہے کہ زندہ آدمی کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔
وَقَالَ قَرِينُهُ هَٰذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ
📘 ان آیات میں موت اور اس کے بعد قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں پر کیا بیتے گی جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے کو آزاد پا کر سرکش بنے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر کشی اتنی بھیانک ہے کہ زندہ آدمی کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔
أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ
📘 ان آیات میں موت اور اس کے بعد قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں پر کیا بیتے گی جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے کو آزاد پا کر سرکش بنے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر کشی اتنی بھیانک ہے کہ زندہ آدمی کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔
مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُرِيبٍ
📘 ان آیات میں موت اور اس کے بعد قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں پر کیا بیتے گی جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے کو آزاد پا کر سرکش بنے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر کشی اتنی بھیانک ہے کہ زندہ آدمی کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔
الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَأَلْقِيَاهُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِ
📘 ان آیات میں موت اور اس کے بعد قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں پر کیا بیتے گی جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے کو آزاد پا کر سرکش بنے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر کشی اتنی بھیانک ہے کہ زندہ آدمی کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔
۞ قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَٰكِنْ كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ
📘 ان آیات میں موت اور اس کے بعد قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں پر کیا بیتے گی جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے کو آزاد پا کر سرکش بنے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر کشی اتنی بھیانک ہے کہ زندہ آدمی کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔
قَالَ لَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ
📘 ان آیات میں موت اور اس کے بعد قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں پر کیا بیتے گی جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے کو آزاد پا کر سرکش بنے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر کشی اتنی بھیانک ہے کہ زندہ آدمی کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔
مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ
📘 ان آیات میں موت اور اس کے بعد قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں ان لوگوں پر کیا بیتے گی جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے کو آزاد پا کر سرکش بنے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر کشی اتنی بھیانک ہے کہ زندہ آدمی کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔
أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۖ ذَٰلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ
📘 پیغمبروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے ہم زمانہ لوگ ان کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ البتہ جب بعد کا زمانہ آتا ہے تو لوگ آسانی کے ساتھ ان کی پیغمبرانہ حیثیت کو تسلیم کرلیتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنے ہم زمانہ لوگوں کو’’اپنے برابر کا ایک شخص‘‘ نظر آتا ہے۔ یہ بات ان کے لیے تعجب خیز بن جاتی ہے کہ جس شخص کو وہ اپنے برابر کا سمجھے ہوئے تھے وہ اچانک بڑا بن کر ان کو نصیحت کرنے لگے۔ مگر بعد کے زمانہ میں پیغمبر کے ساتھ عظمتوں کی تاریخ وابستہ ہوچکی ہوتی ہے۔ اس لیے بعد کے لوگوں کو وہ "اپنے سے برتر شخص" دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے زمانے میں پیغمبر کی پیغمبرانہ حیثیت کو ماننا لوگوں کے لیے مشکل نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر، ابتدائی دور کے لوگوں کے سامنے پیغمبر ایک نزاعی شخصیت کے روپ میں ہوتا ہے۔ اور بعد کے لوگوں کے سامنے ثابت شدہ شخصیت کے روپ میں۔ دور اول کے لوگوں کو اپنے اور پیغمبر کے درمیان خلا کو پر کرنے کے لیے شعوری سفر طے کرنا پڑتا ہے، جب کہ بعد کے زمانہ میں یہ خلا خود تاریخ پر کرچکی ہوتی ہے۔
جو لوگ پیغمبر کی پیغمبری پر شبہ کر رہے ہوں ان کی نظر میں پیغمبر کی ہر بات مشتبہ ہوجاتی ہے حتی کہ وہ بات بھی جس کا عقیدہ روایتی طور پر ان کے یہاں موجود ہوتا ہے۔ تاہم یہ باتیں لوگوں کے لیے عذر نہیں بن سکتیں۔ پیغمبر کو نہ ماننے والے اگر اس کی کتاب کی ناقابلِ تقلید ادبی عظمت پر غور کریں تو وہ اس کے لانے والے کو خدا کا پیغمبر ماننے پر مجبور ہوجائیں گے۔
يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ
📘 خدا کی ابدی جنت کے مستحق کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہے۔ جو لوگ بن دیکھے ڈرے وہی وہ لوگ ہیں جو اس دن ڈر اور غم سے محفوظ رہیں گے جب ڈر لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر جنت والے اوصاف پیدا کرتا ہے اور اللہ سے بے خوفی جہنم والے اوصاف۔
وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ
📘 خدا کی ابدی جنت کے مستحق کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہے۔ جو لوگ بن دیکھے ڈرے وہی وہ لوگ ہیں جو اس دن ڈر اور غم سے محفوظ رہیں گے جب ڈر لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر جنت والے اوصاف پیدا کرتا ہے اور اللہ سے بے خوفی جہنم والے اوصاف۔
هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ
📘 خدا کی ابدی جنت کے مستحق کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہے۔ جو لوگ بن دیکھے ڈرے وہی وہ لوگ ہیں جو اس دن ڈر اور غم سے محفوظ رہیں گے جب ڈر لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر جنت والے اوصاف پیدا کرتا ہے اور اللہ سے بے خوفی جہنم والے اوصاف۔
مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ
📘 خدا کی ابدی جنت کے مستحق کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہے۔ جو لوگ بن دیکھے ڈرے وہی وہ لوگ ہیں جو اس دن ڈر اور غم سے محفوظ رہیں گے جب ڈر لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر جنت والے اوصاف پیدا کرتا ہے اور اللہ سے بے خوفی جہنم والے اوصاف۔
ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ
📘 خدا کی ابدی جنت کے مستحق کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہے۔ جو لوگ بن دیکھے ڈرے وہی وہ لوگ ہیں جو اس دن ڈر اور غم سے محفوظ رہیں گے جب ڈر لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر جنت والے اوصاف پیدا کرتا ہے اور اللہ سے بے خوفی جہنم والے اوصاف۔
لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ
📘 خدا کی ابدی جنت کے مستحق کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہے۔ جو لوگ بن دیکھے ڈرے وہی وہ لوگ ہیں جو اس دن ڈر اور غم سے محفوظ رہیں گے جب ڈر لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر جنت والے اوصاف پیدا کرتا ہے اور اللہ سے بے خوفی جہنم والے اوصاف۔
وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ
📘 قومیں ابھرتی ہیں اور عروج کو پہنچ جاتی ہیں مگر جب وہ اپنی بد اعمالی کے نتیجہ میں خدا کی زد میں آتی ہیں تو ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ زمین میں کہیں کوئی جگہ نہیں ہوتی جہاں وہ بھاگ کر پناہ لے سکیں۔ تاریخ کے ان واقعات میں زبردست نصیحت ہے۔ مگر نصیحت وہ شخص لے گا جس کے اندر یا تو سوچنے کی صلاحیت زندہ ہو کہ وہ خود واقعات کے خاموش پیغام کو اخذ کرسکے۔ یا اس کے اندر سننے کی صلاحیت زندہ ہو کہ جب اس کو بتایا جائے تو وہ اس کے اندرون تک بلا روک ٹوک پہنچے۔
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ
📘 قومیں ابھرتی ہیں اور عروج کو پہنچ جاتی ہیں مگر جب وہ اپنی بد اعمالی کے نتیجہ میں خدا کی زد میں آتی ہیں تو ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ زمین میں کہیں کوئی جگہ نہیں ہوتی جہاں وہ بھاگ کر پناہ لے سکیں۔ تاریخ کے ان واقعات میں زبردست نصیحت ہے۔ مگر نصیحت وہ شخص لے گا جس کے اندر یا تو سوچنے کی صلاحیت زندہ ہو کہ وہ خود واقعات کے خاموش پیغام کو اخذ کرسکے۔ یا اس کے اندر سننے کی صلاحیت زندہ ہو کہ جب اس کو بتایا جائے تو وہ اس کے اندرون تک بلا روک ٹوک پہنچے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ
📘 زمین و آسمان کو چھ دنوں، بالفاظ دیگر چھ ادوار میں پیدا کرنا بتاتا ہے کہ خدا کا طریقہ تدریجی عمل کا طریقہ ہے۔ اور جب خدا ساری طاقتوں کا مالک ہونے کے باوجود واقعات کو تدریج کے ساتھ لمبی مدت میں ظہور میں لاتا ہے تو انسان کو بھی چاہيے کہ وہ جلد بازی سے بچے، وہ صابرانہ عمل کے ذریعہ نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرے۔
دعوت کا عمل شروع سے آخرتک صبر کا عمل ہے۔ اس میں انسان کی طرف سے پیش آنے والی تلخیوں کو سہنا پڑتا ہے۔ اس میں نتیجہ سامنے دکھائی نہ دینے کے باوجود اپنے عمل کو جاری رکھنا پڑتا ہے۔ اس صبر آزما عمل پر وہی شخص قائم رہ سکتا ہے جس کے صبح و شام ذکر اور عبادت میں گزرتے ہوں، جو انسانوں سے نہ پا کر خدا سے پا رہا ہو، جو سب کچھ کھو کر بھی احساس محرومی کا شکار نہ ہوسکے۔
’’ہم کو تکان نہیں ہوتی‘‘ایک ضمنی فقرہ ہے۔ موجودہ محرف بائبل میں ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا(خروج
20:11
)۔ یہ فقرہ اسی کی تصحیح و تردید ہے۔ آرام وہ کرتا ہے جو تھکے۔ خدا کو تکان نہیں ہوتی اس لیے اس کو آرام کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔
فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ
📘 زمین و آسمان کو چھ دنوں، بالفاظ دیگر چھ ادوار میں پیدا کرنا بتاتا ہے کہ خدا کا طریقہ تدریجی عمل کا طریقہ ہے۔ اور جب خدا ساری طاقتوں کا مالک ہونے کے باوجود واقعات کو تدریج کے ساتھ لمبی مدت میں ظہور میں لاتا ہے تو انسان کو بھی چاہيے کہ وہ جلد بازی سے بچے، وہ صابرانہ عمل کے ذریعہ نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرے۔
دعوت کا عمل شروع سے آخرتک صبر کا عمل ہے۔ اس میں انسان کی طرف سے پیش آنے والی تلخیوں کو سہنا پڑتا ہے۔ اس میں نتیجہ سامنے دکھائی نہ دینے کے باوجود اپنے عمل کو جاری رکھنا پڑتا ہے۔ اس صبر آزما عمل پر وہی شخص قائم رہ سکتا ہے جس کے صبح و شام ذکر اور عبادت میں گزرتے ہوں، جو انسانوں سے نہ پا کر خدا سے پا رہا ہو، جو سب کچھ کھو کر بھی احساس محرومی کا شکار نہ ہوسکے۔
’’ہم کو تکان نہیں ہوتی‘‘ایک ضمنی فقرہ ہے۔ موجودہ محرف بائبل میں ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا(خروج
20:11
)۔ یہ فقرہ اسی کی تصحیح و تردید ہے۔ آرام وہ کرتا ہے جو تھکے۔ خدا کو تکان نہیں ہوتی اس لیے اس کو آرام کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔
قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ
📘 پیغمبروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے ہم زمانہ لوگ ان کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ البتہ جب بعد کا زمانہ آتا ہے تو لوگ آسانی کے ساتھ ان کی پیغمبرانہ حیثیت کو تسلیم کرلیتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنے ہم زمانہ لوگوں کو’’اپنے برابر کا ایک شخص‘‘ نظر آتا ہے۔ یہ بات ان کے لیے تعجب خیز بن جاتی ہے کہ جس شخص کو وہ اپنے برابر کا سمجھے ہوئے تھے وہ اچانک بڑا بن کر ان کو نصیحت کرنے لگے۔ مگر بعد کے زمانہ میں پیغمبر کے ساتھ عظمتوں کی تاریخ وابستہ ہوچکی ہوتی ہے۔ اس لیے بعد کے لوگوں کو وہ "اپنے سے برتر شخص" دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے زمانے میں پیغمبر کی پیغمبرانہ حیثیت کو ماننا لوگوں کے لیے مشکل نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر، ابتدائی دور کے لوگوں کے سامنے پیغمبر ایک نزاعی شخصیت کے روپ میں ہوتا ہے۔ اور بعد کے لوگوں کے سامنے ثابت شدہ شخصیت کے روپ میں۔ دور اول کے لوگوں کو اپنے اور پیغمبر کے درمیان خلا کو پر کرنے کے لیے شعوری سفر طے کرنا پڑتا ہے، جب کہ بعد کے زمانہ میں یہ خلا خود تاریخ پر کرچکی ہوتی ہے۔
جو لوگ پیغمبر کی پیغمبری پر شبہ کر رہے ہوں ان کی نظر میں پیغمبر کی ہر بات مشتبہ ہوجاتی ہے حتی کہ وہ بات بھی جس کا عقیدہ روایتی طور پر ان کے یہاں موجود ہوتا ہے۔ تاہم یہ باتیں لوگوں کے لیے عذر نہیں بن سکتیں۔ پیغمبر کو نہ ماننے والے اگر اس کی کتاب کی ناقابلِ تقلید ادبی عظمت پر غور کریں تو وہ اس کے لانے والے کو خدا کا پیغمبر ماننے پر مجبور ہوجائیں گے۔
وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ
📘 زمین و آسمان کو چھ دنوں، بالفاظ دیگر چھ ادوار میں پیدا کرنا بتاتا ہے کہ خدا کا طریقہ تدریجی عمل کا طریقہ ہے۔ اور جب خدا ساری طاقتوں کا مالک ہونے کے باوجود واقعات کو تدریج کے ساتھ لمبی مدت میں ظہور میں لاتا ہے تو انسان کو بھی چاہيے کہ وہ جلد بازی سے بچے، وہ صابرانہ عمل کے ذریعہ نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرے۔
دعوت کا عمل شروع سے آخرتک صبر کا عمل ہے۔ اس میں انسان کی طرف سے پیش آنے والی تلخیوں کو سہنا پڑتا ہے۔ اس میں نتیجہ سامنے دکھائی نہ دینے کے باوجود اپنے عمل کو جاری رکھنا پڑتا ہے۔ اس صبر آزما عمل پر وہی شخص قائم رہ سکتا ہے جس کے صبح و شام ذکر اور عبادت میں گزرتے ہوں، جو انسانوں سے نہ پا کر خدا سے پا رہا ہو، جو سب کچھ کھو کر بھی احساس محرومی کا شکار نہ ہوسکے۔
’’ہم کو تکان نہیں ہوتی‘‘ایک ضمنی فقرہ ہے۔ موجودہ محرف بائبل میں ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا(خروج
20:11
)۔ یہ فقرہ اسی کی تصحیح و تردید ہے۔ آرام وہ کرتا ہے جو تھکے۔ خدا کو تکان نہیں ہوتی اس لیے اس کو آرام کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔
وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ
📘 قیامت کی کوئی تاریخ مقرر نہیں۔ کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا اور اسرافیل صور میں پھونک مار کر اس کی اچانک آمد کی اطلاع دے دیں گے۔
جو لوگ خدا سے غافل ہیں وہ قیامت کو دور کی چیز سمجھتے ہیں۔ مگر جو سچا مومن ہے وہ ہر آن اس اندیشہ میں رہتا ہے کہ کب صور پھونک دیا جائے اور کب قیامت آجائے۔ صور پھونکے جانے کے بعد زمین و آسمان کا نقشہ بدل چکا ہوگا اور تمام لوگ ایک نئی دنیا میں جمع کیے جائیں گے تاکہ اپنے اپنے عمل کے مطابق اپنا ابدی انجام پا سکیں۔
يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ
📘 قیامت کی کوئی تاریخ مقرر نہیں۔ کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا اور اسرافیل صور میں پھونک مار کر اس کی اچانک آمد کی اطلاع دے دیں گے۔
جو لوگ خدا سے غافل ہیں وہ قیامت کو دور کی چیز سمجھتے ہیں۔ مگر جو سچا مومن ہے وہ ہر آن اس اندیشہ میں رہتا ہے کہ کب صور پھونک دیا جائے اور کب قیامت آجائے۔ صور پھونکے جانے کے بعد زمین و آسمان کا نقشہ بدل چکا ہوگا اور تمام لوگ ایک نئی دنیا میں جمع کیے جائیں گے تاکہ اپنے اپنے عمل کے مطابق اپنا ابدی انجام پا سکیں۔
إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ
📘 قیامت کی کوئی تاریخ مقرر نہیں۔ کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا اور اسرافیل صور میں پھونک مار کر اس کی اچانک آمد کی اطلاع دے دیں گے۔
جو لوگ خدا سے غافل ہیں وہ قیامت کو دور کی چیز سمجھتے ہیں۔ مگر جو سچا مومن ہے وہ ہر آن اس اندیشہ میں رہتا ہے کہ کب صور پھونک دیا جائے اور کب قیامت آجائے۔ صور پھونکے جانے کے بعد زمین و آسمان کا نقشہ بدل چکا ہوگا اور تمام لوگ ایک نئی دنیا میں جمع کیے جائیں گے تاکہ اپنے اپنے عمل کے مطابق اپنا ابدی انجام پا سکیں۔
يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۚ ذَٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ
📘 قیامت کی کوئی تاریخ مقرر نہیں۔ کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا اور اسرافیل صور میں پھونک مار کر اس کی اچانک آمد کی اطلاع دے دیں گے۔
جو لوگ خدا سے غافل ہیں وہ قیامت کو دور کی چیز سمجھتے ہیں۔ مگر جو سچا مومن ہے وہ ہر آن اس اندیشہ میں رہتا ہے کہ کب صور پھونک دیا جائے اور کب قیامت آجائے۔ صور پھونکے جانے کے بعد زمین و آسمان کا نقشہ بدل چکا ہوگا اور تمام لوگ ایک نئی دنیا میں جمع کیے جائیں گے تاکہ اپنے اپنے عمل کے مطابق اپنا ابدی انجام پا سکیں۔
نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ۖ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ
📘 قرآن میں بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ تمہارا کام صرف پہنچا دینا ہے تمہارا کام لوگوں کو بدلنا نہیں ہے۔ دوسری طرف قرآن میں ایک سے زیادہ مقام پر یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ خدا تمہارے ذریعہ سے دین حق کو تمام دینوں پر غالب کرے گا۔
یہ دو بات در اصل پیغمبر اسلام کی دو مختلف حیثیتوں کے اعتبار سے ہے۔ آپ ایک اعتبار سے ’’رسول اللہ‘‘تھے۔ دوسرے اعتبار سے آپ ’’خاتم النبیین‘‘ تھے۔ رسول اللہ ہونے کی حیثیت سے آپ کا کام وہی تھا جو تمام پیغمبروں کا تھا۔ یعنی امر حق کو لوگوں تک پوری طرح پہنچا دینا۔ مگر خاتم النبیین ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کو یہ بھی مطلوب تھا کہ آپ کے ذریعہ سے وہ اسباب پیدا کیے جائیں جو ہدایت الٰہی کو مستقل طور پر محفوظ کردیں۔ تاکہ دوبارہ پیغمبر بھیجنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ آپ کی اس دوسری حیثیت کا تقاضا تھا کہ آپ کے ذریعہ سے وہ انقلاب لایا جائے جو شرک کے غلبہ کو ختم کردے اور اسلام کو ایک ایسی غالب قوت کی حیثیت سے قائم کردے جو ہمیشہ کے لیے ہدایت الٰہی کی حفاظت کی ضمانت بن جائے۔
بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ
📘 پیغمبروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے ہم زمانہ لوگ ان کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ البتہ جب بعد کا زمانہ آتا ہے تو لوگ آسانی کے ساتھ ان کی پیغمبرانہ حیثیت کو تسلیم کرلیتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنے ہم زمانہ لوگوں کو’’اپنے برابر کا ایک شخص‘‘ نظر آتا ہے۔ یہ بات ان کے لیے تعجب خیز بن جاتی ہے کہ جس شخص کو وہ اپنے برابر کا سمجھے ہوئے تھے وہ اچانک بڑا بن کر ان کو نصیحت کرنے لگے۔ مگر بعد کے زمانہ میں پیغمبر کے ساتھ عظمتوں کی تاریخ وابستہ ہوچکی ہوتی ہے۔ اس لیے بعد کے لوگوں کو وہ "اپنے سے برتر شخص" دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے زمانے میں پیغمبر کی پیغمبرانہ حیثیت کو ماننا لوگوں کے لیے مشکل نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر، ابتدائی دور کے لوگوں کے سامنے پیغمبر ایک نزاعی شخصیت کے روپ میں ہوتا ہے۔ اور بعد کے لوگوں کے سامنے ثابت شدہ شخصیت کے روپ میں۔ دور اول کے لوگوں کو اپنے اور پیغمبر کے درمیان خلا کو پر کرنے کے لیے شعوری سفر طے کرنا پڑتا ہے، جب کہ بعد کے زمانہ میں یہ خلا خود تاریخ پر کرچکی ہوتی ہے۔
جو لوگ پیغمبر کی پیغمبری پر شبہ کر رہے ہوں ان کی نظر میں پیغمبر کی ہر بات مشتبہ ہوجاتی ہے حتی کہ وہ بات بھی جس کا عقیدہ روایتی طور پر ان کے یہاں موجود ہوتا ہے۔ تاہم یہ باتیں لوگوں کے لیے عذر نہیں بن سکتیں۔ پیغمبر کو نہ ماننے والے اگر اس کی کتاب کی ناقابلِ تقلید ادبی عظمت پر غور کریں تو وہ اس کے لانے والے کو خدا کا پیغمبر ماننے پر مجبور ہوجائیں گے۔
أَفَلَمْ يَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ
📘 قرآن نے تاریخ کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کے مطابق یہاں بار بار ایسا ہوا ہے کہ پیغمبروں کے انکار کے نتیجہ میں ان کی مخاطب قومیں ہلاک کردی گئیں۔ یہاں انہیں ہلاک شدہ قوموں میں سے کچھ قوموں کا ذکر بطور مثال فرمایا گیا ہے۔ قوموں کی یہ ہلاکت در اصل آخرت کا ایک حصہ ہے۔ منکرین حق کے لیے جو عذاب آخرت میں مقدر ہے اس کا ایک جزء اسی آج کی دنیا میں دکھا دیا جاتا ہے۔
دنیا کی پہلی تخلیق اس کی دوسری تخلیق کے امکان کو ثابت کر رہی ہے۔ اگر آدمی سنجیدہ ہو تو آخرت کو ماننے کے لیے اس کے بعد اسے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ
📘 قرآن نے تاریخ کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کے مطابق یہاں بار بار ایسا ہوا ہے کہ پیغمبروں کے انکار کے نتیجہ میں ان کی مخاطب قومیں ہلاک کردی گئیں۔ یہاں انہیں ہلاک شدہ قوموں میں سے کچھ قوموں کا ذکر بطور مثال فرمایا گیا ہے۔ قوموں کی یہ ہلاکت در اصل آخرت کا ایک حصہ ہے۔ منکرین حق کے لیے جو عذاب آخرت میں مقدر ہے اس کا ایک جزء اسی آج کی دنیا میں دکھا دیا جاتا ہے۔
دنیا کی پہلی تخلیق اس کی دوسری تخلیق کے امکان کو ثابت کر رہی ہے۔ اگر آدمی سنجیدہ ہو تو آخرت کو ماننے کے لیے اس کے بعد اسے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔
تَبْصِرَةً وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ
📘 قرآن نے تاریخ کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کے مطابق یہاں بار بار ایسا ہوا ہے کہ پیغمبروں کے انکار کے نتیجہ میں ان کی مخاطب قومیں ہلاک کردی گئیں۔ یہاں انہیں ہلاک شدہ قوموں میں سے کچھ قوموں کا ذکر بطور مثال فرمایا گیا ہے۔ قوموں کی یہ ہلاکت در اصل آخرت کا ایک حصہ ہے۔ منکرین حق کے لیے جو عذاب آخرت میں مقدر ہے اس کا ایک جزء اسی آج کی دنیا میں دکھا دیا جاتا ہے۔
دنیا کی پہلی تخلیق اس کی دوسری تخلیق کے امکان کو ثابت کر رہی ہے۔ اگر آدمی سنجیدہ ہو تو آخرت کو ماننے کے لیے اس کے بعد اسے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔
وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ
📘 قرآن نے تاریخ کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کے مطابق یہاں بار بار ایسا ہوا ہے کہ پیغمبروں کے انکار کے نتیجہ میں ان کی مخاطب قومیں ہلاک کردی گئیں۔ یہاں انہیں ہلاک شدہ قوموں میں سے کچھ قوموں کا ذکر بطور مثال فرمایا گیا ہے۔ قوموں کی یہ ہلاکت در اصل آخرت کا ایک حصہ ہے۔ منکرین حق کے لیے جو عذاب آخرت میں مقدر ہے اس کا ایک جزء اسی آج کی دنیا میں دکھا دیا جاتا ہے۔
دنیا کی پہلی تخلیق اس کی دوسری تخلیق کے امکان کو ثابت کر رہی ہے۔ اگر آدمی سنجیدہ ہو تو آخرت کو ماننے کے لیے اس کے بعد اسے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔