slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة يونس

(Yunus) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ

📘 یہ حروف مقطعات ہیں۔ یہاں پر ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ اس سے پہلے سورة البقرۃ ‘ سورة آل عمران اور سورة الاعراف تین سورتوں کا آغاز حروف مقطعات اآآّ ‘ ا آمآآ سے ہوتا ہے اور ان تینوں مقامات پر حروف مقطعات پر آیت مکمل ہوجاتی ہے ‘ مگر یہاں ان حروف پر آیت مکمل نہیں ہورہی ہے ‘ بلکہ یہ پہلی آیت کا حصہ ہیں۔ بہر حال یہ توقیفی امور حضور ﷺ کے بتانے پر موقوف ہیں۔ گرائمر ‘ منطق ‘ نحو ‘ بیان وغیرہ کے کسی اصول یا قاعدے کو یہاں دخل نہیں ہے۔ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ”یہ بڑی حکمت بھری کتاب کی آیات ہیں۔“

دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ ۚ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 آیت 10 دَعْوٰٹہُمْ فِیْہَا سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ ”اس میں ان کا ترانہ ہوگا : اے اللہ تو پاک ہے“وہ لوگ جنت کے اندر بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح و مناجات کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ‘ تو ہر ضعف سے پاک ہے ‘ ہر عیب اور ہر نقص سے مبرا ہے اور احتیاج کے ہر تصور سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ وَتَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلٰمٌ ج ”اور اس میں ان کی آپس کی دعا ’ سلام ‘ ہوگی۔“اہل جنت آپس میں ایک دوسرے کو ملتے ہوئے السلام علیکم کے الفاظ کہیں گے ‘ اس طرح وہاں ہر طرف سے سلام ‘ سلام کی آوازیں آ رہیں ہوں گی۔ جیسے سورة الواقعہ میں فرمایا : لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۔ ”وہاں نہ بےہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ۔ وہاں ان کا کلام سلام سلام ہوگا۔“وَاٰخِرُ دَعْوٰٹہُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ”اور ان کی دعا اور مناجات کا اختتام ہمیشہ ان کلمات پر ہوگا کہ کل حمد اور کل تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔“

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ

📘 آیت 99 وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعًایہ مضمون سورة الانعام میں بڑے شد ومد کے ساتھ آچکا ہے۔ حضور کی شدید خواہش تھی کہ یہ سب لوگ ایمان لے آئیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں ہمارا اپنا قانون ہے اور وہ یہ کہ جو حق کا طالب ہوگا اسے حق مل جائے گا اور جو تعصب ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے گا اسے ہدایت نصیب نہیں ہوگی۔ اگر لوگوں کو مسلمان بنانا ہی مقصود ہوتا تو اللہ کے لیے یہ کون سا مشکل کام تھا۔ وہ سب کو پیدا ہی ایسے کرتا کہ سب مؤمن متقی اور پرہیزگار ہوتے۔ آخر اس نے فرشتے بھی تو پیدا کیے ہیں جو کبھی غلطی کرتے ہیں نہ اس کی معصیت۔ جیسا کہ سورة التحریم میں فرمایا : لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ وہ اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ لیکن انسانوں کو اس نے پیدا ہی امتحان کے لیے کیا ہے۔ سورة الملک کے آغاز میں زندگی اور موت کی تخلیق کا یہی مقصد بتایا گیا ہے : خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا آیت 2 ”اس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون حسن عمل کا رویہ اختیار کرتا ہے“۔ لہٰذا اے نبی آپ اس معاملے میں اپنا فرض ادا کرتے جائیں ‘ کوئی ایمان لائے یا نہ لائے اس کی پروا نہ کریں ‘ کسی کو ہدایت دینے یا نہ دینے کا معاملہ ہم سے متعلق ہے۔اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ اصل میں یہ ساری باتیں حضور کے دل مبارک کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں کہ آپ ہر وقت دعوت و تبلیغ کی جدوجہدّ میں مصروف ہیں ‘ پھر آپ کو یہ اندیشہ بھی رہتا ہے کہ کہیں اس ضمن میں میری طرف سے کوئی کوتاہی تو نہیں ہو رہی۔ جیسے سورة الاعراف آیت 2 میں فرمایا : فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ کہ آپ کے دل میں فرائض رسالت کے سلسلے میں کسی قسم کی تنگی نہیں ہونی چاہیے۔ اور ان لوگوں کے پیچھے آپ اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔

قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 101 قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی بیشمار نشانیاں ہیں ‘ ان کو بنظر غائر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

فَهَلْ يَنْتَظِرُونَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ قُلْ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ

📘 آیت 102 فَہَلْ یَنْتَظِرُوْنَ الاَّ مِثْلَ اَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِہِمْ رسولوں کی تکذیب کرنے والی قوموں پر آنے والے عذاب استیصال والے دنوں کو قرآن حکیم میں ”ایام اللہ“ قرار دیا گیا ہے۔ تو کیا یہ لوگ ایسے دنوں کے منتظر ہیں جو قوم نوح یا قوم ہود علیہ السلام یا قوم صالح یا قوم لوط علیہ السلام کو دیکھنے پڑے تھے ؟

ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِينَ

📘 آیت 103 ثُمَّ نُنَجِّيْ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كَذٰلِكَ ۚ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِيْنَ جیسے حضرت نوح ‘ حضرت ہود اور حضرت صالح کی قوموں میں سے جو لوگ ایمان لے آئے انہیں بچالیا گیا۔ عامورہ اور سدوم کی بستیوں میں سے کوئی ایک خوش قسمت بھی نہ نکلا کہ اسے بچایا جاتا۔ حضرت لوط صرف اپنی دو بیٹیوں کو لے کر وہاں سے نکلے تھے ‘ جبکہ ان کی اپنی بیوی بھی پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ رہ گئی اور عذاب کا نشانہ بنی۔

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي شَكٍّ مِنْ دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

📘 آیت 104 قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ اب سورة کے آخر میں فیصلہ کن انداز میں خطاب کیا جا رہا ہے کہ اے لوگو ! یہ جو تم مجھ پر دباؤ ڈال رہے ہو ‘ کہ میں اپنے موقف میں کچھ نرمی پیدا کرلوں یا تمہارے ساتھ کسی حد تک مداہنت compromise کا رویہ اختیار کروں ‘ تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمہیں میرے دین کے بارے میں ابھی تک شک ہے۔ اگر ایسا ہے تو تم لوگ اپنا یہ شک دور کرلو :

وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

📘 آیت 105 وَاَنْ اَقِمْ وَجْہَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًاپورے حنیف یعنی یکسو ہو کر دین کی طرف متوجہ ہوں۔

وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 105 وَاَنْ اَقِمْ وَجْہَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًاپورے حنیف یعنی یکسو ہو کر دین کی طرف متوجہ ہوں۔

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

📘 آیت 105 وَاَنْ اَقِمْ وَجْہَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًاپورے حنیف یعنی یکسو ہو کر دین کی طرف متوجہ ہوں۔

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ

📘 آیت 108 قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ ۚ اس ہدایت کا فائدہ اسی کو ہوگا عاقبت اسی کی سنورے گی اور اللہ کی رحمت اس کے شامل حال ہوگی۔ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۭ وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ مجھے تمہارے اوپر کوئی داروغہ مقرر نہیں کیا گیا۔ میں تمہارے بارے میں مسؤل نہیں ہوں۔ اللہ کے ہاں تمہارے بارے میں مجھ سے باز پرس نہیں ہوگی کہ یہ ایمان کیوں نہیں لائے تھے ؟ وَلاَ تُسْءَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ البقرۃ اور آپ سے نہیں پوچھا جائے گا جہنمیوں کے بارے میں !“

وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ

📘 آیت 109 وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ وَاصْبِرْ اپنے موقف پر جمے رہیے اور ڈٹے رہیے ‘ مشکلات کے دباؤ کو برداشت کیجیے۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم

۞ وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

📘 آیت 11 وَلَوْ یُعَجِّلُ اللّٰہُ للنَّاس الشَّرَّ اسْتِعْجَالَہُمْ بالْخَیْرِ ”اور اگر اللہ جلدی کردیتا لوگوں کے لیے شر ‘ جیسے کہ وہ جلدی چاہتے ہیں خیر“انسان جلد باز ہے ‘ وہ چاہتا ہے کہ اس کی کوششوں کے نتائج جلد از جلد اس کے سامنے آجائیں۔ مگر اللہ تو بڑا حکیم ہے ‘ اس نے ہر کام اور ہر واقعہ کے لیے اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کس کام میں خیر ہے اور کس میں خیر نہیں ہے۔ اگر اللہ انسان کی غلطیوں اور برائیوں کے بدلے اور نتائج بھی فوراً ہی ان کے سامنے رکھ دیا کرتا اور ان کے جرائم کی سزائیں بھی فوراً ہی ان کو دے دیا کرتا تو :لَقُضِیَ اِلَیْہِمْ اَجَلُہُمْ ط ”ان کی اجل پوری ہوچکی ہوتی“یعنی ان کی مہلت عمر کبھی کی ختم ہوچکی ہوتی۔فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآءَ نَا فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ ”پھر ہم ان لوگوں کو چھوڑ دیں گے جو ہم سے ملاقات کے امیدوار نہیں ‘ کہ وہ اپنی سرکشی میں اندھے ہو کر بڑھتے چلے جائیں۔“پھر وہی بات دہرائی گئی ہے۔ اس انداز میں ایک شان استغناء ہے کہ اگر وہ ہمیں ملنے کے امیدوار نہیں تو ہماری نظر التفات کو بھی ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔

وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 12 وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآءِمًا ج ”اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے پہلو کے بل لیٹے ہوئے یا بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے۔“فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ط ”پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو وہ ایسے چل دیتا ہے جیسے اس نے ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا کوئی تکلیف پہنچنے پر۔“کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ”ایسے ہی مزین کردیا گیا ہے ان حد سے بڑھنے والوں کے لیے ان کے اعمال کو۔“ان کے اندر اتنی ڈھٹائی پیدا ہوگئی ہے کہ ذرا تکلیف آجائے تو گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں گے ‘ ہر حال میں ہمیں پکاریں گے اور گریہ وزاری میں راتیں گزار دیں گے۔ لیکن جب وہ تکلیف رفع ہوجائے گی تو ایسے بھول جائیں گے گویا ہمیں جانتے ہی نہیں۔

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا ۙ وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ

📘 آیت 12 وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآءِمًا ج ”اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے پہلو کے بل لیٹے ہوئے یا بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے۔“فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ط ”پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو وہ ایسے چل دیتا ہے جیسے اس نے ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا کوئی تکلیف پہنچنے پر۔“کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ”ایسے ہی مزین کردیا گیا ہے ان حد سے بڑھنے والوں کے لیے ان کے اعمال کو۔“ان کے اندر اتنی ڈھٹائی پیدا ہوگئی ہے کہ ذرا تکلیف آجائے تو گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں گے ‘ ہر حال میں ہمیں پکاریں گے اور گریہ وزاری میں راتیں گزار دیں گے۔ لیکن جب وہ تکلیف رفع ہوجائے گی تو ایسے بھول جائیں گے گویا ہمیں جانتے ہی نہیں۔

ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ

📘 آیت 14 ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰٓءِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْم بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَ ”پھر ان کے بعد ہم نے تمہیں زمین میں جانشین بنا دیا ‘ تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیا کرتے ہو !“یہاں ہر شخص انفرادی طور پر بھی اپنی محدود عمر میں امتحان دے رہا ہے اور قومیں اور امتیں بھی اپنے اپنے وقفۂ مہلت میں اس امتحان گاہ سے گزر رہی ہیں۔ علامہ اقبالؔ کے بقول : ؂قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی !

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

📘 آیت 15 وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍلا قالَ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآءَ نَا اءْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ہٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ ط ”اور جب ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں ہیں ہماری روشن آیات تو کہتے ہیں وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کے امیدوار نہیں ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے علاوہ آپ ﷺ کوئی اور قرآن پیش کریں یا اس میں کوئی ترمیم کریں۔“یہاں وہی الفاظ پھر دہرائے جا رہے ہیں ‘ یعنی جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے وہ ہمارے کلام کو سنجیدگی سے سنتے ہی نہیں اور کبھی سن بھی لیتے ہیں تو استہزائیہ انداز میں جواب دیتے ہیں کہ یہ قرآن بہت سخت rigid ہے ‘ اس کے احکام ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔ اس میں کچھ مداہنت compromise کا انداز ہونا چاہیے ‘ کچھ دو اور کچھ لو give and take کے اصول پر بات ہونی چاہیے۔ چناچہ آپ ﷺ اس کتاب میں کچھ کمی بیشی کریں تو پھر اس کی کچھ باتیں ہم بھی مان لیں گے۔قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآیئ نَفْسِیْج اِنْ اَ تَّبِعُ الاَّ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ ج ”اے نبی ﷺ ! کہہ دیجیے کہ میرے لیے ہرگز یہ ممکن نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کرلوں ‘ میں تو پیروی کرتا ہوں اسی کی جو میری طرف وحی کیا جا رہا ہے۔“میں تو خود وحی الٰہی کا پابند ہوں۔ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی کمی بیشی ‘ کوئی ترمیم وتنسیخ کرنے کا مجاز نہیں ہوں۔اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ”میں ڈرتا ہوں بڑے دن کے عذاب سے ‘ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں۔“

قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُمْ بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

📘 آیت 16 قُلْ لَّوْ شَآء اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَلاآ اَدْرٰٹکُمْ بِہٖز ”آپ ﷺ ان سے کہیے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ میں یہ قرآن تمہیں پڑھ کر سناتا اور نہ وہ تمہیں اس سے واقف کرتا“فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ”میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں اس سے پہلے۔ تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے !“میں پچھلے چالیس برس سے تمہارے درمیان زندگی بسر کر رہا ہوں۔ تم مجھے اچھی طرح سے جانتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میں شاعر نہیں ہوں ‘ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میں کاہن یا جادو گر بھی نہیں ہوں ‘ تمہیں یہ بھی علم ہے کہ مجھے ان چیزوں سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی اور میں نے ان چیزوں کو سیکھنے کے لیے کبھی مشق یا ریاضت بھی نہیں کی۔ تم اس حقیقت کو بھی خوب سمجھتے ہو کہ کوئی شخص ایک دن میں کبھی شاعر یا کاہن نہیں بن جاتا۔ ان تمام حقائق کا علم رکھنے کے باوجود بھی تم مجھے ایسے الزامات دیتے ہو ‘ تو کیا تم لوگ تعصب کی بنا پر عقل سے بالکل ہی عاری ہوگئے ہو ؟

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ

📘 آیت 17 فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ط ”تو اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس نے اللہ کی طرف جھوٹ بات منسوب کی یا جھٹلایا اس کی آیات کو !“ یعنی یہ قرآن جو میں تم لوگوں کو سنا رہا ہوں ‘ اگر یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے اور میں اسے اپنی طرف سے گھڑ کر پیش کر رہا ہوں تو مجھ سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ‘ اور اگر یہ واقعتا اللہ کی آیات ہیں تو تم لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو شخص اللہ کی آیات کو جھٹلا دے ‘ اس سے بڑھ کر ظالم اور گنہگار کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ اب اس معیار حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے تم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ اور اپنے عمل کا جائزہ لے اور دیکھے کہ وہ کون سی روش اختیار کر رہا ہے۔ اِنَّہٗ لاَ یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ ”یقیناً مجرم لوگ فلاح نہیں پایا کرتے۔“

وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

📘 آیت 18 وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنْفَعُہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ ط ”اور یہ لوگ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا یسی چیزوں کی جو نہ انہیں کوئی نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ نفع دے سکتی ہیں ‘ اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے ہاں۔“اس سے مشرکین مکہ کا بنیادی عقیدہ ظاہر ہو رہا ہے۔ وہ لوگ مانتے تھے کہ اس کائنات کا خالق اور مالک اللہ ہے۔ وہ اپنے بتوں کو کائنات کا خالق ومالک نہیں بلکہ اللہ کے قرب کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ ان کا ایمان تھا کہ جن ہستیوں کے نام پر یہ بت بنائے گئے ہیں وہ ہستیاں اللہ کے ہاں بہت مقرب اور محبوب ہونے کے باعث اس کے ہاں ہماری سفارش کریں گی۔قُلْ اَتُنَبِّءُوْنَ اللّٰہَ بِمَا لاَ یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلاَ فِی الْاَرْضِ ط ”آپ ﷺ کہیے کہ کیا تم اللہ کو بتانا چاہتے ہو وہ شے جو وہ نہیں جانتا ‘ نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ؟“کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دینا چاہتے ہو جس کا اس کو خود پتا نہیں ؟ یہ وہی بات ہے جو آیۃ الکرسی کی تشریح کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے کہ ایسی کسی شفاعت کا آخر جواز کیا ہوگا ؟ اللہ تو غائب اور حاضر سب کچھ جاننے والا ہے : یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْج وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ الاَّ بِمَاشَآءَ ج۔ تو پھر آخر کوئی سفارشی اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر کیا کہے گا ؟ کس بنیاد پر وہ کسی کی سفارش کرے گا ؟ کیا وہ یہ کہے گا کہ اے اللہ ! تو اس آدمی کو ٹھیک سے نہیں جانتا ‘ میں اسے بہت اچھی طرح جانتا ہوں ‘ یہ بہت اچھا اور نیک آدمی ہے ! تو کیا وہ اللہ کو وہ کچھ بتانا چاہے گا معاذ اللہ جس کو وہ خود نہیں جانتا ؟سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ”وہ بہت پاک اور بلند ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔“

وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

📘 آیت 19 وَمَا کَان النَّاس الآَّ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا ط ”اور نہیں تھے لوگ مگر ایک ہی امت ‘ پھر بعد میں انہوں نے اختلاف کیا۔“یہ مضمون سورة البقرۃ میں بھی گزر چکا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے انسانوں کی نسل چلی ہے ‘ چناچہ جس طرح تمام انسان نسلاً ایک تھے اسی طرح نظریاتی طور پر بھی وہ سب ایک ہی امت تھے۔ بنی نوع انسان کے مابین تمام نظریاتی اختلافات بعد کی پیداوار ہیں۔ وَلَوْلاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ ”اور اگر ایک بات تیرے رب کی طرف سے پہلے سے طے نہ پا چکی ہوتی“اللہ تعالیٰ نے ہر فرد اور ہر قوم کے لیے ایک اجل مقرر فر ما دی ہے۔ اسی طرح پوری کائنات کی اجل بھی طے شدہ ہے۔ اگر یہ سب کچھ طے نہ ہوچکا ہوتا :لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ فِیْمَا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ”تو فیصلہ کردیا جاتا ان کے مابین ان تمام چیزوں میں جن میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔“

أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۗ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ مُبِينٌ

📘 آیت 2 اَکَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ ”کیا لوگوں کو بہت تعجب ہوا ہے کہ ہم نے وحی بھیج دی ایک شخص پر انہی میں سے“اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ ”کہ آپ ﷺ لوگوں کو ‘ خبردار کردیجیے اور اہل ایمان کو بشارت دے دیجیے کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بہت اونچا مرتبہ ہے۔“قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ ”اس پر کافروں نے کہا کہ یہ تو ایک کھلا جادوگر ہے۔“یعنی یہ تو اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس کا فیصلہ ہے کہ وہ اس منصب کے لیے انسانوں میں سے جس کو چاہے پسند فرما کر منتخب کرلے۔ اگر اس نے محمد ﷺ کا انتخاب کر کے آپ ﷺ کو بذریعہ وحی انذار اور تبشیر کی خدمت پر مامور کیا ہے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے !

وَيَقُولُونَ لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ

📘 آیت 20 وَیَقُوْلُوْنَ لَوْلاآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ج ”اور وہ کہتے ہیں کیوں نہ اتاری گئی کوئی نشانی معجزہ اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس کے رب کی طرف سے ؟“ فَقُلْ اِنَّمَاالْغَیْبُ لِلّٰہِ فَانْتَظِرُوْاج اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ ”آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ غیب کا علم تو بس اللہ ہی کو ہے ‘ پس انتظار کرو ‘ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں۔“اپنی اس ضد اور ہٹ دھرمی کے بعد انتظار کرو کہ مشیت ایزدی سے کب ‘ کیا شے ظہور میں آتی ہے۔

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُمْ مَكْرٌ فِي آيَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ

📘 آیت 21 وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً مِّنْم بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْہُمْ اِذَا لَہُمْ مَّکْرٌ فِیْٓ اٰیَاتِنَا ط ”اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزا چکھاتے ہیں اس تکلیف کے بعد جو ان پر آگئی تھی تو فوراً ہی وہ ہماری آیات کے بارے میں سازشیں کرنے لگتے ہیں۔“پہلی امتوں میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور حضور ﷺ کی بعثت کے بعد اہل مکہ پر بھی چھوٹی چھوٹی تکالیف آتی رہی ہیں جیسے روایات میں ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد مکہ میں شدید نوعیت کا قحط پڑگیا تھا۔ ایسے حالات میں مشرکین مکہ کچھ نرم پڑجاتے تھے۔ حضور ﷺ کے پاس آکر بیٹھتے بھی تھے اور آپ ﷺ کی باتیں بھی سنتے تھے۔ مگر جونہی تکلیف رفع ہوجاتی تو وہ پھر سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف سازشیں شروع کردیتے۔ قُلِ اللّٰہُ اَسْرَعُ مَکْرًاط اِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُوْنَ مَا تَمْکُرُوْنَ ”آپ ﷺ کہیے کہ اللہ اپنی تدبیروں میں کہیں زیادہ تیز ہے۔ یقیناً ہمارے فرشتے لکھ رہے ہیں جو کچھ بھی سازشیں تم لوگ کر رہے ہو۔“

هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنْجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ

📘 آیت 22 ہُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط ”وہی ہے جو تمہیں سیر کراتا ہے خشکی اور سمندر میں۔“یعنی اللہ تعالیٰ نے مختلف قوانین طبعی کے تحت مختلف چیزوں کو سواریوں کے طور پر انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہے۔حَتّٰیٓ اِذَا کُنْتُمْ فِی الْْفُلْکِج وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ وَّفَرِحُوْا بِہَا ”یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو ‘ اور وہ چل رہی ہوتی ہیں انہیں سواروں کو لے کر خوشگوار موافق ہوا کے ساتھ اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں“جَآءَ تْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّجَآءَ ہُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ اُحِیْطَ بِہِمْلا ”کہ اچانک تیز ہوا کا جھکڑ چل پڑتا ہے اور ہر طرف سے موجیں ان کی طرف بڑھنے لگتی ہیں اور وہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ ان لہروں میں گھیر لیے گئے ہیں“ہر طرف سے پہاڑ جیسی لہروں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب وہ لہروں میں گھر گئے ہیں اور ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَج لَءِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ ”اس وقت وہ پکارتے ہیں اللہ کو ‘ اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے کہ اے اللہ ! اگرُ تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم لازماً ہوجائیں گے بہت شکر کرنے والوں میں سے۔“ایسے مشکل وقت میں انہیں صرف اللہ ہی یاد آتا ہے ‘ کسی دیوی یا دیوتا کا خیال نہیں آتا۔ اس سلسلے میں ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کے بارے میں بہت اہم واقعہ تاریخ میں ملتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد وہ حجاز سے فرار ہو کر حبشہ جانے کے لیے بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ کشتی میں سوار تھے کہ کشتی اچانک طوفان میں گھر گئی۔ کشتی میں تمام لوگ مشرکین تھے ‘ لیکن اس مصیبت کی گھڑی میں کسی کو بھی لات ‘ منات ‘ عزیٰ اور ہبل یاد نہ آئے اور انہوں نے مدد کے لیے پکارا تو اللہ کو پکارا۔ اسی لمحے عکرمہ کو اس حقیقت کے انکشاف نے چونکا دیا کہ یہی تو وہ پیغام ہے جو محمد ﷺ ہمیں دے رہے ہیں۔ چناچہ وہ واپس لوٹ آئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔ اس کے بعد یہی عکرمہ رض اسلام کے زبردست مجاہد ثابت ہوئے ‘ اور حضرت ابوبکر صدیق رض کے دور خلافت میں منکرین زکوٰۃ اور مرتدین کے خلاف جہاد میں انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے۔دراصل اللہ کی معرفت انسان کی فطرت کے اندر سمو دی گئی ہے۔ بعض اوقات باطل خیالات و نظریات کا ملمع اس معرفت کی قبولیت میں آڑے آجاتا ہے ‘ لیکن جب یہ ملمع اترنے کا کوئی سبب پیدا ہوتا ہے تو اندر سے انسانی فطرت اپنی اصلی حالت میں نمایاں ہوجاتی ہے جو حق کو پہچاننے میں لمحہ بھر کو دیر نہیں کرتی۔

فَلَمَّا أَنْجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰ أَنْفُسِكُمْ ۖ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 آیت 22 ہُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط ”وہی ہے جو تمہیں سیر کراتا ہے خشکی اور سمندر میں۔“یعنی اللہ تعالیٰ نے مختلف قوانین طبعی کے تحت مختلف چیزوں کو سواریوں کے طور پر انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہے۔حَتّٰیٓ اِذَا کُنْتُمْ فِی الْْفُلْکِج وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ وَّفَرِحُوْا بِہَا ”یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو ‘ اور وہ چل رہی ہوتی ہیں انہیں سواروں کو لے کر خوشگوار موافق ہوا کے ساتھ اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں“جَآءَ تْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّجَآءَ ہُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ اُحِیْطَ بِہِمْلا ”کہ اچانک تیز ہوا کا جھکڑ چل پڑتا ہے اور ہر طرف سے موجیں ان کی طرف بڑھنے لگتی ہیں اور وہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ ان لہروں میں گھیر لیے گئے ہیں“ہر طرف سے پہاڑ جیسی لہروں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب وہ لہروں میں گھر گئے ہیں اور ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَج لَءِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ ”اس وقت وہ پکارتے ہیں اللہ کو ‘ اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے کہ اے اللہ ! اگرُ تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم لازماً ہوجائیں گے بہت شکر کرنے والوں میں سے۔“ایسے مشکل وقت میں انہیں صرف اللہ ہی یاد آتا ہے ‘ کسی دیوی یا دیوتا کا خیال نہیں آتا۔ اس سلسلے میں ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کے بارے میں بہت اہم واقعہ تاریخ میں ملتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد وہ حجاز سے فرار ہو کر حبشہ جانے کے لیے بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ کشتی میں سوار تھے کہ کشتی اچانک طوفان میں گھر گئی۔ کشتی میں تمام لوگ مشرکین تھے ‘ لیکن اس مصیبت کی گھڑی میں کسی کو بھی لات ‘ منات ‘ عزیٰ اور ہبل یاد نہ آئے اور انہوں نے مدد کے لیے پکارا تو اللہ کو پکارا۔ اسی لمحے عکرمہ کو اس حقیقت کے انکشاف نے چونکا دیا کہ یہی تو وہ پیغام ہے جو محمد ﷺ ہمیں دے رہے ہیں۔ چناچہ وہ واپس لوٹ آئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔ اس کے بعد یہی عکرمہ رض اسلام کے زبردست مجاہد ثابت ہوئے ‘ اور حضرت ابوبکر صدیق رض کے دور خلافت میں منکرین زکوٰۃ اور مرتدین کے خلاف جہاد میں انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے۔دراصل اللہ کی معرفت انسان کی فطرت کے اندر سمو دی گئی ہے۔ بعض اوقات باطل خیالات و نظریات کا ملمع اس معرفت کی قبولیت میں آڑے آجاتا ہے ‘ لیکن جب یہ ملمع اترنے کا کوئی سبب پیدا ہوتا ہے تو اندر سے انسانی فطرت اپنی اصلی حالت میں نمایاں ہوجاتی ہے جو حق کو پہچاننے میں لمحہ بھر کو دیر نہیں کرتی۔

إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

📘 آیت 24 اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَأْکُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ ط پانی کے بغیر زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے ‘ اس میں گھاس ‘ ہریالی وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جونہی بارش ہوتی ہے اس میں سے طرح طرح کا سبزہ نکل آتا ہے ‘ فصلیں لہلہانے لگتی ہیں ‘ باغات ہرے بھرے ہوجاتے ہیں۔حتّٰیٓ اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَہَا وَازَّیَّنَتْ یہاں پر بہت خوبصورت الفاظ میں زمین کی شادابی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ چھوٹے بڑے نباتات کی نمائش ‘ سبز پوش خوبصورتی کی بہار اور رنگا رنگ پھولوں کی زیبائش کے ساتھ جب زمین پوری طرح اپنابناؤ سنگھار کرلیتی ہے ‘ فصلیں اپنے جوبن پر آجاتی ہیں اور باغات پھلوں سے لد جاتے ہیں :وَظَنَّ اَہْلُہَآ اَ نَّہُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْہَآلا زمین والے لہلہاتی فصلوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس اب چند دن کی بات ہے ‘ ہم اپنی فصلوں کی کٹائی کریں گے ‘ پھلوں کو پیڑوں سے اتاریں گے اور ہماری زمین کی یہ پیدوار ہماری خوشحالی کا ذریعہ بنے گی۔ مگر ہوتا کیا ہے :اَتٰٹہَآ اَمْرُنَا لَیْلاً اَوْ نَہَارًا فَجَعَلْنٰہَا حَصِیْدًا کَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بالْاَمْسِ ط اللہ کے حکم سے ایسی آفت آئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری فصل تباہ ہوگئی ‘ باغ اجڑ گیا ‘ ساری محنت اکارت گئی ‘ تمام سرمایہ ڈوب گیا۔ دنیا کی بےثباتی کی اس مثال سے واضح کیا گیا ہے کہ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان اس دنیا میں دن رات محنت و مشقت اور بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اگر انسان کی یہ ساری محنت اور تگ و دو اللہ کی مرضی کے دائرے میں نہیں ہے ‘ اس سے شریعت کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے ہیں تو یہ سب کچھ اسی دنیا کی حد تک ہی ہے ‘ آخرت میں ان میں سے کچھ بھی اس کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ موت کے بعد جب اس کی آنکھ کھلے گی تو وہ دیکھے گا کہ اس کی زندگی بھر کی ساری محنت اکارت چلی گئی : ع ”جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا !“

وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَىٰ دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 آیت 24 اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَأْکُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ ط پانی کے بغیر زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے ‘ اس میں گھاس ‘ ہریالی وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جونہی بارش ہوتی ہے اس میں سے طرح طرح کا سبزہ نکل آتا ہے ‘ فصلیں لہلہانے لگتی ہیں ‘ باغات ہرے بھرے ہوجاتے ہیں۔حتّٰیٓ اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَہَا وَازَّیَّنَتْ یہاں پر بہت خوبصورت الفاظ میں زمین کی شادابی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ چھوٹے بڑے نباتات کی نمائش ‘ سبز پوش خوبصورتی کی بہار اور رنگا رنگ پھولوں کی زیبائش کے ساتھ جب زمین پوری طرح اپنابناؤ سنگھار کرلیتی ہے ‘ فصلیں اپنے جوبن پر آجاتی ہیں اور باغات پھلوں سے لد جاتے ہیں :وَظَنَّ اَہْلُہَآ اَ نَّہُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْہَآلا زمین والے لہلہاتی فصلوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس اب چند دن کی بات ہے ‘ ہم اپنی فصلوں کی کٹائی کریں گے ‘ پھلوں کو پیڑوں سے اتاریں گے اور ہماری زمین کی یہ پیدوار ہماری خوشحالی کا ذریعہ بنے گی۔ مگر ہوتا کیا ہے :اَتٰٹہَآ اَمْرُنَا لَیْلاً اَوْ نَہَارًا فَجَعَلْنٰہَا حَصِیْدًا کَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بالْاَمْسِ ط اللہ کے حکم سے ایسی آفت آئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری فصل تباہ ہوگئی ‘ باغ اجڑ گیا ‘ ساری محنت اکارت گئی ‘ تمام سرمایہ ڈوب گیا۔ دنیا کی بےثباتی کی اس مثال سے واضح کیا گیا ہے کہ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان اس دنیا میں دن رات محنت و مشقت اور بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اگر انسان کی یہ ساری محنت اور تگ و دو اللہ کی مرضی کے دائرے میں نہیں ہے ‘ اس سے شریعت کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے ہیں تو یہ سب کچھ اسی دنیا کی حد تک ہی ہے ‘ آخرت میں ان میں سے کچھ بھی اس کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ موت کے بعد جب اس کی آنکھ کھلے گی تو وہ دیکھے گا کہ اس کی زندگی بھر کی ساری محنت اکارت چلی گئی : ع ”جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا !“

۞ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ۖ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 آیت 26 لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌانہیں نیکی کا بدلہ بھی بہت اچھا ملے گا اور مزید برآں انہیں انعامات سے بھی نوازاجائے گا۔

وَالَّذِينَ كَسَبُوا السَّيِّئَاتِ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ مَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ ۖ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعًا مِنَ اللَّيْلِ مُظْلِمًا ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 آیت 27 وَالَّذِیْنَ کَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّءَۃٍم بِمِثْلِہَالا یعنی جیسی ان کی برائی ہوگی ویسا ہی اس کا بدلہ ہوگا ‘ اس میں کچھ اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنْتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُمْ مَا كُنْتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ

📘 آیت 28 وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا مَکَانَکُمْ اَنْتُمْ وَشُرَکَآؤُکُمْ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ لات ‘ منات ‘ عزیٰ وغیرہ کی بات نہیں ہو رہی جن کے بارے میں کسی کو پتا نہیں کہ ان کی اصل کیا تھی ‘ بلکہ یہ اولیاء اللہ ‘ نیک اور برگزیدہ بندوں کی بات ہو رہی ہے جن کے ناموں پر مورتیاں اور بت بنا کر ان کی پوجا کی گئی ہوگی۔ جیسے قوم نوح علیہ السلام نے ودّ ‘ سواع اور یغوث وغیرہ اولیاء اللہ کی پوجا کے لیے ان کے بت بنا رکھے تھے اس بارے میں تفصیل سورة نوح میں آئے گی۔ ہمارے ہاں صرف یہ فرق ہے کہ بت نہیں بنائے جاتے ‘ قبریں پوجی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے خطاب کی ایک جھلک ہم سورة المائدۃ کے آخری رکوع میں دیکھ آئے ہیں۔ اس لیے یہاں یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ ایسے بلند مرتبہ لوگوں کو اس طرح کا حکم کیونکر دیا جائے گا کہ ٹھہرے رہو اپنی جگہ پر تم بھی اور تمہارے شریک بھی ! بہر حال اللہ تعالیٰ کی شان بہت بلند ہے ‘ جبکہ ایک بندہ تو بندہ ہی ہے ‘ چاہے جتنی بھی ترقی کرلے : اَلرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ۔ وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی !فَزَیَّلْنَا بَیْنَہُمْ وَقَالَ شُرَکَآؤُہُمْ مَّا کُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ وہ نیک لوگ جنہیں اللہ کا شریک بنایا گیا وہ اس شرک سے بری ہیں ‘ کیونکہ انہوں نے تو اپنی زندگیاں اللہ کی اطاعت میں گزاری تھیں۔ جیسے البقرۃ : 134 میں بہت واضح انداز میں فرمایا گیا ہے : تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْج لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج ”وہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی ‘ ان کے لیے ہے جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لیے ہے جو تم نے کمایا“۔ اگر کوئی شیخ عبدالقادر جیلانی کو پکارتا ہے یا کسی مزار پر جا کر مشرکانہ حرکتیں کرتا ہے تو اس کا وبال صاحب مزار پر قطعاً نہیں ہوگا۔ ان پر تو الٹا ظلم ہو رہا ہے کہ انہیں اللہ کے ساتھ شرک میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ چناچہ اللہ کے وہ نیک بندے اللہ کے ہاں ان شرک کرنے والوں کے خلاف استغاثہ کریں گے ‘ کہ وہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکارتے تھے اور ان کے ناموں کی دہائیاں دیتے تھے۔ وہ ان شرک کرنے والوں سے کہیں گے :

فَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ

📘 آیت 29 فَکَفٰی باللّٰہِ شَہِیْدًام بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغٰفِلِیْنَ یعنی اگر تم ہماری پوجا کرتے بھی رہے ہو تو ہمیں بالکل اس کی خبر نہیں ‘ ہم پر اس کا کچھ الزام نہیں۔ ہم تمہارے اس گھناؤنے فعل سے بالکل بری ہیں۔

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

📘 آیت 3 اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ”یقیناً تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی چھ دنوں میں“ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ ط ”پھر وہ عرش پر متمکن ہوگیا ‘ اور وہ تدبیر کرتا ہے ہر معاملہ کی۔“اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور منصوبہ بندی کے مطابق پوری کائنات کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ شاہ ولی اللہ دہلوی رح نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ”حجۃ اللہ البالغہ“ کے باب اول میں اللہ تعالیٰ کے تین افعال کے بارے میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے : 1 ابداع creation ex nehilo یعنی کسی چیز کو عدم محض سے وجود بخشنا ‘ 2 خلق ‘ یعنی کسی چیز سے کوئی دوسری چیز بنانا ‘ اور 3 تدبیر ‘ یعنی اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق کائناتی نظام کی منصوبہ بندی planning فرمانا۔ مَا مِنْ شَفِیْعٍ الاَّ مِنْم بَعْدِ اِذْنِہٖ ط ”نہیں ہے کوئی بھی شفاعت کرنے والا مگر اس کی اجازت کے بعد۔“کوئی اس کا اذن حاصل کیے بغیر اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتا۔ اس سے پہلے آیت الکرسی سورۃ البقرۃ میں بھی شفاعت کے بارے میں اسی نوعیت کا استثناء آچکا ہے۔ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُط اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ ”وہ ہے اللہ تمہارا رب ‘ پس تم اسی کی بندگی کرو۔ تو کیا تم نصیحت اخذ نہیں کرتے !“

هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَا أَسْلَفَتْ ۚ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۖ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

📘 آیت 30 ہُنَالِکَ تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ مَّآ اَسْلَفَتْ وَرُدُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰٹہُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ یعنی اس دن جب شفاعت کی امیدوں کے سارے سہارے ہوا ہوجائیں گے تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔ تب انہیں معلوم ہوگا کہ ع ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ‘ جو سنا افسانہ تھا !“

قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ

📘 فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ مشرکین مکہ اللہ کو ان تمام صفات کے ساتھ مانتے تھے اور اس بارے میں ان کے ذہنوں میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نہ صرف اس کائنات کا خالق ہے بلکہ اس کا نظام بھی وہی چلا رہا ہے۔فَقُلْ اَفَلاَ تَتَّقُوْنَ جب تم لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق ‘ مالک اور رازق مانتے ہو ‘ جب تم مانتے ہو کہ کائنات کا یہ سارا نظام اللہ ہی اپنے حسن تدبیر سے چلا رہا ہے تو پھر اس کے بعد تمہارے ان مشرکانہ نظریات اور دیوی دیوتاؤں کی اس پوجا پاٹ کا کیا جواز ہے ؟ کیا تمہیں کچھ بھی خوف خدا نہیں ہے ؟

فَذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ

📘 آیت 32 فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّج فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ الاَّ الضَّلٰلُج فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ یہی حق ہے جس کو تم اپنی فطرت کی نظر سے پہچان چکے ہو۔ اب اسی کو مضبوطی سے تھام لو اور پھر سے گمراہی میں مبتلا ہونے سے بچ جاؤ۔ یعنی تمہاری فطرت کے اندر حق کی پہچان موجود ہے۔ اس کی گواہی خود تمہاری اپنی زبانیں دے رہی ہیں۔ تم اللہ کو اپنا اور اس کائنات کا خالق ومالک مانتے ہو ‘ زبان سے اس کا اقرار کرتے ہو۔ تو یہاں تک پہنچ کر پھر کیوں گمراہی میں اوندھے منہ گرجاتے ہو۔ تمہاری عقل کہاں الٹ جاتی ہے ؟

كَذَٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ فَسَقُوا أَنَّهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 32 فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّج فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ الاَّ الضَّلٰلُج فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ یہی حق ہے جس کو تم اپنی فطرت کی نظر سے پہچان چکے ہو۔ اب اسی کو مضبوطی سے تھام لو اور پھر سے گمراہی میں مبتلا ہونے سے بچ جاؤ۔ یعنی تمہاری فطرت کے اندر حق کی پہچان موجود ہے۔ اس کی گواہی خود تمہاری اپنی زبانیں دے رہی ہیں۔ تم اللہ کو اپنا اور اس کائنات کا خالق ومالک مانتے ہو ‘ زبان سے اس کا اقرار کرتے ہو۔ تو یہاں تک پہنچ کر پھر کیوں گمراہی میں اوندھے منہ گرجاتے ہو۔ تمہاری عقل کہاں الٹ جاتی ہے ؟

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ قُلِ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ

📘 قُلِ اللّٰہُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ پھر تم یہ کس الٹی راہ پر چلائے جا رہے ہو ؟ تم کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو ؟

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ ۚ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ ۗ أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَىٰ ۖ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ

📘 اَفَمَنْ یَّہْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لاَّ یَہِدِّیْٓ الآَّ اَنْ یُّہْدٰی تمام مخلوق کو ہدایت دینے والا اللہ ہے۔ چناچہ ہدایت و راہنمائی کے لیے سب اسی کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں۔ خود نبی مکرم بھی اللہ ہی سے یہ دعا مانگتے تھے : اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ تو بھلا وہ جو ہدایت دیتا ہے اس کی بات مانی جانی چاہیے یا ان کی جو خود ہدایت کے محتاج ہوں ؟

وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ

📘 اَفَمَنْ یَّہْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لاَّ یَہِدِّیْٓ الآَّ اَنْ یُّہْدٰی تمام مخلوق کو ہدایت دینے والا اللہ ہے۔ چناچہ ہدایت و راہنمائی کے لیے سب اسی کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں۔ خود نبی مکرم بھی اللہ ہی سے یہ دعا مانگتے تھے : اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ تو بھلا وہ جو ہدایت دیتا ہے اس کی بات مانی جانی چاہیے یا ان کی جو خود ہدایت کے محتاج ہوں ؟

وَمَا كَانَ هَٰذَا الْقُرْآنُ أَنْ يُفْتَرَىٰ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 آیت 37 وَمَا کَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ یہ قرآن کسی انسان کے ہاتھوں تصنیف کی جانے والی کتاب نہیں ہے۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 آیت 38 اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰٹہُ یہ لوگ اس قرآن کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ محمد کی اپنی تصنیف ہے۔ انہوں نے خود یہ کلام موزوں کرلیا ہے۔قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ یہ چیلنج سورة البقرۃ میں بھی ہے جو کہ مدنی ہے ‘ جبکہ مکی سورتوں میں تو اسے متعدد بار دہرایا گیا ہے۔ سورة ہود میں اس جیسی دس سورتیں بنا کرلے آنے کا چیلنج دیا گیا ہے اور یہاں اس سورت میں یہ چیلنج گویا برسبیل تنزل آخری درجہ میں پیش کیا گیا ہے کہ چلو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھادو۔

بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 39 بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہٗ یعنی یہ لوگ قرآن کے علوم کا ادراک اور اس کے پیغام کا شعور حاصل نہیں کرسکے۔ اس کے علاوہ عذاب کے بارے میں ان کو دی گئی دھمکیوں کا مصداق خارجی بھی ابھی ان پر ظاہر نہیں ہوا ‘ اس لیے وہ اس سب کچھ کو محض ڈراوا اور جھوٹ سمجھ رہے ہیں۔ قرآن میں ان لوگوں کو بار بار دھمکیاں دی گئی تھیں کہ اللہ کا انکار کرو گے تو اس کی پکڑ میں آجاؤ گے ‘ اس کی طرف سے بہت سخت عذاب تم پر آئے گا۔ یہ عذاب موعود چونکہ ابھی ظاہری طور پر ان پر نہیں آیا ‘ اسی لیے وہ قرآن کو بھی جھٹلا رہے ہیں۔

إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ

📘 آیت 4 اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًاط وَعْدَ اللّٰہِ حَقًّا ط ”تم سب کا لوٹنا اسی کی جانب ہے۔ یہ وعدہ ہے اللہ کا سچا۔“اِنَّہٗ یَبْدَؤُالْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ ”وہی ہے جو خلق کا آغاز کرتا ہے ‘ پھر وہی اس کا اعادہ کر دے گا“پہلے پہل کسی کام کا کرنا یا ابتدائی طور پر کسی چیز کو تخلیق کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ اس کا اعادہ کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ یہ ایک معقول اور منطقی بات ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہی نے یہ سب کچھ پیدا فرمایا ہے اور پہلی بار اسے اس تخلیق میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی تو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے کیونکر مشکل ہوجائے گا ! بہر حال وہ تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا : لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بالْقِسْطِ ط ”تاکہ وہ ان لوگوں کو جزا دے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے عمل کیے انصاف کے ساتھ۔“وہ اہل ایمان جنہوں نے اللہ اور اس کے دین کے لیے ایثار کیا ہے ‘ ان کی قربانیوں اور مشقتوں کے بدلے میں انہیں انعامات سے نوازا جائے گا اور ان کے ان اعمال کی پوری پوری قدر کی جائے گی۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَہُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌم بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ ”اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے پینے کے لیے ہوگا کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ‘ اس کفر کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے۔“

وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ

📘 آیت 39 بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہٗ یعنی یہ لوگ قرآن کے علوم کا ادراک اور اس کے پیغام کا شعور حاصل نہیں کرسکے۔ اس کے علاوہ عذاب کے بارے میں ان کو دی گئی دھمکیوں کا مصداق خارجی بھی ابھی ان پر ظاہر نہیں ہوا ‘ اس لیے وہ اس سب کچھ کو محض ڈراوا اور جھوٹ سمجھ رہے ہیں۔ قرآن میں ان لوگوں کو بار بار دھمکیاں دی گئی تھیں کہ اللہ کا انکار کرو گے تو اس کی پکڑ میں آجاؤ گے ‘ اس کی طرف سے بہت سخت عذاب تم پر آئے گا۔ یہ عذاب موعود چونکہ ابھی ظاہری طور پر ان پر نہیں آیا ‘ اسی لیے وہ قرآن کو بھی جھٹلا رہے ہیں۔

وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ

📘 اَنْتُمْ بَرِیْٓءُوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِیْْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ نہ میرے عمل کی کوئی ذمہ داری تم لوگوں پر ہے اور نہ تمہارے کیے کا میں ذمہ دار ہوں۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ

📘 اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ کَانُوْا لاَ یَعْقِلُوْنَ یہ لوگ تو پہلے سے ہی نہ سننے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں ‘ اس لیے ان کے کان حق کی طرف سے بہرے ہوچکے ہیں۔ ان کا آپ ﷺ کی باتوں کو سننا صرف دکھاوے کا سننا ہے تاکہ دوسرے لوگوں کو بتاسکیں کہ ہاں جی ہم تو محمد کی محفل میں بھی جاتے ہیں ‘ ساری باتیں بھی سنتے ہیں مگر ان میں ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں جسے ماناجائے۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْظُرُ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنْتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوا لَا يُبْصِرُونَ

📘 اَفَاَنْتَ تَہْدِی الْعُمْیَ وَلَوْ کَانُوْا لاَ یُبْصِرُوْنَ چنانچہ جب ان لوگوں کی نیت ہی ہدایت حاصل کرنے کی نہیں ہے ‘ جب ان کے دل ہی اندھے ہوچکے ہیں تو آپ ﷺ کی مجلس میں آنا اور آپ کی صحبت میں بیٹھنا ‘ ان کے لیے ہرگز مفید نہیں ہوسکتا۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَٰكِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

📘 اَفَاَنْتَ تَہْدِی الْعُمْیَ وَلَوْ کَانُوْا لاَ یُبْصِرُوْنَ چنانچہ جب ان لوگوں کی نیت ہی ہدایت حاصل کرنے کی نہیں ہے ‘ جب ان کے دل ہی اندھے ہوچکے ہیں تو آپ ﷺ کی مجلس میں آنا اور آپ کی صحبت میں بیٹھنا ‘ ان کے لیے ہرگز مفید نہیں ہوسکتا۔

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَنْ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ

📘 آیت 45 وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا الاَّ سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَہُمْ ط انہیں دنیا اور عالم برزخ میں گزرا ہوا وقت ایسے محسوس ہوگا جیسے کہ وہ ایک دن کا کچھ حصہ تھا۔قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآء اللّٰہِ وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ آگے عذاب کی اس دھمکی کا ذکر آ رہا ہے جس کے بارے میں آیت 39 میں فرمایا گیا تھا : وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہٗ ط کہ اس کی تاویل ابھی ان کے پاس نہیں آئی۔

وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ

📘 فَاِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیْدٌ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ یعنی آخری محاسبہ تو ان کا قیامت کے دن ہونا ہی ہے ‘ مگر ہوسکتا ہے کہ یہاں دنیا میں بھی سزا کا کچھ حصہ ان کے لیے مختص کردیا جائے۔ جیسا کہ بعد میں مشرکین مکہ پر عذاب آیا۔ ان پر آنے والے اس عذاب کا انداز پہلی قوموں کے عذاب سے مختلف تھا۔ اس عذاب کی پہلی قسط جنگ بدر میں ان کے ّ ستر سرداروں کے قتل اور ذلت آمیز شکست کی صورت میں سامنے آئی ‘ جبکہ دوسری اور آخری قسط 9 ہجری میں واردہوئی جب انہیں الٹی میٹم دے دیا گیا : فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ۔ التوبۃ : 2 کہ اب تمہارے لیے صرف چند ماہ کی مہلت ہے ‘ اس میں ایمان لے آؤ ورنہ قتل کردیے جاؤ گے۔ اہل مکہ کے ساتھ عذاب کا معاملہ پہلی قوموں کے مقابلے میں شاید اس لیے بھی مختلف رہا کہ پہلی قوموں کی نسبت ان کے ہاں ایمان لانے والوں کی تعداد کافی بہتر رہی۔ مثلاً اگر حضرت نوح کی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ سے 80 لوگ ایمان لائے میری رائے میں وہ لوگ 80 بھی نہیں تھے تو یہاں مکہ میں حضور کی بارہ سال کی محنت کے نتیجے میں اہل ایمان کی تعداد اس سے دو گنا تھی اور ان میں حضرت ابوبکر ‘ حضرت طلحہ ‘ حضرت زبیر ‘ حضرت عثمان ‘ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ‘ حضرت عمر اور حضرت حمزہ رض جیسے بڑے بڑے لوگ بھی شامل تھے۔

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

📘 فَاِذَاجَآءَ رَسُوْلُہُمْ قُضِیَ بَیْنَہُمْ بالْقِسْطِ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ اس کی وضاحت کے لیے حضرت نوح ‘ حضرت ہود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت شعیب ‘ حضرت لوط اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوموں کے معاملات کو ذہن میں رکھئے۔

وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 فَاِذَاجَآءَ رَسُوْلُہُمْ قُضِیَ بَیْنَہُمْ بالْقِسْطِ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ اس کی وضاحت کے لیے حضرت نوح ‘ حضرت ہود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت شعیب ‘ حضرت لوط اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوموں کے معاملات کو ذہن میں رکھئے۔

قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ

📘 لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ط جیسے ہر امت کے لیے ایک رسول علیہ السلام ہے ‘ اسی طرح ہر امت کے لیے اس کی اجل مہلت کی مدت بھی مقرر کردی گئی ہے۔ اللہ کی مشیت اور حکمت کے مطابق ان کے لیے مقرر کردہ وقت بہر حال پورا ہو کر رہتا ہے۔

هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَٰلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

📘 آیت 5 ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا ”وہی ہے جس نے بنایا سورج کو چمکدار اور چاند کو نور“یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ سورج کے اندر جاری احتراق یعنی جلنے combustion کے عمل کی وجہ سے جو روشنی پیدا generate ہو رہی ہے اس کے لیے ”ضیاء“ جبکہ منعکس reflect ہو کر آنے والی روشنی کے لیے ”نور“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سورج اور چاند کی روشنی کے لیے قرآن حکیم نے دو مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں ‘ اس لیے کہ سورج کی اپنی چمک ہے اور چاند کی روشنی ایک انعکاس ہے۔وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ ط ”اور اس نے اس چاند کی منزلیں مقرر کردیں تاکہ تمہیں معلوم ہو گنتی برسوں کی اور تم معاملات زندگی میں حساب کرسکو۔“مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ الاَّ بالْحَقِّج یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ”اللہ نے یہ سب کچھ پیدا نہیں کیا مگر حق کے ساتھ ‘ اور وہ تفصیل بیان کرتا ہے اپنی آیات کی ان لوگوں کے لیے جو علم حاصل کرنا چاہیں۔“یعنی یہ کائنات ایک بےمقصد تخلیق نہیں بلکہ ایک سنجیدہ ‘ بامقصد اور نتیجہ خیز تخلیق ہے۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُهُ بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا مَاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ

📘 آیت 50 قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ اَتٰٹکُمْ عَذَابُہٗ بَیَاتًا اَوْ نَہَارًا مَّاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُوْنَ یعنی یہ جو تم سینہ تان کر کہتے ہو کہ لے آؤ عذاب ! اور پھر کہتے ہو کہ آ کیوں نہیں جاتا ہم پر عذاب ! اور پھر استہزائیہ انداز میں استفسار کرتے ہو کہ یہ عذاب کا وعدہ کب پورا ہونے جا رہا ہے ؟ تو کبھی تم لوگوں نے اس پہلو پر بھی غور کیا ہے کہ اگر وہ عذاب کسی وقت اچانک تم پر آہی گیا ‘ رات کی کسی گھڑی میں یا دن کے کسی لمحے میں ‘ تو اس سے حفاظت کے لیے تم نے کیا بندوبست کر رکھا ہے ؟ آخر تم لوگ کس بل بوتے پر عذاب کو للکار رہے ہو ؟ کس چیز کے بھروسے پر تم اس طرح جسارتیں کر رہے ہو ؟

أَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ ۚ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ

📘 آیت 51 اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِہٖط ا آ لْءٰنَ وَقَدْکُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ عذاب جب واقعتا ظاہر ہوجائے گا تو اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ

📘 آیت 51 اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِہٖط ا آ لْءٰنَ وَقَدْکُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ عذاب جب واقعتا ظاہر ہوجائے گا تو اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

۞ وَيَسْتَنْبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ ۖ قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ ۖ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ

📘 آیت 53 وَیَسْتَنْبِءُوْنَکَ اَحَقٌّ ہُوَ ط ”اور اے نبی ! جیسے قرآن بار بار اپنے مخالفین سے متجسسانہ انداز میں سوال searching questions کرتا ہے ‘ اسی طرح مشرکین بھی حضور سے searching انداز میں سوال کرتے تھے۔ یہاں ان کا یہ سوال نقل کیا گیا ہے کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے ؟ کیا آپ کو خود بھی اس کا پورا پورا یقین ہے ؟قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّط وَمَآاَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ان الفاظ میں بہت زیادہ تاکید اور شدت ہے۔

وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

📘 آیت 53 وَیَسْتَنْبِءُوْنَکَ اَحَقٌّ ہُوَ ط ”اور اے نبی ! جیسے قرآن بار بار اپنے مخالفین سے متجسسانہ انداز میں سوال searching questions کرتا ہے ‘ اسی طرح مشرکین بھی حضور سے searching انداز میں سوال کرتے تھے۔ یہاں ان کا یہ سوال نقل کیا گیا ہے کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے ؟ کیا آپ کو خود بھی اس کا پورا پورا یقین ہے ؟قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّط وَمَآاَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ان الفاظ میں بہت زیادہ تاکید اور شدت ہے۔

أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ أَلَا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 53 وَیَسْتَنْبِءُوْنَکَ اَحَقٌّ ہُوَ ط ”اور اے نبی ! جیسے قرآن بار بار اپنے مخالفین سے متجسسانہ انداز میں سوال searching questions کرتا ہے ‘ اسی طرح مشرکین بھی حضور سے searching انداز میں سوال کرتے تھے۔ یہاں ان کا یہ سوال نقل کیا گیا ہے کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے ؟ کیا آپ کو خود بھی اس کا پورا پورا یقین ہے ؟قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّط وَمَآاَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ان الفاظ میں بہت زیادہ تاکید اور شدت ہے۔

هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

📘 آیت 56 ہُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ اگلی دو آیات عظمت قرآن کے ضمن میں ایک بیش بہا خزانہ اور افادیت کے اعتبار سے نہایت جامع آیات ہیں۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ

📘 وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ اس آیت کے الفاظ کی ترتیب موعظہ ‘ شفا ‘ ہدایت اور رحمت بہت پر حکمت ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت 74 میں انسان کے دل کی سختی کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے : ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ ۔ دراصل دل کی سختی ہی وہ بنیادی مرض ہے جس کے باعث اعلیٰ سے اعلیٰ کلام بھی کسی انسان پر بےاثر ہو کر رہ جاتا ہے : ع ”مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بےاثر“۔ چناچہ قبول ہدایت کے لیے سب سے پہلے دلوں کی سختی کو دور کرنا ضروری ہے۔ جیسے بارش سے فائدہ اٹھانے کے لیے زمین کو نرم کرنا پڑتا ہے ‘ سخت زمین بارش سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتی ‘ بارش کا پانی اوپر ہی اوپر سے بہہ جاتا ہے ‘ اس کے اندر جذب نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر انسان کا معدہ ہی خراب ہو تو کوئی دوسری دوائی اپنا اثر نہیں دکھاتی۔ لہٰذا انسان کی کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے پہلے اس کے معدے کو درست کرنا ضروری ہے۔ دلوں کی سختی کو دور کرنے کے لیے مؤثر ترین نسخہ وعظ و نصیحت موعظہ ہے۔ جب وعظ اور نصیحت سے دلوں میں گداز پیدا ہوگا تو پھر قرآن ان پر دوائی کی مانند اثر کر کے تکبر ‘ حسد ‘ بغض ‘ حب دنیا وغیرہ تمام امراض کو دور کر دے گا۔ حبّ دنیا میں دولت ‘ اولاد ‘ بیوی ‘ شہرت وغیرہ کی تمام محبتیں شامل ہیں۔ ملاحظہ ہو سورة آل عمران کی آیت 14 : زُیِّنَ للنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ط۔ آیت زیر مطالعہ میں الفاظ کی ترتیب پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک انسان کے حق میں قرآن سب سے پہلے وعظ اور نصیحت ہے ‘ پھر تمام امراض قلب کے لیے شفا اور پھر ہدایت۔ کیونکہ جب دل سے بیماری نکل جائے گی ‘ دل شفایاب ہوگا تب ہی انسان قرآن کی ہدایت اور راہنمائی کو عملاً اختیار کرے گا ‘ اور جب انسان یہ سارے مراحل طے کر کے قرآن کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے گا تو پھر اس کو انعام خاص سے نوازا جائے گا اور وہ ہے اللہ کی خصوصی رحمت۔ کیونکہ یہ قرآن ربِّ رحمان کی رحمانیت کا مظہر اتم ہے : اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ۔

قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ

📘 آیت 58 قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ یہ قرآن اللہ کے فضل اور رحمت کا مظہر اور بنی نوع انسان پر اس کا بہت بڑا احسان ہے۔ یہ سب سے بڑی دولت ہے جو اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کو عطا کی ہے۔فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط ”فرح“ کے معنی ہیں خوشی سے پھولے نہ سمانا ‘ یعنی خوشی کے جذبے میں حد سے بڑھ جانا ‘ اس لحاظ سے یہ جذبہ شریعت اسلامی میں قابل مذمت ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ قرآن میں زیادہ تر منفی مفہوم میں آیا ہے۔۔جیسے سورة القصص میں قارون کے ذکر میں یہ الفاظ آئے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ لیکن یہاں پر تو اعلان عام ہو رہا ہے کہ اگر ”فرح“ کرنا ہی ہے تو دولت قرآن پر کرو ! اگر تمہیں اترانا ہی ہے تو نعمت قرآن پر اتراؤ ! اور اگر جشن ہی منانا ہے تو جشن قرآن مناؤ ! فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ! ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ یہ مال و دولت دنیا ‘ یہ سامان آرائش و زیبائش ‘ یہ اشیائے آسائش ‘ یہ رنگا رنگ نعمتیں ‘ غرض اس دنیا میں انسان اپنے لیے جو کچھ بھی اکٹھا کرتا ہے ‘ اس سب کچھ سے کہیں بہتر قرآن کی دولت ہے۔ ان دو آیات میں قرآن کی اہمیت و عظمت کے بیان میں جو تاکید اور جلال ہے اس کی قدر دانی کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمان اس تصور کو حرز جان بنا لیں ‘ ان آیات کو زبانی یاد کریں ‘ الفاظ کی ترتیب کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے استفادہ کی کوشش کریں اور قرآن کی تعلیم و تفہیم کے ذریعے سے دل کو نرم اور گداز کرنے کا سامان کریں ‘ تاکہ اس کے اثرات دل کے اندر جذب ہو کر اپنا رنگ جمائیں عچوں بجاں دررفت جاں دیگر شود۔ اور اس طرح قرآن کے ذریعے اپنی دنیائے دل و جان میں انقلاب برپا کریں ‘ تاکہ یہ ان کے لیے شفا ‘ ہدایت اور رحمت بن جائے۔ آمین !

قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ

📘 قُلْ ا آ للّٰہُ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اللّٰہِ تَفْتَرُوْنَ سورۃ الانعام میں ان چیزوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے جنہیں وہ لوگ ازخود حرام یا حلال قرار دے لیتے تھے۔ سورة المائدۃ میں بھی ان کی خود ساختہ شریعت کا ذکر ہے۔

إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ

📘 آیت 6 اِنَّ فِی اخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَمَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ ان نشانیوں سے وہی لوگ سبق حاصل کرکے مستفیض ہوسکتے ہیں جن کے اندر خوف خدا ہے اور ان کی اخلاقی حس بیدار ہوتی ہے۔

وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ

📘 آیت 60 وَمَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وہ کیا خیال رکھتے ہیں کہ اس دن اس جرم کے بدلے میں ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا

وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ

📘 اِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ ط اس انداز تخاطب میں ایک خاص کیف ہے۔ پہلے واحد کے صیغے میں حضور اکرم سے خطاب ہے اور آپ کو خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ آپ جس کیفیت میں بھی ہوں ‘ قرآن پڑھ رہے ہوں یا پڑھ کر سنا رہے ہوں ‘ ہم بذات خود آپ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں آپ کی آواز سن رہے ہوتے ہیں۔ پھر اسی خوشخبری کو جمع کے صیغے میں تمام مسلمانوں کے لیے عام کردیا گیا ہے کہ تم لوگ جو بھی بھلائی کماتے ہو ‘ قربانیاں دیتے ہو ایثار کرتے ہو ‘ ہم خود اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم تمہارے ایک ایک عمل کے گواہ اور قدردان ہیں۔ ہمارے ہاں اپنے بندوں کے بارے میں تغافل یا ناقدری نہیں ہے۔وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَآءِ وََلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْبَرَ الاَّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ کوئی ذرہ برابر چیز یا اس سے چھوٹی یا بڑی آسمانوں اور زمین میں ایسی نہیں ہے جو کبھی رب ذوالجلال کی نظر سے پوشیدہ ہوگئی ہو اور وہ ایک روشن کتاب میں درج نہ ہو۔ یہ روشن کتاب اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے۔

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 آیت 62 اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ یہ اولیاء اللہ کون لوگ ہیں ؟ یہ کوئی علیحدہ نوع Species نہیں ہے ‘ اور نہ ہی اس کے لیے کوئی خاص لباس زیب تن کرنے یا کوئی مخصوص حلیہ بنانے کی ضرورت ہے ‘ بلکہ اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جو ایمان حقیقی سے بہرہ مند ہوں ‘ ان کے دلوں میں یقین پیدا ہوچکا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے درجہ ”احسان“ پر فائز ہوچکے ہوں ‘ جس کا ذکر ”حدیث جبریل“ میں ہوا ہے : اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ 1 اللہ تعالیٰ اپنے ان خاص بندوں کی جس طرح پذیرائی فرماتا ہے اس کا ایک انداز سورة البقرۃ ‘ آیت 257 میں اس طرح بیان ہوا ہے : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط ”اللہ ولی ہے اہل ایمان کا ‘ انہیں نکالتا ہے اندھیروں سے روشنی کی جانب“۔ آیت زیر نظر میں بھی انہیں خوشخبری سنائی گئی ہے کہ ایسے لوگ خوف اور حزن سے بالکل بےنیاز ہوں گے۔ بہر حال اس سلسلے میں ایک بہت اہم نکتہ لائق توجہ ہے کہ جو اللہ کا دوست ہوگا اس کے اندر اللہ کی غیرت و حمیت بھی ہوگی۔ وہ اللہ کے دین کو پامال ہوتے دیکھ کر تڑپ اٹھے گا۔ وہ اللہ کے شعائر کی بےحرمتی کو کبھی برداشت نہیں کرسکے گا۔ وہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دے گا۔ گویا دنیوی زندگی میں یہ معیار اور طرز عمل اولیاء اللہ کی پہچان ہے۔ اگلی آیت میں مزید وضاحت فرما دی گئی کہ یہ اولیاء اللہ کون لوگ ہیں :

الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ

📘 آیت 63 اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ اور یہ تقویٰ کس طرح اہل ایمان کو درجہ بدرجہ بلند سے بلند کرتا چلا جاتا ہے اس کی تفصیل ہم سورة المائدۃ کی اس آیت کے ضمن میں پڑھ چکے ہیں : اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ

لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

📘 آیت 64 لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ان بشارتوں کے بارے میں ہم سورة التوبہ کی آیت 52 میں پڑھ چکے ہیں : ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلآَّ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ یعنی ہمارے لیے تو دو اچھائیوں کے سوا کسی تیسری چیز کا تصور ہی نہیں ہے ‘ ہمارے لیے تو بشارت ہی بشارت ہے۔ اور اگر بالفرض دنیا میں کوئی تکلیف آ بھی جائے تو بھی کوئی غم نہیں ‘ کیونکہ ہمارے اوپر جو بھی تکلیف آتی ہے وہ ہمارے رب ہی کی طرف سے آتی ہے۔ جیسے سورة التوبہ آیت 51 میں فرمایا گیا : قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَاج ہُوَ مَوْلٰٹنَا چناچہ اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے ؟ وہ ہمارا دوست ہے ‘ اور دوست کی طرف سے اگر کوئی تکلیف بھی آجائے تو سر آنکھوں پر۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس تکلیف میں بھی ہمارے لیے خیر اور بھلائی ہی ہوگی۔

وَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ۚ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 آیت 64 لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ان بشارتوں کے بارے میں ہم سورة التوبہ کی آیت 52 میں پڑھ چکے ہیں : ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلآَّ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ یعنی ہمارے لیے تو دو اچھائیوں کے سوا کسی تیسری چیز کا تصور ہی نہیں ہے ‘ ہمارے لیے تو بشارت ہی بشارت ہے۔ اور اگر بالفرض دنیا میں کوئی تکلیف آ بھی جائے تو بھی کوئی غم نہیں ‘ کیونکہ ہمارے اوپر جو بھی تکلیف آتی ہے وہ ہمارے رب ہی کی طرف سے آتی ہے۔ جیسے سورة التوبہ آیت 51 میں فرمایا گیا : قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَاج ہُوَ مَوْلٰٹنَا چناچہ اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے ؟ وہ ہمارا دوست ہے ‘ اور دوست کی طرف سے اگر کوئی تکلیف بھی آجائے تو سر آنکھوں پر۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس تکلیف میں بھی ہمارے لیے خیر اور بھلائی ہی ہوگی۔

أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ ۗ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ شُرَكَاءَ ۚ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ

📘 آیت 64 لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ان بشارتوں کے بارے میں ہم سورة التوبہ کی آیت 52 میں پڑھ چکے ہیں : ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلآَّ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ یعنی ہمارے لیے تو دو اچھائیوں کے سوا کسی تیسری چیز کا تصور ہی نہیں ہے ‘ ہمارے لیے تو بشارت ہی بشارت ہے۔ اور اگر بالفرض دنیا میں کوئی تکلیف آ بھی جائے تو بھی کوئی غم نہیں ‘ کیونکہ ہمارے اوپر جو بھی تکلیف آتی ہے وہ ہمارے رب ہی کی طرف سے آتی ہے۔ جیسے سورة التوبہ آیت 51 میں فرمایا گیا : قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَاج ہُوَ مَوْلٰٹنَا چناچہ اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے ؟ وہ ہمارا دوست ہے ‘ اور دوست کی طرف سے اگر کوئی تکلیف بھی آجائے تو سر آنکھوں پر۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس تکلیف میں بھی ہمارے لیے خیر اور بھلائی ہی ہوگی۔

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ

📘 آیت 67 ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًارات کو پرسکون بنایا تاکہ رات کے وقت آرام کرو ‘ اور دن کو روشن بنایا تاکہ اس میں اپنی معاشی ذمہ داریاں نبھاؤ اور دوسرے کام کاج نپٹاؤ۔

قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ الْغَنِيُّ ۖ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَٰذَا ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 68 قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبْحَنٰہٗط ہُوَ الْغَنِیُّ اللہ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اسے اولاد کی حاجت ہو۔ یہاں ”غنی“ کا لفظ اس لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اولاد کی تمنا آدمی اس لیے کرتا ہے کہ اس کا سہارا بنے اور مرنے کے بعد اس کے ذریعے دنیا میں اس کا نام باقی رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ ایسی حاجتوں سے پاک ہے۔ وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ‘ وہ ہر حاجت سے غنی اور بےنیاز ہے ‘ اسے اولاد سمیت کسی چیز کی ضرورت اور حاجت نہیں ہے۔ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ تمہارے پاس کوئی علمی سند یا عقلی دلیل اس بات کے حق میں نہیں ہے جو تم اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہو۔

قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ

📘 آیت 68 قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبْحَنٰہٗط ہُوَ الْغَنِیُّ اللہ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اسے اولاد کی حاجت ہو۔ یہاں ”غنی“ کا لفظ اس لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اولاد کی تمنا آدمی اس لیے کرتا ہے کہ اس کا سہارا بنے اور مرنے کے بعد اس کے ذریعے دنیا میں اس کا نام باقی رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ ایسی حاجتوں سے پاک ہے۔ وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ‘ وہ ہر حاجت سے غنی اور بےنیاز ہے ‘ اسے اولاد سمیت کسی چیز کی ضرورت اور حاجت نہیں ہے۔ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ تمہارے پاس کوئی علمی سند یا عقلی دلیل اس بات کے حق میں نہیں ہے جو تم اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہو۔

إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ

📘 آیت 7 اِنَّ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآءَ نَا ”بیشک وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کے امیدوار نہیں ہیں“یہاں پر یہ نکتہ نوٹ کریں کہ یہ الفاظ اس سورت میں باربار دہرائے جائیں گے۔ اصل میں یہ ایسی انسانی سوچ اور نفسیاتی کیفیت کی طرف اشارہ ہے جس کے مطابق انسانی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ انسان کو غور کرنا چاہیے کہ یہ انسانی زندگی جو ہم اس دنیا میں گزار رہے ہیں اس کی اصل حقیقت کیا ہے ! اسے محاورۃً ”چار دن کی زندگی“ قرار دیا جاتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر ؔ نے بھی کہا ہے ؂عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے ‘ دو انتظار میں !اگر انسان اس دنیا میں طویل طبعی عمر بھی پائے تو اس کا ایک حصہ بچپن کی ناسمجھی اور کھیل کود میں ضائع ہوجاتا ہے۔ شعور اور جوانی کی عمر کا تھوڑا سا وقفہ اس کے لیے کار آمد ہوتا ہے۔ اس کے بعد جلد ہی بڑھاپا اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے لِکَیْ لاَ یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْءًا ط النحل : 70 کی جیتی جاگتی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ تو کیا انسانی زندگی کی حقیقت بس یہی ہے ؟ اور کیا اتنی سی زندگی کے لیے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب دیا جاتا ہے ؟ انسان غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح ہوگی کہ انسانی زندگی محض ہمارے سامنے کے چند ماہ وسال کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کا نام ہے۔ علامہ اقبالؔ کے بقول : ؂تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی اوراقبالؔ ہی نے اس سلسلے میں انسانی ناسمجھی اور کم ظرفی کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے : ؂تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگئ داماں بھی ہے !اس لامتناہی سلسلۂ زندگی میں سے ایک انتہائی مختصر اور عارضی وقفہ یہ دنیوی زندگی ہے جو اللہ نے انسان کو آزمانے اور جانچنے کے لیے عطا کی ہے : اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط الملک : 2۔ جبکہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور وہ بہت طویل ہے۔ جیسے سورة العنکبوت میں فرمایا : وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ 7 لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ”اور یقیناً آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے ‘ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا !“ مگر وہ لوگ جن کا ذہنی افق تنگ اور سوچ محدود ہے ‘ وہ اسی عارضی اور مختصر وقفۂ زندگی کو اصل زندگی سمجھ کر اس کی رعنائیوں پر فریفتہ اور اس کی رنگینیوں میں گم رہتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال ؔ :کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق !اصل اور دائمی زندگی کی عظمت اور حقیقت ایسے لوگوں کی نظروں سے بالکل اوجھل ہوچکی ہے۔ وَرَضُوْا بالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَاَ نُّوْا بِہَا وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ ”اور وہ دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور اسی پر مطمئن ہیں ‘ اور جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔“انسانوں کے اندر اور باہر اللہ کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں اور ان کی فطرت انہیں بار بار دعوت فکر بھی دیتی ہے : ؂کھول آنکھ ‘ زمین دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ ! مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرادیکھ !مگر وہ لوگ شہوات نفسانی کے چکروں میں اس حدتک غلطاں و پیچاں ہیں کہ انہیں آنکھ کھول کر انفس و آفاق میں بکھری ہوئی ان لاتعداد آیات الٰہی کو ایک نظر دیکھنے کی فرصت ہے نہ توفیق۔

مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ

📘 آیت 70 مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ دنیا کی چند روزہ زندگی کا فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں کچھ ساز و سامان دے دیا گیا ہے ‘ پھر ہماری ہی طرف ان کی واپسی ہوگی۔

۞ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُونِ

📘 اب انباء الرسل کے سلسلے میں دو رکوع آ رہے ہیں ‘ جن کا آغاز سورت میں ذکر ہوا تھا کہ ان میں پہلے حضرت نوح کا ذکر بہت اختصار کے ساتھ آدھے رکوع میں ہے اور بعد میں حضرت موسیٰ کا ذکر قدرے تفصیل سے ڈیڑھ رکوع میں آیا ہے۔ درمیان میں صرف حوالہ دیا گیا ہے کہ ہم نے مختلف قوموں کی طرف رسولوں کو بھیجا ‘ اس سلسلے میں کسی رسول علیہ السلام کا نام نہیں لیا گیا۔اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُمْ مَّقَامِیْ وَتَذْکِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ میرا دعوت حق کے ساتھ کھڑا ہونا اور تبلیغ و تذکیر کا میرا یہ عمل اگر تم پر بہت شاق گزر رہا ہے کہ تم میرا مذاق اڑاتے ہو اور مجھ پر آوازے کستے ہو تو مجھے تمہاری مخالفت کی کوئی پروا نہیں۔ثُمَّ لاَ یَکُنْ اَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَیَّ وَلاَ تُنْظِرُوْنِ اس طرز تخاطب سے اندازہ ہو رہا ہے کہ حضرت نوح کا دل اپنی قوم کے رویے کی وجہ سے کس قدر دکھا ہوا تھا ‘ اور ایسا ہونا بالکل فطری عمل تھا۔ اللہ کے اس بندے نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو سمجھانے اور نصیحت کرنے میں دن رات ایک کردیا تھا ‘ اپنا آرام و سکون تک قربان کردیا تھا ‘ مگر وہ قوم تھی کہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔ بہر حال ان الفاظ میں اللہ کے رسول علیہ السلام کی طرف سے ایک آخری بات چیلنج کے انداز میں کہی جا رہی ہے کہ تم لوگ اپنی ساری قوتیں مجتمع کرلو ‘ تمام وسائل اکٹھے کرلو اور پھر میرے ساتھ جو کرسکتے ہو کر گزرو !

فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ

📘 فَمَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ ط یعنی پھر اگر تم اس چیلنج کا سامنا نہ کرسکو اور میرے خلاف آخری اقدام کرنے کا حوصلہ بھی نہ کر پاؤ تو پھر ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچو تو سہی کہ میں پچھلے ساڑے نو سو سال سے تمہیں راہ راست پر لانے کی جو جدوجہد کررہا ہوں اس کے عوض میں نے تم لوگوں سے کوئی معاوضہ ‘ کوئی اُجرت ‘ کوئی تعریف و توصیف ‘ کوئی شاباش ‘ الغرض کچھ بھی طلب نہیں کیا۔ تو کیا میرے اس طرز عمل سے تم لوگوں کو اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ اس میں میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے ؟ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ حضرت نوح کا چیلنج قبول کرکے ان کے خلاف اقدام کرنے سے گریزاں تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر ہم نے انہیں قتل کردیا تو ہم پر کوئی بڑی مصیبت نازل ہوجائے گی۔

فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِينَ

📘 آیت 73 فَکَذَّبُوْہُ فَنَجَّیْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْْفُلْکِ وَجَعَلْنٰہُمْ خَلٰٓءِفَ انہی لوگوں کو ہم نے زمین میں خلافت عطا کی۔

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِنْ قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ

📘 آیت 73 فَکَذَّبُوْہُ فَنَجَّیْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْْفُلْکِ وَجَعَلْنٰہُمْ خَلٰٓءِفَ انہی لوگوں کو ہم نے زمین میں خلافت عطا کی۔

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُوسَىٰ وَهَارُونَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآيَاتِنَا فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِينَ

📘 عام طور پر قرآن حکیم میں انباء الرسل کے ضمن میں چھ رسولوں کا تذکرہ بار بار آیا ہے ‘ لیکن یہاں اختصار کے ساتھ حضرت نوح علیہ السلام کا صرف تین آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ پھر اس ایک آیت 74 میں باقی تمام رسولوں کا نام لیے بغیر صرف حوالہ دے دیا گیا ہے اور اس کے بعد حضرت موسیٰ کا ذکر قدرے تفصیل سے ہوا ہے۔

فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا إِنَّ هَٰذَا لَسِحْرٌ مُبِينٌ

📘 عام طور پر قرآن حکیم میں انباء الرسل کے ضمن میں چھ رسولوں کا تذکرہ بار بار آیا ہے ‘ لیکن یہاں اختصار کے ساتھ حضرت نوح علیہ السلام کا صرف تین آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ پھر اس ایک آیت 74 میں باقی تمام رسولوں کا نام لیے بغیر صرف حوالہ دے دیا گیا ہے اور اس کے بعد حضرت موسیٰ کا ذکر قدرے تفصیل سے ہوا ہے۔

قَالَ مُوسَىٰ أَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَكُمْ ۖ أَسِحْرٌ هَٰذَا وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ

📘 عام طور پر قرآن حکیم میں انباء الرسل کے ضمن میں چھ رسولوں کا تذکرہ بار بار آیا ہے ‘ لیکن یہاں اختصار کے ساتھ حضرت نوح علیہ السلام کا صرف تین آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ پھر اس ایک آیت 74 میں باقی تمام رسولوں کا نام لیے بغیر صرف حوالہ دے دیا گیا ہے اور اس کے بعد حضرت موسیٰ کا ذکر قدرے تفصیل سے ہوا ہے۔

قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاءُ فِي الْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ

📘 وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِط وَمَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ یعنی تم دونوں حضرت موسیٰ اور ہارون یہاں اپنی بادشاہی قائم کرنا چاہتے ہو۔ اس اندیشے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ اہل مصر کو بندگئ رب کی جو دعوت دے رہے تھے اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرے میں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی ‘ اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِي بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ

📘 وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِط وَمَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ یعنی تم دونوں حضرت موسیٰ اور ہارون یہاں اپنی بادشاہی قائم کرنا چاہتے ہو۔ اس اندیشے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ اہل مصر کو بندگئ رب کی جو دعوت دے رہے تھے اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرے میں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی ‘ اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی۔

أُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

📘 آیت 8 اُولٰٓءِکَ مَاْوٰٹہُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ”یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ آگ ہے ‘ اپنی اس کمائی کے سبب جو وہ کر رہے ہیں۔“جس شخص نے اپنی پوری دنیوی زندگی میں نہ اللہ کی طرف رجوع کیا اور نہ آخرت ہی کی کچھ فکر کی ‘ ساری عمر ’ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘ جیسے نعرے کو اپنا ماٹو بنائے رکھا ‘ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی قیود سے بےنیاز ہو کر جھوٹی مسرتیں اور عارضی خوشیاں جہاں سے ملیں ‘ جس قیمت پر ملیں حاصل کرلیں ‘ تو ایسے شخص کا آخری ٹھکانہ آگ کے سوا بھلا اور کہاں ہوسکتا ہے !

فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُمْ مُوسَىٰ أَلْقُوا مَا أَنْتُمْ مُلْقُونَ

📘 وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِط وَمَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ یعنی تم دونوں حضرت موسیٰ اور ہارون یہاں اپنی بادشاہی قائم کرنا چاہتے ہو۔ اس اندیشے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ اہل مصر کو بندگئ رب کی جو دعوت دے رہے تھے اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرے میں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی ‘ اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی۔

فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَىٰ مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ ۖ إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ

📘 آیت 81 فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰی مَا جِءْتُمْ بِہِلا السِّحْرُ یعنی جادو وہ نہ تھا جو میں نے دکھایا تھا ‘ بلکہ جادو یہ ہے جو تم دکھا رہے ہو۔ اِنَّ اللّٰہَ سَیُبْطِلُہٗط اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ اللہ تعالیٰ ابھی تمہاری شعبدہ بازی کا باطل ہونا ثابت کردے گا ‘ اسے نیست و نابود کر دے گا ‘ ہَبَاءً مَنْثُوْرًا کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ فساد برپا کرنے والوں کے عمل کو نتیجہ خیز نہیں ہونے دیتا۔

وَيُحِقُّ اللَّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ

📘 آیت 81 فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰی مَا جِءْتُمْ بِہِلا السِّحْرُ یعنی جادو وہ نہ تھا جو میں نے دکھایا تھا ‘ بلکہ جادو یہ ہے جو تم دکھا رہے ہو۔ اِنَّ اللّٰہَ سَیُبْطِلُہٗط اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ اللہ تعالیٰ ابھی تمہاری شعبدہ بازی کا باطل ہونا ثابت کردے گا ‘ اسے نیست و نابود کر دے گا ‘ ہَبَاءً مَنْثُوْرًا کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ فساد برپا کرنے والوں کے عمل کو نتیجہ خیز نہیں ہونے دیتا۔

فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَنْ يَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ

📘 عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلاَءِہِمْ اَنْ یَّفْتِنَہُمْ اس وقت مصر پر قبطی قوم حکمران تھی ‘ جسے قرآن نے ”آل فرعون“ کہا ہے اور اسرائیلی ان کے محکوم تھے۔ حضرت موسیٰ اپنی قوم بنی اسرائیل کی آزادی کے علمبردار تھے ‘ لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل میں سے بھی صرف چند نوجوان لڑکوں نے ہی آپ کی دعوت پر لبیک کہا تھا۔ دراصل غلام ہونے کی وجہ سے وہ لوگ فرعون اور اس کے سرداروں کے مظالم سے خوف زدہ تھے۔ عام طور پر ہر محکوم قوم کے ساتھ اسی طرح ہوتا ہے کہ اس کے کچھ لوگ اپنی قوم سے غداری کر کے حکمرانوں سے مل جاتے ہیں اور حکمران انہیں مراعات اور خطابات سے نواز کر ان کی وفاداریاں خرید لیتے ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل میں سے بھی کچھ لوگ فرعون کے ایجنٹ بن چکے تھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال قارون کی ہے۔ وہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے تھا مگر فرعون کا درباری اور اس کا ایجنٹ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ حضرت موسیٰ کے خلاف سازشیں کرتا رہتا تھا اس کا تفصیلی ذکر سورة القصص میں ہے۔ بہر حال بنی اسرائیل کے عام لوگ ایسے مخبروں کے ڈر سے حضرت موسیٰ کے قریب ہونے سے گریز کرتے تھے۔ نوجوان چونکہ با ہمت اور پر جوش ہوتے ہیں ‘ اس لیے وہ اس طرح کی انقلابی آواز پر لبیک کہنے کا خطرہ مول لے لیتے ہیں ‘ جبکہ اسی قوم کے ادھیڑ عمر لوگ کم ہمتی اور مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ پورا فلسفہ اس آیت میں موجود ہے۔ ان آیات کے نزول کے وقت اہل مکہ میں سے بھی محمد رسول اللہ کا ساتھ دینے کے لیے جو لوگ آگے بڑھ رہے تھے وہ چند باہمت نوجوان ہی تھے ‘ نہ کہ مصلحت کوش بوڑھے۔

وَقَالَ مُوسَىٰ يَا قَوْمِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ

📘 عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلاَءِہِمْ اَنْ یَّفْتِنَہُمْ اس وقت مصر پر قبطی قوم حکمران تھی ‘ جسے قرآن نے ”آل فرعون“ کہا ہے اور اسرائیلی ان کے محکوم تھے۔ حضرت موسیٰ اپنی قوم بنی اسرائیل کی آزادی کے علمبردار تھے ‘ لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل میں سے بھی صرف چند نوجوان لڑکوں نے ہی آپ کی دعوت پر لبیک کہا تھا۔ دراصل غلام ہونے کی وجہ سے وہ لوگ فرعون اور اس کے سرداروں کے مظالم سے خوف زدہ تھے۔ عام طور پر ہر محکوم قوم کے ساتھ اسی طرح ہوتا ہے کہ اس کے کچھ لوگ اپنی قوم سے غداری کر کے حکمرانوں سے مل جاتے ہیں اور حکمران انہیں مراعات اور خطابات سے نواز کر ان کی وفاداریاں خرید لیتے ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل میں سے بھی کچھ لوگ فرعون کے ایجنٹ بن چکے تھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال قارون کی ہے۔ وہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے تھا مگر فرعون کا درباری اور اس کا ایجنٹ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ حضرت موسیٰ کے خلاف سازشیں کرتا رہتا تھا اس کا تفصیلی ذکر سورة القصص میں ہے۔ بہر حال بنی اسرائیل کے عام لوگ ایسے مخبروں کے ڈر سے حضرت موسیٰ کے قریب ہونے سے گریز کرتے تھے۔ نوجوان چونکہ با ہمت اور پر جوش ہوتے ہیں ‘ اس لیے وہ اس طرح کی انقلابی آواز پر لبیک کہنے کا خطرہ مول لے لیتے ہیں ‘ جبکہ اسی قوم کے ادھیڑ عمر لوگ کم ہمتی اور مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ پورا فلسفہ اس آیت میں موجود ہے۔ ان آیات کے نزول کے وقت اہل مکہ میں سے بھی محمد رسول اللہ کا ساتھ دینے کے لیے جو لوگ آگے بڑھ رہے تھے وہ چند باہمت نوجوان ہی تھے ‘ نہ کہ مصلحت کوش بوڑھے۔

فَقَالُوا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 85 فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَاج رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ اللہ پر توکل کرتے ہوئے ہم اپنا معاملہ اسی کے حوالے کرتے ہیں۔ پروردگار ! اب ایسا نہ ہو کہ ہمارے ذریعے سے تو ان کو آزمائے۔ جیسے ابو جہل اگر آل یاسر پر ظلم ڈھاتا تھا تو اللہ کے ہاں یہ اس کی بھی آزمائش ہو رہی تھی ‘ لیکن اس آزمائش میں تختۂ مشق حضرت یاسر اور حضرت سمیہ بن رہے تھے۔

وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

📘 آیت 85 فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَاج رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ اللہ پر توکل کرتے ہوئے ہم اپنا معاملہ اسی کے حوالے کرتے ہیں۔ پروردگار ! اب ایسا نہ ہو کہ ہمارے ذریعے سے تو ان کو آزمائے۔ جیسے ابو جہل اگر آل یاسر پر ظلم ڈھاتا تھا تو اللہ کے ہاں یہ اس کی بھی آزمائش ہو رہی تھی ‘ لیکن اس آزمائش میں تختۂ مشق حضرت یاسر اور حضرت سمیہ بن رہے تھے۔

وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ

📘 آیت 87 وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا ان گھروں میں جمع ہو کر تم لوگ اللہ کی عبادت کیا کرو۔ اسی طرح کا انتظام حضور نے بھی اپنی دعوت کے ابتدائی زمانہ میں کیا تھا جب آپ نے دار ارقم کو دعوتی اور تنظیمی سرگرمیوں کے لیے مختص فرمایا تھا۔ وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً فرعون کے ڈر سے وہ لوگ مسجد تو بنا نہیں سکتے تھے ‘ اس لیے انہیں حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں کو تعمیر ہی قبلہ رخ کرو تاکہ وہاں تم نمازیں پڑھا کرو۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں بھی قبلہ معینّ تھا جبکہ بیت المقدس تو ابھی بنا ہی نہیں تھا۔ بیت المقدس تو حضرت موسیٰ کے زمانے سے ایک ہزار سال بعد حضرت سلیمان نے تعمیر فرمایا تھا۔ چناچہ حضرت موسیٰ اور آپ کی قوم کا قبلہ یہی بیت اللہ تھا۔ تورات میں ان کی قربان گاہوں کے خیموں کے بارے میں تفصیل ملتی ہے کہ یہ خیمے اس طرح نصب کیے جاتے تھے کہ جب کوئی شخص قربانی پیش کرتا تھا تو اس کا رخ سیدھا قبلہ کی طرف ہوتا تھا۔

وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ

📘 رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ ان کے پاس طاقت ہے اقتدار ہے اختیار ہے دولت ہے جاہ وحشم ہے۔ لوگ ان کے رعب و دبدبے کے خوف اور مال و دولت کے لالچ سے گمراہ ہو رہے ہیں۔ پروردگار ! کیا تو نے انہیں یہ سب کچھ اس لیے دے رکھا ہے کہ وہ تیرے بندوں کو تیرے سیدھے راستے سے گمراہ کریں ؟ فَلاَ یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ اور جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو پھر ان کا ایمان انہیں کچھ فائدہ نہیں دے گا کیونکہ اس وقت کا ایمان اللہ کے ہاں معتبر نہیں ہے۔ یہ حضرت موسیٰ کی آل فرعون سے بیزاری کی آخری حد ہے۔ اگرچہ نبی ایک ایک فرد کے لیے ایمان کا خواہش مند ہوتا ہے ‘ مگر فرعون اور اس کے سردار اہل ایمان کو ستانے اور اذیتیں دینے میں اس حد تک آگے جا چکے تھے کہ حضرت موسیٰ خود اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ ! اب ان لوگوں کے دلوں کو سخت کر دے ‘ ان کے دلوں پر مہریں لگا دے ‘ تاکہ تیرا عذاب آنے تک انہیں ایمان نصیب ہی نہ ہو۔ اس لیے کہ جو کچھ انہوں نے اللہ اور اہل ایمان کی دشمنی میں کیا ہے اس کی سزا انہیں مل جائے۔

قَالَ قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 89 قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا ایسا نہ ہو کہ وقت آنے پر تمہارا دل پسیج جائے اور پھر دعا کرنے لگو کہ اے اللہ اب ان کو معاف فرما دے !

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ ۖ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ

📘 آیت 8 اُولٰٓءِکَ مَاْوٰٹہُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ”یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ آگ ہے ‘ اپنی اس کمائی کے سبب جو وہ کر رہے ہیں۔“جس شخص نے اپنی پوری دنیوی زندگی میں نہ اللہ کی طرف رجوع کیا اور نہ آخرت ہی کی کچھ فکر کی ‘ ساری عمر ’ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘ جیسے نعرے کو اپنا ماٹو بنائے رکھا ‘ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی قیود سے بےنیاز ہو کر جھوٹی مسرتیں اور عارضی خوشیاں جہاں سے ملیں ‘ جس قیمت پر ملیں حاصل کرلیں ‘ تو ایسے شخص کا آخری ٹھکانہ آگ کے سوا بھلا اور کہاں ہوسکتا ہے !

۞ وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ

📘 حَتّٰیٓ اِذَآ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُ یعنی جب فرعون غرق ہونے لگا تو :

آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ

📘 حَتّٰیٓ اِذَآ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُ یعنی جب فرعون غرق ہونے لگا تو :

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ

📘 آیت 92 فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً یعنی تمہارے جسم کو محفوظ رکھا جائے گا ‘ اس کو گلنے سڑنے نہیں دیا جائے گا تاکہ بعد میں آنے والے اسے دیکھ کر عبرت حاصل کرسکیں۔ چناچہ غرق ہونے کے کچھ عرصہ بعد فرعون کی لاش کنارے پر پائی گئی تھی ‘ صرف اس کے ناک کو کسی مچھلی وغیرہ نے کاٹا تھا ‘ باقی لاش صحیح سلامت تھی اور آج تک قاہرہ کے عجائب گھر میں موجود ہے

وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

📘 فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰی جَآءَ ہُمُ الْعِلْمُ یعنی انہوں نے اس وقت اختلاف کیا اور تفرقے برپا کیے جبکہ ان کے پاس علم آچکا تھا۔ انہوں نے ایسا ناواقفیت کی بنیاد پر مجبوراً نہیں کیا تھا ‘ بلکہ یہ سب کچھ ان کے اپنے نفس کی شرارتوں کا نتیجہ تھا۔

فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ

📘 آیت 94 فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ یہاں خطاب بظاہر محمد رسول اللہ سے ہے ‘ لیکن اس بات کا تو قطعاً کوئی امکان نہیں کہ آپ کو اس میں کوئی شک ہوتا لہٰذا اصل میں روئے سخن اہل مکہ کی طرف ہے۔ بعض اوقات جس سے بات کرنا مقصود ہوتا ہے اس کے رویے کی وجہ سے اس سے اس قدر نفرت ہوجاتی ہے کہ اسے براہ راست مخاطب کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ ایسی صورت میں کسی دوسرے شخص سے بات کی جاتی ہے تاکہ اصل مخاطب بالواسطہ طور پر اسے سن لے۔ چناچہ اس کا مطلب یہی ہے کہ اے مشرکین مکہ ! اگر تم لوگوں کو اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے رسول پر نازل کی ہے :لَقَدْ جَآءَ کَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ یہ اسی انداز تخاطب کا تسلسل ہے کہ حضور کو مخاطب کر کے مشرکین مکہ کو سنایا جا رہا ہے۔

وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ

📘 آیت 94 فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ یہاں خطاب بظاہر محمد رسول اللہ سے ہے ‘ لیکن اس بات کا تو قطعاً کوئی امکان نہیں کہ آپ کو اس میں کوئی شک ہوتا لہٰذا اصل میں روئے سخن اہل مکہ کی طرف ہے۔ بعض اوقات جس سے بات کرنا مقصود ہوتا ہے اس کے رویے کی وجہ سے اس سے اس قدر نفرت ہوجاتی ہے کہ اسے براہ راست مخاطب کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ ایسی صورت میں کسی دوسرے شخص سے بات کی جاتی ہے تاکہ اصل مخاطب بالواسطہ طور پر اسے سن لے۔ چناچہ اس کا مطلب یہی ہے کہ اے مشرکین مکہ ! اگر تم لوگوں کو اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے رسول پر نازل کی ہے :لَقَدْ جَآءَ کَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ یہ اسی انداز تخاطب کا تسلسل ہے کہ حضور کو مخاطب کر کے مشرکین مکہ کو سنایا جا رہا ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 96 اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ جو لوگ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے قانون خداوندی کی زد میں آ چکے ہیں اور ان کے دلوں پر آخری مہر لگ چکی ہے ‘ اب ایسے لوگوں کو ایمان نصیب نہیں ہوگا۔

وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ

📘 آیت 97 وَلَوْ جَآءَ تْہُمْ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ جیسا کہ فرعون کا معاملہ ہوا کہ جب غرق ہونے لگا تب ایمان لایا۔

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ

📘 آیت 98 فَلَوْلاَ کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَآ اِیْمَانُہَآ اِلاَّ قَوْمَ یُوْنُسَ حضرت یونس نینوا کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ آپ کی دعوت کے مقابلے میں آپ کی قوم انکار پر اڑی رہی۔ جب آخری حجت کے بعد ان لوگوں پر عذاب کا فیصلہ ہوگیا تو حضرت یونس حمیت دینی کے جوش میں انہیں چھوڑ کر چلے گئے اور جاتے جاتے انہیں یہ خبر دے گئے کہ اب تین دن کے اندر اندر تم پر عذاب آجائے گا ‘ جبکہ اللہ کی طرف سے آپ کو اپنی قوم کو چھوڑ کر جانے کی ابھی باضابطہ طور پر اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ ایسے مواقع پر رسول اپنی مرضی سے اپنی بستی کو نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے باقاعدہ ہجرت کا حکم نہ آجائے نبی کا معاملہ اس طرح سے نہیں ہوتا۔ محمد رسول اللہ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دے دیا تھا مگر آپ نے خود اس وقت تک ہجرت نہیں فرمائی جب تک آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے با ضابطہ طور پر اس کی اجازت نہیں مل گئی تھی۔ سیرت کی کتابوں میں یہاں تک تفصیل ملتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے دو اونٹنیاں اس مقصد کے لیے تیار کر رکھی تھیں اور روزانہ آپ سے استفسار کرتے تھے کہ حضور ! اجازت ملی یا نہیں ؟بہر حال حضرت یونس کے جانے کے بعد جب عذاب کے آثار پیدا ہوئے تو پوری بستی کے لوگ اپنے بچوں ‘ عورتوں اور مال مویشی کو لے کر باہر نکل آئے اور اللہ کے حضور گڑگڑا کر توبہ کی۔ اللہ کے قانون کے مطابق تو عذاب کے آثار ظاہر ہوجانے کے بعد نہ ایمان فائدہ مند ہوتا ہے اور نہ توبہ قبول کی جاتی ہے ‘ مگر حضرت یونس کے وقت سے پہلے ہجرت کر جانے کی وجہ سے اس قوم کے معاملے میں نرمی اختیار کی گئی اور ان کی توبہ قبول کرتے ہوئے ان پر سے عذاب کو ٹال دیا گیا۔ یوں انسانی تاریخ میں ایک استثناء exception قائم ہوا کہ اس قوم کے لیے قانون خداوندی میں رعایت دی گئی۔

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ

📘 آیت 99 وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعًایہ مضمون سورة الانعام میں بڑے شد ومد کے ساتھ آچکا ہے۔ حضور کی شدید خواہش تھی کہ یہ سب لوگ ایمان لے آئیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں ہمارا اپنا قانون ہے اور وہ یہ کہ جو حق کا طالب ہوگا اسے حق مل جائے گا اور جو تعصب ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے گا اسے ہدایت نصیب نہیں ہوگی۔ اگر لوگوں کو مسلمان بنانا ہی مقصود ہوتا تو اللہ کے لیے یہ کون سا مشکل کام تھا۔ وہ سب کو پیدا ہی ایسے کرتا کہ سب مؤمن متقی اور پرہیزگار ہوتے۔ آخر اس نے فرشتے بھی تو پیدا کیے ہیں جو کبھی غلطی کرتے ہیں نہ اس کی معصیت۔ جیسا کہ سورة التحریم میں فرمایا : لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ وہ اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ لیکن انسانوں کو اس نے پیدا ہی امتحان کے لیے کیا ہے۔ سورة الملک کے آغاز میں زندگی اور موت کی تخلیق کا یہی مقصد بتایا گیا ہے : خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا آیت 2 ”اس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون حسن عمل کا رویہ اختیار کرتا ہے“۔ لہٰذا اے نبی آپ اس معاملے میں اپنا فرض ادا کرتے جائیں ‘ کوئی ایمان لائے یا نہ لائے اس کی پروا نہ کریں ‘ کسی کو ہدایت دینے یا نہ دینے کا معاملہ ہم سے متعلق ہے۔اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ اصل میں یہ ساری باتیں حضور کے دل مبارک کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں کہ آپ ہر وقت دعوت و تبلیغ کی جدوجہدّ میں مصروف ہیں ‘ پھر آپ کو یہ اندیشہ بھی رہتا ہے کہ کہیں اس ضمن میں میری طرف سے کوئی کوتاہی تو نہیں ہو رہی۔ جیسے سورة الاعراف آیت 2 میں فرمایا : فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ کہ آپ کے دل میں فرائض رسالت کے سلسلے میں کسی قسم کی تنگی نہیں ہونی چاہیے۔ اور ان لوگوں کے پیچھے آپ اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔