slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة النحل

(An-Nahl) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ أَتَىٰ أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

📘 آیت 1 اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ جب ہم نے اپنا رسول بھیج دیا اور اس پر اپنا کلام بھی نازل کرنا شروع کردیا ہے تو گویا فیصلہ کن وقت آن پہنچا ہے۔ اب معاملہ صرف مہلت کے دورانیے کا ہے کہ ہمارے رسول اور ہمارے پیغام کا انکار کرنے والوں کو مشیت الٰہی کے مطابق کس قدر مہلت ملتی ہے۔ بہر حال اب جلدی مچانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا عذاب بس اب آیا ہی چاہتا ہے ‘ اس کے لیے اب بہت زیادہ وقت نہیں رہ گیا۔

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ۖ لَكُمْ مِنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ

📘 آیت 10 هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّمِنْهُ شَجَـرٌ فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ اللہ تعالیٰ ہی بارش اور برف کی صورت میں بادلوں سے پانی برساتا ہے جس پر انسانی زندگی کا براہ راست انحصار ہے اور پھر یہی پانی بیشمار نباتاتی اور حیوانی مخلوقات کو زندگی بخشتا ہے جو انسان ہی کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔

إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ

📘 آیت 100 اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَي الَّذِيْنَ يَتَوَلَّوْنَهٗ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِهٖ مُشْرِكُوْنَ شیطان کا زور انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو اپنا رفیق اور سرپرست بنا لیتے ہیں اور اللہ کی اطاعت کے بجائے اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ گویا اس کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا لیتے ہیں یا اس کے بہکانے سے دوسری ہستیوں کو اللہ کا شریک بنا لیتے ہیں۔

وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 101 وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰيَةً مَّكَانَ اٰيَةٍ قبل ازیں یہ مضمون سورة البقرۃ میں بیان ہوچکا ہے : مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا آیت 106۔ چناچہ سورة البقرۃ کے مطالعے کے دوران اس آیت کے تحت اس مضمون کی وضاحت بھی ہوچکی ہے۔وَّاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قرآن کا نزول اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت کے عین مطابق ہور ہا ہے۔ اگر کوئی مخصوص حکم کسی ایک دور کے لیے تھا اور پھر بدلے ہوئے حالات میں اس حکم میں تبدیلی کی ضرورت ہے تو یہ سب کچھ اللہ کے علم کے مطابق ہے اور کسی خاص ضرورت اور حکمت کے تحت ہی کسی حکم میں تبدیلی کی جاتی ہے۔ مگر ایسی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے :قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ کہ پہلے یوں کہا گیا تھا اب اسے بدل کر یوں کہہ رہے ہیں۔ اگر یہ اللہ کا کلام ہوتا تو اس میں اس طرح کی تبدیلی کیسے ممکن تھی ؟بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت علم سے عاری ہے۔

قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ

📘 آیت 102 قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بالْحَقِّ یہاں پر روح القدس کا لفظ حضرت جبرائیل کے لیے آیا ہے کہ ایک پاک فرشتہ اس کلام کو لے کر آیا ہے۔لِيُثَبِّتَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْاسورۃ الفرقان میں یہی مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے : کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا ”تاکہ ہم مضبوط کریں اس کے ساتھ آپ کے دل کو اور اسی لیے ہم نے پڑھ سنایا اسے ٹھہر ٹھہر کر۔“وَهُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ جیسے جیسے حالات میں تبدیلی آرہی ہے ویسے ویسے اس قرآن کے ذریعے مسلمانوں کے لیے ہدایت و راہنمائی کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مثلاً قصہ آدم و ابلیس جب پہلی دفعہ بیان کیا گیا تو اس میں وہ تفصیلات بیان کی گئیں جو اس وقت کے مخصوص معروضی حالات میں حضور اور مسلمانوں کے لیے جاننا ضروری تھیں۔ پھر جب حالات میں تبدیلی آئی تو یہی قصہ کچھ مزید تفصیلات کے ساتھ پھر نازل کیا گیا اور اسی اصول اور ضرورت کے تحت اس کا نزول بار بار ہوا تاکہ ہر دور کے حالات کے مطابق اہل حق اس میں سے اپنی راہنمائی کے لیے سبق حاصل کرسکیں۔

وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ۗ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ

📘 آیت 103 وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُهٗ بَشَرٌمشرکین رسول اللہ پر ایک الزام یہ لگا رہے تھے کہ آپ نے کسی عجمی غلام کو یا اہل کتاب میں سے کسی آدمی کو اپنے گھر میں چھپا رکھا ہے جو تورات کا عالم ہے۔ اس سے آپ یہ ساری باتیں سیکھتے ہیں اور پھر وحی کے نام پر ہمیں سناتے ہیں اور ہم پر دھونس جماتے ہیں۔لِسَانُ الَّذِيْ يُلْحِدُوْنَ اِلَيْهِ اَعْجَمِيٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌچنانچہ یہ الزام لگاتے ہوئے ان کو خود سوچنا چاہیے کہ کوئی عجمی ایسی فصیح وبلیغ عربی زبان کیسے بول سکتا ہے !

إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ لَا يَهْدِيهِمُ اللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 104 اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۙ لَا يَهْدِيْهِمُ اللّٰهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌاللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ کسی کو زبردستی کھینچ کر ہدایت کی طرف لے آئے۔

إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ

📘 آیت 104 اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۙ لَا يَهْدِيْهِمُ اللّٰهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌاللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ کسی کو زبردستی کھینچ کر ہدایت کی طرف لے آئے۔

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

📘 آیت 106 مَنْ كَفَرَ باللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓاس کا اطلاق ایمان کی دونوں کیفیتوں پر ہوگا۔ ایک یہ کہ دل میں ایمان آگیا بات پوری طرح دل میں بیٹھ گئی ‘ دل میں یقین کی کیفیت پیدا ہوگئی کہ ہاں یہی حق ہے مگر زبان سے ابھی اقرار نہیں کیا۔ ایمان کی دوسری کیفیت یہ ہے کہ دل بھی ایمان لے آیا اور زبان سے ایمان کا اقرار بھی کرلیا۔ چناچہ ان دونوں درجوں میں سے کسی بھی درجے میں اگر انسان نے حق کو حق جان لیا دل میں یقین پیدا ہوگیا مگر پھر کسی مصلحت کا شکار ہوگیا اور حق کا ساتھ دینے سے کنی کترا گیا تو اس پر اس حکم کا اطلاق ہوگا۔اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ کسی کی جان پر بنی ہوئی تھی اور اس حالت میں کوئی کلمہ کفر اس کی زبان سے ادا ہوگیا مگر اس کا دل بدستور حالت ایمان میں مطمئن رہا تو ایسا شخص اللہ کے ہاں معذور سمجھا جائے گا۔وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌاوپر بیان کیے گئے استثناء کے مطابق مجبوری کی حالت میں تو کلمہ کفر کہنے والے کو معاف کردیا جائے گا بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر پوری طرح مطمئن ہو مگر جو شخص کسی وجہ سے پورے شرح صدر کے ساتھ کفر کی طرف لوٹ گیا ‘ وہ اللہ کے غضب اور بہت بڑے عذاب کا مستحق ہوگیا۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

📘 آیت 106 مَنْ كَفَرَ باللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓاس کا اطلاق ایمان کی دونوں کیفیتوں پر ہوگا۔ ایک یہ کہ دل میں ایمان آگیا بات پوری طرح دل میں بیٹھ گئی ‘ دل میں یقین کی کیفیت پیدا ہوگئی کہ ہاں یہی حق ہے مگر زبان سے ابھی اقرار نہیں کیا۔ ایمان کی دوسری کیفیت یہ ہے کہ دل بھی ایمان لے آیا اور زبان سے ایمان کا اقرار بھی کرلیا۔ چناچہ ان دونوں درجوں میں سے کسی بھی درجے میں اگر انسان نے حق کو حق جان لیا دل میں یقین پیدا ہوگیا مگر پھر کسی مصلحت کا شکار ہوگیا اور حق کا ساتھ دینے سے کنی کترا گیا تو اس پر اس حکم کا اطلاق ہوگا۔اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ کسی کی جان پر بنی ہوئی تھی اور اس حالت میں کوئی کلمہ کفر اس کی زبان سے ادا ہوگیا مگر اس کا دل بدستور حالت ایمان میں مطمئن رہا تو ایسا شخص اللہ کے ہاں معذور سمجھا جائے گا۔وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌاوپر بیان کیے گئے استثناء کے مطابق مجبوری کی حالت میں تو کلمہ کفر کہنے والے کو معاف کردیا جائے گا بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر پوری طرح مطمئن ہو مگر جو شخص کسی وجہ سے پورے شرح صدر کے ساتھ کفر کی طرف لوٹ گیا ‘ وہ اللہ کے غضب اور بہت بڑے عذاب کا مستحق ہوگیا۔

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ

📘 آیت 106 مَنْ كَفَرَ باللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓاس کا اطلاق ایمان کی دونوں کیفیتوں پر ہوگا۔ ایک یہ کہ دل میں ایمان آگیا بات پوری طرح دل میں بیٹھ گئی ‘ دل میں یقین کی کیفیت پیدا ہوگئی کہ ہاں یہی حق ہے مگر زبان سے ابھی اقرار نہیں کیا۔ ایمان کی دوسری کیفیت یہ ہے کہ دل بھی ایمان لے آیا اور زبان سے ایمان کا اقرار بھی کرلیا۔ چناچہ ان دونوں درجوں میں سے کسی بھی درجے میں اگر انسان نے حق کو حق جان لیا دل میں یقین پیدا ہوگیا مگر پھر کسی مصلحت کا شکار ہوگیا اور حق کا ساتھ دینے سے کنی کترا گیا تو اس پر اس حکم کا اطلاق ہوگا۔اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ کسی کی جان پر بنی ہوئی تھی اور اس حالت میں کوئی کلمہ کفر اس کی زبان سے ادا ہوگیا مگر اس کا دل بدستور حالت ایمان میں مطمئن رہا تو ایسا شخص اللہ کے ہاں معذور سمجھا جائے گا۔وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌاوپر بیان کیے گئے استثناء کے مطابق مجبوری کی حالت میں تو کلمہ کفر کہنے والے کو معاف کردیا جائے گا بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر پوری طرح مطمئن ہو مگر جو شخص کسی وجہ سے پورے شرح صدر کے ساتھ کفر کی طرف لوٹ گیا ‘ وہ اللہ کے غضب اور بہت بڑے عذاب کا مستحق ہوگیا۔

لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخَاسِرُونَ

📘 آیت 109 لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیوی زندگی کی محبت میں حق سے منہ موڑ کر غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اب ان کے اس طرز عمل کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کی بھلائیوں میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اگلی آیت میں پھر ہجرت کا ذکر آ رہا ہے جو اس سے پہلے آیت 41 میں بھی آچکا ہے۔

يُنْبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالْأَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

📘 اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ اللہ تعالیٰ کی شان خلاقی کے بیشمار انداز ہیں اس کی تخلیق میں لامحدود تنوع ‘ بوقلمونی اور رنگا رنگی ہے۔ چناچہ اب ایک دوسرے پہلو سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر ہونے جا رہا ہے :

ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 110 ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَصَبَرُوْٓا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌجن مؤمنین پر مکہ میں مصائب کے پہاڑ توڑے گئے ان حالات میں انہوں نے ہجرت کی پھر وہ جہاد بھی کرتے رہے اس طرح راہ حق میں آنے والی آزمائشوں کے تمام مراحل انہوں نے کمال صبر سے طے کیے اللہ تعالیٰ انہیں ان کی ان قربانیوں اور سرفروشیوں کا ضرور اجر دے گا۔ انہیں بخشش عطا فرمائے گا اور ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا۔

۞ يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

📘 آیت 111 يَوْمَ تَاْتِيْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَاروز قیامت ہر شخص چاہے گا کہ کسی نہ کسی طرح جہنم کی سزا سے اس کی جان چھوٹ جائے۔ لہٰذا اس کے لیے وہ مختلف عذر پیش کرے گا۔

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

📘 فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ اس تمثیل کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ یہ ایک عام تمثیل ہے اور کسی خاص بستی سے متعلق نہیں۔ کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ یہ قوم سبا کی مثال ہے جس کے بارے میں تفصیل آگے چل کر سورة سبا میں آئے گی۔ ایک تیسری رائے یہ ہے کہ اس مثال کے آئینے میں مکہ اور اہل مکہ کا ذکر ہے کہ یہ شہر ہمیشہ سے امن و سکون کا گہوارہ چلا آ رہا تھا اور یہاں اہل مکہ کی تجارتی سرگرمیوں اور حج وعمرہ کے اجتماعات کے باعث خوشحالی اور فارغ البالی بھی تھی۔ دنیا بھر سے انواع وا قسام کا رزق فراوانی سے ان کے پاس چلا آتا تھا مگر حضور کی بعثت کے بعد آپ کی دعوت کا انکار کرنے کی پاداش میں اس شہر کے باشندوں پر قحط کا عذاب مسلط کردیا گیا تھا۔ مکہ میں یہ قحط اسی قانون خداوندی کے تحت آیا تھا جس کا ذکر سورة الانعام کی آیت 42 اور سورة الاعراف کی آیت 94 میں ہوا ہے۔ اس اصول یا قانون کے تحت ہر رسول کی بعثت کے بعد متعلقہ قوم پر چھوٹے چھوٹے عذاب آتے ہیں تاکہ انہیں خواب غفلت سے جاگنے اور سنبھلنے کا موقع مل جائے اور وہ رسول پر ایمان لا کر بڑے عذاب سے بچ جائیں۔تاویل خاص کے اعتبار سے اس مثال میں یقیناً مکہ ہی کی طرف اشارہ ہے مگر اس کی عمومی حیثیت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ کوئی بستی بھی اس قانون خداوندی کی زد میں آسکتی ہے۔ جیسے پاکستان کے عروس البلاد کراچی کے حالات کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب کراچی میں امن وامان وسائلِ رزق کی فراوانی اور خوشحالی کی کیفیت ملک بھر کے لوگوں کے لیے باعث کشش تھی ‘ مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر وہی نقشہ پیش کرنے لگا جس کی جھلک اس آیت میں دکھائی گئی ہے۔ یعنی کفر ان نعمت کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اس کے باشندوں کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا۔

وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ

📘 فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ اس تمثیل کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ یہ ایک عام تمثیل ہے اور کسی خاص بستی سے متعلق نہیں۔ کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ یہ قوم سبا کی مثال ہے جس کے بارے میں تفصیل آگے چل کر سورة سبا میں آئے گی۔ ایک تیسری رائے یہ ہے کہ اس مثال کے آئینے میں مکہ اور اہل مکہ کا ذکر ہے کہ یہ شہر ہمیشہ سے امن و سکون کا گہوارہ چلا آ رہا تھا اور یہاں اہل مکہ کی تجارتی سرگرمیوں اور حج وعمرہ کے اجتماعات کے باعث خوشحالی اور فارغ البالی بھی تھی۔ دنیا بھر سے انواع وا قسام کا رزق فراوانی سے ان کے پاس چلا آتا تھا مگر حضور کی بعثت کے بعد آپ کی دعوت کا انکار کرنے کی پاداش میں اس شہر کے باشندوں پر قحط کا عذاب مسلط کردیا گیا تھا۔ مکہ میں یہ قحط اسی قانون خداوندی کے تحت آیا تھا جس کا ذکر سورة الانعام کی آیت 42 اور سورة الاعراف کی آیت 94 میں ہوا ہے۔ اس اصول یا قانون کے تحت ہر رسول کی بعثت کے بعد متعلقہ قوم پر چھوٹے چھوٹے عذاب آتے ہیں تاکہ انہیں خواب غفلت سے جاگنے اور سنبھلنے کا موقع مل جائے اور وہ رسول پر ایمان لا کر بڑے عذاب سے بچ جائیں۔تاویل خاص کے اعتبار سے اس مثال میں یقیناً مکہ ہی کی طرف اشارہ ہے مگر اس کی عمومی حیثیت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ کوئی بستی بھی اس قانون خداوندی کی زد میں آسکتی ہے۔ جیسے پاکستان کے عروس البلاد کراچی کے حالات کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب کراچی میں امن وامان وسائلِ رزق کی فراوانی اور خوشحالی کی کیفیت ملک بھر کے لوگوں کے لیے باعث کشش تھی ‘ مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر وہی نقشہ پیش کرنے لگا جس کی جھلک اس آیت میں دکھائی گئی ہے۔ یعنی کفر ان نعمت کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اس کے باشندوں کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا۔

فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ

📘 وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ نوٹ کیجیے کہ اللہ کی نعمتوں کا ذکر مختلف انداز میں اس سورت میں بار بار آ رہا ہے۔

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌیعنی انتہائی مجبوری کی حالت میں جان بچانے کے لیے وقتی طور پر بقدر ضرورت ان حرام اشیاء کو استعمال میں لا کر جان بچائی جاسکتی ہے مگر نہ تو دل میں ان کی طلب ہو نہ اللہ سے سرکشی کا ارادہ اور نہ ہی ایسی حالت میں وہ چیز ضرورت سے زیادہ کھائی جائے۔

وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ

📘 آیت 116 وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌحلال اور حرام کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اس لیے اس بارے میں غیر محتاط رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ بغیر علم دلیل اور سند کے جو منہ میں آیا کہہ دیا۔

مَتَاعٌ قَلِيلٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 116 وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌحلال اور حرام کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اس لیے اس بارے میں غیر محتاط رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ بغیر علم دلیل اور سند کے جو منہ میں آیا کہہ دیا۔

وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۖ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

📘 آیت 118 وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ اس بارے میں تفصیل سورة آل عمران : 93 ‘ النساء : 140 اور الانعام : 146 میں گزر چکی ہے۔ حضرت یعقوب نے اپنی مرضی سے اپنے اوپر اونٹ کا گوشت حرام کرلیا تھا ‘ جس کی تعمیل بعد میں وہ پوری قوم کرتی رہی۔ اس کے علاوہ مختلف حیوانات کی چربی بھی بنی اسرائیل پر حرام کردی گئی تھی۔

ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 119 ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْۗءَ بِجَــهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْٓا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌجو لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر یا نادانی میں کوئی گناہ کر بیٹھیں ‘ پھر توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں اور غلط روش سے باز آجائیں تو ایسے لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ ضرور غفورو رحیم ہے۔

وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

📘 آیت 12 وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رات اپنی جگہ اہم ہے اور دن کی اپنی اہمیت ہے۔ رات میں مجموعی طور پر ایک سکون ہے۔ یہ انسانوں اور دوسرے جانداروں کے لیے باعث راحت ہے ‘ اس میں وہ آرام کرتے ہیں ‘ سوتے ہیں اور صبح تازہ دم ہو کر اٹھتے ہیں۔ دوسری طرف دن میں بھاگ دوڑ ‘ محنت ‘ جدوجہد اور مختلف النوع انسانی سرگرمیاں ممکن ہوتی ہیں۔ اگر اس پہلو سے دنیا کے اجتماعی نظام کو دیکھا جائے تو یہ پورا نظام رات اور دن کے وجود کا مرہون منت نظر آتا ہے۔ نباتاتی نظام کو ہی لے لیجیے۔ اس کے لیے رات اور دن دونوں ہی ناگزیر ہیں۔ دن کو سورج کی روشنی اور تمازت سے نباتات کے لیے Photosynthesis کا عمل ممکن ہوتا ہے جو ان کی نشوونما کے لیے ناگزیر ہے۔ فصلوں اور پھلوں کو بھی پکنے کے لیے سورج کی روشنی اور حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف رات کو نباتات respiration کے عمل کے ذریعے سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔ گویا رات اور دن کے بغیر نباتات کا وجود ممکن ہی نہیں ہے اور انسانی زندگی میں نباتات کے عمل دخل کا تصور کریں تو اس ایک مثال سے ہی یہ حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دن اور رات کو انسان کے لیے مسخر کردینا کتنی بڑی نعمت ہے۔وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ پورا نظام شمسی اور تمام اجرام فلکی اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان کی نفع رسانی میں مصروف ہیں۔

إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

📘 آیت 120 اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اَمَّ یَوُمُّ کے لغوی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ سورة یوسف آیت 45 میں اُمَّۃ کا لفظ وقت اور مدت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ ۔ وقت اور زمانے کے بھی ہم پیچھے چلتے ہیں تو گویا اس کا قصد کرتے ہیں۔ اسی طرح راستے پر چلتے ہوئے بھی انسان اس کا قصد کرتا ہے۔ اس حوالے سے لفظ اُمَّۃ وقت اور راستے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بہت سے لوگ ایک نظریے کا قصد کر کے اکٹھے ہوجائیں تو انہیں بھی اُمَّۃ کہا جاتا ہے ‘ یعنی ہم مقصد لوگوں کی جماعت۔ چناچہ اسی معنی میں سورة البقرۃ کی آیت 143 میں فرمایا گیا : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۔ اس لحاظ سے آیت زیرنظر میں لفظ امت کا مفہوم یہ ہوگا کہ حضرت ابراہیم ایک راستہ بنانے والے ‘ اور ایک ریت ڈالنے والے تھے ‘ اور اس طرح آپ اپنی ذات میں گویا ایک امت تھے۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا اور پوری دنیا کفر کے راستے پر گامزن تھی تو آپ تن تنہا اسلام کے علمبردار تھے۔

شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ ۚ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 آیت 120 اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اَمَّ یَوُمُّ کے لغوی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ سورة یوسف آیت 45 میں اُمَّۃ کا لفظ وقت اور مدت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ ۔ وقت اور زمانے کے بھی ہم پیچھے چلتے ہیں تو گویا اس کا قصد کرتے ہیں۔ اسی طرح راستے پر چلتے ہوئے بھی انسان اس کا قصد کرتا ہے۔ اس حوالے سے لفظ اُمَّۃ وقت اور راستے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بہت سے لوگ ایک نظریے کا قصد کر کے اکٹھے ہوجائیں تو انہیں بھی اُمَّۃ کہا جاتا ہے ‘ یعنی ہم مقصد لوگوں کی جماعت۔ چناچہ اسی معنی میں سورة البقرۃ کی آیت 143 میں فرمایا گیا : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۔ اس لحاظ سے آیت زیرنظر میں لفظ امت کا مفہوم یہ ہوگا کہ حضرت ابراہیم ایک راستہ بنانے والے ‘ اور ایک ریت ڈالنے والے تھے ‘ اور اس طرح آپ اپنی ذات میں گویا ایک امت تھے۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا اور پوری دنیا کفر کے راستے پر گامزن تھی تو آپ تن تنہا اسلام کے علمبردار تھے۔

وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ

📘 آیت 120 اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اَمَّ یَوُمُّ کے لغوی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ سورة یوسف آیت 45 میں اُمَّۃ کا لفظ وقت اور مدت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ ۔ وقت اور زمانے کے بھی ہم پیچھے چلتے ہیں تو گویا اس کا قصد کرتے ہیں۔ اسی طرح راستے پر چلتے ہوئے بھی انسان اس کا قصد کرتا ہے۔ اس حوالے سے لفظ اُمَّۃ وقت اور راستے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بہت سے لوگ ایک نظریے کا قصد کر کے اکٹھے ہوجائیں تو انہیں بھی اُمَّۃ کہا جاتا ہے ‘ یعنی ہم مقصد لوگوں کی جماعت۔ چناچہ اسی معنی میں سورة البقرۃ کی آیت 143 میں فرمایا گیا : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۔ اس لحاظ سے آیت زیرنظر میں لفظ امت کا مفہوم یہ ہوگا کہ حضرت ابراہیم ایک راستہ بنانے والے ‘ اور ایک ریت ڈالنے والے تھے ‘ اور اس طرح آپ اپنی ذات میں گویا ایک امت تھے۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا اور پوری دنیا کفر کے راستے پر گامزن تھی تو آپ تن تنہا اسلام کے علمبردار تھے۔

ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

📘 آیت 120 اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اَمَّ یَوُمُّ کے لغوی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ سورة یوسف آیت 45 میں اُمَّۃ کا لفظ وقت اور مدت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ ۔ وقت اور زمانے کے بھی ہم پیچھے چلتے ہیں تو گویا اس کا قصد کرتے ہیں۔ اسی طرح راستے پر چلتے ہوئے بھی انسان اس کا قصد کرتا ہے۔ اس حوالے سے لفظ اُمَّۃ وقت اور راستے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بہت سے لوگ ایک نظریے کا قصد کر کے اکٹھے ہوجائیں تو انہیں بھی اُمَّۃ کہا جاتا ہے ‘ یعنی ہم مقصد لوگوں کی جماعت۔ چناچہ اسی معنی میں سورة البقرۃ کی آیت 143 میں فرمایا گیا : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۔ اس لحاظ سے آیت زیرنظر میں لفظ امت کا مفہوم یہ ہوگا کہ حضرت ابراہیم ایک راستہ بنانے والے ‘ اور ایک ریت ڈالنے والے تھے ‘ اور اس طرح آپ اپنی ذات میں گویا ایک امت تھے۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا اور پوری دنیا کفر کے راستے پر گامزن تھی تو آپ تن تنہا اسلام کے علمبردار تھے۔

إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

📘 آیت 124 اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَي الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ دراصل بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے عبادت کے لیے جمعہ کا دن ہی مقرر فرمایا تھا مگر انہوں نے اپنی شرارت کی وجہ سے اس کی ناقدری کی اور اسے چھوڑ کر ہفتہ کا دن اختیار کرلیا۔ چناچہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس حیثیت میں ہفتہ کا دن ہی مقرر کردیا۔

ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

📘 آیت 125 اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ یہ دعوت الی الحق کا طریقہ اور اس کے آداب کا ذکر ہے جیسا کہ سورة یوسف ‘ آیت 108 میں فرمایا گیا : قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِقف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ” اے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ میں خود بھی اور میرے پیروکار بھی اس راستے پر گامزن ہیں۔“ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ اپنے موضوع کے حوالے سے یہ بہت عظیم آیت ہے۔ اس میں انسانی معاشرے کے اندر انسانوں کی تین بنیادی اقسام کے حوالے سے دعوت دین کے تین مدارج بیان کیے گئے ہیں ‘ مگر عام طور پر اس آیت کا ترجمہ اور تشریح کرتے ہوئے اس پہلو کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔کسی بھی معاشرے میں علم و دانش کی بلند ترین سطح پر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اس معاشرے کا دانشور طبقہ intelligentsia یا ذہین اقلیت intellectual minority کہا جاتا ہے۔ اس طبقے کی حیثیت اس معاشرے یا قوم کے دماغ کی سی ہوتی ہے۔ یہ لوگ اگرچہ تعداد کے لحاظ سے بہت چھوٹی اقلیت پر مشتمل ہوتے ہیں مگر کسی معاشرے کی مجموعی سوچ اور اس کے مزاج کا رخ متعین کرنے میں ان کا کردار یا حصہ فیصلہ کن حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو جذباتی تقاریر اور خوش کن وعظ متاثر نہیں کرسکتے ‘ بلکہ ایسے لوگ کسی سوچ یا نظر یے کو قبول کرتے ہیں تو مصدقہ علمی و منطقی دلیل سے قبول کرتے ہیں اور اگر رد کرتے ہیں تو ایسی ہی ٹھوس دلیل سے رد کرتے ہیں۔ آیت زیر نظر میں بیان کردہ پہلا درجہ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے اور وہ ہے ”حکمت“۔ یہ علم و عقل کی پختگی کی بہت اعلیٰ سطح ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت 269 میں اللہ تعالیٰ نے حکمت کو ’ خیر کثیر ‘ قرار دیا ہے : وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا۔ قرآن میں تین مقامات البقرۃ 129 ‘ آل عمران : 164 اور الجمعہ : 2 پر ان مراحل اور درجات کا ذکر کیا گیا ہے جن کے تحت حضور نے اپنے صحابہ کی تربیت فرمائی۔ ان میں بلند ترین مرحلہ یا درجہ حکمت کا ہے۔ حکمت کے سبب کسی انسان کی سوچ اور علم میں پختگی آتی ہے ‘ اس کی گفتگو میں جامعیت پیدا ہوتی ہے اور اس کی تجزیاتی اہلیت بہتر ہوجاتی ہے۔ اس طرح وہ کسی سے بات کرتے ہوئے یا کسی کو دین کی دعوت دیتے ہوئے معروضی صورت حال ‘ مخاطب کے ذہنی رجحان اور ترجیحات کا درست تجزیہ کرنے کے بعد اپنی گفتگو کے نکات اور دلائل کو ترتیب دیتا ہے۔ اسے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ کس وقت اسے کیا پیش کرنا ہے اور کس انداز میں پیش کرنا ہے۔ کون سا نکتہ بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے اور کون سی دلیل ثانوی اہمیت کی حامل ہے۔ بہر حال کسی بھی معاشرے کے وہ لوگ جو علم ‘ عقل اور شعور میں غیر معمولی اہلیت کے حامل ہوں ‘ ان کو دعوت دینے کے لیے بھی کسی ایسے داعی کی ضرورت ہے جو خود بھی علم و حکمت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو اور ان سے برابری کی سطح پر کھڑے ہو کر بات کرسکے۔ کیونکہ جب قرآن اپنے مخالفین کو چیلنج کرتا ہے : ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ البقرۃ ”اپنی دلیل لاؤ اگر تم واقعی سچے ہو“۔ تو ایسی صورت میں ہمارے مخالفین کو بھی حق ہے کہ وہ بھی ہم سے دلیل مانگیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم عقل اور منطق کی اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر ان کی تسلی و تشفی کا سامان فراہم کریں۔ لہٰذا آیت زیر نظر میں دعوت و تبلیغ کا پہلا درجہ حکمت بیان کیا گیا ہے جس کا حق ادا کرنے کے لیے داعی کا صاحب حکمت اور حکیم ہونا لازمی ہے۔حکمت کے بعد دوسرا درجہ ”موعظہ حسنہ“ کا ہے ‘ یعنی اچھا خوبصورت وعظ۔ یہ درجہ عوام الناس کے لیے ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کے ذہنوں میں عقل اور منطق کی چھلنیاں نہیں لگی ہوتیں۔ چناچہ ایسے لوگوں کے لیے منطقی مباحث اور فلسفیانہ تقاریر ”تکلیف مالا یطاق“ کے مترادف ہیں۔ ان کے دل کھلی کتاب اور ذہن صاف سلیٹ کی مانند ہوتے ہیں ‘ آپ ان پر جو لکھنا چاہیں لکھ لیں۔ ایسے لوگوں کو دعوت دینے کے لیے ان کے جذبات کو اپیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پر تاثیر وعظ اور خلوص و ہمدردی سے کی گئی بات سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ ان کو احساس ہوجاتا ہے کہ داعی ہم پر اپنے علم کا رعب نہیں ڈالنا چاہتا ‘ ہم پر دھونس نہیں جمانا چاہتا ‘ وہ ہم سے اظہار نفرت نہیں کر رہا ‘ ہماری تحقیر نہیں کر رہا ‘ بلکہ اس کے پیش نظر ہماری خیر خواہی ہے۔ چناچہ داعی کے دل سے نکلی ہوئی بات ”از دل خیزد ‘ بردل ریزد“ کے مصداق سیدھی ان کے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ دعوت حق کا تیسرا درجہ جَادِلْہُمْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ان عناصر کے لیے ہے جو کسی معاشرے میں خلق خدا کو گمراہ کرنے کے مشن کے علمبردار ہوتے ہیں۔ آج کل بہت سی تنظیموں کی طرف سے باقاعدہ پیشہ وارانہ تربیت سے ایسے لوگ تیار کر کے میدان میں اتارے جاتے ہیں۔ یہ لوگ خلوص و اخلاص سے کی گئی بات کو کسی قیمت پر ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہر حال میں اپنے نظریے اور موقف کی طرف داری کرنا ان لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے ‘ چاہے وہ کسی علمی و عقلی دلیل سے ہو یا ہٹ دھرمی سے۔ ایسے لوگوں کو مسکت جواب دے کر لاجواب کرنا ضروری ہوتا ہے ‘ ورنہ بعض اوقات عوامی سطح کے اجتماعات میں ان کی بحث برائے بحث کی پالیسی بہت خطرناک ہوسکتی ہے ‘ جس سے عوام الناس کے ذہن منفی طور پر متاثر ہوسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بحث و مباحثہ کے عمل کو ہمارے ہاں ”مناظرہ“ کہا جاتا ہے ‘ جبکہ قرآن نے اسے ”مجادلہ“ کہا ہے۔ بہرحال قرآن نے اپنے پیروکاروں کے لیے اس میں بھی اعلیٰ معیار مقرر کردیا ہے کہ مخالفین سے مجادلہ بھی ہو تو احسن انداز میں ہو۔ اگر آپ کا مخالف کسی طور سے گھٹیا پن کا مظاہرہ بھی کرے تب بھی آپ کو جواب میں اچھے اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں ‘ جیسا کہ سورة الانعام کی آیت 108 میں حکم دیا گیا : وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ”اور جن کو یہ مشرک اللہ کے سوا پکارتے ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو کہ کہیں یہ بھی بغیر سوچے سمجھے مخالفت میں اللہ کو برا بھلا کہنے لگ جائیں“۔ آج کل مختلف مذاہب کی تنظی میں مثلاً عیسائی مشنریز باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسلام کو ہدف بنانے کے لیے کچھ خاص موضوعات اور مسائل کو ایک مخصوص انداز میں پیش کرتی ہیں۔ یہ لوگ ایسے موضوعات و مسائل پر مناظرے کرنے کے لیے باقاعدہ ٹریننگ کے ذریعے سپیشلسٹ specialist تیار کرتے ہیں۔ ایسے پیشہ وارانہ لوگوں کے مقابلے اور مجادلے کے لیے داعیانِ حق کو خصوصی تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے۔

وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ

📘 آیت 125 اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ یہ دعوت الی الحق کا طریقہ اور اس کے آداب کا ذکر ہے جیسا کہ سورة یوسف ‘ آیت 108 میں فرمایا گیا : قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِقف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ” اے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ میں خود بھی اور میرے پیروکار بھی اس راستے پر گامزن ہیں۔“ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ اپنے موضوع کے حوالے سے یہ بہت عظیم آیت ہے۔ اس میں انسانی معاشرے کے اندر انسانوں کی تین بنیادی اقسام کے حوالے سے دعوت دین کے تین مدارج بیان کیے گئے ہیں ‘ مگر عام طور پر اس آیت کا ترجمہ اور تشریح کرتے ہوئے اس پہلو کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔کسی بھی معاشرے میں علم و دانش کی بلند ترین سطح پر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اس معاشرے کا دانشور طبقہ intelligentsia یا ذہین اقلیت intellectual minority کہا جاتا ہے۔ اس طبقے کی حیثیت اس معاشرے یا قوم کے دماغ کی سی ہوتی ہے۔ یہ لوگ اگرچہ تعداد کے لحاظ سے بہت چھوٹی اقلیت پر مشتمل ہوتے ہیں مگر کسی معاشرے کی مجموعی سوچ اور اس کے مزاج کا رخ متعین کرنے میں ان کا کردار یا حصہ فیصلہ کن حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو جذباتی تقاریر اور خوش کن وعظ متاثر نہیں کرسکتے ‘ بلکہ ایسے لوگ کسی سوچ یا نظر یے کو قبول کرتے ہیں تو مصدقہ علمی و منطقی دلیل سے قبول کرتے ہیں اور اگر رد کرتے ہیں تو ایسی ہی ٹھوس دلیل سے رد کرتے ہیں۔ آیت زیر نظر میں بیان کردہ پہلا درجہ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے اور وہ ہے ”حکمت“۔ یہ علم و عقل کی پختگی کی بہت اعلیٰ سطح ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت 269 میں اللہ تعالیٰ نے حکمت کو ’ خیر کثیر ‘ قرار دیا ہے : وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا۔ قرآن میں تین مقامات البقرۃ 129 ‘ آل عمران : 164 اور الجمعہ : 2 پر ان مراحل اور درجات کا ذکر کیا گیا ہے جن کے تحت حضور نے اپنے صحابہ کی تربیت فرمائی۔ ان میں بلند ترین مرحلہ یا درجہ حکمت کا ہے۔ حکمت کے سبب کسی انسان کی سوچ اور علم میں پختگی آتی ہے ‘ اس کی گفتگو میں جامعیت پیدا ہوتی ہے اور اس کی تجزیاتی اہلیت بہتر ہوجاتی ہے۔ اس طرح وہ کسی سے بات کرتے ہوئے یا کسی کو دین کی دعوت دیتے ہوئے معروضی صورت حال ‘ مخاطب کے ذہنی رجحان اور ترجیحات کا درست تجزیہ کرنے کے بعد اپنی گفتگو کے نکات اور دلائل کو ترتیب دیتا ہے۔ اسے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ کس وقت اسے کیا پیش کرنا ہے اور کس انداز میں پیش کرنا ہے۔ کون سا نکتہ بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے اور کون سی دلیل ثانوی اہمیت کی حامل ہے۔ بہر حال کسی بھی معاشرے کے وہ لوگ جو علم ‘ عقل اور شعور میں غیر معمولی اہلیت کے حامل ہوں ‘ ان کو دعوت دینے کے لیے بھی کسی ایسے داعی کی ضرورت ہے جو خود بھی علم و حکمت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو اور ان سے برابری کی سطح پر کھڑے ہو کر بات کرسکے۔ کیونکہ جب قرآن اپنے مخالفین کو چیلنج کرتا ہے : ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ البقرۃ ”اپنی دلیل لاؤ اگر تم واقعی سچے ہو“۔ تو ایسی صورت میں ہمارے مخالفین کو بھی حق ہے کہ وہ بھی ہم سے دلیل مانگیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم عقل اور منطق کی اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر ان کی تسلی و تشفی کا سامان فراہم کریں۔ لہٰذا آیت زیر نظر میں دعوت و تبلیغ کا پہلا درجہ حکمت بیان کیا گیا ہے جس کا حق ادا کرنے کے لیے داعی کا صاحب حکمت اور حکیم ہونا لازمی ہے۔حکمت کے بعد دوسرا درجہ ”موعظہ حسنہ“ کا ہے ‘ یعنی اچھا خوبصورت وعظ۔ یہ درجہ عوام الناس کے لیے ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کے ذہنوں میں عقل اور منطق کی چھلنیاں نہیں لگی ہوتیں۔ چناچہ ایسے لوگوں کے لیے منطقی مباحث اور فلسفیانہ تقاریر ”تکلیف مالا یطاق“ کے مترادف ہیں۔ ان کے دل کھلی کتاب اور ذہن صاف سلیٹ کی مانند ہوتے ہیں ‘ آپ ان پر جو لکھنا چاہیں لکھ لیں۔ ایسے لوگوں کو دعوت دینے کے لیے ان کے جذبات کو اپیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پر تاثیر وعظ اور خلوص و ہمدردی سے کی گئی بات سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ ان کو احساس ہوجاتا ہے کہ داعی ہم پر اپنے علم کا رعب نہیں ڈالنا چاہتا ‘ ہم پر دھونس نہیں جمانا چاہتا ‘ وہ ہم سے اظہار نفرت نہیں کر رہا ‘ ہماری تحقیر نہیں کر رہا ‘ بلکہ اس کے پیش نظر ہماری خیر خواہی ہے۔ چناچہ داعی کے دل سے نکلی ہوئی بات ”از دل خیزد ‘ بردل ریزد“ کے مصداق سیدھی ان کے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ دعوت حق کا تیسرا درجہ جَادِلْہُمْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ان عناصر کے لیے ہے جو کسی معاشرے میں خلق خدا کو گمراہ کرنے کے مشن کے علمبردار ہوتے ہیں۔ آج کل بہت سی تنظیموں کی طرف سے باقاعدہ پیشہ وارانہ تربیت سے ایسے لوگ تیار کر کے میدان میں اتارے جاتے ہیں۔ یہ لوگ خلوص و اخلاص سے کی گئی بات کو کسی قیمت پر ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہر حال میں اپنے نظریے اور موقف کی طرف داری کرنا ان لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے ‘ چاہے وہ کسی علمی و عقلی دلیل سے ہو یا ہٹ دھرمی سے۔ ایسے لوگوں کو مسکت جواب دے کر لاجواب کرنا ضروری ہوتا ہے ‘ ورنہ بعض اوقات عوامی سطح کے اجتماعات میں ان کی بحث برائے بحث کی پالیسی بہت خطرناک ہوسکتی ہے ‘ جس سے عوام الناس کے ذہن منفی طور پر متاثر ہوسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بحث و مباحثہ کے عمل کو ہمارے ہاں ”مناظرہ“ کہا جاتا ہے ‘ جبکہ قرآن نے اسے ”مجادلہ“ کہا ہے۔ بہرحال قرآن نے اپنے پیروکاروں کے لیے اس میں بھی اعلیٰ معیار مقرر کردیا ہے کہ مخالفین سے مجادلہ بھی ہو تو احسن انداز میں ہو۔ اگر آپ کا مخالف کسی طور سے گھٹیا پن کا مظاہرہ بھی کرے تب بھی آپ کو جواب میں اچھے اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں ‘ جیسا کہ سورة الانعام کی آیت 108 میں حکم دیا گیا : وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ”اور جن کو یہ مشرک اللہ کے سوا پکارتے ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو کہ کہیں یہ بھی بغیر سوچے سمجھے مخالفت میں اللہ کو برا بھلا کہنے لگ جائیں“۔ آج کل مختلف مذاہب کی تنظی میں مثلاً عیسائی مشنریز باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسلام کو ہدف بنانے کے لیے کچھ خاص موضوعات اور مسائل کو ایک مخصوص انداز میں پیش کرتی ہیں۔ یہ لوگ ایسے موضوعات و مسائل پر مناظرے کرنے کے لیے باقاعدہ ٹریننگ کے ذریعے سپیشلسٹ specialist تیار کرتے ہیں۔ ایسے پیشہ وارانہ لوگوں کے مقابلے اور مجادلے کے لیے داعیانِ حق کو خصوصی تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے۔

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ

📘 آیت 127 وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا باللّٰهِ یہ حکم براہ راست رسول اللہ کے لیے ہے اور آپ کی وساطت سے تمام مسلمانوں کے لیے بھی۔ اس سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ اللہ پر جس قدر اعتماد ہوگا جیسا اس پر توکل ہوگا جتنا پختہ اس کے وعدوں پر یقین ہوگا اسی انداز میں انسان صبر بھی کرسکے گا۔وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ یہ لوگ اپنے کرتوتوں کے سبب عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ چناچہ آپ ان کے انجام کے بارے میں بالکل رنجیدہ اور فکر مند نہ ہوں اور نہ ہی ان کی سازشوں اور گھٹیا معاندانہ سرگرمیوں کے بارے میں سوچ کر آپ اپنا دل میلا کریں۔

إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ

📘 آیت 128 اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کرتے ہوئے درجۂ احسان پر فائز ہوگئے ہیں اللہ کی معیت نصرت اور تائید ان کے شامل حال رہے گی۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہوگا تو یہ مشرکین آپ کو کچھ گزند نہیں پہنچا سکتے۔ کیا ڈر ہے اگر ساری خدائی ہے مخالف کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے ! بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالایات والذِّکر الحکیم

وَمَا ذَرَأَ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ

📘 آیت 13 وَمَا ذَرَاَ لَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے زمین میں رنگا رنگ قسم کے حیوانات نباتات اور جمادات پیدا کیے ہیں۔

وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

📘 آیت 41 وَهُوَ الَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّاسمندری خوراک ہمیشہ سے انسانی زندگی میں بہت اہم رہی ہے۔ دور جدید میں اس کی افادیت مزید نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے جس کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَاسمندر سے موتی اور بہت سی دوسری ایسی اشیاء نکالی جاتی ہیں جن سے زیورات اور آرائش و زیبائش کا سامان تیار ہوتا ہے۔

وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

📘 آیت 15 وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ وَاَنْهٰرًا وَّسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ یہاں اَنْہٰرًا وَّسُبُلاً کے اکٹھے ذکر کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو عملی طور پر بھی ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ پہاڑی سلسلوں میں عام طور پر ندیوں کی گزر گاہوں کے ساتھ ساتھ ہی راستے بنتے ہیں۔ اسی طرح پہاڑوں کے درمیان قدرتی وادیاں انسانوں کی گزر گاہیں بھی بنتی ہیں اور پانی کے ریلوں کو راستے بھی فراہم کرتی ہیں۔

وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ

📘 آیت 16 وَعَلٰمٰتٍ ۭ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُوْنَ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی مدد کے لیے زمین میں طرح طرح کی علامتیں بنائیں تاکہ مختلف علاقوں اور راستوں کی پہچان ہو سکے۔ اسی طرح آسمان کے ستاروں کو بھی سمتوں اور راستوں کے تعین کا ایک ذریعہ بنا دیا۔ پرانے زمانے میں سمندری اور صحرائی سفر رات کے وقت ستاروں کی مدد سے ہی ممکن ہوتے تھے۔

أَفَمَنْ يَخْلُقُ كَمَنْ لَا يَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

📘 آیت 17 اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ مشرکین عرب نے مختلف ناموں سے جو بت بنا رکھے تھے ان کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ وہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش کریں گے۔ سورة یونس کی آیت 18 میں ان کے اس عقیدے کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے : وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَاللّٰهِ ”اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں“۔ اللہ کے بارے میں ان کا ماننا تھا کہ وہ کائنات اور اس میں موجود ہرچیز کا خالق ہے اور وہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ ان کے معبودوں کا اس تخلیق میں کوئی حصہ نہیں اور نہ ہی وہ کوئی چیز تخلیق کرسکتے ہیں۔ قرآن میں ان کے اس عقیدے کا بھی بار بار ذکر آیا ہے : وَلَءِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ لقمان : 25 ”اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو تو لازماً یہی کہیں گے کہ اللہ نے !“ ان لوگوں کے اسی عقیدے کی بنیاد پر یہاں یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ تمہارے یہ خود ساختہ معبود ‘ جو کچھ بھی تخلیق کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ‘ کیا اس اللہ کی مانند ہوسکتے ہیں جو اس کائنات اور اس میں موجود ہرچیز کا خالق ہے ؟ اور اگر تم تسلیم کرتے ہو کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو کیا پھر بھی تم لوگ نصیحت نہیں پکڑتے ہو ؟

وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 18 وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَااللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی تو کجا اس کی بیشمار نعمتیں ایسی ہیں جن سے انسان فیض یاب تو ہو رہا ہے لیکن ان تک انسان کے علم اور شعور کی ابھی پہنچ ہی نہیں۔

وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ

📘 آیت 18 وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَااللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی تو کجا اس کی بیشمار نعمتیں ایسی ہیں جن سے انسان فیض یاب تو ہو رہا ہے لیکن ان تک انسان کے علم اور شعور کی ابھی پہنچ ہی نہیں۔

يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ

📘 يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ سے مراد اللہ کی وحی ہے۔ یعنی حضرت محمد کو اللہ نے اپنی وحی کے لیے چن لیا اور آپ کی طرف حضرت جبرائیل وحی لے کر آئے۔ یہاں پر لفظ ”امر“ کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ سورة الاعراف کی آیت 54 میں فرمایا گیا : اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط ”آگاہ ہوجاؤ ‘ اسی کے لیے خلق ہے اور اسی کے لیے امر“۔ یعنی عالم خلق اور عالم امر دو الگ الگ عالم ہیں۔ عالم امر کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں وقت کا عامل بالکل کارفرما نہیں۔ اس عالم میں کسی کام کے کرنے یا کوئی واقعہ وقوع پذیر ہونے میں وقت درکار نہیں ہوتا۔ بس اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے اور اس کے ”کُنْ“ فرمانے سے وہ کام ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ سورة یٰسٓ میں فرمایا گیا : اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْءًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ”اس کا امر تو یہی ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو بس یہی ہوتا کہ وہ اسے کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔“ اس کے برعکس عالم خلق میں کسی کام کے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ جیسے قرآن میں متعدد بار فرمایا گیا کہ اللہ نے زمین و آسمان چھ دنوں میں تخلیق کیے۔ اسی طرح دنیا کا سارا نظام عالم خلق کے اصولوں پر چل رہا ہے۔ مثلاً آم کی گٹھلی سے کو نپلیں پھوٹتی ہیں ‘ پھر بڑھتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں وقت درکار ہوتا ہے۔ یہاں پر روح کے ذکر کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے۔ عالم امر کی صرف تین چیزیں ہی ہمارے علم میں ہیں۔ ملائکہ ‘ روح اور وحی۔ قرآن میں ملائکہ کو بھی روح کہا گیا ہے۔ جیسے حضرت جبرائیل کے لیے روح القدس اور روح الامین کے الفاظ آئے ہیں۔ سورة الشعراء میں فرمایا گیا : نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ جبکہ سورة البقرۃ کی آیت 87 میں ارشاد ہوا : وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۔ اسی طرح قرآن میں وحی کو بھی روح کہا گیا ہے ‘ اور یہ وحی نازل بھی روح پر ہوتی ہے۔ جب محمد رسول اللہ پر وحی نازل ہوتی تو آپ اس کا ادراک طبعی حواس خمسہ سے نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ وحی براہ راست آپ کے قلب مبارک پر نازل ہوتی تھی۔ اس لیے کہ قلب محمدی روح محمدی کا مسکن تھا : نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ الشعراء۔ چناچہ وحی بھی روح ہے ‘ اس کو لانے والے جبرائیل امین بھی روح ہیں اور اس کا نزول بھی روح محمدی پر ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں جگر مراد آبادی کا یہ شعر ان کی کسی خاص کیفیت کا مظہر معلوم ہوتا ہے نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو روح سنے اور روح سنائے !

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ

📘 آیت 20 وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ انبیاء و رسل ہوں ملائکہ ہوں یا اولیاء اللہ سب مخلوق ہیں خالق صرف اللہ کی ذات ہے۔

أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ

📘 آیت 21 اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ جن اولیاء اللہ کے ناموں پر انہوں نے بت بنا رکھے ہیں وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں وہ فوت ہوچکے ہیں اور انہیں کچھ معلوم نہیں کہ قیامت کب برپا ہوگی اور کب انہیں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔

إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ فَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ

📘 فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّهُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں آخرت کا یقین نہیں ہے وہ حق بات کو قبول کرنے سے کیوں جھجکتے ہیں اور ان کے اندر استکبار کیوں پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا فلسفہ یہ ہے کہ جو شخص فطرت سلیمہ کا مالک ہے اس کے اندر اچھائی اور برائی کی تمیز موجود ہوتی ہے۔ اس کا دل اس حقیقت کا قائل ہوتا ہے کہ اچھائی کا اچھا بدلہ ملنا چاہیے اور برائی کا برا ع ”گندم از گندم بروید ‘ جو زجو !“یہی فلسفہ یا تصور منطقی طور پر ایمان بالآخرت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مگر دنیا میں جب پوری طرح نیکی کی جزا اور برائی کی سزا ملتی ہوئی نظر نہیں آتی تو ایک صاحب شعور انسان لازماً سوچتا ہے کہ اعمال اور اس کے نتائج کے اعتبار سے دنیوی زندگی ادھوری ہے اور اس دنیا میں انصاف کی فراہمی کماحقہ ممکن ہی نہیں۔ مثلاً اگر ایکّ ستر سالہ بوڑھا ایک نوجوان کو قتل کر دے تو اس دنیا کا قانون اسے کیا سزا دے گا ؟ ویسے تو یہاں انصاف تک پہنچنے کے لیے بہت سے کٹھن مراحل طے کرنے پڑتے ہیں ‘ لیکن اگر یہ تمام مراحل طے کر کے انصاف مل بھی جائے تو قانون زیادہ سے زیادہ اس بوڑھے کو پھانسی پر لٹکا دے گا۔ لیکن کیا اس بوڑھے کی جان واقعی اس نوجوان مقتول کی جان کے برابر ہے ؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وہ نوجوان تو اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا ‘ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوئے ‘ ایک نوجوان عورت بیوہ ہوئی ‘ خاندان کا معاشی سہارا چھن گیا۔ اس طرح اس کے لواحقین اور خاندان کے لیے اس قتل کے اثرات کتنے گھمبیر ہوں گے اور کہاں کہاں تک پہنچیں گے ‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دوسری طرف وہ بوڑھا شخص جو اپنی طبعی عمر گزار چکا تھا ‘ جس کے بچے خود مختار زندگیاں گزار رہے ہیں ‘ جس کی کوئی معاشی ذمہ داری بھی نہیں ہے ‘ اس کے پھانسی پر چڑھ جانے سے اس کے پس ماندگان پر ویسے اثرات مرتب نہیں ہوں گے جیسے اس نوجوان کی جان جانے سے اس کے پس ماندگان پر ہوئے تھے۔ ایسی صورت میں دنیا کا کوئی قانون مظلوم کو پورا پورا بدلہ دے ہی نہیں سکتا۔ ایسی مثالیں عقلی اور منطقی طور پر ثابت کرتی ہیں کہ یہ دنیا نا مکمل ہے۔ اس دنیا کے معاملات اور افعال کا ادھورا پن ایک دوسری دنیا کا تقاضا کرتا ہے جس میں اس دنیا کے تشنہ تکمیل رہ جانے والے معاملات پورے انصاف کے ساتھ اپنے اپنے منطقی انجام کو پہنچیں۔ اب ایک ایسا شخص جو فطرت سلیمہ کا مالک ہے ‘ اس کے شعور میں نیکی اور بدی کا ایک واضح اور غیر مبہم تصور موجود ہے ‘ وہ لازمی طور پر آخرت کے بارے میں مذکورہ منطقی نتیجے پر پہنچے گا اور پھر وہ قرآن کے تصور آخرت کو قبول کرنے میں بھی پس و پیش نہیں کرے گا ‘ مگر اس کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جس کے شعور میں نیکی اور بدی کا واضح تصور موجود نہیں ‘ وہ قرآن کے تصور آخرت پر بھی دل سے یقین نہیں رکھتا اور فکر آخرت سے بےنیاز ہو کر غرور اور تکبر میں بھی مبتلا ہوچکا ہے ‘ اس کا دل پیغامِ حق کو قبول کرنے سے بھی منکر ہوگا۔ ایسے شخص کے سامنے حکیمانہ درس اور عالمانہ وعظ سب بےاثر ثابت ہوں گے۔

لَا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ

📘 فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّهُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں آخرت کا یقین نہیں ہے وہ حق بات کو قبول کرنے سے کیوں جھجکتے ہیں اور ان کے اندر استکبار کیوں پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا فلسفہ یہ ہے کہ جو شخص فطرت سلیمہ کا مالک ہے اس کے اندر اچھائی اور برائی کی تمیز موجود ہوتی ہے۔ اس کا دل اس حقیقت کا قائل ہوتا ہے کہ اچھائی کا اچھا بدلہ ملنا چاہیے اور برائی کا برا ع ”گندم از گندم بروید ‘ جو زجو !“یہی فلسفہ یا تصور منطقی طور پر ایمان بالآخرت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مگر دنیا میں جب پوری طرح نیکی کی جزا اور برائی کی سزا ملتی ہوئی نظر نہیں آتی تو ایک صاحب شعور انسان لازماً سوچتا ہے کہ اعمال اور اس کے نتائج کے اعتبار سے دنیوی زندگی ادھوری ہے اور اس دنیا میں انصاف کی فراہمی کماحقہ ممکن ہی نہیں۔ مثلاً اگر ایکّ ستر سالہ بوڑھا ایک نوجوان کو قتل کر دے تو اس دنیا کا قانون اسے کیا سزا دے گا ؟ ویسے تو یہاں انصاف تک پہنچنے کے لیے بہت سے کٹھن مراحل طے کرنے پڑتے ہیں ‘ لیکن اگر یہ تمام مراحل طے کر کے انصاف مل بھی جائے تو قانون زیادہ سے زیادہ اس بوڑھے کو پھانسی پر لٹکا دے گا۔ لیکن کیا اس بوڑھے کی جان واقعی اس نوجوان مقتول کی جان کے برابر ہے ؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وہ نوجوان تو اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا ‘ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوئے ‘ ایک نوجوان عورت بیوہ ہوئی ‘ خاندان کا معاشی سہارا چھن گیا۔ اس طرح اس کے لواحقین اور خاندان کے لیے اس قتل کے اثرات کتنے گھمبیر ہوں گے اور کہاں کہاں تک پہنچیں گے ‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دوسری طرف وہ بوڑھا شخص جو اپنی طبعی عمر گزار چکا تھا ‘ جس کے بچے خود مختار زندگیاں گزار رہے ہیں ‘ جس کی کوئی معاشی ذمہ داری بھی نہیں ہے ‘ اس کے پھانسی پر چڑھ جانے سے اس کے پس ماندگان پر ویسے اثرات مرتب نہیں ہوں گے جیسے اس نوجوان کی جان جانے سے اس کے پس ماندگان پر ہوئے تھے۔ ایسی صورت میں دنیا کا کوئی قانون مظلوم کو پورا پورا بدلہ دے ہی نہیں سکتا۔ ایسی مثالیں عقلی اور منطقی طور پر ثابت کرتی ہیں کہ یہ دنیا نا مکمل ہے۔ اس دنیا کے معاملات اور افعال کا ادھورا پن ایک دوسری دنیا کا تقاضا کرتا ہے جس میں اس دنیا کے تشنہ تکمیل رہ جانے والے معاملات پورے انصاف کے ساتھ اپنے اپنے منطقی انجام کو پہنچیں۔ اب ایک ایسا شخص جو فطرت سلیمہ کا مالک ہے ‘ اس کے شعور میں نیکی اور بدی کا ایک واضح اور غیر مبہم تصور موجود ہے ‘ وہ لازمی طور پر آخرت کے بارے میں مذکورہ منطقی نتیجے پر پہنچے گا اور پھر وہ قرآن کے تصور آخرت کو قبول کرنے میں بھی پس و پیش نہیں کرے گا ‘ مگر اس کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جس کے شعور میں نیکی اور بدی کا واضح تصور موجود نہیں ‘ وہ قرآن کے تصور آخرت پر بھی دل سے یقین نہیں رکھتا اور فکر آخرت سے بےنیاز ہو کر غرور اور تکبر میں بھی مبتلا ہوچکا ہے ‘ اس کا دل پیغامِ حق کو قبول کرنے سے بھی منکر ہوگا۔ ایسے شخص کے سامنے حکیمانہ درس اور عالمانہ وعظ سب بےاثر ثابت ہوں گے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

📘 آیت 24 وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ نبی اکرم کی دعوت کا چرچا جب مکہ کے اطراف و اکناف میں ہونے لگا تو لوگ اہل مکہ سے پوچھتے کہ محمد جو کہہ رہے ہیں کہ مجھ پر اللہ کا کلام نازل ہوتا ہے تم لوگوں نے تو یہ کلام سنا ہے چناچہ تمہاری اس کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ اس کے مضامین کیا ہیں ؟قَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ کہ یہ کلام تو بس پرانے قصے کہانیوں پر مشتمل ہے۔ یہ سب گزشتہ قوموں کے واقعات ہیں جو ادھر ادھر سے سن کر ہمیں سنا دیتے ہیں اور پھر ہم پر دھونس جماتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔

لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۙ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ

📘 آیت 25 لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ یوں ان کے دل حق کی طرف مائل نہیں ہو رہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ روز قیامت وہ اپنی اس گمراہی اور سر کشی کے وبال میں گرفتار ہوں گے۔وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ یعنی قیامت کے دن وہ نہ صرف اپنی گمراہی کا خمیازہ بھگتیں گے بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کی گمراہی کا وبال بھی ان پر ڈالا جائے گا جنہیں اپنے نام نہاد ‘ دانشورانہ مشوروں سے انہوں نے گمراہ کیا ہوگا۔ جیسے قرب و جوار کے لوگ جب اہل مکہ سے اس کلام کے بارے میں پوچھتے تھے یا مکہ کے عام لوگ قرآن سے متاثر ہو کر اپنے سرداروں سے پوچھتے تھے کہ ان کی اس کلام کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ ایسی صورت میں یہ لوگ اپنے عوام کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے تھے کہ ہاں ہم نے بھی یہ کلام سنا ہے اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے بس سنی سنائی باتیں ہیں اور پرانے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔

قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ

📘 آیت 26 قَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ان سے پہلے بھی مختلف اقوام کے لوگوں نے ہمارے انبیاء و رسل کی مخالفت کی تھی اور ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے آزمائے تھے اور سازشیں کی تھیں۔فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ جب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آیا تو مخالفین کی تمام سازشوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا گیا اور ان کی بستیوں کو تلپٹ کردیا گیا۔ سدوم اور عامورہ کی بستیوں کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں : فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا ہود : 82 ”پھر جب آگیا ہمارا حکم تو ہم نے کردیا اس کے اوپر والے حصے کو اس کا نیچے والا“۔ یعنی اس کو تہ وبالا کردیا۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم کے اندر تو صرف انہی چند اقوام کا ذکر آیا ہے جن سے اہل عرب واقف تھے ‘ ورنہ رسول تو ہر علاقے اور ہر قوم میں آتے رہے ہیں ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ الرعد ”اور ہر قوم کے لیے ایک راہنما ہے۔“ خود ہندوستان کے علاقے میں بھی بہت سے انبیاء ورسل کے مبعوث ہونے کے آثار ملتے ہیں۔ ہریانہ ‘ ضلع حصار ‘ جس علاقے میں میرا بچپن گزرا وہاں مختلف مقامات پر سیاہ رنگ کی راکھ کے بڑے بڑے ٹیلے موجود تھے جن کی کھدائی کے دوران بستیوں کے آثار ملتے تھے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے یہ اپنے زمانے کی پر رونق بستیاں تھیں ان کے باشندوں نے اپنے رسولوں کی نافرمانیاں کیں اور انہیں عذاب خداوندی نے جلا کر بھسم کر ڈالا۔ جس طرح پومپیائی پر لاوے کی بارش ہوئی اور پوری بستی جلتے ہوئے لاوے کے اندر دب گئی۔ اس علاقے میں دریائے سرسوتی بہتا تھا جو ہندوستان کا ایک بہت بڑا دریا تھا اور اسے مقدس مانا جاتا تھا دریائے گنگا بہت بعد کے زمانے میں وجود میں آیا آج دریائے سرسوتی کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ یہ کہاں کہاں سے گزرتا تھا اور ماہرین آثار قدیمہ اس کی گزر گاہ تلاش کر رہے ہیں۔ یہ سب آثار بتاتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر مختلف زمانوں میں انبیاء و رسل آئے اور ان کی نافرمانیوں کے سبب ان کی قومیں اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔ ان آثار کی شہادتوں کے علاوہ کچھ ایسے مکاشفات بھی ہیں کہ مشرقی پنجاب کے جس علاقے میں شیخ احمد سرہندی کا مدفن ہے اس علاقے میں تیس انبیاء مدفون ہیں۔ واللہ اعلم !

ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُخْزِيهِمْ وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنْتُمْ تُشَاقُّونَ فِيهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ إِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ وَالسُّوءَ عَلَى الْكَافِرِينَ

📘 آیت 27 ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يُخْــزِيْهِمْ وَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تُشَاۗقُّوْنَ فِيْهِمْ قیامت کے دن انہیں مزید رسوا کرنے کے لیے ان سے پوچھا جائے گا کہ آج تمہارے وہ من گھرٹ معبود کہاں ہیں جن کی حمایت اور حمیت کی وجہ سے تم بڑی بڑی جنگیں لڑنے پر تیار ہوجاتے تھے ؟

الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 آیت 28 الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ایسے لوگ جنہیں اپنی زندگی میں اللہ یاد ہے نہ آخرت نیکی کی رغبت ہے نہ برائی سے نفرت بس اپنی عیش کوشی اور نفس پرستی میں مگن ہیں۔ اسی حالت میں جب فرشتے ان کے پاس پروانۂ موت لے کر آ دھمکیں گے :بَلٰٓى اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ موت کے فرشتوں کے سامنے وہ سرتسلیم خم کرتے ہوئے اپنے اسلام اور اطاعت کا اظہار کریں گے اور اس طرح ان کے سامنے بھی جھوٹ بولنے کی کوشش کریں گے۔

فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ

📘 آیت 28 الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ایسے لوگ جنہیں اپنی زندگی میں اللہ یاد ہے نہ آخرت نیکی کی رغبت ہے نہ برائی سے نفرت بس اپنی عیش کوشی اور نفس پرستی میں مگن ہیں۔ اسی حالت میں جب فرشتے ان کے پاس پروانۂ موت لے کر آ دھمکیں گے :بَلٰٓى اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ موت کے فرشتوں کے سامنے وہ سرتسلیم خم کرتے ہوئے اپنے اسلام اور اطاعت کا اظہار کریں گے اور اس طرح ان کے سامنے بھی جھوٹ بولنے کی کوشش کریں گے۔

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ تَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

📘 يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ سے مراد اللہ کی وحی ہے۔ یعنی حضرت محمد کو اللہ نے اپنی وحی کے لیے چن لیا اور آپ کی طرف حضرت جبرائیل وحی لے کر آئے۔ یہاں پر لفظ ”امر“ کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ سورة الاعراف کی آیت 54 میں فرمایا گیا : اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط ”آگاہ ہوجاؤ ‘ اسی کے لیے خلق ہے اور اسی کے لیے امر“۔ یعنی عالم خلق اور عالم امر دو الگ الگ عالم ہیں۔ عالم امر کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں وقت کا عامل بالکل کارفرما نہیں۔ اس عالم میں کسی کام کے کرنے یا کوئی واقعہ وقوع پذیر ہونے میں وقت درکار نہیں ہوتا۔ بس اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے اور اس کے ”کُنْ“ فرمانے سے وہ کام ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ سورة یٰسٓ میں فرمایا گیا : اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْءًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ”اس کا امر تو یہی ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو بس یہی ہوتا کہ وہ اسے کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔“ اس کے برعکس عالم خلق میں کسی کام کے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ جیسے قرآن میں متعدد بار فرمایا گیا کہ اللہ نے زمین و آسمان چھ دنوں میں تخلیق کیے۔ اسی طرح دنیا کا سارا نظام عالم خلق کے اصولوں پر چل رہا ہے۔ مثلاً آم کی گٹھلی سے کو نپلیں پھوٹتی ہیں ‘ پھر بڑھتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں وقت درکار ہوتا ہے۔ یہاں پر روح کے ذکر کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے۔ عالم امر کی صرف تین چیزیں ہی ہمارے علم میں ہیں۔ ملائکہ ‘ روح اور وحی۔ قرآن میں ملائکہ کو بھی روح کہا گیا ہے۔ جیسے حضرت جبرائیل کے لیے روح القدس اور روح الامین کے الفاظ آئے ہیں۔ سورة الشعراء میں فرمایا گیا : نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ جبکہ سورة البقرۃ کی آیت 87 میں ارشاد ہوا : وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۔ اسی طرح قرآن میں وحی کو بھی روح کہا گیا ہے ‘ اور یہ وحی نازل بھی روح پر ہوتی ہے۔ جب محمد رسول اللہ پر وحی نازل ہوتی تو آپ اس کا ادراک طبعی حواس خمسہ سے نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ وحی براہ راست آپ کے قلب مبارک پر نازل ہوتی تھی۔ اس لیے کہ قلب محمدی روح محمدی کا مسکن تھا : نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ الشعراء۔ چناچہ وحی بھی روح ہے ‘ اس کو لانے والے جبرائیل امین بھی روح ہیں اور اس کا نزول بھی روح محمدی پر ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں جگر مراد آبادی کا یہ شعر ان کی کسی خاص کیفیت کا مظہر معلوم ہوتا ہے نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو روح سنے اور روح سنائے !

۞ وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۚ قَالُوا خَيْرًا ۗ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۚ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ ۚ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ

📘 آیت 30 وَقِيْلَ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں جن کے دلوں میں اخلاقی حس بیدار اور جن کی روحیں زندہ ہیں جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ جو کلام آپ لوگوں کو سناتے ہیں وہ کیا ہے ؟قَالُوْا خَیْرًا یعنی یہ کلام خیرہی خیر ہے اور ہماری ہی بھلائی کے لیے نازل ہوا ہے۔

جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْزِي اللَّهُ الْمُتَّقِينَ

📘 آیت 30 وَقِيْلَ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں جن کے دلوں میں اخلاقی حس بیدار اور جن کی روحیں زندہ ہیں جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ جو کلام آپ لوگوں کو سناتے ہیں وہ کیا ہے ؟قَالُوْا خَیْرًا یعنی یہ کلام خیرہی خیر ہے اور ہماری ہی بھلائی کے لیے نازل ہوا ہے۔

الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ ۙ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 آیت 32 الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ جن کی روحیں پاکیزہ اور جن کی زندگیاں تقویٰ کی آئینہ دار ہوتی ہیں جب ان کے پاس موت کے فرشتے آتے ہیں تو :

هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ أَمْرُ رَبِّكَ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

📘 آیت 33 هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ اَمْرُ رَبِّكَ گزشتہ بارہ برس سے رسول اللہ قریش مکہ کو دعوت دے رہے ہیں ‘ دو تہائی کے قریب قرآن بھی اب تک نازل ہوچکا ہے۔ چناچہ ان لوگوں کو اب مزید کس چیز کا انتظار ہے ؟ اب تو بس یہی مرحلہ باقی رہ گیا ہے کہ فرشتے اللہ کا فیصلہ لے کر پہنچ جائیں اور وہ نقشہ سامنے آجائے جس کی جھلک سورة الفجر میں اس طرح دکھائی گئی ہے : وَجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا وَجِایْٓءَ یَوْمَءِذٍم بِجَہَنَّمَلا یَوْمَءِذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی ”اور آئے گا آپ کا رب اور فرشتے صف بہ صف۔ اور لائی جائے گی اس دن جہنم اس دن ہوش آئے گا انسان کو مگر کیا فائدہ ہوگا تب اسے اس ہوش کا !“ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ جن گزشتہ اقوام کے عبرت ناک انجام کے بارے میں تفصیلات قرآن میں بتائی جا رہی ہیں انہیں ان کے اپنے کرتوتوں کی سزا ملی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر قطعاً ظلم نہیں ہوا تھا۔

فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

📘 آیت 33 هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ اَمْرُ رَبِّكَ گزشتہ بارہ برس سے رسول اللہ قریش مکہ کو دعوت دے رہے ہیں ‘ دو تہائی کے قریب قرآن بھی اب تک نازل ہوچکا ہے۔ چناچہ ان لوگوں کو اب مزید کس چیز کا انتظار ہے ؟ اب تو بس یہی مرحلہ باقی رہ گیا ہے کہ فرشتے اللہ کا فیصلہ لے کر پہنچ جائیں اور وہ نقشہ سامنے آجائے جس کی جھلک سورة الفجر میں اس طرح دکھائی گئی ہے : وَجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا وَجِایْٓءَ یَوْمَءِذٍم بِجَہَنَّمَلا یَوْمَءِذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی ”اور آئے گا آپ کا رب اور فرشتے صف بہ صف۔ اور لائی جائے گی اس دن جہنم اس دن ہوش آئے گا انسان کو مگر کیا فائدہ ہوگا تب اسے اس ہوش کا !“ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ جن گزشتہ اقوام کے عبرت ناک انجام کے بارے میں تفصیلات قرآن میں بتائی جا رہی ہیں انہیں ان کے اپنے کرتوتوں کی سزا ملی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر قطعاً ظلم نہیں ہوا تھا۔

وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ نَحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

📘 آیت 35 وَقَالَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَآ اٰبَاۗؤُنَاان کی دلیل یہ تھی کہ اس دنیا میں تو جو اللہ چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے ‘ وہ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ہے۔ اگر وہ چاہتا کہ ہم کوئی دوسرے معبود نہ بنائیں اور ان کی پرستش نہ کریں ‘ تو کیسے ممکن تھا کہ ہم ایسا کر پاتے ؟ چناچہ اگر اللہ نے ہمیں اس سے روکا نہیں ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس میں اس کی مرضی شامل ہے اور اس کی طرف سے ہمیں ایسا کرنے کی اجازت ہے۔فَهَلْ عَلَي الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ ہمارے رسول اس قسم کی کٹ حجتی اور کج بحثی میں نہیں الجھتے۔ ان کی ذمہ داری ہمارا پیغام واضح طور پر پہنچا دینے کی حد تک ہے اور یہ ذمہ داری ہمارے رسول ہمیشہ سے پوری کرتے آئے ہیں۔ پیغام پہنچ جانے کے بعد اسے تسلیم کرنا یا نہ کرنا متعلقہ قوم کا کام ہے ‘ جس کے لیے ان کا ایک ایک فرد ہمارے سامنے جوابدہ ہے۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ

📘 آیت 36 وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ طاغوت کا لفظ ’ طغٰی ‘ سے مشتق ہے جس کے معنی سرکشی کے ہیں۔ لہٰذا جو کوئی اللہ کی بندگی اور اطاعت سے سرکشی اور سرتابی کر رہا ہو وہ طاغوت ہے چاہے وہ انسان ہو یا جن کسی ریاست کا کوئی ادارہ ہو آئین ہو یا خود ریاست ہو۔ بہر حال جو بھی اللہ کی اطاعت سے سرتابی کر کے اس کی بندگی سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا وہ گویا اللہ کے مقابلے میں حاکمیت کا دعویدار ہوگا اور اسی لیے طاغوت کے زمرے میں شمار ہوگا۔ طاغوت سے کنارہ کشی کا حکم سورة البقرۃ کی آیت 256 میں اس طرح آیا ہے : فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم باللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق لاَ انْفِصَامَ لَہَا ”جس کسی نے کفر کیا طاغوت سے اور ایمان لایا اللہ پر تو یقیناً اس نے تھام لیا ایک مضبوط حلقہ جس کو ٹوٹنا نہیں ہے۔“ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ تم اپنے تجارتی قافلوں کے ساتھ اصحاب حجر کی بستیوں سے بھی گزرتے ہو تم نے قوم ثمود کے محلات کے کھنڈرات بھی دیکھے ہیں۔ تم قوم مدین کے انجام سے بھی واقف ہو اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ سدوم اور عامورہ کی بستیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوا تھا۔ یہ تمام تاریخی حقائق تمہارے علم میں ہیں اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ان سب کو کس جرم کی سزا بھگتنا پڑی تھی۔

إِنْ تَحْرِصْ عَلَىٰ هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ يُضِلُّ ۖ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ

📘 آیت 37 اِنْ تَحْرِصْ عَلٰي هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ يُّضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ اس سلسلے میں اللہ کا قانون اٹل ہے۔ اللہ کی طرف سے لوگوں تک حق کی دعوت پہنچانے کا پورا بندوبست کیا جاتا ہے ان پر ہدایت منکشف کی جاتی ہے اور بار بار انہیں موقع دیا جاتا ہے کہ وہ سیدھے راستے پر آجائیں۔ لیکن اگر کوئی شخص حق کو واضح طور پر پہچان لینے کے بعد ہر بار اسے رد کر دے تو اس سے ہدایت کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔ پھر وہ حق کو پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کی گمراہی پر مہر تصدیق ثبت ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں ہی کے متعلق سورة البقرۃ کی آیت 7 میں فرمایا گیا ہے : خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ”اللہ نے مہر لگا دی ہے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر ‘ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ چکا ہے“۔ چناچہ اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں آیت زیر نظر میں فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی ! آپ کی شدید خواہش ہے کہ یہ لوگ ایمان لا کر راہ ہدایت پر آجائیں ‘ مگر چونکہ یہ حق کو اچھی طرح پہچان لینے کے بعد اس سے روگردانی کرچکے ہیں اس لیے ان کی گمراہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہوچکا ہے ‘ اور اللہ کا اٹل قانون ہے کہ وہ ایسے گمراہوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ سورة القصص کی آیت 56 میں اسی اصول کو واضح تر انداز میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ”اے نبی ! بیشک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو آپ چاہیں بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے۔“

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللَّهُ مَنْ يَمُوتُ ۚ بَلَىٰ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 38 وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ يَّمُوْتُ مشرکین مکہ اگرچہ عمومی طور پر مرنے کے بعد دوسری زندگی کے قائل تھے مگر ان کا اس سلسلہ میں عقیدہ یہ تھا کہ جن بتوں کی وہ پوجا کرتے ہیں وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے ان کے سفارشی ہوں گے اور اس طرح روز حشر کی تمام سختیوں سے وہ انہیں بچا لیں گے۔ لیکن ان کے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو بعث بعد الموت کا منکر تھا۔ ان لوگوں کے اس عقیدہ کا تذکرہ قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔ سورة الانعام میں ان لوگوں کا قول اس طرح نقل کیا گیا ہے : وَقَالُوْٓا اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ ”اور وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے یہ ہماری زندگی مگر صرف دنیا کی اور ہم دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے۔“

لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ كَانُوا كَاذِبِينَ

📘 آیت 39 لِيُـبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِيْ يَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِيْنَ اللہ تعالیٰ پوری نوع انسانی کے ایک ایک فرد کو دوبارہ اٹھائے گا اور انہیں ایک جگہ جمع کرے گا۔ پھر ان کے تمام اختلافی نظریات و عقائد کے بارے میں حتمی طور پر انہیں بتادیا جائے گا۔ چناچہ اس وقت تمام منکرین حق کو اقرار کیے بغیر چارہ نہ رہے گا کہ ان کے خیالات و نظریات واقعی جھوٹ اور باطل پر مبنی تھے۔

خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ

📘 آیت 4 خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌانسان اپنے خود ساختہ نظریات کے حق میں خوب بحثیں کرتا ہے ‘ عقلی و نقلی دلیلیں دیتا ہے اور زور خطابت سے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔

إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

📘 آیت 40 اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہ حکم عالم امر کے بارے میں ہے جبکہ عالم خلق میں یوں نہیں ہوتا عالم امر اور عالم خلق کے بارے میں وضاحت اس سورة کی آیت 2 اور سورة الاعراف کی آیت 54 کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ عالم امر میں کسی واقعے یا کسی چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لیے اسباب وسائل اور وقت درکار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ارادہ فرماکر کن فرماتے ہیں تو وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ عالم خلق میں بھی کلی اختیار تو اللہ ہی کا ہے مگر اس عالم کو عام طبعی قوانین کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ چناچہ عالم خلق میں کسی چیز کو وجود میں آنے اور مطلوبہ معیار تک پہنچنے کے لیے اسباب وسائل اور وقت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ کائنات اپنے تمام طبعی موجودات کے ساتھ عالم خلق کا اظہار ہے۔ آیت زیر نظر کے موضوع کی مناسبت سے یہاں میں کائنات کی تخلیق کے آغاز سے متعلق اپنی سوچ اور فکر کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔کائنات کی تخلیق کے بارے میں ایک طرف تو پرانے فلسفیانہ تصورات ہیں اور دوسری طرف جدید سائنسی نظریات theories۔ فلسفیانہ تصورات کے مطابق سب سے پہلے وجود باری تعالیٰ سے عقل اوّل وجود میں آئی۔ عقلِ اوّل سے پھر فلکِ اوّل اور پھر فلکِ اوّل سے فلک ثانی وغیرہ۔ یہ مشائین کے فلسفے ہیں جو ارسطو اور اس کے شاگردوں کے نظریات کے ساتھ دنیا میں پھیلے اور ہمارے ہاں بھی بہت سے متکلمین ان سے متاثر ہوئے۔ بہر حال جدید سائنسی انکشافات کے ذریعے ان میں سے کسی بھی نظریے کی کہیں کوئی تائید و تصدیق نہیں ہوئی۔ دوسری طرف جدید فزکس کے میدان میں اعلیٰ علمی سطح پر اس سلسلے میں جتنے بھی نظریات theories ہیں ان میں ”عظیم دھماکے“ Big Bang کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس تصور کے تحت Big Bang کے نتیجے میں ارب ہا ارب درجہ حرارت کے حامل بیشمار ذرات وجود میں آئے۔ یہ ذرات تیزی سے حرکت کرتے ہوئے مختلف forms میں اکٹھے ہوئے تو کہکشائیں galaxies وجود میں آئیں اور چھوٹے بڑے بیشمار ستاروں کا ایک جہان آباد ہوگیا۔ انہی ستاروں میں ایک ہمارا سورج بھی تھا جس کے اندر مزید ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں اس کے سیارے planets وجود میں آئے۔ سورج کے ان سیاروں میں سے ایک سیارہ ہماری زمین ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوتی رہی اور بالآخر اس پر نباتاتی اور حیوانی زندگی کے لیے سازگار ماحول وجود میں آیا۔ آج کی سائنس فی الحال ”بگ بینگ“ سے آگے کوئی نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہے۔ اس نظریے سے جو معلومات سائنس نے اخذ کی ہیں وہ ان تمام حقائق کے ساتھ مطابقت corroboration رکھتی ہیں جن کا علم اس موضوع پر ہمیں قرآن سے ملتا ہے۔ اس سے پہلے مادے کے بارے میں سائنس قانون بقائے مادہ Law of conservation of mass کی قائل تھی کہ مادہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا مگر نئے نظریے کو اپنا کر سائنس نے نہ صرف بگ بینگ کو کائنات کا نقطہ آغاز تسلیم کرلیا ہے بلکہ یہ بھی مان لیا ہے کہ مادہ ایک خاص وقت تک کے لیے ہے اور ایک خاص وقت کے بعد ختم ہوجائے گا۔جہاں تک کا ئنات کی تخلیق کے آغاز کے بارے میں میری اپنی سوچ کا تعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کے ایک امر ”کُن“ سے ہوئی اللہ کے حکم سے نہ کہ اس کی ذات سے۔ پھر اس امر ”کن“ کا ظہور ایک خنک نور یا ٹھنڈی روشنی کی صورت میں ہوا یہ خنک نور حرف کن کا ظہور تھا نہ کہ ذات باری تعالیٰ کا۔ اس روشنی میں حرارت نہیں تھی گویا یہ مادی روشنی material light کے وجود میں آنے سے پہلے کا دور تھا۔ آج جس روشنی کو ہم دیکھتے یا پہچانتے ہیں اس میں حرارت ہوتی ہے اور اسی حرارت کی وجہ سے یہ material light ہے۔ امرِ ”کن“ سے ظہور پانے والے اس خنک نور سے پہلے مرحلے پر ملائکہ کی پیدائش ہوئی۔ جیسے کہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ سے حدیث مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو نور سے پیدا کیا۔ اسی نور سے انسانی ارواح پیدا کی گئیں اور سب سے پہلے روح محمدی پیدا کی گئی جیسا کہ حدیث میں الفاظ آئے ہیں : اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ 1 یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا۔ ”نُورِی“ اور ”رُوحِی“ گویا دو مترادف الفاظ ہیں کیونکہ روح کا تعلق بھی نور سے ہے۔ بہرحال یہ کائنات کی تخلیق کا مرحلہ اول ہے جس میں فرشتوں اور انسانی ارواح کی تخلیق ہوئی۔اس کے بعد کسی مرحلے پر اس خنک نور میں کسی نوعیت کا زور دار دھماکہ explosion ہوا جس کو آج کی سائنس ”بگ بینگ“ کے نام سے پہچانتی ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں حرارت کا وہ گولا وجود میں آیا ‘ جو بہت چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل تھا۔ ان ذرات کا درجہ حرارت ناقابل تصور حد تک تھا۔ یہ گویا طبعی دنیا Physical World کا نقطہ آغاز تھا۔ اسی دور میں اس آگ کی لپٹ سے ِ جنات پیدا کیے گئے اور انہی انتہائی گرم ذرات سے کہکشائیں ‘ ستارے اور سیارے وجود میں آئے۔ ان سیاروں میں سے ایک سیارہ یا کرہ ہماری زمین ہے جو ابتدا میں انتہائی گرم تھی۔ اس کے ٹھنڈا ہونے پر اس کے اندر سے بخارات نکلے جو اس کے گرد ایک ہالے کی شکل میں جمع ہوگئے۔ ان بخارات سے پانی وجود میں آیا جو ہزار ہا برس تک زمین پر بارش کی صورت میں برستا رہا۔ اس کے نتیجے میں تمام روئے زمین پر ہر طرف پانی ہی پانی پھیل گیا۔ اس وقت تک زمین پر پانی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ یہی وہ دور تھا جس کا ذکر قرآن میں بایں الفاظ کیا گیا ہے : وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ ھود : 7 ”کہ اس کا عرش اس وقت پانی پر تھا“۔ پھر زمین جب مزید ٹھنڈا ہونے پر سکڑی تو اس کی سطح پر نشیب و فراز نمودار ہوئے۔ کہیں پہاڑ وجود میں آئے تو کہیں سمندر۔ اس کے بعد نباتاتی اور حیوانی حیات کا آغاز ہو۔ اس حیات کے ارتقاء کے بلند ترین مرحلے پر انسان کی تخلیق ہوئی اور حضرت آدم کی روح ان کے وجود کو سونپی گئی۔ حضرت آدم کی تاجپوشی کا یہی واقعہ ہے جہاں سے قرآن آدم کی تخلیق کا تذکرہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا اعلیٰ ترین شاہکار بھی ہے اور اس پوری کائنات کی تخلیق کا اصل مقصود و مطلوب بھی۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ عالم خلق اور عالم امر بالکل الگ الگ نہیں ہیں۔ یعنی یوں نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں تک تو عالم خلق ہے اور یہاں سے آگے عالم امر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ دونوں عالم ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط اور باہم گندھے ہوئے ہیں۔ مثلاً اس عالم خلق میں تمام انسانوں کی ارواح موجود ہیں ‘ جن کا تعلق عالم امر سے ہے : وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ بنی اسرائیل : 85 یہ آیت واضح کرتی ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ”حجۃ اللہ البالغہ“ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض نیک بندوں کی ارواح کو فرشتوں کے طبقہ اسفل میں شامل کرلیتے ہیں۔ چناچہ یہ نیک ارواح ان فرشتوں کے ساتھ سرگرم عمل رہتی ہیں جو اللہ کے احکام کی تعمیل و تنفیذ میں مصروف ہیں۔ اسی طرح فرشتے جو کہ عالم امر کی مخلوق ہیں وہ بھی یہاں عالم خلق میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ دو دو فرشتے تو ہم میں سے ہر انسان کے ساتھ بطور نگران مقرر کیے گئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَاب اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ الاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَاءِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ 1”اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں کچھ لوگ کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جمع نہیں ہوتے مگر یہ کہ ان کے اوپر سکینت نازل ہوتی ہے ‘ اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ‘ فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین ملأ اعلیٰ میں ان کا ذکر کرتا ہے۔“ اس حدیث کی رو سے درس قرآن کی اس محفل میں یقیناً فرشتے موجود ہیں ‘ وہ عالم امر کی شے ہیں ‘ ہم نہ انہیں دیکھ سکتے ہیں نہ ان سے خطاب کرسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اہل ایمان جنات بھی موجود ہوں اور قرآن سن رہے ہوں۔ چناچہ ارواح فرشتے اور وحی تینوں کا تعلق اگرچہ عالم امر سے ہے مگر ان کا عمل دخل عالم خلق میں بھی ہے۔ اس طرح عالم خلق اور عالم امر کو بالکل الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں میں مرزا عبدالقادر بیدل کے ایک مشہور شعر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو تخلیق کائنات اور تخلیق آدم کے اس فلسفہ کو بہت خوبصورتی سے واضح کرتا ہے :ہر دو عالم خاک شد تا بست نقش آدمی اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش !مرزا عبدالقادر بیدل ہندوستان میں اور نگ زیب عالمگیر کے زمانے میں تھے۔ وہ عظیم فلسفی اور فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ان کا شمار دنیا کے چوٹی کے فلسفیوں میں ہوتا تھا۔ ان کی شاعرانہ عظمت کے سامنے مرزا غالب بھی پانی بھرتے اور ان کی طرز کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے نظر آتے ہیں : طرز بیدل میں ریختہ لکھنا اسد اللہ خاں قیامت ہے !موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہاں مرزا بیدل کے مندرجہ بالا شعر کی وضاحت ضروری ہے۔ اس شعر میں وہ فرماتے ہیں ”ہر دو عالم خاک شد“ یعنی دونوں عالم خاک ہوگئے۔ شاعر کے اپنے ذہن میں اس کی وضاحت کیا تھی اس کے بارے میں شاعر خود جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ۔ لیکن میں اس سے یہ نکتہ سمجھا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے عالم امر کو تنزل کے مختلف مراحل سے گزار کر عالم خلق کی شکل دی۔ پھر اس کے مزید تنزلات کے نتیجے میں زمین مٹی پیدا کی گئی۔ گویا دونوں جہانوں نے خاک کی صورت اختیار کرلی تب جا کر کہیں حیات ارضی کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر اس سلسلے میں ارتقا کا وہ بلند ترین مرحلہ آیا : ”تابست نقش آدمی !“ جب آدمی کا نقش بننا شروع ہوا۔ دوسرے مصرعے میں اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش ! ”نیست“ کے فلسفے کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ”وحدت الوجود“ کے فلسفے کے مطابق حقیقی وجود صرف اللہ کا ہے ‘ باقی جو کچھ بھی ہمیں نظر آتا ہے اس میں سے کسی چیز کا وجود حقیقی نہیں ہے۔ گویا اللہ کے علاوہ اس کائنات کی ہرچیز ”نیست“ ہے ”ہست“ نہیں ہے : کُلُّ مَا فِی الْکَوْنِ وَ ھْمٌ اَوْ خَیَالٌ اَوْ عُکُوسٌ فِی المَرایَا اَوْ ظِلَال یعنی اللہ کے وجود کے علاوہ جو وجود بھی نظر آتے ہیں وہ وہم ہیں یا خیالی تصویریں۔ اس طرح یہ تمام عالم گویا ”نیست“ ہے اور اس عالم نیست کی ”بہار“ انسان ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : خَلَقْتُ بِیَدَیَّ صٓ: 75 کہ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔ اللہ کا ایک ہاتھ گویا عالم امر اور دوسرا ہاتھ عالم خلق ہے۔ اس طرح انسان اللہ تعالیٰ کے عمل تخلیق کا کلائمکس ‘ مسجود ملائک اور خلیفۃ اللہ ہے۔ چناچہ مرزا بیدل فرماتے ہیں اے بہار نیستی از قدر خود ہوشیار باش ! کہ اے انسان ! اے اس عالم نیستی کی بہار ! ذرا اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانو ! تمہیں وجود میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دو عالم کو نہ جانے تنزلات کی کن کن منازل سے نیچے اتار کر خاک کیا ‘ تب کہیں جا کر تمہارا نقش بنا۔

وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 40 اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہ حکم عالم امر کے بارے میں ہے جبکہ عالم خلق میں یوں نہیں ہوتا عالم امر اور عالم خلق کے بارے میں وضاحت اس سورة کی آیت 2 اور سورة الاعراف کی آیت 54 کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ عالم امر میں کسی واقعے یا کسی چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لیے اسباب وسائل اور وقت درکار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ارادہ فرماکر کن فرماتے ہیں تو وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ عالم خلق میں بھی کلی اختیار تو اللہ ہی کا ہے مگر اس عالم کو عام طبعی قوانین کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ چناچہ عالم خلق میں کسی چیز کو وجود میں آنے اور مطلوبہ معیار تک پہنچنے کے لیے اسباب وسائل اور وقت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ کائنات اپنے تمام طبعی موجودات کے ساتھ عالم خلق کا اظہار ہے۔ آیت زیر نظر کے موضوع کی مناسبت سے یہاں میں کائنات کی تخلیق کے آغاز سے متعلق اپنی سوچ اور فکر کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔کائنات کی تخلیق کے بارے میں ایک طرف تو پرانے فلسفیانہ تصورات ہیں اور دوسری طرف جدید سائنسی نظریات theories۔ فلسفیانہ تصورات کے مطابق سب سے پہلے وجود باری تعالیٰ سے عقل اوّل وجود میں آئی۔ عقلِ اوّل سے پھر فلکِ اوّل اور پھر فلکِ اوّل سے فلک ثانی وغیرہ۔ یہ مشائین کے فلسفے ہیں جو ارسطو اور اس کے شاگردوں کے نظریات کے ساتھ دنیا میں پھیلے اور ہمارے ہاں بھی بہت سے متکلمین ان سے متاثر ہوئے۔ بہر حال جدید سائنسی انکشافات کے ذریعے ان میں سے کسی بھی نظریے کی کہیں کوئی تائید و تصدیق نہیں ہوئی۔ دوسری طرف جدید فزکس کے میدان میں اعلیٰ علمی سطح پر اس سلسلے میں جتنے بھی نظریات theories ہیں ان میں ”عظیم دھماکے“ Big Bang کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس تصور کے تحت Big Bang کے نتیجے میں ارب ہا ارب درجہ حرارت کے حامل بیشمار ذرات وجود میں آئے۔ یہ ذرات تیزی سے حرکت کرتے ہوئے مختلف forms میں اکٹھے ہوئے تو کہکشائیں galaxies وجود میں آئیں اور چھوٹے بڑے بیشمار ستاروں کا ایک جہان آباد ہوگیا۔ انہی ستاروں میں ایک ہمارا سورج بھی تھا جس کے اندر مزید ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں اس کے سیارے planets وجود میں آئے۔ سورج کے ان سیاروں میں سے ایک سیارہ ہماری زمین ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوتی رہی اور بالآخر اس پر نباتاتی اور حیوانی زندگی کے لیے سازگار ماحول وجود میں آیا۔ آج کی سائنس فی الحال ”بگ بینگ“ سے آگے کوئی نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہے۔ اس نظریے سے جو معلومات سائنس نے اخذ کی ہیں وہ ان تمام حقائق کے ساتھ مطابقت corroboration رکھتی ہیں جن کا علم اس موضوع پر ہمیں قرآن سے ملتا ہے۔ اس سے پہلے مادے کے بارے میں سائنس قانون بقائے مادہ Law of conservation of mass کی قائل تھی کہ مادہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا مگر نئے نظریے کو اپنا کر سائنس نے نہ صرف بگ بینگ کو کائنات کا نقطہ آغاز تسلیم کرلیا ہے بلکہ یہ بھی مان لیا ہے کہ مادہ ایک خاص وقت تک کے لیے ہے اور ایک خاص وقت کے بعد ختم ہوجائے گا۔جہاں تک کا ئنات کی تخلیق کے آغاز کے بارے میں میری اپنی سوچ کا تعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کے ایک امر ”کُن“ سے ہوئی اللہ کے حکم سے نہ کہ اس کی ذات سے۔ پھر اس امر ”کن“ کا ظہور ایک خنک نور یا ٹھنڈی روشنی کی صورت میں ہوا یہ خنک نور حرف کن کا ظہور تھا نہ کہ ذات باری تعالیٰ کا۔ اس روشنی میں حرارت نہیں تھی گویا یہ مادی روشنی material light کے وجود میں آنے سے پہلے کا دور تھا۔ آج جس روشنی کو ہم دیکھتے یا پہچانتے ہیں اس میں حرارت ہوتی ہے اور اسی حرارت کی وجہ سے یہ material light ہے۔ امرِ ”کن“ سے ظہور پانے والے اس خنک نور سے پہلے مرحلے پر ملائکہ کی پیدائش ہوئی۔ جیسے کہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ سے حدیث مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو نور سے پیدا کیا۔ اسی نور سے انسانی ارواح پیدا کی گئیں اور سب سے پہلے روح محمدی پیدا کی گئی جیسا کہ حدیث میں الفاظ آئے ہیں : اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ 1 یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا۔ ”نُورِی“ اور ”رُوحِی“ گویا دو مترادف الفاظ ہیں کیونکہ روح کا تعلق بھی نور سے ہے۔ بہرحال یہ کائنات کی تخلیق کا مرحلہ اول ہے جس میں فرشتوں اور انسانی ارواح کی تخلیق ہوئی۔اس کے بعد کسی مرحلے پر اس خنک نور میں کسی نوعیت کا زور دار دھماکہ explosion ہوا جس کو آج کی سائنس ”بگ بینگ“ کے نام سے پہچانتی ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں حرارت کا وہ گولا وجود میں آیا ‘ جو بہت چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل تھا۔ ان ذرات کا درجہ حرارت ناقابل تصور حد تک تھا۔ یہ گویا طبعی دنیا Physical World کا نقطہ آغاز تھا۔ اسی دور میں اس آگ کی لپٹ سے ِ جنات پیدا کیے گئے اور انہی انتہائی گرم ذرات سے کہکشائیں ‘ ستارے اور سیارے وجود میں آئے۔ ان سیاروں میں سے ایک سیارہ یا کرہ ہماری زمین ہے جو ابتدا میں انتہائی گرم تھی۔ اس کے ٹھنڈا ہونے پر اس کے اندر سے بخارات نکلے جو اس کے گرد ایک ہالے کی شکل میں جمع ہوگئے۔ ان بخارات سے پانی وجود میں آیا جو ہزار ہا برس تک زمین پر بارش کی صورت میں برستا رہا۔ اس کے نتیجے میں تمام روئے زمین پر ہر طرف پانی ہی پانی پھیل گیا۔ اس وقت تک زمین پر پانی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ یہی وہ دور تھا جس کا ذکر قرآن میں بایں الفاظ کیا گیا ہے : وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ ھود : 7 ”کہ اس کا عرش اس وقت پانی پر تھا“۔ پھر زمین جب مزید ٹھنڈا ہونے پر سکڑی تو اس کی سطح پر نشیب و فراز نمودار ہوئے۔ کہیں پہاڑ وجود میں آئے تو کہیں سمندر۔ اس کے بعد نباتاتی اور حیوانی حیات کا آغاز ہو۔ اس حیات کے ارتقاء کے بلند ترین مرحلے پر انسان کی تخلیق ہوئی اور حضرت آدم کی روح ان کے وجود کو سونپی گئی۔ حضرت آدم کی تاجپوشی کا یہی واقعہ ہے جہاں سے قرآن آدم کی تخلیق کا تذکرہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا اعلیٰ ترین شاہکار بھی ہے اور اس پوری کائنات کی تخلیق کا اصل مقصود و مطلوب بھی۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ عالم خلق اور عالم امر بالکل الگ الگ نہیں ہیں۔ یعنی یوں نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں تک تو عالم خلق ہے اور یہاں سے آگے عالم امر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ دونوں عالم ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط اور باہم گندھے ہوئے ہیں۔ مثلاً اس عالم خلق میں تمام انسانوں کی ارواح موجود ہیں ‘ جن کا تعلق عالم امر سے ہے : وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ بنی اسرائیل : 85 یہ آیت واضح کرتی ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ”حجۃ اللہ البالغہ“ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض نیک بندوں کی ارواح کو فرشتوں کے طبقہ اسفل میں شامل کرلیتے ہیں۔ چناچہ یہ نیک ارواح ان فرشتوں کے ساتھ سرگرم عمل رہتی ہیں جو اللہ کے احکام کی تعمیل و تنفیذ میں مصروف ہیں۔ اسی طرح فرشتے جو کہ عالم امر کی مخلوق ہیں وہ بھی یہاں عالم خلق میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ دو دو فرشتے تو ہم میں سے ہر انسان کے ساتھ بطور نگران مقرر کیے گئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَاب اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ الاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَاءِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ 1”اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں کچھ لوگ کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جمع نہیں ہوتے مگر یہ کہ ان کے اوپر سکینت نازل ہوتی ہے ‘ اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ‘ فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین ملأ اعلیٰ میں ان کا ذکر کرتا ہے۔“ اس حدیث کی رو سے درس قرآن کی اس محفل میں یقیناً فرشتے موجود ہیں ‘ وہ عالم امر کی شے ہیں ‘ ہم نہ انہیں دیکھ سکتے ہیں نہ ان سے خطاب کرسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اہل ایمان جنات بھی موجود ہوں اور قرآن سن رہے ہوں۔ چناچہ ارواح فرشتے اور وحی تینوں کا تعلق اگرچہ عالم امر سے ہے مگر ان کا عمل دخل عالم خلق میں بھی ہے۔ اس طرح عالم خلق اور عالم امر کو بالکل الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں میں مرزا عبدالقادر بیدل کے ایک مشہور شعر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو تخلیق کائنات اور تخلیق آدم کے اس فلسفہ کو بہت خوبصورتی سے واضح کرتا ہے :ہر دو عالم خاک شد تا بست نقش آدمی اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش !مرزا عبدالقادر بیدل ہندوستان میں اور نگ زیب عالمگیر کے زمانے میں تھے۔ وہ عظیم فلسفی اور فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ان کا شمار دنیا کے چوٹی کے فلسفیوں میں ہوتا تھا۔ ان کی شاعرانہ عظمت کے سامنے مرزا غالب بھی پانی بھرتے اور ان کی طرز کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے نظر آتے ہیں : طرز بیدل میں ریختہ لکھنا اسد اللہ خاں قیامت ہے !موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہاں مرزا بیدل کے مندرجہ بالا شعر کی وضاحت ضروری ہے۔ اس شعر میں وہ فرماتے ہیں ”ہر دو عالم خاک شد“ یعنی دونوں عالم خاک ہوگئے۔ شاعر کے اپنے ذہن میں اس کی وضاحت کیا تھی اس کے بارے میں شاعر خود جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ۔ لیکن میں اس سے یہ نکتہ سمجھا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے عالم امر کو تنزل کے مختلف مراحل سے گزار کر عالم خلق کی شکل دی۔ پھر اس کے مزید تنزلات کے نتیجے میں زمین مٹی پیدا کی گئی۔ گویا دونوں جہانوں نے خاک کی صورت اختیار کرلی تب جا کر کہیں حیات ارضی کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر اس سلسلے میں ارتقا کا وہ بلند ترین مرحلہ آیا : ”تابست نقش آدمی !“ جب آدمی کا نقش بننا شروع ہوا۔ دوسرے مصرعے میں اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش ! ”نیست“ کے فلسفے کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ”وحدت الوجود“ کے فلسفے کے مطابق حقیقی وجود صرف اللہ کا ہے ‘ باقی جو کچھ بھی ہمیں نظر آتا ہے اس میں سے کسی چیز کا وجود حقیقی نہیں ہے۔ گویا اللہ کے علاوہ اس کائنات کی ہرچیز ”نیست“ ہے ”ہست“ نہیں ہے : کُلُّ مَا فِی الْکَوْنِ وَ ھْمٌ اَوْ خَیَالٌ اَوْ عُکُوسٌ فِی المَرایَا اَوْ ظِلَال یعنی اللہ کے وجود کے علاوہ جو وجود بھی نظر آتے ہیں وہ وہم ہیں یا خیالی تصویریں۔ اس طرح یہ تمام عالم گویا ”نیست“ ہے اور اس عالم نیست کی ”بہار“ انسان ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : خَلَقْتُ بِیَدَیَّ صٓ: 75 کہ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔ اللہ کا ایک ہاتھ گویا عالم امر اور دوسرا ہاتھ عالم خلق ہے۔ اس طرح انسان اللہ تعالیٰ کے عمل تخلیق کا کلائمکس ‘ مسجود ملائک اور خلیفۃ اللہ ہے۔ چناچہ مرزا بیدل فرماتے ہیں اے بہار نیستی از قدر خود ہوشیار باش ! کہ اے انسان ! اے اس عالم نیستی کی بہار ! ذرا اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانو ! تمہیں وجود میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دو عالم کو نہ جانے تنزلات کی کن کن منازل سے نیچے اتار کر خاک کیا ‘ تب کہیں جا کر تمہارا نقش بنا۔

الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

📘 آیت 40 اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہ حکم عالم امر کے بارے میں ہے جبکہ عالم خلق میں یوں نہیں ہوتا عالم امر اور عالم خلق کے بارے میں وضاحت اس سورة کی آیت 2 اور سورة الاعراف کی آیت 54 کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ عالم امر میں کسی واقعے یا کسی چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لیے اسباب وسائل اور وقت درکار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ارادہ فرماکر کن فرماتے ہیں تو وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ عالم خلق میں بھی کلی اختیار تو اللہ ہی کا ہے مگر اس عالم کو عام طبعی قوانین کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ چناچہ عالم خلق میں کسی چیز کو وجود میں آنے اور مطلوبہ معیار تک پہنچنے کے لیے اسباب وسائل اور وقت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ کائنات اپنے تمام طبعی موجودات کے ساتھ عالم خلق کا اظہار ہے۔ آیت زیر نظر کے موضوع کی مناسبت سے یہاں میں کائنات کی تخلیق کے آغاز سے متعلق اپنی سوچ اور فکر کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔کائنات کی تخلیق کے بارے میں ایک طرف تو پرانے فلسفیانہ تصورات ہیں اور دوسری طرف جدید سائنسی نظریات theories۔ فلسفیانہ تصورات کے مطابق سب سے پہلے وجود باری تعالیٰ سے عقل اوّل وجود میں آئی۔ عقلِ اوّل سے پھر فلکِ اوّل اور پھر فلکِ اوّل سے فلک ثانی وغیرہ۔ یہ مشائین کے فلسفے ہیں جو ارسطو اور اس کے شاگردوں کے نظریات کے ساتھ دنیا میں پھیلے اور ہمارے ہاں بھی بہت سے متکلمین ان سے متاثر ہوئے۔ بہر حال جدید سائنسی انکشافات کے ذریعے ان میں سے کسی بھی نظریے کی کہیں کوئی تائید و تصدیق نہیں ہوئی۔ دوسری طرف جدید فزکس کے میدان میں اعلیٰ علمی سطح پر اس سلسلے میں جتنے بھی نظریات theories ہیں ان میں ”عظیم دھماکے“ Big Bang کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس تصور کے تحت Big Bang کے نتیجے میں ارب ہا ارب درجہ حرارت کے حامل بیشمار ذرات وجود میں آئے۔ یہ ذرات تیزی سے حرکت کرتے ہوئے مختلف forms میں اکٹھے ہوئے تو کہکشائیں galaxies وجود میں آئیں اور چھوٹے بڑے بیشمار ستاروں کا ایک جہان آباد ہوگیا۔ انہی ستاروں میں ایک ہمارا سورج بھی تھا جس کے اندر مزید ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں اس کے سیارے planets وجود میں آئے۔ سورج کے ان سیاروں میں سے ایک سیارہ ہماری زمین ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوتی رہی اور بالآخر اس پر نباتاتی اور حیوانی زندگی کے لیے سازگار ماحول وجود میں آیا۔ آج کی سائنس فی الحال ”بگ بینگ“ سے آگے کوئی نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہے۔ اس نظریے سے جو معلومات سائنس نے اخذ کی ہیں وہ ان تمام حقائق کے ساتھ مطابقت corroboration رکھتی ہیں جن کا علم اس موضوع پر ہمیں قرآن سے ملتا ہے۔ اس سے پہلے مادے کے بارے میں سائنس قانون بقائے مادہ Law of conservation of mass کی قائل تھی کہ مادہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا مگر نئے نظریے کو اپنا کر سائنس نے نہ صرف بگ بینگ کو کائنات کا نقطہ آغاز تسلیم کرلیا ہے بلکہ یہ بھی مان لیا ہے کہ مادہ ایک خاص وقت تک کے لیے ہے اور ایک خاص وقت کے بعد ختم ہوجائے گا۔جہاں تک کا ئنات کی تخلیق کے آغاز کے بارے میں میری اپنی سوچ کا تعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کے ایک امر ”کُن“ سے ہوئی اللہ کے حکم سے نہ کہ اس کی ذات سے۔ پھر اس امر ”کن“ کا ظہور ایک خنک نور یا ٹھنڈی روشنی کی صورت میں ہوا یہ خنک نور حرف کن کا ظہور تھا نہ کہ ذات باری تعالیٰ کا۔ اس روشنی میں حرارت نہیں تھی گویا یہ مادی روشنی material light کے وجود میں آنے سے پہلے کا دور تھا۔ آج جس روشنی کو ہم دیکھتے یا پہچانتے ہیں اس میں حرارت ہوتی ہے اور اسی حرارت کی وجہ سے یہ material light ہے۔ امرِ ”کن“ سے ظہور پانے والے اس خنک نور سے پہلے مرحلے پر ملائکہ کی پیدائش ہوئی۔ جیسے کہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ سے حدیث مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو نور سے پیدا کیا۔ اسی نور سے انسانی ارواح پیدا کی گئیں اور سب سے پہلے روح محمدی پیدا کی گئی جیسا کہ حدیث میں الفاظ آئے ہیں : اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ 1 یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا۔ ”نُورِی“ اور ”رُوحِی“ گویا دو مترادف الفاظ ہیں کیونکہ روح کا تعلق بھی نور سے ہے۔ بہرحال یہ کائنات کی تخلیق کا مرحلہ اول ہے جس میں فرشتوں اور انسانی ارواح کی تخلیق ہوئی۔اس کے بعد کسی مرحلے پر اس خنک نور میں کسی نوعیت کا زور دار دھماکہ explosion ہوا جس کو آج کی سائنس ”بگ بینگ“ کے نام سے پہچانتی ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں حرارت کا وہ گولا وجود میں آیا ‘ جو بہت چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل تھا۔ ان ذرات کا درجہ حرارت ناقابل تصور حد تک تھا۔ یہ گویا طبعی دنیا Physical World کا نقطہ آغاز تھا۔ اسی دور میں اس آگ کی لپٹ سے ِ جنات پیدا کیے گئے اور انہی انتہائی گرم ذرات سے کہکشائیں ‘ ستارے اور سیارے وجود میں آئے۔ ان سیاروں میں سے ایک سیارہ یا کرہ ہماری زمین ہے جو ابتدا میں انتہائی گرم تھی۔ اس کے ٹھنڈا ہونے پر اس کے اندر سے بخارات نکلے جو اس کے گرد ایک ہالے کی شکل میں جمع ہوگئے۔ ان بخارات سے پانی وجود میں آیا جو ہزار ہا برس تک زمین پر بارش کی صورت میں برستا رہا۔ اس کے نتیجے میں تمام روئے زمین پر ہر طرف پانی ہی پانی پھیل گیا۔ اس وقت تک زمین پر پانی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ یہی وہ دور تھا جس کا ذکر قرآن میں بایں الفاظ کیا گیا ہے : وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ ھود : 7 ”کہ اس کا عرش اس وقت پانی پر تھا“۔ پھر زمین جب مزید ٹھنڈا ہونے پر سکڑی تو اس کی سطح پر نشیب و فراز نمودار ہوئے۔ کہیں پہاڑ وجود میں آئے تو کہیں سمندر۔ اس کے بعد نباتاتی اور حیوانی حیات کا آغاز ہو۔ اس حیات کے ارتقاء کے بلند ترین مرحلے پر انسان کی تخلیق ہوئی اور حضرت آدم کی روح ان کے وجود کو سونپی گئی۔ حضرت آدم کی تاجپوشی کا یہی واقعہ ہے جہاں سے قرآن آدم کی تخلیق کا تذکرہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا اعلیٰ ترین شاہکار بھی ہے اور اس پوری کائنات کی تخلیق کا اصل مقصود و مطلوب بھی۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ عالم خلق اور عالم امر بالکل الگ الگ نہیں ہیں۔ یعنی یوں نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں تک تو عالم خلق ہے اور یہاں سے آگے عالم امر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ دونوں عالم ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط اور باہم گندھے ہوئے ہیں۔ مثلاً اس عالم خلق میں تمام انسانوں کی ارواح موجود ہیں ‘ جن کا تعلق عالم امر سے ہے : وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ بنی اسرائیل : 85 یہ آیت واضح کرتی ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ”حجۃ اللہ البالغہ“ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض نیک بندوں کی ارواح کو فرشتوں کے طبقہ اسفل میں شامل کرلیتے ہیں۔ چناچہ یہ نیک ارواح ان فرشتوں کے ساتھ سرگرم عمل رہتی ہیں جو اللہ کے احکام کی تعمیل و تنفیذ میں مصروف ہیں۔ اسی طرح فرشتے جو کہ عالم امر کی مخلوق ہیں وہ بھی یہاں عالم خلق میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ دو دو فرشتے تو ہم میں سے ہر انسان کے ساتھ بطور نگران مقرر کیے گئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَاب اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ الاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَاءِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ 1”اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں کچھ لوگ کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جمع نہیں ہوتے مگر یہ کہ ان کے اوپر سکینت نازل ہوتی ہے ‘ اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ‘ فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین ملأ اعلیٰ میں ان کا ذکر کرتا ہے۔“ اس حدیث کی رو سے درس قرآن کی اس محفل میں یقیناً فرشتے موجود ہیں ‘ وہ عالم امر کی شے ہیں ‘ ہم نہ انہیں دیکھ سکتے ہیں نہ ان سے خطاب کرسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اہل ایمان جنات بھی موجود ہوں اور قرآن سن رہے ہوں۔ چناچہ ارواح فرشتے اور وحی تینوں کا تعلق اگرچہ عالم امر سے ہے مگر ان کا عمل دخل عالم خلق میں بھی ہے۔ اس طرح عالم خلق اور عالم امر کو بالکل الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں میں مرزا عبدالقادر بیدل کے ایک مشہور شعر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو تخلیق کائنات اور تخلیق آدم کے اس فلسفہ کو بہت خوبصورتی سے واضح کرتا ہے :ہر دو عالم خاک شد تا بست نقش آدمی اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش !مرزا عبدالقادر بیدل ہندوستان میں اور نگ زیب عالمگیر کے زمانے میں تھے۔ وہ عظیم فلسفی اور فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ان کا شمار دنیا کے چوٹی کے فلسفیوں میں ہوتا تھا۔ ان کی شاعرانہ عظمت کے سامنے مرزا غالب بھی پانی بھرتے اور ان کی طرز کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے نظر آتے ہیں : طرز بیدل میں ریختہ لکھنا اسد اللہ خاں قیامت ہے !موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہاں مرزا بیدل کے مندرجہ بالا شعر کی وضاحت ضروری ہے۔ اس شعر میں وہ فرماتے ہیں ”ہر دو عالم خاک شد“ یعنی دونوں عالم خاک ہوگئے۔ شاعر کے اپنے ذہن میں اس کی وضاحت کیا تھی اس کے بارے میں شاعر خود جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ۔ لیکن میں اس سے یہ نکتہ سمجھا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے عالم امر کو تنزل کے مختلف مراحل سے گزار کر عالم خلق کی شکل دی۔ پھر اس کے مزید تنزلات کے نتیجے میں زمین مٹی پیدا کی گئی۔ گویا دونوں جہانوں نے خاک کی صورت اختیار کرلی تب جا کر کہیں حیات ارضی کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر اس سلسلے میں ارتقا کا وہ بلند ترین مرحلہ آیا : ”تابست نقش آدمی !“ جب آدمی کا نقش بننا شروع ہوا۔ دوسرے مصرعے میں اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش ! ”نیست“ کے فلسفے کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ”وحدت الوجود“ کے فلسفے کے مطابق حقیقی وجود صرف اللہ کا ہے ‘ باقی جو کچھ بھی ہمیں نظر آتا ہے اس میں سے کسی چیز کا وجود حقیقی نہیں ہے۔ گویا اللہ کے علاوہ اس کائنات کی ہرچیز ”نیست“ ہے ”ہست“ نہیں ہے : کُلُّ مَا فِی الْکَوْنِ وَ ھْمٌ اَوْ خَیَالٌ اَوْ عُکُوسٌ فِی المَرایَا اَوْ ظِلَال یعنی اللہ کے وجود کے علاوہ جو وجود بھی نظر آتے ہیں وہ وہم ہیں یا خیالی تصویریں۔ اس طرح یہ تمام عالم گویا ”نیست“ ہے اور اس عالم نیست کی ”بہار“ انسان ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : خَلَقْتُ بِیَدَیَّ صٓ: 75 کہ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔ اللہ کا ایک ہاتھ گویا عالم امر اور دوسرا ہاتھ عالم خلق ہے۔ اس طرح انسان اللہ تعالیٰ کے عمل تخلیق کا کلائمکس ‘ مسجود ملائک اور خلیفۃ اللہ ہے۔ چناچہ مرزا بیدل فرماتے ہیں اے بہار نیستی از قدر خود ہوشیار باش ! کہ اے انسان ! اے اس عالم نیستی کی بہار ! ذرا اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانو ! تمہیں وجود میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دو عالم کو نہ جانے تنزلات کی کن کن منازل سے نیچے اتار کر خاک کیا ‘ تب کہیں جا کر تمہارا نقش بنا۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 43 وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ یعنی آپ پہلے نبی یا رسول نہیں ہیں بلکہ آپ سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں۔ وہ سب کے سب آدمی ہی تھے اور ان کی طرف ہم اسی طرح وحی بھیجتے تھے جس طرح آج آپ کی طرف وحی آتی ہے۔ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ یعنی اے اہل مکہ ! اگر تم لوگوں کو اس بارے میں کچھ شک ہے تو تمہارے پڑوس مدینہ میں وہ لوگ آباد ہیں جو سلسلۂ وحی و رسالت سے خوب واقف ہیں ان سے پوچھ لو کہ اب تک جو انبیاء و رسل اس دنیا میں آئے ہیں وہ سب کے سب انسان تھے یا فرشتے ؟

بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

📘 وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ یہاں قرآن کے لیے پھر لفظ ”الذکر“ استعمال ہوا ہے ‘ یعنی یہ قرآن ایک طرح کی یاد دہانی ہے۔ یہ آیت منکرین سنت و حدیث کے خلاف ایک واضح دلیل فراہم کرتی ہے۔ اس کی رو سے قرآن کی ”تبیین“ رسول کا فرض منصبی ہے۔ قرآن کے اسرار و رموز کو سمجھانا اس میں اگر کوئی نکتہ مجمل ہے تو اس کی تفصیل بیان کرنا ‘ اگر کوئی حکم مبہم ہے تو اس کی وضاحت کرنا رسول اللہ کا فرض منصبی تھا۔ یہ فرض اس آیت کی رو سے خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو تفویض کیا ہے ‘ مگر منکرین سنت آج آپ کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی رائے کے مطابق یہ اللہ کی کتاب ہے جو اللہ کے رسول نے ہم تک پہنچا دی ہے ‘ اب ہم خود اس کو پڑھیں گے ‘ خود سمجھیں گے اور خود ہی عمل کی جہتیں متعین کریں گے۔ حضور کے سمجھانے کی اگر کچھ ضرورت تھی بھی تو وہ اپنے زمانے کی حد تک تھی۔ فیا للعجب !

أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ يَخْسِفَ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ

📘 آیت 45 اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ یہ لوگ ہمارے رسول کے خلاف سازشوں کے جال بننے میں مگن ہیں اور حق کی دعوت کا راستہ روکنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ کیا یہ ڈرتے نہیں کہ اگر اللہ چاہے تو انہیں اس جرم کی پاداش میں زمین میں دھنسا دے ؟

أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ

📘 آیت 46 اَوْ يَاْخُذَهُمْ فِيْ تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِيْنَ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی روز مرہ زندگی میں معمول کی سرگرمیوں کے دوران ہی ان کی پکڑ کا حکم آجائے اور پھر اللہ کے اس حکم کے مقابلے میں ان کی کوئی تدبیر بھی کامیاب نہ ہو سکے۔

أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَىٰ تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 47 اَوْ يَاْخُذَهُمْ عَلٰي تَخَــوُّفٍ ۭ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌاگرچہ اللہ تعالیٰ اپنے نافرمانوں کو اچانک بھی پکڑ سکتا ہے مگر چونکہ وہ بہت شفیق اور نہایت رحم فرمانے والا ہے اس لیے اس کا عذاب یونہی بیخبر ی میں نہیں آتا بلکہ متعلقہ قوم کو پہلے پوری طرح آگاہ کیا جاتا ہے ان پر اتمام حجت کے تمام تقاضے پورے کیے جاتے ہیں تب کہیں جا کر عذاب کا فیصلہ ہوتا ہے۔ جیسے سورة بنی اسرائیل میں فرمایا گیا : وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً ”اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ ہم رسول نہ بھیجیں“۔ یعنی ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے رسول بھیجا گیا جس نے ان پر حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا خوب اچھی طرح واضح کردیا ‘ یہاں تک کہ متعلقہ قوم پر حجت تمام ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رہی۔ اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اور ظلم پر اڑے رہے ان پر گرفت کی گئی اور عذاب کے ذریعے انہیں نیست و نابود کردیا گیا۔

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ

📘 آیت 48 اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ اس آیت میں ہمارے اردگرد کی اشیاء سے پیدا ہونے والے ماحول کی تصویر کشی کی گئی ہے جسے دیکھتے ہوئے ہم اللہ کی کبریائی کا ایک نقشہ اپنے تصور میں لاسکتے ہیں۔ جب سورج نکلتا ہے تو تمام چیزوں کے سائے زمین پر بچھے ہوئے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پھر سورج کے بلند ہونے کے ساتھ ہی ساتھ یہ سائے سمٹتے چلے جاتے ہیں۔ سورج کے ڈھلنے کے ساتھ دوسری سمت میں پھیلتے ہوئے یہ سایے پھر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔

وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ

📘 آیت 48 اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ اس آیت میں ہمارے اردگرد کی اشیاء سے پیدا ہونے والے ماحول کی تصویر کشی کی گئی ہے جسے دیکھتے ہوئے ہم اللہ کی کبریائی کا ایک نقشہ اپنے تصور میں لاسکتے ہیں۔ جب سورج نکلتا ہے تو تمام چیزوں کے سائے زمین پر بچھے ہوئے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پھر سورج کے بلند ہونے کے ساتھ ہی ساتھ یہ سائے سمٹتے چلے جاتے ہیں۔ سورج کے ڈھلنے کے ساتھ دوسری سمت میں پھیلتے ہوئے یہ سایے پھر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔

وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ

📘 آیت 5 وَالْاَنْعَامَ خَلَقَهَا ۚ لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ بعض جانوروں کی اون سے تم لوگ لباس بنتے ہو جو سردی کے موسم میں تمہیں گرمی پہنچاتا ہے بعض جانوروں کے بالوں سے بہت سی دوسری چیزیں بناتے ہو۔ اسی طرح یہ جانور اور بھی بہت سی صورتوں میں تمہارے لیے مفید اور مددگار ہوتے ہیں حتیٰ کہ تمہاری خوراک کی بیشتر ضروریات بھی انہی سے پوری ہوتی ہیں۔

يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩

📘 آیت 50 يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ یہ خصوصی طور پر فرشتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔ جیسے سورة التحریم میں فرمایا گیا : لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ”وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو حکم وہ انہیں دیتا ہے اور وہی کرتے ہیں جو حکم انہیں دیا جاتا ہے۔“

۞ وَقَالَ اللَّهُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَٰهَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ

📘 آیت 50 يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ یہ خصوصی طور پر فرشتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔ جیسے سورة التحریم میں فرمایا گیا : لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ”وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو حکم وہ انہیں دیتا ہے اور وہی کرتے ہیں جو حکم انہیں دیا جاتا ہے۔“

وَلَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَهُ الدِّينُ وَاصِبًا ۚ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَتَّقُونَ

📘 آیت 50 يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ یہ خصوصی طور پر فرشتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔ جیسے سورة التحریم میں فرمایا گیا : لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ”وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو حکم وہ انہیں دیتا ہے اور وہی کرتے ہیں جو حکم انہیں دیا جاتا ہے۔“

وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ

📘 آیت 53 وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ تکلیف کی کیفیت میں تم اللہ کو ہی یاد کرتے ہو اسی کی جناب میں گڑ گڑاتے آہ وزاری کرتے اور دعائیں مانگتے ہو۔ اس حالت میں تمہیں کوئی دوسرا معبود یاد نہیں آتا۔

ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ

📘 آیت 53 وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ تکلیف کی کیفیت میں تم اللہ کو ہی یاد کرتے ہو اسی کی جناب میں گڑ گڑاتے آہ وزاری کرتے اور دعائیں مانگتے ہو۔ اس حالت میں تمہیں کوئی دوسرا معبود یاد نہیں آتا۔

لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ

📘 آیت 55 لِيَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَيْنٰهُمْ ۭ فَتَمَتَّعُوْا ۣ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ کچھ دنوں کی بات ہے دنیا میں تم لوگ مزے اڑا لو۔ بہت جلد اصل حقیقت کھل کر تمہارے سامنے آجائے گی۔

وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ۗ تَاللَّهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُونَ

📘 آیت 56 وَيَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ نَصِيْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ اللہ تعالیٰ ہی کے عطا کردہ رزق میں سے وہ لوگ اللہ کے ان شریکوں کے لیے بھی حصے نکالتے تھے جن کے بارے میں کوئی علمی سند یا واضح دلیل بھی ان کے پاس موجود نہیں تھی۔ یہ مضمون سورة الانعام کی آیت 136 میں بھی آچکا ہے کہ وہ لوگ اپنی کھیتیوں کی پیداوار اور جانوروں میں سے جہاں اللہ کے لیے حصہ نکالتے تھے وہاں اپنے جھوٹے معبودوں کے حصے کے لیے بھی خاص اہتمام کرتے تھے۔

وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ ۙ وَلَهُمْ مَا يَشْتَهُونَ

📘 آیت 57 وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ ۙ وَلَهُمْ مَّا يَشْتَهُوْنَ اللہ تعالیٰ کی اولاد کے طور پر وہ لوگ اس سے بیٹیاں منسوب کرتے ہیں جبکہ خود اپنے لیے وہ بیٹے پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کے لیے اولاد تجویز بھی کی تو بیٹیاں تجویز کیں جو خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ

📘 آیت 57 وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ ۙ وَلَهُمْ مَّا يَشْتَهُوْنَ اللہ تعالیٰ کی اولاد کے طور پر وہ لوگ اس سے بیٹیاں منسوب کرتے ہیں جبکہ خود اپنے لیے وہ بیٹے پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کے لیے اولاد تجویز بھی کی تو بیٹیاں تجویز کیں جو خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔

يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ

📘 آیت 59 يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْۗءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ جب اسے خوشخبری دی جاتی ہے کہ وہ ایک بیٹی کا باپ بن گیا ہے تو اسے ایک منحوس خبر خیال کرتا ہے اور یوں محسوس کرتا ہے کہ اب وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ شرم کے مارے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور ہر وقت اسی شش و پنج میں رہتا ہے کہ :

وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ

📘 آیت 6 وَلَكُمْ فِيْهَا جَمَالٌ حِيْنَ تُرِيْحُوْنَ وَحِيْنَ تَسْرَحُوْنَ دیہاتی ماحول میں مویشیوں کی حیثیت بہت قیمتی سرمائے کی سی ہوتی ہے اسی لیے انہیں مال مویشی کہا جاتا ہے۔ یہ جانور جب صبح چرنے کے لیے جاتے ہیں یا شام کے وقت جنگل سے چر کر واپس آ رہے ہوتے ہیں تو ان کے مالکوں کے لیے یہ بڑا خوش کن منظر ہوتا ہے۔ جانوروں کا غلہ یا ریوڑ جتنا بڑا ہوگا اس کے مالک کی حیثیت اور شان و شوکت اسی قدر زیادہ سمجھی جائے گی۔

لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۖ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 وَلِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ عقیدۂ آخرت کے حوالے سے یہ حقیقت لائق توجہ ہے کہ یہ عقیدہ دنیوی زندگی میں انسانی اعمال پر تمام عوامل سے بڑھ کر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں آخرت اور ایمان بالآخرت کے بارے میں بہت تکرار پائی جاتی ہے۔

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَٰكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ

📘 آیت 61 وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّىیہ اللہ کی خاص رحمت ہے کہ وہ لوگوں کے ظلم و معصیت کی پاداش میں فوری طور پر ان کی گرفت نہیں کرتا بلکہ ڈھیل دے کر انہیں اصلاح کا پورا پورا موقع دیتا ہے۔

وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا يَكْرَهُونَ وَتَصِفُ أَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ أَنَّ لَهُمُ الْحُسْنَىٰ ۖ لَا جَرَمَ أَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَأَنَّهُمْ مُفْرَطُونَ

📘 آیت 62 وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا يَكْرَهُوْنَ یعنی ان میں سے کوئی بھی خود بیٹی کا باپ بننا پسند نہیں کرتا مگر اللہ کے ساتھ بیٹیاں منسوب کرتے ہوئے یہ لوگ ایسا کچھ نہیں سوچتے۔وَتَصِفُ اَلْسِـنَتُهُمُ الْكَذِبَ اَنَّ لَهُمُ الْحُسْنٰىیہ لوگ اس زعم میں ہیں کہ دنیا میں انہیں عزت ‘ دولت اور سرداری ملی ہوئی ہے ‘ تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ ان سے خوش ہے اور انہیں یہ خوش فہمی بھی ہے کہ اگر اس نے یہاں انہیں یہ سب کچھ دیا ہے تو آخرت میں بھی وہ ضرور انہیں اپنی نعمتوں سے نوازے گا۔ چناچہ دنیا ہو یا آخرت ان کے لیے تو بھلائی ہی بھلائی ہے۔لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَاَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ دنیا میں ان کی رسی دراز کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی میں جس حد تک جری ہو کر آگے بڑھ سکتے ہیں بڑھتے چلے جائیں۔

تَاللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 63 تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ شیطان کے بہکاوے کے سبب وہ لوگ اس خوش فہمی میں رہے کہ ان کا کلچر ان کی تہذیب اور ان کی روایات سب سے اعلیٰ ہیں۔

وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

📘 وَهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ اس آیت کو پڑھتے ہوئے سورة یونس کی یہ دو آیات بھی ذہن میں رکھیے : يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ 57؀ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا ۭ ھُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ ”اے لوگو ! آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں کے جو روگ ہیں ان کی شفا اور ہدایت اور اہل ایمان کے حق میں بہت بڑی رحمت۔ اے نبی ! ان سے کہہ دیجیے کہ یہ قرآن اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے نازل ہوا ہے تو چاہیے کہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں وہ بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔“

وَاللَّهُ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ

📘 اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ یہ نشانی ان لوگوں کے لیے ہے جن کا سننا حیوانوں کا سا سننا نہ ہو بلکہ انسانوں کا سا سننا ہو۔ علامہ اقبال نے ”زبور عجم“ میں کیا خوب کہا ہے : دم چیست ؟ پیام است ‘ شنیدی ‘ نشنیدی !در خاک تو یک جلوۂ عام است ندیدی ؟دیدن دگر آموز ! شنیدن دگر آموز !یعنی سانس جو تم لیتے ہو یہ بھی اللہ کا ایک پیغام ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ تم اس پیغام کو سنتے ہو یا نہیں سنتے ہو۔ یہ درست ہے کہ تم خاک سے بنے ہو ‘ مگر تمہارے اسی خاکی وجود کے اندر ایک نور اور جلوۂ ربانی بھی موجود ہے۔ یہ روح ربانی جو تمہارے وجود میں پھونکی گئی ہے یہ جلوہ ربانی ہی تو ہے ‘ جسے تم دیکھتے ہی نہیں ہو۔ تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ تمہارے اندر کیا کیا کچھ موجود ہے : وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ الذاریات ”اور تمہارے اندر کیا کچھ ہے ‘ کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟“ ذرا دوسری طرح کا دیکھنا اور دوسری طرح کا سننا سیکھو ! ایسا دیکھنا سیکھو جو چیزوں کی اصلیت کو دیکھ سکے اور ایسا سننے کی صلاحیت حاصل کرو جس سے تمہیں حقیقت کی پہچان نصیب ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ دیکھنا اور یہ سننا محض حیوانوں کا سا دیکھنا اور سننا ہے۔ اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا !اس سورة میں تکرار کے ساتھ اہل فکر و دانش کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اللہ کی نشانیوں کو دیکھ کر ‘ سن کر اور سمجھ کر سبق حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آیت زیر نظر کے علاوہ ملاحظہ ہوں آیات 11 ‘ 12 ‘ 67 ‘ 69 اور 79

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِينَ

📘 آیت 66 وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً چوپایوں کی تخلیق میں بھی تمہارے لیے بڑا سبق ہے۔ ان کو دیکھو غور کرو اور اللہ کی حکمتوں کو پہچانو !

وَمِنْ ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

📘 آیت 66 وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً چوپایوں کی تخلیق میں بھی تمہارے لیے بڑا سبق ہے۔ ان کو دیکھو غور کرو اور اللہ کی حکمتوں کو پہچانو !

وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ

📘 آیت 68 وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ یعنی شہد کی مکھی کی فطرت میں یہ چیز ودیعت کردی گئی ہے۔

ثُمَّ كُلِي مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

📘 يَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ شہد کی مکھی جن جن جڑی بوٹیوں اور پودوں کے پھولوں کا رس چوستی ہے ان کے خواص اور ان کی تاثیرات کو گویا وہ کشید کرتی ہے۔ اس طرح شہد میں مختلف ادویات کے اثرات بھی شامل ہوجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس میں بہت سی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔

وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ ۚ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 7 وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِيْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ ان میں ایسے جانور بھی ہیں جو سازو سامان کے نقل و حمل میں تمہارے کام آتے ہیں اور ان کے بغیر تم یہ بھاری چیزیں اٹھا کر دور دراز علاقوں تک نہیں پہنچا سکتے۔

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ ۚ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ

📘 آیت 70 وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ ڐوَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ ایسی عمر جس میں آدمی ناکارہ ہو کر دوسروں پر بوجھ بن جاتا ہے۔لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌبڑھاپے میں اکثر لوگوں کی قوت فکر متاثر ہوجاتی ہے اور زیادہ عمر رسیدہ لوگوں کو تو dementia ہوجاتا ہے جس سے ذہنی صلاحیتیں ختم ہوجاتی ہیں اور یادداشت جواب دے جاتی ہے۔ اس کیفیت میں بڑے بڑے فلسفی اور دانشور بچوں جیسی باتیں کرنے لگتے ہیں۔

وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ

📘 آیت 71 وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ رزق سے مراد صرف مادی اسباب و وسائل ہی نہیں بلکہ اس میں انسان کی جسمانی و ذہنی صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔ مادی وسائل کی کمی بیشی کے بارے میں تو کوئی سوشلسٹ یا کمیونسٹ اعتراض کرسکتا ہے کہ یہ غلط تقسیم اور غلط نظام کا نتیجہ ہے جس کا ذمہ دار خود انسان ہے مگر یہ امر اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے کہ ہر انسان کی ذہنی استعداد اور جسمانی طاقت ایک سی نہیں ہوتی۔ جینز genes کے ذریعے وراثت میں ملنے والی تمام صلاحیتیں بھی سب انسانوں میں برابر نہیں ہوتیں پھر اس میں کسی کے اختیار و انتخاب کو بھی کوئی دخل نہیں ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے مادی اسباب و وسائل کے علاوہ ذاتی صلاحیتوں میں بھی مختلف انسانوں کو مختلف اعتبار سے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔فَمَا الَّذِيْنَ فُضِّلُوْا بِرَاۗدِّيْ رِزْقِهِمْ عَلٰي مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيْهِ سَوَاۗءٌیعنی ایسا تو نہیں ہوتا کہ امراء اپنی دولت اور جائیدادیں اپنے غلاموں میں تقسیم کردیں اور انہیں بھی اپنے ساتھ ان جائیدادوں کا مالک بنا لیں۔ تو اگر تم لوگ اپنے غلاموں کو اپنے ساتھ اپنی ملکیت میں شریک نہیں کرتے تو کیا اللہ تمہارے جھوٹے معبودوں کو اپنے برابر کرلے گا ؟ اور یہ جو ان لوگوں کا خیال ہے کہ ایک بڑا خدا ہے اور کچھ چھوٹے چھوٹے خدا ہیں اور یہ چھوٹے خدا بڑے خدا سے ان کی سفارش کریں گے تو کیا اللہ پر ان میں سے کسی کی دھونس چل سکے گی یا اللہ ان میں سے کسی کو یہ اختیار دے گا کہ وہ اس سے اپنی کوئی بات منوالے ؟

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ

📘 آیت 72 وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًاعربی میں ”زوج“ شریک حیات spouse کو کہتے ہیں اور یہ لفظ بیوی اور خاوند دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عورت کے لیے مرد زوج ہے اور مرد کے لیے عورت۔اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ هُمْ يَكْفُرُوْنَ یعنی کفران نعمت کرتے ہیں۔ یہاں یہ اہم بات لائق توجہ ہے کہ اس سورة میں اللہ کی نعمتوں کا ذکر بہت تکرار کے ساتھ آ رہا ہے۔

وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ

📘 آیت 73 وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ مشرکین عرب ایام جاہلیت میں جو تلبیہ پڑھتے تھے اس میں توحید کے اقرار کے ساتھ ساتھ شرک کا اثبات بھی موجود تھا۔ ان کا تلبیہ یہ تھا : لبّیک اللّٰھُم لبّیک ‘ لبّیک لَا شَرِیْکَ لَک لبّیک ‘ اِلَّا شَرِیْکًا تَملِکُہُ وَمَا مَلَک یعنی میں حاضر ہوں اے اللہ ! میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں ‘ تیرا کوئی شریک نہیں ہے ‘ میں حاضر ہوں۔ سوائے اس شریک کے کہ اس کا اور جو کچھ اس کا اختیار ہے سب کا مالک تو ہی ہے۔ یعنی بالآخر اختیار تیرا ہی ہے اور تیرا کوئی شریک تجھ سے آزاد ہو کر خود مختار autonomous نہیں ہے۔ چناچہ جس طرح عیسائیوں نے توحید کو تثلیث میں بدلا اور پھر تثلیث کو توحید میں لے آئے One in three and three in One اسی طرح مشرکین عرب بھی توحید میں شرک پیدا کرتے اور پھر شرک کو توحید میں لوٹا دیتے تھے۔

فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 74 فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ قبل ازیں اسی سورت آیت 60 میں ہم پڑھ چکے ہیں : وَلِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی ”اور اللہ کی مثال سب سے بلند ہے“ لیکن اس کا ترجمہ بالعموم یوں کیا جاتا ہے : ”اللہ کی صفت بہت بلند ہے“۔ یا ”اللہ کی شان بہت بلند ہے“۔ اس لیے کہ اللہ کے لیے کوئی مثال بیان نہیں کی جاسکتی۔ انسانی سطح پر بات سمجھنے اور سمجھانے کے لیے کچھ نہ کچھ تمثیلی الفاظ تو استعمال کرنے پڑتے ہیں ‘ مثلاً اللہ کا چہرہ اللہ کا ہاتھ اللہ کا تخت اللہ کی کرسی اللہ کا عرش وغیرہ ‘ لیکن ایسے الفاظ سے ہم نہ تو حقیقت کا اظہار کرسکتے ہیں اور نہ ہی اللہ کی صفات اور اس کے افعال کی حقیقت کو جان سکتے ہیں۔ اسی لیے منع کردیا گیا ہے کہ اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کیا کرو۔ اس کی منطقی وجہ یہ ہے کہ ہم اگر اس ہستی کے لیے کوئی مثال لائیں گے تو عالم خلق سے لائیں گے جس کی ہرچیز محدود ہے۔ یا پھر ایسی کوئی مثال ہم اپنے ذہن سے لائیں گے ‘ جبکہ انسانی سوچ ‘ قوت متخیلہ اور تصورات بھی سب محدود ہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ذات مطلق Absolute ہے اور اس کی صفات بھی مطلق ہیں۔ چناچہ انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسی مطلق ہستی کے لیے کوئی مثال بیان کرسکے۔ اسی لیے سورة الشوریٰ کی آیت 11 میں دو ٹوک انداز میں فرما دیا گیا : لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ کہ اس کی مثال کی سی بھی کوئی شے موجود نہیں۔

۞ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا عَبْدًا مَمْلُوكًا لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَمَنْ رَزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا ۖ هَلْ يَسْتَوُونَ ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 75 ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ اللہ تعالیٰ ان کے شرک کی نفی کے لیے یہ مثال بیان کر رہا ہے کہ ایک بندہ وہ ہے جو کسی کا غلام اور مملوک ہے ‘ اس کا کچھ اختیار نہیں ‘ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔وَّمَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَـنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّجَهْرًارزق میں مال علم اور صلاحیتیں سب شامل ہیں۔ یعنی وہ شخص مال بھی خرچ کر رہا ہے ‘ لوگوں کو تعلیم بھی دے رہا ہے ‘ اور کئی دوسرے طریقوں سے بھی لوگوں کو مستفید کر رہا ہے۔ هَلْ يَسْتَوٗنَ ۭ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ایک طرف اللہ کا وہ بندہ ہے جو اس کے دین کی خدمت میں مصروف ہے ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض سر انجام دے رہا ہے ‘ لوگوں میں دین کی تعلیم کو عام کر رہا ہے ‘ یا اگر صاحب ثروت ہے تو اپنا مال اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے خرچ کر رہا ہے اور محتاجوں کی مدد کر رہا ہے۔ جب کہ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جس کے پاس کچھ اختیار وقدرت نہیں ہے ‘ وہ اپنی مرضی سے کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ تو یہ دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّهْهُ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 اَيْنَـمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْرٍ ایک شخص کے دو غلام ہیں۔ ایک غلام گونگا ہے کسی کام کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتا الٹا اپنے مالک پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ کام وغیرہ کچھ نہیں کرتا ‘ صرف روٹیاں توڑتا ہے۔ اگر اس کا آقا اسے کسی کام سے بھیج دے تو وہ کام خراب کر کے ہی آتا ہے۔ هَلْ يَسْتَوِيْ هُوَ ۙ وَمَنْ يَّاْمُرُ بالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک شخص کے دو غلاموں کے حوالے سے دو طرح کے انسانوں کی مثال بیان فرمائی ہے کہ سب انسان میرے غلام ہیں۔ لیکن میرے ان غلاموں کی ایک قسم وہ ہے جو میری نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں مگر میرا کوئی کام نہیں کرتے میرے دین کی کچھ خدمت نہیں کرتے میری مخلوق کے کسی کام نہیں آتے۔ یہ لوگ اس غلام کی مانند ہیں جو اپنے آقا پر بوجھ ہیں۔ دوسری طرف میرے وہ بندے اور غلام ہیں جو دن رات میری رضا جوئی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں نیکی کا حکم دے رہے ہیں اور برائی سے روک رہے ہیں میرے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں وہ اپنے تن من اور دھن کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ تو کیا یہ دونوں طرح کے انسان برابر ہوسکتے ہیں ؟

وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 اَيْنَـمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْرٍ ایک شخص کے دو غلام ہیں۔ ایک غلام گونگا ہے کسی کام کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتا الٹا اپنے مالک پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ کام وغیرہ کچھ نہیں کرتا ‘ صرف روٹیاں توڑتا ہے۔ اگر اس کا آقا اسے کسی کام سے بھیج دے تو وہ کام خراب کر کے ہی آتا ہے۔ هَلْ يَسْتَوِيْ هُوَ ۙ وَمَنْ يَّاْمُرُ بالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک شخص کے دو غلاموں کے حوالے سے دو طرح کے انسانوں کی مثال بیان فرمائی ہے کہ سب انسان میرے غلام ہیں۔ لیکن میرے ان غلاموں کی ایک قسم وہ ہے جو میری نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں مگر میرا کوئی کام نہیں کرتے میرے دین کی کچھ خدمت نہیں کرتے میری مخلوق کے کسی کام نہیں آتے۔ یہ لوگ اس غلام کی مانند ہیں جو اپنے آقا پر بوجھ ہیں۔ دوسری طرف میرے وہ بندے اور غلام ہیں جو دن رات میری رضا جوئی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں نیکی کا حکم دے رہے ہیں اور برائی سے روک رہے ہیں میرے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں وہ اپنے تن من اور دھن کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ تو کیا یہ دونوں طرح کے انسان برابر ہوسکتے ہیں ؟

وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

📘 آیت 78 وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـانوزائیدہ بچہ عقل و شعور اور سمجھ بوجھ سے بالکل عاری ہوتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کا بچہ تمام حیوانات کے بچوں سے زیادہ کمزور اور زیادہ محتاج dependent ہوتا ہے۔وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ وَالْاَفْــِٕدَةَ کا ترجمہ عام طور پر ”دل“ کیا جاتا ہے ‘ مگر میرے نزدیک اس سے مراد عقل اور شعور ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو ان شاء اللہ سورة بنی اسرائیل کی آیت اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً کے ضمن میں ہوگی۔ آیت زیر نظر میں کانوں اور آنکھوں کا ذکر انسانی حواس senses کے طور پر ہوا ہے اور ان حواس کا تعلق عقل وَالْاَفْــِٕدَةَ کے ساتھ وہی ہے جو کمپیوٹر کے input devices کا اس کے پراسیسنگ یونٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس طرح کمپیوٹر کا پراسیسنگ یونٹ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات data کو پر اسس کر کے اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے اسی طرح حواس خمسہ سے حاصل ہونے والی معلومات سے انسانی دماغ سوچ بچار کر کے کوئی نتیجہ نکالتا ہے۔ انسان کی اسی صلاحیت کو ہم عقل کہتے ہیں اور میرے نزدیک والْاَفْــِٕدَةَ سے مراد انسان کی یہی عقل ہے۔لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ یہ تمام صلاحیتیں انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں اور اللہ نے یہ نعمتیں انسان کو اس لیے عطا کی ہیں کہ وہ ان پر اللہ کا شکر ادا کرے ‘ اور اس سلسلے میں اللہ کے شکر کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان نعمتوں کا استعمال درست طور پر کرے اور ان سے کوئی ایسا کام نہ لے جس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔

أَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 79 اَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِيْ جَوِّ السَّمَاۗءِ ۭ مَا يُمْسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے قانون کے مطابق یہ پرندے فضا میں تیر رہے ہیں۔

وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 8 وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً ان مویشیوں سے انسان کو بہت سے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں اور یہ اس کے لیے باعث زیب وزینت بھی ہیں۔ خصوصی طور پر گھوڑا بہت حسین اور قیمتی جانور ہے اور اس کا مالک اسے اپنے لیے باعث فخر و تمکنت سمجھتا ہے۔وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ یعنی یہ تو چند وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں تم لوگ جانتے ہو مگر اللہ تعالیٰ تو بیشمار ایسی چیزیں بھی تخلیق فرماتا ہے جن کے بارے میں تمہیں کچھ بھی علم نہیں۔

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ ۙ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِينٍ

📘 وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُيُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ اِقَامَتِكُمْ جانوروں کی کھالوں سے بنائے گئے خیمے بہت ہلکے پھلکے ہوتے ہیں۔ چناچہ دوران سفر بھی انہیں اٹھانا آسان ہوتا ہے اور اسی طرح جب اور جہاں چاہیں انہیں آسانی سے گاڑ کر آرام دہ قیام گاہ بنائی جاسکتی ہے۔وَمِنْ اَصْوَافِهَا وَاَوْبَارِهَا وَاَشْعَارِهَآ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ قبل ازیں آیت 5 میں جانوروں کے بالوں کی افادیت کے حوالے سے ”دِفْ ءٌ“ کا لفظ استعمال ہوا تھا ‘ جس میں سردی کی شدت سے بچنے کے لیے کپڑا تیار کرنے کی طرف اشارہ تھا۔ یہاں اس سلسلے میں وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ مختلف جانوروں کی اون اور ان کے بالوں کی صورت میں اللہ نے تمہارے لیے قدرتی ریشہ fiber پیدا کردیا ہے جس سے تم لوگ کپڑے بنتے ہو اور دوسری بہت سی مفید اشیاء بناتے ہو۔ ایک مدت تک انسان کے پاس کپڑا بنانے کے لیے جانوروں سے حاصل ہونے والے اس ریشے کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی۔ کپاس کی دریافت بہت بعد میں ہوئی۔ موجودہ زمانے میں اس مقصد کے لیے اگرچہ مصنوعی ریشے کی رنگا رنگ اقسام موجود ہیں مگر اس قدرتی ریشے کی اہمیت و افادیت سے آج بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ

📘 آیت 81 وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًااللہ نے درختوں اور بہت سی دوسری چیزوں سے سائے کا نظام وضع فرمایا ہے جو انسانی زندگی کے لیے بہت مفید ہے۔وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًاپہاڑوں کے اندر قدرتی غاریں پائی جاتی ہیں جن میں لوگ طوفانی ہواؤں وغیرہ کی شدت سے بچنے کے لیے پناہ لے سکتے ہیں۔ پرانے زمانے میں تو اس حوالے سے ان غاروں کی بہت اہمیت تھی۔كَذٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ جیسا کہ قبل ازیں بھی اشارہ کیا گیا ہے اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ذکر کی تکرار بہت زیادہ ہے۔ مزید ملاحظہ ہوں آیات 18 ‘ 35 ‘ 71 ‘ 72 ‘ 83 اور 114۔

فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

📘 آیت 81 وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًااللہ نے درختوں اور بہت سی دوسری چیزوں سے سائے کا نظام وضع فرمایا ہے جو انسانی زندگی کے لیے بہت مفید ہے۔وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًاپہاڑوں کے اندر قدرتی غاریں پائی جاتی ہیں جن میں لوگ طوفانی ہواؤں وغیرہ کی شدت سے بچنے کے لیے پناہ لے سکتے ہیں۔ پرانے زمانے میں تو اس حوالے سے ان غاروں کی بہت اہمیت تھی۔كَذٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ جیسا کہ قبل ازیں بھی اشارہ کیا گیا ہے اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ذکر کی تکرار بہت زیادہ ہے۔ مزید ملاحظہ ہوں آیات 18 ‘ 35 ‘ 71 ‘ 72 ‘ 83 اور 114۔

يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ

📘 آیت 81 وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًااللہ نے درختوں اور بہت سی دوسری چیزوں سے سائے کا نظام وضع فرمایا ہے جو انسانی زندگی کے لیے بہت مفید ہے۔وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًاپہاڑوں کے اندر قدرتی غاریں پائی جاتی ہیں جن میں لوگ طوفانی ہواؤں وغیرہ کی شدت سے بچنے کے لیے پناہ لے سکتے ہیں۔ پرانے زمانے میں تو اس حوالے سے ان غاروں کی بہت اہمیت تھی۔كَذٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ جیسا کہ قبل ازیں بھی اشارہ کیا گیا ہے اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ذکر کی تکرار بہت زیادہ ہے۔ مزید ملاحظہ ہوں آیات 18 ‘ 35 ‘ 71 ‘ 72 ‘ 83 اور 114۔

وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ

📘 آیت 84 وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًاشہادتِ حق کا یہ مضمون اس سورت میں دو مرتبہ مزید ملاحظہ ہو آیت 89 آیا ہے۔ جبکہ قبل ازیں سورة البقرۃ کی آیت 143 اور سورة النساء کی آیت 41 میں بھی اس کا ذکر ہے۔ آیت زیر نظر میں ہر امت میں سے جس گواہ کا ذکر ہے وہ اس امت کا نبی یا رسول ہوگا۔ جیسا کہ سورة الاعراف میں فرمایا گیا : فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ ”ہم ضرور پوچھیں گے ان سے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور ہم رسولوں سے بھی پوچھیں گے“۔ روز محشر ہر امت کی پیشی کے وقت اس امت کا رسول عدالت کے سرکاری گواہ prosecution witness کی حیثیت سے گواہی دے گا کہ اے اللہ ! تیری طرف سے جو پیغام مجھے اس قوم کے لیے ملا تھا وہ میں نے بےکم وکاست ان تک پہنچا دیا تھا۔ اب یہ لوگ جو ابدہ ہیں ‘ ان سے محاسبہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح تمام انبیاء و رسل اپنی اپنی امت کے خلاف گواہی دیں گے۔ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ اس وقت انہیں ایسا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا کہ وہ عذر تراش کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرسکیں۔

وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ

📘 آیت 84 وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًاشہادتِ حق کا یہ مضمون اس سورت میں دو مرتبہ مزید ملاحظہ ہو آیت 89 آیا ہے۔ جبکہ قبل ازیں سورة البقرۃ کی آیت 143 اور سورة النساء کی آیت 41 میں بھی اس کا ذکر ہے۔ آیت زیر نظر میں ہر امت میں سے جس گواہ کا ذکر ہے وہ اس امت کا نبی یا رسول ہوگا۔ جیسا کہ سورة الاعراف میں فرمایا گیا : فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ ”ہم ضرور پوچھیں گے ان سے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور ہم رسولوں سے بھی پوچھیں گے“۔ روز محشر ہر امت کی پیشی کے وقت اس امت کا رسول عدالت کے سرکاری گواہ prosecution witness کی حیثیت سے گواہی دے گا کہ اے اللہ ! تیری طرف سے جو پیغام مجھے اس قوم کے لیے ملا تھا وہ میں نے بےکم وکاست ان تک پہنچا دیا تھا۔ اب یہ لوگ جو ابدہ ہیں ‘ ان سے محاسبہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح تمام انبیاء و رسل اپنی اپنی امت کے خلاف گواہی دیں گے۔ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ اس وقت انہیں ایسا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا کہ وہ عذر تراش کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرسکیں۔

وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ أَشْرَكُوا شُرَكَاءَهُمْ قَالُوا رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ شُرَكَاؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُو مِنْ دُونِكَ ۖ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ

📘 فَاَلْقَوْا اِلَيْهِمُ الْقَوْلَ اِنَّكُمْ لَكٰذِبُوْنَ شرک کا ارتکاب کرنے والے یہ لوگ محشر میں جب ان مقدس ہستیوں کو دیکھیں گے جن کے نام کی وہ دنیا میں دہائی دیا کرتے تھے تو پکار اٹھیں گے کہ اے اللہ ! یہ ہیں وہ ہستیاں جنہیں ہم پکارا کرتے تھے آپ کو چھوڑ کر۔ مثلاً حضرت عبدالقادر جیلانی کے نام کی دہائی دینے والے جب وہاں آپ کو بلند مراتب پر فائز دیکھیں گے تو آپ کو پہچان کر ایسے کہیں گے۔ اور حضرت عیسیٰ کو اللہ کا شریک ٹھہرانے والے جب آپ کو دیکھیں گے تو پکار اٹھیں گے کہ یہ ہیں عیسیٰ ابن مریم جنہیں ہم اللہ کا چہیتا بیٹا سمجھتے تھے اور ہمارا عقیدہ تھا کہ وہ سولی پر چڑھ کر ہمارے تمام گناہوں کا کفارہ ادا کرچکے ہیں۔یہ تمام مقدس ہستیاں وہاں مشرکین کے مشرکانہ عقائد سے اظہارِ برأت کریں گی کہ ہمارا تم لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے کہ تم لوگ دنیا میں ہماری عبادت کیا کرتے تھے اور اللہ کے سوا ہمیں پکارا کرتے تھے۔ قبل ازیں یہ مضمون سورة یونس کی آیت 28 اور 29 میں بھی گزر چکا ہے۔

وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ ۖ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

📘 آیت 87 وَاَلْقَوْا اِلَى اللّٰهِ يَوْمَىِٕذِۨ السَّلَمَ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ایسی مقدس ہستیوں کے بارے میں جو عقائد اور نظریات انہوں نے گھڑ رکھے تھے کہ وہ انہیں عذاب سے بچا لیں گے اور اللہ کی پکڑ سے چھڑا لیں گے ‘ ایسے تمام خود ساختہ عقائد میں سے اس دن انہیں کچھ بھی یاد نہیں رہے گا اور عذاب کو دیکھ کر ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔

الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ

📘 آیت 88 اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يُفْسِدُوْنَ ان لوگوں کا عذاب بتدریج بڑھتا ہی چلا جائے گا جنہوں نے نہ صرف حق کو جھٹلایا بلکہ اس کے خلاف سازشیں کیں اور لوگوں کو ورغلا کر اللہ کے رستے سے روکتے رہے۔

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ

📘 آیت 89 وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا عَلَيْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یہ وہی الفاظ ہیں جو ہم آیت 84 میں پڑھ آئے ہیں۔ قیامت کے دن تمام رسول اپنی اپنی امت پر گواہ ہوں گے۔ سورة الاحزاب میں محمد رسول اللہ کے بارے میں اس حوالے سے فرمایا گیا : یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا ”اے نبی ! یقیناً ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر اور بلانے والا اللہ کی طرف اس کے حکم سے اور ایک روشن چراغ“۔ اسی طرح سورة المزمل میں حضور کے بارے میں فرمایا : اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا ”یقیناً ہم نے بھیجا ہے تمہاری طرف ایک رسول گواہی دینے والا تم پر جیسے ہم نے بھیجا تھا فرعون کی طرف ایک رسول۔“ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيْدًا عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ قبل ازیں ہم سورة النساء میں بھی اس سے ملتی جلتی یہ آیت پڑھ چکے ہیں : فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا ”پھر کیا حال ہوگا جب ہم لائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ اور آپ کو لائیں گے ان پر گواہ“۔ یہاں ہٰٓؤُلَآءِ کے لفظ میں قریش مکہ کی طرف اشارہ ہے جن تک حضور نے براہ راست اللہ کی دعوت پہنچا دی تھی۔ لہٰذا قیامت کے دن آپ ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ اے اللہ میں نے آپ کا پیغام بےکم وکاست ان تک پہنچا دیا تھا اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔ میں نے اس ضمن میں برس ہا برس تک ان کے درمیان ہر طرح کی مشقت اٹھائی۔ انہیں تنہائی میں فرداً فرداً بھی ملا اور علی الاعلان اجتماعی طور پر بھی ان سے مخاطب ہوا۔ میں نے اس سلسلے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا تھا۔ رسول اللہ نے اللہ کا یہ پیغام اہل عرب تک براہ راست پہنچا دیا اور باقی دنیا تک قیامت تک کے لیے یہ پیغام پہنچانے کی ذمہ داری آپ نے امت کو منتقل فرما دی۔ اب اگر امت اس فرض میں کوتاہی کرے گی تو لوگوں کی گمراہی کا وبال افراد امت پر آئے گا۔ چناچہ یہ بہت بھاری اور نازک ذمہ داری ہے جو امت مسلمہ کے افراد ہونے کے سبب ہمارے کندھوں پر آپڑی ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت 143 میں امت مسلمہ کی اس ذمہ داری کا ذکر تحویل قبلہ کے ذکر کے فوراً بعد اس طرح فرمایا گیا : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ”اسی طرح ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے“۔ اس بھاری ذمہ داری کی ادائیگی کے دوران بہت مشکل اور جان گسل مراحل کا آنا نا گزیر ہے۔ اس طرح کے مشکل مراحل سے گزرنے کا طریقہ سورة البقرۃ ہی میں آگے چل کر اس طرح واضح کیا گیا : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ”اے ِ اہل ایمان تم مدد طلب کرو نماز اور صبر کے ساتھ ‘ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔ اور پھر اس راہ میں جان کی بازی لگانے والے خوش نصیب اہل ایمان کی دلجوئی اس طرح فرمائی گئی : وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ ”اور مت کہو انہیں مردہ جو اللہ کے رستے میں قتل کردیے جائیں ‘ بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں۔“ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ یعنی حیات انسانی کے تمام مسائل کا حل قرآن میں موجود ہے۔ قرآن ان لوگوں کے لیے ہدایت ‘ رحمت اور بشارت ہے جو مسلم یعنی اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔

وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ ۚ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ

📘 آیت 9 وَعَلَي اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ یہ سیدھا راستہ توحید کا راستہ ہے۔ یہاں اس راستے کو ”قصد السبیل“ کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن میں اسے صراط مستقیم بھی کہا گیا ہے اور سوآء السبیل بھی۔ یہی ایک راستہ ہے جو انسان کو اللہ تک پہنچاتا ہے ‘ مگر بہت سے لوگ اس راستے سے بھٹک کر ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر مڑ جاتے ہیں جو انہیں گمراہی کے گڑھوں میں گرادیتی ہیں۔وَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ اللہ اگر چاہتا تو سب انسانوں کو اسی ایک سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق اور سمجھ بوجھ دے دیتا۔

۞ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

📘 يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ یہ آیت اس لحاظ سے بہت مشہور ہے کہ اکثر جمعۃ المبارک کے خطبات میں شامل کی جاتی ہے۔ یہ بہت ہی جامع آیت ہے اور اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے انداز میں تین چیزوں کا حکم دیا گیا ہے اور تین ہی چیزوں سے منع کیا گیا ہے۔ پہلا حکم عدل کا ہے اور دوسرا احسان کا۔ عدل تو یہ ہے کہ جس کا جس قدر حق ہے عین اسی قدر آپ اسے دے دیں ‘ لیکن احسان ایک ایسا عمل ہے جو عدل سے بہت اعلیٰ وارفع ہے۔ یعنی احسان یہ ہے کہ آپ کسی کو اس کے حق سے زیادہ دیں اور یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ چناچہ اللہ محسنین کو محبوب رکھتا ہے۔ تیسرا حکم قرا بت داروں کے حقوق کا خیال رکھنے کے بارے میں ہے یعنی ان سے حسن سلوک سے پیش آنا صلہ رحمی کے تقاضے پورے کرنا اور انفاق مال کے سلسلے میں ان کو ترجیح دینا۔ یہ تین احکام ان اعمال کے بارے میں ہیں جو ایک اچھے معاشرے کی بنیاد کا کام دیتے ہیں۔ جن چیزوں سے یہاں منع فرمایا گیا ہے ان میں سب سے پہلے بےحیائی ہے۔ حیا گویا انسان اور ہر برے کام کے درمیان پردہ ہے۔ جب تک یہ پردہ قائم رہتا ہے انسان عملی طور پر برائی سے بچا رہتا ہے ‘ اور جب یہ پردہ اٹھ جاتا ہے تو پھر انسان بےشرم ہو کر آزاد ہوجاتا ہے۔ پھر وہ ”بےحیا باش و ہرچہ خواہی کن !“ کا مصداق بن کر جو چاہے کرتا پھرتا ہے۔ بےحیائی کے بعد منکر سے منع کیا گیا ہے۔ منکر ہر وہ کام ہے جس کے برے ہونے پر انسان کی فطرت گواہی دے۔ تیسرا ناپسندیدہ عمل یا جذبہ البغی یعنی سرکشی ہے۔ یہ سرکشی اگر اللہ کے خلاف ہو تو بغاوت ہے اور یوں کفر ہے ‘ اور اگر یہ انسانوں کے خلاف ہو تو اسے ”عدوان“ کہا جاتا ہے یعنی ظلم اور زیادتی۔ بہرحال ان دونوں سطحوں پر یہ انتہائی ناپسندیدہ اور مذموم جذبہ ہے۔اگلی چند آیات مشکلات القرآن میں سے ہیں۔ ان کی تفسیر کے بارے میں بہت سی آراء ہیں جو سب کی سب یہاں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ میں یہاں صرف وہ رائے بیان کروں گا جس سے مجھے اتفاق ہے۔ میری رائے کے مطابق ان آیات میں روئے سخن اہل کتاب کی طرف ہے۔ مکی سورتوں میں اگرچہ اہل کتاب سے ”یٰبَنِی اِسْرَاءِیل“ یا ”یٰاَھل الکتاب“ کے الفاظ سے براہ راست خطاب نہیں کیا گیا لیکن سورة الانعام اور اس کے بعد مکی دور کے آخری سالوں میں نازل ہونے والی سورتوں میں اہل کتاب کو بالواسطہ انداز میں مخاطب کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک محمد رسول اللہ کے دعوائے نبوت کے بارے میں خبریں مدینہ پہنچ چکی تھیں اور یہود مدینہ ان خبروں کو سن کر بہت متجسسانہ انداز میں مزید معلومات کی ٹوہ میں تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو نبی آخر الزماں کو پہچان بھی چکے تھے اور وہ اس انتظار میں تھے کہ مزید معلومات سے آپ کی نبوت کی تصدیق ہوجائے تو وہ آپ پر ایمان لے آئیں۔ دوسری طرف یہود مدینہ ہی میں سے کچھ لوگوں کے دلوں میں آپ کے خلاف حسد کی آگ بھی بھڑک چکی تھی۔ اس قسم کے لوگ آپ کی مخالفت کے لیے قریش مکہ سے مسلسل رابطے میں تھے اور آپ کی آزمائش کے لیے قریش مکہ کو مختلف قسم کے سوالات بھیجتے رہتے تھے۔ ان سوالات میں ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق تو فلسطین میں آباد تھے لیکن ان کی اولاد یعنی بنی اسرائیل کے لوگ وہاں سے مصر کیسے پہنچے ؟ ان کا یہی سوال تھا جس کے جواب میں پوری سورة یوسف نازل ہوئی تھی۔ چناچہ یہ وہ معروضی صورت حال تھی جس کی وجہ سے مکی دور کی آخری سورتوں میں کہیں کہیں اہل کتاب کا ذکر بھی موجود ہے اور بالواسطہ طور پر ان سے خطاب بھی ہے۔ اس پس منظر میں میری رائے یہی ہے کہ آئندہ آیات میں روئے سخن اہل کتاب کی طرف ہے۔

وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ

📘 آیت 91 وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ یہاں بنی اسرائیل کا وہ وعدہ مراد ہے جس کی تفصیل بعد میں مدنی سورتوں میں آئی۔ مدنی سورتوں میں ان کے اس عہد کا بار بار ذکر کیا گیا ہے : وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ البقرۃ : 63۔ یہاں پر اس عہد کی تفصیل میں جائے بغیر صرف اس کا تذکرہ کردیا گیا کہ ”عاقلاں را اشارہ کافی است“۔ مقصد یہ تھا کہ بنی اسرائیل کے صاحبان علم و بصیرت بات کو سمجھنا چاہیں تو سمجھ لیں۔اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ یعنی یہ عہد تم نے اللہ کو گواہ بنا کر اور اللہ کی قسمیں کھا کر باندھا ہوا ہے۔

وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَنْ تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

📘 آیت 92 وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًادیکھو تم تو ایک مدت سے نبی آخر الزماں کے منتظر چلے آ رہے تھے اور اہل عرب کو اس حوالے سے دھمکایا بھی کرتے تھے کہ نبی آخر الزمان آنے والے ہیں جب وہ تشریف لے آئے تو ہم ان کے ساتھ مل کر تم لوگوں پر غالب آجائیں گے۔ اب جب کہ وہ نبی آگئے ہیں تو تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ تم ان کو جھٹلانے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہے ہو ! تو کیا اب تم لوگ اپنے منصوبوں اور افکار و نظریات کے تانے بانے خود اپنے ہی ہاتھوں تار تار کردینے پر تل گئے ہو ؟ کیا اس دیوانی عورت کی طرح تمہاری بھی مت ماری گئی ہے جو بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ کا تے ہوئے اپنے سوت کی تار تار ادھیڑ کے رکھ دے ؟تَتَّخِذُوْنَ اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ یعنی تم نے تو اس معاملے کو گویا دو قوموں کا تنازعہ بنا لیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی بشارت تمہاری کتاب میں موجود ہے تم آپس میں عہد و پیمان کر رہے ہو ‘ قسمیں کھا رہے ہو کہ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ تمہاری اس ہٹ دھرمی کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ تم قومی عصبیت میں مبتلا ہوچکے ہو۔ چونکہ اس آخری نبی کا تعلق بنی اسماعیل یعنی امیین سے ہے ‘ اس لیے تم لوگ نہیں چاہتے کہ بنی اسماعیل کو اب ویسی ہی فضیلت حاصل ہوجائے جو پچھلے دو ہزار سال سے تم لوگوں کو حاصل تھی۔اِنَّمَا يَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ اس میں تمہاری آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم لوگ حق پرست ہو یا نسل پرست ؟ اگر تم لوگ اس معاملے میں نسل پرستی کا ثبوت دیتے ہو تو جان لو کہ اللہ سے تمہارا کوئی تعلق نہیں اور اگر حق پرست بننا چاہتے ہو تو تمہیں سوچنا چاہیے کہ ایک مدت تک اللہ تعالیٰ نے نبوت تمہاری نسل میں رکھی اور اب اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے ایک فرد کو اس کے لیے چن لیا ہے۔ لہٰذا اسے اللہ کا فیصلہ سمجھتے ہوئے تمہیں قبول کرلینا چاہیے۔ تمہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بنی اسماعیل بھی تو آخر تمہاری ہی نسل میں سے ہیں۔ وہ بھی تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم ہی کی اولاد ہیں ‘ مگر تم لوگ ہو کہ تم نے اس معاملے کو باہمی مخاصمت اور ضد بَغْیًا بَیْنَہُمْ کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اس طرح تم لوگ اللہ کی اس آزمائش میں ناکام ہو رہے ہو۔

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِنْ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 آیت 93 وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً اللہ تعالیٰ یہ بھی کرسکتا تھا کہ پوری انسانیت کو ایک ہی امت بنا دیتا تاکہ نسلوں اور قوموں کی یہ تفریق ہی نہ ہوتی اور نہ ہی ایک امت کو معزول کر کے دوسری امت کو نوازنے کی ضرورت پیش آتی۔ پھر جس اللہ نے بخت نصر کے ہاتھوں تمہاری بربادی کے بعد حضرت عزیر کی دعوت توبہ کے ذریعے تمہاری نشأۃ ثانیہ کی تھی وہ یہ بھی کرسکتا تھا کہ ایک دفعہ پھر کسی اصلاحی تحریک کے ذریعے تمہیں اپنی ہدایت اور رحمت سے نواز دیتا۔ اس طرح آخری نبی بھی تم ہی میں آتے اور یہ قرآن بھی تم ہی کو ملتا۔ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو یہ سب کچھ ممکن تھا۔وَّلٰكِنْ يُّضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ آیت کے اس حصے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہے کہ ”وہ گمراہ کرتا ہے اسے جو گمراہی چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے اسے جو ہدایت چاہتا ہے۔“ وَلَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ یعنی اس وقت تم لوگ ایک بہت بڑے امتحان سے دو چار ہو۔ تمہارے پاس نبی آخر الزماں کے بارے میں واضح نشانیوں کے ساتھ علم آچکا ہے اور تم اللہ کی کتاب کے وارث بھی ہو۔ اس کے باوجود اگر تم نے ہمارے نبی کی تصدیق نہ کی اور آپ کو جھٹلانے پر تلے رہے تو اس بارے میں تم سے ضرور جواب طلبی ہوگی۔اب ذرا سورة البقرہ کی ان آیات کو ذہن میں تازہ کیجئے :يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ ۚ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ۔ وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ ۠ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ۔ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ”اے بنی اسرائیل ! یاد کرو تم میری وہ نعمت جو میں نے تم پر انعام کی ‘ اور پورا کرو میرا عہد ‘ میں پورا کروں گا تمہارے ساتھ کیے گئے عہد کو اور مجھ ہی سے ڈرو۔ اور ایمان لاؤ اس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے ‘ جو تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے ‘ اور مت ہوجاؤ تم ہی سب سے پہلے اس کا کفر کرنے والے ‘ اور مت بیچو میری آیات کو تھوڑی سی قیمت کے عوض اور میرا ہی تقویٰ اختیار کرو۔ اور نہ ملاؤ حق کو باطل کے ساتھ اور نہ چھپاؤ حق کو جانتے بوجھتے۔“ ان آیات کو پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سورة النحل میں جو بات اَوْفُوْا بِعَہْدِ اللّٰہِ سے شروع ہوئی ہے یہ گویا تمہید ہے اس مضمون کی جو سورة البقرۃ کی مندرجہ بالا آیات کی شکل میں مدینہ جا کر نازل ہونے والا تھا۔

وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدْتُمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

📘 آیت 94 وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوْتِهَادیکھو حقیقت یہ ہے کہ تم ہمارے نبی کو اچھی طرح پہچان چکے ہو : يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ البقرۃ : 146۔ اب اس حالت میں اگر تم پھسلو گے تو یاد رکھو سیدھے جہنم کی آگ میں جا کر گرو گے : فَانْهَارَ بِهٖ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ التوبۃ : 109وَتَذُوْقُوا السُّوْۗءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌتمہیں تو چاہیے تھا کہ سب سے پہلے کھڑے ہو کر گواہی دیتے کہ ہم نے محمد کو اپنی کتاب میں دی گئی نشانیوں سے ٹھیک ٹھیک پہچان لیا ہے ‘ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ اور تمہیں نصیحت بھی کی گئی تھی : وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ البقرۃ : 41 ”اور تم اس کے پہلے منکر نہ بن جانا“۔ اس سب کچھ کے باوجود تم لوگ اس گواہی کو چھپار ہے ہو : وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ البقرۃ : 140 ”اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس نے چھپائی وہ گواہی جو اس کے پاس ہے اللہ کی طرف سے !“

وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ إِنَّمَا عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ تمہیں دنیا کے چھوٹے چھوٹے مفادات بہت عزیز ہیں اور ان حقیر مفادات کے لیے تم لوگ اللہ کی ہدایت کو ٹھکرا رہے ہو ‘ مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر تم لوگ اس ہدایت کو قبول کرلو گے تو اللہ کے ہاں اخروی انعامات سے نوازے جاؤ گے۔ اللہ کے ہاں جنت کی دائمی نعمتیں تمہارے ان مفادات کے مقابلے میں کہیں بہتر ہیں جن کے ساتھ تم لوگ آج چمٹے ہوئے ہو۔

مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ ۖ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ ۗ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ہر نیکو کار شخص کے تمام اعمال ایک درجے کے نہیں ہوتے کوئی نیکی اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے اور کوئی نسبتاً چھوٹے درجے کی۔ مگر جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوجائیں گے ان کی اعلیٰ درجے کی نیکیوں کو سامنے رکھ کر ان کے اجر وثواب کا تعین کیا جائے گا۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 97 مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ایسے لوگ بیشک دنیا میں روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کریں مگر انہیں سکون قلب کی دولت نصیب ہوگی ان لوگوں کے دل غنی ہوں گے کیونکہ حضور کا فرمان ہے : اَلْغِنٰی غِنَی النَّفْسِ کہ اصل امیری تو دل کی امیری ہے۔ اگر انسان کا دل غنی ہے تو انسان واقعتا غنی ہے اور اگر ڈھیروں دولت پا کر بھی دل لالچ کے پھندے میں گرفتار ہے تو ایسا شخص دراصل غنی یا امیر نہیں فقیر ہے۔ چناچہ نیکو کار انسانوں کو دنیوی زندگی میں ہی غنا اور سکون قلب کی نعمت سے نوازا جائے گا کیونکہ یہ نعمت تو ثمرہ ہے اللہ کی یاد کا : اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوْبُ الرعد ”آگاہ رہو ! دل تو اللہ کے ذکر ہی سے مطمئن ہوتے ہیں“۔ ایسے لوگوں کا شمار اللہ کے دوستوں اور اولیاء میں ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ خصوصی شفقت کا معاملہ فرمایا جاتا ہے اور انہیں حزن و ملال کے سایوں سے محفوظ رکھا جاتا ہے : اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ یونس ”آگاہ رہو ! یقیناً اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“

فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

📘 آیت 98 فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ اس حکم کی رو سے قرآن کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھنا ضروری ہے۔

إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

📘 آیت 98 فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ اس حکم کی رو سے قرآن کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھنا ضروری ہے۔